الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد:
کیا آپ رب العزت کی خوشنودی کے طلب گار ہیں ؟ کیا آپ اللہ تعالیٰ سے رحمت و برکت کے طلبگار ہیں ؟ کیا آپ اپنے گناہوں کی معافی اور کفارہ چاہتے ہیں؟ کیا آپ اپنے نامہِ اعمال میں اضافہ چاہتے ہیں ؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی تمام حاجات اور نیک تمنائیں پوری ہوں ؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی تمام دعائیں قبول ہوں ؟ کیا آپ دخولِ جنت کی خواہش اور تمنا رکھتے ہیں ؟ اگر آپ واقعی یہ سب چاہتے ہیں تو شوال کے چھ روزے رکھ لیجیے۔ آپ بہت سی فضیلتوں اور برکتوں کے حق دار بنیں گے اور رب العالمین کے حکم سے اللہ کے نیک اور مقرب بندوں میں شامل ہو جائیں گے کیونکہ شوال کے چھ روزے رکھنے کی بہت سی فضیلتیں ہیں۔ درج ذیل سطور میں قارئین کے لیے ماہِ شوال اور شش روزوں کے چند فضائل پیشِ خدمت ہیں:
1۔ سنتِ نبوی ﷺ
شوال کے چھ روزے نبی کریم ﷺ کی سنتِ قولی ہے اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ
(صحیح مسلم :1164)
جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے (کے ثواب) کی طرح ہیں “
2۔ چھ روزے دو مہینوں کے برابر
شوال کے چھ روزے دو مہینوں (ساٹھ دنوں) کے روزوں کے برابر ہیں کیونکہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔ حضرت عبد اللہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَصُمْ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فإنَّ الحَسَنَةَ بعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَذلكَ مِثْلُ صِيَامِ الدَّهْرِ
(صحيح النسائي: 2391 ، صحيح مسلم.: 1159)
اور مہینے میں تین دن روزہ رکھو کیونکہ نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے اور یہ صیام الدھر (پورے سال کے روزوں) کے برابر ہے۔
3۔ حج کا مہینہ
ماہِ شوال کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ یہ حج کا مہینہ ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
أشهُرُ الحَجِّ شَوَّالٌ، وذو القَعدةِ، وعَشرٌ مِن ذي الحِجَّةِ
(تخريج شرح السنۃ لشعيب الأرناووط: 7/33: إسناده صحيح ).
حج کے مہینے شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔
4۔ پورے سال کے روزے رکھنے کا اجر
جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے سال کے روزے رکھنے کے برابر ہو گا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَن صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا من شَوَّالٍ كان كَصِيَامِ الدَّهْرِ
(صحیح مسلم :1164 )
جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی مانند ہے۔
شرحِ حدیث بزبانِ رسولِ کریم ﷺ
اس حدیث کی تشریح خود نبی کریم ﷺ نے اس طرح فرمائی ہے کہ:
مَن صَامَ سِتّةَ أَيَّام بَعد الفِطر، كَانَ تَمَام السَّنَة، مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا
(صححه الألباني في صحیح ابن ماجه: 1402، وصحيح الجامع: 6328)
ترجمہ : جس نےعید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے (یہ روزے) اس کے پورے سال کے روزے ہیں کیونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بتایا ہے کہ:
مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا
(سورۃ الأنعام: 160)
جو کوئی اللہ کے ہاں کوئی نیکی لے کر آئے گا تو اسے اس نیکی کا دس گنا ثواب ملے گا۔
اس آیت میں عموما اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام عبادات کا اجر دس گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
كتبِ احادیث میں حدیث كی تشریح میں وارد مختلف الفاظ
صحيح الترغيب كے الفاظ
جعل اللهُ الحسنةَ بعشر أمثالِها ، فشهرٌ بعشرةِ أشهرٍ ، وصيامُ ستَّةِ أيامٍ بعد الفطرِ تمامُ السَّنةِ
(صححه الألباني في صحيح الترغيب: 1007)
اللہ تعالی ایک نیکی کو دس گنا کرتا ہے لہذا رمضان المبارک کا مہینہ دس مہینوں کے برابر ہوا اور چھ دنوں کے روزے سال کو پورا کرتے ہيں۔
صحيح الترغيب میں دوسرے مقام پر وارد الفاظ
صيامُ شهرِ رمضانَ بعشْرةِ أشْهُرٍ ، وصيامُ سِتَّةِ أيامٍ بشَهرينِ ، فذلِك صيامُ السنةِ
(صححه الألباني في صحيح الترغيب: 1007)
ماہِ رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں، اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں ، اس طرح یہ پورے سال کے روزے بن جاتے ہیں”
صحیح ابنِ خزیمہ كے الفاظ
صيام شهر رمضان بعشرة أمثالها وصيام ستة أيام بشهرين فذلك صيام السنة
(صحیح ابن خزیمہ : 2/298)
رمضان المبارک کے روزے دس گنا اور شوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں تو اس طرح یہ پورے سال کے روزے ہوئے۔
سننَ الدارمی كے الفاظ
صِيَامُ شَهْرٍ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ ، وَسِتَّةِ أَيَّامٍ بَعْدَهُنَّ بِشَهْرَيْنِ، فَذَلِكَ تَمَامُ سَنَةٍ ، يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ وَسِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَهُ
(سنن الدارمي : 1762 و سندہ صحیح)
رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں ، اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں ”
اس روایت کی سند صحیح ہے۔
صحيح الجامع كے الفاظ
شهْرِ رمضانَ بِعشْرَةِ أشْهُرٍ ، و صِيامُ سِتَّةِ أيَّامٍ بَعدَهُ بِشهْرَيْنِ ، فذلِكَ صِيامُ السَّنةِ
(صححه الألبانی فی صحيح الجامع: 3851)
رمضان کا مہینہ دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ دن کے روزے دو مہینوں کے برابر ہیں ، تو یہ پورے سال کے روزے بن جاتے ہیں ”
صحیح الموارد کے الفاظ
من صام رمضانَ وسِتًّا من شوالٍ ؛ فقد صام السَّنَةَ
(صححه الألباني في صحيح الموارد: 768)
جس نے ماہِ رمضان کے روزے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے۔ تحقیق اس نے پورے سال کا روزہ رکھا ۔
مسند أحمد كے الفاظ
مَن صام رَمضانَ فشَهرٌ بعَشْرةِ أشهُرٍ، وصيامُ ستَّةِ أيَّامٍ بعدَ الفِطرِ، فذلك تَمامُ صيامِ السَّنةِ
( صححه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند : 22412)
جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے تو یہ ایک ماہ دس مہینوں کے برابر ہے اور عید الفطر کے بعد چھ روزے پورے سال کے روزے بن گئے ۔
شارحِ صحیح مسلم امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وإنما كان كصيام الدهر ، لأن الحسنة بعشر أمثالھا ، فرمضان بعشر أشھر، والستة بشھرین1
ترجمہ : شوال کے چھ روزوں کا پورا سال روزہ رکھنے کا اجر ملے گا کیونکہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔ اس حساب سے رمضان کا مہینہ دس ماہ کے قائم مقام ہوا اور شوال کے چھ روزے دو ماہ کے قائم مقام ہوئے تو گویا ایک سال مکمل ہوگیا۔ اس طرح پورا سال روزہ رکھنے کا اجر ملے گا۔
حافظ ابنِ رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صيامها من شوال يلتحق بصيام رمضان في الفضل، فيكون له أجر صيام الدهر فرضاً2
شوال کے روزے رمضان کے روزوں کی فضیلت میں شامل ہیں، اس لیے اس پر عمر بھر روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔
رب العزت کی عنایت و مہربانی
قرآن میں اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ اصول کے مطابق جو ایک نیکی لے کر آئے گا اسے دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ اب 36 کو 10 سے ضرب دیجیے تو 360 دن بنتے ہیں لہٰذا جس شخص نے 36 دن کے روزے رکھے تو اس کو پورے سال روزے رکھنے کا ثواب مل گیا تو رب العزت کی کتنی عنایت و مہربانی ہے کہ روزے سوا مہینے کے اور ثواب پورے سال کا ۔
5-سینے کی بیماریوں کا علاج
جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے اس کے سینے سے کدورت اور نفرت کا خاتمہ ہوگا۔ ایک صحابیِ رسول بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَلَا أُخْبِرُكُمْ بما يُذْهِبُ وَحَرَ الصدرِ ؟ صومُ ثلاثةِ أيامٍ مِنْ كلِّ شهرٍ
(صححه الألباني في صحيح الجامع: 2608 )
”کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جو سینےکی کدورت ختم کر دے، فرمایا : وہ ہر مہینے تین دن کے روزے ہیں“۔
حضرت عمرو بن شرجبیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
قيل للنَّبىِّ : رجلٌ يصوم الدَّهرَ ؟ فقال : وددتُ أنه لم يطعَمِ الدَّهرَ . قالوا : فثُلُثَيه ؟ قال : أكثرُ قالوا : فنصفُه ؟ قال : ” أكثرُ ” . ثم قال : ألا أخبركُم بما يُذهِبُ وحَرَ الصدرِ ؟ صومُ ثلاثةِ أيامٍ من كل شهرٍ
( صححه الألباني في صحيح الترغيب: 1036)
نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا کہ ایک آدمی ہے جو ہمیشہ روزے رکھتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں تو یہ چاہوں گا کہ وہ کبھی بھی کچھ نہ کھائے “ لوگوں نے عرض کیا : دو تہائی ایام رکھے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ” یہ بھی زیادہ ہے“، لوگوں نے عرض کیا : اور آدھا رکھے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ” یہ بھی زیادہ ہے“، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ” کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جو سینے کی کدورت و کینہ کو ختم کر دے، وہ ہر مہینے کے تین دن کے روزے ہیں“۔
ایک دیہاتی صحابی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صَومُ شهرِ الصَّبرِ ، و ثلاثةِ أيامٍ من كلِّ شهرٍ ، يُذْهِبْنَ وحَرَ الصَّدْرِ
( مسند أحمد : 23070 ، وصحيح الترغيب: 1032، حسن صحيح)
صبر کا مہینہ (ماہِ رمضان) اور ہر مہینے کے تین روزے رکھنا سینےکی کدورت دور کردیتا ہے۔
کیونکہ جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ ایسا ہے جیسے اس نے سال بھر کے روزے رکھے اور جس نے پورے سال روزے رکھے تو گویا اس نے پورا سال کھانا نہیں کھایا اور اس کے سینے اور دل کی تمام بیماریاں ختم ہو گئیں۔
وحر الصدر کا مفہوم
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَحَرَ الصدر: غِشَّه ووساوسه. وقيل: الحقد والغيظ، وقيل: العداوة، وقيل: أشد الغضب3
” وحر الصدر ” سے مراد : دھوکہ، وسوسہ، کینہ، حسد، دشمنی، منافقت، شدید قسم کا غصہ ہے۔
6۔ روزوں کی کمی و بیشی اور نقص کی دوری
شوال کے چھ روزے رکھنے کے اہم فوائد میں یہ بھی شامل ہے کہ یہ روزے رمضان المبارک میں رکھے گئے روزوں کی کمی و بیشی اور نقص کو پورا کرتے ہیں کیونکہ روزہ دار سے روزہ کی حرمت و عزت میں کمی بیشی ہو جاتی ہے اور گناہ بھی سرزد ہو جاتا ہے جو کہ اس کے روزوں کی فضیلت میں کمی کا باعث بنتا ہے اور روزِ قیامت فرائض میں پیدا شدہ نقص نوافل سے پورا کیا جائے گا جیسا کہ تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أوَّلُ ما يحاسَبُ بهِ العبدُ يومَ القيامةِ صلاتُهُ فإن أكملَها كُتِبَت لَه نافلةً فإن لم يَكن أكمَلَها قالَ اللَّهُ سبحانَهُ لملائكتِهِ انظُروا هل تجِدونَ لعبدي مِن تطَوُّعٍ فأكمِلوا بِها ما ضَيَّعَ مِن فريضتِهِ ثمَّ تؤخَذُ الأعمالُ علَى حَسْبِ ذلِكَ
(صحيح ابن ماجه: 1181)
”قیامت کے دن بندے سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہو گی، اگر اس نے نماز مکمل طریقے سے ادا کی ہو گی تو نفل نماز علیحدہ لکھی جائے گی اور اگر مکمل طریقے سے ادا نہ کی ہو گی تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا: دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس نفل نمازیں ہیں، تو ان سے فرض کی کمی کو پورا کرو، پھر باقی اعمال کا بھی اسی طرح حساب ہو گا۔
7۔ رب سے قربت اور اس کی رضا اور محبت کا حصول
شوال کے چھ روزے رکھنے کے فوائد میں سے ایک فائدہ بندے کا اپنے رب سے قربت اور اس کی رضا اور محبت کا حصول ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا :
وما يَزالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إلَيَّ بالنَّوافِلِ حتَّى أُحِبَّهُ، فإذا أحْبَبْتُهُ، كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذي يَسْمَعُ به، وبَصَرَهُ الَّذي يُبْصِرُ به، ويَدَهُ الَّتي يَبْطِشُ بها، ورِجْلَهُ الَّتي يَمْشِي بها، وإنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ،
(صحیح البخاری : 6502)
میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں۔
8۔ روزے کا اجر اللہ کے ذمے
روزہ ایسا عمل ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور وہی اس کا اجر دیتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي
(صحیح البخاري :1894، ومسلم :1151 )
ابن آدم کا ہر عمل بڑھایا جاتا ہے۔ نیکی دس گنا سے ساتھ سو گنا تک (بڑھا دی جاتی ہے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : سوائے روزے کے (کیونکہ) وہ (خالصتاً) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ وہ میری خاطر اپنی خواہش اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔
حدیث کا مفہوم
”روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا“ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ میں ریا کاری کا عمل دخل نہیں ہے جبکہ دوسرے اعمال میں ریا کاری ہو سکتی ہے کیونکہ دوسرے اعمال کا انحصار حرکات پر ہے جبکہ روزے کا انحصار صرف نیت پر ہے
دوسرا قول یہ ہے کہ دوسرے اعمال کا ثواب لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ وہ اس سے سات سو گنا تک ہو سکتا ہے لیکن روزے کا ثواب صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ اللہ تعالی ہی اس کا ثواب دے گا دوسروں کے علم میں نہیں ہے اسی لیے فرمایا : روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔
9۔ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ مخلوق
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ روزہ دار اللہ تعالیٰ کی ایسی پسندیدہ مخلوق ہے جس کے منہ کی خوشبو بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بيَدِهِ، لَخُلْفَةُ فَمِ الصَّائِمِ، أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِن رِيحِ المِسْكِ
(صحیح البخاري : 1904، و مسلم: 1151)
اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو قیامت کے دن اللہ تعالی کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوگی۔
10۔ روزے دار کے لیے جنت کا خصوصی دروازہ
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے والوں کے لیے جنت میں ایک خصوصی دروازہ تیار کر رکھا ہے جس سے روزے دار کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ فِي الجَنَّة بَابًا يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ، يدْخُلُ مِنْهُ الصَّائمونَ يومَ القِيامةِ، لاَ يدخلُ مِنْه أَحدٌ غَيرهُم، يقالُ: أَينَ الصَّائمُونَ؟ فَيقومونَ لاَ يدخلُ مِنهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فإِذا دَخَلوا أُغلِقَ فَلَم يدخلْ مِنْهُ أَحَدٌ
( صحیح البخاري :1896، ومسلم :1152)
جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہوگا، پکارا جائے گا کہ روزے دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جا سکے گا۔
11۔ ستّر سال کی مسافت جہنم سے دوری
شوال کے روزوں کی فضیلت میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی خاطر ایک دن کا روزہ رکھے گا ، اللہ اس کو جہنم سے ستر سال دور رکھے گا۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ما مِنْ عبدٍ يصومُ يوْمًا في سبِيلِ اللَّهِ إلاَّ بَاعَدَ اللَّه بِذلكَ اليَوْمِ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سبْعِين خريفًا
( صحیح البخاري : 2840 ومسلم : 1153 )
جس شخص نے بھی اللہ عزوجل کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھا، اللہ عزوجل اس دن کے بدلے اسے ستر سال کے لیے جہنم کی آگ سے دور کر دے گا“۔
12۔ سو سال کی مسافت جہنم سے دوری
شوال کے روزوں کی فضیلت میں سے ایک اور فضیلت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی خاطر ایک دن کا روزہ رکھے گا ، اللہ اس کو جہنم سے سو سال دور رکھے گا۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من صامَ يومًا في سبيلِ اللہِ عزَّ وجلَّ باعدَ اللَّهُ منهُ جَهَنَّمَ مَسيرةَ مائةِ عامٍ
(صحيح النسائي: 2253)
جو اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے جہنم کو سو سال کی مسافت کی دوری پر کر دے گا“۔
13۔ آسمان اور زمين کی مسافت جہنم سے دوری
شوال کے روزوں کی فضیلت میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ جو شخص اللہ کی خاطر ایک دن کا روزہ رکھے گا ، اللہ تعالی اس کے اور جہنم کی آگ کے درميان آسمان اور زمين کے درمیانی فاصلے کے بقدر خندق بنا دے گا ۔ ابو امامہ باہلی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
من صامَ يومًا في سبيلِ اللہِ جعلَ اللہُ بينَهُ وبينَ النَّارِ خَندقًا كما بينَ السَّماءِ والأرضِ
(صحيح الترمذي: 1624)
” جو شخص اللہ کے راستے ميں ايک دن کا روزہ رکھتا ہے، اللہ تعالی اس کے اور جہنم کی آگ کے درميان آسمان اور زمين کے درمیانی فاصلے کے بقدر خندق ڈال ديتا ہے ۔
یعنی جو محض اللہ کی رضا کے لیے روزہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے نجات دیتے ہوئے اسے جہنم سے اتنا دور کر دے گا جتنا کہ آسمان زمین سے دور ہے۔
ذرا غور کیجیے
اگر ایک دن کے نفلی روزے سے روزے دار اور جہنم کے درمیان ستّر سال، سو سال اور آسمان اور زمين کے درمیانی فاصلے کی مسافت حائل ہو جائے تو رمضان کے روزوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو کہ فرض ہے؟
14۔ جہنم کے لیے ڈھال
شوال کے روزوں کی فضیلت میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ روزہ ایسا عمل ہے جو مؤمن کو جہنم میں جانے سے بچاتا ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الصِّيام جنة من النَّار كجنة أحدكم من القتال
(صحيح ابن ماجه: 1336، وصحیح البخاری: 1894 )
روزہ ڈھال ہے جس طرح کہ لڑائی کے موقع پر تم میں سے کسی کے پاس ڈھال ہوتی ہے“
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
الصِّيامُ جُنَّةٌ، وحِصنٌ حَصينٌ مِن النَّارِ
(صححه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند: 9225)
روزہ جہنم کی آگ سے بچاؤ کے لیے ڈھال اور ایک مضبوط قلعہ ہے۔
15۔ گناہوں کا کفارہ
شوال کے روزوں کی فضیلت میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ روزہ ایساعمل ہے جو انسان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر
(صحیح البخاري :525، ومسلم : 144)
انسان کی آزمائش اس کی بیوی، اس کے مال، اس کے بچے اور پڑوسی کے معاملات میں ہوتی ہے جس کا کفارہ نماز، روزہ ، صدقہ، امر بالمعروف (نیکی کا حکم دینا) اور نہی عن المنکر (برائی سے منع کرنا) کر دیتا ہے۔
فتنہ و آزمائش سے مراد
اہل وعیال اور پڑوسی وغیرہ کے بارے میں آزمائش سے مراد روز مرہ کے معاملات ہیں۔ ان سے بھی انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل کرتا ہے یا نہیں۔
16۔ روزے دار کی سفارش
شوال کے روزوں کی فضیلت میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ روزہ ایسا عمل ہے جو قیامت کے دن روزے دار کی سفارش و شفاعت کرے گا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ الصِّيَامُ : أَيْ رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ. وَيَقُولُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ. قَالَ: فَيُشَفَّعَانِ
(صحيح الجامع: 3882)
قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کے لیے شفاعت کریں گے، روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو دن کے وقت کھانے پینے اور (دوسری) نفسانی خواہشات سے روکے رکھا، پس تو اس شخص کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو رات کے وقت جگائے رکھا، پس اس کے متعلق میری شفاعت کو قبول فرما۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پس ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
ماہِ شوال کے روزے کب رکھیں؟
شوال کے چھ روزے ابتدائے شوال، وسط یا آخر میں کبھی بھی رکھے جا سکتے ہیں لیکن حدیث کے الفاظ «ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتَّةً» سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ابتدائے شوال میں یکبارگی رکھے جائیں تو بہتر ہے۔
شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صيام ست من شوال سُنة ثابتة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ويجوز صيامها متتابعة ومتفرقة لأن الرسول صلى الله عليه وسلم أطلق صيامها ولم يذكر تتابعاً ولا تفريقا4
ترجمہ : شوال کے چھ روزے رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ثابت ہیں، ان کو مسلسل اور متفرق دونوں طرح رکھنا جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان روزوں کا مطلقاً ذکر فرمایا ہے اور اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ انہیں مسلسل رکھا جائے یا الگ الگ۔
امام ابنِ مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ مُتَفَرِّقًا فَهُوَ جَائِزٌ
(سنن ترمذي: 759)
اگر شوال کے چھ روزے الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس عظیم الشان مہینے کی فضیلتوں اور برکتوں سے خوب مالا مال فرمائے اور اس مہینے کی قدر کرنے اور اس میں خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔