با جماعت نماز: گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ

باجماعت نماز : گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ

نماز اسلام کا دوسرا رکن اور انتہائی اہم ترین فریضہ ہے ۔ کلمہ توحید کے اقرار کے بعد انسان پرعائد ہونے والا فرض نماز ہے۔ نماز ہی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے۔ قیامت کے دن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا ۔ اللہ كے فضل و كرم سے ہمیں بے شمار انعامات عطا ہوئے ہیں، ان میں سے نماز بھی ایک عظیم الشان انعام ہے، اسی طرح نمازِ باجماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں۔ اللہ پاک کے فضل و کرم سے یہ بھی ہمارے لیے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

با جماعت نماز کی اہمیت

قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اور سینکڑوں احادیث میں نبی کریم ﷺ نے نماز کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور پابندی کے ساتھ نمازِ باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ نماز میں کوتاہی اور سستی کرنے والوں کو منافقین کی صف میں شمار کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ1

ترجمہ: نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے با ادب کھڑ ے رہا کرو۔‘‘

 دوسری جگہ ارشادِ باری تعالی ہے:

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ2

ترجمہ: اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘

یہ آیات نمازِ باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح اور صریح دلائل ہیں۔ اگر مقصود صرف نماز قائم کرنا ہی ہوتا تو آیت کے آخر میں

(وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ) ’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘ کے الفاظ نہ ہوتے ، جو نمازِ باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح نص ہیں۔

میدانِ جنگ میں با جماعت نماز

اللہ تعالیٰ نے میدانِ جنگ میں بھی نمازِ باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حالتِ امن میں بالاولیٰ نمازِ باجماعت فرض ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ3 

ترجمہ: جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چائییے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو ، پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آجائے اور تمہارے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لئے رہیں۔‘‘

اگر کسی کو نمازِ باجماعت نہ ادا کرنے کی اجازت ہوتی تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کو اجازت دیتے جو میدانِ جنگ میں دشمن کے سامنے صفیں بنائے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

والذي نَفْسِي بيَدِهِ لقَدْ هَمَمْتُ أنْ آمُرَ بحَطَبٍ، فيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بالصَّلاَةِ، فيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إلى رِجَالٍ، فَأُحَرِّقَ عليهم بُيُوتَهُمْ4

ترجمہ: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میرا ارادہ ہوا کہ میں لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کے لیے اذان دینے کا، پھر کسی سے کہوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اس کے بجائے ان لوگوں کے پاس جاؤں (جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے) اور انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں ۔

نابینا شخص اور با جماعت نماز

نابینا شخص کے لیے بھی جماعت سے غیر حاضری کی اجازت نہیں ہے ۔ حضرت عبد الله ابن ام مكتوم رضی الله عنه بیان كرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا:

يا رسولَ اللَّهِ ! إنَّ المدينةَ كثيرةُ الهوامِّ والسِّباعِ. قالَ: هل تَسمعُ حيَّ على الصَّلاةِ حيَّ على الفلاحِ ؟ قالَ: نعَم. قالَ: فحيَّ هلًا. ولم يُرخِّص لَهُ5

اللہ کے رسول(ﷺ)! مدینہ میں کیڑے مکوڑے (سانپ بچھو وغیرہ) اور درندے بہت ہیں، (تو کیا میں گھر میں نماز پڑھ لیا کروں) آپ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تم «حيَّ على الصَّلاةِ»، اور «حيَّ على الفلاحِ» کی آواز سنتے ہو؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں، (سنتا ہوں) تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر تو مسجد آؤ“، اور آپ نے انہیں جماعت سے غیر حاضر رہنے کی اجازت نہیں دی۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لقد رايتنا وما يتخلف عن الصلاة، إلا منافق قد علم نفاقه، او مريض، إن كان المريض ليمشي بين رجلين، حتى يأتي الصلاة، وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، علمنا سنن الهدى، وإن من سنن الهدى الصلاة في المسجد، الذي يؤذن فيه6

ترجمہ: ہم نے ایسے وقت بھی دیکھے ہیں جب صرف وہی شخص نماز سے پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق معلوم ہوتا یا بیمار ہو۔ اور (بسا اوقات) بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے سے چل کر آ جاتا یہاں تک کہ نماز میں شامل ہو جاتا۔ انھوں نے مزید کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ہدایت کے طریقوں کی تعلیم دی اور ہدایت کے طریقوں میں سے ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی ہے جس میں اذان دی جاتی ہو۔

لہذا کسی مسلمان کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نماز جیسے عظیم الشان اور اہم ترین فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی یا سستی کرے۔

نمازِ با جماعت گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ

اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان پر بہت بڑا احسان کیا کہ انسان سے سرزد ہونے والے گناہوں کی معافی کے لیے ایسے نیک اعمال کی کی ترغیب دلائی ہے کہ جس کے کرنے سےانسان کے زندگی بھر کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ لہذا ایک مسلمان کے لئے اپنی زندگی میں اللہ تعالی کی مغفرت اور رحمت کےحصول کے ذرائع اور اسباب اختیار کرنا نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ اصل محروم تو وہی ہے جو ایمان اور اللہ کی مغفرت و رحمت سے محروم رہ گیا۔ اور جو گناہوں کی مغفرت اور برائیوں کے کفارے کے اسباب اپنانے سے محروم رہا وہ بھی محروم ہے۔ درج ذیل سطور میں با جماعت نماز اور گناہوں کی مغفرت کے عنوان پر چند احادیث پیش کی جا رہی ہیں تاکہ مسلمانوں کو باجماعت نماز ادا کرنے میں رغبت و دلچسپی ہو اور باجماعت نماز میں کوتاہی کرنے والوں کو تنبیہ ہو۔

1۔  وضو اور نماز کی تیاری

وضو کرکے نماز کی تیاری کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الوُضُوءَ خَرَجَتْ خَطاياهُ مِنْ جَسَدِهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفارِهِ7

ترجمہ: جس نے وضو کیا اور خوب اچھی طرح وضو کیا، تو اس کے جسم سے اس کے گناہ خارج ہو جاتے ہیں حتی کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں۔“

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے:

لَا يَتَوَضَّأُ رَجُلٌ يُحْسِنُ وُضُوءَهُ، ويُصَلِّي الصَّلَاةَ، إلَّا غُفِرَ له ما بيْنَهُ وبيْنَ الصَّلَاةِ حتَّى يُصَلِّيَهَا8

ترجمہ: ”جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر نماز پڑھے، تو اس کے اس نماز سے لے کر دوسری نماز پڑھنے تک کے دوران ہونے والے گناہ بخش دئیے جائیں گے“۔

2۔ با جماعت نماز كا اہتمام كرنا

جماعت کے ساتھ نماز کی پابندی  کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

‏‏‏‏‏‏ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَوَضَّأْتَ حِينَ أَقْبَلْتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ صَلَّيْتَ مَعَنَا حِينَ صَلَّيْنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى قَدْ عَفَا عَنْكَ9

ترجمہ: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول (ﷺ)! میں حد (سزا) کا مرتکب ہوگیا ہوں۔ مجھ پر حد قائم فرمائیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا بھلا تو نے آتے وقت وضو کیا تھا؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تو نے ہمارے ساتھ مل کر نماز پڑھی ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ جاؤ اللہ نے تجھے معاف کر دیا ہے۔‘

3۔  با جماعت نماز کی نیت بھی باعثِ ثواب

باجماعت نماز کی نیت بھی باعثِ ثواب ہے ۔ یعنی کوئی شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی نیت کے ساتھ مسجد آیا لیکن پھر بھی جماعت نہ مل سکی تو اس کی نیت اور کوشش کی وجہ سے اسے جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب ملے گا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَن تَوضَّأ ، فأحسنَ الوُضوءَ ثمَّ خرجَ عامدًا إلى المسجدِ فوجدَ النَّاسَ قد صلَّوا ، كتبَ اللہُ لَه مثلَ أجرِ مَن حضرَها ، ولا ينقُصُ ذلِكَ مِن أجورِهِم شيئًا10

ترجمہ: جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر مسجد کی طرف چلا تو دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں تو اسے بھی اللہ تعالیٰ جماعت میں شریک ہونے والوں کی طرح ثواب دے گا، اس سے جماعت سے نماز ادا کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی“۔

4۔  خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا

نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما مِنَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلاةٌ مَكْتُوبَةٌ فيُحْسِنُ وُضُوءَها وخُشُوعَها ورُكُوعَها، إلَّا كانَتْ كَفَّارَةً لِما قَبْلَها مِنَ الذُّنُوبِ ما لَمْ يُؤْتِ كَبِيرَةً وذلكَ الدَّهْرَ كُلَّهُ11

ترجمہ: کوئی بھی مسلمان فرض نماز کا وقت پائے پھر وہ اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے، اچھی طرح خشوع سے اسے ادا کرے اور احسن انداز سے رکوع کرے، تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو گی جب تک وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا اور یہ عمل ہمیشہ کے لیے ہے ۔

5۔با جماعت نماز کے لئے چل کر جانا

با جماعت نماز کے لیے چل کر جانے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

مَن تَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ فأسْبَغَ الوُضُوءَ، ثُمَّ مَشَى إلى الصَّلَاةِ المَكْتُوبَةِ، فَصَلَّاهَا مع النَّاسِ، أَوْ مع الجَمَاعَةِ، أَوْ في المَسْجِدِ غَفَرَ اللہُ له ذُنُوبَهُ12

ترجمہ : جس نے نماز کے لیے وضو کیا اور وضو کی تکمیل کی، پھر فرض نماز کے لیے چل کرگیا اور لوگوں کے ساتھ یا جماعت کے ساتھ نماز ادا کی یا مسجد میں نماز پڑھی، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دے گا۔“

6۔  مسجد سے واپسی بھی کارِ ثواب

جس طرح با جماعت نماز کے لئے مسجد کی طرف چل کر جانا باعثِ مغفرت و کارِ ثواب ہے اسی طرح مسجد سے واپسی بھی باعثِ مغفرت اور کارِ ثواب ہے۔ حضرت عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَن رَاحَ إلى مَسجدِ الجماعةِ فَخُطوةٌ تَمحو سَيِّئةً ، و خُطوَةٌ تَكتَتِبُ لهُ حَسنةً ، ذاهِبًا و رَاجِعًا13

ترجمہ: جو شخص جماعت کی نماز کے لیے مسجد جاتا ہے، اس کا ایک قدم اس کا گناہ مٹاتا ہے اور دوسرا قدم اس کے لیے نیکی لکھتا ہے، یہ اجر مسجد جاتے اور مسجد سے واپس آتے دونوں وقت حاصل ہوتا ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کی وسعت کا نتیجہ ہے، اگرچہ اس (شخص) نے جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی لیكن چونكہ وہ شخص جماعت کے ساتھ نماز کی نیت سے چل کر مسجد آیا تھا تو اس کے لیے جماعت کے برابر اجر ملے گا۔ ایک مسلمان نمازی کے لئے اس سے  بڑھ کر اور کیا اعزاز  ہو سکتا ہے ۔

7۔  مسجد میں با جماعت نماز کا انتظار

مسجد میں با جماعت نماز کے لئے انتطار کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے ۔ کیونکہ زیادہ دیر بیٹھنے اور انتظار کے دوران فرشتےانتطار کرنے والے کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

صَلَاةُ الجَمِيعِ تَزِيدُ علَى صَلَاتِهِ في بَيْتِهِ، وصَلَاتِهِ في سُوقِهِ، خَمْسًا وعِشْرِينَ دَرَجَةً، فَإِنَّ أَحَدَكُم إذا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وَأَتَى المَسْجِدَ لا يُرِيدُ إلا الصلاةَ ، لَمْ يَخْطُ خُطْوَةً إلا رَفَعَهُ اللهُ بِها دَرَجَةً ، وَحَطَّ عَنْهُ خَطِيئَةً ، حَتَّى يَدْخُلَ المَسْجِدَ ، وإذا دَخَلَ المَسْجِدَ ، كان في صَلاةٍ ما كانَت تَحْبِسُه ، وَتُصَلِّي عَلَيْه المَلائِكَةُ ما دامَ في مَجْلِسِه الذي يُصَلِّي فيه : اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَه ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ ، ما لَمْ يُحْدِثْ فِيه14

ترجمہ: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا گھر کے اندر یا بازار میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے اور اس کے آداب کا لحاظ رکھے پھر مسجد میں صرف نماز کی غرض سے آئے تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ اس کا بلند کرتا ہے اور ایک گناہ اس سے معاف کرتا ہے۔ اس طرح وہ مسجد کے اندر آئے گا۔ مسجد میں آنے کے بعد جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا اسے نماز ہی کی حالت میں شمار کیا جائے گا اور جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمتِ خداوندی کی دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ! اس کو بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم کر۔ (فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں) جب تک وہ بے وضو نہ ہو جائے۔

اجر و ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا انسان

با جماعت نماز ادا کرنے والا اجر و ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا انسان ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أعظمُ الناسِ أجرًا في الصَّلاة أبعدُهم فأبعدُهم ممشًى، والذي ينتظرُ الصَّلاةَ حتى يُصلِّيَها مع الإمامِ أعظمُ أجرًا مِن الذي يُصلِّي ثم ينامُ15

ترجمہ: نماز میں ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا وہ شخص ہوتا ہے، جو (مسجد میں نماز کے لیے) زیادہ سے زیادہ دور سے آئے اور جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اور پھر امام کے ساتھ پڑھتا ہے اس شخص سے اجر میں بڑھ کر ہے جو (پہلے ہی) پڑھ کر سو جائے۔

8۔ امام کے پیچھے آمین کہنا

نمازِ جہری میں امام کے پیچھے “آمین” کہنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان كرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

إذا قال الإمامُ : (غَيْرِ المغضوبِ عَلَيْهِم ولا الضالين), فَقُولُوا : آمين ، فإنه مَنْ وافَقَ تأمينُهُ تأمينَ المَلائِكَةِ غُفِرَ لَه ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِه16

ترجمہ: جب امام «غير المغضوب عليهم ولا الضالين‏» کہے تو تم «آمين‏‏» کہو کیونکہ جس کا «آمين‏‏» کہنا ملائکہ کے «آمين‏‏» کہنے کے ساتھ ہو جائے اس کی تمام پچھلی خطائیں معاف ہو جاتی ہیں۔“

9۔ رکوع سے اٹھنے کے بعد الَّلهُم رَبَّنا لَكَ الحَمْدُ کہنا

رکوع سے اٹھنے کے بعد امام کے ساتھ ذکر میں شریک ہونے کی وجہ سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

إذا قالَ الإمامُ : سَمعَ اللَّهُ لمن حمدَهُ ، فقولوا : اللَّهمَّ ربَّنا لَكَ الحمدُ ، فإنَّهُ مَن وافقَ قولُهُ قولَ الملائِكَةِ ، غُفِرَ لَهُ ما تقدَّمَ مِن ذَنبِهِ17

ترجمہ: جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا ولك الحمد» کہو۔ کیونکہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے کے ساتھ ہوگا، اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔

10۔ نماز میں پہلی اور دوسری صف میں کھڑا ہونا

نمازِ با جماعت میں پہلی اور دوسری صف میں کھڑے ہونے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

كانَ يستغفِرُ للصَّفِّ المقدَّمِ ثلاثًا وللثَّاني مرَّةً18

رسول اللہ ﷺ اللہ تعالی سے پہلی صف والوں کے لیے تین بار اور دوسری صف والوں کے لیے ایک بار مغفرت طلب کرتے تھے ۔

رسول الله ﷺ كی دعائے مغفرت كا نتیجہ

جب ایک مؤمن مسلمان کے لیے اللہ کے رسول ﷺ بخشش طلب کریں تو اللہ تعالی اس کو ضرور بخش دیتے ہیں۔ لہذا پہلی صف میں کھڑا ہونا چاہیے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو دوسری صف میں کھڑا ہو کر بخشش کا مستحق بنانا چاہئے کیونکہ پہلی صف کی فضیلت میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِ الْأَوَّلِ19

ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ پہلی صف والوں پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے حق میں دعا کرتے ہیں ۔

11 ۔ تشہد میں مغفرت طلب کرنا

تشہد میں دعائے مغفرت مانگنے سے گناہوں کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ حضرت محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ دخلَ المسجدَ ، إذا رجلٌ قد قَضى صلاتَهُ وَهوَ يتشَهَّدُ ، فقالَ: اللَّهمَّ إنِّي أسألُكَ يا اللَّهُ بأنَّكَ الواحدُ الأحدُ الصَّمدُ ، الَّذي لم يَلِدْ ولم يولَدْ ولم يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ، أن تغفِرَ لي ذُنوبي ، إنَّكَ أنتَ الغَفورُ الرَّحيمُ ، فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ: قَد غَفرَ اللَّهُ لَهُ ، ثلاثًا20

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو ایک شخص (کو دیکھ کر) جس کی نماز ختم ہونے کے قریب تھی اور وہ  تشہد میں یہ دعا کر رہا تھا ۔ اے اللہ! بے شک میں آپ سے سوال کرتا ہوں ، اے اللہ! تو ایک ہے ، تُو بے نیاز ہے ، تُو وہ ذات ہے جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ ہی وہ جنا گیا اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ (یہ کہ) تو میرے گناہوں کو معاف کر دے ، بے شک تو بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے ۔ محجن بن ادرع کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: اس کو بخش دیا گیا ، اس کو بخش دیا گیا۔ آپ ﷺ نے یہ جملہ تین بار فرمایا۔

خلاصہ کلام

درج بالا احادیث سے یہ معلوم ہوا كہ جو مسلمان اپنے گھر میں اکیلا نماز پڑھتا ہے، اس نےجماعت چھوڑ کر کس عظیم فضیلت سے خود کو محروم کر دیا ہے اور نمازِ باجماعت کے ذریعے جو گناہوں کی مغفرت نصیب ہوتی ہے، اس سے وہ کس قدر دور ہے۔ وہ یہ بھی سوچے کہ یہ عبادت روزانہ پانچ مرتبہ دہرائی جاتی ہے۔ ہر نماز میں ان فضائل کا سلسلہ جاری رہتا ہے، کیونکہ وہ پانچ بار مسجد جاتا ہے اور سترہ رکعات پڑھتا ہے۔ تو ہفتے، مہینے اور سال میں کتنی رکعات بن جائیں گی؟ ہر رکعت میں امام کے ساتھ سورة الفاتحہ اور رکوع کے بعد ذکر میں شامل ہو کر اُس کے لیے مغفرت کا ایک نادر موقع موجود ہوتا ہے، اس كے ساتھ ساتھ وہ فرشتوں کی دعاؤں کا بھی مستحق بن سکتا ہے اور اس طرح اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ مسلسل ایسی حالت میں رہے تو ممکن ہے کہ جب وہ اللہ سے ملے تو گناہوں سے پاک ہو۔اس طرح مسلمان کے لیے مؤذن کے الفاظ “حیَّ على الفلاح” (آؤ کامیابی کی طرف) کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نبی اکرم ﷺ کے درج ذیل فرمان کا بھی مطلب سمجھ آتا ہے۔ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْرًا بِبابِ أَحَدِكُم يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ ، هَلْ يَبْقَى مِنْ دَرَنِه شَيْءٌ ؟ ، قالُوا : لا يَبَقَى مِنْ دَرَنِه شَيْءٌ ، قال : فَذلكَ مَثَلُ الصَّلَواتِ الخَمْسِ ، يَمْحُو اللهُ بِهِنَّ الخَطايا21

ترجمہ: بھلا بتاؤ تو صحیح، اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ اس نہر میں ہر دن پانچ بار نہائے تو کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل کچیل رہے گا؟ صحابہ نے کہا: اس کے جسم پر تھوڑی بھی میل نہیں رہے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہی مثال ہے پانچوں نمازوں کی، ان نمازوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔

قابلِ افسوس بات

بہت افسوس کی بات ہے کہ آج کل بہت سے مسلمان جماعت کی نماز سے غافل رہتے ہیں اور اس عظیم اجر کو ضائع کرتے ہیں۔ درحقیقت بغیر کسی عذر کے جماعت کی نماز چھوڑنا ایک گناہ ہے، بغیر عذرِ شرعی باجماعت نماز نہ پڑھنے کو منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :

مَا مِن ثَلالَةٍ فِي قَرْيَةٍ وَلَا بَدْوٍ لَا تُقَامُ فِيهِمُ الصَّلَاةُ إِلَّا قَدْ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشيطانُ، فَعَلَيْكَ بِالجَمَاعَةِ فَإِنَّمَا يَأْكُلُ الذِئْبُ القَاصِيَة22

ترجمہ: جس گاؤں یا بستی میں تین آدمی ہوں اور جماعت نہ قائم کریں تو شیطان ان پر مسلط ہو جاتا ہے لہذا جماعت کو ضروری سمجھو کیونکہ بھیڑیا بچھڑی ہوئی بکری کو کھاتا ہے۔

ہمارا فریضہ

احادیثِ مبارکہ سے نمازِ باجماعت کی اہمیت اور فوائد معلوم ہوگئے، لہذا ہمیں با جماعت نماز سے غائب اور پیچھے رہنے سے حتی الامكان بچنا چاہیے۔ خاص طور پر چھٹیوں کے ایام میں یہ بات زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جب لوگ رات بھر جاگتے ہیں اور جماعت کی نماز چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمیں اللہ سے ڈرتے ہوئے پانچ وقت کی نماز جماعت کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ مساجد میں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں اور جن لوگوں کی ذمہ داری ہم پر ہے، ان کی بھی اس بارے میں تربیت کرنی چاہیے، کیونکہ ہم ان کے بارے میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔

نیز اللہ پاک کا پیارا بننے کے لئے، درجات کی بلندی کو پانے کے لئے، جنت میں داخلے کے لئے، جہنم سے آزادی کے لئے، منافقت سے نجات پانے کے لئے، شیطان سے حفاظت کے لئے اور اسی طرح اللہ پاک کی رحمت، مغفرت اور بہت سے فوائد حاصل کرنے کے لئے نمازِ باجماعت کی پابندی کیجئے اور دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دے کر باجماعت نماز پڑھنے کی ترغیب دلایئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کونمازِ باجماعت كا پابند بنائے اور ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور ہمارے نیک اعمال کو قبول فرمائے ۔آمین۔

_________________________________________________________________________________________________________________

  1. (البقرۃ: 238)
  2. (البقرۃ: 43)
  3. (النساء: 102)
  4. (أخرجه البخاري: 2420، مسلم: 651)
  5. (صححه الألباني في صحيح النسائي: 850)
  6. (صحیح مسلم: 1487)
  7. ( صحیح مسلم : 578)
  8. (صحيح مسلم: 227)
  9. (صحیح مسلم: 2765)
  10. (صححه الألباني في صحيح النسائي: 854)
  11. ( صحيح مسلم: 228)
  12. ( صحيح مسلم: 232)
  13. (حسّنه الألباني في صحيح الترغيب: 299)
  14. (أخرجه البخاري: 477، مسلم: 649)
  15. (رواه البخاري: 651، مسلم: 662)
  16. (الترغیب والترھیب، کتاب الصلوۃ، ج: 1، ص: 130)
  17. (صححه الألباني في صحیح الترمذي: 267)
  18. (صححه الألباني في صحيح ابن ماجه: 822)
  19. (صححه الألباني في صحیح ابن ماجه: 997)
  20. (صححه الألباني في صحيح النسائي : 1300)
  21. (أخرجه البخاري: 528، مسلم: 667)
  22. (حسّنه الألباني في صحیح أبي داود: 541)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ