خیر خواہی ، دین کا بنیادی حصہ

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں وہ عزت اور کرم والا اور تمام جانداروں کو پیدا کرنے والا ہے، اس کا فضل اور نعمتیں بہت وسیع ہیں، میں اپنے رب کی معلوم اور نامعلوم نعمتوں پر اسی کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں ، اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں وہ معزز ترین اور نہایت کرم کرنے والا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، آپ کو اللہ تعالی نے جوامع الکلم سے نوازا، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد ، ان کی آل اور راہ راست پر چلنے والے صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اپناؤ اور اس کے لیے نیک اعمال کے ذریعے قرب الہی کی جستجو کرو، حرام کاموں سے بچو؛ کیونکہ متقی ہی کامیاب و کامران ہوں گے، جبکہ ہوس پرست اور کوتاہی برتنے والے نامراد ہوں گے۔

مسلمانوں!

اپنا محاسبہ خود ہی کر لو قبل ازیں کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، دلوں کو غفلت سے بیدار کرو، اپنے نفوس کو حرام کاموں اور ان کی لذت سے روکو، گناہوں سے توبہ کر لیں اس سے قبل کہ موت آئے، امیدیں بکھر جائیں اور مزید عمل کرنا ممکن نہ رہے۔

آپ سالہا سال اور ایام تیزی کے ساتھ گزرتے دیکھ رہے ہیں، اس زندگی کے بعد موت ہی ہے، اور موت کے بعد یا تو نعمتوں والی جنت ہو گی یا درد ناک عذاب۔

آپ جس طرح فانی دنیا کے لئے کد و کاوش کرتے ہیں اسی طرح دائمی آخرت کے لئے بھی محنت کریں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى

الأعلیٰ – 16/17

بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو [16] حالانکہ آخرت بہتر اور دائمی رہنے والی ہے۔

مسلمانوں!

قرآن کریم پر توجہ دیں اسی میں تمہاری عزت اور سعادت ہے، اسی سے تمہارے حالات سنور سکتے ہیں، اسی میں تمہاری موت کے بعد کامیابی ہے، فتنوں سے تحفظ بھی اسی سے ملے گا اور یہ فتنے قربِ قیامت تک بڑھتے چلے جائیں گے، یہ فتنے ایسے ہیں کہ ابتدائی طور پر واضح نہیں ہوتے، لیکن جب انتہا ہو جائے تو ان کے بارے میں آنکھیں کھل جاتی ہیں؛ چنانچہ ان فتنوں سے وہی محفوظ رہ سکے گا جو قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھام لے، اور ملت اسلامیہ کے ہم رکاب رہے، اس لیے کتاب اللہ پر غور و فکر کرو، اسی پر عمل پیرا رہو۔

رسول اللہ ﷺ کی احادیث یاد کرو تا کہ دین قائم رہے، عقیدہ صحیح رہے اور عبادات مکمل ہوں، خصوصاً ایسی احادیث پر توجہ دو جن میں فضیلت والے اسلامی اعمال کے احکام جمع ہیں، ان احادیث کا معنی اور مفہوم ان پر عمل کرنے کے لئے اچھی طرح سمجھیں، سلف صالحین کا یہی منہج ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

التوبة – 100

 مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

میں یہاں پر ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو کہ جوامع الکلم میں سے ہے، ہر حالت میں اس حدیث پر عمل ہر مسلمان مرد و زن کی ذمہ داری ہے، جسم میں جب تک روح باقی ہے اس وقت تک تمام آدمیوں اور عورتوں کے لئے اس پر عمل ضروری ہے، وہ حدیث رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ہے: (دین خیر خواہی کا نام ہے ) تو ہم نے کہا: “کن کی خیر خواہی؟” تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اللہ تعالی ، کتاب اللہ، رسول اللہ، مسلم حکمرانوں اور عوام الناس کی) اس حدیث کو امام مسلم نے تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

نیز اس حدیث کو امام مسلمؒ کے علاوہ دیگر بہت سے محدثین نے روایت کیا ہے، یہ حدیث بہت عظیم حدیث ہے۔ امام ابو داودؒ کہتے ہیں: “فقہ پانچ احادیث کا نچوڑ ہے، پہلی حدیث: (حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔۔۔) دوسری حدیث: (نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی کسی اور کو نقصان دو) تیسری حدیث: (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے) چوتھی حدیث: (دین خیر خواہی کا نام ہے) پانچویں حدیث: (جس چیز سے میں تمہیں روک دوں اس سے فوری رک جاؤ، اور جس چیز کے کرنے کا حکم دوں تو اس پر حسب استطاعت عمل کرو)”۔

محدث حافظ ابو نعیم ؒ کہتے ہیں: “یہ بہت عظیم ہے”۔

 محمد بن اسلم طوسیؒ نے ذکر کیا ہے کہ : “حدیث (دین خیر خواہی کا نام ہے ) دین کا ایک چوتھائی حصہ ہے”۔

اور اس بات کی دلیل کہ اس حدیث پر عمل ہر مسلمان مرد اور عورت پر ہر حالت میں واجب اور ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ عبادات کو بعض مکلف افراد مرد یا عورتوں سے کسی عذر یا دیگر کسی سبب کی بنا پر ساقط کر دیا لیکن خیر خواہی کو کسی حالت میں بھی ساقط نہیں فرمایا، فرمانِ باری تعالی ہے:

لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

التوبة – 91

 کمزور ،مریض اور وہ لوگ جن کے پاس انفاق فی سبیل اللہ کے لئے کچھ نہیں تو ان پر کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کریں ۔ نیکی کرنے والوں پر [اعتراض ]کا کوئی راستہ نہیں، اور اللہ درگزر کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔

 تو اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ کسی بھی مسلمان کا ایک لمحے کے لئے بھی خیر خواہی سے عاری ہونا قبول نہیں ہے۔

صحابہ کرام نے آیت میں مذکور خیر خواہی کا معنی نہیں پوچھا؛ کیونکہ انہیں دین میں خیر خواہی کے معانی کا دلالت مطابقت، دلالت تضمین و التزام ہر اعتبار سے علم تھا، تو اس خیر خواہی میں اسلام، ایمان اور احسان کے تینوں مراتب شامل ہیں، ہاں صحابہ کرام نے یہ ضرور پوچھا کہ یہ خیر خواہی کن کے لئے ہو گی؟ اور کون اس خیر خواہی کے مستحق ہوں گے؟

عربی زبان میں “النصيحة” [خیر خواہی]نصح سے ہے، جو کہ کسی بھی چیز کو ملاوٹ، مٹی اور غیر متعلقہ چیز سے صاف کرنے کو کہتے ہیں، چنانچہ: “نَصَحَ العَسْلُ” اس وقت کہا جاتا ہے جب شہد کو موم سے صاف ستھرا کر لیا جائے۔

اس حدیث میں اللہ تعالی کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ سے محبت ہو، اللہ کے سامنے عاجزی اور انکساری ہو، شریعت الہی کے سامنے مکمل سرنگوں ہو کر تابعداری اس لیے ہو کہ اللہ کی رضا اور ثواب ملے، اللہ کے غضب اور عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کی اطاعت کریں، فرمان باری تعالی ہے:

إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (15) تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ

السجدة – 15/16

 ہماری آیات پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب انہیں ان کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انہیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

اسی طرح فرمایا:

وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ

البقرة – 165

اور ایمان لانے والوں کی اللہ تعالی سے محبت شدید ترین ہوتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ سے بھر پور دلی محبت کرو ؛ کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلاتا پلاتا ہے۔)

اللہ تعالی کی عظیم ترین خیر خواہی یہ ہے کہ صرف اسی کی بندگی اور عبادت کی جائے، اخلاص، سنت نبوی، اور طریقہ نبوی ﷺ کے مطابق عبادت کریں، ہر قسم کی عبادت صرف اللہ تعالی کے لئے بجا لائیں۔ دعا، مدد طلبی ،استغاثہ اور توکل اللہ پر ہی کریں ، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا

الجن – 20

آپ کہہ دیں: میں تو اپنے پروردگار کو ہی پکارتا ہوں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔

اللہ تعالی کی بندگی اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ صفاتِ کمال اور جلال کا مالک ہے، وہ ہمہ قسم کے نقائص اور عیوب سے پاکیزہ اور منزہ ہے، ساری مخلوقات پر اسی کی نعمتیں ہیں، سب لوگ اسی کی رحمت کے سوالی ہیں، اس لیے اللہ کی عبادت اللہ تعالی سے خیرات ملنے کا باعث ہے۔ اللہ کی بندگی؛ زندگی میں اور زندگی کے بعد بلائیں ٹالنے کا باعث ہے۔ اللہ تعالی کی خیر خواہی یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے لیے ثابت کیا ہے اور جو کچھ اسما و صفات رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالی کے لئے ثابت قرار دی ہیں انہیں اسی انداز سے ثابت مانا جائے جیسے سلف صالحین نے مانا تھا۔

ابو امامہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: (میری خیر خواہی؛ بندے کی میرے ہاں محبوب ترین عبادت ہے) اس حدیث کو امام احمد نے اور طبرانی نے ا لکبیر میں روایت کیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: آپ سے محبت ہو، آپ کا احترام کیا جائے، آپ کی سنت کی تعظیم ہو اور آپ کے احکامات کی تعمیل کریں، آپ کے منع کردہ کاموں سے بچیں، آپ کی شریعت کے مطابق اللہ کی عبادت کریں، آپ کی سیرت کو اپنائیں، آپ کی احادیث کی تصدیق کریں، ان احادیث کو آگے پھیلائیں، دین محمدی کی جانب لوگوں کو دعوت دیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا

النور – 54

کہہ دو: اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو، لیکن اگر تم پھر جاؤ تو رسول کے ذمے صرف وہ ہے جس کا وہ مکلف بنایا گیا ہے اور تمہارے ذمے وہ جس کے تم مکلف بنائے گئے اور اگر اس کا حکم مانو گے تو ہدایت پا جاؤ گے۔

کتاب اللہ کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: قرآن کریم کی تعظیم کریں، قرآن سے محبت کریں، اسے سیکھنے ، سکھانے اور قرآنی احکام سمجھنے کی پوری کوشش کریں، قرآن کریم کی صحیح انداز سے تلاوت کریں، قرآن کے احکامات کی تعمیل کریں اور ممنوعہ امور سے اجتناب کریں، پابندی سے قرآن کریم کی تلاوت کریں، قرآن کے حروف اور حدود کو یاد رکھیں، قرآن کریم کی تفسیر، معنی اور مراد کی معرفت حاصل کریں، قرآن کریم پر تدبر کریں، اپنا اخلاق قرآن کے مطابق بنائیں، قرآن و سنت کے فہم میں غلطی کھانے والوں کو جواب دیں، ان کی باطل باتوں کا رد کریں اور ان سے خبردار کریں۔ فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ

الأسراء – 9

 بیشک یہ قرآن اسی کی رہنمائی کرتا ہے جو انتہائی مضبوط راستہ ہے۔

مسلم حکمرانوں کے لئے خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: حکمرانوں کے لئے خیر پسند کریں، ان کے عدل کو پسند کریں، ان کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کریں، انہیں دھوکا نہ دیں، ان کے ساتھ خیانت نہ کریں، ان کے خلاف بغاوت نہ کریں، ان کے خلاف مظاہرے نہ کریں۔ حق بات پر ان کے ساتھ تعاون کریں، گناہوں کے علاوہ ہر کام میں ان کی اطاعت کریں، ان کی کامیابی اور فیصلوں میں درستگی کی دعا کریں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی تم سے تین چیزوں کو پسند کرتا ہے کہ: تم اسی کی عبادت کرو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ، سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہوں میں مت بٹو، اور جس کو اللہ تعالی نے تم پر حاکم بنایا ہے اس کی خیر خواہی کرو) اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “اجتماعیت میں جو چیز تمہیں ناگوار ہے، وہ اختلاف میں تمہاری چاہت سے بہتر ہے۔”

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے خیف مقام پر اپنے خطاب میں فرمایا تھا: (تین چیزوں کے بارے میں کسی مسلمان کا دل کمی نہیں کرتا: عمل کرتے ہوئے اللہ کے لئے اخلاص، حکمرانوں کی خیر خواہی، اور ملت اسلامیہ کا التزام) اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جس بندے کو اللہ تعالی رعایا کا حکمران بنائے اور وہ رعایا کی خیر خواہی نہ کرے تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا) اس حدیث کو بخاری ، مسلم، اور احمد نے روایت کیا ہے۔

مسلمان عامۃ الناس کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: عوام الناس کو ان کے فائدے کی باتیں بتلائیں، انہیں دین سکھلائیں، ان کی عیب پوشی کریں، ان کی ضروریات پوری کریں، انہیں دھوکا مت دیں، خیانت سے کام مت لیں، ان سے حسد مت کریں، ان کی طرف سے ملنے والی تکلیف پر صبر کریں۔

خیر خواہی انبیائے کرام اور رسولوں کی صفت ہے،  اللہ تعالی کا فرمان ہے:

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

التوبة – 128

 بلاشبہ یقیناً تمہارے پاس تمہی سے ایک رسول آیا ہے، اس پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت گراں ہے، تمہارا بہت خیال رکھنے والا ہے، مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔

اسی طرح نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنْصَحُ لَكُمْ

الأعراف – 62

 میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں۔

ھود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ

الأعراف – 68

 میں تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارے لیے ایک امانت دار، خیر خواہ ہوں۔

ایسے ہی صالح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ

الأعراف – 79

بلاشبہ یقیناً میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی۔

خیر خواہی مومنین کی صفات میں بھی شامل ہے، سورت یاسین میں مذکور مومن کی دعوت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:

يَاقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ

یٰس – 20

 میری قوم! تم رسولوں کی اتباع کرو۔

 اور پھر اس کی وفات کے بعد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَالَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ (26) بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ

یٰس – 26/27

اسے کہا گیا جنت میں داخل ہو جا۔ اس نے کہا اے کاش! میری قوم جان لے۔  [26] اس بات کو کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے معزز لوگوں میں سے بنا دیا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: “اس مومن شخص نے اپنی قوم کو اپنی زندگی میں بھی خیر خواہی پر مبنی دعوت دی، بلکہ وفات کے بعد بھی یہی دعوت دی”۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا

آل عمران – 103

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہوں میں مت بٹو۔

اسی طرح فرمایا:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ

الحجرات – 10

بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہی ہیں۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، وہ غیب جاننے والا ، دلوں کو پھیرنے والا، مشکل کشا اور حاجت روا ہے، میں گزشتہ و پیوستہ تمام نعمتوں پر اپنے رب کی حمد خوانی کرتا ہوں اور اسی کا شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہی گناہوں کو بخشنے والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد ﷺ اس کے بندے اور برگزیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل اور شریعت پر قائم تمام صحابہ کرام پر رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

خلوت اور جلوت میں تقوی الہی اختیار کرو ؛ تقوی کے ذریعے ہی بلند درجات حاصل کرو گے، اپنی زندگی میں اور موت کے بعد بھی کامیاب ہو جاؤ گے۔

اللہ کے بندوں!

اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور و فکر کرو:

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

التوبة – 71

 مومن مرد اور مومن عورتیں، ایک دوسرے کے دوست ہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا، بے شک اللہ سب پر غالب اور کمال حکمت والا ہے۔

اس آیت میں مسلمانوں کے باہمی تعاون، مدد، خیر خواہی، تکافل، اخوت، مودت اور شفقت کا ذکر ہے۔

سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “میں نے نبی ﷺ کی بیعت کی کہ میں: نماز قائم کروں گا، زکاۃ دوں گا، اور ہر مسلمان کی خیر خواہی چاہوں گا” اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

ابو بکر مزنی ؒ کہتے ہیں: “ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے دیگر صحابہ کرام پر نماز اور روزے کی وجہ سے امتیازی مقام نہیں رکھتے تھے، بلکہ یہ ان کے دل میں کسی چیز کی وجہ سے تھا” اس کی تفصیل میں ابن علیہؒ کہتے ہیں: “سیدنا ابو بکر کے دل میں جو چیز تھی وہ اللہ کی محبت اور خلق خدا کی خیر خواہی تھی”۔

اور جناب حکیم بن ابو یزید اپنے والد سے بیان کرتے ہیں وہ نبی ﷺ سے کہ: (جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مشورہ طلب کرے تو اسے خیر خواہی پر مبنی مشورہ دے) اس حدیث کو احمد نے اور طبرانی نے الکبیر میں روایت کیا ہے۔

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الأحزاب – 56

یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو۔

اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا) اس لئے سید الاولین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد۔

یا اللہ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ! ہدایت یافتہ اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی سے راضی ہو جا، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین! یا اللہ! تابعین اور تبع تابعین سے راضی ہو جا، یا اللہ! ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی اپنے رحم، کرم، اور فضل کے صدقے راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا فرما، یا اللہ! کفر اور کافروں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! شرک اور مشرکوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! تیرے اور دین کے دشمنوں کو تباہ و برباد فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! یا ذالجلال والا کرام! ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اگلے ، پچھلے ، خفیہ ، اعلانیہ سارے گناہ معاف فرما دے، وہ بھی معاف فرما جنہیں تو ہم سے زیادہ جانتا ہے، تو ہی تہہ و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت کے قریب کرنے والے قول اور فعل کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم جہنم کے قریب کرنے والے ہر قول اور فعل سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہم عذاب قبر اور جہنم کے عذاب سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے سب معاملات کے نتائج بہتر فرما دے، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں کہ کسی پر ظلم کریں، یا کوئی ہم پر ظلم کرے، یا اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں کہ کسی پر ظلم کریں، یا کوئی ہم پر ظلم کرے، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! مسلمان مرد و خواتین کے معاملات سنوار دے، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے مومن مرد و خواتین کے معاملات سنوار دے، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! تمام مسلمانوں کے دلوں میں الفت ڈال دے، یا اللہ! تمام مسلمانوں کے دلوں میں الفت ڈال دے، یا اللہ! جو آپس میں جھگڑے ہوئے ہیں ان کی صلح فرما دے، اور انہیں راہ  راست دکھا، یا اللہ! انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لا کھڑا فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کی تیرے دشمنوں اور ان کے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، یا اللہ! یا ذالجلال والا کرام!  ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ انہیں کامیاب فرما، اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دے، یا اللہ! انہیں حق بات پر جمع فرما دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو تیرے دین کی سمجھ عطا فرما، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! ہم تیری رضا اور جنت کے سوالی ہیں، اور تیرے غضب اور جہنم سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما۔

یا اللہ! ہمیں مہنگائی، وبائی امراض، زنا، سود، زلزلوں، برے فتنوں، ظاہری اور باطنی آزمائشوں سے محفوظ فرما۔ یا اللہ! ہمیں اور مسلمانوں کو ہر قسم کی خباثت سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں اور مسلمانوں کو ہر قسم کی خباثت سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو ابلیس، شیاطین ، شیطانی چیلوں اور لشکروں سے پناہ عطا فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ یا اللہ! ہمارے نفوس اور گناہوں کے شر سے بھی ہمیں پناہ عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمانوں کو اور ان کی اولاد کو ابلیس، شیاطین ، شیطانی چیلوں اور لشکروں سے پناہ عطا فرما، یا رب العالمین! یا ارحم الراحمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔

یا اللہ! تمام مقروض مسلمانوں کے قرضے چکا دے، یا اللہ! تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت اور معافی کا سوال کرتے ہیں، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! ہمارے ملک کی ہمہ قسم کے شر اور خرابی سے حفاظت فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔

یا اللہ! ہماری افواج کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کے اموال، گھر بار، اور ہر چیز کی حفاظت فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔

یا اللہ! اپنے بندے خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! تیری مرضی کے مطابق اس کی رہنمائی فرما، اور اس کے تمام اعمال اپنی رضا کے لیے قبول فرما، یا اللہ! انہیں صرف اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں صحت و عافیت عطا فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! انہیں صرف اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ذالجلال والا کرام! یا اللہ! ان کے ولی عہد کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! تیری مرضی کے مطابق اس کی رہنمائی فرما، اور اس کے تمام اعمال اپنی رضا کے لیے قبول فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! انہیں صرف اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرما بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! انہیں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اچھے اقدام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین! ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی بھلائی سے نواز، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النحل – 90/91

 اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔

صاحب عظمت و جلالت کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور جو تم کرتے ہو اللہ تعالی اسے جانتا ہے ۔

 ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل

مصنف/ مقرر کے بارے میں

   فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ

آپ ان دنوں مسجد نبوی کے امام ، قبل ازیں مسجد قباء کے امام تھے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوبصورت آواز میں بہترین لہجے میں قرات قرآن کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کے محبین موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ تادیر آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ۔آمین