خطابت و تقریر میں زبان و بیان کی اہمیت و ضرورت

پہلا خطبہ :

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اہل بلاغت کے سینوں سے فصاحت و بلاغت کے چشمے جاری کیے ، اور گلستان زبان و ادب کے رنگا رنگ پھول سے زبان دانوں کے دل کے گلشن کی کلیاں کھلائیں، جس سے یہ گلشن نوادارت اور عمدہ حکمتوں کے عطر بیز پودوں سے معطر ہو گئے ، کچھ پودے ایسے ہیں جن کے کئی تنے ہیں اور کچھ کے ایک سے زیادہ تنے نہیں ہیں۔

 میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جو میدانِ بلاغت کے شہسوار تھے، اس میدان میں سب پر فوقیت رکھتے تھے ، الفاظ و معانی کے دونوں باغوں کے خوب خوشہ چیں تھے، اور ان دونوں باغوں کے پھل اور خوشے آپ سے بالکل قریب تھے، آپ ﷺ منبر فصاحت کی چوٹی پر متمکن تھے اور بلاغت کے سب سے اعلی درجے پر فائز تھے۔

 اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں آپ ﷺ پر ، آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر اور خیر و بھلائی کے ساتھ آپ کے نقش پا کی پیروی کرنے والوں پر۔

حمد و صلاۃ کے بعد !

 بے شک اللہ نے مخلوقات کو جس چیز کی وصیت کی ہے ، وہ وصیتوں میں سب سے بہترین وصیت ہے، اور رب ذوالجلال سے ہیم در جا ر کھنے والے انسان کو جتنی بھی وصیتیں کی جاتی ہیں، ان میں سب سے عظیم وصیت ہے ، اللہ تعالی نے اپنی وہ وصیت یوں بیان کی ہے:

وَلقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا الله

النساء – 131

 تم سے پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی انہیں ہم نے تاکیدی حکم دیا تھا۔ اور تمہارے لیے بھی یہی حکم ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔

 تقوی اور اللہ سے ڈرنے کی یہ وصیت اس دنیا میں مومن کے لیے جنت اور آخرت میں اس کے لیے ڈھال ہے، تقوی ایسا لباس ہے جو کسی بھی عیب و برائی کو ظاہر نہیں ہونے دیتا، یہ چہرے کانور، دل کی خوشی، ناپسندیدہ امور سے بچنے کا سامان اور جنت کے درجات تک پہنچنے کا زینہ ہے۔ اے ایمان والو!بلاشبہ یہ منبر نبوی پیغام اسلام کی نشر واشاعت کا اولین مرکز اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کا نمایاں اسٹیج ہے ، اور آفتاب اسلام کی کرنیں یہیں سے پوری دنیا تک پہنچی ہیں۔ اس منبر کے افق سے نبی اکرم ﷺ کی فصاحت و بلاغت کے سورج نے ضوفشانی کی ہے، آپ ﷺ کی زبان و بیان کی خوشبو اسی باغ منبر کی کلیوں سے پھوٹ رہی ہے، اسی سر چشمے سے فصاحت کا چشمہ پھوٹا ہے اور اسی کے سنگ ریزوں کے در میان بلاغت کا پودا شجر سایہ دار بنا ہے، اس فصیح و بلیغ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

 جسے روح القدس جبریل امین کی تائید حاصل تھی
مدینہ طیبہ میں رسول اکرم ﷺکے آثار و نشانیاں چمک رہے ہیں
اور بسا اوقات آثار مٹ جاتے ہیں اور پرانے ہو جاتے ہیں
لیکن اس قابل احترام شہر سے نشانیاں مٹ نہیں سکتیں
یہاں ہادی عالم کا وہ منبر ہے جس پر جلوہ افروز ہوتے تھے
یہاں آپ کے آثار نمایاں ہیں اور نشانیاں باقی ہیں
وہ مقام بھی موجود ہے جہاں مسجد اور آپﷺ کی جائے نماز ہے
علوم و معارف زمانے کے ساتھ باقی ہیں
نشانیاں پرانی ہوتی ہیں
پھر ان کی تجدید کر دی جاتی ہے

یہیں سے نبی کریم ﷺ نے ایسے خطبے دیے کہ اہل فصاحت و بلاغت بے زبان ہو گئے ، شہسوارانِ خطابت  نے گھٹنے ٹیک دیے اور زمانہ کان لگا کر بڑے غور سے اس کلام نبوی ﷺ کو سننے لگا جس سے فصاحت و بلاغت کے دریا بہہ رہے ہیں، رحمت کی موجیں ٹھاٹھیں مار رہی ہیں، عدل وانصاف کی خوشبو پھوٹ رہی ہے اور صدق و سچائی چھلک رہی ہے۔ یہ وہ کلام ہے جو سینوں کے نہاں خانوں میں جابستا ہے اور دلوں کے سرد جذبوں کو دو آتشہ کر دیتا ہے، مانو اس کے الفاظ بکھرے ہوئے موتیاں ہوں، یا بارش سے کھلا ہوا سر سبز وشاداب باغ ہوں۔ شیریں الفاظ بڑے واضح اور دلنشیں ہوتے ہیں، اگر الفاظ لباس کی طرح پہنے جاتے تو وہ ہمیں پہنا دیے جاتے۔

 آپ ﷺ منبروں کے شہوار ہیں، خطیبوں میں سب سے زیادہ بلیغ ہیں، جب آپ ﷺ اس مبارک منبر پر جلوہ افروز ہوتے تو پتہ نہیں چلتا کہ منبر پر کوئی خطیب ہے، یا پورا منبر ہی خوشبو سے معطر ہو گیا ہے ؟ آپ ﷺ اس منبر پر تشریف لاتے تو آپ پر وحی کی ایسی بارش ہوتی جو دلوں کو یقین سے معمور کر دیتی، روحوں کو شوق و اشتیاق سے بھر دیتی، آنکھوں کو اشکبار کر دیتی اور قلب و جگر میں رقت طاری کر دیتی۔ آپ ﷺ کی فصاحت و بلاغت پر شاعر کے یہ اشعار صادق آتے ہیں جن کا ترجمہ و مفہوم کچھ یوں ہے:

 بلاغت کی لڑی کے بارے میں کسی کو بھی شک نہیں کہ یہ بے نظیر لڑی ہے۔ ایسی بے مثال لڑی ہے مانو موسم بہار کی رونق میں مسکراتا پھول ہو۔ یہ بلاغت کانوں میں رس گھولتی ہے، دہرانے سے پرانی نہیں ہوتی اس کے لیے کاغذات کے بنڈلوں کی ضرورت ہے اور نہ پارسلوں کی حاجت ایسی دلیل ہے جو دشمن کو گونگا کر دیتی ہے، ایسے مختصر لفظوں میں مانو قیمتی پتھر میں نگینے گن گن کے جوڑے گئے ہوں۔ ان الفاظ کو مناسب محل میں ہی استعمال کیا گیا ہے اور تعقید و پیچیدگی سے محفوظ ہیں۔ قریب المعنی لفظ کا ہی استعمال ہوا۔ اور اس میں بڑے بڑے معانی و مفاہیم سمٹ آئے۔ آپ جب خطبہ دیتے آنکھیں سرخ ہو جاتیں، آواز بلند ہو جاتی، اور ایسے غضبناک ہو جاتے گویا کسی ایسے لشکر سے ڈرا رہے ہیں جو صبح اور شام ان پر حملہ آور ہونے والا ہے۔ آپ کی زبان مبارک سے جو بھی کلمات نکلتے ان پر رب کریم محبت ڈال دیتے، انہیں قبولیت حاصل ہو جاتی، ان پر جمال و جلال اور حلاوت کی طراوت پائی جاتی، ان میں جامعیت اور اختصار کے ساتھ بڑی شفافیت اور وضاحت ہوتی ہے جو سامع کو بآسانی سمجھ میں آجاتی ، نہ انہیں دوبارہ لوٹانے کی ضرورت ہوتی اور نہ سامع ایسی ضرورت محسوس کرتے ، زبان سے کوئی جملہ بے خیالی میں غلط نہیں نکلتا اور نہ ہی غلطی ہوتی، اور نہ ہی دلیل و برہان میں کوئی کمزوری پائی جاتی اور نہ ہی دشمن کے قدم سکتے ، اور نہ ہی کوئی زبان آور آپ کو لاجواب کر پاتے، بلکہ آپ کے مختصر کلمات لمبے لمبے خطبات پر بھاری پڑتے، دشمن کو انہی کے ہتھیار سے خاموش کرتے، لیکن صدق وراستی کا دامن نہیں چھوڑتے، حق بات کے ذریعہ ہی دشمن پر حجت قائم کرتے، دھوکہ، فریب، لمز و ہمز سے دور رہتے ، آپ کی گفتگو میں نہ بہت زیادہ شور ہوتا ، نہ بہت تیزی، نہ بہت زیادہ طوالت ہوتی، نہ بہت ہی اختصار، بلکہ لوگوں نے آپ کے کلام سے زیادہ ، مناسب الفاظ، موزوں عبارت، خوبصورت انداز بیان، اثر انگیز اسلوب، عمده معنی پر مشتمل، مفید، آسان، فصیح و بلیغ اور واضح کلام نہیں سنا۔ اگر ان کی رسالت کی صداقت پر دوسرے واضح دلائل نہیں ہوتے تو ان کی بر جستگی اور فصاحت و بلاغت ہی کافی ہوتی۔

مومنو! منبر خطابت پر اسی کو جلوہ افروز ہونا چاہئے جو نڈر و بہادر ہو ، زبان و بیان کا ماہر ہو ، علم سے لیس ہو، اصابت رائے کا مالک ہو ، اپنے کردار و گفتار میں اخلاص کی دولت سے مالا مال ہو، چونکہ یہ منبر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کی نشر و اشاعت اللہ ، اس کے رسول ﷺ، حکام اور عوام کی خیر خواہی اور رسول اللہ ﷺ اور منہج سلف کے مطابق علم نافع اور عمل صالح کی دعوت و تذکیر کا ایک اہم ترین پلیٹ فارم ہے۔ لیکن اسلام کی دعوت و تبلیغ صرف منبر و محراب تک محدود نہیں ہے اور اس کا دائرہ کار یہیں پر نہیں سمٹ جاتا ہے بلکہ اسلام ایک مسلمان کی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے جو اس کے عقائد، اخلاق وعادات اور اس کی دعوتی وعملی زندگی میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ سعد بن ہشام بن عامر سے روایت ہے کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور آپ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ ﷺکا اخلاق قرآن تھا۔

ایک سچے پیغام کا حامل انسان جب اپنی میان سے زبان کا ہتھیار نکالتا ہے جیسے تلوار میان سے نکالی جاتی ہے، اس کو زبان و بیان کی روشنائی میں ڈبوتا ہے، اور اس میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ احساسات و جذبات اور عقیدے اور ایمان کی آمیزش ہوتی ہے تو پھر اس کی باتیں قلب و جگر کو سورج کی شعاؤں کی طرح روشن کرتی ہیں، اور دلوں میں ایسی سوز و حرارت پیدا کرتی ہیں جیسے آگ انگیٹھی میں حرارت پیدا کرتی ہے۔ اور جن باتوں میں مقرر کے جذبات اور احساسات شامل نہیں ہوتے وہ ایک بے جان اور مردہ باتیں ہوتی ہیں۔ یقینا مقرر کے کلمات اور عبارتیں اس کے جذبات واحساسات میں ایسے گھل مل جاتے ہیں جیسے پھول اور ان کے رنگ، موسم بہار اور اس کے پھل اور گلاس اور شربت آپس میں گھل مل جاتے ہیں۔

اور اسی صورت میں صدق و سچائی اور اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، الفاظ کی ملمع سازی نہ دلوں کے تاروں کو چھیٹر سکتی ہے اور نہ ظاہری عبارتوں کا حسن نفوس میں گرمی پیدا کر سکتا ہے جب تک کہ ان میں صدق در است بازی کی آگ شعلہ زن نہ ہو۔

چشمہ وحی سے سیراب کچھ گفتگو دلوں میں ویسا ہی کام کرتی ہیں جیسا بارش بنجر زمین پر اور شبنم پھول پر کام کرتی ہے، اس لیے ہمارے نبی اکرم ﷺ کا معجزه زبان و بیان اور کلام کا تھا جو کہ عربوں کے زبان و بیان اور ان کے کلام کے جنس میں سے تھا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

الرَّحْمَٰنُ ‎﴿١﴾‏ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ‎﴿٢﴾‏ خَلَقَ الْإِنسَانَ ‎﴿٣﴾‏ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ

الرحمٰن – 1/4

بڑا مہربان ہے (جس نے) یہ قرآن سکھایا انسان کو پیدا کیا (پھر) اسے اظہار مطلب سکھایا۔

 اور ارشادِ نبوی ﷺ ہے: ” انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں   (یعنی معجزات) نہ دیئے گئے ہوں جن کے مطابق انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا،پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن تعداد میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے “۔

یہ ایک ربانی کلام اور نورانی بیان ہے جس نے تاریخ کے رخ کو موڑ دیا، تہذیبوں کے پیمانے کو بدل دیا اور ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈالی جو عدل وانصاف اورعلم کے اصولوں پر قائم ہے اور دنیا کو توحید کے کرنوں سے جگمگا دیا جب کہ وہ اس سے پہلے بت پرستی کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی اور اسے علم اور عدل کا لبادہ اوڑھایا جب کہ وہ جہالت کی چادر تانی ہوئی تھی اور ظلم وجور کی چکی میں پس رہی تھی۔ اللہ تعالی کتاب وسنت کو میرے لیے اور آپ سب کے لیے بابرکت بنائے، ہر طرح کی بدعات اور فنتوں سے ہماری حفاظت فرمائے اور تقوی کو ہمارے لیے ذخیرہ آخرت، اور جہنم سے بچنے کے لیے ڈھال بنائے۔ میں یہیں سے اپنی بات ختم کرتا ہوں اور اپنے لیے اور آپ سب کے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہوں، آپ سب بھی اس سے مغفرت طلب کریں یقینا وہ اپنی طرف رجوع کرنے والوں کو بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

اے اللہ! تیرے ہی لیے ہر طرح کی تعریف ہے کہ تو نے بولنا سکھلایا اور واضح گفتگو کرنے کا ہنردیا۔ اسی طرح ہم تیری کامل عطاو بخشش اور ستر پوشی کی نعمت پر تعریف بیان کرتے ہیں۔ اور بہت زیادہ دورد و سلام نازل ہوں بنی نوع انسان کے سردار، روز محشر کے شافع و مشقع ﷺ پر ان کی آل و اصحاب پر اور ان تمام لوگوں پر جنہوں نے ان کے طریقے کو اپنایا اور ان کی پیروی کی۔

اما بعد !

مومن مردوں اور عورتوں کی جماعت! عصر حاضر کے مختلف و متعدد با اثر پلیٹ فارم پر خطاب کرنا اور اپنی بات رکھنا نہایت ہی پر خطر اور حساس امر ہے، خصوصا اس شخص کے لیے جسے لوگ بصد شوق و خوشی سنتے ہیں، دلوں کو جس سے سکون ملتا ہے، جسے اللہ نے مافی الضمیر کی ادائیگی کا بہترین ملکہ دیا ہے اور جسے اللہ نے اپنے بندوں میں قبولیت و پذیرائی عطا کی ہے، تو ایسی صورت میں ایک خطیب اور مقرر کے کاندھوں پر ایک عظیم امانت عائد ہوتی ہے، اس کی سخت گرفت ہو سکتی ہے۔ لہذا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بالکل ناپ تول کر اور موقع و محل کے مطابق اپنی بات رکھے ؛ کیوں کہ بسا اوقات یہ تقریر اس بارش کی مانند ثابت ہوتی ہے جو انتہائی شدید اور موسلا دھار ہو، یا پھر اس تیر کی مانند ہوتی ہے جو تیر انداز کے چوک کرنے کے باوجود ہدف پر پہنچ گیا ہو۔

 نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: “جو شخص اللہ تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، ورنہ پھر خاموش رہے“۔ لہذا اے ارباب زبان و بیان! تمام مخلوقات کے سردار نبی اکرم ﷺکی  تعلیمات  کی طرح اپنے آپ کو زیورِ ادب یعنی صدق و سچائی سے آراستہ و پیراستہ کریں اور اپنی باتوں میں خیر خواہی اور اشاعت حق کی کوشش کریں۔

اے ایمان والو ! کہیں بھی رہو اور کسی کے ساتھ بھی بات کرو؛ اپنی گفتگو کے حقوق اور مقام و مرتبے کو سمجھو اور اسے پورا پورا حق دو۔ بہترین بات اور شیریں کلامی کی خوشبو عام کرو اور اس سلسلے میں تمہارے لیے پیارے رسول اکرم ﷺ کا ارشاد کافی ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا: ” بہترین بات بھی صدقہ ہے“۔

اے کامیاب خطبائے کرام! گفتگو کرتے ہوئے موقع و محل، سامعین و مخاطبین اور کلام کی مناسبتوں کا لحاظ رکھیئے، اور اسے معافی کی لطافت و نفاست سے مزین کیجیے اور فصیح و بلیغ الفاظ اور محاسن کلام کا جامہ پہنائیے، تاکہ کانوں سے پہلے دل آپ کی طرف مائل ہو جائیں، بلاشبہ دل بھی اسی طرح مائل ہوتے ہیں جس طرح کان مائل ہوتے ہیں، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمارے بزرگ و برتر اور پاک پروردگار نے فرمایا:

وَلتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخرة

الانعام – 113

 اور تاکہ ان لوگوں کے دل اس (جھوٹ) کی طرف مائل ہوں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔

اے مومن مردوں اور عورتوں ! آج کے دن کائنات اور مخلوق کے سردار ﷺ پر درود پڑھنا مستحب ہے ، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”یقینا تمھارے دنوں میں سے افضل دن جمعہ ہے۔ اس میں آدم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن صور پھونکا جائے گا۔ اسی دن بے ہوشی ہو گی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو۔ یقیناً تمھارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ( وفات کے بعد ) آپ ﷺ پر درود کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیا علیہم السلام کے جسموں کو کھائے۔

اے اللہ اور دود و سلام اور برکتیں نازل فرما، اگلے اور پچھلے تمام لوگوں کے سردار، امام الانبیا، خاتم النبین ، رحمتہ للعالمین ﷺ پر، اس کے بقدر جو تیری کتاب نے شمارکررکھا ہے، تیرے قلم نے تحریر کیا ہے اور تیرے علم نے جسے اپنی وسعت میں لے رکھا ہے، ہمیشہ قیامت تک مسلسل نازل فرما۔

اے اللہ! قائدان ہدایت یافتہ ، خلفاء راشدین، ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور اپنے نبی کے تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، (اسی طرح) تابعین کرام اور قیامت تک آنے والے ان کے پیروکاروں سے بھی راضی ہو جا، اور ان کے ساتھ ساتھ اپنی عفو و در گزر اور رضامندی کی بارش کرتے ہوئے ہم سے بھی راضی ہو جا، اے سب سے زیادہ عزت والے!۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزتیں عطا فرما، کفر اور اہل کفر کو ذلیل ورسوا فرما، اور اس بابرکت ملک کو اور تمام مسلم ممالک کو بھی مضبوط ، محفوظ اور امن والا بنا۔ اے جہانوں کے پالنہار۔

 اے اللہ! ہمارے پیشوا خادم حرمین شریفین اور ان کے ولی عہد کو اسلام و مسلمانوں کی عزت والے، اور ایسے کاموں کی توفیق عطا فرما جن میں بندوں اور ملک کے لیے دین و دنیا کی بھلائی ہو، اے سب سے

 اے اللہ !ہر خیر کے معاملے میں ان کی مدد فرما، اور انہیں اس کی توفیق عطا فرما، اور انہیں اسلام و مسلمانوں کا روشن مینار بنادے۔ زیادہ عزت والے!۔

 اے اللہ! امیر مدینہ کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق عطا فرما، اور انہیں مدینہ کی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرما، اور ان کا خاتمہ بالخیر فرما۔

اے اللہ ! اس ملک کی حفاظت فرما، جو حرمین شریفین کا حصار ہے، مسلمانوں کے دلوں کا مرکز ہے، اور ہر شر سے ایمان کا مامن ہے۔

 اے اللہ ! اس کے علما اور عقیدے کی حفاظت فرما، اس کے مقدسات اور حرمتوں کو محفوظ فرما، اسے چوکیداروں و فوج اور سرحدوں کی حفاظت فرما، اسی طرح اس کے رہنے والے بوڑھے ، جوان، مرد، خواتین، اور اس کی پولیس اور محافظوں کی حفاظت فرما۔

اللہ کے بندو! اللہ کا شکر ادا کر کے اس کے فضل و کرم کو طلب کرو، اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی نعمتوں کی حفاظت کرو، چمٹ کر اور جم کر اس سے دعا کرو اور اس کا ذکر کرو، ہمارا پروردگار عزت والا ہے اور ان تمام باتوں سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔، اور رسولوں پر سلامتی ہو ، اور تمام تعریفیں تمام جہانوں کے پروردگار کے لیے ہیں۔

خطبة الجمعة مسجد النبوی ﷺ: فضیلة الشیخ احمد بن علی الحذیفی حفظه اللہ
29جمادی الاول 1444 ھ بمطابق 23 دسمبر 2022

مصنف/ مقرر کے بارے میں

IslamFort