اے اللہ! میں فکر و غم سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کےلیے ہیں اور درود و سلام نازل ہو اللہ کے رسول ﷺ پر ۔

اما بعد!

ہر دور کی کچھ خصوصیات اور امتیازات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ دور دیگر ادوار سے منفرد ہوتا ہے ،ہمارے دور میں انسانوں نے صنعت و ٹیکنالوجی میں بہت اونچی چھلانگ لگائی ہے، جس کی وجہ سے دوریاں سمٹ گئیں ہیں، بہت ساری مشکلات پر قابو پالیا گیا ہےاور علوم و معارف کا حصول بہت آسان ہوگیا ہے۔

مادی زندگی آخری حد کو پہنچ چکی ہے ،لیکن یہ نفس کی پیا س کو بھجانہ سکی اور نہ ہی نفس کی ان چاہتوں کو آسودہ کر سکی جو اس کی فطرت سے میل کھاتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے ،چنانچہ انسانی نفس لڑکھڑا گیا ،دل سخت ہوگیا ،یقین ،توکل اور رضا کا مفہوم سکڑ گیا اور فکر و بے چینی اور رنج وغم نے نفس کے اندرڈیرہ ڈال دیا ، جسے تیز رفتار زندگی ،پے درپے رونما ہونے والے حادثات ،آنکھیں خیرہ کرنے والی ٹیکنالوجی اور فرد و معاشرے کے مابین تیز و تند مقابلہ آرائی نے مزید گہرا کردیاہے۔غرض یہ کہ فکر و بے چینی اس دور کی علامت بن گئی ہے جس کی وجہ سے انسان ہر وقت اپنی روزی ،صحت اور ملازمت کے بارے میں فکر مند رہتا ہے ،نفس کا قوتِ دفاع کمزور ہوگیا ہے جس کی وجہ سے انسان مالی مشکلات ،اعزا و اقربا کی وفات ،مواقع ضائع ہونے یا کسی خسارے سے دوچار ہونے جیسی  زندگی کی عام مشکلات کا سامنا کرنے کی قدرت بھی کھو چکا ہے اور نفسیاتی و اعصابی امراض میں  دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

یہ فکروغم اگر انسان پرغالب آجائے تو اس کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے ،افکار منتشر ہوجاتے ہیں ،حرکت بند ہوجاتی ہے ،جسم ڈھیلا پڑجاتا ہے ،زندگی کی رونق ختم ہوجاتی ہے اور وہ تھکاوٹ وپریشانی کی سرنگ میں چلا جاتاہے ،پھراس کی زندگی تنگی اور نحوست کا شکارہوجاتی ہے۔اورجب فکروغم کا دائرہ مزید وسیع ہوجاتا ہے تواطاعت و بندگی میں بھی چستی ختم ہوجاتی ہے اورانسان رضائے الہی کے حصول کے میدان میں تگ و دو کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔

اسلام نے بے چینی اور فکروغم کا علاج پیش کیا ہے اور ایسا ٹھوس اور نیادی اصول مرتب کیا ہے جوانسانوں کو اس کے پنجے میں گرنے سے محفوظ رکھتاہے اور اُس کے چور راستوں کو بند کرتاہے ، اس نے انسانی نفس کو ایسا منہج اور طریقہ دیا ہے جو اس کے لئے پاکیزہ زندگی اور دنیا کی سعادت کا ضامن ہے۔

اسلام نے ہمیں سب سے پہلے یہ سکھایا ہےکہ انسانی زندگی فکر و غم کے اسباب سے خالی نہیں ہے اور اِس سفر میں اُسے سختیوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گااور زندگی کو مکدر کرنے والی چیزوں سے دو چار ہونا پڑےگا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ

البلد – 4

یقیناً ہم نے انسان کو (بڑی) مشقت میں پیدا کیا ہے۔

آزمائش اور فکرو غم کے اسباب انبیائے کرام کی زندگیوں میں بھی تھے چنانچہ کوئی مرض میں مبتلا کئے گئے ،کسی کو فقر فاقہ سے آزمایا گیا،کسی کو اُن کے کسی قریبی فرد کی وفات سے آزمایا گیا تو کسی کو تکذیب ودھتکار کے ذریعے آزمایا گیا ،بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسانوں می سب سے زیادہ آزمائے گئے۔ خود ہمارے نبی کریم ﷺ نے طرح طرح کی آزمائشوں کا سامنا کیا جن کے سامنے عام انسانی نفوس کمزور پڑجاتے ہیں اورعزم و حوصلہ پست ہوجاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: مجھے اللہ تعالیٰ کے راستوں میں اتنی تکلیف دی گئی جتنی کسی اور کو نہیں دی گئی،اور مجھے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس قدر ڈرایا گیا کہ کسی کو اتنا نہیں ڈرایا گیا،مجھ پر تین دن ایسے بھی گزرے ہیں کہ میرے اوربلال کے کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں ہوتی تھی سوائے اتنی چیز کےجو بلال کے بغل میں چھپ جائے۔(سنن ترمذی ، ابن ماجہ ، مسند احمد)

ان تمام آزمائشوں او رسختیوں کے باوجود آپ ﷺ کے دل میں کبھی بھی فکر و غم داخل نہیں ہوا،کبھی آپ ﷺ نے بےچینی محسوس کی اور نہ ہی رنج و غم سے دل برداشتہ ہوئے ،کیوں کہ آپ ﷺ خود اللہ تعالیٰ کے تربیت یافتہ تھے اور اللہ تعالیٰ ہی نے آپ ﷺ کو تعلیم دی تھی لہٰذا آپ ﷺ نے کھلے دل ،بلند ہمت اور مضبوط حوصلے کے ساتھ زندگی گزری ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ

الشرح – 1

کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا۔

اورآپ ﷺ کے سنیے کے انشراح (کھلے رہنے )کو دوام بخشنے اور فکر و بے چینی سے دوچار ہونے سے محفوظ رکھنے کے لئے سورت کے اخیر میں آپ ﷺ کو نصیحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ ‎﴿٧﴾‏ وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب

الشرح – 7/8

پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر۔اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا۔

فکر و غم کی بیماری کا سب سے کامیاب علاج یہ ہے کہ انسان  عبادت کے ماحول میں زندگی گزارے ، ہر طرح کی اطاعت کے کام بجالائے  اور ایمان کی حلاوت کا مزہ چکھے۔

رسول اکرم ﷺ ہجرت کی نیت سے مکہ سے نکلے اور غار ِ ثور میں پناہ گزین ہوئے ،مشرکین نے آپ ﷺ کی تلاش میں اپنی تلواریں میان سے باہر نکال لیں یہاں تک کہ وہ بھی غار تک پہنچ گئے ، اُس وقت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتےہیں:”میں نے نبی کریم ﷺ سے کہااس حال میں کہ میں بھی غار میں تھا : اگر اُن میں سے کوئی شخص اپنے پیروں کی طرف نظر نگاہ بھی ڈالے  توہو ہمیں دیکھ لے گا”۔اور واقعی یہ ایسی کیفیت تھی کہ انسان ڈر اور خوف کا شکار ہوجائے اور غم و بے چینی اپنی انتہا کو پہنچ جائے ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اُس عالم میں بھی ڈھارس بندھاتے ہوئے فرمایا: اے ابوبکر ! اُن دولوگوں کےبارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے۔(متفق علیہ)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ

التوبة – 40

جبکہ وه دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

اس لئے چاہے کتنا ہی ڈر کاماحول ہو ، چاہے کتنی ہی بڑی مصیبت آپ پر آجائے ،لیکن اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھئے اور اپنے معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیجئے اور ہر وقت و ہر لمحہ اس کے ساتھ ہونے اور اُس کی مدد ،قدرت اور حفاظت کا احساس اپنے دل میں پیدا کیجئے۔

موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرمایاہے:

قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ

الشعراء – 61

 تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا، ہم تو یقیناً پکڑ لیے گئے۔

کیونکہ سمندر ہمارے سامنے ہے اور دشمن ہمارے پیچھے ہے اور ایسے حالات میں انسانی نقطہ نظر سے وہ لوگ یقینی طور پر ہلاک ہونے والے تھے اور اس کیفیت  کی وجہ سے وہ فکر و بے چینی کی انتہا کو پہنچ چکے تھے لیکن اللہ  کے نبی موسیٰ علیہ السلام کو چوں کہ اپنے دل  کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ پر یقین تھا اور اللہ تعالیٰ کی عظمت پر پورا بھروسہ تھا اس لئے انہوں نے پورے وسوق و اعتماد سے فرمایا:

قَالَ كَلَّا ۖ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ

الشعراء – 62

موسیٰ نے کہا، ہرگز نہیں۔ یقین مانو، میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راه دکھائے گا۔

چنانچہ لوگوں کے دلوں سے ڈر  اور غم ختم ہوگیا اور بالآخر مدد و غلبہ نصیب ہوا۔

ہمارے رسول ﷺ بشر تھے اورآپ ﷺ کو فکر و غم کے بشری  جذبات و احساسات لاحق ہوتے تھے لہٰذا آپ ﷺ نے ہمیں اپنے افعال اور اقوال کے ذریعے فکر و غم اور بے چینی کو دور کرنے کا طریقہ سکھایا ہے ،چنانچہ آپ ﷺ جناب ِ بلال رضی اللہ عنہ کو کہا کرتے تھے:”اے بلال! نماز قائم کرو،اور اُس کے ذریعے ہمیں راحت پہنچاؤ”۔ اسی طرح آ پ ﷺ فرمایا کرتے تھے :”میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے”۔ اسی طرح  آپ ﷺ فرمایاکرتے تھے: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ اسی طرح جب بھی آپ ﷺ کو کوئی سنگین معاملہ درپیش ہوتا تو آپ ﷺ نماز پڑھنےلگتے ۔

نماز میں ایک مغمو م انسان اپنے رب سے سرگوشی کررہا ہوتاہے ،وہ اُس کےسامنے اپنی فکرمندیوں کو رکھتا ہے اوراپنی شکایتوں کو پیش کرتاہے ۔اور عرش کے اوپر وہ ذاتِ کریمی  ہے جو بڑ مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے ، جو بندوں پر خود اُن سےبھی زیادہ رحم فرماتاہے ۔وہ مغموم انسان کی سرگوشی اور زخم خوردہ شخص کی آہ و بکا کو سنتا ہےاور اُس کی دُعا کو قبول کرتاہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ

النمل – 62

بے کس کی پکار کو جب کہ وه پکارے، کون قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو۔

ایک غمزدہ انسان بھلا کیسے دُعا سے غافل ہوسکتاہے جبکہ دُعا ہی غمزدہ لوگوں کی جائے پناہ اور فکر مند لوگوں کی رفیق ہے  ۔ اور جب پاکیزہ ہتھیلیاں اپنے رب کی جانب اُٹھتی ہیں تو وہ فکر و غم کو دور کرنے والی ذات کی رحمت کی طلب گار ہوتی ہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

یونس – 107

اور اگر تم کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وه تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والانہیں، وه اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے اور وه بڑی مغفرت بڑی رحمت والاہے۔

ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو وہاں ایک انصاری صحابی کو دیکھا جن کا نام ابو امامہ تھا ،تو آپ ﷺ نے پوچھا: “اے ابو امامہ! کیا بات ہے کہ میں تمہیں نماز کے علاوہ دیگر اوقات میں بھی مسجد میں بیٹھا ہوا دیکھتا ہوں؟”تو انہوں نے کہا:اے اللہ کے رسول ﷺ!  کچھ فکر  اور قرض ہیں جس میں میں ڈوبا ہوا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرماما: کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں کہ جب تم اُن کے ذریعے دُعا کرو گے تواللہ تعالیٰ تمہاری فکر مندیوں کو دور کردے گا اور تمہارے قرضے اتاردے گا۔ انہوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ !۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”تم صبح و شام یہ دعا پڑھا کرو: اے اللہ میں فکر و غم سے تیری پناہ چاہتاہوں اور عاجزی و سستی سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور بزدلی اور بخیلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ،اور قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے غلبے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔”ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے میری فکرمندی کو دور کردیا اور میرے قرض کو ادا کردیا۔”(سنن ابی داؤد)

بسا اوقات کسی آدمی کی کوئی ایسی بات آپ کے کانوں سے ٹکراتی ہے جو آپ کی نیند حرام کردیتی ہے ،آپ کی زندگی کو خار زار بنادیتی ہے اور آپ کو فکر و غم  میں مبتلا کردیتی ہے ۔ تو اس کا علاج اُس الہی طریقے میں پوشیدہ ہے جو آپ کے دل سے فکر و غم کوایسے ہی دور کردے گا جیسا کہ اُس نے ہمارے نبی کریم ﷺ کے دل سے دور  کیا تھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ

یٰس – 76

پس آپ کو ان کی بات غمناک نہ کرے، ہم ان کی پوشیده اور علانیہ سب باتوں کو (بخوبی) جانتے ہیں۔

یعنی آپ اپنے نفس کو رنجیدہ نہ کریں اور اپنے رب پر پھروسہ رکھئے اور اپنے معاملات کو اللہ کے سپر د کردیجئے ، یہ سب انسانوں کی باتیں جو نہ تو نفع پہنچا سکتی ہیں نا نقصان۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو تو وہ کبھی غمزدہ نہیں ہوگا۔آپ ﷺ کا رب مہلت دیتاہے لیکن غافل نہیں ہے۔

اور جو شخص زندگی کی پریشانیوں پر مجبوری میں نہیں بلکہ رضامندی  کےساتھ صبر کرتاہے اور اللہ تعالیٰ سے نیکی کی امید رکھتاہے تو اللہ تعالیٰ اُسے اس مصیبت سے زیادہ بہتر بدلہ عطا فرماتاہے اور اُس کے دل میں رضامندی ڈال دیتاہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ‎﴿١٥٦﴾‏ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ

البقرۃ – 156/157

جنہیں، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ اور اُن کی امت پر یہ فضل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ پر درود و سلام پڑھنے کو ایسا ذکر قرار دیا جو غم سے بچاؤ اور فکرمندی سے حفاظت کا ذریعہ ہے  جیسا کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کےرسول ﷺ!  میں آپ پر بہت زیادہ درود و سلام پڑھتاہوں  تو میں اپنی دُعا کا کتنا حصہ آپ ﷺ پر درودوسلام پڑھنے کےلئے خاص کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:”تم جتنا چاہو کرو،راوی کہتے ہیں کہ میں  نے کہا: چوتھائی حصہ کرلوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا چاہو کرو ،اور اگر اس سے بھی زیادہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔”تو میں نے کہا : آدھا حصہ کرلوں ؟ تو آپ ﷺ فرمایا: تم تنا چاہو کرو ،اور اگر اس سے بھی زیادہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا : دو تہائی حصہ کرلوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم تنا چاہو کرو ،اور اگر اس سے بھی زیادہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔تو میں نے کہا : کیا میں اپنی تمام دعا میں صرف آپ ﷺ پر درود وسلام بھیجوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر ایسا کرتے ہو تو تمہارے سارے غم دور کردیے جائیں گے اور تمہارے گناہ بخش دئے جائیں گے ۔(سنن ترمذی)

لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ ایک فکر مندی ایسی بھی ہے جو دوسری فکرمندیوں کی طرح نہیں ہے بلکہ وہ قابلِ تعریف فکر مندی ہے جو دوسری فکرمندیوں کو دور کردیتی ہے اور سارے غموں کو مٹادیتی ہے ،بکھرے ہوئے معاملاتے کو دُرست کردیتی ہے اور اس سے کبھی نا ختم ہونے والی سعادت ،کبھی نا دور ہونے والا اطمنان اور ایسی اُنسیت حاصل ہوتی ہے جس کا کوئی موازنہ نہیں ۔ اور یہ آخرت  کی فکر ہے جو سینوں کو کھول دیتی ہے اور نفس کو راحت بخشتی ہے ۔ اور جب انسان کی زندگی آخرت کی فکر سے بھر جائے اور دوسری فکر مندیوں پر غالب آجائے تو تمام بُری فکر مندیاں زائل ہوجاتی ہیں اور وہ ہیچ اور کمتر معلوم ہونے لگتی ہیں اور اُن کے چور دروازے بند ہوجات ہیں ۔پھر ایک مسلمان کی حالت پاکیزہ ہوجاتی ہے ،وہ گھٹیا چیزوں کی فکر سے اوپر اُٹھ جاتا ہے  اور بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے  جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو آخرت کو اپنی فکر مندیوں کا محور بنالے تو اللہ تعالیٰ اُس کے دل میں بے نیازی ڈل دیتا ہے ،اُس کے معاملات کو یکجا کردیتا ہے اور دنیا اُس کے پاس ذلیل ہوکر آتی ہے ۔(سنن ترمذی)

اسی طرح نبی اکرم ﷺ  کا فرمان ہے: جو اپنی تمام فکر مندیوں کو چوڑ کر آخرت کی فکرمندی میں لگ جائے تواللہ تعالیٰ اُس کی دنیاوی فکر مندیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور جس کی فکر دنیا کے حالات میں بکھری ہوئی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کو ذرہ برابر بھی یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ کس وادی میں مرا۔(سنن ابن ماجہ)

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اُس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو حق کو عزت بخشنے والا،بلند و بالا کرنے والاہے۔

اما بعد!

جو چیز ایک مغموم انسان کی تسلی اور اس کے دل میں اطمنان کا باعث ہے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے جسے اللہ کے رسول ﷺ نے اس حدیث میں بیان فرمایا:سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:”کسی مسلمان کو کوئی تھکاوٹ ،درد،فکر و غم ،تکلیف یا رنج لاحق نہیں ہوتا یہاں تک کہ کوئی کانٹا بھی چھبتامگر اللہ تعالیٰ اُسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنادیتاہے”۔(صحیح بخاری)

ایک دور اندیش انسان اپنے آپ کوفکر  کی مصیبتوں اور غموں کی تکلیفوں سے محفوظ رکھنے کےلئے احسان کے ساتھ صدقہ و خیرات کرتاہے اور فقر اء و مساکین اور کمزوروں کی پریشانیوں کو دور کرتا ہے ، کیوں کہ جو شخص کسی مسلمان کی پریشانی کو دور کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی پریشانی کو دور کردیتاہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

البقرۃ – 274

جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لئے ان کے رب تعالیٰ کے پاس اجر ہے اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ غمگینی۔

پس ایسی ذات پر درود بھیجو جس پر درود بھیجنے کا  اللہ تعالیٰ نے  کا حکم دیاہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ حکیم میں فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

ہماری طرف سے نبی کریم ﷺ اور اُن کے اہلِ خانہ اور اصحاب  پر لاتعدا د و بے شمار درودو سلام ہو ۔

اے اللہ ! تو محمد ﷺ پر اور اُن کی آل پر اسی طرح برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابرھیم علیہ السلام پر اور اُن کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں۔

اے اللہ تو اپنی رحمتیں اپنی برکتیں سید المرسلین،امام المتقین خاتم النبین ،اپنے بندے اور رسول ﷺ پر نازل فرما جو خیر کے امام اور خیر کے قائد ہیں رسول ِ رحمت ہیں ۔

 اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین جو ہدایت کے پیشوا و امام تھے۔  ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی   سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان سے جو دُرست طریقے سے قیامت تک اُن کی پیروی کریں ۔یاکریم  یا وہاب۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں  سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔تو تم اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرو اور وہ تمہارا ذکر کرے گا۔اورتم اُس کی تعمتوں پر شکر کرو تو وہ تم کو زیادہ دے گا۔ اور یاد رکھو!  جو کچھ تم کرتے ہو اُس سے اللہ تعالیٰ خوب آگاہ ہے۔

خطبة الجمعة مسجدِ نبوی ﷺ : فضیلة الشیخ  الدکتور عبد الباري بن عواض الثبیتي حفظه اللہ
تاریخ  04 جمادی الثانی 1443هـ  بمطابق 07 جنوری 2021

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ 

مسجد نبوی کے معروف خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ داکٹر عبدالباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ کا ہے ، جن کے علمی خطبات ایک شہرہ رکھتے ہیں۔