حقوق العباد

پہلا خطبہ :

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے پیدا کیا، اور نہایت درست بنایا، جس نے اخلاق وکردار کو فضل و کمال اور تقوی و پر ہیز گاری کا معیار بنایا اور جس نے عدل پروروں کے مسکن کے لیے ہمیشہ باقی رہنے والے باغات تیار کیے اور ظلم وجور کرنے والوں کے لیے جہنم بنایا، جو نہایت بُرا ٹھکانہ ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ وہی ذات ہے جو دانے اور گٹھلیوں سے پودے نکالتا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جونہ تو راہ بھولے اور نہ بے راہ چلے ، وہ اپنی خواہش سے کچھ بھی نہیں کہتے وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ تو وحی ہوتی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے، یہ انہیں زبر دست قوت والے فرشتہ (جبریل) نے سکھائی ہے ، جو بڑا زور آور ہے ، وہ پھر اصلی صورت میں نمودار ہوا، اللہ کی رحمت و سلامتی نازل ہو آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کی آل اور صحابہ کرام پر جو فضل و شرافت اور تقوی وطہارت کے پیکر تھے۔

حمد و صلاۃ کے بعد !

بے شک سب سے بہترین کلام اللہ تعالیٰ  کا کلام ہے، لہذا اسے مضبوطی سے تھام لو۔ اور سب سے بہترین طریقہ محمد بن عبد اللہ ﷺ کا طریقہ ہے، لہذا اسی پر چلو۔ اور سب سے بدترین امر (دین میں) نئی ایجاد کردہ چیزیں ہیں، ہر نئی چیز (بدعت) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

اے لوگو! اللہ نے جس چیز کا حکم دیا ہے ، اس میں اللہ سے ڈرو، اور جس چیز سے منع کیا اور ڈرایا ہے اس سے رک جاؤ، آج اپنے آپ کا محاسبہ کر لو قبل اس کے کہ کل بروز قیامت تمہارا محاسبہ کیا جائے، چنانچہ جس نے ذرہ برابر بھی کوئی اچھائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی کوئی برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔

سنو! یہ دنیائے فانی ابتلا و آزمائش کی جگہ ہے اور آخرت جزا و سزا، حساب و کتاب اور ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے:

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ

آل عمران – 185

ہر شخص کو موت کا مزا چکھنا ہے اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا۔ پھر جو شخص دوزخ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہو گیا اور یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔

 اللہ کے بندو! حقوق العباد (لوگوں کے حقوق) کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو، کیوں کہ ان میں کمی و کوتاہی برتنا بڑی سنگین مصیبت ہے۔

حقوق العباد کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیوں کہ ان میں کمی و کوتاہی برے نتائج اور بھیانک انجام کا سبب ہے، نیز حزن و ملال اور غم و حسرت کا باعث ہے۔

حقوق العباد کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو، کیوں کہ یہ بہت بڑا بوجھ ہے، سنگین معاملہ ہے اور طول طویل حساب کا سبب ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”جس نے اپنے بھائی کی عزت یا کسی اور شے میں حق تلفی کر رکھی ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ آج ہی اس سے بری الذمہ ہو جائے، اس سے پہلے کہ وہ دن آئے) جب نہ دینار ہوں گے اور نہ در ہم۔ اگر اس کی کچھ نیکیاں ہوں گی تو جتنی اس نے حق تلفی کی ہو گی، اسی قدر اس کی نیکیاں لے لی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں نہیں ہوں گی، تو اس کے بھائی کی برائیوں کو لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیا جائے گا “ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)۔

ابو ہریرہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہو تا ہے ؟ صحابہ نے جواب دیا: ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی روپیہ پیسہ اور ساز و سامان نہ ہو۔ اس پر آپ ﷺنے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکوۃ جیسے اعمال لے کر آئے گا۔ تاہم اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت دھری ہو گی، کسی کا مال (ناحق) کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا۔ چنانچہ اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور اس پر واجب الاداء حقوق ابھی باقی رہے تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔

اور عبد اللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا: ” قیامت کے دن اللہ تعالی لوگوں کو اس حال میں اٹھائے گا کہ وہ برہنہ، غیر مختون اور خالی ہاتھ ہوں گے“۔ پھر ان کو ایسی آواز سے پکارے گا جسے ہر کوئی سنے گا۔ خواہ وہ دور میں ہو قریب میں ہو ۔ کہ میں ہی حقیقی بادشاہ ہوں، میں بدلہ لینے والا ہوں، کسی جہنمی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ جہنم میں جائے اور اس کا کسی جنتی پر حق ہو یہاں تک کہ میں اس سے اس کا بدلہ دلا دوں اور کسی جنتی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ جنت میں داخل ہو اور اس کا کسی جہنمی پر حق ہو یہاں تک کہ میں اس سے اس کا بدلہ دلا دوں، حتی کہ ایک طمانچے کا بدلہ کیوں نہ ہو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

الْيَوْمَ تُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۚ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ ۚ

الغافر – 17

 آج ہر شخص کو اس کا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کمایا ہو گا، کسی پر آج ظلم نہیں ہوگا۔

(اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے اور ذھبی نے ان کی موافقت شخص کی ہے)۔

اے لوگو! قیامت کے دن سب سے بڑا حریف وہ ہو گا جس کے حقوق سب سے عظیم ہیں، سبحان اللہ اس شخص کا کیا حال ہو گا جب رب ذو الجلال کے سامنے اس کے سب سے قریبی رشتہ دار اس کے حریف ہونگے ، جس دن آدمی اپنے بھائی سے ، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے، اپنی بیوی سے اور بیٹوں سے بھاگے گا، اس دن ہر شخص کو اپنی پڑی ہو گی اور نفسی نفسی کا عالم ہو گا۔

حقوق العباد کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، خصوصا ایسے اجنبیوں کے حقوق کے بارے میں اللہ سے ڈرو جن سے ہو سکتا ہے تم دوبارہ ملاقات کا موقع نہ ملے ، اور ان کے حقوق اس وقت تک تمہارے ذمے رہ جائیں جب تک کہ وہ تمھیں معاف نہ کر دیں اور ان کے جو حقوق تم نے نا حق غصب کیے ہیں تم انھیں لوٹانہ دو۔

اہل وعیال اور قرابت داروں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو جن کے بارے میں اللہ نے وصیت کی ہے، والدین اور اولاد کے حقوق کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور باہمی ازدواجی حقوق کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔

اللہ کے بندو! یقینا اللہ تعالی نے ازدواجی تعلق کی بنیاد رفق ونرمی اور پیار و محبت پر رکھی ہے، ارشاد باری تعالی ہے:

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ

الروم – 21

 اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم آرام پاؤ، اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی۔

 اللہ تعالی نے حسن صحبت اور ازدواجی رشتے کے احترام کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

 وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ

النساء – 19

 اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔

 اور دوسری جگہ فرمایا:

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ

البقرۃ – 228

اور عورتوں کے بھی مناسب طور پر مردوں پر حقوق ہیں جیسا کہ مردوں کے عورتوں پر ہیں۔

اور ایک جگہ فرمایا:

وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ

البقرۃ – 237

 اور آپس میں احسان کرنا نہ بھولو۔

اللہ تعالی نے ازدواجی حقوق و احکام نازل کر کے میاں بیوی میں سے ہر ایک کے لیے احکام، حقوق اور ذمہ داریاں مقرر کی ہیں، ان پربدلہ اور حساب و کتاب مرتب کیا ہے اور ثواب و عقاب مرتب کر کے ان احکام کو تاکیدی بنادیا ہے۔ یہ حقوق صرف ذوق اور مزاج پر مبنی اخلاق، سماجی آداب اور قانونی پابندیاں نہیں ہیں بلکہ یہ ربانی احکام ہیں، قرآنی آیات ہیں اور نبوی تعلیمات ہیں، جن پر عمل کر کے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے اور جن کی مخالفت سے گناہ لازم آتا ہے، دراصل یہ امتحان و آزمائش کا میدان ہے۔

لہذا اللہ سے ڈرو، اس کی نگرانی کا احساس اپنے دل میں قائم رکھو، تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہو گا۔

آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اور اپنی رعیت اور اپنی بیوی کے بارے میں جواب دہ ہے۔ عورت اپنے گھر کی ذمہ دار ہے اور اپنی رعیت اور اپنے شوہر کے بارے میں جواب دہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مؤْمِنِينَ

الانفال – 1

پس تم لوگ اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنے باہمی تعلقات درست رکھو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم مومن ہو۔

اللہ تعالی قرآن کریم کو میرے اور آپ سب کے لیے بابرکت بنائے۔

دوسرا خطبہ :

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہر چیز کو اسی کی مناسب شکل و صورت میں پیدا کیا، ہر جاندار کا رزق لکھ دیا، اور ہر شی کا حق مقرر کیا اور فرمایا:

 وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ

الاسراء – 26

 اور رشتہ دار کو اس کا حق دو۔

درود و سلام نازل ہوں ہمارے نبی اکرم محمد ﷺ پر جو سچائی پر مبنی پیغام لے کر آئے اور خود اس کی تصدیق بھی کی، جنہیں اللہ تعالی نے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا، چنانچہ آپ ﷺ حسن سیرت اور جمال صورت کے پیکر تھے اور اسی طرح رحمت و سلامتی نازل ہو آپ ﷺ کی مقرب آل پر ، آپ ﷺ کے متقی و پرہیز گار صحابہ پر ، اور قیامت تک آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلنے والوں پر اور آپ کے طریقے اور سیرت کو اپنانے والوں پر۔

اللہ کے بندو! اچھائی اور بھلائی کے ساتھ زندگی گزارنا، نرمی برتنا، شفت و مہربانی اور حسن اخلاق کے ساتھ پیش آنا ازدواجی زندگی کے بڑے حقوق میں سے ہیں۔ لہذا شوہر و بیوی دونوں پر واجب ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے سلوک کا مظاہرہ کریں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ

النساء – 19

اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسر کرو۔

 اور فرمایا:

 وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ

البقرۃ – 228

 اور بیویوں کے شوہروں پر عرف عام کے مطابق حقوق ہیں، جس طرح شوہروں کے ان پر حقوق ہیں۔

اور ایک جگہ فرمایا:

وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً

الروم – 21

 اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی۔

بہترین ازدواجی زندگی کے بنیادی مظاہر میں سے ایک یہ ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک ایک دوسرے کو حرام چیزوں سے بچائے رکھے اور اطاعت کے کاموں پر مدد کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

 وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى

المائدۃ – 2

 اور آپس میں نیک کام اور پر ہیز گاری پر مدد کرو۔

اسی طرح میاں بیوی کے درمیان حسن معاشرت اور بہترین زندگی کے بہت سے اہم مظاہر ہیں جیسے باہم عزت واحترام کرنا، ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا اور ایک دوسرے کی دلجوئی کرنا۔

اور حسن معاشرت کے تقاضوں میں سے یہ ہے کہ ایذارسانی، یا قول، یا فعل کے ذریعے بد خلقی کا مظاہرہ کرنے سے احتراز کیا جائے۔

بے شک یہ رویہ اس بہترین سلوک میں سے نہیں ہے جس کو اپنانے کا حکم اللہ نے میاں بیوی کو دیا ہے۔

اللہ کے بندو! یہ بھی جان لو کہ آپس کے رازوں کی حفاظت کرنا میاں بیوی کے عظیم ترین حقوق میں سے ہے ؛ کیوں کہ راز امانت ہے اور راز فاش کرنا دھو کہ اور خیانت ہے اور اس آدمی کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جس کے پاس امانت داری نہ ہو۔

نیز میاں بیوی کے راز کی دیگر رازوں کی مقابلے میں الگ ہی خصوصیت ہوتی ہے، اس لیے ہر حال میں ان کی حفاظت و پاسداری کرنا واجب و ضروری ہے، گرچہ آپس میں اختلاف اور جدائی ہی کیوں نہ ہو جائے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

الانفال – 27

اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے خیانت نہ کرو اور آپس کی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو، حالانکہ تم جانتے ہو۔

آفت و مصیبت اس وقت اور سنگین ہو جاتی ہے جب راز کی چیزوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے درمیان عام کیا جائے۔ لہذا اے لوگو! اپنی امانتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، راز کی حفاظت کرو اور برے لوگوں میں شامل نہ ہوں۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہو گا، جو اپنی بیوی سے ملے اور بیوی اس سے ملے اور پھر وہ اس کے راز ظاہر کرتا پھرے“۔ (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔

اللہ کے بندو! میاں بیوی کے حقوق میں حق وراثت بھی داخل ہے اور اللہ نے خود اس معاملے کی ذمہ داری لی ہے اور اسے تقسیم کرنے کے طریقے کو خود بیان کر دیا ہے، اور میاں بیوی دونوں کے واجبی حصے مقرر دیے ہیں۔ لہذا عورت کو اس حق وراثت سے محروم کرنا جائز نہیں ہے جسے اللہ نے فرض کیا ہے اور اسے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ چاہے میراث مال کی شکل میں ہو، یاگھر بار کی شکل میں ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ

النساء – 14

 “یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلے (اللہ) اسے بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہی بڑی کامیابی ہے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے نکل جائے (اللہ ) اسے آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔

لوگو! اللہ تعالی نے میاں بیوی میں سے ہر ایک کے دوسرے پر کچھ حقوق مقرر کیے ہیں۔ لہذا بیوی پر شوہر کے حقوق میں سے یہ ہے کہ بیوی شوہر کی ضرورت پوری کرنے میں اس کی اطاعت کرے، شوہر کی عزت و ناموس کی حفاظت کرے اور شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے۔

اور شوہر پر بیوی کے حقوق میں سے یہ ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی کرے، نان و نفقہ ، رہائش اور کپڑے کا بندوبست کرے اور انصاف کا برتاؤ کرے۔

سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ وہ حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”سنو ! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تم  اس (ہمبستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ) کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے (اور جب وہ اپنا فرض ادا کرتی ہوں تو پھر ان کے ساتھ بد سلوکی کا جواز کیا ہے؟) ہاں اگر وہ کسی کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب کریں (تو پھر تمہیں انہیں سزا دینے کا حق ہے) سنو! جس طرح تمہارا تمہاری بیویوں پر حق ہے اسی طرح تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے۔ تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم نا پسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے۔ سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ لباس اور کھانے میں اچھا سلوک کرو“۔(امام ترمذی نے اسے روایت کیا ہے)۔

اس کے بعد ! لوگو! اللہ سے ڈرو اور حق والوں تک ان کا حق پہنچا دو۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” تمھیں روز قیامت حق والوں کے حق ضرور ادا کرنے ہوں گے حتی کہ بغیر سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا“۔ (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔

لہذا اللہ کے بندو! قبل اس کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اپنا احتساب خود کرلو، موت سے پہلے پہلے بری الذمہ ہو جاؤ، حق والوں سے صلح وصفائی کر لو اور لوگوں کو ان کا حق واپس کرو اور ہر حق دار کا حق ادا کر دو۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَنْ لا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى

المادئدۃ – 9

 اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو، انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔

اے اللہ ! ہمیں عدل و تقویٰ کی توفیق دے اور ہمیں صالح اور انصاف کرنے والوں میں شامل فرما، ہمیں ظلم و جبر سے بچا، اور تو ہمیں ایمان سے کفر کی طرف لوٹنے سے، یا طاعت سے معصیت کی طرف لوٹنے سے بچالے۔

 اے اللہ ! ہم اس بات سے تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم خود گمراہ ہوں، یا گمراہ کیے جائیں، یا ہم خود سے پھیلیں یا دوسرے کے ذریعے پھسلائے جائیں ، ہم ظلم کریں، یا ہم پر ظلم کیا جائے ، یا ہم جہالت میں مبتلا ہوں، یا ہم پر جہالت کی جائے۔

 اے اللہ ! تو ہمارے اگلے پچھلے، ظاہر و پوشیدہ اور جنہیں تو ہم سے زیادہ جانتا ہے وہ سارے گناہ معاف فرمادے۔

 اے اللہ ! تو ہمارے قرض ادا فرمادے، حقوق کی ادائیگی میں ہماری مدد فرما اور ہمارے اوپر وہ بوجھ نہ ڈال جسے برداشت کرنے کی ہم میں سکت نہیں، تو فضل و کرم والا ہے۔

اے اللہ ! تو ہمیں حقوق پورا کرنے کی توفیق دے، اور تو ہمیں اور جن کا ہم پر حق ہے سب کو معاف فرما، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے رب!

اے اللہ ! تو ہمیں حقوق پورا کرنے کی توفیق دے، اور تو ہمیں اور جن کا ہم پر حق ہے سب کو معاف فرما، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے رب!

اے دلوں کے پلٹنے والے ! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ اے اللہ ! اے دلوں کو پھیر نے والے ! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔

اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد تو ہمارے دلوں کو کج رونہ بنا۔ اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما۔ بے شک تو ہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے۔

اے اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، فرزندانِ توحید کی مدد فرما، یا اللہ ! اس ملک کو اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنادے۔

اے اللہ ! ہماری سرحدوں کی حفاظت فرما اور سرحدوں پر پہرہ دینے والے فوجیوں کی مدد فرما، یا قوی ! یا عزیز!

اے اللہ! تو ہمیں اپنے ملکوں میں امن و امان عطا فرما، ہمارے حکمرانوں اور قائدین کی اصلاح فرما، اے اللہ ! ہمارے حکمراں خادم حرمین شریفین کو خصوصی توفیق سے نواز، ان کی خصوصی مدد فرما، اے اللہ ! اور ان کے ذریعہ اپنے دین کو سر بلندی عطا کر۔

اے اللہ ! تو انہیں اور ان کے ولی عہد کو اپنے پسندیدہ امور کی توفیق دے، یا سمیع الدعا!۔

 اے ہمارے رب! ہم سے قبول کر ، بے شک تو ہی سننے والا جانے والا ہے۔ اور ہماری توبہ قبول فرما، بے شک تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

اسے اللہ تو محمد ﷺ، ان کی آل اور تمام صحابہ کرام  پر رحمتیں نازل فرما۔

خطبة الجمعة مسجد النبوي ﷺ : فضیلة الشیخ ڈاکٹرعبد اللہ بن عبدالرحمٰن البعیجان حفظه اللہ
20جمادي الثاني 1444ھ بمطابق 13 جنوری 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالرحمٰن بعیجان حفظہ اللہ

آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، آپ ایک بلند پایہ خطیب اور بڑی پیاری آواز کے مالک ہیں۔جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کلیۃ الشریعۃ میں مدرس ہیں۔