تحریر : الشیخ خالد حسین گورایہ
الحمد للہ والصلاة والسلام علی رسول اللہ وعلی آله وصحبه ومن والاہ، وبعد :
روئے زمین پر انبیاء ورسل کرام علیہم السلام کے بعد سب سے مقدس ومطہر اور پاکیزہ نفوس قدسیہ اصحاب رسول نبی کریم ﷺ ہیں ۔ یہ ہستیاں اللہ تعالیٰ کی چنی ہوئی ہستیاں ہیں ۔ جس کی گواہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی اور فرمایا:
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ
الاحزاب – 32
اے نبی کی بیویوں! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘۔
سیدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إِنَّ اللهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ
مسند احمد – 3600
اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد ﷺ کے دل کو سب سے بہترین پایا، تو انہیں اپنے لئے چن لیا ، اور اپنی رسالت دے کر انہیں مبعوث فرمادیا ، پھر رب تعالیٰ نےمحمدﷺ کے بعد دوبارہ نظر ڈالی تو اصحاب محمد کے دلوں کو سب سے بہترین پایا ، تو انہیں اپنے نبی کا وزیر بنادیا ، جنہوں نے اس کے دین کے لئے جہاد کیا ‘‘۔
صحابہ کرام ایمان کو پرکھنے کی کسوٹی اور معیار ہیں : چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
البقرۃ – 137
’’اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔
ان کا دور سب سے بہترین دور قرار دیا گیا : چنانچہ فرمان نبوی ﷺ ہے :
خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ
صحیح البخاری: 2652 / صحیح المسلم:2533
سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے‘‘َ۔
یہ ہستیاں امت کی امین ہیں :رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
أَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتي ما يُوعَدُونَ
مصنف ابن ابی شیبة : 32406
’’میرے صحابہ رضی اللہ عنہم میری امت کے لئے امان ہیں تو جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چلے جائیں گے تو ان پر وہ فتنے آن پڑیں گے کہ جن سے ڈرایا جاتا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہی انہیں جنت اور مغفرت کا پروانہ عطا فرمادیا : چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِيِّ وَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ
التوبة – 117
اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا‘‘۔
نیز فرمایا:
وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنَى
النساء – 95
’’ ان میں ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے‘‘۔
جب صحابہ کرام یہ تمام اعلیٰ صفات اور مقام رکھنے والی شخصیات ہیں تو بداہۃ یہ بات سامنے آجاتی ہے ان کی سیرت اور تاریخ کوجب پڑھا جائےتو اسے ایسے نہ پڑھا جائے کہ جیسے کسی سابقہ حکومت وبادشاہت کی تاریخ کو پڑھاجاتاہے بلکہ یہ نفوس قدسیہ کی تاریخ وسیرت ہے اس کے مطالعہ میں انتہائی احتیاط اور تحقیق کی ضرورت ہے ۔لہذا ہم نے ضروری سمجھا کہ تاریخ صحابہ کو پڑھنے کے لئے جو بنیادی اصول ہیں انہیں بیان کردیاجائے تاکہ ان کی سیرت کے مطالعہ میں احتیاط کا دامن نہ چھوٹے اور مقدس ہستیوں کی طرف اٹھنے والے الزامات کا جھوٹاہونا قاری کیلئے واضح ہوجائے ۔
پہلا اصول : صحابہ کرام کے حوالے سے روایات کی تحقیق حدیثی اصولوں کے مطابق کی جائے:
اس حوالے سے اول بات تو یہ ہے کہ وہ تاریخی روایت جو صحابہ کرام سے متعلق اور ان کے مابین ہونے والے معاملات سے متعلق ہو اسے حدیثی اصولوں پر پرکھیں کیونکہ مؤرخین نے اپنی کتب میں صحیح وضعیف اور سچ وجھوٹ کو الگ کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا ۔ تاریخ کی کتابوں میں بکثرت جھوٹی ضعیف اور من گھڑت روایات موجود ہیں ،۔جیساکہ امام ابن جریر طبری اپنی تاریخ طبری کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
فما يكن في كتابي هذا من خبر ذكرناه عن بعض الماضين مما يستنكره قارئه أو يستشنعه سامعه من أجل أنه لم يعرف له وجها في الصحة ولا معنى في الحقيقة فليعلم أنه لم يؤت في ذلك من قبلنا وإنما أتي من قبل بعض ناقليه إلينا وأنا إنما أدينا ذلك على نحو ما أدي إلينا
الطلبري – 8/1
فرماتے ہیں : ’’ میری اس کتاب میں کوئی خبر آپ بعض ماضی کے لوگوں سے متعلق ملاحظہ کریں گے جسے سننے والا جھٹلائےاور اسے برا محسوس کرے اس وجہ سے کہ اسے اس کی صحت کی کوئی وجہ معلوم نہ ہوئی ہو ، اور نہ اس کا کوئی حقیقت سے تعلق ہو ، تو اسے جان لینا چاہئے کہ یہ ہماری طرف سے نہیں آئی بلکہ یہ اس کے ناقلین کی طرف سے آئی بلکہ ہم نے تو اسے جیسے سنا ویسے ہی آگے بیان کردیا ‘‘۔
اس عبارت سے یہ چیز واضح ہوئی کہ تاریخ کی جو اولین کتاب تاریخ طبری ہے امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے خود اس امر کی وضاحت کی کہ انہوں نے اپنی کتاب میں صحت کا اہتمام نہیں کیا ۔ اب ہم تاریخ طبری اور تفسیر طبری کے حوالے سے چند ایک راویوں کی حقیقت آپ کے سامنے رکھتے ہیں ۔
ابی مخنف لوط بن یحییٰ : امام طبری نے اس راوی سے ۵۸۵ کے قریب روایات نقل کی ہیں ۔ جن میں اکثر حساس نوعیت کے واقعات سے متعلق ہیں جن میں ( سقیفہ بنی ساعدہ ، قصہ شوریٰ ، سیدنا عثمان کی شہادت اور ان کےخلاف ہونے والی بغاوت ، سیدنا علی کی خلافت ، معرکہ جمل ، معرکہ صفین ، قضیۃ تحکیم ، معرکہ نہروان ، خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ، شہادت حسین رضی اللہ عنہ ) شامل ہیں ۔ اس شخص کا محدثین کے میزان جرح وتعدیل میں کیا مرتبہ ہے اسے ملاحظہ فرمائیں ۔
امام یحیٰ ابن معین فرماتے ہیں :
’’ یہ کوئی چیز نہیں ‘‘۔
علامہ ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رافضی یشتم الصحابة ، ویروی الموضوعات عن الثقات
’’یہ رافضی ہے ،صحابہ پر سب وشتم کرتاہے ، اور ثقہ رایوں سے موضوع روایات نقل کرتاہے ۔‘‘
امام ذہبی فرماتے ہیں :
’’ اخباري تالف لا یوثق به ‘‘
’’ یہ گیا گزرا قصہ گوہے ‘‘۔
امام عقیلی نے اسے ضعفاء میں شمار کیاہے ۔
امام ابو حاتم نے اسے متروک الحدیث قرار دیاہے ۔ اور فرمایا :
’’ أحد یسأل عن ھذا ‘‘
’’کیا کوئی اس کے بارے میں بھی سوال کرتاہے؟ ۔
الغرض اسے مبتدع ، کذاب ، اور مکثر من الروایات قرار دیاگیاہے۔
یہ شخص سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے کا ایسا ماحول بیان کرتاہے گویاکہ صحابہ (نعوذ باللہ ) نبی اکرم ﷺ کی وفات کے منتظر تھے تاکہ خلافت پر قابض ہوسکیں ( والعیاذ باللہ ) ۔
صحابہ کرام جیسی پاکباز ہستیوں پر تہمت لگانے والے اس کذاب راوی کی روایات لیکر آج کل اہل شر وبدعت صحابہ کرام پر زبان درازی کرتے ہیں ۔ اب جس شخص کو اس کی حقیقت پتا نہیں وہ یقینی طور پر اس کی روایات سے متاثر ہوکر مقدس شخصیات کے بارہ میں ہرزہ سرائی کرےگا۔
دوسراراوی هشام الکلبی ہے : یہ بھی شیعہ راوی ہے ۔ ابی مخنف کا شاگرد ہے امام طبری نے اپنی تاریخ اور تفسیر میں اس سے ۳۰۰ کے قریب روایات لی ہیں ۔ اس کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ ما ظننت أحدا یحدث عنه ‘‘ میرا گمان نہیں کہ اس سے بھی کوئی روایت لے گا ۔
ابن حبان فرماتے ہیں :
کان غالیا فی التشیع
’’ یہ غالی شیعہ ہے ‘‘۔
اما م ذہبی فرماتے ہیں :
لا یوثق به
اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
ابن عساکر فرماتے ہیں :
رافضی لیس بثقة
یہ رافضی ہے ثقہ نہیں۔
یہ روایات سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طرح طرح کے الزامات عائد کرتاہے ۔ ( والعیاذ باللہ )
اب جس شخص کو اس کا حدیث میں مقام پتہ نہیں وہ اس کی باتوں سے متاثر ہوگا ۔ لہذا جب اس کی جرح کے میزان میں حقیقت واضح ہوگئی تو قطعا اس کی روایات پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا۔
یہی حال ۔ محمد بن حمید الرازی اور واقدی کا ہے ۔ لہذا جن روایات کے ناقلین یہ راویان ہوں اور ان میں صحابہ کرام پر طعن پایا جائے تو سمجھ لیا جائے کہ یہ ان راویوں کی کذب بیانی ہی ہے ۔
دوسرا اصول : جس روایت کی سند نہ ہو اس پر سرے سے اعتماد نہ کیا جائے ۔
تیسرا اصول : جن روایات کی سند موجود ہو اس کی تحقیق محدثین کے نقد سند ومتن کے اصولوں کے مطابق اس روایت کو جانچا جائے اگر وہ ان اصولوں پر پوری اترتی ہے تو ٹھیک ورنہ اسے رد کردیا جائے ۔
چوتھا اصول : تاریخی کتب میں اہل سنت مؤرخین کی کتابوں کو پڑھا جائے نہ کہ رافضی یا نیم رافضیوں کی کتب ۔
پانچواں اصول : کسی بھی تاریخی کتاب کے مطالعے سے قبل اس کے مؤلف کا تحریر کردہ مقدمہ پڑھا جائے ۔تاکہ اس مؤلف کے منہج سے مکمل واقفیت ہو ۔
چھٹا اصول : ان کتب سے بچیں جو قصہ گوئی طرز پر تحریر کی گئی ہوں ، کیونکہ ان کتابوں میں واقعے کی استنادی حیثت کو چھوڑ کر جمال ِ قصہ کو مقدم رکھاجاتاہے ۔ جیساکہ طہ حسین کی کتابیں ( موقعة الجمل ، علی وبنوہ، اور الفتنة الکبریٰ ) ہیں ۔ یا خالد محمد خالد کی کتابیں ( خلفاء الرسول ، رجال حول الرسول ) وغیرہ ہیں ۔
یہ وہ بنیادی طور پر سرسری چند رہنما اصول تھے جنہیں کسی اور موقعے پر تفصیلی طور پر تحریر کیا جائے گا ۔ إن شاء اللہ تعالیٰ
یہاں ان کے بیان سے غرض یہی تھا کہ قارئین کو چند ان اصولوں کا بتادیا جائے جنہیں سامنے رکھتے ہوئے سیرت صحابہ کو پڑھا جائے تاکہ ان پاکدامن ہستیوں کی طرف کسی بھی غیر ثابت بات کی نسبت کرنے سے ہم سب محفوظ رہ سکیں تاکہ ایمان محفوظ رہے ۔
ھذا ما عندی واللہ ولی التوفیق