فضیلۃ الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب حفظہ اللہ

گذشتہ دنوں المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کے زیر اہتمام علم جرح وتعدیل ،اور دفاع صحیحین سے متعلق  ایک علمی دورہ کا اہتمام کیا گیا جس میں طلباء وعلماء کی ایک کثیر تعداد نےشرکت کی ۔ اسی دورہ کے دوران موقع میسر آیا کہ شیخ حفظہ اللہ سے ان کی حیات ، تعلیمی مراحل اور علمی خدمات کے حوالے سے معلومات جمع کی جائیں ، شیخ صاحب نے اس پر رضامندی ظاہر کی اور ایک مختصر مجلس میں آپ نے اپنی حیات کے جن گوشوں سے پردہ اٹھایا اس کی تفصیل قارئین کے استفادہ کیلئے یہاں انٹرویو کی شکل میں پیش کی جاتی ہے ،ا للہ تعالیٰ شیخ کے علم وعمل میں برکت عطافرمائے ۔ یہ انٹرویو المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کے ریسرچ فیلو جناب الشیخ حافظ یونس اثری صاحب نے کیا ۔ اللہ تعالیٰ موصوف کو بھی جزائے خیر عطا فرمائے کہ وہ ان گراں قدر معلومات کا خزینہ ہم تک پہنچانے کا باعث بنے ۔ آمیں ۔ ( ادارہ )

سوال  :  شیخ صاحب اپنے نام و نسب کے حوالے سےکچھ معلومات فراہم کیجئے؟

 الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب : نام و نسب:ارشاد الحق بن غلام رسول بن عید بخش ۔ اس سے آگے پردادا کا نام ہمیں معلوم نہیں، اس وقت اتنی دلچسپی نہیں تھی کہ ہم اپنے پردادا کا نام پوچھتے۔ اب میں نے ایک کاپی میں اپنے جدی خاندان کے بارے میں کچھ لکھا ہے۔ ہمارے والد صاحب تین بھائی تھے۔سب سے بڑے بھائی کانام اللہ دتا ،ان سے چھوٹے  بھائی کا نام فضل دین تھا۔والد صاحب سب سے چھوٹے تھے۔اور پھر آگے ہم ایک بہن اور دو بھائی تھے۔ میرے بڑے بھائی کا نام محمدشریف تھا۔ بڑے بھائی کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوگیا۔اور اب ہمشیرہ بھی فوت ہوگئی ہیں۔(غفر اللہ لھما )

سوال: آپ کس برادری سے تعلق رکھتے ہیں؟

الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب : کمبوہ برادری کی ذیلی شاخ سندھو کے ساتھ تعلق ہے۔

سوال : پیدائش اور جائے پیدائش سے متعلق کچھ معلومات فراہم کریں؟

الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب :  مجھے تاریخ ولادت تو یاد نہیں ہے بس بڑے یہی بتلاتے ہیں کہ سنہ 1948ء میں میری ولادت ہے۔ اور وہ بھی اس طرح یاد ہے کہ میرا چچا زاد بھائی جس کا نام مرشد ہے وہ مجھ سے چھ ماہ بڑا ہے اور وہ سنہ1948ء کے اوائل میں پیدا ہوئے تھے۔ اُس وقت ہمارے والدین فورٹ عباس کے ایک نواحی گاؤں میں مقیم تھے۔ کچھ عرصہ بعدتقریباً سن 1950ءمیں لیاقت پور منتقل ہوگئے۔ ریاست بہاولپور میں زمینیں الاٹ ہوئیں تو آدھا مربع زمین لی اور کام بھی کیا۔پرچون کی دکان کاکام اورغلہ منڈی میں بھی دکان بنائی۔

سوال : تعلیم کہاں حاصل کی، نیز اپنے محسن و مربی اساتذہ کے بارے میں کچھ تفصیلات سے آگاہ کریں؟

الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب :   میں نے سنہ 1961ء میں مڈل کرلیا تھا۔ اسی اثناء میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ قاسم العلوم میں مولانا بشیر صاحب اور مولانا محمد حیات  رحمہ اللہ صاحب ;سے دو سال تک درس نظامی کی ابتدائی کتب پڑھیں۔ جن میں کافیہ ، ہدایۃ النحو ،علم النحو، علم الصرف، قدوری ،فارسی کی بھی کتابیں پند نامہ ، گلستان سعدی اور تیسیر المنطق وغیرہ شامل تھیں۔ یہ دونوں اساتذہ حنفی تھے، یہ کتابیں ان سے پڑھیں۔

  پھر سنہ 64 میں فیصل آباد جامعہ سلفیہ میں پڑھنے کے لئے گیا ۔ میں تو کبھی گھر سے باہر نکلا نہیں تھا یہاں فیصل آباد کےقریب نورپور میں قصبہ تھا۔ وہاں والد صاحب کی ہمشیرہ رہتی تھی۔ اس لئے جامعہ سلفیہ میں آنے کا اتفاق ہوا کہ وہاں رہنے کی سہولت مل جائے گی۔ ورنہ اس وقت میں اہل حدیث بھی نہیں تھا بلکہ خاندان میں بھی کوئی اہل حدیث نہیں تھا۔ حتی کہ جامعہ سلفیہ میں دو سال تک میں اہل حدیث نہیں ہوا اور بغیر رفع الیدین کے نمازیں پڑھتا تھا۔ ایک دفعہ حافظ بنیامین صاحب  رحمہ اللہ  سے عرض کیا کہ جب میں اوپر ہاتھ باندھتا ہوں تو بوجھ پڑتا ہے یہاں ہاتھ باندھنامشکل ہے ، حافظ صاحب رحمہ اللہ  کہتے تھے کہ دل میں نفاق ہے اس لئے مشکل ہوتی ہے اور یہ بوجھ پڑتا ہے،جب یہ نفاق نکل جائے گا تو پھر بوجھ محسوس نہیں ہوگا۔ خیر جامعہ سلفیہ میں داخلے کے وقت انٹرویو ہوا تو انٹرویو مولانا بنیامین اور مولانا علی محمد سلفی صاحب نے لیا، انہوں نے پوچھا : ہاں بھئی!کیا کیا پڑھ کر آئے ہو؟ میں نے کہا کہ کافیہ پڑھی ہے، ہدایۃ النحو،تیسیر المنطق پڑھی ہے،ابھی میں نے تیسیر المنطق کا لفظ بولا تو حافظ بنیامین صاحب  رحمہ اللہ فرمانے لگے کہ تیسیر کون سا باب ہے؟ میں نے کہا کہ تفعیل ۔ بس اسی پر انہوں نے کہا کہ اسے تیسری میں داخلہ دے دو۔ یہاں تین سال تک تعلیم حاصل کی اور ابتدائی دو سال تک حنفی رہا، غیر اہل حدیث ہونے کے باوجود حافظ بنیامین رحمہ اللہ  کا کھانا لانا ،ان کے برتن صاف کرنا ،ان کی چائے بناکر دینا۔ان کی خدمت کرنا میرا معمول تھا۔

جامعہ سلفیہ میں ترمذی ، مختصر المعانی، شرح وقایۃ، قطبی، وغیرہ پڑھیں ۔

مولانا عبداللہ امجد چھتو ی حفظہ اللہ سے مختصر المعانی پڑھی۔( جب یہ انٹرویو لیا گیا اس وقت اثری صاحب کے اساتذہ میں سے یہی حیات تھے ۔  مگر اب یہ بھی دارِ فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین)

مولانا عبداللہ بڈھیمالوی  رحمہ اللہ سے سنن نسائی، مولانا صادق خلیل صاحب رحمہ اللہ  سے جامع ترمذی اور مشکوۃ مولانا علی محمد صاحب رحمہ اللہ سے پڑھی تھی  ،مولانا علی محمد رحمہ اللہ جھوک دادو کے تھے۔ پاکستان جس وقت بنا ہے ،اس وقت یہ غیر مسلم گھرانہ تھا ،ان کے بڑوں نے یہی سوچا کہ ہمارا وہاں جانا مشکل ہے ۔پھریہ مسلمان ہوگئے مولانا ابھی چھوٹے تھے۔جب مدینہ یونیورسٹی شروع ہوئی تو ان کی عمر زیادہ ہوگئی تھی ،انہوں نے خط لکھا کہ مدینہ یونیورسٹی کی مطلوبہ عمر سے میری عمر بڑھ گئی ہے اور وجہ یہی لکھی کہ میں اس وقت مسلمان نہیں تھا، لیکن اب تعلیم مکمل کرناچاہتا ہوں اور مدینہ یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتا ہوں۔ مولانا کے اس عذر کی وجہ سے انہیں داخلہ مل گیا تھا کہ ان کا عذر معقول ہے۔ وہاں سے آکر پھر جامعہ سلفیہ میں پڑھانا شروع کردیا۔بہرحال سنہ 66ء تک جامعہ سلفیہ میں پڑھا اور ان تین سالوں میں مذکورہ کتابیں پڑھیں۔

سنہ 67ء میں حافظ محمد بنیامین طور صاحب رحمہ اللہ  نے جامعہ سلفیہ سے استعفیٰ دےدیا تو ہم لوگ  ایک ہی کلاس کےچھ،سات ساتھی تھے۔ جن میں مولوی اکرم جمیل جہلم کے شیخ الحدیث ہیں،میں اور مولانا محمد عبداللہ جھنگ کے تھے۔ ہم انہیں خطیب صاحب کہتے تھے۔ہم نے حافظ صاحب سے عرض کیا کہ ہم آپ سے پڑھنا چاہتے ہیں ۔ ان کا گاؤں جھوک دادو کے پاس ایک گاؤں کٹو چار چاں، وہاں تاندلیانوالہ کے پاس طور برادری کے چار گاؤں ہیں۔ کٹو کے لوگوں نے بڑا اصرار کیا اور کہا آپ اور یہ پوری کلاس ہمارے پاس لے آئیں ہم ہر اعتبار سے خدمت کریں گے۔ حافظ صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ایسا ممکن ہے۔

پھر سنہ 68ء میں جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ چلا گیا وہاں میں نے آخری سال پڑھا۔وہاں حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ  بخاری پڑھاتے تھے۔ اور مولانا ابوالبرکات احمد رحمہ اللہ اس ادارے کے منتظم تھے۔( یہ حافظ محمد گوندلوی صاحب  رحمہ اللہ کے چہیتے شاگردوں میں سے تھے۔ حافظ محمد گوندلوی صاحب رحمہ اللہ  مدراس پڑھانے کے لئے گئے تھے۔تو واپسی میں یہ (ابو البرکات احمد رحمہ اللہ  )ساتھ ہی آگئے تھے کہ میں نے آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے) حافظ صاحب رحمہ اللہ  ڈیڑھ دو گھنٹے صحیح بخاری کا درس دیتے تھے۔ پھر وہ لیٹ جاتے تھے۔ سارے طالب علم کوئی ہاتھ دبا رہا ہوتا کوئی کندھے ، کوئی پاؤں ۔ مولانا ابو البرکات احمد  رحمہ اللہ  کا کوئی پیریڈ خالی ہوتا تو وہ بھی نیچے آکر طالب علموں کے ساتھ مل کر دبایا کرتے تھے۔ بڑی خدمت اور احترام کرتے تھے۔ جیسے باپ کے سامنے لاڈ پیار کے ساتھ بیٹا بات کرتا ہے۔

میں 68ء میں وہاں پڑھتا تھا تو وہ مسجد میں جمعہ پڑھاتے تھے، دس گیارہ ماہ تک ہم نے جمعہ میں یہی سنا کہ:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى  

الاعلی -14

یعنی: فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی اختیار کی ۔ اسی پر ہی جمعہ پڑھاتے رہے۔ جب حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی طبیعت خراب رہتی تھی تو مولانا ابوالبرکات سے کہہ دیتے : ’’مولوی احمد! آج جمعہ پڑھا۔‘‘ مولانا ابوالبرکات جمعہ پڑھادیتے تھے۔ ورنہ جب حافظ صاحب رحمہ اللہ  جمعہ پڑھاتے تھےتو منبر کے قریب بیٹھ کر حافظ صاحب رحمہ اللہ  کا جمعہ سنتے۔

ہم نے حافظ محمد گوندلوی  رحمہ اللہ سے بخاری پڑھی۔حافظ محمد گوندلوی  رحمہ اللہ  وقت کی پابندی کا بہت اہتمام کرتے تھے ، ایک دفعہ شدید بارش ہورہی تھی ہم نے کہا کہ آج حافظ صاحب رحمہ اللہ پڑھانے نہیں آئیں گے، سردیوں کے دن ہیں اور اتنی شدید بارش ہورہی ہے ، اتنی بارش میں کیسے آئیں گے، لہٰذاڈیڑھ گھنٹہ آرام سے بیٹھیں گے۔اورباقی بعد میں ابو البرکات اور ایک حنفی استاذ کے سبق ہوتے تھے کہ ان کا پیریڈ ہوگا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ مسجد کا خادم بھاگا بھاگا آیا کہ تم یہاں بیٹھے ہو ،حافظ صاحب رحمہ اللہ  آگئے ہیں، وہ نفل پڑھ رہے ہیں۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ  جب آتے ہم ان کی جوتیاں پکڑتے اور عصاپکڑتے وہ نفل پڑھ کر آتے اور اپنی مسندپر آکر بیٹھتے اور خطبہ مسنونہ کے بعد سبق شروع کرتے۔ یہ ان کا خصوصی اہتمام تھا کہ اتنی شدید بارش میں بھی بروقت آگئے تھے۔ اور ہم تو ان سے بڑے مانوس تھے، ان سے سوال و جواب کرتے تھے، بلکہ ان کے گھر بھی چلےجاتے تھے۔مسلم مسجد میں وہ ظہر عصر پڑھتے تھے۔ ہم عصر میں پھر ملاقات کرنے چلے جاتے تھے۔

اساتذہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ : ہم نے کچھ نہیں پڑھا بس اساتذہ کی خدمت کی ہے ان کی دعائیں لی ہیں۔اور بس حافظ صاحب  رحمہ اللہ  کی بہت ساری باتیں ہماری سمجھ سے اوپر ہوتی تھیں،سمجھ نہیں آتی تھیں۔لیکن عقیدت میں سنتے تھے۔ بلکہ ایک دفعہ ابوالبرکات  رحمہ اللہ   نے فرمایا : کہ’’ آپ بخاری شریف کا درس دیتے ہیں بہت مشکل باتیں کرتے ہیں لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتی آپ آسان آسان باتیں کیا کریں !! ‘‘حافظ صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگے کہ احمد! ہر بات ہر آدمی کے سمجھنے کی نہیں ہوتی جن کو سمجھ ہوتی ہے انہیں سمجھ آہی جاتی ہے۔

آخری تقریب میں عبارت بھی میں نے پڑھی تھی۔ ہمارے ایک ساتھی تھے، ان کا نام قاری سیف اللہ تھا ۔ وہ کہنے لگے کہ بڑی تعداد میں لوگ موجود ہوں گے آپ لوگ مجھے اجازت دیں، میں اچھے مخارج کے ساتھ حدیث کے الفاظ پڑھوں گا۔ ساتھیوں نے کہا کہ سارا سال تو آپ نے پڑھا نہیں، اب آپ کہتے ہیں کہ میں پڑھوں گا ،الحمدللہ وہ قرعہ میرے نام ہی نکلا۔

بہرحال پھر سنہ 69 ء میں جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے سند فراغت حاصل کی فیصل آباد میں ، اسی سال ادارہ علوم اثریہ قائم ہوا تھا، جو صرف فارغ التحصیل طلباء کے تخصص کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ادارہ کا بھی پہلا ہی سال تھا، اس کا نام مولانا حنیف ندوی صاحب  رحمہ اللہ نے رکھا ، اس سے پہلے کسی نے اثری نام استعمال نہیں کیا، بڑے دور اندیش آدمی تھے۔ اس ادارے میں صرف پانچ طالب علم رکھتے تھے۔ اس ادارے کے پہلے سال میں، خالد سیف اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ،مولانا عبدالحمید بھکر، مولانا محمد جہلمی،انہیں کے عزیز محمد شفیع ،محبت سے انہیں ہم مفتی محمد شفیع کہا کرتے تھے ، وہ جہلم میں پڑھاتے تھے۔ ایک ہمارے ساتھی محمود الحسن صاحب تھے۔ جوکہ جامعہ ستاریہ میں شیخ الحدیث ہیں ،لیکن ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی، پیٹ کا مسئلہ رہتا تھا۔ڈیڑھ سال کے بعد واپس آگئے۔ دو سال کا یہ کورس ہوتا تھا۔

جب گوجرانوالہ سے فارغ ہوکر آیاتو یہاں ادارہ علوم اثریہ میں مولانا اسحاق چیمہ صاحب رحمہ اللہ  پڑھاتے تھے، مولانا عبداللہ صاحب رحمہ اللہ ( خانوآنہ جھال والے)النھایۃ پڑھاتے تھے۔مولانا عبداللہ صاحب رحمہ اللہ  بڑے حافظ تھے۔ اور ان سے پڑھنے والوں میں مولانا عبدالرحمان سلفی صاحب بھی ہیں انہوں نے دہلی میں ان سے پڑھا ہے۔ مولانا عبداللہ صاحب رحمہ اللہ  کا استحضار اس قدر تھا کہ جب حدیث کی تلاش کی ضرورت آتی تو مشکوٰۃ سے کبھی بھی فہرست دیکھ کر حدیث نہیں نکالی۔ان کے ذہن میں ہوتا تھا کہ یہ روایت مشکوٰۃ میں ہے اور کتاب کو اندازہ لگا کر کھولتے ایک دو صفحے آگے یا پیچھے اور روایت پر پہنچ جاتے تھے۔  مجھے اچھی طرح تو یاد نہیں جتنا یاد آتا ہے کہ 83ءمیں ان کا انتقال ہوا ہے۔یہ ابھی جنت المعلیٰ مکہ مکرمہ میں مدفون ہیں۔بہرحال وہ بھی ادارہ علوم اثریہ میں استاد تھے۔ اور مولانا محمد عبدہ صاحب رحمہ اللہ  بخاری اور مقدمہ ابن الصلاح پڑھاتے تھے۔

سوال : ادارہ علوم اثریہ سے اسی وقت سے وابستہ ہیں؟

الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب : جی ہاں! یہ دوسال کا کورس کیا پھر وہیں سے فارغ ہوکر ادارے ہی کے ہوکر رہ گئے۔پھر کئی مسائل پیدا ہوگئے۔ مولانا عبدہ صاحب رحمہ اللہ  جامعہ سلفیہ چلے گئے۔ مولانا عبداللہ اور مولانا اسحاق حج پر گئے۔ میں اکیلا رہ گیا یہ 74ء 75ء کی باتیں ہیں۔ ان کے جانے کے بعد تدریس کے حوالے سےسارا بوجھ مجھ پر آگیا۔ ایک سبق مولانا خالد نے لے لیا اور بخاری ، مقدمہ ابن الصلاح مجھے پڑھا نا پڑا۔ ڈیڑھ دو مہینے کے بعد جب وہ حج سے واپس آئے۔کچھ میرے لئے آسانی ہوئی۔ پڑھائی کا سلسلہ سات آٹھ سال تک باقی رہا ،اسی اثناء میں العلل المتناھیۃ پر کام کیا۔

بخاری شریف ہم ساری نہیں پڑھاتے تھے ،سید بدیع الدین شاہ الراشدی  رحمہ اللہ  نے ابواب منتخب کرکے دئیے تھے، انہی منتخب ابواب کو ہم پڑھاتے تھے ،یہاں افسوسناک بات یہ ہے کہ جس کاپی میں سید بدیع الدین شاہ الراشدی  رحمہ اللہ  نے ہمیں صحیح بخاری کے ابواب انتخاب کرکے دئیے تھے،  وہ تمام ابواب انہوں نے اپنے قلم سے لکھ کر دیئے تھے۔ ایک دفعہ ایک مجلس میں میں نے حافظ شریف صاحب حفظہ اللہ   سےاس حوالے سے ذکر کردیا کہ یہ ابواب سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ  نے منتخب کرکے دئیے ہیں،  وہ فرمانےلگے کہ وہ کاپی مجھے دکھائیں، میں وہ انتخاب دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے وہ کاپی اسی طرح حافظ شریف صاحب حفظہ اللہ کو دے دی۔میں نے غفلت کی کہ ان سے کئی سال تک اس بارے میں نہ پوچھا اور پھر جب میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے کاپی مجھے واپس کردی تھی؟انہوں نے کہا کہ میں نے تو واپس کردی تھی، ان کے ذہن میں بھی یہی تھا کہ میں نے واپس کردی ، لیکن وہ کہاں گئی کوئی پتہ نہیں۔ البتہ صحیح بخاری کا جو نسخہ ادارے میں ہے اس کے ابواب پر میں نے نشانات لگالئے تھے ۔ اب دل میں آتا ہے کہ کسی کو کہہ کر وہ نقل کروالوں۔

شاہ صاحب رحمہ اللہ ا   دارہ علوم اثریہ کے ممتحن رہے ۔ دو دو، تین تین دن تک ہمارے پاس رہتے تھے۔ بلکہ جب میں نیو سعید آباد آتا تھا تو نیو سعید آباد کے مقتدی کہتے تھے کہ’’ لائل پور سے مولوی آگیا ہے شاہ صاحب کو لینے ۔ ‘‘میں ان کی خدمت میں آٹھ آٹھ، دس دس دن رہتا،ان سے استفادہ بھی کرتا۔اور ان سے مراجعت بھی ہوتی۔ کتابوں کی تحقیق کے حوالے سے میرا پہلا کام ’’اعلام اھل العصر‘‘ کا سارا کام میں نے شاہ صاحب رحمہ اللہ   کو سنایا ہے۔ میں نے ان سے باقاعدہ کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ میں نے’’ امام ابن ماجہ اورعلم حدیث‘‘ کا جواب لکھا تھا ،نعمانی کا اعتراض اور نیچے اثری کا جواب، وہ سارا مسودہ میں نے شاہ صاحب  رحمہ اللہ کو سنایا ۔پھر مشورہ ہوا جس میں عطاء اللہ حنیف ،مولانا ابوحفص عثمانی، سید بدیع الدین شاہ صاحب ،مولانا محمد عبدہ صاحب، مولانا عبداللہ صاحب رحمھم اللہ ۔  شاہ صاحب کا فرمانا تھا کہ اس کتاب کو اسی طرح چھاپ دیں۔یہ 72ء 73ء کی بات ہے۔ مولانا عطاءاللہ صاحب رحمہ اللہ   نے فرمایا کہ اس سارے کام کو امام مالک رحمہ اللہ   کے نام پر لکھو تو اس کی حیثیت زیادہ ہوگی ۔وگرنہ یہ کتاب صرف جوابی ہوگی اور اس کی اہمیت نہیں ہوتی جبکہ جو مستقل کتاب ہوتی ہے اس کی حیثیت ہوتی ہے۔ اس رائے کو سب نے پسند فرمایا۔ پھر اسی اسلوب میں اس مواد کو لکھنا شروع کیا۔جس اسلوب میں ابن ماجہ اور علم حدیث تھی ،بنیاد وہی تھی لیکن اس کو امام مالک  رحمہ اللہ کے اسلوب میں، ان کا تعارف وغیرہ تو وہ تقریباً 70، 80 صفحات کے قریب تیار ہوگئی تھی، لیکن وہ پھر ایسا رکا کہ وہ جہاں کا ہے وہ وہی ہے۔ اب اسی کا ایک حصہ کتاب الآثار سے متعلقہ الاعتصام میں چھپا ہے۔ اب تو مراجع بہت زیادہ ہیں، اس دور کی لکھی ہوئی چیزیں مواد کے لحاظ سے بہت پیچھے ہیں۔ یہ ان شاء اللہ مقالات کے تیسرے حصے میں  آئے گا۔

سوال : زندگی کا ایک اہم ترین حصہ ازدواجی زندگی کا ہوتا ہے، اس حوالے سے بھی تھوڑی گفتگو ہوجائے۔

 الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب : نور پور میں جو ہمارےبرادری کے لوگ تھے ان کے ساتھ میرے سسرال کی رشتہ داری تھی اورمیرے سسرال والے اہل حدیث تھے۔اور اہل حدیث ہونے کے ناطے ہی یہ رشتہ ہوا تھا۔قومی بنیاد پر نہیں ہوا تھا۔میرے سسرال والوں نے اپنے نورپور والے رشتہ داروں سے کہا کہ بیٹی کے لئے کوئی رشتہ بتلاؤ، تو ان کے انہی رشتہ داروں نے جواب دیا کہ رشتہ ہے اور وہابی ہے۔ میری خوشدامن (ساس ) نے جب یہ سنا اور کہنے لگی رشتہ تو ٹھیک ہے لیکن دور بہت ہے ، کہاں فیصل آباد سے شیخوپورہ اور شیخوپورہ سے لیاقت پور ۔ آنے جانے میں بڑی مشکل ہوگی۔ لیکن جو ہوتا ہے قسمت میں ہوتا ہے ۔ بہرحال بحمداللہ یہ رشتہ ہوگیا۔ اور اب لیاقت پور میں خوشی ،غمی میں آنا جانا بھی رہتاہے۔بلکہ لیاقت پور میں ہمارے دوست تھے، ان کا نام عبداللہ تھا۔(ان کا بیٹا میرے ساتھ اسکول پڑھتا تھا)۔ تو جب کبھی وہاں پروگرام ہوتا تو حافظ اسلم صاحب وغیرہ اعلان کرتےہوئے میرا نام لیتے ہوئے’’ ارشاد الحق فیصل آبادی‘‘  کہتے ،تو وہ لڑپڑتے کہ اپنے آدمی کو دھکیل کر فیصل آبادی بنارہے ہو، لیاقت پوری کہا کرو ۔

ویسے لیاقت پور سے کئی علماء کا تعلق رہا ہے، مثلاًحافظ سلمان اوڈصاحب رحمہ اللہ لیاقت پور کے تھے۔یہ بڑے صاحبِ ثروت تھے اور جماعت غرباء کے ساتھ ان کا تعلق تھا۔اٹھارہ بیس سال پہلے فوت ہوچکے ہیں، میں نے اور انہوں نے مولانا بشیر صاحب رحمہ اللہ  سے ترجمہ قرآن پڑھا۔حافظ سلمان اوڈ صاحب مولانا عبداللہ اوڈ صاحب کے بیٹے تھے۔ مولانا عبداللہ اوڈ  رحمہ اللہ   پوری  اوڈ برادری کے امیر تھےاوران کا بہت رعب و دبدبہ تھا۔ حیدرآباد میں ایک دفعہ دو پارٹیوں میں اختلاف ہوگیا انہوں نے دونوں کو بلایاتو وہ ان کے سامنے لڑنا شروع ہوگئے تو انہوں نے کہا کہ لڑو !!میرے سامنے لڑو ۔ بس ان کے کہتے ہی ڈانگیں چل پڑیں۔اوروہ بیٹھے دیکھ رہے ہیں اور لڑائی ہورہی ہے۔ مولانا عبداللہ صاحب رحمہ اللہ  نے اپنی لاٹھی جب زمین پر ماری، بس جہاں کہیں کسی کی لاٹھی تھی وہیں رک گئی۔ درمیانے قد کے ،بھاری آواز، جری آدمی تھے۔

اسی طرح لیاقت پور میں مولانا عبدالرحمان سلفی صاحب بھی ایک جلسے میں گئے ہیں ۔ اور ایک موقع پر مولانا عبدالقہار صاحب رحمہ اللہ  بھی آئے تھے،وہ بڑے قد آور شخص تھے۔

سوال  : خطبہ جمعہ پڑھانے کا آغاز کب سے ہوا؟

الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب :  حافظ عبداللہ  رحمہ اللہ جامعہ سلفیہ میں جمعہ پڑھاتے تھے۔ جب وہ چھٹی پر ہوتے تو کئی مرتبہ مولانا ابو حفص عثمانی صاحب رحمہ اللہ  (اس وقت جامعہ کے ناظم تھے۔) نے مجھے حکماً فرمایا کہ بیٹا آپ جمعہ پڑھاؤ۔ ابتدائی دور طالبعلمی میں جامعہ سلفیہ کے اسٹیج پر جمعہ پڑھانے کی سعادت حاصل ہے۔ 65ء 66ء کی بات ہے۔ ثالثہ سے خامسہ کے دوران جمعہ پڑھا دیا۔ پھر جب گوجرانوالہ میں گیا تو مضافات سے بھی کوئی جمعہ کے حوالے سے آتا تو مولانا بنیامین صاحب رحمہ اللہ   ہم دو ساتھیوں میں سے ایک کو بھیجا کرتے تھے۔ ایک شاہ صاحب تھے ،(فوت ہوگئے ) اور دوسرا میں۔کبھی کبھی مولانا بنیامین صاحب نہ ہوتے تو اکثر ان کی عدم موجودگی  میں ، میں جمعہ پڑھاتا تھا۔

جب ادارہ علوم اثریہ کی بنیاد رکھی تو پہلے یہاں مولانا محمد جہلمی صاحب جمعہ پڑھاتے تھے۔وہ جب ادارہ سے فارغ ہوکر چلے گئے تو ان کے بعد سے 71ء 72ء سے جمعہ میں پڑھاتا رہا۔درمیان میں کچھ عرصہ قریب ہی ایک محلہ ہےوہاں مولانا عبداللہ رحمہ اللہ  کے اشارہ پر پڑھایا، اس کا بھی ایک سبب تھا، ساری باتیں نہیں بتلائی  جاتیں۔لیکن جب دوبارہ اس ادارے کی تعمیرِ نو ہوئی تو پھر مولانا اسحاق چیمہ صاحب رحمہ اللہ  نے کہا کہ آپ یہاں آجائیں۔ تو اب تک اسی وقت سے جمعہ پڑھا رہا ہوں۔

بزم ادب مدارس میں ہوتی ہے۔ اس میں تقریریں کرتے تھے، اسی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جھجھک ختم کردی تھی۔ ان بزموں کی برکت سےہی یہ فائدہ ہوا۔اور باقاعدہ اس بزم کی نگرانی اساتذہ کیا کرتے تھے۔اور یہ جامعہ سلفیہ میں ہر جمعرات کو ہوا کرتا تھا۔

طلبہ کے لئے نصیحت : اس میں شریک ہونا چاہئے اس میں کبھی بھی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جو ان مجالس میں شریک نہیں ہوا وہ بعد میں بھی جھجھک کا شکار ہی رہتا ہے۔

سوال  :  کیا جامعہ سلفیہ میں اس دور میں بھی طلبہ کے لئے ہفتہ وار تقاریر کی تربیت کا انتظام ہوتا تھا۔

الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب :   جی ہاں بالکل!بلکہ ہمارے دور میں’’ ناد ِعربی‘‘  میں عربی میں بھی تقاریر ہوتی تھیں۔مولانا محمود غضنفر رحمہ اللہ  اس کے منتظم ہوتے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ آپ عربی میں تقریر کریں۔ ہم نے کہا کہ اردو میں ہمیں آتی نہیں اور آپ عربی میں تقریر کرنے کا کہہ رہے ہیں!! حالانکہ میں اس وقت دیوبندی تھا۔ (یہاں بات کاٹتے ہوئے سوال کیا کہ آپ دیوبندی حیاتی تھے یا مماتی،جواب میں فرمانے لگے کہ اس وقت ان چیزوں کا پتہ نہیں ہوتا تھا۔) لیکن وہ کہنے لگے کہ تم نے ضرور تقریر کرنی ہے ،مجھے شرارت سوجھی میں نے نماز کے حوالے سے ایک دو آیات و احادیث بیان کرکے پھر صحیح ابن خزیمہ کی روایت وضع یدہ علی صدرہ والی روایت کے بارے میں ، میں نے کہا کہ یہ روایت صحیح نہیں۔ ہاتھ ناف کے نیچے باندھنے چاہئیں۔ اور اس پر ہنگامہ ہوگیا اور صدر نے بھی لتاڑنا شروع کردیا اور میرے پاس عربی کے الفاظ ختم ہوگئے، وہ عربی میں بات کررہے ہیں اور میں اردو میں۔میں نے کہا کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ یہ بات بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی حتیٰ کہ ناظمِ جامعہ کے پاس پہنچی، میرے پاس اس وقت خلاصۃ تہذیب الکمال تھی،  میں نے کہا کہ مؤمل بن اسماعیل کا ترجمہ پڑھو، ان کو امام بخاری رحمہ اللہ  نے منکر الحدیث کہا ہے۔ آٹھویں کلاس میں ایک طالب علم پڑھتے تھے حافظ قدرت اللہ صاحب ،وہ کہنے لگے کہ یہ ضمیر کا مرجع قریب ہوتا ہے یہ اس دوسرے راوی کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کو اس فن کا بالکل پتہ نہیں ہے۔ آپ اس میں حصہ بالکل نہیں لیں۔وہ ناراض ہوگئے حتی کہ مجھے کتاب چھوڑکر کمرے سے بھاگنا پڑا کہ کہیں میری پٹائی نہ شروع کردیں۔ اتنی تلخی شروع ہوگئی ،حافظ قدرت اللہ صاحب وہ کتاب لے کر عثمانی صاحب کے پاس چلے گئے اور کہنےلگے کہ وہ جو ارشاد (حنفی) آیا ہے، آج اس کے ساتھ یہ بات ہوئی ، وہ کہنے لگے اس نے بات صحیح کہی تم غلط کہہ رہے ہو۔

سوال  :  کتابیں جمع کرنا بڑامشکل  کام ہے۔ آپ نے کتابیں کیسے جمع کیں؟

الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب :  کتابیں جمع کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ بہت مشکل سے دانے ملتے ہیں  اور کبھی کبھی ملتے ہیں۔ جب ادارہ نیا نیا شروع ہوا تو مولانا اسحاق چیمہ صاحب رحمہ اللہ  مجھے اور خالد سیف صاحب کو پیسے دیتے تھے کہ لاہور سے جاکر کتابیں لے کر آؤ۔ ہم جاتے تھے اور ہمارے کام کی کوئی کتاب نہیں ہوتی تھی، ایک دو کتابیں ملتی، باقی ویسے ہی خالی ہاتھ آجاتے۔ اس لئے کہ ہر کتاب تخصص کے لئے ضروری نہیں ہوتی تھی۔ وہاں کتاب وہ چاہئے تھی جو مرجع کی حیثیت رکھتی ہو۔

سوال : آج کل آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟

الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب :  ادارہ علوم اثریہ میں مصروفیت جو ہے اس سے تو آپ واقف ہی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ جامعہ تربیہ میں تدریس کررہے ہیں، اور اس کی بھی ترتیب یہ ہے کہ پہلے شرح نخبۃ پڑھاتا ہوں یہ ختم ہوتو تدریب الراوی اور اس کے ساتھ الجرح والتعدیل اور اس کے بعد دراسۃ الاسانید اور تخریج کا طریقہ۔ اور اس حوالے سے میں کتاب سے نہیں پڑھاتا بلکہ میرے اپنے نوٹس ہیں کہ کتب تخریج کون سی ہیں اور احادیث تلاش کرنے کا طریقہ اور رجال کے حوالے سے۔

سوال  :  اپنے اسفار کے حوالےسے کچھ بتائیں۔

الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب :  الحمدللہ کئی بار حج کیا ۔ اور امریکہ، برطانیہ ،سعودیہ ،دبئی، بحرین، کویت سمیت کئی ایک ممالک کے اسفار کئے۔

سوال : آپ نے متعدد کتب تصانیف کیں، سب سے پہلی کتاب کون سی تھی، اور مزید کچھ تصانیف کے حوالے بتلائیں۔

الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب :   عربی میں میری سب سےپہلی کتاب اعلام اہل العصر ہے، اس کے بعدالعلل المتناھیہ ہے۔ اردو میں سب سے پہلے امام دارقطنی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے۔ اس کے بعد اصحاب ستہ اور ان کے مؤلفین ۔یہ دارالفکر سے چھپی تھی، اب تو یہ بالکل نایاب ہے۔ میں ایک شخص کا نام نہیں لینا چاہتا ،بڑے ماشاء اللہ فاضل اور صاحب علم ہیں ،انہوں نے مجھے خود بتلایا ،انہوں نے ایم اے بھی کیا تھا کہنے لگے کہ ایم اے کا جو میرا موضوع سکوت ابی داؤد پر تھا۔مجھے کوئی محنت نہیں کرنی پڑی، بس سارا مواد جو آپ نےصحاح ستہ اور انکے مؤلفین کے ترجمے میں لکھا ہے اس سارے کو مرتب کیا اور دے دیا اور ڈگری مل گئی ،میرے اچھے نمبر آئے۔ پھر انہوں نے خود کہا اس کو دوبارہ ہی شائع کر دو۔میں نے کہا کہ حافظ صاحب وہ دور 72ء 73ء کا اب بات 2015ء کی۔ 40سال کا عرصہ گزر گیا اب دوبارہ یہ کام کریں تو اس حوالے سے بہت مواد ہے۔میں نے اس وقت النکت قلمی لکھی تھی میں نے سارا مواد النکت سے لیا تھا۔اور النکت لینے کی بھی ایک داستان ہے ۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ اب طالبعلموں کو وہ شوق اور جذبہ نہیں ہے۔ سید بدیع الدین شاہ صاحب رحمہ اللہ  کا جو نسخہ تھاپنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر(مجھے ان کا نام یاد نہیں۔) نے اس سے انہوں نے یہ کتاب نقل کروائی ڈاکٹریٹ کے لئے مجھے یہ بات عطاء اللہ حنیف صاحب رحمہ اللہ   نےبتائی کہ فلاں پروفیسر کے پاس یہ النکت کا نسخہ ہے ۔اب میں مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب رحمہ اللہ   کے پیچھے پڑگیا کہ مجھے لے کر دیں، میں جلدی واپس کردوں گا ، مجھے وہ منظر اب بھی یاد ہے، مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب رحمہ اللہ   مغرب کی نماز کے بعد ان کےپاس گئے وہ اندرون بھاٹی گیٹ رہتے تھے۔ ان کے پاس جاکر میری بات کہی ، وہ مولانا عطاء اللہ حنیف کی بات رد نہیں کرسکتا تھا۔ کیونکہ سید بدیع الدین شاہ صاحب رحمہ اللہ  کے پاس سے نسخہ لے کر دینے والے بھی مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب رحمہ اللہ   تھے۔ تو وہ رد نہ کرسکا اور اپنا نسخہ بھیج دیا۔ وہ النکت کا نسخہ ایک مہینے میں پڑھنے سے فارغ ہوکر سردیوں کے دن تھے۔ راتوں میں نقل کیا۔توضیح الکلام کا پہلا ایڈیشن صحاح ستہ کے مباحث میں سکوت ابی داؤد کی بحث میں نے اس سے نقل کی۔ اسی کے حوالے دئیے۔ دوسرے ایڈیشن تک مطبوع ہوگئی تھی پھر اس مطبوع کے حوالے دئیے تھے۔ میں نے وہ نقل کیا تھا نیلی سیاہی سے کا لی سیاہی سے نہیں۔

کالی سیاہی اور نیلی سیاہی:

ہمارے لیاقت پور میں ایک حکیم صاحب تھے فوت ہوگئے وہ مولاناعبداللہ صاحب کھپیانوالی کے شاگرد تھے( مولانا عبداللہ صاحب رحمہ اللہ  بہت صاحب علم تھے۔ جب مولانا عبدالرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ  جب  تحفۃ الاحوذی لکھ رہے تھے تو انہوں نے اونٹ کے کجاوے پر کتابیں رکھ کر تعاون کے لئے ان کے پاس مبارکپور بھیجی تھیں۔اس کاحوالہ مولانا عبدہ صاحب رحمہ اللہ  بھی اور وہ حکیم صاحب  رحمہ اللہ  بھی دیتے تھے۔ساہیوال میں ان کے فرزند حافظ عبدالمنان  رحمہ اللہ تھے ،وہ بھی فوت ہوگئے۔ مولانا عبدالرحمان مبارکپوری  رحمہ اللہ کے بعض رسائل مولانا عبداللہ کھپیانوالی  رحمہ اللہ نے چھپوائے۔ آپ کبھی تحفۃ الاحوذی کا پہلا طبع کا نسخہ دیکھیں۔ پہلے نسخے کے آخری صفحے پر یہ لکھا ہے کہ مولانا عبداللہ کھپیانوالی رحمہ اللہ  سے یہ کتاب مل سکتی ہے اور ان سے یہ  یہ کتاب مل سکتی ہے۔) ان کو یہ نقل کردہ کتاب دکھائی تو انہوں نے النکت کو نقل کرنے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ نے اچھا کام کیا لیکن نیلی سیاہی سے نہیں بلکہ کالی سیاہی سے لکھنا تھا۔ اس لئے کہ نیلی سیاہی تھوڑے عرصے بعد مدہم ہوجاتی ہے اور کالی سیاہی مدہم نہیں ہوتی۔ یہ بات مجھے انہوں نے بتا ئی تھی اور اس کے بعد میں نے کبھی نیلی سیاہی استعمال نہیں کی۔

ہماری یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ عشاء کی اذان کی آواز آنے لگی اور یہیں ہماری یہ مجلس اختتام پذیر ہوئی ورنہ شاید ابھی بہت کچھ تھا ، جو شیخ ارشاد الحق اثری صاحب حفظہ اللہ   کی شخصیت کے حوالے سے دلچسپ معلومات پر مبنی ہوتا ۔ البتہ آخر میں شیخ صاحب کی تصانیف کے حوالے سے کچھ مزیدمعلومات پیش کئے دیتے ہیں، تصانیف کے حوالے سے مذکورہ بالا گفتگو تو شیخ ارشاد الحق اثری صاحب حفظہ اللہ   سے ہوئی تھی ، وہ اشارتاً چند ایک کتب کے حوالے سے گفتگو کرگئے ورنہ شیخ اثری صاحب  حفظہ اللہ    کی کتب کی تعداد کم و بیش 50 تک پہنچ چکی ہے،اور جن پر ہم مطلع ہوسکے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

تحقیق و تخریج کے حوالے سے مسند ابی یعلی، مسند سراج، جزء رفع الیدین کی تخریج جلاء العینین پر کام، تبیین العجب فی فضائل شھر رجب للحافظ ابن حجر، العلل المتناھیۃ پر تحقیق کا کام کرچکے ہیں، اور العلل المتناھیۃ وہ کتاب ہے کہ اس کا ذکرکرتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ نے الضعیفۃ میں شیخ صاحب کے لئے الاستاذ کے الفاظ استعمال فرمائے۔

اوراردو زبان میں بھی مختلف موضوعات پر کتب لکھیں، مثلاً

تفاسیر میں :

تفسیر سورۃ فاطر، تفسیر سورۃ ق وغیرہ منظر عام پر آچکی ہیں۔ اورتفسیر سورہ یس زیر طبع ہے اور تفسیر سورۃالصٰفٰت زیر قلم ہے۔

اسی طرح جب بھی کسی نےباطل فکر کی ترجمانی کی اس کی سرکوبی اور مسلک حق کے دفاع کے لئے شیخ  حفظہ اللہ نے اپنے قلم کو حرکت دی ۔

فیصل آباد کے قریب ایک شخص جو بظاہر اہل حدیث تھالیکن شیعی افکار رکھتا تھا، ان کانام لئے بغیر صحابہ کے فضائل ،مقام اور مشاجرات سے متعلق تین کتب لکھیں۔

غامدی نے موسیقی کو جائز قرار دینے کی ناکام کوشش کی تو ایک کتاب بنام ’’ اسلام اور موسیقی شبہات اور مغالطات کا ازالہ ‘‘لکھی۔ اس کتاب کے جواب میں مزید اعتراضات ماہنامہ اشراق میں کئے گئے تو ’’ اسلام اور موسیقی اشراق کے اعتراضات کا جائزہ ‘‘ لکھی۔

حبیب الرحمان کاندھلوی نے اپنی کتاب مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت کے نام سے لکھی جس میں صحیح بخاری کی احادیث کو نشانہ بنایا گیا، اس کا جواب شیخ صاحب نے ’’احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔مزید دفاع صحیحین  کے بارے میں کتب بھی لکھی۔

سرفراز صفدر صاحب کی 27 کتب کا مطالعہ کرکے تبصراتی طور پر مدلل تنقید کی اور کتاب کانام رکھا’’ مولانا سرفراز صفدر صاحب اپنی تصانیف کے آئینے میں‘‘ اس کے جواب میں ان کے بیٹے عبدالقدوس قارن صاحب نے ’’مشہور غیر مقلد ارشاد الحق اثری کا مجذوبانہ واویلا ‘‘کے نام سے کتاب لکھی ،جس کا جواب شیخ صاحب نے اس نام سے دیا ’’کہ آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے ۔‘‘

اس کے علاوہ احادیث الھدایۃ فنی وتحقیقی حیثیت ،اسباب اختلاف الفقہاء سمیت توضیح الکلام، تنقیح الکلام اور تائید تنقیح الکلام فاتحۃ خلف الامام کے مسئلے پرانسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور کچھ عرصہ قبل ہی ایک کتاب ’’ اعلاء السنن فی المیزان ‘‘ لکھی۔ شیخ صاحب نے مذکورہ کتاب میں ان اصول و قواعد کی خبر لی ہے جو تصحیح و تضعیف احادیث میں صاحب اعلاء السنن اختیار کرتے ہیں۔

یقیناً اس کے علاوہ بھی دیگر کتب ہیں ،البتہ یہاں انہی کا ذکر مناسب سمجھا ہے جن پر مطلع ہوسکے ہیں۔اللہ تعالیٰ استاذ محترم کو طویل عمر عطا فرمائے۔ ہر قسم کے شر اور آفت سے انہیں محفوظ رکھے، اور مزید ان سے یہ علمی کام لیتا رہے اور اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے۔ آمین

سبحانک اللھم و بحمدک اشھد ان لا اله الا انت استغفرک و اتوب الیك

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ ڈاکٹر حافظ محمد یونس اثری حفظہ اللہ