رمضان کے آخری عشرے کی تیاری

رمضان المبارک کے آخری عشرے کی تیاری

پہلا خطبہ

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں رمضان کے آخری عشرے تک پہنچایا اسے نیکیوں اور نمایاں فضیلتوں کا موسم بنایا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ ایسی گواہی جو دلوں کو روشن کر دے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

وہ سب سے افضل ہستی ہیں جنہوں نے سحر کے پاکیزہ اوقات میں اللہ کے حضور میں سجدے کیے۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کی آل اور اولاد پر اور آپ کے صحابہ کرام پر جب تک زمانوں اور سالوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہے۔

اما بعد!

میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ کے تقوی کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ یہ سب سے بہترین زادِ راہ اور حشر و قیامت کے دن نجات کا ذریعہ ہے۔ جو شخص تقوی کو اختیار کرے گا وہ امن و امان اور اجرِ عظیم سے سرفراز ہوگا۔ رمضان اپنے اختتام کے قریب ہے، اپنی روانگی کی تیاری کر رہا ہے، اس کے دین تیزی سے گزر رہے ہیں اور اس کی راتیں رخصت ہونے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے رہی ہیں، اس کی سب سے عظیم دس نورانی راتیں آچکی ہیں، اس کا ہر لمحہ خزانہ، اس میں ہر سجدہ بلندی کا سبب، ہر گھڑی رحمت سے بھرپور اور برکت سے مامور ہے۔ ان راتوں میں اللہ کی مہربانی جلوہ گر ہوتی ہے، جہنم سے آزادی کے دروازے کھلتے ہیں اور مغفرت و بخشش نازل ہوتی ہے۔

انہی راتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ محنت کرتے تھے۔ ایسی محنت جو دوسرے وقتوں میں نہیں کرتے تھے۔ آْپ ﷺ قیام کرتے رہتے ، تہجد پڑھنے کا اہتمام کرتے، دعائیں کثرت سے کرتے گویا کہ یہ آخری موقع ہو کیونکہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ ان راتوں میں ایک رات شب قدر ہے۔

 وہ رات (شب قدر) کہ جس میں اللہ نے قرآن نازل فرمایا، وہ رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ کیا ہی عظیم بخشش اور کیا ہی بے پناہ رحمت ہے۔ ایک رات جو گناہوں کو مٹا دیتی ہے، خطاؤں کو معاف کر دیتی ہے اور روحوں کو بلندی عطا کرتی ہے یہاں تک کہ وہ مخلصین کے مقام تک پہنچ جاتی ہے۔

اے روزہ دار! یہ قربتِ الہی کی راتیں ہیں۔ ان میں بوقتِ سحر خشوع و خضوع کے آنسو بہائے جاتے ہیں، رات کی خاموشی میں توبہ کی سرگوشیاں کی جاتی ہیں اور غفار کے سامنے عاجزی و انکساری کے لمحات ہوتے ہیں۔ جس شخص نے ان راتوں کو ضائع کر دیا اس نے رمضان کی سب سے قیمتی دولت کھو دی اور جس نے اس کی پرواہ نہ کی اس نے ایک ایسا موقع گنوا دیا جو کبھی واپس نہیں آئے گا۔ جس نے رمضان کے ابتدائی دنوں میں کوتاہی کی تو یہ آخری عشرہ تمہارے سامنے ہے، ابھی وقت ہے کہ پچھلی کوتاہی کی تلافی کر لو اور ان مبارک لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھاؤ اس سے پہلے کہ حسرت سے کہو کاش! میں نے اپنی زندگی کے لیے کچھ تیاری کی ہوتی۔

یہ وہ راتیں ہیں جن میں بندہ اپنے رب سے سرگوشیاں کرتا ہے، توبہ کرنے والا گناہوں پر ندامت کے آنسو بہاتا ہے، دل کے خشوع کے ساتھ قرآن کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور خطائیں مٹائی جاتی ہیں یہاں تک کہ اللہ کی رضا اور قرب حاصل ہو جاتا ہے۔

کتنے ہی لوگ ہیں جو اللہ سے دور تھے لیکن ان راتوں نے انہیں روشنی کی طرف لوٹا دیا، کتنے ہی غافل تھے جنہیں ان راتوں نے غفلت کی نیند سے جگا دیا اور کتنے ہی گنہگار تھے کہ اللہ کے سامنے توبہ کے آنسوؤں نے جن کے گناہوں کو دھو دیا پس مبارک ہو اسے جس نے ان راتوں کو اپنی زندگی کا نکتہ انقلاب بنا لیا اور افسوس ہے اس پر جو ان سے غافل ہے یہاں تک کہ راتیں گزر گئیں۔

عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ1

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ( رمضان کا ) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ اپنا تہبند مضبوط باندھتے ( یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے ) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔

آپ کی راتیں عام دنوں جیسی نہ ہوتی بلکہ عبادت سے بھرپور اور ذکر سے مامور ہوتی تھی، اپنی کمر کس لیتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت میں خاص محنت کرتے اور دنیا سے کنارہ کش ہو جاتے۔ ان مبارک راتوں میں آپ ﷺ کو نہ آرام کا وقت ملتا نہ غفلت کا کوئی موقع بلکہ آپ ﷺ اللہ کے سامنے رکوع و سجدے، دعا اور گریا و زاری میں مشغول رہتے۔ صرف اپنی عبادت نہ کرتے بلکہ اپنے اہلِ خانہ کو بھی جگاتے اور انہیں ان قیمتی لمحات سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

 وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ2

سبقت لے جانے والوں کو اسی میں سبقت کرنی چاہیے۔

جب رات اپنی چادر تان لیتی ہے اور آنکھیں نیند میں مدہوش ہو جاتی ہیں تو رحمت اور غفلت کی راضی روحیں بیدار ہوتی ہیں، وہ اپنے رب کے حضور اشکبار ہو کر سرگوشی کرتی ہیں، تلاوت کی مبارک صداؤں سے فضا معمور ہو جاتی ہے، یہ کلمات آسمانوں تک جا پہنچتے ہیں اور امید کی چادر میں ملبوس ہوتے ہیں۔

پس اے وہ شخص! جسے گناہوں نے بوجھل کر دیا اور خطاؤں نے تھکا دیا یہ معافی کا وقت ہے، یہ سبقت لے جانے کا میدان ہے لہذا! اٹھو، توبہ کرو اور اس موقع کو غنیمت جانو اس سے پہلے کہ دروازے بند ہو جائیں۔ دعاؤں کا دروازہ کھلا اور اللہ کی عطاؤں کی کوئی حد نہیں۔ ذکرِ الہی روح کے لیے سکون اور دل کے لیے راحت کا باعث ہے صدقات بے حد برکات اور عظیم اجر کا سبب ہے۔ یہ اعتکاف دل کی صفائی، چنیدہ بننے اور ایمان کے ساتھ عہد کو تازہ کرنے کا موقع ہے ۔ پس اے خیر کے طلبگار! یہی اس کا وقت ہے اور اے قرب الہی کے متلاشی! یہی اس کی گھڑی ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

 فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ3

تم نیکیوں کی راہ میں سبقت کرو۔

اللہ نے لیلۃ القدر کے بارے میں فرمایا:

سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ4

یہ رات سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک رہتی ہے۔

یہ ایک مختصر آیت ہے جو معنی کے ایک وسیع سمندر کو اپنے اندر سمیٹی ہوئی ہے جو اپنے اندر ہر قیام کرنے والے ، عبادات میں محنت کرنے والے، ہر دعا مانگنے والے اور اللہ کے سامنے گڑگڑانے والے کے لیے خیر اور سلامتی کا پیام سموئی ہوئی ہے۔

 اس رات میں سلامتی سے مراد ایک ایسا سکون ہے جو دلوں پر چھا جاتا ہے، ایسا اطمینان ہے جو نفسوں کو گھیر لیتا ہے، سزا سے امن و امان فراہم کرتا ہے اور ایک ایسی رحمت ہے جس کے بعد کوئی بدبختی نہیں، یہ اللہ کی طرف سے سلامتی ہے، فرشتوں کی طرف سے سلامتی ہے۔ ایک ایسی سلامتی جو زمین اور اس پر بسنے والوں کو گھیر لیتی ہے، مومنوں کے دل اطمینان اور عافیت سے بھر جاتی ہے پھر نہ کوئی خوف ہوتا ہے نہ کوئی پریشانی نہ وحشت اور نہ کوئی تنگی رہتی ہے۔

جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

 اللہ اس رات میں صرف سلامتی، اطمینان اور عافیت ہی مقدر کرتا ہے۔ پس جس کے حق میں اس رات میں خیر و بھلائی لکھ دی گئی وہ ہمیشہ کے لیے خوش نصیب ہو گیا اور جس سے محروم رہ گیا وہ حسرت و ندامت کی تاریکیوں میں ڈوب گیا۔

سلامتی ہے فجر کے طلوع ہونے تک۔ یہ ایک مسلسل سلامتی ہے جو آدھی رات میں منقطع نہیں ہوتی اور نہ ہی رات کے آخری وقت میں ختم ہوتی بلکہ فجر کے طلوع  ہونے تک باقی رہتی ہے گویا کہ اللہ اپنے بندوں کو مہلت دیتا ہے، ان کے لیے امیدوں کے دروازے آخری لمحے تک کھولے رکھتا ہے، انہیں موقع دیتا ہے کہ وہ اس سے دعائیں مانگ لیں، اس سے مغفرت طلب کریں اور اپنے گناہوں سے پاک ہو جائیں۔

یہ ایک ایسی رات ہے جس میں عطا اور بخشش ختم نہیں ہوتی اور رحمتیں منقطع نہیں ہوتیں اس شخص کے لیے جو دل سے رجوع کرے اور روح اور اخلاص کے ساتھ اللہ سے گڑگڑائے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

 وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ5

ہاں بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں، ایمان لائیں، نیک عمل کریں اور راہ راست پر بھی رہیں

یہ وہ رات ہے جو آپ کی قسمت بدل سکتی ہے، یہ ماضی کے گناہوں سے بوجھل زندگی اور توبہ کی روشنی سے منور مستقبل کے درمیان حدِّ فاصل بن سکتی ہے۔ یہ وہ رات ہے جو آپ کے درجات بلند کرتی ہے ، آپ کے گناہوں کو مٹاتی ہے اور آپ کی حالت کو غفلت سے ہدایت کی طرف، دوری سے قربت کی طرف بدل دیتی ہے۔

عقل مند شخص اس رات کو غفلت میں گزرنے نہیں دیتا اور نہ ہی ایسی چیزوں میں مشغول ہو کر ضائع کرتا ہے جو فائدہ مند نہ ہوں بلکہ وہ اپنے رب کے سامنے عاجزی اور خوشی اور خضوع کے ساتھ  کھڑا ہوتا ہے، اس سے بخشش طلب کرتا ہے اور یقین کے ساتھ یہ دوہراتا ہے۔

اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي

اے اللہ! تو بہت معاف کرنے والا ہے، معافی پسند کرتا ہے پس تو مجھے معاف کر دے۔

اور میں اپنی باتیں ختم کرتا ہوں اور اپنے لیے اور آپ سب کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ ہم سب خطا کار ہیں۔ اس سے مغفرت طلب کریں بے شک وہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس کا یہ فرمان ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ6

یقیناً ہم نے اسے (قرآن کو) شب قدر میں نازل فرمایا۔

اور میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ جس نے مغفرت اور اجر کے حصول میں سبقت لے جانے پر رغبت دلائی اور میں گواہی دیتا ہوں ہمارے سردار و نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں وحی اور اس کی رسالت کے ساتھ چُنا گیا۔ اللہ تعالی آپﷺ پر، آپ کی آل و اولاد پر اور صحابہ کرام پر اور احسان کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں پر بھی رحمتیں نازل فرماتا رہے جب تک لیل و نھار کا سلسلہ جاری رہے۔

اما بعد!

میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں وہی سب سے بہتر زادِ راہ ہے اور وہی سعادت مندی اور رشد و ہدایت کا عنوان ہے۔ قدر والی مبارک رات میں بندوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، ان کی تقدیریں لکھی جاتی ہیں اور اللہ تعالی اپنی حکمت و دانائی سے اپنی مخلوق کے معاملات کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے ۔

ارشادِ باری تعالی ہے:

 فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ7

اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

اسی رات میں رزق مقدر کیے جاتے ہیں، عمریں لکھی جاتی ہیں، آئندہ سال میں وقوع پذیر ہونے والے امور کی تعیین کی جاتی ہے۔ جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اسے چاہیے کہ دل کے خشوع  و خضوع کے ساتھ اپنے پروردگار کے سامنے گریا و زاری کرے ۔

اور اللہ سبحانہ و تعالی نہایت کریم ذات ہے۔ وہ خلوصِ نیت کا اور صدقِ قلب سے آنے والوں کو نامراد نہیں کرتا۔

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: 

اللہ کے رسول! اگر مجھے شب قدر مل جائے تو کیا دعا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دعا کرو

اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي8

اے اللہ! تُو معاف کرنے والا ہے اور معافی و درگزر کو پسند کرتا ہے پس تُو مجھ کو معاف فرما دے۔

 اللہ کے بندوں! ہدایت والے اور کائنات کے سب سے افضل نبی پر بکثتر درود و سلام پڑھو۔ اس ہستی پر درود پڑھو جن کا تذکرہ رب کائنات نے خود کیا ہے اور جنہیں عزت بخشی اور ان کا انتخاب کیا۔ کوئی بھی مجلس ان کے (آپ ﷺ) تذکرے کے بغیر پُررونق نہیں ہوتی اور روحیں انکی محبت کے بغیر سعادت مند نہیں ہوسکتیں اور جو ان پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ اس پر دس بار رحمتوں کا نزول فرماتا ہے۔

اے اللہ! اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل و اصحاب پر رحمت کا نزول فرما۔ اے اللہ! اسلام کو غلبہ عطا فرما۔ اے اللہ! اسلام کو غلبہ عطا فرما ، مسلمانوں کی مدد فرما ، کفر اور اہل کفر کو ذلیل و رسوا فرما اور تیرے دین کے دشمنوں کو رسوا کر دے۔

اے اللہ! اس ملک کو اور تمام مسلم ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنا دے۔

اے اللہ! ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور ہر ایسے قول و فعل کی توفیق کا سوال کرتے ہیں جو ہمیں جنت سے قریب کر دے۔ اے اللہ! ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں اور ہر ایسے قول و فعل سے پنا مانگتے ہیں جو ہمیں جہنم سے قریب کر دے

اے اللہ! ہم تجھ سے ہر بھلائی کا سوال کرتے ہیں چاہے جلدی ملنے والی ہو یا دیر سے، ہم اسے جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں اور ہر اس برائی سے پناہ مانگتے ہیں جو جلدی آنے والی ہو جسے ہم جانتے ہوں یا  نہ جانتے ہوں۔

اے اللہ! ہمارے رب! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، ہماری تائید کر، ہمارے خلاف کسی کی تائید نہ کر۔ اے اللہ! ہماری مدد فرما۔

اے اللہ! فلسطین پر جو مصیبت اور تکلیف آئی ہے اس کو تُو جانتا ہے اور اسے دُور کرنے پر قادر ہے۔ اے ہمارے رب! ان کی مصیبت اور تکلیف کو دور فرما، اے اللہ! وہ  بھوکے ہیں انہیں کھانا مہیا فرما، ننگے بدن ہیں انہیں لباس عطا فرما، مظلوم ہیں انہیں فتح یاب فرما۔ اے اللہ! تُو انہیں اور انکے دشمن ظالم صیہونی یہودیوں کے خلاف ان کی مدد فرما۔  

اے اللہ! ہمارے امام خادمِ حرمین شریفین کو انکے ولی عہد کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق عطا فرما، ان کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو نفع پہنچا اور تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی کتاب قران مجید پر عمل کرنے اور شریعت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما۔

اے اللہ! ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچا۔

بے شک اللہ تعالی عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے ،بے حیائی اور برائی سے منع فرماتا ہے اور یقینا اللہ سب سے بڑا ہے اللہ کو یاد کرو اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

خطبہ جمعہ، مسجد نبویﷺ

21 رمضان المبارک 1446ھ بمطابق 21 فروری 2025

فضیلۃ الشیخ: عبد الباری بن عواض الثبیتی حفظہ اللہ

____________________________________________________________________________________________________________________________

  1. (صحیح بخاری: 2024)
  2. (سورۃ المطففین: 26)
  3. (سورۃ البقرۃ: 148)
  4. (سورۃ القدر: 05)
  5. (سورہ طہ: 82)
  6. (سورۃ القدر: 01)
  7. (سورۃ الدخان: 04)
  8. (سنن ابن ماجہ: 3850)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ 

مسجد نبوی کے معروف خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ داکٹر عبدالباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ کا ہے ، جن کے علمی خطبات ایک شہرہ رکھتے ہیں۔