سدومیت یا ہم جنس پرستی

Sodomiat-Ya-Hamjins-Parastu

پہلا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں ۔ ہم اُ س کی حمد بیان کرتے ہیں اور اُسی سے مدد طلب کرتے ہیں اور اُسی کی مدد چاہتے ہیں۔اور ہم اپنے بُرے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دے اُسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتااور وہ جسے گمراہ کردے اُسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ اور  میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ،وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردا ر نبی کریم محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔درود و سلام نازل ہو اُن پر ،اُن کے تمام آل و اصحاب پر ،تابعین پر۔

امابعد !

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔

اے لوگو! اللہ سے ڈرو ۔اُس رب سے جو تمہارا رب ہے اور جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیااور پھر اُس سے اُس کی بیوی کو پیدا کیا۔ اور پھر اُن دونوں سے بہت سارے مردوں اور عورتوں کو پوری دنیا میں پھیلایا۔ تم اللہ سے ڈرو جس سے تم مانگتے ہو۔ اور رشتوں اور ناتوں سے متعلق اُس سے ڈرو۔یقیناً وہ تمہارے اوپر نگران ہے۔

اے لوگوں جو ایمان لائے ! اللہ سے ڈرو اور سیدھی ،سچی بات کیا کرو،تمہارے اعمال دُرست کردے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا ۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے تو اُس نے یقینا ً بڑی کامیابی حاصل کرلی۔

حمد و ثنا  کے بعد!

یقیناً سب سے بہتر سچی بات اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،اور سب سے بہتر طریقہ نبی اکرم ﷺ کا طریقہ ہے ۔اور سب سے بُری بات دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرنا ہے ۔اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

اے لوگو! یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہیں آدمیت کی نسبت دے کر شرف بخشا اور تمہیں فطرتِ حنیفی پر پید اکیاا ور جسم کی حفاظت کے لئے ظاہری لباس کےساتھ ساتھ ہدایت ،تقویٰ اور رہنمائی کا لباس بھی نازل فرمایااور تمہارے والدین کے ساتھ شیطان کے فتنے کو تمہیں یاد دلایاتاکہ تمہارے تئیں اُس کی عداوت و دشمنی ،باطنی خباثت اور اُس کی اطاعت سے ہونے والی ذلت و رسوائی سے تمہیں آگاہ کردے اور انسانوں کو ننگا کرنے اوراُس کی شرمگاہوں کو کھولنے کے اُس کے مقصد کو واضح کردے ۔

وہ ایسا اس لئے چاہتا ہے  تاکہ انسانی طبیعت نہ صرف یہ کہ اُس سے قانع ہوجائے اور وہ اُس پر عمل کرنے لگے بلکہ وہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی دعوت دے اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی زینت کے بارے میں لوگوں کو جھوٹی بات بھی بتائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ‎﴿٢٧﴾‏ وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ ‎

الأعراف – 26/27/28/29

اے آدم (علیہ السلام) کی اوﻻد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔ اے اوﻻد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کرا دیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وه ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔ وه اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو۔ ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں ﻻتے۔ اور وه لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریق پر پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی بتایا ہے۔ آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ فحش بات کی تعلیم نہیں دیتا، کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے؟۔ آپ کہہ دیجیئے کہ میرے رب نے حکم دیا ہے انصاف کا اور یہ کہ تم ہر سجده کے وقت اپنا رخ سیدھا رکھا کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طور پر کرو کہ اس عبادت کو خالص اللہ ہی کے واسطے رکھو۔ تم کو اللہ نے جس طرح شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم دوباره پیدا ہوگے۔

اللہ تعالیٰ نے ایک جماعت کو ہدایت دی اور دوسری جماعت کے حصے میں گمراہی آئی،بے شک اُن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے بجائے شیطانوں کو اپنا دوست اورمددگار بنالیااور اُن کا خیال تھا کہ وہ راہِ راست پر ہیں۔

ہر نبی اور اُس کی اُمت کے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے۔جو چوپایوں کی طرح اپنا حصہ حاصل کرتاہے۔اور اپنے عرش پر اپنا لشکر چاروں طرف پھیلاتاہے۔اور مخلوق کو اُن کے خالق سے دور کرتاہے۔اور اُنہیں بادشاہت ،جاہ ومال اور اپنی یاری کا جھانسا دے کر کفر کے جال میں پھنسا تا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

العنکبوت – 40

پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناه کے وبال میں گرفتار کر لیا، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پرظلم کرتے تھے۔

جب انسان کے اندر کسی گناہ کے اسباب کمزور ہوں لیکن پھر بھی وہ اُس گناہ کا ارتکاب کرے تو اُس کی قباحت بڑھ جاتی ہے،جیسے جھوٹا بادشاہ ،بوڑھا زانی اور متکبر فقیر۔ اِن میں سے کسی سے بھی اللہ تعالیٰ قیامت کےدن بات نہیں کرے گا اورنہ اُن کا تذکیہ کرے گااور اُن کےلئے دردناک عذاب ہوگا۔تو بھلا اُن لوگوں کا کیا ہوگاجو ایسی بُرائی کا ارتکاب کرتے ہیں جو نہ تو فطرت  کے تقاضوں کے مطابق ہےاور نہ ہی انسانی طبیعت اُس کی طرف مائل ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اِس بارے میں ہمیں لوط علیہ السلام کی قوم اہلِ سدوم کے بارے میں  نہایت بُری خبر سنائی ہے۔ اُن کے اندر کفر کےعلاوہ ایک ایسی بد کاری پائی جاتی تھی جو اُن سے پہلے کسی نے بھی نہیں کیا تھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ ‎﴿٢٨﴾‏ أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ‎﴿٢٩﴾‏ قَالَ رَبِّ انصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ

العنکبوت – 28/29/30

اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا بھی ذکر کرو جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم تو اس بدکاری پر اتر آئے ہو جسے تم سے پہلے دنیا بھر میں سے کسی نے نہیں کیا ۔ کیا تم مردوں کے پاس بدفعلی کے لیے آتے ہو اور راستے بند کرتے ہو اور اپنی عام مجلسوں میں بے حیائیوں کا کام کرتے ہو؟ اس کے جواب میں اس کی قوم نے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہا کہ بس جا اگر سچا ہے تو ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے دعا کی کہ پروردگار! اس مفسد قوم پر میری مدد فرما۔

اللہ تعالیٰ نے کفر کے بعد قومِ لوط کی بدکاری سے زیادہ کسی اور بدکاری کی مذمت نہیں کی ہےاور نہ ہی ہمیں کسی ایسے جرم کے بارے میں معلوم ہے جس کے اندر اُن کے اِس فعل سے بڑھ کر گھٹیا پن ،نیچ پن ،رذالت و گندگی پائی جائے۔مزید یہ کہ وہ اس فعل کو پوری جرت اور بے حیائی کے ساتھ انجام دیتے تھےجس کی مثال آج تک نہیں ملتی ۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ ہر قوم کے کچھ وارث ہوتے ہیں۔

اور یہ دیکھیں !آج اُن کے وارث پوری مکاری ، چالبازی اور بُرائی سے لیس ہوکراور اپنے ہمنواں کے ساتھ مل کرہر اُس شخص کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔جو اُن کی بدکاری کی مخالفت کرتاہے۔اگرچہ کفر میں وہ اُن کے بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔غرض یہ کہ فحاشی ہی اُن کی طبیعت ہےاور طہارت و پاکیزگی اُن کے دین میں جرم ہے۔جیساکہ اُن کےاسلاف نے بھی کہا تھا کہ تم لوگ لوط کے گھر والوں کو اپنی بستی سے نکال دو،اس لئے کہ یہ لوگ بڑے ہی پاک باز بنتے پھر تے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کے بارےمیں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جن کے اندر مردانگی اور نسوانیت ،دونوں پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے اندر مردانگی اور نسوانیت یا تو برابر برابرہوگی یا کوئی ایک صفت غالب ہوگی۔ایسی صورت میں وہ کسی ایک چیز کو اختیار کرنے کے لئے جائز اور مباح طریقہ اختیار کرسکتاہے ۔ لیکن ہمارا اختلاف دراصل اُن لوگوں سے ہے جن کی طبیعتیں ہی بگڑ چکی ہیں جس کی وجہ سے وہ صحیح راستے کو ترک کر کے قبیح اور مذموم راستہ اختیار کرتے ہیں۔ جس انسا ن کی بد بختی اُسے گمراہی پر امادہ کرے وہ بہت بڑے اور خطرناک گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ بدکاری دین ،اخلاق اور مروت کو ختم کردیتی ہے۔فطرت کو بگاڑ دیتی ہے۔دل اور چہرے کو سیاہ کردیتی ہے۔ اگر کوئی شخص اسے اچھی نگاہ سے دیکھتا ہے یا اُسے حلال سمجھتا ہے یا اُسے اللہ تعالیٰ کی حلا ل کردہ چیزوں کی طرح سمجھتا ہےاور اُس کے حکم کو انسانی صوابدید اورشخصی آزادی پر محلول کرتاہے تو وہ کھلم کھلا کفر اور صریح ارتداد کا مرتکب ہوگا ۔ اور ایسے شخص کو حاکم ِ وقت کے سامنے توبہ کروایہ جائےگا۔ اگر وہ توبہ کرلے توٹھیک ورنہ اُسے قتل کردیا جائےگا اگر چہ وہ اس قبیح فعل کا مرتکب نہ ہوا  ہو۔جیسا کہ لوط علیہ السلام کی بیوی کا حشر ہوا۔ یہی بات اُن لوگوں کےبارے میں بی کہی جائےگی جو عورتوں  کے باہم جنسی میلان کے صحیح ہونے کا اعتقاد رکھے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ  فرمائے۔

اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں احساس کی نعمت عطا کی ہےاور تمہیں اپنے کان نگاہوں اور ان کے ذریعے انجا م پانے والےاعمال پر امین بنایا ہے۔اورتمہارے سینے میں ایک دل دیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ تمہارے اندر صرف اُسی کو دیکھتا ہے۔ اور تم جو کچھ دیکھتے اور سنتے ہو وہ تمہارے دل میں نقش ہوجاتا ہے۔بلکہ وہ بھی نقش ہوجاتا ہےجسے تم چکھتے ہو اور چھو تے ہو۔ لہٰذا اچھی طرح سے سمجھ لو کہ تم کس طرح کے دل کے ساتھ اپنے رب سے ملنا چاہتے ہو۔اور لاشعوری طور پر ذہن میں آنے والے افکار ،غفلت کی حالت اپنے اعضاء و جوارح کی حرکتوں اور زبان کی غلطیوں پرغور کروکیوں کہ یہی تمہارے دل کا بھراؤ اور باطن کا آئینہ ہے۔اور اپنے ماتحت لوگوں جیسے اپنی بیوی اور بچوں کی بھی نگرانی کرو،کیونکہ اُن کے بارے میں بھی تم سے سوال کیا جائے گا اور اُسی کے مطابق تمہیں بدلہ دیا جائے گا۔

یہ دیکھو کہ پاکیزگی اور طہارت کے دشمن تم سے ظاہری اور باطنی ہر طور جنگ پر امادہ آمادہ ہیں،خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑےمرد ہوں یا عورت اور یہ اُن کی پہلی جنگ نہیں ہےاور نہ ہی آخری جنگ ہے۔بلکہ جب جب وہ تمہیں نیچے اُتر تے ہوئے دیکھیں گےاپنی سفلی حرکتوں میں مزید اضافہ کر دیں گےیہاں تک کہ کفر میں تم بھی اُن کے شریک ہوجاؤ،تو اب تم بتاؤ کہ تم کیاکرو گے؟

جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ مدافعت چھوڑ دے گا تو لوگ اُسے چھوڑ دیں گے تو وہ غافل ہے۔کیوں کہ مدافعت کا نظام ہی یہ ہے کہ جو دفاع نہیں کرے اُسے مزید پیچھے دھکیلا جائے گا۔ جو دوسروں کو نہیں پچھاڑے گا وہ پچھاڑدیا جائے گا۔اور تمہارا دشمن تمہارے خلاف اُس وقت تک چال چلنے اور تمہیں تکلیف پہنچانے کی ہمت نہیں کرے گاجب تک کہ وہ تمہارے اندر کمزوری ،آمادگی یا غفلت محسوس نہ کرلے۔ اللہ تعالیٰ کی کتا ب اورانسانی تاریخ میں قومِ لوط کے عذاب سے زیادہ سنگین اور خطرناک عذاب کا تذکرہ نہیں ملتا کیوں کہ وہ نہایت قبیح قسم کے جرم ،فسق و فجور ،بے حیائی اور فساد میں مبتلا تھے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ۚ قَالَ يَا قَوْمِ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ ‎﴿٧٨﴾‏ قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ ‎﴿٧٩﴾‏ قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ ‎﴿٨٠﴾‏ قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوا إِلَيْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ ‎﴿٨١﴾ فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ ‎﴿٨٢﴾‏ مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ ۖ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ

ھود – 78/79/80/81/82/83

اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آپہنچی، وه تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی، لوط (علیہ السلام)نے کہا اے قوم کے لوگو! یہ ہیں میری بیٹیاں جو تمہارے لئے بہت ہی پاکیزه ہیں، اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو، کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ ہمیں تو تیری بیٹیوں پر کوئی حق نہیں ہے اور تو ہماری اصلی چاہت سے بخوبی واقف ہے ۔لوط (علیہ السلام) نے کہا کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا ۔اب فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں ناممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر کچھ رات رہے نکل کھڑا ہو۔ تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہئے، بجز تیری بیوی کے، اس لئے کہ اسے بھی وہی پہنچنے والا ہے جو ان سب کو پہنچے گا، یقیناً ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے، کیا صبح بالکل قریب نہیں ۔پھر جب ہمارا حکم آپہنچا، ہم نے اس بستی کو زیر وزبر کر دیا اوپر کا حصہ نیچے کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے ۔تیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور وه ان ظالموں سے کچھ بھی دور نہ تھے۔

اللہ تعالی ٰمیرے اور آپ کے لئے قرآن کو بابرکت بنائےاور اُس کی آیتوں اور حکیمانہ نصیحتوں کو ہمارے اور آپ کے لئے مفید بنائےمیں اپنی بات کو یہیں پر ختم کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے مغفرت طلب کرتاہوں۔آپ سب بھی اُسی سےمغفرت طلب کریں یقیناً وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسراخطبہ :

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور درود و سلام نازل ہو اُس کے چنیندہ بندوں پر ۔اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ۔ ایسی گواہی دیتاہوں جس سے نجات اور شفاء کی اُمید کی جائےاور درود وسلام  نازل ہو آپ ﷺ پر ،آپ ﷺ کے تمام آل و اصحاب پر اور اُن کے نقشِ قدم کی پیروی کرنے والوں پر۔

اما بعد!

اے لوگو! جو ایمان لائے ، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایمان سے بڑھ کوئی معزز و مکرم نہیں اور نہ ہی انبیاء و رسل سے بڑھ کر کوئی انسان اُس کے نزدیک مقرب ہے۔اورا ُس نے اُن کی شخصیتوں  اور ناموں کو مکمل طور پر محفوظ رکھااور اللہ تعالیٰ نے اپنی تسبیح اور حمد کے درمیان اُن پر درود و سلام بھیجنے کومسلمانوں کا شعار قرار دیا ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ‎﴿١٨٠﴾‏ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ‎﴿١٨١﴾‏ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

الصافات – 180/181/182

پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں۔ پیغمبروں پر سلام ہے۔اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔

اس سے جس طرح ہم بے حیائی بھیلانے والوں کے سامنے خود سپردگی اختیار نہیں کرتے جس سے کہ وہ قباحت میں آگے بڑھیں،سماعتوں کو بھٹکائیں،عقلوں کو گمراہ کریں اور دلوں کو مائل کریں اور اس سلسلے میں مصطلحات سے کھیلیں۔ اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ کے نبی لوط علیہ السلام کے نام کو اُن کی قوم کی بدکاری سے منسوب نہ کریں اُنہیں چاہیئے کہ وہ اپنے بدکاری کی نسبت اُس کے اصل مصدر کی طرف یا اپنے اسلاف کی بستی کی طرف کریں کیوں کہ وہ ناپاک سدومی لوگ ہی تھے جو اس بدکاری میں ملوث تھے ۔ اللہ کے نبی لوط علیہ السلام کا اُن سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ یہ لوگ صرف کان ،آنکھ اور دل کو پرآگندہ کرنے اور مخلوق کو حسی اور معنوی طور پر تکلیف پہنچانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی کونی نشانیوں سے بھی کھیل تماشا کرتے ہیں قوس و قزاح جیسی خوبصورت اور نگاہوں کو اچھی لگنے والی چیز کو اپنے استعار اور علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور شیطان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ

النساء – 119

اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں۔

چنانچہ اُنہوں نے لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی بنائی گئی زینت سے نفرت پیدا کردی جبکہ وہ زینت لوگوں کے دلوں میں خوشی پیدا کرتی تھی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ‎﴿٣٢﴾‏ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

الأعراف – 32/33

آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیا اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی اہل ایمان کے لئے، دنیوی زندگی میں مومنوں کے لئے بھی ہیں۔ ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں ۔آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو علانیہ ہیں اور جو پوشیده ہیں اور ہر گناه کی بات کو اور ناحق کسی پر ﻇلم کرنے کو اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں۔

اللہ کے بندو! اللہ کے نبی اکرم اور سب سے بہترین مخلوق محمد ﷺ پر درود و سلام بھیجوکیونکہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الأحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر تو درود و سلام نازل فرما۔

اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان  ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان سے جو دُرست طریقے سے قیامت تک اُن کی پیروی کریں ۔یاکریم  یا وہاب۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دینِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! تو اپنے دشمنوں کو ،دین کے دشمنوں کو تہو بالا کردے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اِنہیں خوشحالی کا گہوارہ بنادے۔

اے اللہ ! تو ہمارے وطنوں میں ہمیں امن و امان عطا فرما۔

اے اللہ! تو ہمارے حاکم ِ وقت اورتمام مسلم حکمرانوں کو ہدایت نصیب فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن  پر استقامت دے۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں  سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔

خطبة الجمعة مسجد نبویﷺ : فضیلة الشیخ أحمد طالب حمید حفظه اللہ
2 رجب 1442هـ  بمطابق 4 فروری 2022

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ احمد طالب حمید حفظہ اللہ