سانحۂ سیالکوٹ

3دسمبر 2021  جمعہ کے روز سیالکوٹ میں ایک مشتعل ہجوم نے توہین رسالت کے الزام میں ایک سری لنکن شہری کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دی تھی ۔ سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کی کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہجوم ایک انتہائی تشدد زدہ لاش کو سڑک پر گھسیٹ کر لاتا ہے اور پھر سینکڑوں افراد کی موجودگی میں اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔ 

سری لنکن شہری توہین مذہب کا مرتکب تھا یا نہیں؟ وہ مظلوم مقتول غیر ملکی تھا، غیر مسلم تھا، اسے ان چیزوں کا ادراک بھی تھا یا نہیں؟ یہ تو متعلقہ ادارے تحقیق کررہے ہیں اور وہی حقائق سے آگاہ کرسکتے ہیں. البتہ متشدد ہجوم کے اعترافی بیان سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ہجوم نے اسلام کے درج ذیل احکامات اور قرآنی آیات کی دھجیاں اڑائی ہیں۔

تحقیق کا حکم

 قرآن مجید کسی بھی واقعے کی تحقیق کا حکم دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ

الحجرات – 6

  اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو ، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہوجاؤ۔

قرآن مجید کے  اس حکم کےمطابق صحیح نتائج تک پہنچنے کے لیے اہل علم اور ذمہ داران کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے تھا،لیکن مشتعل ہجوم نے کسی تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کی، اور یوں قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کی صریح مخالفت کی۔  اور انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا ۔

سزا دینے کے اصل حقدار

جرم ثابت ہونے کے بعد اس کی سزا دینا بھی کسی ہجوم کا کام نہیں، بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے، اس پر بھی تمام اہل علم کا اتفاق ہے.نیز اگر ٹھوس شواہد اور دلائل سے ثابت ہو جائے کہ قاتل نے توہین رسالت کو صرف بطور کارڈ استعمال کیا ہے تو ایسے قاتل کی سزا قتل ہے لیکن جنونی ہجوم نے اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی، بلکہ یہ کہا ہے کہ آئندہ بھی ہم ایسے ہی کرتے رہیں گے۔

کسی غیر مسلم کا بلا وجہ قتل:

کسی بھی ایسے غیر مسلم کو بلاوجہ قتل کرنا جو مسلم ریاست کا شہری ہو بدترین جرم ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم ریاست کے عہدنامے کے ساتھ غداری بھی ہے۔ دین اسلام کے مطابق اگر ایک خاکروب، مزدور، غریب مسلمان بھی کسی کافر کو امان نامہ دے دے، تو اس کی پاسداری ہر مسلمان پر ضروری ہو جاتی ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ وَيُجِيرُ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ

سنن ابی داؤد – 2751

  رسول اللہﷺنے فرمایا: مسلمانوں کے خون برابر ہیں (یعنی قصاص ودیت کے معاملات میں سب مسلمان امیر و غریب ایک جیسے ہیں) ان میں سے ادنیٰ شخص بھی کسی کو امان دے سکتا ہے، اور سب کو اس کی امان قبول کرنی ہو گی، اسی طرح دور مقام کا مسلمان پناہ دے سکتا ہے ( گرچہ اس سے نزدیک والا موجود ہو..)

عہد شکن، ظالم مسلمان قاتل  کے متعلق رسول  اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا

صحیح البخاری – 3166

 جو کسی ایسے کافر کو قتل کرے گا، جس کے ساتھ معاہدہ امن ہو، اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے، حالانکہ جنت کی مہک چالیس سال کی مسافت سے محسوس کی جاسکتی ہے۔

آگ میں جلانے کی سزا

آگ میں جلانے کی سزا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے ، انسانی لاش کے ساتھ یہ سلوک اور خصوصاً آگ لگانا، اس بات کی علامت ہے کہ یہ ظالم لوگوں کا ہجوم اپنے نبی کریم ﷺ کے فرامین تو کیا عام انسانی قدروں سے بھی عاری تھا، رسول اللہ ﷺکا فرمان عالی شان ہے:

 وَإِنَّ النَّارَ لَا يُعَذِّبُ بِهَا إِلَّا اللہُ

صحیح البخاری – 2954

پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات عائد کر کے ہجوم کے ہاتھوں قتل کر دیے جانے کے واقعات تواتر سے سامنے آتے ہیں تاہم ایسا کم ہی ہوا ہے کہ یوں کسی غیر ملکی شہری کو قتل کیا گیا ہو۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ناموسِ رسالت کے نام پر جو خون ریزی کا سلسلہ چل نکلا ہے، وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ خدا جانے اب یہ کہاں جاکر رکتا ہے ،وطن عزیز میں دوسروں پر الزام تراشی اور کفر و گستاخی رسول کے فتاویٰ لگانا،  بعض فتنہ پرور علماء کا روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔ بعض اوقات ایسے فتاویٰ سے نوبت قتل و غارت گری اور فساد عامہ تک پہنچ جاتی ہے۔ ان نام نہاد علماء سے اگر کوئی اختلاف کرے تو اُس پر بھی کفر و ارتداد اور گستاخی رسول کے فتاویٰ لگا دیے جاتے ہیں۔ ان حالات میں قرآن وسنت کی روشنی میں چند سطور پیش خدمت ہے۔

گستاخ رسول ﷺ کی سزا

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا

الاحزاب – 56

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسوا کن عذاب ہے۔

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی ﷺ نے ابن خطل اور اس کی دو لونڈیوں کے قتل کا حکم دیا وہ لونڈیاں آنحضرت ﷺ کو اپنے گانوں میں گالیاں دیا کرتی تھیں۔1

حضرت مجاھد فرماتے ہیں کہ:

أتی عمر برجل یسب رسول اللہ ﷺ فقتله ثم قال عمر: من سب اللہ أو سب أحداً من الأنبیاء فاقتلوہ

الصارم المسلول، ص: 419

کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جو رسول اللہ ﷺ کو برا کہتا تھا۔ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو قتل کردیا اور فرمایا: جو اللہ تعالی کو یا انبیاء میں سے کسی کو برا کہے اسے قتل کردو۔

گستاخ رسول کی سزا اور اجماع امت

گستاخی رسول اتنا بڑا جرم ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں جمہور علماء امت کا اس بات پر اجماع رہا ہے کہ گستاخ رسول اپنے جرم کے سبب اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس دنیا میں اس کی سزا قتل ہے۔جیسا کہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے اندر بیان کیا ہے کہ :’’اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے کہ جس نے نبی ﷺ کو گالی دی،برا بھلا کہا تو اسے قتل کر جائے گا‘‘۔2

نیزاسی طرح کا ایک قول امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ سے منقول کیا گیا ہے کہ :’’اس بات پر علماء کا اجماع منعقد کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ یا اس کے رسول ﷺ کو گالی دے،یا اللہ کے نازل کردہ کسی حکم کو رد کر دے،یا کسی نبی کو قتل کر دے تو ایسا شخص اپنے اس عمل کی بنا پر کافر ہو جائے گاگرچہ وہ اللہ کے نازل کردہ تمام احکام کو ماننے والا ہو‘‘۔3

محمد بن سخنون کا قول ہے:’’اس بات پر علماء کا اجماع منعقد ہوا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو گالی دینے والا اور ان کی توہین کرنے والا کافر ہے،اس کے بارے میں عذاب الہٰی کی وعید نازل ہوئی ہے،امت کے نزدیک اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے،جو شخص اس کے کفر اور سزا میں شک کرے وہ بھی کافر ہے‘‘۔4

اقوام متحدہ کے 1948ء کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی دفعہ 18 کے مطابق …’’ہر آدمی خیال ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق رکھتا ہے مگر اس اظہار کے لیے آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو گا کہ کوئی شخص دوسروں کی دل آزاری کرے‘‘

گستاخ رسول کون ہے؟

چونکہ شمس و قمر اور ارض و سماء نیز بعض دوسری چیزوں کی طرح اس کی کوئی جامع و مانع لغوی تعریف نہیں ہے اور نہ ہی ایمان و کفر نیز صوم و صلاۃ کی طرح اس کی کوئی شرعی تعریف ہے اس لئے بیع و قبض کی طرح گستاخ و شاتم رسول کا اعتبار عرف عام ہوگا، لہٰذا عرف عام میں جس قول و عمل سے نبی ﷺ کی توہین و تنقیص ہو،عظمت رسالت ﷺ پامال ہو، منصب رسالت پر حرف آئے نیز نبی ﷺ کی ذات کے لئے باعث تکلیف و اذیت ہو، خواہ صراحۃً ہو یا اشارۃً،اس پر سب و شتم اور اذیت کا اطلاق ہوگا،اور ایسا کرنے والا’’ گستاخ ‘‘اور’’ شاتم رسول‘‘ کہلائے گا۔

کیا کوئی شخص انفرادی طور پر کسی شاتم رسول کو قتل کرسکتا ہے؟

ایک اہم مسئلہ یہ ہےکہ کیا کوئی شخص انفرادی طور پر کسی شاتم رسول کو قتل کرسکتا ہے ؟ یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں اکثرجگہ اسلامی نظام نہیں پایا جاتا جس کی وجہ سے شاتم رسول کو سزا دینے میں حکومت وقت غیر سنجیدگی سے کام لیتی رہتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اکثر شاتم رسول کو سزا نہیں ملتی ، جس کی وجہ سے ان گستاخوں کے مزید حوصلے بلند ہوتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی اوروں کے اندر بھی گستاخی کی جسارت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے میں بہت سے مسلمان جذبات میں آجاتے ہیں اور خود سے شاتم کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ٹھان لیتے ہیں ۔ نبی ﷺ کی شان میں گستاخی پر ہرمسلمان کا دل گستاخی کا بدلے لینے پر آمادہ ہوجاتا ہے،یہ حب نبی کا تقاضہ ہےمگر کیا ہمیں انفرادی طورپر کسی شاتم رسو ل کا سر تن سے جدا کرنے کا اختیار ہے ؟

اسلامی شریعت کی رو سے ہمیں یہ اختیار نہیں ہے کہ انفرادی طورپر کسی مجرم پر اسلامی حدود نافذ کریں کیونکہ حدود کا نافذ کرنا حاکم یا اس کے نائب کا کام ہے۔ فتاوی لجنہ دائمہ میں تحریر ہے:

ولا يقيم الحدود إلا الحاكم المسلم أو من يقوم مقام الحاكم ، ولا يجوز لأفراد المسلمين أن يقيموا الحدود لما يلزم على ذلك من الفوضى والفتنة

 حدود کو صرف مسلمان حاکم یا اس حاکم کا قائم مقام ہی نافذ کرے گا اور مسلمانوں میں کسی کو انفرادی طورپر حدود نافذ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے انتشار وفتنہ برپا ہوسکتا ہے۔5

مشہور ثقہ و ثبت سعودی عالم اور سینئر رکن کبار علماء کمیٹی سعودی عرب ڈاکٹر شیخ صالح بن فوزان الفوزان  اسی  قسم کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ: ” قتل کر دینا، یہ سلامتی کا طریقہ نہیں ،  یہ طریق سلیم نہیں۔ اور یہ ان لوگوں پر اور دیگر مسلمانوں پر شر و مصیبت میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ جو چیز انہیں (کافروں کو) ایسی حرکات سے روکنے والی ہے وہ ان کے شبہات کا رد کرنا ہے اور ان کی بے حیائی کو ظاہر کرنا ہے۔ البتہ ہاتھ یا اسلحہ سے نصرت کرنا یہ مسلمان کے ولی امر (حکمرانوں) کا کام ہے جو جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے ادا کر سکتے ہیں۔”

بریلوی مکتبہ فکر کے امام و اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کا نکتہ نظر بھی یہی ہے کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا اختیار صرف حکمران کے پاس ہے اور کوئی اپنے طور پر جس کو گستاخ رسول ﷺ سمجھے قتل نہیں کر سکتا بلکہ ان کے نزدیک اگر کوئی بغیر حکم حاکم کسی ایسے کو قتل کر دے تو حاکم اس کو سزا دے گا۔چنانچہ اپنی مشہور زمانہ کتاب حسام الحرمین میں علماء کی تقاریظ میں جہاں جہاں گستاخ رسول ﷺ کی سزا قتل ہونا بیان ہوئی، وہاں شیخ احمد رضا خان بریلوی نے حاشیہ میں اس کی وضاحت فرمائی۔ بطور مثال ایک مقام درج ذیل ہے:

“جان لیجئے دنیا میں گردنیں مارنا بس حکام ہی کے سپرد ہے نہ عام (رعایا) کے، جس طرح عذاب دینا صرف ذوالجلال و الاکرام کے ہاتھ ہے اور لوگ جو سلاطین و حکام کے سوا ہیں ان کا فرض فقط زبان سے اور بیان سے جھڑکنا اور اہل اسلام کو شیاطین کے میل جول سے بچانا ہے۔بلکہ حقیقتاً فقہائے کرام نے کتب فقہ میں مصرح ارشاد فرمایا ہے کہ جس مرتد کو بے حکم بادشاہ (کوئی) قتل کر دے اسے بادشاہ سزا دے۔6

اس موقع سے میں تمام مسلمانوں کو دوباتیں ذہن نشین کر لینی چاہئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب کہیں پر شتم رسول کا واقعہ پیش آئے تو ہمیں یقینا اس سے صدمہ پہنچے گا مگر مشتعل ہوکر آپ خود مجرم کوسزا دینے سے پرہیز کرنا ہے کیونکہ ایسا نہ قانونا مجاز ہے اور نہ ہی شرعا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہرملک میں مجرموں کو سزا دینے کے لئے عدالت ہوتی ہے ،جہاں اسلامی نظام نہیں وہاں ہمیں عدالت کا سہارا لیکر شاتم رسول کو کڑی سے کڑی سزا دلانے کی مانگ کرنی ہے اور اگر ملک کے سارے مسلمان متحد ہوکر گستاخ کو سزا دلانے پر اڑ جائیں تو حکومت کو بھی مجبور ہونا پڑجائے گا۔ شرط یہی ہے کہ ہمارے اندر اتحاد ہو۔ گستاخ رسول دنیا میں اگردنیاوی سزا سے بچ بھی جائے تو اخروی انجام سے کوئی نہیں بچا سکتا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا

الاحزاب – 57

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسوا کن عذاب ہے۔

نہایت ہی دکھ کی بات ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں ایسے ایسے فرقے وجود میں آچکے ہیں جوبات بات پر گستاخیٔ رسول کے فتوے لگانے کو عین حب ِ رسول سمجھتے ہیں ۔ لیکن  انہیں معلوم ہی نہیں کہ گستاخیٔ رسول سے کیا مراد ہے اور وہ کون سے امور ہیں جن پرشریعت گستاخی رسول کی حد مقرر کرتی ہے ۔

 ایک مسلک کے نزدیک جو اللہ سے مدد مانگے اور نبی ولی سے مدد نہ مانگے وہ گستاخ ، جو اللہ کے لئے علم غیب کا عقیدہ رکھے اور نبی ولی کے لئے نہ رکھے وہ گستاخ ، جو یہ کہے کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے اور شے پر اللہ کا حکم اور اختیار ہے اور نبی ولی  کے بارے ایسا عقیدہ نہ رکھے وہ گستاخ ہے۔ اسی طرح ایک مسلک کا عقیدہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ “نور من نور اللہ” ہیں۔یعنی آپ کو اللہ کے نور سے بنایا گیا ہے جبکہ دوسری طرف  ایک مسلک کا عقیدہ یہ ہے کہ آپ بشر یعنی انسان ہیں ۔یعنی عقائد کے فرق کو توہین رسالت بنا دیا جاتا ہے۔اسی طرح مزید عقائد کا فرق بھی ہے جس کو توہین رسالت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

اس جاہلانہ طرز عمل  سے سینکڑوں ایسے لوگ جو با عمل مسلمان تھے ان الزامات کا شکار ہوئے اور ان کی زندگی اجیرن ہو گئی -حالانکہ ان اختلافی امور کا گستاخی رسول سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس فرقے کے نزدیک محبت وبغض رسول کا تعلق انہیں اختلافی امور سے ہے اور جو ان سے اختلاف کرے وہی گستاخ ہے۔

بالفرض اگر تمام مسالک کا اس بات پر اجماع بھی ہو کہ ایک گستاخِ رسول کی سزا موت ہے اور اسے توبہ یا اصلاح کا کوئی موقع نہیں دیا جا سکتا، تو پھر بھی ایسا کرنے کا اختیار صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والوں اداروں کےپاس ہی ہونا چاہیے۔ ماورائے عدالت ایسے اقدامات کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے تاکہ ایسے واقعات سے فساد فی الارض کی راہ ہموار نہ ہو۔ کچھ بعیدنہیں کہ تخفظِ ناموسِ رسالت کے نام پر لوگوں کو ذاتی انتقام کا نشانہ بنانے کاایک نیا سلسلہ چل نکلے۔ یا پھر مذہبی طبقات کی جانب سے قاتلوں کی اتنی پذیرائی دیکھ کر، کم عمر نوجوان راتوں رات مشہور ہونے کے چکر میں ماورائے عدالت اقدام قتل کرتے پھریں۔ ایسے ایشوز پر تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ آنے والے دنوں میں کسی کی بھی جان محفوظ نہیں رہے گی۔

پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے اسی طرح کی صورتحال سے دوچار دکھائی دیتا ہے کہ یہاں شدت پسندی نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ ریاست اور اس کے نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔ شدت پسندی نے پورے معاشرے اور ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ سیالکوٹ سانحے کے بعد اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں رہا کہ شدت پسندی بھی ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے،آج ہماری بقا صرف اس میں ہے کہ ہمیں شدت پسندی کو ختم کرنے کی ہر کوشش کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ ہم عالمگیر معاشرے کا حصہ بن سکیں اور جدید دنیا کے شانہ بشانہ چل سکیں۔ بدقسمتی سے اس شدت پسندی کے باعث مسلمان معاشرے عام انسانی معاشروں سے پیچھے ہوتے جا رہے ہیں، اس تنہائی کے سبب ہماری اپنی اصل شناخت گم ہوتی چلی جا رہی ہے۔

ہمیں بحیثیت قوم اپنی ترجیحات کا تعین کرنا پڑے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہماری عزت ہو۔ تو ہم کو اپنی ترجیحات کا از سرے نو جائزہ لینا پڑے گا۔ مذہبی شدت پسندی کے خاتمے کے لئے بحیثیت قوم ہمیں عملی اقدامات کر کے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ماضی میں بحیثیت قوم ہم نے بار بار اس حوالے سے اپنی پالیسیاں تبدیل کی ہے۔ ہر نئی حکومت نے اس حوالے سے قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔ جس کی وجہ سے آج ہم اس مقام پر ہیں۔ ہمیں انتہا پسندی یا اعتدال پسندی میں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا اس سے پہلے کے وقت ہاتھ سے نکل جائے اور بہت دیر ہو جائے۔

  1. صحیح البخاری، کتاب المغازی، ص:614
  2. الاجماع لابن المنذر، ص: 79
  3. الصارم المسلوم علی شاتم الرسول لابن تیمہ، 15/2
  4. الصارم المسلوم علی شاتم الرسول لابن تیمہ، 15/2
  5. فتاوی لجنہ دائمہ (21/7)
  6. تمہید الایمان مع حسام الحرمین، حاشیہ ص102، اکبر بک سیلرز لاہور

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ