سوالاً و جواباً
الحمد للہ والصلوۃ واسلام علیٰ رسول اللہ وبعد !
سوال: اضحیہ کی تعریف کیا ہے؟ اور اس کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟
ج: عید الاضحیٰ کے موقع پر جن جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے انہیں’’ اضحیہ ‘‘کہتے ہیں اور اس کی جمع ’’ اضاحی ‘‘ ہے۔
اس کا وقت 10 ذوالحجہ کو عید کی نماز ادا کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے ۔
براء بن عازب سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا :
إن أول ما نبدأ من يومنا هذا أن نصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل هذا فقد أصاب سنتنا1
’’ آج کے دن کی ابتدا ہم نمازِ عید سے کریں گے، پھر فارغ ہو کر قربانی کریں گے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا‘‘۔
سوال: کیا قربانی کا حکم قرآن وسنت میں موجود ہے؟
ج: جی ہاں اس کی ترغیب قرآن وحدیث میں موجود ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
الكوثر – 2
’’پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘
سنن ابو داؤد اور ابن ماجہ میں روایت ہے مخنف بن سلیم فرماتے ہیں: ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس عرفات کے میدان میں ٹھہرے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا :
يا أيها الناس إن علی کل أهل بيت في کل عام أضحية2
سوال: قربانی کا شرعی حکم کیا ہے؟
ج: جمہورِ اہل علم کا یہی موقف ہے کہ قربانی سنتِ مؤکدہ ہے۔ یہی وجہ ہے امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قربانی کا واجب ہونا کسی ایک صحابی سے بھی ثابت نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا اس سنت پر ہمیشگی اختیار کرنا، سفر میں بھی قربانی کرنا اور صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم کرنا ان امور سے اس عمل کی تاکید ثابت ہوتی ہے۔ یعنی یہ ایک مؤکد سنت ہے۔3
اس بارے میں ایک مرفوع روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من وجد سعة ولم يضح فلايقربن مصلانا4
یعنی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والا ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔
سوال : کیا قربانی کے لیے صاحبِ نصاب ہونا شرط ہے؟
ج: قربانی کے لیے صاحبِ نصاب ہونا ضروری نہیں اس کی دلیل جناب عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی روایت ہے:
أقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضحي5
’’ یعنی رسول اللہ ﷺ اپنی پوری زندگی میں قربانی کرتے رہے ۔ اور یہ امر محتاجِ بیان نہیں کہ آپ صاحبِ نصاب نہیں تھے‘‘۔
سوال: قربانی قبل از نمازِ عید اگر کرلی جائے تو اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟
ج: قربانی عید کے نماز سے پہلے کرنا ٹھیک نہیں بلکہ اگر کسی نے ایسا کرلیا تو یہ ایک عام ذبیحہ ہوگا قربانی نہیں ہوگی۔ اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ہے:
من ذبح قبل الصلاة فليعد6
یعنی جس نے نمازِ عید سے پہلے قربانی کی (تو اس کی قربانی نہیں ہوئی) اسے چاہئے کہ وہ دوبارہ قربانی کرے‘‘۔
سوال : قربانی کرنے والے پر شرعا کن امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے؟
ج: قربانی کرنے والا ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد ناخن نہ کتروائے اور حجامت وغیرہ نہ بنوائے یہاں تک کہ وہ قربانی کرے۔7
سوال: کیا گھر والوں کی طرف سے ایک جانور کافی ہے؟
ج: جی ہاں! جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگ قربانیاں کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے جواباً فرمایا:
کان الرجل يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته8
’’ یعنی ایک آدمی اپنے پورے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربان کرتا تھا ‘‘
سوال: کیا ہر حلال جانور کی قربانی درست ہے؟
ج: ہر حلال جانور کی قربانی درست نہیں۔ اس حوالے سے روایات میں جن جانوروں کا ذکر ہے اسی پر اکتفا کیا جائے۔ مثلا: اونٹ ، گائے، بیل ، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ۔9
سوال: قربانی کے جانور میں کن عیوب سے بچنا ضروری ہے؟
ج: براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
أربع لا تجوز في الأضاحي العوراء بين عورها، والمريضة بين مرضها، والعرجاء بين ظلعها، والکبيرة التي لا تنقي10
’’ چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں۔ “یک چشم” جس کا یک چشم ہونا بالکل صاف طور پر معلوم ہو، “بیمار” جس کی بیماری واضح ہو، “لنگڑا” جس کا لنگڑا پن نمایاں ہو اور ایسا بوڑھا کہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو‘‘۔
سوال: قربانی کے جانور میں پہلے عیب نہیں تھا خریدنے کے بعد عیب پیدا ہوگیا اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
ج: سابقہ سوال کے جواب میں مذکور حدیث میں بیان کردہ عیوب ذبح کے وقت اگر پائے گئے تو قربانی نہیں ہوگی۔
سوال: اونٹ اور گائے میں کتنے افراد شریک ہوسکتے ہیں؟
ج: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے رایت ہے
کنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فی سفر فحضرالاضحی، فشترکنافی البقرة سبعة وفی البعيرعشرة 11
’’ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے کہ عید الاضحیٰ کا موقع آیا تو ہم نے (قربانی کے لئے ) گائے میں سات حصے کئے اور اونٹ میں دس حصے کئے‘‘۔
اونٹ میں دس افراد کے حوالے سے بعض روایات ہیں جو سنداً ضعیف ہیں لیکن شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ نیز بخاری (حدیث 5498) کی روایت اس مضمون کی مؤید ہیں۔ جس سے حدیث کی صحت کی جانب قوی ہو جاتی ہے۔
سوال: حلال و حرام ہونے کے اعتبار سے حاملہ جانور کے بچے کا کیا حکم ہے؟
ج: اس بارے میں جناب ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
ذکاة الجنين ذکاة أمه12
پیٹ میں موجود بچے کا حلال ہونا اس کی ماں کو ذبح کرنے سے حاصل ہوگا۔ مذکورہ حدیث کی روشنی میں واضح ہوا پیٹ میں موجود بچہ ہر حال میں حلال ہے۔
سوال: حاملہ جانور کی قربانی لا علمی میں صحیح ہے یا اس کے حاملہ ہونے کے علم کے بعد بھی صحیح ہے؟
ج: اس کے حاملہ ہونے کا علم ہو جائے پھر بھی اس کی قربانی صحیح ہے۔ اس کی دلیل مذکورہ روایت کے الفاظ کی صراحتًا دلالت ہے یعنی
ذکاة الجنين ذکاة أمه
پیٹ میں موجود بچے کا حلال ہونا اس کی ماں کو ذبح کرنے سے حاصل ہوگا۔
سوال: کیا قربانی کے ایام میں قربانی صرف دن کو کی جاسکتی ہے یا رات کو بھی کی جاسکتی ہے؟
ج: حدیث مبارکہ مں ایامِ ذبح کا جو ذکر آیا ہے اس میں دن اور رات دونوں کو شامل ہے۔ رات کو قربانی نہ کرنے کے حوالے سے جو روایت:
نهیٰ عن الذبح بالليل
’’ کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کو ذبح کرنے سے منع فرمایا ‘‘۔
یہ روایت سنداً صحیح نہ ہونے کی وجہ سے قابلِ استدلال نہیں ہے۔ جیسا کہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد میں وضاحت کی ہے۔
سوال: خصی جانور کی قربانی کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ بلا کراہت جائز ہے یا بمع کراہت ؟
ج: جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو مینڈھے لائے گئے جو
أقرنين أملحين، عظيمين، موجوئين13
یعنی مینڈھے سینگ دار چتکبرے اور خصی تھے۔ ثابت ہوا خصی جانور کی قربانی بلا کراہت جائز ہے‘‘۔
سوال: اجتماعی قربانی کے معاملے کو اگر ایک کاروباری شکل میں رواج دینے کی کوشش کی جائے تو اس میں شرعاًً کوئی قباحت تو نہیں؟
ج: جس طرح جانور خرید کر بیچنا صحیح ہے اور منافع کمانا درست ہے اس طرح اس مسئلہ میں بھی لوگوں کو سہولت مہیا کرکے منافع کمانا گناہ نہیں البتہ ہر قسم کی دھوکہ دہی و کذب بیانی سے احتراز کرنا ضروری ہے۔
سوال: قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت کن امور کا لحاظ رکھا جائے؟
ج: قربانی کے جانور کو گھسیٹ کر ذبح کرنے کی جگہ نہ لایا جائے۔ اور اسے تیز چھری کے ساتھ ذبح کیا جائے۔ ذبح سے قبل اسے پانی پلانا۔ جانور کو قبلہ رخ لٹا کر ذبح کرنا۔ یہ امور صحیح مسلم ’’ کتاب الصيد والذبائح ‘‘ میں موجود روایت سے ثابت ہوتے ہیں۔ شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذا ذبحتم فأحسنوا الذبح وليحد أحدکم شفرته فليرح ذبيحته14
’’ یعنی جب تم جانور کو ذبح کرو تو عمدگی سے ذبح کرو اور ذبح کرنے والا اپنی چھری کو تیز کرے اور اپنے جانور کو آرام پہنچائے۔
سوال: اجتماعی قربانی کے حوالے سے اس کا اہتمام کرنے والے اداروں کو کن امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے؟
ج: معاملہ انفرادی قربانی کا ہو یا اجتماعی قربانی کا، مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھا جائے
قربانی کرنے والا صحیح العقیدہ ہو۔
نماز کا پابند ہو۔
حرام کاروبار نہ کرتا ہو یعنی اس کا کسب حلال ہو۔
سوال: ذبح کرتے وقت اجتماعی قربانی میں شریک افراد کا نام لینا اور ان کی حاضری ضروری ہے؟ یا نامزدگی کفایت کر جائے گی؟
ج: ذبح کرتے وقت شریک افراد کا نام لینا ضروری نہیں، نامزدگی ہی کافی ہے۔ اور ان کی موجودگی بھی ضروری نہیں۔ اس سلسلہ میں ایک روایت جو نقل کی جاتی ہے کہ تمام شریک افراد ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑیں اور آخری ساتواں شخص چھری چلائے۔ یہ روایت سنداً صحیح نہیں ہے بلکہ کئی روایات میں گائے میں سات افراد اور اونٹ میں دس افراد کی شرکت کا ذکر آیا ہے۔ ان روایات کا تقاضہ یہ ہے کہ نامزدگی کفایت کرجائے گی البتہ نام لینا مستحب ہے۔ والله أعلم بالصواب۔
سوال: اجتماعی قربانی میں شریک افراد کو حصہ اس قربانی کے جانور سے دیا جائے جس میں اس کی نامزدگی تھی یا کسی دوسرے جانور سے اسے حصہ دیا جاسکتا ہے ؟ اس میں صحیح صورت کیا ہے؟
ج: اجتماعی قربانی میں شریک افراد کو حصہ اس قربانی کے جانور سے دیا جائے جس میں اس کی نامزدگی تھی۔ یہی بہتر اور زیادہ احواط ( احتیاط کے قریب تر ) ہے۔
سوال: کیا قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنا گناہ ہے؟
ج: قربانی کا گوشت ذخیر کرنا گناہ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے
کلوا واطعموا وادخروا15
’’یعنی کھاؤ کھلاؤ اور ذخیرہ کرو ‘‘
مزید آپ ﷺ کا فرمان ہے:
کنت نهيتکم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث فأمسکوا ما بدا لکم16
’’یعنی میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے سے منع کیا تھا لیکن اب جتنا ذخیرہ کرنا چاہو کرسکتے ہو‘‘۔
سوال: بعض لوگ معاشی تنگدستی کے سبب قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرکے بیچتے ہیں یا پکا کر بیچتے ہیں ایسا کرنا شرعا کیسا ہے؟
ج: شرعا اس عمل میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جب کوئی چیز کسی مسلمان کو ہدیۃً دی جاتی ہے تو پھر وہ اس کا مالک ہو جاتا ہے پھر وہ اپنے اختیار سے اسے صرف کرسکتا ہے۔
سوال: کیا خواتین اپنے قربانی کے جانور پر چھری پھیر سکتی ہیں؟
ج: مسلمان خاتون کا اپنی قربانی کے جانور پر چھری پھیرنا صحیح ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ :
أمر أبو موسیٰ بناتهأن يضحين بايديهن17
’’ یعنی ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیتے کہ وہ اپنی قربانیاں خود ذبح کریں‘‘۔
سوال: قربانی سے قبل [ بسم الله والله أکبر] پڑھنا بھول گئے تو قربانی ہو جائے گی یا نہیں ہوگی؟
ج: جی ہاں! بھولنے کی صورت میں قربانی پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ البتہ بحکمِ باری تعالیٰ
فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّـهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ
الانعام – 118
سو جس جانور پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے اس میں سے کھاؤ! اگر تم اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہو۔
نیز فرمایا:
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّـهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ
الانعام – 121
اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے۔
سوال: قربانی کا گوشت کس طرح تقسیم کیا جائے؟
ج: ارشادِ باری تعالیٰ ہے
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ
الحج – 36
یعنی تم خود بھی کھاؤ اور قانع (جو طلب نہیں کرتا، ضرورت مند نہیں ہے) اس کو بھی دو اور معتر (جو ضرورت مند ہے، مانگنے والا ہے اس کو بھی دو)۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
کلوا واطعموا وادخروا
یعنی کھاؤ کھلاؤ اور ذخیرہ کرو ۔
سوال: سفر میں قربانی کرنا؟
ج: سفر میں قربانی کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ جیسا کہ ثوبان رضی اللہ عنہ سے رایت ہے کہ
ضحی رسول الله صلى الله عليه وسلم فی السفر
’’یعنی رسول اللہ ﷺ نے سفر میں قربانی کی‘‘
لہٰذا کوئی اس سنت پر مسافر ہونے کی صورت میں عمل کرتا ہے تو صحیح ہے۔
ویسے قربانی کرنا اس حالت میں اس پر لازم نہیں ہے۔
سوال: قربانی کی کھال کا مصرف؟
ج: قربانی کی کھال قصاب کو اجرت میں دینا منع ہے۔ البتہ اسے ذاتی مصرف میں لانا صحیح ہے یعنی اس کا مصلی ، مشکیزہ یا جوتے بنانا صحیح ہے۔ اسی طرح دینی اداروں میں دینا ، مساکین و بیواؤں کو دینا بھی صحیح ہے۔
سوال: کیا مأکول اللحم ( وہ جانور جس کا گوشت کھایا جاتا ہے ) جانور کی بعض چیزیں کھانے کے حوالے سے مکروہ ہیں؟
ج: حنفیہ نے مأکول اللحم جانور کی بعض اشیا ء پر کراہت کا حکم لگایا ہے۔ مثلا: “بدائع الصنائع” میں خصیتین، پتہ، مثانہ، نر و مادہ کے پیشاب کی جگہ۔
ان مذکورہ اشیاء میں سے کسی کی کراہت قرآن وصحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ اس بارے میں جو روایت نقل کی جاتی ہے وہ انتہائی ضعیف ہونے کے سبب قابلِ استدلال نہیں۔
سوال: قربانی کے جانور کا خون کپڑے پر لگ جائے تو نماز ہو جاتی ہے؟
ج: اس بارے میں وہ واقعہ جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب “إذا ألقی علی ظهر المصلي قذرٌ أو جيفةٌ” کے تحت ذکر کیا ہے ۔عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے پاس نماز ادا کر رہے تھے اور ابو جہل اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا
أيكمي جیء بسلا بجزور بني فلان
کاش کوئی آج بنو فلاں کے جو اونٹ نحر ہوئے ہیں ان کی بچہ دانی لاکر محمد ﷺ کی پیٹھ پر ڈال دے
آپ ﷺ کی پیٹھ پر بچہ دانی ڈالی گئی اور بچہ دانی میں خون وغیرہ بھی ہوتا ہے لیکن آپ ﷺ نے نماز مکمل کی۔
عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا اثر مصنف ابن شیبہ، مصنف عبد الرزاق کے حوالے سے منقول ہے کہ :
نحر جزورا فتلطخ بدمها و فرثها ثم أقيمت الصلاة ولم يتوضأ
یعنی عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اونٹ نحر کیے اور اس کے خون و گوبر لگ جانے کے بعد بھی انہوں نے نماز ادا کی اور وضو نہیں کیا۔ اس حوالے سے یہ اثر موقوف ہے، راجح ہے۔
_______________________________________________________________________________
- صحيح بخاری: باب الذبح بعد الصلاۃ، رقم الحديث 5560، صحيح مسلم: باب وقتها، رقم الحديث: 1961
- سنن ابن ماجه: باب الاضاحي واجبة هي أم لا؟ حديث رقم: 3125، سنن أبی داود: باب ما جا فی ايجاب الاضاحی، رقم حديث: 2788
- فتح الباری شرح صحیح البخاری ، المحلی بالآثار، جلد: 6/3
- سنن ابن ماجه: باب الاضاحی واجبة هي أم لا؟ حديث رقم: 3125، مسند احمد: مسند ابی هريرة، حديث رقم: 8273
- سنن الترمذی: باب الدليل علی ان الاضحیۃ سنۃ، حديث رقم: 1507، مسند احمد: مسند ابن عمر، حديث رقم: 4955
- صحيح البخاری: باب من ذبح قبل صلاۃ العيد أعاد، حديث رقم: 5561، صحيح مسلم: باب وقتھا، حديث رقم: 1960
- صحيح مسلم: باب نهي من دخل عليه عشرۃ ذی الحجۃ، حديث رقم: 1977
- سنن الترمذی: باب ما جاء أن الشاۃ الواحدۃ تجزی، حديث رقم: 1505
- بحوالہ: کتب سنن والصحاح والمسانيد والکتب فقهية
- سنن النسائی: باب ما نهى عنه من الأضاحي العوراء، حديث رقم: 4369
- مسند احمد: مسند عبدالله بن عباس، رقم الحديث: 2484
- سنن الترمذی: باب ما جاء فی ذکاۃ الجنين، رقم الحديث: 1476
- مجمع الزوائد، أبو داؤد، مسند أحمد- سنن أبی داود: باب ما يستحب من الضحايا، رقم الحديث: 2795
- صحيح مسلم: باب الامر باحسان الذبح والقتل، رقم الحديث: 1955
- صحيح بخاری: باب ما يؤکل من لحوم الاضاحي وما يتزود، رقم الحديث: 5569
- سنن ابن ماجه: باب ادخار لحوم الاضاحي، رقم الحديث: 3160
- سنن أبی داود: باب في المسافر يضحی، رقم الحديث: 2814