الحمدُ للہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ وبعد۔
قارئینِ کرام! ’’ا یک سے زیادہ قربانی کی حیثیت رکھنے والے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ لازمی اپنے رشتہ داروں، ملازموں اور سفید پوش کمزوروں کو بھی دیکھیں کہ جو قربانی کی حیثیت نہیں رکھتے۔ اور انہیں گوشت دینے کے بجائے قربانی ہدیہ کریں اور اس معاملہ کو اپنے اور اللہ کے درمیان راز رکھیں تو اُن کا ایسا کرنا کئیں اعتبار سے خود ایک سے زیادہ قربانی کرنے سے بہتر ہوسکتا ہے‘‘ واللہ اعلم۔
تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:
- ایک قربانی میں اخلاص کی حفاظت:
یاد رکھیے کہ ہر نیک عمل کی قبولیت کی شرط اخلاص ہے اور بظاہراً اخلاص کی حفاظت کے لیے ہر ممکن ریا و نمود اور شہرت سے اجتناب لازمی ہے اور اگر قربانی ایک سے زیادہ ہو تو جیسے جیسے وہ بڑھے گے ویسے ویسے اس میں ریا کاری کا خدشہ بھی بڑھتا ہی چلا جائے گا۔
جیسا کہ اگلی سطور میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرزِِ عمل ذکر ہوگا۔
- رسول اللہ ﷺ کی قربانی اور امت کے کمزور افراد
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے کے کچھ گھروں میں تو کئیں کئیں قربانیاں ہوتی ہیں جبکہ دوسری طرف بے شمار مسلمان گھرانے ایسے ہیں جہاں ایک قربانی بھی نہیں ہوتی جبکہ نبیِ رحمت ﷺ نے اپنے زیرِ کفالت تمام گھر والوں کی طرف سے ایک ہی قربانی ادا کی اور دوسری ایک قربانی اپنی امت کے ان تمام افراد کی طرف سے ادا فرمائی جو قربانی کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ اور یہ عمل (امت کے مستحق حضرات کی طرف سے قربانی کرنا ) رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص تھا جسے رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی بھی دوسرا نہیں دوہرا سکتا۔ البتہ جو مسلمان قربانی کی اہلیت و استطاعت نہیں رکھتے انہیں قربانی ہدیہ ضرور کرسکتا ہے۔
لہذا میں نے ضروری سمجھا کہ یہ چند غور طلب پہلو آپ کے سامنے رکھ دیے جائیں کہ
’’ شاید کہ اتر جائے کسی کے دل میں میری بات‘‘
- رسول اللہ ﷺ کا خود ایک قربانی فرمانا اور اپنے صحابہ میں قربانیاں ہبہ کردینا:
رسولِ اکرم ﷺ نے خود تو اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کی جانب سے ایک قربانی کی جبکہ اپنے کمزور و مستحق صحابہ میں کئیں قربانیاں ہبہ فرمائیں اور اس کی ذمہ داری سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو سونپی۔1
لہذا قربانی ہبہ کرنا نا صرف مسنون بلکہ مستحب عمل ہے۔
- جائز اور افضل میں فرق:
یاد رہے کہ ایک سے زیادہ قربانی اگر فخر و تکبر سے دور رہ کر کی جائے تو جائز تو ہے۔ کیونکہ تعداد کے اعتبار سے قربانی کی کوئی حد مقرر نہیں۔ لیکن ۔۔۔
افضل اور بہتر یہی ہے کہ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے ایک ہی قربانی کی جائے۔
کیونکہ نبی کریم ﷺ کا بھی یہی عمل تھا۔2 اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی یہی عمل تھا جیسا کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہم (گھر کے سربراہ) اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتے تھے پھر اس میں سے خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے یہاں تک کہ لوگوں نے اسے فخر کا ذریعہ بنا لیا اور حالت یہاں تک بگڑ گئی جو اب تمہارے سامنے ہے”۔3
- اگر ایک سے زیادہ قربانی کی حیثیت ہو تو بھی بہتر یہی ہے کہ:
دوسری قربانی کرنے سے سے پہلے اپنے کمزور رشتہ داروں کا خیال کیجیے:
پہلے اپنے خود دار و سفید پوش کمزور رشتہ داروں (قریب ترین سے شروع کرکے دور تک) کو دیکھا جائے جن کے گھر میں قربانی ہی نہیں ہو رہی انہیں قربانی ہدیہ کر دی جائے کہ ایک تو یہ امیر رشتہ داروں پر غریب رشتہ داروں کا حق بھی ہے۔ دوسرا اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کا تقاضہ بھی اور تیسرا اُن بچوں کے ساتھ شفقت بھی ہے جو اپنے ہی جیسے دیگر بچوں کو اس تعلق سے حسرت بھری نظروں سے دیکھتے اور احساسِ کمتری کا شکار رہتے ہیں۔
پھر اپنے کمزور ملازموں کا خیال کیجیے:
اسی طرح رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ یہی طرزِ عمل اپنے ملازموں، ورکرز کے ساتھ بھی روا رکھا جائے کہ رسولِ مقبول ﷺ کا یہ حکم ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’یاد رکھو! یہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہاری ماتحتی میں دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کی ماتحتی میں بھی اس کے بھائی کو رکھے اسے چاہئے کہ جو وہ کھائے اسے بھی کھلائے اور جو وہ پہنے اسے بھی پہنائے۔4
- دوسری قربانی ہدیہ کر دیں یا پھر کسی ضرورت پورا کر دیں:
اہلِ علم کے نزدیک ایک سے زیادہ قربانی سے بہتر ہے کہ اُس مال سے کسی مستحق کی واجبی ضرورت پوری کر دی جائے جیسا کہ علامہ شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’ایک آدمی اور اس کے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ہی قربانی کرنا افضل ہے۔ اگر کسی کے پاس زیادہ مال ہو تو اسے نقد خرچ کرے، غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کو کھانا وغیرہ کھلائے۔ (یعنی ان کی ضرورتیں پوری کردے)‘‘۔5
- کم از کم یہی کر لیجیے:
ایک گھرانہ کی جانب سے ایک سے زیادہ قربانی کرنے والے کم از کم یہ تو کرہی سکتے ہیں کہ جہاں وہ خود ایک سے زائد قربانی کریں وہیں حتی المقدور قربانی لازماً غرباء و مستحقین میں ہدیہ بھی کریں۔
- دوسری قربانی مستحق کو ہدیہ کرنے کے غیر معمولی فائدے
- ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں قربانی ہدیہ کرنا :
فرمانِ رسولﷺ ہے:
’’ما العمل فى أيام العشر أفضل منها في هذه قالوا: ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال: ولا الجهاد إلا رجل خرج يخاطر بنفسه وماله فلم يرجع بشيئ‘‘
(صحیح بخاری:969)
ذوالحجہ کے دس دنوں (میں کیے جانے والے نیک عمل) سے افضل (سال بھر میں کیے جانے والا) کوئی (نیک) عمل نہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جہاد بھی نہیں مگر وہ شخص جو اس حال میں نکلا کہ اس نے اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈالا پھر کچھ بھی ساتھ لے کر نہ پلٹا۔
لہٰذا ذو الحجہ کے پہلے عشرہ میں کسی کو قربانی ہدیہ کرنے کا اجر و ثواب اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
- ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں’’ رشتہ دار ‘‘ کو قربانی ہدیہ کرنا :
اگر ذو الحجہ کے پہلے عشرہ میں کسی رشتہ دار کو قربانی ہدیہ کی جائے تو نا صرف قربانی ہدیہ کرنے کا ثواب بلکہ ذو الحجہ کے پہلے عشرہ میں قربانی جیسے نیک عمل کا ثواب اور پھر رشتہ دار کے ساتھ حسنِ سلوک اور نیکی کا ثواب ، یہ سارے ثواب جمع ہو جاتے ہیں۔ تو اندازہ کیجیے کہ ایک عمل کے ذریعے ایک مسلمان کتنا اجر و ثواب حاصل کرسکتا ہے!!
- ذو الحجہ کے پہلے عشرہ میں’’ کمزور و بے بس مسلمانوں بالخصوص اہلِ فلسطین و شام ‘‘ کو قربانی یا اس کا گوشت ہدیہ کرنا :
رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:
من نفَّسَ عن مسلمٍ كُربةً مِن كُربِ الدُّنيا نفَّسَ اللَّهُ عنهُ كربةً مِن كُرَبِ يومِ القيامةِ ، ومن يسَّرَ على مُعسرٍ في الدُّنيا يسَّرَ اللَّهُ عليهِ في الدُّنيا والآخرةِ ، ومن سَترَ على مُسلمٍ في الدُّنيا سترَ اللَّهُ علَيهِ في الدُّنيا والآخرةِ ، واللَّهُ في عونِ العَبدِ ، ما كانَ العَبدُ في عونِ أخيهِ6
’’جس شخص نے کسی بھی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی تکلیف کو دور کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی تکلیف کو دور فرما دے گا۔ اور جس نے کسی بھی تنگی و مشقت میں گِھرے مسلمان کو آسانی و راحت میسر کی تو اللہ تعالیٰ اسے روزِ آخرت آسانی و راحت میسر فرمائے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی دنیا میں پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ کل آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اور (یاد رکھو!) جب تک کوئی اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں رہے گا تو اس وقت تک اللہ بھی اس کی مدد میں رہے گا‘‘۔
لہٰذا ذو الحجہ کے اس پہلے مبارک عشرے میں بالخصوص سال کے سب سے افضل (بقرعید و قربانی کے ) دن قربانی جیسے عظیم عبادت والے عمل میں ظلم و بربریت کے دلدل میں پھنسے اپنے کمزور و مقہور مسلمان بھائیوں و بہنوں کو یاد رکھیے بالخصوص فلسطین و شام وغیرہ میں۔ اور خود ایک قربانی پر اکتفا كرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں (یا ان کا گوشت ) ان تک پہچانے کی ہرممکن کیجیے۔ و باللہ التوفیق
- انفاقِ فی سبیل اللہ کی سب سے بہتر صورت اور اس کا عظیم فائدہ:
نیز انفاق کی وہ صورت سب سے بہتر ہے جس میں ’’رازداری‘‘ ہو، خرچ کرنے والے کو معلوم اور اُس کے رب کو معلوم بس۔ لہٰذا ’’خاموشی کے ساتھ مستحقین میں قربانی ہدیہ کردیجیے ‘‘
جس کے مذکورہ تمام فائدوں کے ساتھ ایک عظیم ترین فائدہ یہ بھی حاصل ہوگا کہ:
ایسا سخی انسان اپنی کسی مجبوری و مشکل وقت میں، اپنی دعاء میں اپنے ایسے ہی کسی رازداری والے عمل کا اللہ کو واسطہ دے سکتا ہے کہ اللہ! وہ عمل میں نے بس تیرے ہی رضا کے لیے کیا تھا۔ تجھے اُس عمل کا واسطہ میری یہ دعاء، حاجت و ضرورت پوری فرما دے اور یہ پریشانی و مصیبت دور فرما دے۔ (صحیح بخاری کی حدیثِ غار پڑھ لیجیے) کہ ایسے نیک عمل کا واسطہ دینے سے اللہ تعالیٰ وہ دعا، حاجت و ضرورت ضرور پوری فرماتا ہے۔
ایک عظیم تحفہ:
ہدایا و تحائف تو بہت ہوتے ہیں لیکن قربانی ایک مستقل و عظیم عبادت ہے اور اس عبادت کے تحفہ سے بہترین تحفہ کیا ہوگا؟ جس کا مکمل اجر و ثواب قربانی کرنے والے کے ساتھ ساتھ دینے والے کو بھی حاصل ہو۔
- نوٹ: اس تحریر کا مقصد نہ ہی کوئی فتویٰ ہے اور نہ ہی کسی کی نیت و عمل پر حکم ۔۔۔۔ بس ایک افضل عمل اور اس کے ساتھ ایک اہم نیکی کی طرف راہنمائی ہے۔ وباللہ التوفیق۔