الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سیّد المرسلین -أما بعد !
اللہ تعالیٰ نے انسان پر بے شمار انعامات و احسانات فرمائے ہیں کہ جنہیں شمار کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا
ابراھیم – 34
ان انعامات میں سے اﷲ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے۔ امن ‘ سکون ‘ راحت و آرام‘ اور یہ انسان کو اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے۔ جب وہ ہر طرح سے بے خوف ہو جائے اور وہ سمجھے کہ اب میری جان‘ مال‘ عزت و آبرو محفوظ و مامون ہے ۔ تو وہ پرُسکون زندگی گزارے گا لیکن اگر وہ سمجھتا ہے کہ کوئی اس کا دشمن اس کی جان مار دے گا یا اس کا مال لوٹ لے گا یا پھر اس کی عزت کو پامال کر دیگا۔ تو وہ پریشان ہو جائیگا اور اس کا سکون ‘ راحت و آرام سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خوف اور پریشانی کو ایک امتحان و آزمائش بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ
البقرة – 155
’’اور ہم تمہیںخوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیں‘‘ اس کے مقابلے میں امن و سکون اور محبت و پیار اور بھائی چارے کو اپنی نعمت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
آل عمران – 103
اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم[٩٤] ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھراللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی انداز سے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ راست کو پاسکو‘‘۔
یہ امن و سکون انسان کی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے کیونکہ امن ہو گا توآدمی ہر کام احسن طور پرکر سکتا ہے۔ ذاتی طور پر انسان کا سونا جاگنا‘ کھانا پینا‘ کام کاج ‘ محنت مزدوری وغیرہ تبھی بہتر طریقے سے کر سکتا ہے۔ جب امن و سکون ہو گا اور اگر امن و سکون نہیں تو پھر یا تو آدمی کوئی کام بھی نہیں کر سکے گا۔ اور اگر کر بھی لے گا تو صرف خانہ پُری ہی ہو گی بہترین اور تسلی بخش نہیں ہو گا۔ اور یہ امن و سکون کی ضرورت تو انسان کو خوراک سے بھی پہلے ہے جس پر اس کی زندگی کا انحصار ہے کیونکہ سکون ہو گا تو آدمی کھانا کھا سکتا ہے۔ پانی پی سکتا ہے ورنہ یہ ساری چیزیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ اسی لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے رزق و خوراک سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ سے امن و سکون کی دعا کی تھی:
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ
البقرة – 126
’’ اور جب ابراہیم ؑ نے یہ دعا کی کہ :اے میرے پروردگار! اس جگہ کو امن کا شہربنا دے۔ اور اس کے رہنے والوں میں سے جو کوئی اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائیں انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما‘‘۔
بدامنی‘ خوف اور ڈر بہت بڑی آزمائش ہے (اللہ تعالیٰ اس سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔ آمین) اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ
البقرة – 155
’’اور ہم تمہیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیں‘‘۔
اسی لیے امام الانبیاء سیدنا محمد رسول نے ساری زندگی قیام امن کے لیے مثالی جدوجہد کی۔ اعلان نبوت سے پہلے بھی آپ ﷺنے اپنے عمل و کردار سے امن و امان کو قائم کرنے اور اسے باقی رکھنے کے لیے بھرپور کوشش فرمائی اور اعلان نبوت کے بعد بھی آپ ﷺنے امن و سلامتی کی ناصرف کہ تعلیم دی بلکہ آپ ﷺنے اس کا ایسا عملی نمونہ پیش فرمایا کہ جس کی مثال دینے سے دنیا آج تک قاصر ہے۔ آپ ﷺنے اپنی تعلیمات اور اپنے عمل و کردار سے کچھ ایسے راہنما اصول مقرر فرما دیئے کہ جو رہتی دنیا تک امن و امان کے قیام اور اس کی بقاء کے ضامن ہیں۔آج ہمارے حکمران بھی ملک اور معاشرے میں امن و سکون قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہوئے کئی جائز اور ناجائز اقدامات کر رہے ہیں لیکن حالات ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق پہلے سے زیادہ ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ذیل کی سطور میں امام الانبیاء سیدنا محمد رسول ﷲ ﷺکی سیرت طیبہ کی روشنی میں چند راہنما اصول ذکر کیے جاتے ہیں اگر ہمارے حکمران چاہیں تو ان کو عملی جامہ پہنا کر اپنے معاشرے ‘ ملک و قوم اور ادارے میں امن و سکون کی بہار دیکھ سکتے ہیں۔ مگر تجربہ شرط ہے۔
(1)عدل و انصاف:
قیام امن کے لیے جو چیز بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ جس کے بغیر امن و امان کی چاہت اور تصور بھی سوائے حماقت کے کچھ نہیں اور وہ چیز ہے۔ عدل و انصاف۔ ا س کے بغیر تو امن کا تصور بھی محال ہے۔ ذرا غور کیجئے انسان کسی بھی شعبہ زندگی میں ذمہ دار ہو اور وہ انصاف کے تقاضے پورے نہ کرتا ہو تو وہاں وہ اپنے ماتحتوں میں امن قائم نہیں کر سکتا۔ کوئی شخص اپنے گھر میں جس کا وہ سربرا ہ ہے جس میں اس کی بیوی ہے جس سے تعلقات کی گرہ بھی خاوند کے ہاتھ میں ہے اگر اس کے ساتھ انصاف نہیں کرتا تو گھر میں سکون نہیں ہو سکتا۔ امن نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ہر روز ایک نئی لڑائی اور جھگڑا ہو گا جس کو یہ شخص نمٹا رہا ہو گا حتی کہ باوجود گھر کا سربراہ ہونے کے یہ خود بھی زندگی کا کوئی لمحہ خصوصاً گھر میں گزرے ہوئے اوقات کو سکون سے نہیں گزار سکے گا۔ اس کے گھر‘اس کے بچے ہیں جو اس کی اولاد ہونے کے ناطے ہمہ قسم کی فرمانبرداری کرنے کے پابند ہیں حتی کہ رسول ﷺنے فرمایا کہ اگر ماں باپ ظلم بھی کریں تب بھی اولادکی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری کریں‘‘ لیکن اگر انسان اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف نہیں کرتا تو کبھی بھی گھر میں امن نہیں ہو سکتا۔ ابھی گذشتہ روز ہی پنجاب اسمبلی کے ایک رکن پر اس کے حقیقی بیٹوں نے فائرنگ کر کے قتل کرنے کی کوشش کی۔ وجہ صرف اور صرف گھر میں ناانصافی ہے۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم سیدنا بشیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ مجھے رسولﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ ﷲ کے رسول ﷺمیں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے آپ ﷺاس پر گواہ بن جائیں تو رسول ﷲ ﷺنے فرمایا کہ کیا اس بیٹے کے علاوہ بھی تیری کوئی اولاد ہے تو میرے باپ نے عرض کیا کہ جی ہاں ﷲ کے رسول ﷺتو آپ ﷺنے فرمایا کہ کیاتو نے اپنے باقی بچوں کو بھی اس طرح کے غلام ہبہ کیے ہیں۔ عرض کیا کہ نہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
اعدلوا بین اولادکم اعدلوا بین اولاد کم
’’اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو‘ اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو‘۔
آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ یہ ظلم ہے اور میں اس ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا یا تو اپنے باقی بچوں کو بھی اسی طرح برابر کا ہبہ دو یا پھر اس سے بھی واپس لے لو۔ بعض روایات کے مطابق آپ ﷺنے فرمایا۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ آپ کی اولاد آپ کی ایک جیسی خدمت اور احترام کرے۔ (یعنی اگر ایک جیسا سلوک نہیں کرو گے ‘اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف نہیں کرو گے تو اولاد میں اختلاف ہو گا کوئی آپ کا احترام کرے گا کوئی نہیں کریگا۔ کوئی خدمت کریگا اور کوئی نہیں کریگا ۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ گھر برباد ہو جائے گا۔ امن و سکون تہہ و بالا ہو کر بدامنی تمہارا مقدر بن جائے گی۔ اعاذنا ﷲ منہ۔
اسی لیے رسول اﷲﷺنے عدل و انصاف کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی آپﷺنے اس کا نمونہ پیش فرمایا کہ آپﷺاپنی بیویوں کو ایک جیسی سہولتیں اور ایک جیسا برابر برابر وقت دیتے تھے۔ کسی ایک بیوی کے وقت کو دوسری بیوی کے لیے صرف کرنے کو آپ ﷺ ظلم خیال کرتے تھے۔ آپ ﷺکی سیرت کے اس روشن پہلو میں ان لوگوں کے لیے بہت بڑی راہنمائی موجود ہے۔ جو کسی بھی جگہ پر ذمہ دار ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے گھر ‘ ادارے ‘ دفتر ‘ علاقے اور ملک میں امن و سکون ہو‘ بغاوت نہ ہو‘ حکم عدولی اور نافرمانی نہ ہو‘ کوئی مجھے دھوکہ نہ دے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے ماتحتوں میں بھی ایسا انصاف کرے جیسا وہ اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے تو پھر دیکھنا کہ ایسے شخص کی وزارت ‘ نظامت اور ادارت و حکمرانی کس قدر پُر سکون ‘ خوشحال اور مثالی ہوتی ہے۔ لیکن تجربہ شرط ہے۔ ﷲ تعالیٰ ہم سب کو توفیق فرمائے۔ آمین۔
(2) ذاتی مفادات کی قربانی؛
معاشرے میں امن و سکون کے لیے عدل و انصاف کے بعد سب سے اہم ترین عنصر اور بنیادی ضرورت ہے۔قربانی۔ کہ انسانی اپنی خواہشات اور اپنے ذاتی مفادات کو دوسروں کے آرام و سکون یا فائدے کی خاطر قربان کر دے اور دوسرے بھائی کو سہولت دے اس کی ضروریات اور خواہشات کا احترام کرے۔ کیونکہ جب آدمی اپنے مفادات کو حاصل کرنے یا اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے کے مفادات کو نظر انداز کرتا ہے۔ یادوسرے کے جذبات کو روندتے ہوئے اس کی خواہشات کا خون کرتا ہے تو نتیجہ بدامنی کی شکل میں نکلتا ہے۔ رسول ﷺکی سیرت طیبہ میں یہ واقعہ بہت معروف ہے کہ قبل از نبوت قریش مکہ نے بیت اللہ کی تعمیر کی تو حجر اسود کی تنصیب پر ان میں اختلاف ہو گیا کیونکہ ان میں سے ہر ایک قبیلہ خواہش مند تھا کہ حجر اسود کو نصب کرنے کی سعادت اسے حاصل ہو لیکن پتھر ایک تھا جبکہ امیدوار زیادہ تھے آخر کار یہ معاملہ نبی رحمت سیدنا محمد ﷺکی ذات گرامی کے سامنے آ گیا کہ جو بھی فیصلہ آپ ﷺکریں گے وہ سب قبائل کو منظور ہو گا۔ اب آپ ﷺنے جو فیصلہ فرمایا اس نے بڑے بڑے جگادری کھڑپینچوں کو انگشت بدنداں کر دیا کہ اس سے بہتر کوئی فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ آپ ﷺنے چادر بچھائی اس چادر پر حجر اسود کو رکھا اور پھر تمام قبائل کے سرداروں کو اس چادر کو کونوں سے پکڑ کر اٹھانے کا حکم دیا جب چادر مطلوبہ مقام تک بلند ہو گئی تو آپ ﷺنے حجر اسود کو اٹھا کر بیت اللہ کی دیوار میں اس کے مقام پر رکھ دیا اس طرح ہر قبیلے والے نے سمجھا کہ حجر اسود کو نصب کرنے کی سعادت ہمیں ہی حاصل ہوئی ہے۔
قارئین ذی وقار!
آپ غور فرمائیں کہ ہادی عالمﷺنے کس حسن و خوبی کے ساتھ نہ صرف کہ اس اختلاف کا خاتمہ فرمایا بلکہ تمام فریقوں کو مطمئن بھی کر دیا اور خوش بھی اگر آپﷺچاہتے تو آپﷺخود ہی پتھر کو زمین سے اٹھا کر دیوار میں نصب کر دیتے یا اپنے خاندان میں سے کسی بزرگ کا انتخاب کر دیتے۔ آپﷺجو بھی فیصلہ کر دیتے وہ سب کو منظور ہوتا کیونکہ فیصلہ کرنے کا اختیار آپ کے ہاتھ میں تھا لیکن آپﷺنے نہ کسی کو نظر انداز کیا اور نہ ہی کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی او رایک بہترین فیصلہ کر دیا۔ اور اس کے نتیجہ میں وہ قبائل جو تھوڑی دیر پہلے لڑنے مرنے کے لیے تیار تھے ناصرف کہ آپس میں شیر و شکر ہو گئے بلکہ شاداں و فرحاں بھی تھے۔ آج ہم اپنے گھروں ‘ اداروں‘ محکموں‘ علاقوں اور ملک میں جو بدامنی دیکھتے ہیں اس کے منجملہ اسباب میں سے ایک سبب ذاتی مفادات کی آبیاری اور اقربا پروری ہے کہ اگر کسی کو کسی جگہ پر بھی کسی بھی حیثیت سے فیصلے کا اختیار مل جائے تو پھر اسے اپنی ذات یا اپنے عزیز و اقرباء اور دوست احباب کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔ ویسے تو اس کی مثالیں آپ کو گھر کی چار دیواری سے لیکر اپنے گرد و پیش جگہ جگہ نظر آئیں گی لیکن قومی سطح پر حکمرانوں کا انتخاب اور ان کے چال چلن کو دیکھ لیں تو شاید کسی دوسری مثال کی ضرورت ہی نہ رہے۔
(3) خواہشات کی قربانی:
مفادات کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات کی قربانی دینا بھی معاشرے میں امن و امان کے لیے انتہائی ضروری ہے اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ فلاں کام اس طرح ہونا چاہئے مگر کوئی دوسرا کسی اور کام یا طریقے کو پسند کرتا اور چاہتا ہے تو ظاہر ہے کہ اگر کوئی ایک اپنے موقف کو چھوڑ دیگا اور اپنی خواہش کو قربان کر دیگا تو امن و سکون قائم ہو جائے گااور اگر وہ دونوں ہی یا سب لوگ اپنی اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ڈٹ جائیں اور ضد کریں تو نوبت لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت تک پہنچے گی اور اگر ان میں کوئی فریق طاقتور اور دوسرا کمزور ہو گا تو طاقتور آدمی اپنی خواہشات کو پورا تو کرلے گا۔ کیونکہ اس کے پاس مال ‘ دولت‘ عہدے اور اختیار کی قوت و طاقت ہے جبکہ دوسرے فریق کو یہ قدرت حاصل نہیں لیکن کمزور فریق بھی اس کو برداشت نہیں کر سکے گا۔ اب یا تو وہ بغاوت کریگا یا کوئی نہ کوئی ناجائز طریقہ اپنا کر وہ بھی اپنی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کریگا تو دونوں صورتوں میں امن و سکون برباد ہو گا۔
امام الانبیاء سیدنا محمد ﷺکی حیات طیبہ میں اس کا نمونہ بھی موجود ہے۔ رسول ﷲ ﷺنے ایک مرتبہ اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں بیت ﷲ کومنہدم ا کر نئے سرے سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام والی بنیادوں پر تعمیر کروں لیکن آپ ﷺنے صرف اس لیے اپنی اس خواہش کو چھوڑ دیا کہ لوگ ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں اگر بیت اللہ کو گرا دیا گیا یا اس کی ہئیت کو تبدیل کر دیا گیا تو کہیں یہ اسلام سے متنفر ہی نہ ہو جائیں۔ لہٰذا آپ ﷺنے اپنی اس خواہش کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔
معزز قارئین!
سیرت طیبہ کے اس روشن پہلو سے بھی ہمارے لیے یہ سبق اور نصیحت واضح ہوتی ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں امن و سکون ہو تو پھر ہمیں اپنی خواہشات کو خواہ وہ کس قدر ہی حق پر مبنی کیوں نہ ہوں قربان کرنے کا اپنے اندر حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ ورنہ دھونس دھاندلی اوراپنے اختیار و قوت کے ناجائز استعمال سے بدامنی تو جنم لے سکتی ہے اور اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مگر معاشرے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم رسول ﷲﷺکی سنت اور طریقے کو اپناتے ہوئے حالات کی بہتری‘ امن و سکون اور اتفاق و اتحادکی خاطر اپنی خواہشات کو قربان کر دیں ﷲ تعالیٰ اس میں برکت فرمائے گا۔ اور انسان کی دنیا و آخرت بہتر ہو جائیگی ۔ إن شاء اﷲ
(4) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام:
معاشرے میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ انسان ہر اچھے کام کی تلقین کرتا رہے اور لوگوں کو برائی سے روکے۔ ﷲ تعالیٰ نے ہی قرآن مجید میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا حکم‘ ارشاد فرمایا ہے حتی کہ جن لوگوں نے یہ فریضہ کماحقہ ادا نہیں کیا تھا ان کی شکلیں تک بگاڑ دیں اور قیامت تک انہیں نمونہ عبرت بنا دیا۔ خود رسول ﷲﷺنے بھی اس کی تلقین فرماتے ہوئے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ: ’’جو شخص برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتا ہے وہ ہاتھ سے روکے‘ جو زبان سے روک سکتا ہے وہ زبان سے کہے اور جس میں اتنی بھی ہمت‘ طاقت اور جرات نہیں وہ اس برائی کو اپنے دل سے ہی برا جانے یہ ایمان کا کمزور درجہ ہے۔‘‘ اور آپﷺنے عملاً بھی اس کا نمونہ پیش فرمایا۔ کہ جب آپ نے امن کو خطرہ محسوس کیا تو فوراً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نسخہ استعمال فرمایا تو امن قائم ہو گیا۔
’’سیدنا کعب بن مالک رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے سیدنا عبدﷲ بن ابی حدرد اسلمی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے کچھ قرض لینا تھا ایک دفعہ دونوں میں کچھ تکرار ہو گئی جس میں ان کی آوازیں بلند ہو گئیں تو رسول ﷲ ﷺان کی آواز سن کر گھر سے تشریف لائے۔ اور سیدنا کعب بن مالک رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے رقم میں کچھ کمی کرنے کا کہا تو انہوں نے آپ ﷺ کے حکم سے نصف قرض معاف کر دیا تو رسول ﷲ ﷺنے سیدنا عبدﷲ اسلمی کو باقی نصف ادا کرنے کا حکم فرمایا’’(مفہوماً سنن نسائی) قارئین ذی وقار! غور فرمائیں کہ آپ ﷺ نے سیدنا کعب کو نیکی کا حکم دیا اور ان سے نصف‘ قرض صدقہ کروا دیا۔ اور سیدنا عبدﷲ کو ٹال مٹول اور حیل و حجت سے منع کرتیہوئے باقی ادا کرنے کو کہا۔ تو اس طرح آپ ﷺ نے نیکی کا حکم دے کر اور برائی سے منع کر کے امن قائم کر دیا آج ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جہاں تک ممکن ہونیکی کی تلقین کریں اور برائی سے منع کریں ناکہ ہمارے سامنے جب کسی کی چغلی‘ غیبت یا عزت پامال کی جائے تو ہم یہ سوچ کر خاموش رہیں کہ کونسا ہماری بے عزتی ہو رہی ہے نتیجہ یہ نکلے گا کہ ظلم کرنے والا پہلے سے زیادہ دلیر ہو جائیگا اور وہ ایک کے بعد دوسرے کی جائز و ناجائز بے عزتی کرنا اپنا حق سمجھے گا اور وہ ہر کسی کی بے عزتی کرتا رہے گا اور دوسرا فریق جب یہ دیکھے گا کہ آج میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو کسی نے میرے سے کوئی ہمدردی نہیں کی تو کل کو وہ بھی ناصرف کہ کسی دوسرے کی بے عزتی پر احتجاج نہیں کریگا۔ بلکہ وہ خود بے عزتی کرنے میں تعاون کریگا۔ کہ حساب برابر ہو جائے۔ اس طرح امن و سکون کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ بلکہ معاشرہ بدامنی کا گہوارہ بن جائے گا۔ اعاذنا اﷲ منہ
(5)فیصلہ کرنے میں جلدی کرنا:
معاشرے میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ جس شخص کے پاس فیصلہ کرنیکا اختیار ہو اسے عدل و انصاف کے ساتھ فریقین میں جلد فیصلہ کر کے فوری انصاف فراہم کرنا چاہئے کیونکہ بدامنی ‘ لڑائی جھگڑے کا باعث دو یا دو سے زیادہ فریق ہوتے ہیں اگر ان کی بات جلد سن کر ان کا انصاف کے مطابق فیصلہ کر دیا جائے تو جھگڑا طول نہیں پکڑتا اور امن قائم ہو جاتا ہے اور اگر فیصلے کو لٹکا دیاجائے جیسا کہ ہمارے ملک کا عدالتی نظام ہے کہ جس میں مقدمات نسل درنسل جاری رہتے ہیں لیکن فیصلے کی نوبت نہیں آتی تو پھر قتل و غارت ‘ لڑائی جھگڑے اور بدامنی ہوتی ہے جیسا کہ ہم آئے روز اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں حتی کہ بعض تو خاندان کے خاندان فیصلہ کرنے والی قوتوں کے اس تاخیری حربے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر‘ محکمے‘ ادارے‘ علاقے اور ملک میں امن و سکون ہو تو پھر فیصلہ کرنے والی ان تمام قوتوں اور افراد کو جنہیں کسی بھی سطح پر بدامنی کا باعث بننے والے فریقین میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہو چاہیے کہ وہ ٹال مٹول اور لیت و لعل کی پالیسی چھوڑ کر فوری انصاف مہیا کریں۔ امام الانبیاء سیدنا محمد رسول ﷲ ﷺ کی سیرت طیبہ سے بھی ہمیں یہی پیغام ملتا ہے۔ ایک دفعہ رسول ﷲ ﷺ کو اطلاع ملی کہ انصار کے دوگروہ آپس میں جھگڑ پڑے ہیں اور ان کی آپس میں سنگ باری بھی ہوئی ہے تو آپ ﷺ ظہر کی نماز کے بعد سیدنا بلال رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی ڈیوٹی لگا کر ’’کہ اگر میں لیٹ ہو گیا اور نماز کا وقت ہو گیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ے کہنا کہ وہ عصر کی نماز پڑھا دیں‘‘ صلح کروانے کے لیے چلے گئے اور عصر تک تمام معاملہ نمٹا کر واپس تشریف لائے۔
قارئین محترم!
غور فرمائیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے صلح کروانے‘ بدامنی کا باعث بننے والے فریقین کے معاملہ کونمٹانے اور فوری انصاف بہم پہنچانے میں کس قدر جلدی کی ہے اور اس معاملہ کو کس قدر اہمیت دی ہے کیونکہ انصاف کرنے اوردینے میں تاخیر کرنا انصاف نہ کرنے کے مترادف ہے اور جیسے جیسے جھگڑا‘ طول پکڑے گا تو بدامنی بھی پھیلے گی۔ فرد سے اہل خانہ‘ اہل خانہ سے خاندان اور پھر محلے اور علاقے تک اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جائے گا۔ جو کہ کسی طور بھی پسندیدہ نہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں حق کہنے سننے اور اس پر عمل کی توفیق فرمائے۔ آمین۔