قرض نادھندگی کے مسائل اور ان کا شرعی حل

عصر حاضر میں بینکوں اور مالیاتی اداروں میں بالخصوص اور معاشرتی سطح پر قرض خواہوں کو بالعموم ایک پیچیدگی اور مشکل کا سامنا ہے کہ قرضدار پیسہ لیکر واپس نہیں کرتے۔معاشرے میں بددیانتی ،کرپشن اور بےدینی کی وجہ سے صورت حال یوں ہوچلی ہے کہ پیسہ دینے والا واپس ملنے کی امید سے مایوس ہوجاتا ہے۔اسی وجہ سےضروت مندوں کو قرضوں کے حصول میں بھی انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ قرض خواہوں نے تو تلاش بسیار کے بعدجب انہیں کوئی حل سجھائی نہیں دیا تو معاصر قوانین نے یہ حل تجویز کیا کہ جو مقررہ وقت پر ادا نہ کرے اس پر جرمانہ لگادیا جائے۔ اور معاہدے کے وقت قرضدار اور قرض خواہ اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اگر وہ وقت پر ادا نہ کرسکا تو جتنا قرضہ لیا ہے اس سے زیادہ ادا کرے گا۔ کمرشل بینکوں میں اسے سود میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ اسلامی بینک اور ادارے اسے صدقہ کہہ دیتے ہیں۔ الغرض قرض لینے والا تاخیر کی صورت میں بہر صورت اصل رقم سے زیادہ ادا کرتا ہے۔ موجود ہ مالیاتی سسٹم میں اس طریقہ کار کو ریکوری کیلئے اور قرض نادہندگی سے بچنے کیلئے بڑا کامیاب طریقہ تصور کیا جا تاہے۔ لیکن اس طریقے کو اگر شرعی نوعیت سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو یہ آسودہ حال اورتنگ دست کو ایک ہی چھڑی سے ہانکنے کا فلسفہ ہے۔ جو ظلم اور استحصال پر مبنی ہے۔

اس سے بھی افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم حل وہاں سے تلاش کرتے ہیں جہاں سے مشکلات پید ا ہوتی ہیں۔ اور جہاں سے حل ملنا ہے اس سے پہلو تہی اختیار کرتے ہیں۔

حل کہاں سے ملے گا ؟

فرمان باری تعالیٰ ہے :

﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾

النساء: 59

اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔

ہم بحیثیت ایک مسلمان کے یہ بات دعوی سے کہہ سکتے ہیں کہ شریعت ِ اسلامیہ نے ہر مسئلے کا حل تجویز کیا ہے۔ ضرورت صرف اسے اپنانے کی ہے۔

قرض نادہندگی کے مسائل کے لئے بھی اسلام نے بہت بہترین حل پیش کئے ہیں اور حفاظتی تدابیر بتائی ہیں۔

قرض کے اسباب :لوگوں کے قرض لینے کی چند بڑی وجوہات درج ذیل ہیں :

(1)تجارتی قرضے

(2)جرمانے اور مالیاتی سزاؤں کی ادائیگی کیلئے لئے جانے والے قرضے

(3)بنیادی انسانی ضرورریات پورا کرنے کیلئے قرضے

(4)پر تعیش زندگی گذارنے کیلئے قرضے

 لوگ قرضے واپس کیوں نہیں کرتے ؟

وہ اسباب جن کی وجہ سے قرض خواہ کا پیسہ پھنس جاتا ہے۔ ادائیگی میں دشواریاں پیش آتی ہیں اسلام نے ان اسباب پر نظر رکھنے اور ہر سبب سے ایک مخصوص طریقے سے نپٹنے کے طریقے بتلائے ہیں۔

قرض کی عدم ادائیگی کے اسباب

(1) دیوالیہ ہوجانا۔تنگ دستی :

وہ شخص جس کے قرض ادا نہ کرسکنے کی وجہ دیوالیہ ہوجانا یا کسی بھی قدرتی آفت یا بے اختیار سبب کے باعث تنگ دست ہوجانا جس کے بعد اس کیلئے قرض ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اس کے پاس ادائیگی کے لئے رقم ہی نہیں ہوتی۔

(2)مقروض کی بد نیتی کے باعث جان بوجھ کر ٹال مٹول سے کام لینا:

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ

صحيح البخاري:كتاب الإستقراض، باب مطل الغني ظلم

ترجمہ:’’ مالدار کا ادائیگی قرض میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے‘‘۔

(3)مقروض کی موت :

اگر کسی انسان کی موت واقع ہوجائے تو اس کا اپنے مال سے تعلق ختم ہوجاتا ہے اور وہ اس کے ورثہ کے قبضے میں چلا جاتا ہے اور ان پر واجب ہے کے مال کی تقسیم سے پہلے اس(میت) کے تمام واجبات ادا کردیں۔

لیکن اگر میت نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو تو ان پر اس (میت) کے واجبات ادا کرنا لازم نہیں ہے جس کے سبب قرض کی ادائیگی پھنس جاتی ہے۔

(4)مقروض کا قرض سے مکر جانا :

اگر کوئی قرض لے کر مکر جائے کہ میں نے تو کوئی قرض نہیں لیا تو یہ بھی ایک بڑا سبب ہے جس سے قرض کی واپسی میں مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔

(5) روپے کی قدر گرجانا یا روپے کی مندی یا کرنسی کالعدم کردیا جانا :

اگر کسی ملک کی کرنسی ماند پڑ جائے یا اس کی قدر میں کمی واقع ہو جائے تو اس سے بھی قرض کی واپسی میں دشواری ہوجاتی ہے۔کہ آیا اب قرض کی ادائیگی کس صورت میں کی جائے ؟

قرض کی ادائیگی کو کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے ؟

شریعت کی جانب سے ادائیگی قرض کو یقینی بنانے کیلئے اختیار کئے جانےوالےوسائل:

اسلام نے قرض کی واپسی کو محفوظ اور ممکن بنانے کے لئے چند ایسے رہنما ضابطے متعین کئے ہیں جن سے نہ صرف دیا گیا قرض محفوظ ہوجاتا ہے بلکہ اس کی واپسی بھی بہت آسان ہوجاتی ہے۔ یہ وسائل قرض دینے سے پہلے اختیار کرنے ضروری ہیں۔

مقروض کے قرض لینے سے مکر جانے کا حل

جو لوگ قرض لیکر مکر جاتے ہیں شریعت نے اس حوالے سے چند رہنما ضابطے متعین کئے ہیں جن کے اختیار کرنے سے مقروض کبھی بھی مکر نہیں سکتا۔

(1) قرض کے معاہدہ کو تحریر کیا جائے :

قرض کے معاہدہ کو تحریر کرنا مشروع عمل ہے جس کا اللہ تعالی نے حکم بھی دیا ہے :

﴿ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ﴾

البقرۃ: 282

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت کے لیے ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔‘‘

قرض کے معاہدہ کو لکھنے میں بہت سی حکمتیں اور فوائد پنہا ں ہیں :

مال محفوظ ہوجاتا ہے اب کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ میں نے قرض نہیں لیا۔

تنازعات اور اختلافات ختم ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ بعض دفعہ مکرنے والا پورے قرض سے نہیں مکرتا بلکہ فریقین میں اختلاف ہوجاتا ہے کہ کتنی رقم دی گئی تھی۔ اور اس کی واپسی کا کیا طریقہ کار طے تھا۔ جس سے فریقین میں ناختم ہونے والے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر قرض کا معاہدہ لکھا ہوگا تو ظاہر ہے اس میں قرض کی رقم ، اس کی مدت ، ادائیگی کا طریقہ کار ، اور وقت ضرور تحریر ہوگا جس سے نزاع ختم ہوجائے گا۔

فاسد و باطل معاملہ سے بچاؤممکن ہوجائے گا۔

شکوک شبہات سے بچا جا سکتا ہے۔

کیا تھوڑے قرضے کو بھی لکھا جائے ؟

ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑی خرابی در آئی ہے کہ لوگ کم قرض کو لکھتے ہی نہیں کہتے ہیں کہ بھائی چند سو ہی تو ہیں لکھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ یا پھر اس وجہ سے بھی نہیں لکھتے کہ جس کو قرض دے رہے ہیں وہ بڑا نیک یا قریبی رشتہ دار ہے دینے والے کو اس پر اندھا اعتماد ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی اعتماد بعد میں بداعتمادی میں بدل جاتا ہے۔ سیکڑوں لوگ اس وجہ سے رو رہے ہیں کہ انہوں نے کسی شخص کو محض اعتماد کی بناپر قرض دیا اور کوئی لکھت پڑھت نہیں کی۔ مگر اگر شرعی اصولوں کو دیکھا جائے تو قرض کے لکھنے کے جو احکامات ہیں یہ سب سے پہلے صحابہ کرام پر نازل ہوئے اور قرآن کریم کے سب سے پہلے مخاطب وہی تھے۔ اور یہ لکھنے کا حکم سب سے پہلے انہی صحابہ کو دیا گیا تھا۔ تو کیا کوئی شخص صحابہ کے اعتماد اور امانت میں شک کرسکتا ہے ؟ ( حاشا وکلا ) لیکن اس کے باوجود بھی لکھنے کا کہا گیا کیونکہ شیطان ابن آدم کے وجود میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔ ہم نے جب شرعی اصول کو چھوڑ کر اعتمادوں کی فضا میں بسیرا کیا تو وہاں سے ہمارے اعتمادوں کو ٹھیس پہنچنے لگی۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ خاندان بچھڑ گئے ، رشتہ داریاں ختم ہوگئیں ، دوستیاں دشمنیوں میں بدل گئیں ، جس کا سبب یہی اندھا اعتماد تھا۔

اور یہ ضروری نہیں کہ لکھی صرف بڑی رقم جائے بلکہ قرآن مجید نے تو حکم دیا کہ :

﴿وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّٰهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا﴾

البقرۃ: 282

ترجمہ: ’’ اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی ہے شک وشبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے۔‘‘

(2)قرض کے لین دین میں گواہ بنانا

شواہد اور گواہ بنانا بھی مستحب عمل ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ﴾

البقرۃ: 282

ترجمہ:  ’’اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں پسند کر لو تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے۔‘‘

گواہ بنانے کی حکمت جیسا کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے کہا :’’ اس لئے کہ یہ جھگڑے کے امکان کو دور کرتا ہے اور انکار سے بھی بچاتا ہے‘‘۔

 قرضوں کو دیوالیہ اور تنگ دستی کے مسائل سے محفوظ کرنے کا شرعی طریقہ

(1)رھن (گروی ) رکھی جائے

اگر کسی قرض دینے والے کو خدشہ ہو کہ فلاں کو قرض دے رہاہوں اس کا دیوالیہ ہوگیا تو میں کیا کروں گا؟۔ اس کے لئے شریعت نے حل بتایا کہ قرض دیتے وقت اس شخص سے کوئی چیز گروی رکھوا لو۔

رھن سے بھی قرض دینے والے کو اطمینان ہوتا ہے کہ اگر اس کا مال واپس نہ ملا تو اس کا نقصان اس گروی سے پورا ہو جائے گا چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

﴿وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ﴾

البقرۃ: 283

ترجمہ: ’’اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو۔‘‘

اور حدیث میں آتا ہے کہ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مدت مقرر کر کے اناج خریدا اور لوہے کی ایک زرہ اس کے پاس گروی رکھی‘‘۔[1]

(2)ضمانت (کفالت )لینا

گروی کے علاوہ ضمانت اور کفالت کا طریقہ بھی قرض کو محفوظ بناتا ہے۔ لہذا قرض دینے والا قرض دیتے وقت کسی کی ضمانت سے قرض دے۔

اللہ تعالی نے ضمانت کو بھی مشروع قرار دیا ہے فرمان باری تعالی ہے کہ :

﴿وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ﴾

یوسف: 72

جواب دیا کہ شاہی پیمانہ گم ہے جو اسے لے آئے اسے ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ ملے گا۔ اس وعدے کا میں ضامن ہوں۔

ضمانت میں یہ حکمت ہے کہ قرض دینے والے کے لئے امید ہے کہ اسے اس کا دیا ہوا مال واپس مل جائے گا۔

مقروض کی بد نیتی اور ٹال مٹول سے قرضوں کو کیسے محفوظ کیا جاسکتا ہے ؟

اس حوالے سے پہلی اقسام میں ذکر کردہ ضابطوں کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔ قرض کو لکھا جائے ، اس پر گواہ بنائے جائیں اور ممکن ہوتو گروی اور ضمانت بھی لی جائے تاکہ ٹال مٹول کی صورت میں نقصان کی تلافی کی جاسکے ،نیز اس کے علاوہ بھی شریعت نے چند سزائیں متعین فرمائی ہیں جن سے نقصان بآسانی پورا کیا جاسکتا ہے۔

ٹال مٹول کرنے والے مقروض سے قرض کی واپسی کیلئے کئے جانے والے قانونی اقدامات :

(1) اسے فاسق قرار دیا جانا اور گواہی مسترد کرنا

(2) عزت ووقار کو مجروح کرنا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’ مال دار کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت اور سزا کو حلال کردیتاہے۔

اہل علم نے عزت کے حلال ہونے میں جو توجیہات بیان فرمائی ہیں وہ یہ ہیں :

اس سے سخت زبان استعمال کی جائے۔ لوگوں میں اس کے بارے میں بطور شکوہ ذکر کیا جانا کہ یہ شخص پیسہ لیکر استطاعت کے باوجود واپس نہیں کر رہا۔ اس کے ساتھ سخت کلامی کی جائے۔ اس کی ملامت اور مذمت کی جائے اور لوگوں میں اس کے ظلم کو بطور شکایت ذکر کیا جائے۔

نیز عصر حاضر میں ایسے نادہندہ افراد کے ناموں کو بلیک لسٹ اور پبلک کیا جانا چاہئے اور تمام اداروں کو جو قرض کے معاملات کرتے ہیں مطلع کیا جائے۔ اور ممکن ہوسکے تو اخبارات میں بھی ایسے افراد کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جو ہٹ دھرمی اور نا انصافی کی وجہ سے استطاعت ہوتے ہوئے بھی ادائیگی نہیں کر رہے۔

(3) قید میں ڈالنا اور سزا دینا

امام بیہقی نے امام سفیان سے نقل کیا ہے کہ دولت مند شخص کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا اس کی سزا حلال کردیتاہے اور سفیان نے فرمایا کہ اس کی سزا یہ ہے کہ اس کو قید میں بند کردیا جائے۔[2]

امام عبد اللہ ابن مبارک ، امام علی الطنافشی ، حافظ ابن حجر ، امام شعبی ، قاضی شریح رحمہم اللہ ودیگر نے بھی اس کی یہی سزا تجویز کی ہے۔

(4)سفر پر پابندی لگادی جائے

اگر مقروض کے سفر کے باعث قرض خواہ کی حق تلفی کا اندیشہ ہو تو قرض خواہ اس کو سفر سے رکوانے کا حق رکھتا ہے۔

(5)رہن رکھی ہوئی چیز کو فروخت کردیا جائے

(6) حاکم وقت ٹال مٹول کرنے والے مقروض کے مال سے جبرا وصولی کرسکتاہے۔

(7)حاکم وقت قرض کی ادائیگی کیلئے مقروض کی پراپرٹی فروخت کرسکتا ہے۔

(8) اگر مقروض کے پاس ایسی پراپرٹی ہے جسے فروخت نہیں کیا جاسکتا تو حاکم وقت اسے کرائے پر دے کر اس کرایہ سے قرض خواہ کو ادائیگی کرسکتا ہے۔

(9) اگر قرضہ خرید وفروخت کی شکل میں ہے کہ مقروض نے قرض خواہ سے کوئی چیز ادھار خریدی اور اب ادائیگی نہیں کر رہا تو قرض خواہ معاہدہ منسوخ کرکے اپنی چیز واپس لے سکتا ہے۔

(10)اگر قرض نہ ادا کرنے کی وجہ سے معاملہ کورٹ میں چلا گیا تو بعض فقہاء نے یہ قرار دیا ہے کہ وہ تمام خرچہ جو کیس پر قرض خواہ کی جانب سے ہوگا ( وکالت ، ودیگر اخراجات ) یہ سب مقروض شخص کو ادا ئیگی کا پابند کیا جائے گا۔

(11) ٹال مٹول کرنے والے کو اگر کوئی چیز قسطوں میں بیچی گئی ہے تو اس سے یہ شرط لگانا جائز ہے کہ اگر ٹال مٹول کیا تو تمام قسطیں یک مشت ادا کرنی پڑیں گی۔

(12) ٹال مٹول کرنے والے نادہندہ افراد کو کوئی ادارہ قرض فراہم نہ کرے۔

 تنگ دستی کی وجہ سے جو ادائیگی نہ کرسکے اس کا کیا حل کیا جائے ؟

اگر کوئی شخص مفلس ہوگیا ہے۔ اور وہ چاہتے ہوئے بھی ادائیگی نہیں کر پا رہا تو شریعت ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ :

(1) اس کے ساتھ نرمی کی جائے اور اسے کچھ مہلت دے دی جائے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلٰى مَيْسَرَةٍ﴾

البقرۃ: 280

ترجمہ:اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے اس کی آسودہ حالی تک مہلت دینا چاہیے۔

(2) نیکی اور خیر خواہی کے جذبہ کے تحت تمام قرض یا اس کا کچھ حصہ معاف کرینا چاہئے۔فرمان باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾

البقرۃ: 280

ترجمہ: اور اگر (راس المال بھی) چھوڑ ہی دو تو یہ تمہارےلیے بہت بہتر ہے۔ اگر تم یہ بات سمجھ سکو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ایک تاجر لوگوں کو قرض دیتا تھا جب کسی کو تنگ دست پاتا تو اپنے نوجوانوں سے کہتا کہ اس کو معاف کر دو شاید کہ اللہ تعالی ہم لوگوں کو بھی معاف کردے چنانچہ اللہ تعالی نے اس کو بھی معاف کر دیا۔[3]

لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مقروض کوا س کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے بلکہ اس کی مشکل کا حل بھی تلاش کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی معاشرے کے استحکام میں کوئی کردار ادا کرسکے ،اور اس کے ضعف کا سبب نہ بنے۔

 تنگ دست مقروض کی مشکلات کا حل

(1) تنگ دست کی امداد کی جائے

مقروض اور محتاج کو غارمین کے حصہ کی زکوۃ میں سے بھی امداد کی جاسکتی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ﴾

التوبة: 60

ترجمہ:’’صدقات تو دراصل فقیروںمسکینوں اور ان کارندوں کے لئے ہیں جو ان (کی وصولی) پر مقرر ہیں۔ نیز تالیف قلب غلام آزاد کرانے قرضداروں کے قرض اتارنےکے لئے۔‘‘

(2) بیع یا معاہدہ کو ختم کیا جائے اور دی ہوئی چیز واپس لے لی جائے

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس شخص نے اپنا مال کسی آدمی کے پاس بعینہ پا لیا، جو مفلس ہو گیا، تو وہ اس مال کا زیادہ مستحق ہے‘‘۔[4]

(3) قاضی یا حاکم مقروض مفلس کو جبرا کمانے کا حکم دے

جیسا کہ اللہ تعالی کاحکم ہے :

﴿وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ﴾

الجمعة: 10

اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :’’ تم میں سے کوئی شخص رسی لے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر اٹھا کر اس کو بیچے اور اللہ تعالی اس کی عزت کو محفوظ رکھے، تو یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے مانگے اور وہ اسے دیں یا نہ دیں‘‘۔[5]

(4) اپنے مال کے استعمال سے روک دیا جائے

جس شخص کے ذمہ واجب الادا قرضہ ہو اسلامی عدالت خود ہی یا قرض خواہوں کے مطالبے پر مقروض کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دیتی ہے۔

 جسے فقہ اسلامی میں ( الحجر ) کہا جاتا ہے۔

امام حاکم اور امام دارقطنی نے سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہےکہ : بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو اپنے مال میں تصرف سے روک دیا تھا اور ان کے ذمے قرض کی (ادائیگی) کے لیے اس کو فروخت کردیا تھا ‘‘[6]

قرضوں کے مسائل حل کرنے اور ان کی وصولی ممکن بنانے کیلئے چند اہم سفارشات:

(1) صرف بنیادی ضروریات یا تجارت کیلئے قرض دیا جائے۔ پر تعیش اشیاء کی خریداری کیلئے قرضے نہ دئے جائیں۔

(2)قرض دینے سے پہلے قرض لینے والے شخص کی مالی پوزیشن کا جائزہ لے لینا چاہئے کہ یہ اداکر بھی پائے گا یا نہیں۔

(3)قرضوں کی واپسی کیلئے قرآن وسنت کی روشنی میں قانون سازی کی جائے۔

(4) ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے بیت المال نظام کو فعال کیا جائے تاکہ ضرورت مندوں کی ضرورتیں وہاں سے پوری کی جائیں اور انہیں قرض لینے کی نوبت ہی نہ آئے۔

(5)قرض لینے والے قرضہ انتہائی مجبوری کی حالت میں لیں۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قرض سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں دعا کیا کرتے تھے اور کہتے تھے :

اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ

’’اے اللہ ! یقیناً میں گناہ اور قرض سے آپ کی پناہ طلب کرتا ہوں ۔‘‘

(6)قرض دینے سے پہلے تمام شرعی اور قانونی ضابطے پورے کر لئے جائیں۔ جن میں قرض کے معاہدہ کا لکھنا ، قرض پر گواہ بنانا ، بطور گروی کوئی چیز رکھنا ، ضامن متعین کرنا ، اور مقروض کی مالی پوزیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے قرضہ دیا جانا چاہئے۔

(7)جان بوجھ کر ٹال مٹول کرنے والے قرض نادہندگان کو بلیک لسٹ کیا جانا چاہئے اور کوئی ادارہ بعد ازاں انہیں قرض فراہم نہ کرے۔

(8)عوام میں شعور وآگہی کیلئے قرض سے متعلق خوف وڈر کی شرعی آیات واحادیث کی تعلیم دی جانی چاہئے۔ کہ جس میں مقروض کی نماز جنازہ نہ پڑھانا، موت کے بعد انسان کی مغفرت کا ادائیگی قرض تک روک لیا جانا ، وغیرہ شامل ہیں۔

(9)مالیاتی ادارے اور بینک جو ہاؤس فائناسنگ اور لیزنگ پر گاڑیاں دینے کیلئے قرضے دیتے ہیں انہیں کم بلکہ ختم کیا جانا چاہئے اور صرف بغیر چھت کے رہنے والوں کو بقدر ضرورت قرض دیا جائے۔

(10)مقروض کو بطور قرض لی ہوئی رقم سے زیادہ کی ادائیگی کا پابند نہ کیا جائے۔کیونکہ یہ سود ہے اور سود کی حرمت قطعی اور اٹل ہے۔ محض نام بدلنے سے حقائق نہیں بدل جاتے۔

؎ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے ترا حسن کرشمہ ساز کرے

موجود ہ مالیاتی ادارے اور بینک مقروض پر تعزیری طور پر نقد جرمانہ لگاتے ہیں جسے وہ فقراء ومساکین میں تقسیم کرنے کا کہتے ہیں۔ اور خود نہیں لیتے کہتے ہیں خود لے لیا تویہ سود بن جائے گا۔ انہیں علم ہونا چاہئے کہ جہاں سود لینا حرام وہاں دینا بھی حرام ہے اور کسی فرد کو سود دینے کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔

(11)اسلامی شریعت نے قرض کی واپسی کے لیے جو متعدد اخلاقی اور قانونی اقدامات کئے ہیں ان پر عمل درآمد کیا جانا چاہئے جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

(1)عدم ادائیگی اور تاخیر کا ظلم ہونا (2)ٹال مٹول کرنے والے مقروض کا فاسق قرار پانا اور اس کی گواہی مسترد ہونا(3)عزت کا مباح ہونا (4)قید میں ڈالنا (5)سفر پر پابندی عائد کرنا

اپنے مال کے استعمال سے محرومی (6)رہن شدہ چیز کی فروختگی (7)قرض خواہ کا مفلس کے ہاں اپنے موجود مال کا زیادہ حق دار ہونا (8)مقروض میت کی وصیت پر عمل قرض کی ادائیگی کے بعد ہونا (10)تقسیم وراثت کا ادائیگی قرض کے بعد ہونا (11)ضامن کا تقرر (12)حوالہ دین کی بنا پر ذمہ داری قبول کرنے والے کا ادائیگی کا پابند ہونا۔

(12)بینک یا مالیاتی ادارے نے اگر قسطوں پر چیز بیچی ہے تو وہ معاہدہ میں یہ شرط طے کرسکتے ہیں کہ اگر بلاوجہ مقروض نے قسطیں ادا نہ کیں ، یا ٹال مٹول کیا تو اسے تمام اقساط یک مشت ادا کرنی پڑیں گیں۔

(13)قرض لینے والا اگر حقیقت میں مفلس اور تنگ دست ہوگیا ہو تو اسے مہلت دینی چاہئے۔ ہوسکے تو اسے کچھ یا تمام قرض معاف کردینا چاہئے۔

(14) عوام الناس کی بالعموم اور قرض لینے والے کے رشتہ داروں کی بالخصوص یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مقروض کی اعانت کریں اور یہ اعانت زکوٰۃ وصدقات میں سے بھی ہوسکتی ہے۔ اس کی قرض ادائیگی میں مددکریں۔

(15)نادار شخص کے قرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں اسلامی ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے افراد کی مدد کرے اور ان کا قرضہ اپنے ذمہ لے۔

امام بخاری اور امام مسلم رحمہمااللہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کسی ایسی میت کو لایا جاتا ، جس پر قرض ہوتا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے : ’’ کیا اس نے اپنے قرض ادا کرنے کے لیے کچھ چھوڑا ہے ؟‘‘ پھر اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا جاتا ، کہ اتنا مال چھوڑا ہے ، کہ اس سے قرض ادا ہوسکتا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز (جنازہ) پڑھاتے ، وگرنہ مسلمانوں سے فرماتے : ’’اپنے ساتھی کی نماز ( جنازہ ) پڑھ لو ‘‘۔

پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتوحات کے دروازے کھول دئیے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں ایمان والوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا *ہوں۔ اس لیے ( اب ) جو بھی اہل ایمان میں سے وفات پاجائے اور اس کے ذمہ قرض ہو ، تو اس کا ادا کرنا میرے ذمہ ہے۔ اور جو کوئی مال چھوڑے ، تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے ‘‘۔

عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے عراق میں عبد الحمید بن عبد الرحمٰن کو لکھا کہ ’’ تم دیکھو ، کہ ہر وہ شخص جس نے بیوقوفی کے کاموں یا اسراف سے خرچ کرنے کے لیے قرض نہ لیا ہو ، اس کی طرف سے قرض ادا کردو۔‘‘

(16)بیت المال سے مقروض کی اعانت کیلئے تین شرائط کا ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے۔

 (1)قرض لینے کا معقول اور جائز سبب کا ہونا۔

 (2)ادائیگی قرض کے لیے مقروض کی تاحدِ استطاعت کوشش۔

 (3) بیت المال میں مال کی موجودگی۔

یہ قرض نادہندگی کے چند اہم مسائل ان کا حل اور نظام قرض کی بہتری کیلئے چند اہم سفارشات تھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نظام معیشت کو شرعی خطوط پر استوار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ انہ ولی التوفیق

 وصلی اللّٰه و سلم علی نبينا محمد و علی آله وصحبه أجمعين


[1] صحيح البخاري:كتاب الرهن،باب الرهن في الحضر

[2] فتح الباري:ج،ص62

[3] صحيح البخاري:كتاب القراض

[4] صحيح البخاري:باب في الإستقراض و أداء الديون ، باب إذا وجد ماله عند مفلس

[5] صحيح البخاري: كتاب البيوع ، باب كسب الرجل وعمله بيده

[6] مستدرك علي الصحيحين:كتاب البيوع۔ امام حاکم نے اس کو صحیحین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے

مصنف/ مقرر کے بارے میں

IslamFort