دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، جواللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام انسانوں کے لئے، ہر وقت و زمانہ اور ہر مقام وجگہ میں ،تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئےرہنما اصول کے طور پر نازل کیا گیا ہے ۔ دینِ اسلام انسانوں کے لئے اس دنیا کے خالق و مالک اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے،اس لئے وہی اللہ سب سے زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اُس کے بندوں کے لئےکب ،کہاں اور کون سے اصول و ضوابط اور کون سا دین سب سے بہتر ہےجسے اختیار کرکے وہ دنیا کے نظم کو اعتدال و انصاف کے ساتھ چلا سکیں اور اپنی آخرت سنوار سکیں ، اسی لئے اُس نے جو دین اپنے بندوں کے لئے منتخب و پسند کیا ہے اس سے بہتر ، اعلیٰ و افضل اور لائقِ عمل ونفاذدین اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
دینِ اسلام کی بنیاد دو چیزوں پر قائم ہے ،ایک قرآن مجیداور دوسری احادیثِ مبارکہ ۔اورتمام مذاہبِ عالم میں یہ صرف دینِ اسلام ہی کاخاصہ ہے کہ اس کے تمام مسلّمہ اصول و ضوابط قرآن مجید وحدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مستنبط ہیں اور قرآن مجید کی ہر آیت اور ثابت شدہ ہرحدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت صدیاں گذرجانے کے باوجود آج بھی موجود ہے، اور ہر قسم کے تغیر و تبدل سے محفوظ ہے،الغرض آج اس کرہِ ارض پر اگر کوئی ایسا سچا، آسان اور تحریف سے پاک دین ہے جسے اللہ تعالیٰ کا دین کہاجاسکے تو وہ صرف اور صرف دینِ اسلام ہی ہے ۔
لہٰذا جب یہ بات مسلّم ہے کہ یہی اللہ کی طرف سے نازل شدہ دین ہے جو اُس نے اپنے بندوں کےلئے نظامِ حیات کے طور پر مقرر فرمایا ہے تواُس کے بندوں کو چاہئے کہ وہ یہ تسلیم کریں کہ یہی وہ دین ہے جس کے اصول و ضوابط ہر معاشرہ ، ہر ملک و قوم اور افراد کے لئے ہر زمانہ میں قابل ِعمل ونفاذ ہیں،اور انہیں تسلیم کرنے ، اپنانے اور نافذ کرنے ہی میں بلاد و عباد کے لئے خیر و عافیت ہے اور انہیں ترک کرنے اور پسِ پشت ڈالنے میں ، ملک و قوم اور افراد و معاشرہ کی تباہی و بربادی ہے۔
زیرِ نظر مضمون میں تجارت کی فضیلت وآداب، خرید وفروخت کی وضاحت،اس کے ارکان اور دینِ اسلام میں خرید و فروخت سے متعلقہ بنیادی اصول و ضوابط بیان کیے جائیں گے ، یہ وہ اصول و ضوابط ہیں جو تمام مالی معاملات، لین دین ،خرید و فروخت کے حوالہ سے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں جن کا جاننا ، سمجھنا اورتمام معاملات میں انہیں اپنے پیشِ نظر رکھنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے ، رب تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔
تجارت کی فضیلت
اہلِ علم کے ایک طبقہ کے مطابق کسبِ معیشت کے طور طریقوں میں سب سے افضل و اشرف طریقہ تجارت (Trade)ہےبشرطیکہ تاجر ، دینداراورصادق و امین ہو اور اپنی تجارت میں ہر اُس عمل سے اجتناب کرے جو کتاب و سنت کی مخالفت پر مبنی ہو، یاجو اُس کی تجارت کو شرعی حوالہ سے مشکوک بنائے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تاجرتجارت سے متعلقہ شرعی آداب کا بھی خیال رکھے۔
دینِ اسلام میں جائز تجارت کو انتہائی باعزّت اور مبارک عمل قرار دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر نبی و رسول علیہم السلام کا ذریعہ معاش اُن کے خود کے ہاتھ کی کمائی تھی۔اولادِ آدم کے سردار ،سرورِ کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تجارت کے پیشہ سے وابستہ تھے اور تجارت کی ترغیب بھی دیا کرتے ،اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اکثریت تجارت ہی کیا کرتی تھی، قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ میں جائزتجارت اور صادق و امین تاجر کی اہمیت و فضیلت کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔
قرآن کریم میں فضیلت
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر جائز تجارت کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے منافع کو اپنے فضل سے تعبیر فرمایا ہے جس سے اس عمل کی اہمیت و برکت کو سمجھا جاسکتا ہے ۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ
البقرۃ – 198
ترجمہ:’’ تم پرکسی بھی قسم کاکوئی گناہ و حرج نہیں کہ تم اپنے ربّ کا فضل(رزق) تلاش کرو‘‘۔
اسی طرح فرمایا:
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ
الجمعة – 10
ترجمہ:’’پھر جب نمازمکمل ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤاور اللہ کا فضل(رزق)تلاش کرو ‘‘۔
مذکورہ بالا آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جائز طریقہ سے کسبِ معاش بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور کاروبار و تجارت میں اسلامی احکام،شرائط و ضوابط کو مدِّ نظر ر رکھا جائے تو یہ عمل بھی عبادت ہے اور اس کا دنیاوی ثمرہ،فوائد و منافع کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
احادیث میں فضیلت
رسولِ اکرمﷺسے ایک سائل نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! سب سےپاکیزہ وبہترین ذریعہ معاش کونسا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:
’’عملُ الرّجلِ بيدِہ وکُلُّ بيع مبرور‘‘
کہ (بہترین ذریعہ معاش) آدمی کے خود کےہاتھ کی کمائی اور ہر وہ تجارت و کاروبار ہے جوشرعی لحاظ سے جائز ہو اوراس میں امانت و صداقت کو ملحوظِ خاطر رکھ کر کیا جائے ۔ اس میں ، جھوٹ ، دھوکہ، خیانت ، زیادتی اور حرام کا شائبہ تک نہ ہو۔[1]
حدیث ِ مذکور سے جائز تجارت کی فضیلت واضح ہوجاتی ہے رسولِ اکرمﷺنے ایسی تجارت کو سب سے پاکیزہ و بہترین قرار دیا ہے۔
اسی طرح دیانت اور امانت دارسچے مسلم تاجر کی فضیلت اور بد دیانت و فاجر تاجر کی مذمّت کے حوالہ سے کچھ اہم احادیث آنے والی سطور میں’’چھٹاضابطہ‘‘ کےعنوان کے تحت دیکھی جاسکتی ہیں۔
اصحابِ رسولﷺسیدنا ابن عمر ، ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا کہ: امانت دار ، سچا مسلمان تاجر روزِ قیامت شہداء میں شمار ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے میں ہوگا اور اُسے جنّت میں داخل ہونے سے نہیں روکا جائے گا۔ [2]
آدابِ تجارت
شریعتِ مُطہّرہ میں تجارت سے متعلّق کچھ اہم آداب سکھائے گئے ہیں جنہیں دوران تجارت و کاروبار ملحوظ رکھنا ہر تاجر کے لئے ضروری ہےجن میں سےچند اہم درجِ ذیل ہیں :
(1) معاملات میں لوگوں کے ساتھ نرمی و آسانی سے پیش آنا،اُنہیں سہولت و رعایت دینا اور بلند اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرنا۔
اسے شرعی اصطلاح میں ’’سماحۃ ‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے۔یعنی بلند اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرنا ، خندہ پیشانی اور خوش اسلوبی سے معاملات کو نبھانا، سخاوت کو اختیارکرنا،مجبور و کمزور لوگوں پرنرمی، شفقت و احسان کے ساتھ پیش آنا ،تقاضا ومطالبہ کرنے و دیگر امور میں اُن پر سختی و تنگی نہ کرناوغیرہ ۔
یہ وہ بنیادی ہدایات ہیں جن پر ہر مسلمان کو زندگی کے ہر معاملہ میں عمل کرنا چاہئے ، بالخصوص لین دین ، خرید و فروخت اور کاروبار و تجارت میں ان ہدایات کو ہمہ وقت اپنے مدِّ نظر رکھناچاہئے۔
فرمانِ نبویﷺہے:
’’اللہ تعالیٰ اُس بندے پر اپنا رحم فرمائے جو جب بھی کچھ خریدتایابیچتا ہے توسماحت، یعنی آسانی ،نرمی و رعایت اور سخاوت کا معاملہ اختیار کرتا ہے اور جب بھی کسی سے اپنے حق کا مطالبہ وتقاضا کرتا ہے توآسانی، نرمی ورعایت اورسخاوت کا معاملہ کرتا ہے‘‘۔[3]اور ایک دوسری روایت میں’’واذاقضی‘‘ کے الفاظ بھی ملتے ہیں یعنی: جب کسی کے حق وقرض کی ادائیگی کا معاملہ ہو تو اُس میں ٹال مٹول اور بے جا تأخیر سے کام نہیں لیتا بلکہ سماحت سے کام لیتے ہوئے حقدار کو اُس کا حق واپس لوٹاتا ہے۔[4]
جامع ترمذی کی ایک دوسری روایت میں:ایسا کرنے کو اللہ تعالیٰ کا محبوب و پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔[5]
اسی طرح مسند احمدکی ایک روایت میں اسی عمل کی بناء پر رسولِ اکرمﷺنے ایک شخص کے لئے مغفرت کی دعاء فرمائی ۔[6]
(2) خرید وفروخت ، کاروبار و تجارت سے متعلقہ شرعی احکام کی معرفت رکھنا۔
شریعتِ اسلامیہ میں کوئی بھی ریاست اس وقت تک فلاحی و ترقی یافتہ نہیں بن سکتی جب تک اس ریاست کے کاروباری مراکز ، بازاروں اور مارکیٹ میں معاملات کرنے والے کاروباری و تاجر حضرات مالی معاملات میں شرعی احکام یعنی جائز و ناجائز ، حلال و حرام اور مشتبہ امور سے واقف نہ ہوں، کامیاب نظامِ معیشت کے قیام کے لئے یہ لازمی ہے کہ کاروبار و کاروباری مراکز سے متعلقہ تمام افراد شرعی اصول و ضوابط کا بھر پور علم رکھیں اور عملاً اُ ن کی پیروی کریں ، جائز و ناجائز پیشے ، خرید و فروخت ، کاروبارو تجارت میں حلال و حرام کی تمیز اور دورانِ تجارت صحیح اور غلط وغیرہ کا مکمل علم ہوناچاہئے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
’’ لايبع في سوقنا الّا من تفقه في الدّين‘‘
’’ہمارے بازاروں میں صرف وہی خرید وفروخت کرے جسے دینی احکام کی سمجھ ہو‘‘۔ [7]
اسلامی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات آپ کو ملیں گے کہ حکمرانوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً باقاعدہ کاروباری مراکز کا جائزہ لیا جاتا تھا اور ایسے لوگوں کو باہر کردیا جاتا تھا جومعاملات میں شرعی احکامات سے واقف نہ ہو ں یا اپنی معیشت و کاروبار میں جائز و ناجائز ، حلال و حرام کا خیال نہ رکھتے ہوں ،جبکہ آج ہمارے نظامِ معیشت کی بربادی ،غربت و افلاس کی بڑھتی ہوئی صورتحال ، ظلم، زیادتی و ناانصافی اور پریشان حالی کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب ہی احکامِ شرعیہ سے جہالت یا جان بوجھ کر اُن سے صرفِ نظر کرنا اور حلال و حرام کی تمیزکو بالائے طاق رکھتے ہوئے فقط نفس کی ہوس کو مٹانا ہے۔ واللہ المستعان
(3) جائز و ناجائز کے درمیان مشتبہ امور و مشکوک معاملات سے اجتناب کرنا۔
رسول اکرمﷺکا فرمانِ مبارک ہے کہ:یقیناً حلال بھی واضح ہے اور یقینا ً حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ امور ہیں جنہیں لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی، پس جو اُن مشکوک و مشتبہ امور سے دور رہا ، اور اپنے آپ کو اُن سے بچالیا تو اُس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور محفوظ کرلیااور جو ان شبہات میں مبتلا ہوگیا وہ حرام میں واقع ہوگیا ۔۔۔الخ[8]
کاروبار و تجارت میں کافی ایسے معاملات ہیں جن کا حلال و جائز ہونا شرعی لحاظ سے مشکوک و مشتبہ ہے جیسے:
* وہ کاروباری معاملات جو بنیادی طور پر تو جائز ہیں لیکن ان میں ناجائز و حرام امور بھی موجود ہیں ۔
* یا ایسے شخص کے ساتھ کاروبار کرنا کہ جس کا زیادہ تر مال حرام ہو۔
* یا ایسے لوگوں و اداروں کے ساتھ کام کرنا جن کے کام کا اکثر حصہ حرام معاملات پر مبنی ہو۔
* یا ایسے کاروباری مراکز میں کام کرنا کہ جن میں زیادہ ترنا جائز و حرام کام ہوتے ہوں وغیرہ وغیرہ،۔
یہ سرسری سی چند اہم مثالیں ذکر کی گئی ہیں ،البتہ اس مسئلہ میں شرعی ضابطہ یہی ہے کہ :
ہر وہ کام جس کا جائز و حلال ہونا شرعی اعتبار سے واضح نہ ہو بلکہ مشکوک و مشتبہ ہو تو اس سے اجتناب کرنے میں ہی عافیت ہے ۔
(4)کاروبار و تجارت کے ذریعہ حاصل ہونے والے منافع سے صدقہ و خیرات کرنا۔
صدقہ دو طرح کا ہوتا ہے ، ایک: واجبی صدقہ جسے زکوٰۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسرا: نفلی صدقہ ۔یہاں ہماری مراد دونوں اقسام ہیں کیونکہ واجبی صدقہ یعنی زکوۃ تو بہر صورت ادا کرنی ہی ہے،اور زکوٰۃ کا نصاب و مصارف متعین اور محدّد ہیں ،جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلِ ثروت حضرات معاشرے کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی بہتری کے لئے واجبی صدقات سےبڑھ کر خدمت انجام دیں۔
صدقہ و خیرات کی اہمیت و فضیلت کو سمجھنے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس کے ذریعہ مال و دولت کو پاک کیا جاتاہے ، صدقہ کرنے سے مال میں اضافہ ہوتا ہے اور صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور اُس کی ناراضگی کو ختم کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے اسی طرح صدقات کے ذریعہ معاشرے کےمستحق و نادار افراد کی کفالت ہوتی ہے جومستحقین کے حق کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے کی خاصیت بھی ہے کہ جسے اگر صحیح طور پر امانت کے ساتھ ادا کیاجائے تو جہاں ایک طرف تو معاشرے میں موجود بڑھتی ہوئی غربت و افلاس پر قابو پایا جاسکتا ہے اور دوسری طرف غربت و فقیری کے نتیجہ میں پیدا ہونے اور پھیلنے والے جرائم کوبھی کافی حد تک ختم کیا جاسکتا ہے۔
بیع کی تعریف
خرید و فروخت (Trade)کو عربی میں’’بیع ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
قرآن کریم میں یہی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور کتبِ احادیث و فقہ میں بھی لین دین ، خرید وفروخت ، تجارت و کاروبارسے متعلقہ احکامات عموماً ’’کتاب البیوع ‘‘ ہی کے تحت بیان ہوئے ہیں۔
اصطلاح میں بیع سے مراد ہے :
قیمت کے عوض، باہمی رضامندی سے،بغرضِ ملکیت مال و سامان کا تبادلہ کرنا۔
بیع کے ارکان
’ارکان‘ رکن کی جمع ہے اور رکن اُسے کہتے ہیں کہ جس پر مطلوبہ چیز کا وجود و تصور موقوف ہو یعنی جس کی موجودگی کے بغیر عمل کی درستگی ممکن نہ ہو ۔
جمہور اہلِ علم کے یہاں بیع کے تین بنیادی ارکان ہیں:
المعقود بہ (صیغہِ عقد: جس کے ذریعہ عقد طے کیا جائے)(Wording of the contract ) یعنی ایجاب وقبول یا اُن ہی کے مثل ایسے الفاظ جن کے ذریعہ سے عقد طے پائے۔
bالعاقد(Dealer) (عقد کرنے والے) جو کہ خریدار(Buyer) اور فروخت کنندہ (Seller) ہیں۔
cالمعقود علیہ (جس پر عقد طے کیا جائے) اس سے مراد: ’’قیمت‘‘(Value)اور’’وہ چیزہے جس کا سودا قیمتاً مقصود ہو(Valuable items)‘‘۔
اب کوئی بھی بیع اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتی جب تک اس میں یہ تینوں ارکان موجود نہ ہوں ۔
البتہ’’صیغہ عقد‘‘کے حوالہ سے یہ سمجھنا چاہئے کہ’’کسی بھی معاملہ کے انعقاد کے لئے شارع نے کوئی خاص صیغہ(Word or Term) مقرر نہیں فرمایا بلکہ ہر وہ قول یا فعل جوعرفِ عام میں رائج ہو (بشرطیکہ اس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو ) جو معاملہ کے انعقاد پر دلالت کرے اس سے بیع مکمل ہوجاتی ہے۔ تاجر وکاروباری حضرات اس سے بخوبی واقف ہیں۔
خرید و فروخت کے بنیادی اصول و ضوابط
اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے ذریعہ جس طرح عقائد ،عبادات، معاشرت و سیاست وغیرہ میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے اسی طرح معاملات و معیشت میں بھی ہماری رہنمائی فرمائی ہے اور ہمیں وہ بہترین اصول اور ضابطے دیے ہیں کہ اگر ہم اپنی معیشت کو ان اصول و ضوابط پر استوار کریں تو ایک طرف ہماری معیشت ترقی کی راہ پرگامزن ہوگی اور دوسری طرف معاشرے میں موجود معاشی بدحالی،غربت، ناانصافی،ظلم وزیادتی، عدمِ مساوات وغیرہ جیسے مسائل پربھی قابو پایا جاسکتا ہے، یہ اصول و ضوابط اہلِ علم نے قرآن و سنت سے اخذ کیے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
پہلا ضابطہ:
الی معاملات(لین دین ، خرید و فروخت) میں مستقل قاعدہ یہ ہے کہ ہر چیز حلال ہے سوائے اس کے جس کاحرام ہونا شرعی دلائل سے ثابت ہو۔
اس ضابطہ کا مطلب یہ ہے کہ شرعاً تمام لین دین کےمعاملات جائز و حلال ہیں، جب تک کہ ان میں کوئی ایسا شرعی سبب موجودنہ ہو جس کی وجہ سے وہ حرام قرار پائیں،اور جو شخص کسی بھی لین دین کے معاملہ کو شرعا ً حرام قرار دے گا اس پر واجب ہے کہ وہ اُس کی حرمت کی دلیل و علّت بیان کرے۔
مثال کے طور پر ایک مسلمان کسی چیز کو بیچناچاہتا ہے اور دوسرا یہ کہتا ہے کہ یہ حرام ہے ،تو ایسی صورت میں حلال کہنے والے سے دلیل طلب نہیں کی جائیگی بلکہ جس نے اُسے حرام قرار دیا اُس سےحرمت کی دلیل طلب کی جائیگی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور جمہور اہلِ علم رحمہم اللہ کے یہاں مالی معاملات میں یہ ایک مستقل و معتبر ضابطہ ہے،بلکہ اہلِ علم نے تو اس پر اجماع بھی بیان کیاہےجیسے امام ابنِ قدامہ، امام ابنِ رجب، شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ ،امام نووی اور امام غزالی وغیرہم رحمہم اللہ ،اور علمائے اصول کے یہاں تو یہ اجماعِ قطعی کی ایک اہم مثال ہےجس پر کسی قسم کا کوئی تردّد نہیں ہے۔
اس ضابطہ کے دلائل درجِ ذیل ہیں :
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَأَحَلَّ اللہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
البقرة – 275
ترجمہ: ’’حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام‘‘ ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیع یعنی لین دین، خرید و فروخت ،کاروبار و تجارت وغیرہ کومطلقاً حلال قرار دیا ہے اور سود کو مطلقاً حرام ۔
اب اس بیع کا تعلق زمین او راس کے متعلقات اناج وغیرہ سے ہو ، حیوانات وغیرہ سے ہو یا دیگر ساز و سامان سے،سب کی بیع حلال ہے جب تک کہ ان میں کوئی بھی ایسا شرعی سبب نہ پایا جائے جو انہیں حرام کردے جیسے سود اور دیگر بیوعِ محرّمہ۔
اور سورۃ المائدۃ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّہَا الَّذِيْنَ آمَنُوْٓا أَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ
المائدة – 1
ترجمہ:’’ اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو ‘‘۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو ہر مالی معاملہ و عقد کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے خواہ وہ معاملہ اور اس کی صورت رسول اکرمﷺکے مبارک زمانہ میں موجود ہو یا نہ ہو جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہر مالی معاملہ و عقد شرعاً جائز و حلال ہے سوائے اس کے جسے باقاعدہ حرام قرار دیا گیا ہو۔
ایک اور مقام پرفرمانِ باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّہَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْٓا أَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّآ أَنْ تَکُونَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ
النساء – 29
ترجمہ: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ۔ درست صورت یہ ہے کہ باہمی رضا مندی سے آپس میں لین دین ہو ‘‘۔
اس آیت میں رب العالمین نے جائز تجارت کے ذریعہ منافع خوری کوباہمی رضامندی کی شرط کے ساتھ حلال و جائز قرار دیا ہے جس کا معنی ہے کہ ہر جائز تجارت کا منافع باہمی حقیقی رضا مندی سے جائز ہے سوائے اس منافع کے جسے حرام قرار دیا گیا ہو جیسے وہ منافع جو ظلم و زیادتی ، ناانصافی یا حرام کام پر مبنی ہوں،اسی طرح منافع کی دیگروہ صورتیں جن کی حرمت بیان کردی گئی ہو۔
دوسرا ضابطہ:
مالی معاملات میں ہر قسم کی شرط جائزہےسوائےاس شرط(Condition) کے جس کا حرام ہونا شرعی دلائل سے ثابت ہواس ضابطہ کا معنی یہ ہے کہ فریقین میں سے کسی کی طرف سے بھی کسی بھی قسم کی شرط لگانا عموماً جائز و حلال ہے،خواہ اس شرط کا تعلق اس عقد کے انعقاد (Execution) سے ہو یا اس کی مصلحت (Advantage) سے اور وہ شرط عقد سے متعلقہ کسی وصف(Quality) کے ساتھ ہو یا عقد کے منافع (Profit) کے ساتھ ،ہر قسم کی شرط جائز ہے جب تک کہ کوئی ایسی شرعی دلیل وسبب نہ پایا جائے جو اس شرط کو حرام قرارد ے۔
اس ضابطہ کے دلائل درجِ ذیل ہیں:
اس ضابطہ کے دلائل میں سے ایک اہم دلیل رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمانِ مبارک ہے کہ :
’’المسلمون علیٰ شروطهم الّا شرطاً احلّ حراماً او حرّم حلالا‘‘.
ترجمہ: ’’ مسلمان آپس میں طے شدہ شروط پر عمل کرنے کے پابند ہیں ، سوائے اس شرط کے جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کردے‘‘۔[9]
رسول ِ اکرمﷺ کا مذکورہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ معاملات میں ہر قسم کی شرط جائز ہے سوائے ان شرائط کے جو شرعی دلائل کی رو سے نا جائز وحرام ہوں ۔
تیسرا ضابطہ:
ہر قسم کا ظلم حرام ہے لہٰذا تمام معاملات ہرطرح کے ظلم سے پاک ہونےچاہئیں۔
ظلم سے مراد:
شریعت میں جن امور کے کرنے کا انسان سے مطالبہ کیا گیا ہے ان سے غفلت برتنا اور انہیں ترک کرنا اور جن امور سے انسان کو اجتناب کرنے اور دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے ان کا ارتکاب کرنا شرعی اصطلاح میں’’ظلم‘‘کہلاتا ہے ۔
قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ میں ظلم کی تمام صورتوں کی سخت حرمت و مذمت بیان کی گئی ہے ، خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہو یا حقوق العباد سے، حاکم کی طرف سے ہو یا محکوم کی،سب سے بڑا ظلم ہو جو کہ شرک ہے یا کوئی ادنیٰ، اسی طرح ظالم کا ساتھ دینا یا اُس کی حمایت کرنا بھی خودظلم کرنے کے مترادف ہے ، لہٰذاظالم کو اُس کے ظلم سےحسبِ استطاعت روکنااور مظلوم کی حمایت و دلجوئی کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ
البقرة – 279
ترجمہ:’’نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔
سیدناابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں نے اپنے آپ پر اور اپنے بندوں پر ظلم کو حرام قرار دیا ہے تو تم آپس میں ظلم نہ کرو‘‘۔[10]
اورسیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے یہ فیصلہ فرمایا کہ ’’کسی کو نہ ابتدا ءً نقصان پہنچایا جائے اور نہ ہی بدلے میں‘‘ ۔[11]
چوتھا ضابطہ:
ہر معاملہ،مقصودہ چیز میں غرر(کسی بھی قسم کے دھوکہTricked and uncertainty) اورجہالت(لاعلمی Obscurity ) سے پاک ہو۔عربی لغت میں غرر سے مراد : دھوکہ وخطر ہے اور اصطلاح میں غرر سے مراد :ہر وہ چیز ہے کہ جس کا ذریعہ حصول یا حقیقت یا مقدار (Quantity)مجہول ہو، جس کی وجہ سے اس میں دھوکہ کا عنصر پیدا ہوجائے۔
اس ضابطہ سے مراد یہ ہے کہ :
ہر وہ معاملہ جس میں بیچی یا خریدی جانے والی چیز کا ذریعہ حصول معلوم نہ ہو یا اس کی حقیقت یا مقدارمعلوم نہ ہویااس میں کوئی ایسی جہالت (لاعلمی)موجود ہو جو اس میں دھوکہ کا پیدا کردے تو اسے بیچنے یا خریدنے میں غرر( دھوکہ) کا عنصر موجود رہتاہے ،بشرطیکہ وہ غرر (دھوکہ) مؤثّر (اثر انداز ہونے والا) ہو، لہٰذا ایسا معاملہ کرناجس میں مؤثّر غررہوشرعاً حرام ہے ۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ غرر کے ساتھ ہم نے مقصودہ چیز کی قید لگائی ہے جس سے مراد : ہر وہ چیز ہےجس کا بیچنا یا خریدنا مقصود ہو ، اگر غرر و جہالت مقصودہ بیع میں نہیں بلکہ اس چیز میں ہے جو ضمناً اس میں شامل ہو تو اس میں غرر مؤثّر (اثر انداز)نہیں ہوگا۔
پانچواں ضابطہ:
معاملہ ہر قسم کے سود (Interest )سے پاک ہووہ معاشرہ جواپنی معیشت کو عدل و انصاف کے تقاضوں پر استوار کرنا چاہتا ہو اُس کے لئے سود ایک زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے ، وہ سود (Interest)خواہ تجارتی (Commercial loans)قرضوں پر لیا جائے یا غیر تجارتی(Non Commercial loans)اورچونکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)میں معیشت کی بنیاد سود پر قائم ہے لہٰذا اسلامی نظامِ معیشت جس طرح کے عادلانہ ، منصفانہ اور ترقی یافتہ معاشرہ کی ضمانت دیتا ہے وہ کم از کم سود کی موجودگی میں تو ہرگز ممکن نہیں ہے ، کیونکہ سود جہاں ایک طرف معاشرے میں ،ظلم ، زیادتی ، نا انصافی اور فتنہ و فساد کا بنیادی سبب ہے کہ جس کے ذریعہ ضرورت مند اور کمزور لوگوں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ حاصل کیا جاتا ہے وہاں دوسری طرف شریعتِ اسلامیہ سے کھلی بغاوت اور اللہ تعالیٰ سے اعلانِ جنگ بھی ہے کہ جس کے بعد سود میں لت پت معاشرہ کیسے یہ امید رکھتا ہے کہ اس میں عدل و انصاف قائم ہو اور ترقی پروان چڑھے؟
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْن فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْن
البقرة – 278/279
ترجمہ:’’اے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والےہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے (جنگ)کے لئے تیار ہوجاؤ ہاں اگر توبہ کر لو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں سود کو حرام اور اُس سے متعلقہ ہر شخص کو ملعون کہا گیا[12]اور اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلان جنگ کے ساتھ ساتھ اس (سود)کے ادنیٰ درجہ کےگناہ کو بھی ماں کے ساتھ اعلانیہ نکاح کے مترادف قرار دیا گیا[13]، جس سے سود کی لعنت ، نحوست اور بربادی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
چھٹا ضابطہ:
معاملہ میں کسی بھی قسم کا’’جُوا ‘‘ (Gambling ) شامل نہ ہو۔جوئے کو عربی میں ’’ اَلمَیسِر‘‘ کہا جاتا ہے ، جس کے لغتِ عرب میں کئی اطلاقات ہیں ، جن میں سے ایک ہے’’ آسانی ‘‘، اور اگر یہ یَسَار سے ماخوذ ہو تو معنی ہوگا : غنی یعنی مالدار ۔اصطلاح میں’’ اَلمَیسِر‘‘سےمراد :ہر وہ معاملہ جس کے کرنے سے انسان کو کثیر مال و دولت مفت میں یا آسانی سے حاصل ہوجائے، یا پھراس کے ہاتھ سے آسانی سے نکل جائے یعنی یا تو اُس معاملہ میں اُسےبڑا فائدہ ہوجائے یا بڑا نقصان ۔ اسی کو عرفِ عام میں ’’ جُوا ‘‘ اور ’’قمار بازی ‘‘ کہا جاتا ہے۔
معاشرہ میں پایا جانے والا جوئے کا قدیم ،ظاہری ومعروف مفہوم تو شرعاً و قانوناًحرام سمجھا جاتا ہے لیکن دورِ حاضر میں جوئے ہی کی بہت سی اقسام ایسی بھی ہیں جنہیں یا تو حرام سمجھا نہیں جاتا یا پھر ان کی حرمت سے لوگ واقف نہیں ۔بلکہ جوئے کی بعض صورتیں تو ایسی ہیں جن کو حکومتوں کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے،حالانکہ ایسی تمام نئی شکلیں بھی حرام ہی ہیں البتہ بہت کم ایسے معاملات ہیں جن کے جائز یا ناجائز ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے ، لیکن ان قلیل معاملات کے علاوہ عموماً جوئے کی رائج شکلیں شرعاً حرام ہی ہیں جیسے:
لاٹری (Lottery) ،انعامی بانڈز(Prize bonds) ،حکومت جو بانڈز جاری کرتی ہے ، اسی طرح مزعومہ اسلامک بینکنگ میں جو ’’صکوک ‘‘ جاری کئے جاتے ہیں،اسی طرح بیمہ (Insurance) کی بعض صورتیں ،نیز Race course، اور شطرنج (Chess) ،کارریسنگ ، کرکٹ یا کسی بھی کھیل میں کھیلاجانے والاجوا،وغیرہ سب شامل ہیں ۔
جوا بشمول اپنی تمام صورتوں کے علی الاطلاق حرام ہے ۔
اگرچہ وہ جُوا خانے (Casinos) وغیرہ میں کھیلے جانے والے مختلف گیمز ہوں جیسے :
Table games: Black Jack, Baccarat, Poker etc.
Lottery type games: Slots, Keno, Wheel of fortune etc.
یا کسی گلی ،کوچے یا گھر میں جوئے کے طور پر کھیلا جانے والا کوئی بھی کھیل ،خواہ وہ لڈو، تاش (Card Game)، شطرنج(Carron game) وغیرہ ہوں یا کوئی دوسرا کھیل۔
اسی طرح ضروری نہیں کہ صرف اُسی کو جُوّاسمجھا جائے جس میں قیمت بہت زیادہ لگائی گئی ہو بلکہ اگر ایک روپیہ بھی کوئی جوئے کے طور پر لگاتا ہے، وہ جوئے کے گناہ میں شامل ہوجاتا ہے۔أعاذنا اللہ منہ
تمام معتبر اہلِ علم جوئے کےحرام ہونے پر متفق ہیں، جس کی بنیادی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
المائدة – 90
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو ‘‘۔
جوا حرام کرنے کے بعداللہ تعالیٰ نے اُس کی حرمت کی حکمت بھی بیان فرمائی :
اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ
المائدة – 91
ترجمہ:’’ شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کہ ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تمہیں باز رکھے ۔ سو اب بھی باز آجاؤ‘‘۔
شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جوئے کے مفاسد و نقصانات ،سود کے مفاسد و نقصانات سے بھی بڑھ کر ہیں ، کیونکہ جوئے میں دو سنگین خرابیاں پائی جاتی ہیں:
a (جوئے کے ذریعہ ) حرام مال کھانے کی خرابی ۔
bبے مقصد و حرام کام میں مشغولیت کی خرابی، جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر ، نماز سے روکے اور آپس کی بغض وعداوت ، نفرت و دشمنی پیدا کرے ، اسی لئے جوئے کو حرام کیا گیا (کیونکہ اس میں معاشرے کا بگاڑ زیادہ ہے)۔انتہیٰ
اور مشاہدہ سے یہ بات مسلم ہے کہ جوا چھوٹے پیمانے پرہو یا بڑے، ایک طرف تو یہ فقیری ، قلاشی ، محتاجگی کا سبب ہے اور دوسری طرف وہ فتنہ ، فساد ، نفرت و دشمنی بھی پیدا کرتا ہے ، اسی لئے دینِ اسلام میں ہر قسم کے جوئے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
ساتواں ضابطہ:
ہر معاملہ میں صداقت و امانت (Honesty and sincerity )کو ملحوظ رکھا جائے۔دینِ اسلام ہر معاملہ ، خرید و فروخت،تجارت و کاروبار میں سچائی اور امانت داری کو اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مطہّرہ میں تمام معاملات میں ہر قسم کی دھوکہ بازی اور دھاندلی (Fraud)کوحرام قرار دیا گیا ہے اور جھوٹی قسم کھا کرسامان بیچنے والے کو انتہائی سخت وعید سنائی گئی ہےجیساکہ فرمانِ نبویﷺہے:
’’اے تاجروں کی جماعت ! اللہ کے رسولﷺکی بات کو غورسےسنو اور قبول کرو۔لوگوں نے اپنی گردنوں اور نگاہوں کو اوپر اٹھایا(یعنی لوگ آپﷺ کی طرف متوجہ ہوگئے) تو آپﷺنے فرمایا:یقیناً تاجر روزِ آخرت اللہ کے سامنےفاجروں (گناہ گاروں اور فاسقوں ) کے زمرے میں اٹھائے جائیں گے سوائے اُن (تاجروں )کےجو اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور نیکی کریں اور سچائی کو اپنائیں‘‘ ۔
اسی طرح رسولِ اکرمﷺکا فرمان ِ مبارک ہے :
’’تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ روزِ قیامت نہ تو کلام فرمائے گا اور نہ اُن کی طرف نظرِ(رحمت ) فرمائے گا اور نہ ہی اُن کو پاک کرے گا ، اور اُ ن کے لئے دردناک عذاب ہے، سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : تین مرتبہ رسول اللہﷺنے یہی دہرایا ، ابوذررضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ وہ لوگ ہلاک و برباد ہوجائیں ، اے اللہ کے رسولﷺ! وہ کون لوگ ہوں گے؟آپﷺنے فرمایا : ’’اپنے کپڑوں کو ٹخنوں سے نیچے ٹکانے والے ، اور احسان جتلانے والے ، اور اپنے سامان کو جھوٹی قسم کے ذریعہ بیچنے والے ‘‘۔
اہلِ علم نے اس کا ضابطہ یہ بیان فرمایا ہے کہ :
’’ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جو اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے (مسلم) بھائی کے لئے پسند کرے،کیونکہ اگر اس کے ساتھ کوئی غلط معاملہ کیا جائے گا تو اسےبھی ناپسند ہوگا، اس پر ناگوار گزرے گا اور اس کےلئے پریشانی اور تکلیف کا سبب ہوگا ، یہی احساس وہ اپنے دوسرے (مسلم) بھائی کے لئے بھی محسوس کرےاور کسی کے ساتھ کوئی غلط معاملہ نہ کرے‘‘۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرّمﷺکا فرمان ہے :
’’ تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘ ۔[14]
آٹھواں ضابطہ:
معاملات میں ’’سدّ الذرائع ‘‘ کاخیال رکھنا
سدّ الذّرائع سے مراد :
’’سدّ الذرائع ‘‘سےمراد اُ ن اسباب و وسائل کا انسداد (روکنا)ہے جو ظاہراً و اصلاً تو جائز و حلال ہوں مگر امورِ نافرمانی ، مفاسد ونقصان کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنیں۔
سادہ سے الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ :
وہ افعال و اعمال جو شرعاً حلال و جائزہوں لیکن اگر وہ کسی ناجائز و حرام اوربرائی کی طرف لے جانےکا اہم ذریعہ بن جائیں تو معصیت و فسادکے انسداد کے باعث انہیں بھی شریعت ناجائز و حرام قرار دیتی ہے۔
جیسے : قبرستان میں نماز ادا کرنا ، مساجد میں قبریں بنانا، قبرستان میں مساجد بنانا وغیرہ ،اب بالترتیب نماز ادا کرنا، تدفین و قبریں بنانا اور مساجد کی تعمیر ، یہ سب اعمال شرعاً جائز ہی نہیں بلکہ مطلوب و واجب بھی ہیں لیکن مذکورہ مقامات پر شریعت نے ان اعمال کے ارتکاب سے منع کیا ہے اور انہیں حرام قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں یہ سب شرک کی طرف لےجانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں ، جیسے قبرستان میں اللہ کے نیک بندے ، اولیاء وصالحین بھی مدفون ہوتے ہیں اوردورانِ نماز،قیام ، رکوع و سجود میں اُ ن کی محبّت ، تعظیم و احترام کا خیال قبرستان میں پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہے جوکہ شرک کاوسیلہ بن سکتا ہے ، اسی طرح مساجد میں تدفین و قبور اور قبرستان میں مساجد بنانے سے منع کرنے میں بھی یہی شرعی علت و مصلحت ہے۔ سابقہ اقوام بالخصوص یہود و نصاری بھی اسی وجہ سے شرک میں مبتلا ہوئے تھے جس کی وجہ سے رسولِ اکرمﷺ نے جہاں ایک طرف اُن (یہود و نصاریٰ ) پر لعنت فرمائی جیسا کہ حدیث میں ہے :’’اللہ یہود ونصاری پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد(سجدہ گاہ)بنالیا ‘‘۔[15]وہاں دوسری طرف آپ ﷺ نے اپنی اُمت کو خبردار فرماتے ہوئے قبروں سے متعلق انتہائی سخت احکامات دئےجیسےآپﷺ نے فرمایا :’’خبردار! تم سے پہلے والوں نے اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو مساجد(سجدہ گاہ) بنایا تھا، خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں‘‘۔[16]اور فرمایا: ’’میری قبر عیدنہ بنانا‘‘۔[17]
حتیٰ کہ آپﷺ نے اپنی قبر مبارک پر کسی بھی طرح کی عمارت بنانے سے بھی مطلقاً منع فرمایا تھا۔[18]
بلکہ آپ ﷺنے اللہ تعالیٰ سے دعاء فرمائی:’’اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ جس کی عبادت کی جائے‘‘۔[19]اسی طرح آپﷺ کی حیاتِ طیبہ میں فوت ہونے والے آپ کے عزیز و جانثار صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم، جن میں سرِ فہرست آپ کی زندگی میں فوت ہونے والی زوجات ، جوکہ مؤمنوں کی مائیں بھی ہیں ،آپ کے تینوں صاحبزادے، آپ کی چار بیٹیوں میں سے تین صاحبزادیاں، آپ کے عزیز چچا سیّد الشہداء سیدنا حمزہ ،اصحابِ بدر و اُحد ، اہلِ بیعتِ رضوان اور دیگر غزوات میں شہید ہونے والے شہداءوغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین فوت ہوئےلیکن اُن میں سے کسی کی تدفین بھی آپ ﷺ نے مسجد میں نہیں فرمائی جبکہ پوری دنیا میں ،سب سے افضل و اشرف مساجد ،حرمین شریفین میں مسجد ِحرام مکۃ المکرّمہ اور مسجدنبوی شریف ہیں ۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب انبیاء و رسل علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ہستیوں کی تدفین دنیا کی سب سے اشرف مساجد میں اشرف المخلوقات رسولِ اکرمﷺنے نہیں فرمائی تو رسولِ اکرمﷺ سےبڑھ کرکون ہے جو کسی بھی ہستی کی مسجد میں تدفین کا جواز دے؟ انبیاء کے بعدصحابہ سے بڑھ کر دنیا کی کون سی ایسی ہستی ہے جومسجد میں دفن کئے جانے کی مستحق ہو؟ اور دنیا کی کون سی ایسی مسجد ہے جو حرمین کی مساجد سے افضل ہو؟
غور کیجیےکہ آج اُمتِ مسلمہ اس حوالہ سے کہاں کھڑی ہے کہ:
رسولِ اکرمﷺتو یہود و نصاری کو اس وجہ سے ملعون قرار دیں کہ انہوں نے انبیاءعلیہم السلام کی قبروں کو مساجد بنالیا اور خود رسولِ اکرمﷺکی امّت غیر نبیوں کی قبروں کوسجدہ گاہ بنانے کو جائز قرار دے!
مالی معاملات میں سدّ الذرائع کی ایک اہم مثال :
مالی معاملات میں سدّ الذرائع کی ایک مثال ’’بیع العینہ ‘‘کی ہے۔
’’بیع العینہ ‘‘ کی تعریف:
بیع العِیْنَہ: یہ ہےکہ ایک چیزاُدھار،زائدقیمت پربیچی جائےاور پھروہی چیزنقداً،کم قیمت پر،واپس خریدلی جائے۔
مثلاً:ایک شخص کو ایک لاکھ روپے کی ضرورت ہےجو وہ کسی سے ادھار طلب کرتا ہے،ادھار دینے والا اُسے پیسے دینے کے بجائے اُس سے ایک سودا کرتا ہے کہ:
ضرورت مند اُس سے اس کا مال مثلاً کپڑا ایک لاکھ دس ہزار میں ادھار پر خریدلے ، اور پھر وہ (مالک) ایک لاکھ دس ہزار کا مال نقداً اُس (ضرورت مند) سے ایک لاکھ میں واپس خرید لے گا ۔اس طرح ضرورت مند کو ایک لاکھ مل جائیں گے اور مالک کو دس ہزار اضافی ۔(جوکہ ضرورت مند مقروض نے اسے بعد میں ادا کرنے ہیں)
شریعتِ مطہّرہ نےاس قسم کےمعاملہ سے اس لیے منع فرمادیا کیونکہ یہ سودکےدروازے کھولتاہے،غور کیجیے کہ فروخت کنندہ نےبظاہراً تو مال کا سودا کیا ہے لیکن درحقیقت ایک لاکھ دیکر ، ایک لاکھ دس ہزار یعنی پیسے کے بدلے پیسہ واپس لیے ہیں۔
نوٹ: مذکورہ صورت میں اگر یہ سودا پہلے سے طے شدہ نہ ہو یا مالک ،ضرورت مند سے اُسی قیمت (یعنی ایک لاکھ کے بدلے ایک لاکھ )میں یا کم کے بجائے اضافی قیمت (یعنی ایک لاکھ کے بدلے میں ایک لاکھ دس ہزار)میں واپس خرید تا ہے تو یہ بالاتفاق جائز ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شریعتِ مطہّرہ میں بے شمار مسائل میں اس اصول’’سدّ الذرائع ‘‘ کو مدِّ نظر رکھاگیا ہے ۔اور یہ قاعدہ ہمارے لئےعقائد عبادات و معاملات وغیرہ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور خلافِ شرع امور سے بچنے کا بنیادی ذریعہ ہے جسے سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے میں ہی خیر و عافیت ہے ۔
قاعدہ سدّ الذرائع کےچند اہم دلائل
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ مبارک ہے:
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللہِ فَيَسُبُّوا اللہَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ
الانعام – 108
ترجمہ: ’’(اے مسلمانو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالی نہ دو۔ ورنہ یہ لوگ جہالت کی وجہ سے چڑ کر اللہ کو گالی دیں گے‘‘۔
کافروں کی عبادت اور اُن کا غیر اللہ کو معبود بنانا باطل و منکر عمل ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نےکافروں کے معبودانِ باطلہ کو گالی دینے، اُن پر سب کرنے سے منع فرمایا ہے تاکہ ایسا کرنا جواباً معاذ اللہ،اللہ تعالیٰ پر سب و شتم کا ذریعہ نہ بنے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ِ مبارک ہے:
يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا وَلِلْکَافِرِيْنَ عَذَابٌ أَلِيْمٌ
البقرة – 104
ترجمہ:’’ اے ایمان والو تم (نبیﷺکو) ‘ راعنا ‘ نہ کہا کرو، بلکہ ‘ انظرنا ‘ کہو یعنی ہماری طرف دیکھئے اور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘۔
آیتِ مذکورہ میں نبی مکرّمﷺکو’’راعنِا‘‘کہہ کر مخاطب کرنے سے منع کیا گیا ہے جبکہ ’’راعنِا ‘‘ کا معنی فی ذاتہ غلط نہیں ہے ، (راعنِا کامعنی ہے کہ: ہماری طرف متوجہ ہوئیے)لیکن چونکہ یہودی جب اللہ کے پیغمبرﷺکو مخاطب کرتے تو اپنی زبانوں کو ٹیرھا کرکے’’راعِینا‘‘ (’’یا‘‘ کے اضافہ) کے ساتھ مخاطب کرتے جس کا معنیٰ ہے : ہمارے چرواھے۔ اور اس طرح بول کر وہ اپنے زعم میں نبی مکرّمﷺ کے ساتھ استہزاء کرتے والعیاذ باللہ ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نبی مکرّمﷺکی شان میں ایسے لفظ استعمال کرنے سے ہی روک دیا جوآپﷺکی اہانت و گستاخی کا سبب بنیں،اگرچہ وہ لفظ فی نفسہ ٹھیک ہی کیوں نہ ہو۔
اس مسئلہ میں اہلِ علم ایک اہم مثال ذکرتے ہیں کہ:
رسولِ اکرمﷺ نے منافقین کو محض اس لئے قتل نہیں کیا کہ کہیں لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ محمّدﷺاپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں ، اور نئے اسلام میں داخل ہونے والے مسلمان شبہات و غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں ، یعنی منافقین کا قتل کہیں سیدنا محمّدﷺپر طعن و تشنیع اور مسلمانوں کے شبہات میں مبتلا ہونے اور اُن کے باہمی اختلاف و انتشار کا سبب نہ بنے اور ان کی وحدت پارہ پارہ نہ ہوجائےاس لئے ایسا نہیں کیا گیا۔
سدّ الذرائع کی اقسام
شریعتِ مُطہّرہ میں سدّالذرائع کو سمجھنے کے لئے اس کی اقسام کو سمجھنا ضروری ہے ، امام قرّافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ایسے اسباب و وسائل جو حرام و فساد کی طرف لے جانے کا سبب بنیں ،وہ تین طرح کے ہیں :
(1) ناجائز: وہ اسباب جن کااستعمال ناجائز ہےاور اُن سے اجتناب کیے جانے، دور رہنے پر اُمت کا اجماع ہے۔
اوراس کا ضابطہ یہ ہے کہ: ایسے وسائل و ذرائع جن کے بارے میں یقینی و قطعی طور پر یہ معلوم ہو کہ وہ فساد کا ذریعہ بنیں گے۔
جیسے مسلمانوں کے راستے میں کنواں کھودنا، یا پیڑلگانایا کچھ تعمیر کرنایا کوئی بھی ایسا کام کرنا جو جائز اور بظاہرفائدہ مند ہی کیوں نہ ہولیکن مسلمانوں کے لئے تکلیف ، مشقت اور مصیبت کا ذریعہ بنے ۔
(2) جائز: وہ اسباب جن کا استعمال بالاجماع جائز ہےاور اُن سے نہ ہی روکا جائیگا اور نہ ہی ان سے دور رہنے کا کہا جائے گا۔
اور اس کا ضابطہ یہ ہے کہ: وہ ایسے وسائل وذرائع ہوں کہ جو بہت شاذ ونادر ہی فساد کا ذریعہ بنیں ۔
جیسے لوگوں کا ایک دوسرے کے برابر میں گھر بنانا ، ایک دوسرے کے پڑوس میں رہنا ، اگرچہ کبھی یہ باہمی نفرت وعناد کا یا بدکاری ،چوری وغیرہ کا سبب بھی بن سکتا ہے لیکن ایسا ہونا بہت ہی شاذ و نادر ہے لہٰذا شرعاً اس سے روکا نہیں جائے گا۔
(3) اختلافی : تیسری قسم ان اسباب کی ہے کہ جن سے روکنے اور اجتناب کرنے یا نہ کرنے میں اہلِ علم کا اختلاف ہے ۔
اور اس سے مراد وہ اسباب و ذرائع ہیں جو فساد کا ذریعہ توبنتے ہوں لیکن نسبتاً اغلبیت(اکثریت) کی بنا پر نہیں ۔
اور اس قسم میں اختلاف صرف انہی امور میں ہے جن کی ممانعت یا تحریم کتاب و سنت میں صراحتاً نہیں ہے ، کیونکہ جن امورکی حرمت کتاب و سنت میں موجود ہے اُ ن کی حرمت کے اعتبار کرنے میں کوئی اختلاف نہیں جیسے مشرکین کے معبودانِ باطلہ کو اس وجہ سے برا نہ کہنا کہ کہیں وہ جواباً اللہ تعالیٰ پر معاذ اللہ سب وشتم نہ کردیں، اسی طرح سورج طلوع و غروب ہوتےوقت نماز پڑھنے کی ممانعت وغیرہ۔
اختلاف اس مسئلہ میں ہے کہ جس کا ’’ذریعہ فساد‘‘ ہونا اہلِ علم و مجتھد کے حکم سے ثابت ہو، نہ کہ کتاب و سنت سے، اوراس ذریعہ کا ذریعہ فساد ہونا قطعی طور پر بھی نہ ہو اور نہ ہی اغلبیت کے طور پر ، تو کیا ایسے ذریعہ و وسیلہ کو حکماً بند کیا جائے گا ،روکا جائیگا یانہیں ؟
واللہ اعلم شرعی علتوں و حکمتوں کو سامنے رکھتے ہوئے جن اہلِ علم نے انہیں سدّ الذرائع میں شامل کیا ہے یعنی ایسے ذرائع و وسائل کو روکنے اور ان کے ارتکاب سے منع کرنے کو راجح قرار دیا ہے ،اُن کا قول ہی اس مسئلہ میں زیادہ صحیح اور احتیاط کے قریب ہے جیساکہ امام ابنِ قیّم رحمہ اللہ نےاپنی مایہ ناز تصنیف ’’اعلام المؤقعین ‘‘ میں ۹۹ ننانوے دلائل ذکر کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اسباب ، وسائل و ذرائع جو حرام کام اور فساد کی طرف لے جانے کا بنیادی ذریعہ بنیں ، ہر حال میں اُن کا سدِّ باب کیا جائیگا اور ان کے استعمال سے روکا جائیگا خواہ اُن وسائل کو استعمال کرنے والا اُن کے ذریعہ فساد میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے یا نہ کرے۔
قاعدہ سدّ الذرائع کے اعتبار کی شرائط
قاعدہ سدّ الذرائع کا اعتبار دو اہم شرطوں پر موقوف ہے :
(1) جس جائزعمل کاذریعہ فساد بننے کے باعث انسداد مقصود ہو وہ غالب اوقات میں فساد کا ذریعہ بنے، ناکہ کبھی کبھار یا نادر اوقات میں۔
اور اگر وہ نادر اوقات میں ذریعہ فساد بنے تو اُ س ذریعہ(عمل) سے روکا نہیں جائے گا۔
(2) اُس جائز عمل سے( ذریعہ فساد بننے کے باعث) مرتب ہونے والے مفاسد(نقصانات) اُ س کے مصالح (فوائد)کے مساوی (برابر) ہوں یا اُس سے زیادہ ہوں ۔
اور اگر اُ س کے مفاسد اُس کے مصالح سے کم ہوں تو اُ س ذریعہ(عمل) سے روکا نہیں جائے گا۔
[1] مسند احمد بن حنبل:حدیث نمبر:16814
[2] جامع ترمذی:کتاب البيوع،باب ما جاء فی التجار و تسميۃ النبی ﷺ لھم ۔امام ترمذی نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے ۔سنن ابن ماجہ: کتاب التجارات ، باب الحث علی المکاسب۔
[3] صحيح بخاری :کتاب البیوع،باب السہولۃوالسماحۃ فی الشراءوالبيع
[4] المتواری علیٰ أبواب البخاری لابن التين
[5] جامع ترمذي حديث نمبر: 1888 علامہ البانی نے صحيح الجامع میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے
[6] مسند أحمد ،حدیث نمبر : 4162 . اس حدیث کو علامہ البانی نے ’’صحيح الجامع‘‘ میں صحیح قرار دیا ہے ۔
[7] شرح السنۃ: کتاب الحج باب الإتقاء عن الشبہات ص1087 حديث:2034
[8] صحيح بخاري:کتاب البيوع ، باب الحلال بين، والحرام بين، وبينہما مشتبھات، صحيح مسلم :کتاب المساقاۃ باب أخذ الحلال
[9] جامع ترمذی: باب ما ذکر عند رسول اللہ ﷺ فی الصلح بین الناس، حدیث نمبر:1352، امام البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ابوداود: حدیث نمبر3594، ابن ماجہ: حدیث نمبر:2353
[10] صحيح مسلم:باب تحريم الظلم
[11] سنن ابن ماجہ:کتاب الأحکام باب من بنى في حقہ ما يضر بجارہ. ( یہ حدیث حسن لغیرہ ہے )
[12] صحيح مسلم :کتاب المساقاۃ،باب لعن آکل الربا و موکلہ
[13] سنن ابن ماجۃ:کتاب التجارات،باب التغليظ في الربا
[14] صحيح بخاري:کتاب الإيمان ، باب من الإيمان أن يحب لأخيہ
[15] صحيح بخاری: کتاب الجنائز، باب ما يکرہ من اتخاذ المساجد على القبور
[16] صحیح مسلم: کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النھی عن بناء المساجد
[17] سنن ابی داود: کتاب المناسک، باب زیارۃ القبور، حدیث نمبر2042
[18] مسند احمد:تتمۃ مسند الکوفیین، حدیث نمبر19052
[19] مؤطا امام مالک :کتاب قصر الصلاۃ،باب جامع الصلاۃ (یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)