ڈراپ شپنگ: تعارف، شرعی حیثیت، جواز کی صورتیں

ڈراپ شپنگ: تعارف، شرعی حیثیت، جواز کی صورتیں

ابتدائیہ:

سنہ 2020ء میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا میں معاشی و کاروباری صورتوں نے ایک نئی کروٹ اختیار کی اور دنیا نے آنلائن کام کو زیادہ ترجیح دینی شروع کردی۔ گو یہ کام اس سے قبل بھی دنیا میں موجود تھا لیکن کرونا وائرس کے بعد آنلائن کام کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھنا شروع ہوگیا اور مختلف آنلائن کاروبار رائج ہونا شروع ہوگئے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ڈراپ شپنگ (drop shipping) بھی ہے۔ ملکِ پاکستان میں بھی یہ ذریعہ کاروبار بڑی تعداد میں رائج ہے جس میں سے اکثریت نوجوان طبقے کی ہے۔

تعریف:

 ڈراپ شپنگ دراصل انگریزی زبان کا لفظ ہے جو کہ  دو الفاظ کا مرکب ہے، جس کا مطلب ہے براہِ راست ترسیل کرنا۔

ڈراپ شپنگ ایسے کاروبار کو کہا جاتا ہے کہ جس میں بیچنے والا اپنا ایک آنلائن اسٹور بناتا ہے جس میں وہ کوئی سامان بیچنا چاہ رہا ہے، ساتھ ساتھ اس کی تصاویر اور دیگر تفصیلات بھی لگا دیتا ہے لیکن یہ چیزیں اسکی ملکیت اور قبضے میں نہیں ہیں۔ کوئی خریدار اس کے اسٹور پر آتا ہے اور کوئی چیز خریدنے کے لیے آرڈر کرتا ہے، بیچنے والا اس آرڈر کو قبول کرلیتا ہے اور کسی بھی سامان بنانے والے  کے آنلائن اسٹور پر جاتا ہے اور وہاں سے وہ سامان آرڈر کرکے اس کو یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ سامان خریدار تک پہنچا دیا جائے اور اپنا منافع رکھ کر اصل رقم سامان بنانے والے کو ارسال کر دیتا ہے۔

ڈراپ شپنگ کی وضاحت ایک مثال سے:

محمد کا ایک آنلائن اسٹور ہے جس میں وہ کپڑے بنا کر بیچتا ہے۔ زید اپنا ایک پیج (page) بناتا ہے اور اس میں محمد کے اسٹور سے چند تصاویر لے کر اپنے پیج پر لگاتا ہے اور ان چیزوں کو فروخت کرنا چاہ رہا ہے لیکن یہ چیزیں اسکی ملکیت اور قبضے میں نہیں ہیں۔ اب عمر زید کے پیج پر جاتا ہے اور کچھ کپڑے خریدنے کے لیے  آرڈر  کردیتا ہے اس خیال کے ساتھ کے وہ یہ سامان زید سے خرید رہا ہے۔ اب  زید عمر کی طرف سے آرڈر آنے پر عمر سے رقم وصول کرتا ہے اور وہی سامان محمد کے اسٹور پر جاکر آرڈر کردیتا ہے اور محمد کو یہ کہتا ہے کہ یہ سامان عمر کے ہاں پہنچانا ہے اور محمد کو سامان  کی اصل رقم کی ادائیگی کردیتا ہے اور باقی رقم بطورِ منافع اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔

ڈراپ شپنگ کی مختلف اقسام:

چونکہ اس مضمون میں ڈراپ شپنگ کے متعلق شرعی حکم کا جائزہ لینا مقصود ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے ڈراپ شپنگ کی مختلف صورتوں کو بالاختصار واضح کیا جائے تاکہ شرعی حکم کی تبیین و تفہیم میں آسانی ہو۔

1- کسی بھی شخص کا ذات E-Store بنانا:

اس صورت میں کوئی بھی شخص اپنا  E-Store  بناتا ہے اور اس  پر مختلف اشیاء  کو  Show-Case  کرتا ہے یعنی ان کی تصویریں لگاتا ہے اور یہ سامان اس کی ملکیت (owner ship) اور قبضہ (Possession)  میں نہیں ہوتا۔ مختلف خریدار (Buyers) اس کے سٹور پر آتے ہیں اور مختلف اشیاء خریدتے ہیں، آرڈر وصول ہونے کے بعد یہ شخص کسی ہول سیلر (whole seller) یا سپلائیر (supplier) کو اس آرڈر کی تفصیلات بھیج دیتا ہے اور وہ ہول سیلر (whole seller) یا سپلائیر (supplier) مطلوبہ سامان مطلوبہ گاہک تک پہنچا دیتا ہے۔

اس صورتحال میں اس شخص کا کسی بھی ہول سیلر (whole seller)یا سپلائیر (supplier) سے کوئی معاہدہ (contract) نہیں ہوتا۔

2- کسی بھی شخص کا ذاتی  E-Store  بنانا اور ہول سیلر (whole seller)یا سپلائیر (supplier)  سے معاہدہ (contract) کرنا :

اس صورت میں بھی ڈراپ شپنگ کا طریقہ کار بالکل پہلی صورت کے جیسا ہی ہوتا ہے۔ ایک چیز کا اضافہ کیا جاتا ہے کہ ڈراپ شپنگ کرنے والا شخص ہول سیلر (whole seller)یا سپلائیر (supplier)  سے یہ معاہدہ (contract) کر لیتا ہے کہ میں آپ کا سامان اپنے پیج پر لگا کر فروخت کروں گا اور اس پر منافع  طے  کرلیا جاتا ہے۔

3- کسی بھی شخص کا کسی آنلائن ای اسٹور (Online E-Store) پر  اپنی ذاتی  ونڈو (Personal Window) بنانا:

 اس صورت میں بھی ڈراپ شپنگ کا طریقہ کار پہلی صورت والا ہی ہوتا ہے لیکن دونوں کے درمیان ایک فرق  ہوتا ہے۔ پہلی صورت میں کوئی شخص اپنا ذاتی اسٹور بناتا ہے اور اس صورت میں وہ شخص پہلے سے موجود کسی آن لائن ای اسٹور (Online E-Store)پر  اپنی ذاتی  ونڈو (Personal Window)  بناتا ہے۔

اس صورت میں بھی اس شخص کا کسی بھی ہول سیلر (whole seller)یا سپلائیر (supplier) سے کوئی معاہدہ (contract) نہیں ہوتا۔ بطورِ مثال: Walmart ، اس پر ڈراپ شپنگ تو کی جاسکتی ہے، لیکن یہ ویبسائٹ یہ شرط نہیں لگاتی کہ ڈراپ شپنگ کرنے والا ہول سیلر (whole seller) یا سپلائیر (supplier) سے کوئی معاہدہ کرے۔

4- کسی بھی شخص کا کسی آنلائن ای اسٹور (Online E-Store)پر  اپنی ذاتی ونڈو (Personal Window) بنانا اور ہول سیلر (whole seller)یا سپلائیر (supplier) سے معاہدہ (contract) کرنا :

یہ صورت بھی تیسری صورت سے ملتی جلتی ہی ہے البتہ اس میں جس آنلائن ای اسٹور (Online E-Store) پر ڈراپ شپنگ کی جارہی ہے اس کی طرف سے یہ پابندی لگائی جاتی ہے کہ ڈراپ شپنگ کرنے والا شخص ہول سیلر (whole seller)یا سپلائیر (supplier) سے کوئی معاہدہ کرے۔

معاہدے کی عمومی صورت یہی ہوتی ہے کہ  ڈراپ شپنگ کرنے والا شخص ہول سیلر (whole seller)یا سپلائیر (supplier) سے یہ معاہدہ (contract) کر لیتا ہے کہ میں آپ کا سامان اپنے پیج پر لگا کر فروخت کروں گا اور اس پر منافع طے کرلیا جاتا ہے۔ بطورِ مثال: ایمازون (Amazon)  

ڈراپ شپنگ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں:

 شریعتِ اسلامیہ نے خرید و فروخت کے میدان میں خریدار اور فروخت کنندہ میں سے دونوں کو اس اصول کا پابند بنایا ہے کہ ایسا کوئی سودا نہ کیا جائے جس کی وجہ سے فریقین کے درمیان نزاع، جھگڑا ہونا ممکن ہو یا پھر  خرید و فروخت کے معاملے میں دھوکے کا عنصر شامل ہو، اسی بنیاد پر ہر ایسے معاملے کو شرعاً حرام قرار دیا گیا جس میں کوئی ایسا احتمال موجود ہو۔ اور ایسی حدود و قیود اور شرائط کا تعین فرمایا جس کے ذریعے خرید و فروخت کا معاملہ خوش اسلوبی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچے۔ انہی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ فروخت کنندہ کوئی بھی ایسی چیز فروخت نہیں کرسکتا جو اسکی  ملکیت(owner ship) اور قبضہ (Possession)  میں نہ ہو۔ چنانچہ سیدنا حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ایک آدمی میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے ایسی چیز خریدنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو کیا میں اس کے لیے بازار سے خرید لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ1

جو چیز تمھارے پاس (ملکیت/ قبضے) میں نہ ہو اسکو نہ بیچو۔

بنیادی طور پر ڈراپ شپنگ کا کاروبار اسی وجہ سے کیا جاتا ہے کہ اس میں ڈراپ شپنگ کرنے والے شخص کو سامان پہلے سے خریدنا نہیں ہوتا، اس طرح اس کو سرمایہ کاری کے لیے رقم بھی درکار نہیں ہوتی اور مال کی خریداری کے بعد نہ بِکنے کا خوف بھی باقی نہیں رہتا۔

شرعی حکم: یہی وجہ ہے کہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں خرید و فروخت کا یہ معاملہ جائز نہیں ہے کیونکہ مذکورہ حدیث کی روشنی میں کسی شخص کا ایسا سامان فروخت کرنا جو اس  کی ملکیت میں نہ ہو ، جائز نہیں ہے۔

 یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جب کسی معین چیز کی خرید و فروخت کا معاملہ کیا جائے۔ بطورِ مثال زید نے کسی گاڑی کی تصویر لگائی ہو اور وہ کہے کہ بِعَینِہِ یہ گاڑی برائے فروخت ہے جبکہ یہ گاڑی اس کی ملکیت میں نہیں ہے۔ تو اس صورت میں زید کا یہ گاڑی فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اس کی کچھ استثنائی صورتیں ہیں جن پر عمل  پیرا ہوکر ڈراپ شپنگ کو شرعیہ کمپلائینڈ بنایا جاتا ہے۔

استثنائی صورتیں

اسلامی اصولوں کی روشنی میں کچھ ایسی استثنائی صورتیں ہیں جن کو اختیار کرکے ڈراپ شپنگ کا کام کیا جاسکتا ہے۔

1- ڈراپ شپنگ کرنے والا شخص بطور کمیشن ایجنٹ کام کرے:

  اس کی تفصیل یہ ہے جو شخص ڈراپ شپنگ کرنا چاہ رہا ہے وہ بطور کمیشن ایجنٹ کام کرے، یعنی وہ وینڈر (vendor)  سے جو کہ ہول سیلر (whole seller)یا سپلائیر (supplier) ہو، اس سے یہ معاہدہ کرے کہ میں آپ کا سامان اپنے ای اسٹور (E-Store) پر فروخت کروں گا اور اس پر مخصوص کمیشن فیصد میں طے کیا جائے اور ساتھ ہی جو خریدار ہے اس کو بھی یہ بات بتائی جائے کہ یہ سامان اس کی ملکیت نہیں ہے بلکہ فلاں وینڈر (vendor)سے یہ سامان آپ کے آرڈر کیے جانے کے بعد خرید کر آپ تک پہنچایا جائے گا۔

2- ڈراپ شپنگ کرنے والا شخص بطور وکیل کام کرے:

اگر ڈراپ شپنگ کرنے والا شخص خریدار کو یہ نہیں بتانا چاہتا کہ یہ سامان اس کا نہیں ہے تو وہ  وینڈر (vendor)سے مشارکت (Partnership)کرسکتا ہے کہ میں آپ کا سامان بیچنا چاہ رہا ہوں، ایک سودے (sale) پر جو بھی پرافٹ ہوگا اس کا مخصوص فیصد حصہ میرا ہوگا، اس صورت میں خریدار کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں  ہوگی کہ یہ  سامان اس وقت میری ملکیت میں نہیں ہے۔ البتہ یہ شرط لازمی ہے کہ منافع فیصد میں طے کیا جائے۔ اس کی آپس کی رضامندی سے کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے(60-40) یا (50-50) وغیرہ۔

اس قسم کو شرعی اصطلاح میں بیع الوکالۃ کہتے ہیں۔

وضاحت: اوپر ذکر کردہ ڈراپ شپنگ کا حکم اور استثنائی صورتیں اس ضمن میں ذکر کی گئی ہیں کہ جب کوئی مخصوص چیز ہو اور بِعَینِہِ اسی چیز کی خرید و فروخت کا معاملہ منعقد ہو رہا ہو۔ مثلاً: زید محمد سے یہ کہے کہ میں نے فلاں نمبر والی گاڑی دیکھی تھی اس کا یہ رنگ تھا اور دیگر تفصیلات بتائے اور محمد سے کہے کہ مجھے یہ والی گاڑی خریدنی ہے اور محمد اس گاڑی کا سودا زید سے کرلے جبکہ وہ گاڑی  نہ  محمد کی ملکیت میں ہے نہ ہی اس کے قبضے میں ہے۔ تو محمد کے لیے یہ چیز بیچنا جائز نہیں ہے، اِلَّا یہ کہ مذکورہ استثنائی صورتوں میں سے کوئی صورت اپنائے۔

البتہ اگر  کوئی شخص کسی چیز کا سودا کرے اور اسکی صفات وغیرہ بیان کرے۔ مثلاً: زید کہے کہ مجھے ایسا سوٹ چاہیے جس کا رنگ نیلا ہو، فلاں سائز کا سوٹ ہو اور دیگر تفصیلات بیان کردے اور محمد نے بطور سیمپل ایسے کسی سوٹ کی تصویر اپنے پاس رکھی ہوئی ہو لیکن ابھی اس کی ملکیت اور قبضے میں وہ سوٹ نہیں ہے تو کیا وہ یہ سودا کرسکتا ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی معین چیز کی نہیں بلکہ کسی ایسی چیز کو بیچنا چاہتا ہو کہ جس میں صفات بتائی جاسکتی ہوں تو یہ کام کرنا جائز ہے۔ اس قِسم کے سودے کو دینِ اسلام کی اصطلاح میں ’’بیع سلم‘‘ کہتے ہیں۔

بیع سلم کی تعریف: ’’مخصوص صفات کی حامل چیز خریدنے کا معاملہ طے کرکے قیمت مکمل طور سے پہلے فوری ادا کر دینا اور چیز بعد میں یا کچھ تاخیر سے حاصل کرنا ، بیع السلم یا بیع السلف کہلاتا ہے۔‘‘

بیع سلم  کا جواز:  بیع سلم کا جواز شریعتِ اسلامیہ سے ثابت ہے۔ ہم اختصار کرتے ہوئے نبی ﷺ کی اس تعلق سے ایک حدیث ذکر کرتے ہیں۔ نبیﷺ کا فرمان ہے:

من أسلَفَ في شيء ففي كيل معلوم، ووزن معلوم، إلى أجل معلوم2

یعنی: جسے کسی چیز کی بیع سلم کرنی ہے، اسے مقررہ وزن اور مقررہ مدت تک کے لیے کرنی چاہئے۔

بیع سلم کی کچھ مخصوص شرائط ہیں، اس کی مختصر وضاحت ذیل میں کی جاتی ہے۔

بیع سلم کی شروط:

1- جس چیز کا سودا کیا جائے اس کی ہر صفت کو تفصیل سے بیان کیا جائے یہاں تک کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔

2- قیمت کا تعین کیا جائے

3- وقت کا بالضبط تعین کیا جائے کہ کتنے وقت میں چیز تیار کروا کر خریدار تک پہنچائی جائے گی

4- جس چیز کا سودا کیا جا رہا ہو فروخت کنندہ کے پاس اس کو مہیا کرنے کی استطاعت ہو

5- قیمت مجلس العقد (جس مجلس میں خرید و فروخت کا معاہدہ ہو رہا ہو) فروخت کنندہ مکمل طے شدہ قیمت پر قبضہ حاصل کرے۔

کیا ڈراپ شپنگ بیع سلم بن سکتی ہے؟

 ڈراپ شپنگ کے جواز کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس کو بیع سلم کے طرز پر کیا جائے اور بیع سلم کی تمام شرائط کو مکمل کرتے ہوئے اس سودے کو طے کیا جائے۔ ڈراپ شپنگ میں بیع سلم کی شروط کو اس طرح مکمل کیا جاسکتا ہے:

1- فروخت کی جانے والی چیز (مثلاً ٹی شرٹ) کی مکمل صفات بیان کی جائیں

2- قیمت کا تعیین کیا جائے

3- ڈیلوری کا وقت متعین ہو کہ کتنے وقت میں چیز خریدار کے حوالے کی جائے گی

4- ڈراپ شپنگ کرنے والے کے پاس اس چیز کی استطاعت ہو کہ وہ جس چیز کا سودا کیا جارہا ہے اس کو خریدار تک پہنچا سکے۔

5- ایڈوانس پیمنٹ کی جائے، کیش آن ڈیلوری ہونے کی صورت میں بیع سلم نہیں بن سکتی

خلاصہ کلام: ڈراپ شپنگ جدید دور میں خرید و فروخت کا ایک طریقہ ہے جس میں بیچنے والا بغیر سرمایہ اور سامان کی ملکیت حاصل کیے اس کو فروخت کرتا ہے، شرعاً اگر کسی معین چیز کی خرید وفروخت کی جائے تو یہ معاملہ جائز نہیں ہے الا یہ کہ ذکر کردہ استثنائی صورتوں کو اختیار کیا جائے یا  اگر کسی چیز کی صفات وغیرہ بیان کرکے اس کو بیچا جائے تو اس کے لیے بیع سلم کی شروط کو مکمل کرنا ضروری ہے۔

ھذا ما ظهر لي، واللّٰہ تعالیٰ اعلم، وعلمه اتم واحكم

______________________________________________________________________________

  1. سنن ابی داؤد، کتاب الاجارۃ، باب  فی الرجل یبیع ما لیس عندہ، رقم الحدیث: 3503
  2. صحیح بخاری، کتاب السلم، باب السلم فی وزن معلوم، رقم الحدیث: 2240

مصنف/ مقرر کے بارے میں

حمزہ سلمان شیخ

متعلم جامعۃ البیان،المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی کے زیر انتظام جاری معروف تعلیمی ادارے ’’جامعۃ البیان‘‘ میں درس نظامی / علوم اسلامیہ کے آخری سال کے طالب علم ہیں، نیز شیخ زائد اسلامک سینٹر، کراچی یونیورسٹی سے BS,Islamic Studies&Computer Science میں 5ویں سمیسٹر کے طلاب علم ہیں۔