مسجد اقصیٰ کا محل وقوع
مسجد اقصیٰ شام کے علاقے (یعنی موجودہ فلسطین) میں واقع ہے اور اس کو القدس بھی کہا جاتاہے، القدس یروشلم کا عربی نام ہے۔ اسلام سے قبل اس کا نام ایک رومی بادشاہ ہیرڈوس نے ایلیا رکھا تھا اور یہ بحر روم سے ۵۲ کلو میٹر ، بحر احمر سے ۲۵۰ کلو میٹر اور بحر مردار سے۲۲ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ بحر روم سے اس کی اونچائی ۷۵۰ میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی ۱۱۵۰ میٹر ہے۔ سب سے پہلے یہاں یبوسین آکر آباد ہوئے، ایک روایت ہے کہ اس شہر کو ”سام بن نوح “ نے آکر آباد کیا۔ سب سے پہلے ۱۰۱۳ قبل مسیح میں سیدناداؤد علیہ السلام نے اس کو فتح کیا۔ خطط الشام ج:۵،ص:۲۵۲، القدس دراسةً وتاریخیةً)
مسجد اقصیٰ کی تاریخی حیثیت
ایک قول ہے کہ زمین پر پہلی مسجد، مسجد ِاقصیٰ ہے، لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ قرآن مجید کی روشنی میں اس زمین پر اللہ کی عبادت کے لیے جو سب سے پہلا گھر و مسجد بنائی گئی وہ مسجد بیت الحرام ہے، جس کو فرشتوں نے تعمیر کیا ہے: جیساکہ بخاری شریف میں بھی سیدناابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جس میں یہ صراحت ہے کہ مسجد بیت الحرام کی تعمیر اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں چالیس سال کا عرصہ ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مسجد بیت الحرام کو ابن آدم کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سیدناابراہیم علیہ السلام بیت الحرام کے اور سیدناسلیمان علیہ السلام مسجدِ اقصیٰ کے مجدّد ہیں، نہ کہ مؤسس۔ اور مسجدِ اقصیٰ کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے، جس میں معراجِ نبوی ﷺکا تذکرہ ہے۔(الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل ص:۸-۱۰)
مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ادوار اس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ مسجد اقصیٰ کا مؤسّسِ اول کون ہے:
پہلا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کی۔
دوسرا قول یہ ہے کہ سیدناآدم علیہ السلام نے سب سے پہلے تعمیرکی۔
تیسرا قول یہ ہے کہ سیدناسام بن نوح علیہ السلام سب سے پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔
اور چوتھا قول یہ ہے کہ سیدناداؤداورسلیمان علیہما السلام پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔
علامہ احمد بن عبد الواحد المقدسی فرماتے ہیں کہ ان سب روایتوں میں اس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے ، پھر سیدناآدم علیہ السلام نے، پھر سیدناسام بن نوح علیہ السلام نے اور پھر سیدناداؤد وسلیمان علیہما السلام نے بالترتیب تعمیر کیا ہو۔(حوالہ سابقہ)
مسجد اقصیٰ پر آنے والے حوادثات
مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے بعد اس پر مختلف قسم کے حوادثات آئے، جس کی وجہ سے دوبارہ اس کی تجدید اور تأسیس کی ضرورت پڑتی رہی،لیکن تاریخ کی کتابوں میں چھ(۶) حوادثات کا ذکر ہے، جن میں سرِ فہرست حوادث:
باہر سے القدس پر حملہ ہونا، مسجد کو دو مرتبہ نقصان پہنچنا ہے۔ ان دو واقعوں کا ذکر قرآن پاک کی سورہٴ اسراء کے شروع میں ہے۔
پہلا واقعہ جس میں مسجد کی تعمیر کو نقصان پہنچا، وہ سیدناسلیمان علیہ السلام کی وفات کے ۴۱۵ برس بعد ۵۸۸ ق-م میں پیش آیا، جب اہل ِفارس کے بادشاہ بخت نصر نے اس پر حملہ کیا اور پورے شہر کو آگ لگادی، جس میں مسجد کی عمارت منہدم ہوگئی، پھر شاہ ایران کے تعاون سے دوبارہ اس کی تعمیر ہوئی۔
دوسرا واقعہ ۶۳ ق-م میں ہوا، جس میں دوبارہ رومی قابض ہوگئے۔ پھر سیدناعیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے چالیس سال بعد ۷۰ء میں طیطلس نامی بادشاہ نے اس شہر کو بالکل تباہ کردیا، اس میں بھی مسجد کو نقصان پہنچا۔ ۱۳۵ء میں رومی بادشاہ ہیرڈوس نے اس شہر کو دوبارہ بسایا اور اس کا نام ایلیاء رکھا۔ ۶۱۴ء میں دوبارہ اہل فارس نے قبضہ کرلیا، لیکن مسجد اقصیٰ ۷۰ء سے سیدناعمررضی اللہ عنہ کے زمانے تک ویران رہی۔(تفسیر حقانی، ج:۵،ص:۶۴/۷۱، خطط الشام ،ج: ۵،ص:۲۵۲)
مسجد ِاقصیٰ کا اسلامی دور
سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سیدناابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے ۱۶ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور ان کے سامنے اپنا پیغام رکھا، نہ ماننے کی صورت میں قتل اور صلح کی صورت میں جزیہ اور خراج کا حکم سنایا، تو وہ ایک شرط پر صلح کے لئے تیار ہوگئے کہ خلیفہٴ وقت صلح کے لئے خود تشریف لائیں۔ سیدناابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے سیدناعمررضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو سیدناعمررضی اللہ عنہ، سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے بیت المقدس جانے پر راضی ہوگئے، یوں ۱۷ھ میں سیدناعمررضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسجد اقصیٰ اسلام کے سائے میں آگئی۔ سیدناعمررضی اللہ عنہ نے مسجد کو صاف کروایا اور وہاں پر مسجد تعمیر کرالی، جس کو مسجد عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔(البدایہ والنہایہ،ج: ۱۲،ص:۳۴۴تا ۳۴۸/الروختین فی اخبار الدولتین،ج: ۳،ص:۲۰۶-۲۶۰)
اسلامی دور میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر وترقی
۱۷ھ میں فتح کے کافی عرصہ بعد اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے ۶۵ھ میں اس کی تعمیر اور مرمت کا آغاز کیا اور ولید بن عبد الملک نے مصر کے سات سال کا خراج اس کی تعمیر کے لئے وقف کردیا تھا۔ ۱۳۰ھ اور ۱۵۸ھ کے زلزلوں میں اس کی عمارت کو نقصان پہنچا تو ۱۶۹ھ میں مہدی کے دور حکومت میں دوبارہ اس کی تعمیر نو کی گئی۔ ۴۰۷ھ کے زلزلے میں قبّہ کی دیوار یں منہدم ہوگئیں تو ۴۱۳ھ میں ظاہر فاطمی نے اس کی دوبارہ تعمیر کی اور افرنگی بادشاہوں نے مسلمان بادشاہوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۴۹۲ھ میں بیت المقدس پر حملہ کردیا اور سیدناعمررضی اللہ عنہ کے برخلاف اس بادشاہ نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور مسجد کی بے حرمتی کی اور مسجد میں گھوڑوں کے لئے اصطبل بنایا، جس کو ”اصطبل سلیمان“ کہا جاتا تھا اور مال متاع لوٹ لیا تھا۔ ۹۱ سال تک مسجد اقصیٰ ان کے قبضہ میں رہی۔ پھر سلطان نور الدین زنگی کے فتوحات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کے جانشین سلطان الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب نے ۵۵۳ھ میں دوبارہ قبضہ کرلیا اور مسجد کی صفائی کروا کر اس کی مرمت کی۔(معجم البلدان،ج: ۵،ص:۱۶۸،خطط الشام، ج:۵،ص:۲۵۳،۲۵۲)
اس کے بعد مسلمان بادشاہ اس کی مرمت اور تزیین میں حصہ لیتے رہے: ۶۵۵ھ میں ملک معظم نے، ۶۶۸ھ میں ظاہر بیبرس نے، ۷۸۶ھ میں منصور قلادوں نے، ۷۶۹ھ میں ملک اشرق نے، ۷۸۹ھ میں ظاہر برثوق اور ظاہرجقمق العلانی نے، ۸۷۷ھ میں الاشرف ابو النصر نے تجدید کی۔
خلافتِ عثمانیہ کے خلفاء بھی حصہ لیتے رہے، خاص طور پر سلیمان القانونی نے ۹۴۹ھ میں تجدید کی۔ اس کے بعد عثمانی خلفاء نے اس کی طرف خاص توجہ نہ دی، بہرحال پھر بھی ۱۲۳۲ھ، ۱۲۵۶ھ، ۱۲۹۱ھ اور اس کے بعد بھی تزیین وآرائش کا کام جاری رہا اور موجودہ تعمیر ترک سلاطین کے دور میں سلطان عبد الحمید( ۱۸۵۳ء) اور سلطان عبد العزیز (۱۸۷۴ء) کے دور حکومت کی تعمیر کردہ ہے۔(خطط الشام،ج: ۵،ص:۲۵۲،۲۵۱- القدس دراسةً تاریخیةً)
مسجد ِاقصیٰ کی مساحت
مسجد اقصیٰ کا اطلاق اس پورے احاطے پر ہوتا ہے، جس کو سیدناسلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا ہے اور اس پر مسجداقصیٰ کا اطلاق کیا ہے۔ اس اعتبار سے اور ہردورمیں گز اور میٹر کے اختلاف کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کے طول وعرض میں مؤرخین کے مختلف اقوال ہیں۔
”احسن التقاسیم“ اور ”مختصر کتاب البلدان“ میں ہے کہ مسجد کی لمبائی ایک ہزار گز اور چوڑائی ۷۰۰ گز ہے۔(احسن التقاسیم، ۱۴۷)
”معجم البلدان“ میں ہے کہ اس کی لمبائی اس کی چوڑائی سے زیادہ ہے۔
ناصر خسرو نے اپنے سفرنامے میں جو ۴۳۸ھ میں ہوا، اس میں لکھا ہے کہ مسجد بیت المقدس کی لمبائی ۷۵۴ گز اور چوڑائی ۴۵۵ گز ہے، یہ خراسان وغیرہ کے گز کے حساب سے ہے۔
ابن جبیر نے اپنے سفرنامہ میں جو ۵۷۸ھ- ۵۸۱ھ میں ہوا، اس میں لکھا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی ۷۸۰ گز لمبائی اور ۴۵۰ گز چوڑائی ہے اور حدود حرم کے اندرونی ہال کا طول ۶۰۰ گز اور عرض ۷۰۰ گز ہے، نہایت عمدہ اور خوبصورت نقش ونگار کیا ہوا ہے۔
تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسجد اقصیٰ روز اول سے جن حدود پر قائم ہوئی، آج بھی انہیں حدود پر قائم ہے۔ کبھی چار دیواری کے اندر پورے احاطے کو مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے اور کبھی صرف اس خاص حصہ کو مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے۔(القدس دراسةً تاریخیةً)
مسجد اقصیٰ کے متعلق فضائل
مسجد اقصیٰ کے فضائل احادیث میں آئے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ:
”رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے علاوہ (کسی دوسری جگہ کے لئے) تم اپنے کجاووں کو نہ باندھو (یعنی سفر نہ کرو): مسجد حرام، مسجد رسول (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ “۔ (بخاری ج:اص:۱۰۸)
ایک روایت میں ہے کہ:
”جو شخص بیت المقدس میں نماز پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف فرمائیں گے“۔ (فضائل بیت المقدس، ص:۱۰۷)
مسجد ِاقصیٰ کی حدود میں دیگر بھی ایسی چیزیں موجود ہیں، جو مسلمانوں کے لئے باعث فخر ہیں، جن میں سے حدود حرم میں واقع قبے، مینارے اور مدرسے ہیں، جن کو مسلمان بادشاہ مختلف ادوار میں تعمیر کرواتے رہے، ان میں سے چندمشہور قبّوں کے نام یہ ہیں:قبة المعراج، قبة السلسلة، قبة النحویة، قبة الصخرة۔(خطط الشام، ۵/۲۵۷)
ان سب میں سے زیادہ مقدس قبة الصخرة ہے، جس کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے۔
قبة الصخرة !
قبہ گنبد کو اور الصخرة چٹان کو کہتے ہیں، یہ قبہ ایک چٹان پر واقع ہے۔ ناصر خسرونے اپنے سفرنامہ میں اس کے اوصاف بیان کئے ہیں کہ یہ قبة الصخرة ایک چبوترہ میں واقع ہے اور صخرہ قبہ کے وسط میں ہے اور قبة الصخرة مثمّن الاضلاع (آٹھ پہلوؤں والا) ہے، آٹھ پہلوؤں میں سے ہر پہلو ۳۳ گز کا ہے اور چاروں طرف دروازے ہیں اور قبہ کا اندرونی احاطہ ۵۳ میٹر ہے، سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر کی طرف پہنچتے ہیں، سیڑھیوں کے اختتام پر دروازے ہیں اور قبہ کا اندرونی حصہ تین حصوں پر مشتمل ہے: پہلے میں چٹان، دوسرے میں ستون اور تیسرا حصہ دروازے کے ساتھ متصل ہے۔
قبہ میں اندر کی طرف ستون کی دوقطاریں ہیں۔ پہلی قطار چٹان کے اردگرد ہے، اس میں چار بڑے مربّعة الاضلاع (چار پہلووٴں والے) اور دو گول چھوٹے ستون ہیں۔ دوسری قطار ذرا فاصلہ پر ہے، اس میں آٹھ بڑے مسدّسة الاضلاع (چھ پہلووٴں والے) اور(۱۶) سولہ چھوٹے ستون ہیں اور ان ستونوں پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔
سب سے پہلے اس کی تعمیر خلیفہ عبد الملک بن مروان نے کی ہے یا تاریخ یعقوبی کے مصنف نے یہ ایک بات نقل کی ہے کہ جب خلیفہ عبد الملک بن مروان کا سیدناعبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے اختلاف ہوا تو حجاز پر سیدناعبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کا کنٹرول تھا ، خلیفہ نے لوگوں کی توجہ حرمین شریفین سے ہٹانے کے لئے مسجد اقصیٰ میں قبة الصخرة تعمیر کروایا، لیکن یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ تاریخ یعقوبی کا مصنف شیعہ ہے اور وہ اموی خلفاء کو (اپنی شیعیت کی وجہ سے)پسند نہیں کرتا، دوسری وجہ یہ ہے کہ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اسی دور میں جامع مسجد دمشق اور دیگر مقدس مقامات پر شاندار، خوبصورت عمارتیں تعمیر کروائیں، یہ بھی ان میں سے ہے۔(خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۳، تاریخ یعقوبی،ج: ۲ص:۱۸۲ ،القدس)
بہرحال قبة الصخرة اموی دور کا ایک اہم شاہکار تصور کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کی رونق میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ قبة الصخرة کی تعمیر مشہور تابعی ”رجاء بن حیوہ“ اور ”یزید بن سلام“ کی نگرانی میں مکمل ہوئی، جب تعمیر مکمل ہوئی تو ان حضرات نے خلیفہٴ وقت کو لکھا کہ ایک لاکھ دینار بچ گئے ہیں، تو خلیفہ نے ان کو ان کی ایمان داری اور دیانت کا انعام دینا چاہا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس اعزاز میں اور نعمت کے شکرانے کے طور پر اپنی بیویوں کے زیور اس پر لگادیں، چہ جائیکہ اس کے بدلے انعام لیں، تو خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کے سونے کو پگھلا کر طلا کاری کردی جائے۔ یہ ان کے اخلاص کا نتیجہ تھا۔(فضائل بیت المقدس،ص:۷۳)
الصخرة
یہ قبہ جس چٹان پر واقع ہے، وہ چٹان ایک قدرتی پتھر ہے، جس کی لمبائی ۵۶ فٹ اور چوڑائی ۴۲ فٹ ہے اور نیم دائرے کی غیر منظم شکل ہے۔ ناصر خسرو اپنے سفرنامہ میں لکھتے ہیں کہ اس کا کل احاطہ ۱۰۰ گز ہے اور یہ غیر منظم شکل ہے اور نہ ہی مدوّرة اور نہ ہی مربّعة، یہ عام پہاڑوں کی طرح ہے۔(القدس دراسةً تاریخیةً)
اس چٹان کے کئی فضائل ہیں ۔ سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ چٹان جنت کی چٹانوں میں سے ہے۔ اکثر مؤرخین کے نزدیک یہ وہی جگہ ہے، جہاں پر اسرافیل علیہ السلام کھڑے ہوکر نفخہٴ اخیرہ پھونکیں گے۔ یہی انبیاء سابقین علیہم السلام کا قبلہ رہا ہے اور۱۶،۱۷ ماہ تک نبی کریم ا بھی اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ یہودیوں کا قبلہ اول ہونے کی وجہ سے عیسائی وہاں پر کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے، جب سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فتح کیا تو اس کو صاف کروایا۔(فضائل بیت المقدس،ص:۱۲۳)
غار
اسی چٹان کے نیچے ایک غار ہے، جو مربعہ شکل میں ہے ۔اس غار کی لمبائی ۱۱ فٹ اور زمین سے اونچائی ۳۰ فٹ ہے۔ غار تک پہنچنے کے لئے قبلہ کی طرف گیارہ سیڑھیاں ہیں اور غار کے دروازے کے پاس ایک عمارت ہے جو دوستونوں پر مشتمل ہے اور سنگ مرمر سے اس کی تزیین کی گئی ہے ۔ عمارت کے اندر دو محراب ہیں۔ محراب کے نیچے دوستون انتہائی خوبصورت اور سنگ مرمر سے بنے ہوئے ہیں۔ دائیں طرف والے محراب کے سامنے ایک چبوترہ ہے، جس کو مقامِ خضر کہا جاتا ہے۔ شمال میں واقع چبوترہ کو ”باب الخلیل“ کہا جاتا ہے۔ قبّہ اور غار کا فرش خوبصورت سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے،جس سے اس کی چمک اور خوبصورتی میں اور اضافہ ہوتا ہے۔(خطط الشام،ج:۵ص:۲۵۴)
مسجد کا اندرونی حصہ
مسجد کے اندرونی حصے کے مغربی جانب جامع النساء ہے، جس کو فاطمیین نے تعمیر کروایا اور مغربی جانب جامع عمر رضی اللہ عنہ ہے، جس کو سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فتح کے بعدتعمیر کرایا تھا اور اسی عمارت کی طرف ایک بڑا خوبصورت ایوان ہے، جس کو” مقامِ عزیر“ کہا جاتا ہے، اسی ایوان کے شمال کی جانب ایک خوبصورت محراب ہے، جس کو” محرابِ زکریا“ کہا جاتا ہے اور اس کی لمبائی اور چوڑائی ۶۰۶ میٹر ہے۔ مغربی جانب ایک لوھے کا جنگلہ ہے، جس میں ایک محراب” محرابِ معاویہ رضی اللہ عنہ “کے نام سے ہے۔ قبلہ کی جانب ایک بڑا محراب ہے، جس کو محرابِ داؤد کہتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک منبر ہے، یہ منبر سلطان نور الدین زنگی نے مسجد اقصیٰ کے لئے بنوایا تھا، خود انتقال کرگئے ، لیکن ان کے جانشین سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کو فتح کے بعد حلب سے منگوا کر نصب کیا۔(خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۵)
دیوارِ براق
یہ دیوار دم کے جنوب مغرب میں ہے، اس کی لمبائی ۴۷ میٹر اور بلندی ۱۷ میٹر ہے۔ روایات میں ہے کہ حضور ﷺ نے معراج والی رات یہاں اپنی سواری باندھی تھی، اسی مناسبت سے اس کو دیوار براق کہتے ہیں۔
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فتح کے بعد کعب احبارسے پوچھا کہ کہاں نماز پڑھوں؟ انہوں نے فرمایا کہ چٹان کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں، تاکہ سارا قُدُس آپ کے سامنے ہو۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ نے تو یہودیوں سے ملی جلی بات کہی، میں تو وہاں پر نماز پڑھوں گا، جہاں پر رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تھی، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ قبلہ کی جانب گئے اورفاتحین صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ براق باندھنے کی جگہ کے قریب نماز پڑھی، آپ رضی اللہ عنہ نے وہاں پر مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔(البدایہ والنہایہ ج:۱۲ص:۳۴۷۔خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۵/ القدس دراسةً تاریخیةً)
مینارے
مسجد اقصیٰ کے شمال اور مغرب کی جانب چار مینارے تھے، یہ چاروں مینارے چاروں دروازوں کے ساتھ تعمیر کئے گئے تھے، ان کو باب المغاربة کا مینارہ، باب السلسلہ کا مینارہ، باب؟ کا مینارہ اور باب الاسباط کا مینارہ کہا جاتا ہے۔ یہ مینارے ممالیک کے دور حکومت ( ۷۶۹ھ تا۱۳۶۷ھ) میں تعمیر ہوئے۔(خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۴)
مسجد اقصیٰ میں تعلیم وتعلّم اور علمی شخصیات
مسلمان بادشاہوں نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس میں تعلیم و تعلّم کے لئے بھی سہولتیں فراہم کیں: طلباء کے لئے کمرے اور درسگاہیں تعمیر کیں، ان میں سے جامعة المغاربہ، مدرسہ عثمانیہ، مدرسہ کریمیہ، مدرسہ باسطیہ اور مدرسہ طولونیہ وغیرہ تعمیر کرائے۔ مسجد اقصیٰ کی طرف بہت سی علمی اور مذہبی شخصیات نے سفر کئے، جن میں مشہور نام یہ ہیں: سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں عبادة بن صامت رضی اللہ عنہ متوفی۳۴ھ اور شداد بن اوس رضی اللہ عنہ متوفی۵۸ھ وہیں رہے۔ مشہور مفسر مقاتل بن سلیمان المتوفی سنہ۱۵۰ھ اور فقیہ امام عبد الرحمن بن عمرو اوزاعی متوفی ۱۵۷ھ اور عراق کے مشہور عالم امام سفیان ثوری متوفی ۱۶۱ھ اور مصر کے امام لیث بن سعد متوفی ۱۷۵ھ اور فقہ شافعی کے بانی امام محمد بن ادریس شافعی متوفی ۲۰۳ھ اور حجۃ الاسلام متوفی ۴۸۸ھ ہیں رحمہم اللہ ۔
اس کے بعد عیسائیوں کے قبضہ میں جانے کے بعد یہ سلسلہ موقوف ہوگیا تھا ، لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کی فتح کے بعد دوبارہ اس میں تعلیم اور تعلّم کا سلسلہ جاری ہوگیا اور ہندوستان کے مشہور خطیب مولانا محمد علی جوہر کا مقبرہ مدرسہ خاتونیہ کے باہر واقع ہے۔(معجم البلدان،ج: ۵ص:۱۷۲ باعث النفوس الی زیارة القدس والخلیل)
بیت المقدس پر لکھی جانے والی چند اہم کتابیں :
۱-مشیر الغرام الی زیارة القدس والشام: للامام شہاب الدین ابی محمود بن تمیم المقدسی متوفی ۷۶۵ھ
۲-الجامع المستقصیٰ فی فضائل المسجد الاقصیٰ۔ للامام بہاء الدین ابی محمد القاسم ابن ہبۃ بن عساکر۔
۳-الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل۔ للامام الدین الحنبلی العلیمی المتوفی ۹۲۷ھ
۴-فضائل بیت المقدس، للامام ابی المعالی المشرف بن المرجی بن ابراہیم المقدسی المتوفی ۴۹۲ھ
۵-باعث النفوس الی زیارة القدس المجروس، للشیخ برہان الدین الفراری المعروف بابن القرقاح۔
۶-فضائل بیت المقدس لابن الجوزی۔
۷-بیت المقدس والمسجد الاقصیٰ، دراسةً تاریخیةً، مولفة محمد حسن التراب۔
۸-المسجد الاقصیٰ والصخرة المشرفة، ابراہیم الغنی۔
۹-القدس، جراسة تاریخیة حول المسجد الاقصیٰ والقدس الشریف للدکتور عبد الفتاح حسن ابوعلیہ۔
۱۰- فضائل بیت المقدس، للامام الحافظ ضیاء الدین محمد بن عبد الواحد بن احمد المقدسی الحنبلی المتوفی ۶۴۳ھ۔
مراجع:
۱-بخاری۔
۲-سنن ابن ماجة۔
۳-تفسیر حقانی۔
۴-البدایة والنہایة۔
۵- کتاب الروضتین فی اخبار الدولتین لابی شامة۔
۶-فضائل بیت المقدس للامام ابی المعالی المشرف المرجی المقدس ۴۹۲ھ
۷-فضائل بیت المقدس للامام الحافظ ضیاء الدین محمد بن عبد الواحد بن احمد المقدسی الحنبلی ۶۴۳ھ
۸-القدس:تاریخیة دراسة للدکتور عبد الفتاح حسن ابوعلیہ۔
۹-الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل للامام مجیر الدین الحنبلی ۹۲۷ھ
۱۰-معجم البلدان، یاقوت حموی۔
۱۱- خطط الشام، محمد کر دعلی۔
۱۲-احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم لمحمد الیشاری۔
***