تعارف: مینوفیکچرنگ کانٹریکٹ (Manufacturing Contract)
مینوفیکچرنگ کانٹریکٹ کیا ہوتا ہے؟ فرض کر لیجیے میں پلاسٹک کے کوئی برتن بناتا ہوں۔ میرے پاس ابھی برتن موجود نہیں ہے۔ ایک پارٹی میرے پاس آتی ہے اور وہ کہتی ہے کہ جی ہمیں اتنے اتنے برتن، اس اس چیز کے، ہمیں دس لاکھ روپے کا یہ سامان چاہیے۔ اب میں اس سے ڈیل کر رہا ہوں، میرے پاس سامان نہیں ہے، میرے پاس ابھی برتن موجود نہیں ہے، اور میں نے اس کو کہا کہ جی میں آپ کو ہزار برتن اتنی اتنی پیمنٹ کے، اتنے اتنے سائز کے پلاسٹک پہ بنا کے میں آپ کو دوں گا۔ تو کیا میں یہ ایگریمنٹ کر سکتا ہوں؟ جی ہاں، میں کر سکتا ہوں۔
مینوفیکچرنگ کانٹریکٹ کی شرائط اور استثناء
اگر کوئی بندہ کوئی چیز بنا کر سیل کر رہا ہے، مینوفیکچر کر رہا ہے، کوئی بنا رہا ہے کوئی چیز، تو اس کے لیے ہم ملکیت کی شرط نہیں لگاتے۔ اس کو ہم ایگزیمپشن دیتے ہیں اس چیز سے۔ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ جس میں ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مدینہ میں اپنے باغات کی کھجوروں کا سودا کر لیتے دو دو، تین تین سال تک، چار چار سال تک۔ یمن سے کوئی تاجر آیا ہے، کوئی شام سے تاجر آیا ہے، اسے کھجوریں لے کے جانی ہیں۔ اس نے کہا کہ بھائی ابھی ہاتھ کے ہاتھ سودا کرو، اگلے تین چار سال تک کی جتنی کھجوریں ہوں سب میں لے جاؤں گا۔
بیع سلم (Bay’ al-Salam): پیشگی ادائیگی کا تصور
اس کو عربی میں کہتے ہیں بیع سلم۔ سین، لام، میم، سلم۔ یہ آج اسلامی بینکس کے اندر بھی ہوتی ہے، سلم کانٹریکٹس ہوتا ہے اسلامی بینکس کے اندر بھی۔ لیکن اس کا کانسپٹ بہت مختلف ہے، وہ والا کانسپٹ نہیں ہے جو شریعت کا ہے۔ تو بہرحال، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے مدینہ، صحابہ نے پوچھا کہ اللہ کے رسول، ہم یہ کرتے ہیں، جائز ہے یا غلط ہے؟
بیع سلم کی شرائط (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں)
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آپ کرنا چاہتے ہیں یہ کانٹریکٹ، تو اس کے لیے تین شرطیں ہیں۔
- آپ جو چیز دے رہے ہیں اس کی کوالٹی کلیئر ہونی چاہیے۔ آپ کھجور دے رہے ہیں تو کون سی قسم کی کھجور ہے؟ عجوہ ہے، کوئی اور کھجور ہے، برنی ہے، سکر ہے، کون سی ہے؟ آپ نے پہلے اس کو کلیئر کرنا ہے۔
- کتنی دے رہے ہیں؟
- کب دے رہے ہیں؟
ابھی اس کی قیمت لگاؤ، قیمت آپ پہلے لے لو، چیز بعد میں دے دینا۔
بیع سلم کا فائدہ: غرر (Gharar – غیر یقینی/دھوکہ) کا خاتمہ
اب دو دو، تین تین سال کا ایگریمنٹ صحابہ کر رہے ہیں۔ کھجور کتنی ہوگی، کوالٹی کیا ہوگی، اور کب دیں گے، بات کلیئر ہوگئی۔ وہ جو ایک خطرہ تھا نا، جس کو ہم کہتے ہیں غرر، رسک کا جو خطرہ تھا دھوکے کا، کہ پتہ نہیں زیادہ ہوگی کھجور، کم ہوگی، کم ہوگی، زیادہ ہوگی، کس کو نقصان ہوگا، کس کو نہیں ہوگا، وہ مسئلے ختم ہوگئے۔ قیمت پہلے سے طے ہوگئی، پتہ چل گیا کہ یہ قیمت ہے اس کی۔ یہ چیز ملے گی، اتنے کی ملے گی، اور اس وقت ملے گی۔ ختم ہوگئی بات۔ اسی پہ ہم قیاس کرتے ہیں مینوفیکچرنگ کانٹریکٹ کو۔
مینوفیکچرنگ کانٹریکٹ اور تعمیراتی معاہدے (مثال: بلڈر اور فلیٹ)
جب آپ نے ایک چیز بنا کر دینی ہے، تو آپ کو پتہ ہوگا کہ کیا دے رہے ہیں، کتنی دے رہے ہیں، اور کب دے رہے ہیں۔ جب آپ نے یہ ڈیل کرلی، اب آپ چیز کے پیسے پہلے لے کے آپ چیز کو سیل کر سکتے ہیں۔ تو یہ مینوفیکچرنگ کانٹریکٹ جو ہے، وہ اس سے باہر ہے۔ اس کی ایک اور مثال سمجھ لیں۔ مثال کے طور پہ ایک بلڈر ہے۔ وہ بلڈنگ کھڑی کر رہا ہے۔ اب میں نے اس بلڈنگ میں فلیٹ خریدنا ہے۔ بلڈر نے ابھی جو ہے وہ، جس کو ہم کہتے ہیں نا کھڈا مارنا، وہ بھی نہیں اس نے کیا ہوا۔ مارکیٹنگ وہ اپنی کر رہا ہے کہ جی میں دس فلور کی بلڈنگ بناؤں گا، یہ فلیٹ ہوں گے، یہ اس کی کنڈیشن ہوگی، اتنے اس میں کمرے ہوں گے، اس قسم کا اس کے اندر سامان لگا ہوگا۔ آپ نے بلڈر سے جا کے فلیٹ قسطوں پہ یا فل پیمنٹ پہ خرید لیا۔
کیا میرا یہ فلیٹ اس سے خریدنا اور بلڈر کا یہ فلیٹ بیچنا جائز ہے یا ناجائز ہے؟ کیا کہیں گے آپ اس کو؟ ابھی فلیٹ موجود نہیں ہے۔ بلڈر وہ سامان بیچ رہا ہے۔ یہ کیوں جائز ہے؟ مینوفیکچرنگ کانٹریکٹ۔ بلڈر نے ابھی وہ بلڈنگ بنانی ہے۔ وہ پہلے سے سیل کر رہا ہے۔ ٹھیک ہے؟ تو جو بنانے والا ہے، جو مینوفیکچر کرنے والا ہے، جو بلڈر ہے جسے بلڈنگ بنانی ہے، جسے کنسٹرکشن کرنی ہے، وہ سیل کر سکتا ہے۔
قبضہ سے پہلے خریدی گئی چیز کی فروخت کا مسئلہ
اب اس پر ایک اور سوال بنتا ہے۔ وہ سوال یہ بنتا ہے کہ میں نے بلڈر سے فلیٹ خرید لیا، میری ملکیت میں آگیا، میرے پاس اس کے ڈاکومنٹ موجود ہیں کہ اس فلور پہ یہ فلیٹ موجود ہے۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ کیا یہ فلیٹ میں آگے سیل کر سکتا ہوں؟ نہیں! کیوں نہیں کر سکتا؟ قبضہ نہیں ہے۔ ملکیت ہے، قبضہ نہیں ہے۔ تو جو فلیٹ میں نے ابھی خرید لیا ہے انسٹالمنٹ پہ، وہ فلیٹ میں آگے سیل نہیں کر سکتا۔
اور آپ احباب کو پتہ ہوگا کہ ہمارے ہاں بہت سارا یہ مارکیٹ میں کام چل رہا ہوتا ہے، خاص طور پہ فائل کا۔ بحریہ میں خاص طور پہ کام بہت شروع ہوا، فلیٹس بک رہے، فلیٹس موجود ہی نہیں ہیں، خالی زمین پڑی ہوئی ہے، اس پہ وہ فلیٹ بننے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بلڈر وہ چیز بیچ سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں انویسٹرز ہوتے ہیں، وہ انویسٹمنٹ کرتے ہیں، وہ فائل اٹھا لیتے ہیں اور آگے سیل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ جب تک وہ چیز بن کر میرے قبضہ میں نہیں آتی میں وہ چیز آگے سیل نہیں کر سکتا۔
حدیث نبوی: “لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ” (جو چیز تمہارے پاس نہیں اسے مت بیچو)
جناب حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سودا کرتا تھا، مارکیٹ میں بیٹھتا تھا (تاجر تھے بہت بڑے) تو فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، میرے پاس کوئی بندہ آتا ہے اور وہ ایک خاص سامان لینا چاہتا ہے جو میرے پاس ختم ہوگیا ہے لیکن مجھے پتہ ہے کہ یہ چیز، یہ سودا ایک اور جگہ پہ مل جائے گا۔ تو میں کرتا کیا ہوں؟ میں یہ کرتا ہوں کہ میں اس سے پہلے قیمت لے لیتا ہوں۔ قیمت لینے کے بعد پھر میں جاتا ہوں مارکیٹ میں اور وہ سامان اٹھا کے اس کو لا کے دے دیتا ہوں۔ تو کیا یہ جائز ہے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ
الفاظ پہ غور کیجیے گا، “لَا تَبِعْ”، نہ بیچو، “مَا”، ایسی چیز، “لَيْسَ عِنْدَكَ”، جو تمہارے پاس موجود نہیں ہے۔
لہذا! جو چیز آپکے پاس موجود نہیں وہ چیز آپ آگے سیل نہیں کر سکتے۔