ماہ رمضان! حصول تقویٰ اور تربیت نفس کا مہینہ

ramadan ka mahina or tazkiya nafs

پہلا خطبہ :

بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد بجالاتے ہیں ، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں ، ہم اپنے نفس کی برائی اور اپنے برے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالی ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُمْ مُسْلِمُونَ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ تعالٰی سے کماحقہ ڈرو اور مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا ۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا

النساء – 1

اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی سے اُس کی بیوی کو پیدا کر کے ، ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اُس اللہ سے ڈرو، جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو۔ اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو ، بیشک اللہ تعالی تم پر نگہبان ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ‎﴿٧٠﴾‏ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

الاحزاب – 70

اے ایمان والو ! اللہ تعالی سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی باتیں کیا کرو، تاکہ اللہ تعالی تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف کر دے۔ اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول صلی عوام کی تابعداری کرے گا، یقینا اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی۔

اے مومن مرد و عورت کی جماعت! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو تقوی کی وصیت کرتا ہوں، ایک ایسے موسم میں جس میں تقوی کا مقام و مرتبہ اچھی طرح ظاہر ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تتَّقُونَ

البقرۃ – 183

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ویسے ہی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقوی کی راہ اختیار کرو۔

 لہذا تقوی کی رسی سے اپنے دلوں کو مضبوطی سے باندھ لواور اس کے چشمے سے اپنے گناہوں کے میل کچیل کو دھولو، کیوں کہ یہی مضبوط کڑا، محفوظ پناہ گاہ اور اعلی زینہ ہے۔

پھر جان لو! (اللہ آپ پر رحم کرے) کہ اللہ عزوجل مخلوقات میں سے کچھ کا انتخاب کرتا ہے اور ان کو فضیلت بخشتا ہے جو اس کے وسیع فضل و کرم عظیم عدل و انصاف اور بے مثال حکمت و دانائی پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ وہی تمام امور کے حقائق اور خصائص سے واقف اور ان کے ظاہر و باطن سے باخبر ہے۔ پس اللہ عزوجل زمان و مکان اور اعیان واشخاص میں سے انتخاب کرتا ہے، جگہوں میں سے سب سے مقدس، زمانوں میں سے سب سے افضل اور اعیان و اشخاص میں سے سب سے پاکباز اور مخلص افراد کا انتخاب کرتا ہے اور انہیں فضائل کا مرکز، برکتوں کا محور اور نیکیوں اور بھلائیوں کا سر چشمہ قرار دیتا ہے، پس اس کے عظیم عدل و انصاف اور بے انتہا فضل و کرم ہی اس کے انتخاب و اختیار کا معیار ہے۔

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

القصص – 68

اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔

 اور بے شک رمضان مہینے کی حیثیت دیگر مہینوں کے مقابلے میں وہی ہے جو زمانوں میں موسم بہار کی حیثیت اور تاج میں قیمتی ہیرے کی ہے۔

میرے اسلامی بھائیو! اس خوفناک صورت حال اور حیرت انگیز منظر پر غور کریں جس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ منبر پر چڑھے اور ”آمین، آمین ، آمین فرمایا۔ آپ ﷺ سے کہا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ کیا کر رہے تھے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: مجھ سے جبریل امین نے فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس نے رمضان پایا اور اس کی بخشش نہ ہوئی، تو میں نے کہا: آمین، پھر فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے والدین کو ، یا دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا، اور پھر بھی (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہو سکا، تو میں نے کہا: آمین۔ پھر کہا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا تذکرہ ہو اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے ، تو میں نے کہا، آمین۔

اس حدیث میں (رغم انف) یعنی: ناک خاک آلود ہو سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص ذلیل ہو اور نا پسندیدہ چیز سے دوچار ہو۔ رغم کی اصل رغام ہے جس کا معنی مٹی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذلیل و خوار ہو یہاں تک کہ اس کی ناک مٹی سے جاملے اور وہ اپنی مراد کو نا پاسکے۔ اور یہ بد دعا اس لیے ہے کیوں کہ نیکیوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، اطاعت و بندگی کے اسباب میسر ہیں، اس ایک مہینے کی مدت بھی مختصر ہے اور اس میں اجر و ثواب اور نیکیوں کے مواقع بکثرت موجود ہیں۔

اگر با غیچہ موسم بہار ہی میں قحط زدہ ہو جائے۔۔۔ تو پھر کس وقت اس میں رونق اور بہار آئے گی۔

اے مومن مرد و عورت ! یہ اس باغ کی صبح نو ہے جو روشن ہو چکی ہے، اس کی ڈالیوں پر پرندے چہچہانے لگے ہیں، اور اس کی آمدکے جھونکے باد صبا کی طرح چلنے لگے ہیں، اس کے پھولوں کی خوشبو باغ کے پھولوں کی طرح پھیلنے لگی ہے، خیر کے وہ دروازے جو بند تھےکھل گئے ہیں، اور خزینہ فضل و کرم کے جو ڈھیر جمع تھے، بکھرنے لگے ہیں ، لہذا خو شخبری ہے ان کے لیے جو دور ہو جانے کے بعد پھر لوٹ آئے ہیں اور ایک طویل عرصے کے بعد پھر عبادت میں لگ گئے ہیں۔ لوگ اس کے دروازے کے پاس ازدحام لگاتے ہیں۔۔۔ جو میٹھا چشمہ ہوتا ہے وہاں بھیٹر زیادہ ہوتی ہے۔

یہ وہ مہینہ ہے جس میں انسانی نفس وروح اپنے رب کی طرف اسی طرح دوڑتے ہیں جس طرح ایک سخت پیاسا انسان ابلتے چشمے کی طرف دوڑتا ہے ، زبان اور تمام اعضا و جوارح خیر و نیکی کی طرف اسی طرح بھاگتے ہیں جس طرح عمدہ نسل کا گھوڑار میں اور مقابلہ میں بھاگتا ہے۔ انسان اللہ سے کتنا بھی دور ہو جائے، اس کا دل کتنا بھی سخت ہو جائے، آنکھ جس قدر بھی خشک ہو جائے ؛ اس کے دل کی پہنائیوں اور گہرائیوں میں موجود خیر و نیکی کے داعیات و جذبات باغیچہ ہائے ذکر کی طرف لپکتے ہیں اور عبادت کے عدم تسلسل کی وحشت سے کراہتے ہیں۔

 ملامت کرنے والا نفس مرتا نہیں ہے، گرچہ اس کی طاقت وقوت ضعف و کمزوری کا شکار ہو جائے، یا اس پر گناہوں کا زنگ چڑھ جائے، وہ خیر کی امید رکھتا ہے ، اپنے رب اور آقا سے قریب ہونا پسند کرتا ہے اور اپنے ان مقامات تک پہنچنے کا شوق رکھتا ہے جہاں وہ راحت، سکون اور خواہش و آرزو کو پاتا ہے، نفس خیر کے اسباب پر مارے خوشی کے ایسے ہی جھومتا ہے جیسا کہ اونٹ حدی خوانی پر جھومتا اور دوڑتا ہے۔ کتنی آنکھیں ہیں جو خشک ہونے کے بعد اس ماہ مبارک میں آنسوؤں کے بادل برسائیں، کتنے ایسے سخت دل ہیں جو سختی کے بعد اس میں نرم پڑ گئے ، کتنے نفس ایسے ہیں جو اپنے رب سے دور تھے ، پھر اس میں قریب ہو گئے، کتنی زبانیں ایسی ہیں جو زمانے تک لغو اور باطل امور میں مصروف رہیں پھر اس میں خیر کے امور میں پلٹ آئیں اور کتنے اعضا ایسے ہیں جو نیکی کے کاموں سے روک دیے گئے پھر اس میں انھیں کھول دیا گیا۔

روزہ ایمان کے مدارس میں سے ایک مدرسہ ہے، احسان کے درجے تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ” احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی ایسے عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر ایسا نہ ہو سکے تو یہ محسوس کرو کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ کیوں کہ روزہ بندہ اور اس کے رب کے درمیان ایک راز ہے، جس پر اللہ کے علاوہ نہ کوئی مطلع ہو سکتا اور نہ جان سکتا ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جس میں اخلاص وللہیت اور کچی عبودیت کے تمام معانی و مفاہیم جلوہ گر ہوتے ہیں۔

چنانچہ جو آدمی صرف کھانا پینا چھوڑنے کو روزہ سمجھتا ہے اور جو آدمی تقرب الہی کی وجہ سے روزہ رکھتا ہے، دونوں کی ظاہری صورت ایک جیسی ہوتی ہے۔ اسی طرح روزہ رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کے درمیان بظاہر تمیز نہیں ہو سکتی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے اس عبادت کو اپنے لیے خاص کیا ہے اور اسے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔

 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” ابن آدم کے ہر نیک عمل کو دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سوائے روزے کے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ وہ میری وجہ سے اپنی جنسی خواہش اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ “ روزہ دار اپنے رب کی عبودیت و بندگی میں، اس کی نگرانی کا خیال رکھتے ہوئے اور اس سے امید اور خوف رکھتے ہوئے اپنا کھانا پینا اور جنسی خواہش چھوڑ دیتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے رب کی عبودیت میں اپنی شہوتوں کے پیچھے نہیں بھاگتا، گرچہ تمام مخلوق کی نگاہیں اس سے دورہوں۔

اے نجد کی نسیم صبح! جب بھی تم ان کا سلام لیکر آنا
تو قافلے کی بات مت کرنا
اور نہ محفوظ راز کو افشا کرناکیوں کہ مجھے
اپنے دوستوں کے تذکرے پر غیرت آتی ہے۔

اسی وجہ سے یہ آیا ہے کہ روزہ میں کوئی ریا کاری نہیں ہوتی ہے۔

اللہ تعالی کا یہ فرمانا: ” اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ روزہ کی بڑی فضیلت ہے ، اس کے بدلے ملنے والی عطا و بخشش بہت زیادہ ہے، کیوں بخشش، بخشش دینے والے کی ملکیت اور اس کے جو دوسخا کے بقدر ہوا کرتی ہے۔

وہ تمھیں کسی امید اور خوف کی وجہ سے نہیں دیتا ہے
بلکہ اسے عطا و بخشش کرنے میں لذت و چاشنی ملتی ہے۔
پرندے وہیں اترتے ہیں جہاں دانے ڈالے جاتے ہیں
اور سخی و فیاض لوگوں کے گھروں میں بھیڑ لگی رہتی ہے۔

رمضان کے مہینے میں دین اسلام کی نعمت خوب جلوہ گر ہوتی ہے، اس دین میں عظیم عباد میں مشروع کی گئی ہیں تاکہ بڑے اور عظیم مقاصد و منافع کی تکمیل ہو سکے۔ ان مقاصد میں کچھ یہ ہیں:

  •  مومن کی صبر پر تربیت ہو۔
  • نفس کو شہوت سے روکا جائے اور شہوت کی حدت کو ختم کیا جائے۔
  •  مالدار، فقیر کے بھوک کی شدت کو محسوس کر سکے۔
  • نفس کا تزکیہ ہو اور دل کا آئینہ صاف ہو تا کہ اس کے نہاں خانے میں قرآن کی تجلیات روشن ہو جائیں اور اس کی گہرائیوں میں ایمان کے راز بولنے لگیں۔

 ایک انسان کو چاہیے کہ وہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرے جیسا کہ اللہ نے اس آیت کے اخیر میں شکر گزاری اور حمد و ثنا پر ابھارا ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

البقرۃ – 185

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل موجود ہیں۔ لہذا تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پالے اس پر لازم ہے کہ پورا مہینہ روزے رکھے۔ ہاں اگر کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر سکتا ہے (کیونکہ) اللہ تمہارے ساتھ نرمی کا برتاؤ چاہتا ہے، سخی کا نہیں چاہتا۔ (بعد میں روزہ رکھ لینے کی رخصت اس لیے ہے) کہ تم مہینہ بھر کے دنوں کی گنتی پوری کر لو۔ اور جو اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو۔ اور اس لیے بھی کہ تم اس کے شکر گزار بنو۔

اللہ تعالی کتاب و سنت کو میرے لیے اور آپ سب کے لیے بابرکت بنائے، ہمیں ہر بدعت سے بچائے ، ہر فتنہ سے محفوظ رکھے اور تقوی کو دخول جنت کا ذریعہ اور آخرت کا ذخیرہ و توشہ بنائے۔ آپ نے جو سنا، وہی میں نے کہا۔ اب میں اپنے لیے اور آپ سب کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ سب بھی مغفرت طلب کریں، بے شک وہ رجوع کرنے والوں کو معاف کرتا ہے۔

دوسرا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو حمد وستائش کا مستحق و سزاوار ہے، ہمارے سردارو نبی محمد ﷺ پر رحمت و سلامتی نازل ہوتی رہے جب تک بادل سے مینہ اور بارش برستی رہے، اسی طرح آپ کی آل پر ، صحابہ کرام پر اور آپ کی صداقت و سچائی کی گواہی دینے والوں پر۔

حمد و صلاۃ کے بعد!

اے مومن مردو عورت کی جماعت!بے شک مومن کے دل میں جو نیت جنم لیتی ہے اس کا، آدمی کی اصلاح، اس کے کردار و اعمال کی درستی، اور مخلوق و خالق کے ساتھ سلوک و بر تاؤ پر بڑا اثر پڑتا ہے۔ کیوں کہ (دراصل) اعضاء وجوارح، افعال و کردار۔ دل کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اور دلوں کو جلا، نیت کی درستی سے حاصل ہوتی ہے، لہذا یہ مومن کی سواری ہے۔ ذرا میرے ساتھ غور کریں! کہ ماور مضان میں عمل و عبادت کس قدر دلوں کی صفائی اور اخلاص نیت کے ساتھ مرتبط ہے۔

 نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: “جو شخص ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالی اس کے گزشتہ گناہوں کو بخش دیتا ہے“۔ نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: “جس نے شب قدر میں حالتِ ایمان کے ساتھ ثواب کی غرض سے قیام کیا اُس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں“۔

لہذا اے مومن! اپنے دل کا جائزہ لے، اس کا مراقبہ کر اور اس کی صفائی وپاکیزگی کا خیال کر۔ اور خشوع و خضوع کے ساتھ رب کی طرف لوٹنے کے عزم وارادے کی چنگاری کو بھڑ کادے۔ خبر دار ! تیرے عزم کی تلوار کو راستے کی رکاوٹیں کُند نہ کر دیں۔ بے شک دل کی سواری کے لیے ، سچے قصد کے ساتھ عزوم ارادہ کی وہی حیثیت ہے جو حُدی خواں کی ہے۔ اور سنت رسول ﷺ پیروی کرنے کی حیثیت سفر کے رہنما جیسی ہے۔ رخت سفر باندھنے میں بہت معمولی مدت باقی ہے۔(لہذا اسے غنیمت جان)۔

اے مومن مرد و عورت ! آج کے دن کائنات کے سب سے بہترین فرد اور مخلوق کے سردار علی نام پر درود پڑھنا مستحب ہے، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “یقینا تمھارے دنوں میں سے افضل دن جمعہ ہے۔ اس میں آدم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن صور پھونکا جائے گا۔ اسی دن بے ہوشی ہو گی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو۔ یقیناً تمھارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! (وفات کے بعد) آپ پر درود کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیا علیہم السلام کے جسموں کو کھائے۔ لہذا اس دن آپ بھی نبی اکرم ﷺ پر بکثرت درود و سلام بھیجا کریں تاکہ یہ اللہ رب العالمین سے آپ کی قربت اور نزدیکی کا سبب بن جائے۔

اے اللہ درود و سلام اور برکتیں نازل فرما، اگلے اور پچھلے تمام لوگوں کے سردار، امام الانبیاء خاتم النبيين رحمۃ للعالمین ﷺ پر اُس کے بقدر جو تیری کتاب نے شمار رکھا ہے، تیرے قلم نے تحریر کیا ہے اور تیرے علم نے جسے اپنی وسعت میں لے رکھا ہے، ہمیشہ ہمیش قیامت تک مسلسل نازل فرما۔

اے اللہ! ہدایت یافتہ قائدین، خلفاء راشدین، ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور اپنے نبی اکرم ﷺ کے تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، (اسی طرح) تابعین کرام اور قیامت تک آنے والے ان کے پیروکاروں سے بھی راضی ہو جا، اور ان کے ساتھ ساتھ اپنی عفو و درگزر اوررضامندی کی بارش کرتے ہوئے ہم سے بھی راضی ہو جا، اے سب سے زیادہ عزت والے!۔

اے اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، کفر اور اہل کفر کو ذلیل و رسوا فرما، اور اس بابرکت ملک کو اور تمام مسلم ممالک کو بھی مضبوط، محفوظ اور امن والا بنا۔ اے جہانوں کے پالنہار۔

اے اللہ! ہمارے پیشوا خادم حرمین شریفین اور ان کے ولی عہد کو اسلام و مسلمانوں کی عزت والے ، اور ایسے کاموں کی توفیق عطا فرما جن میں بندوں اور ملک کے لیے دین و دنیا کی بھلائی ہو ، اے سب سے زیادہ عزت والے!۔

اے اللہ! ہرخیر کے معاملے میں ان کی مدد فرما، اور انہیں اس کی توفیق عطا فرما۔

اے اللہ! اس ملک کی حفاظت فرما، جو حرمین شریفین کا حصار ہے، مسلمانوں کے دلوں کا مرکز ہے، اور ہر شر سے ایمان کا مامن ہے۔

 اے اللہ! اس کے علما اور عقیدے کی حفاظت فرما، اس کے مقدسات اور حرمتوں کو محفوظ فرما، اس ملک کے فوجیوں اور سرحدوں کی حفاظت فرما، اسی طرح اس کے رہنے والے بوڑھے ، جوان، مرد، خواتین، اور اس کی پولیس وسیکورٹی کے افراد کی حفاظت فرما۔

اللہ کے بندو! اللہ کا شکر ادا کر کے اس کے فضل و کرم کو طلب کرو، اس کی اطاعت و فرمانبرداری کر کے اس کی نعمتوں کی حفاظت کرو، چمٹ کر اور جم کر اس سے دعا کرو اور اس کا ذکر کرو، ہمارا پروردگار عزت والا ہے اور ان تمام باتوں سے پاک ہے جو کافر اس کی شان میں کہتے ہیں، اور رسولوں پر سلامتی ہو، اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔

خطبہ جمعہ مسجدِ نبویﷺ : فضیلۃ الشیخ احمد علی الحذیفی حفظہ اللہ
02 رمضان 1444ھ بمطابق24 مارچ 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

   فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ

آپ ان دنوں مسجد نبوی کے امام ، قبل ازیں مسجد قباء کے امام تھے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوبصورت آواز میں بہترین لہجے میں قرات قرآن کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کے محبین موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ تادیر آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ۔آمین