اللہ کے ساتھ ادب

پہلا خطبہ :

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو الوہیت میں منفرد ہے۔ وہی تنہا عبادت کا مستحق ہے کوئی اور نہیں۔ میں اس پاک ذات کی حمد کرتا ہوں اور حمد ان چیزوں کا بعض حصہ ہے جس کے بارے میں ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ با ادب رہنے کے لائق بناتی ہیں. میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں. اس کا کوئی شریک نہیں. اس کے لیے ایسی پاکیزگی اورعظمت بیان کرتے ہوئے جو توحید پرست کو اس کی آرزو، امید اور مقصد تک پہنچائے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں جو اپنے پروردگار اور مولا کے ساتھ ادب بجا لانے، اس کا تقوی اختیار کرنے اور اس کا خوف رکھنے کے لحاظ سے مخلوق میں سب سے عظیم ہیں۔ اے اللہ ! تو درود و سلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد پر، آپ کے آل و اصحاب پر جو ہر متقی، یکسوئی برتنے والے، آہ و زاری کرنے والے کے لیے اسوہ ہیں۔ ایسا درود و سلام جو پائیدار ہو، جس سے نفس پاک و بلند ہو اور زندگی خوشگوار ہو ۔

اما بعد!!!

اللہ کے بندو ! اللہ کا تقوی اختیار کرو۔ بہتر انجام تقوی کا ہے۔ اس کی بدولت متقی بلند ترین مقام تک پہنچتے ہیں، تمام فضیلتوں کو حاصل کرتے ہیں اور تمام مصائب کو دور کراتے ہیں

یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا

الاحزاب 70-71

 اے ایمان والوں! اللہ تعالی سے ڈرو اور سیدھی سچی باتیں کیا کرو تاکہ اللہ تعالی تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پا لی ۔

اللہ کے بندو ! چونکہ ادب ان چیزوں کی معرفت کا نام ہے جن کے ذریعے ہر قسم کی غلطی سے بچا جاتا ہے اور عظماء میں سے ہر عظیم کے حق میں غلطی سنگین ہوتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تمام عظماء میں سب سے عظیم ہے بلکہ در حقیقت وہی اکیلا عظیم ہے جیسا کہ اس  حدیث میں آیا ہے جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (الفاظ  احمد اور ابو داود کے ہیں) اللہ تعالی نے فرمایا: بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے جو بھی ان دونوں میں سے کسی کو مجھ سے کھینچنے کی کوشش کرے گا میں اسے آگ میں پھینک دوں گا۔

رواہ ابن ماجہ

 اس لیے اللہ تعالی کے ساتھ ادب بجا لانا مخلوقات پر واجب ہے اور وہ ہر ادب پر مقدم ہے. اللہ کے ساتھ ادب بجا لانے کا مطلب تعظیم, اجلال اور حیا کے تقاضے کے مطابق ظاہری اور باطنی حرکات کو سرانجام دے کر اللہ کے ساتھ حسن صحبت ہے اور سب سے پہلی چیز جس پر توجہ دینا اور جس کی طرف نگاہوں کو پھیرنا ضروری ہے وہ ان راستوں کی معرفت ہے جن پر راہ روہ چل کر اللہ کے ساتھ ادب بجا لانے کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ اللہ کے بندو ! وہ مختلف راستے اور متعدد راہیں ہیں۔ بندہ جب اللہ کے ساتھ ادب بجا لانے کے سب سے عظیم الشان مقام اور سب سے  معزز منزل سے واقف ہوتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی کے حق کی ادائیگی اس خالص توحید کو پورا کر کے ہو گی جو دین کا سب سے عظیم معاملہ ، اعمال کی بنیاد، بندگی کی روح، تقرب کا ستون، اللہ تعالی کی قربت کا اصول اور انس و جن کی تخلیق کا مقصد ہے. اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ

الذاریات 56

 میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں.

 یہ توحید اللہ تعالی کے ساتھ ادب بجا لا نے کا سب سے عظیم راستہ ہے کیونکہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور اس کے لیے ہم سر و ہم مثل بنانا بالکل ادب میں سے نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے ساتھ ادب بجا لانا تب ہی کسی کے لیے استوار ہو گا جب وہ اسے ایک جانے، صرف اس کے لیے عبادت کو خالص کرے، اس کے اسماء و صفات کے ساتھ اسے پہچانے اور اس کے دین، شریعت اور اس کی پسندیدہ و ناپسندیدہ چیزوں کے ساتھ اسے جانے۔ جب بندہ اپنے اوپر اللہ کے عظیم احسانات اور اس کی بے شمار نعمتوں کی طرف دیکھتا ہے جو اسے اپنی ماں کے رحم میں اس کی ابتدائے آفرین سے لے کر اپنے رب سے ملنے کی گھڑی تک حاصل ہیں تو لا محالہ خود کو ان نعمتوں کے عطا کرنے والے کا شکر ادا کرنے والا پاتا ہے۔ وہ زبان سے شکر یوں ادا کرتا ہے کہ اللہ کی ایسی حمد و تعریف کرتا ہے جس کا وہ اہل ہے۔ محبت، انابت اور تواضع کے ذریعہ دل سے شکر ادا کرتا ہے اور اعضاء و جوارح سے شکر یوں ادا کرتا ہے کہ ان کے تمام اعمال کو اللہ تعالی کی اطاعت کی طرف پھیر دیتا ہے اور اس کی خوشنودی کے لیے جستجو کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالی کے ساتھ ادب بجا لانے کا ایک راستہ ہے کیونکہ نعمتوں کا انکار کرنا، احسانات کا اقرار نہ کرنا اور نعمتوں اور نوازشوں کے اعتراف سے منہ موڑنا اللہ کے ساتھ ادب بجا لانا بالکل نہیں ہے۔ جب صاحب عقل و خرد اللہ تعالی کی وسعت علم اور اس بات میں غوروفکر کرے گا کہ اللہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس میں اللہ کا انسان کے تمام معاملات کا احاطہ کرنا اور اس تمام حرکات و سکنات، اقوال و افعال پر اس کا مطلع ہونا ہے تو یہ غور و فکر اس کے اندر اللہ کی ہیبت پیدا کرے گی. جسے وہ اپنے دل میں اس وقار و تعظیم کے ساتھ محسوس کرے گا جو اسے ایسی حیا بخشے گی جس سے وہ اللہ کی معصیت سے آلودہ نہیں ہوگا اور اس کے اوامر و نواہی کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ یوں اس کی وجہ سے وہ اپنے رب تبارک و تعالی کے ساتھ ادب بجا لانے کے راستوں میں سے ایک دوسرے راستے پر چلا کیونکہ یہ ادب میں سے بالکل نہیں کہ گناہوں اور نافرمانیوں پر اقدام کیا جائے ، ان گناہوں اور جن کاموں سے اللہ کا سامنا نہ کرنا معیوب ہو انہیں کھلے عام کرنے میں مبتلا ہوا جائے حالانکہ بندے کو یقین ہے کہ اللہ اس پر شاہد ہے اور اسے دیکھ رہا ہے۔ اللہ کے بندو ! جب اپنے رب کی طرف چلنے والے بندے کو یقین  ہو تا ہے کہ اللہ اس پر قادر ہے ، اس کا اور اس کے اعمال کا احاطہ کیے ہوئے ہے تو اسے یقین ہو جا تا ہے کہ اللہ کی ذات کے سوا اس کے لئے کوئی جاۓ فرار نہیں اور نہ ہی کوئی جاۓ نجات اور جاۓ پناہ ہے اور اللہ کی طرف جانے لوٹنے اور اس کی رسی کو مظبوطی سے پکڑنے اور اس کی شریعت کو تھامے رہنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے :

فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِؕ-اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ

الذاریات 50

تو اللہ کی طرف بھاگو بےشک میں اس کی طرف سے تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں۔

اس طرح اس نے وہ راہ اختیار کرلی جس سے وہ اپنے رب کے ساتھ ادب بجا لانے میں کامیاب ہوگا کیونکہ عاقل آدمی اس بات میں ذرہ بھی شک نہیں کرتا کہ یہ ادب میں سے نہیں ہے کہ آدمی اس ذات سے دور بھاگے جس سے فرار نہیں اور نہ ہی اس کے فیصلہ سے کوئی بچانے والا ہے اور اس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا اور نہ ہی اس پر کوئی اعتراض کر نے والا ہے۔ اور جب انسان اپنے سب ہی امور میں اللہ تعالی کے لطف جمیل پر غور کرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کے آثار کو خود پر اور سب ہی بندوں پر دیکھتا ہے ، جیسا کہ ارشاد باری ہے :

قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُۚ-وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍؕ-فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ

الاعراف 156

فرمایا: میرا عذاب میں جسے چاہوں دوں اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لیے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔

تو یہ چیز اسے اللہ کے سامنے گریہ، آہ وزاری اور نیک بات اور نیک عمل کےذریعہ تقرب حاصل کر کے رحمت اور اس کی خبصورت نوازشوں کی مزید طلب پر ابھارتی ہے۔ اسی طرح اس نے اللہ تعالی کے ساتھ رہنے کا ایک اور راستہ اپنا لیا چناچہ عقل مند لوگ اس بات کو یقینی طور پر جانتے ہیں کہ یہ ادب میں سے نہیں ہے کہ مسلمان اللہ کی رحمت سے مایوسی کا شکار ہو جائے اور برباد کرنے والی اس نا امیدی کی طرف چلاجائے جس سے دنیا تاریک ہو جاتی ہے ، بینائی پر پردہ پڑ جاتا ہے اور بصیرت ختم ہو جاتی ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ ہمارے رب نے اس مایوسی سے اپنے اس قول کے ذریعہ منع فرمایا ہے :

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ

الزمر 53  

تم فرماؤ :اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

اور بزبان یعقوب علیہ السلام کہا:

یٰبَنِیَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَ اَخِیْهِ وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ

یوسف 87

اے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔ بےشک اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے مگر کافر لوگ۔

سنو ! اللہ کے بندوں! اللہ کا تقوی اختیار کر لو اور جان لو کہ اللہ کی توحید اس کے ساتھ ادب کو بجا لا کر، اسے مضبوطی سے تھام کر اور اس کا حق ادا کرنا مقام و منزلت کی اونچائی اور درجات کی بلندی اور اچھے انجام کا باعث ہے۔ اللہ تعالی مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کی ہدایت اور اپنے نبی محمد ﷺ کی سنت سے نفع پہنچائے۔ میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ عزوجل سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے  اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر گناہ سے مضفرت طلب کرتا ہوں یقینا وہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو نہایت رحم کرنے والا ،احسان کرنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے ۔ میں اس کی ایسی حمد بیان کرتا ہوں جس سے کامیابی اور اجر عظیم کی امید رکھتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، خصوصی اور عمومی طور پر بھی کسی مخلوقات میں سے کوئی اس کا شریک اور مساوی نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم سب کے سردار اور ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو درست منھج، تقوی اور اچھے اخلاق کے حامل ہیں۔ اللہ! درود و سلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول  محمد پر اور ان کے آل و اصحاب پر جو خیر و ہدایت اور صراط مستقیم کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ اللہ! ان پر جو روز قیامت تک اچھی طرح ان کا اتباع کریں ان پر بھی ان پر اپنی رحمت نازل فرما

 اما بعد!!!

اے اللہ کے بندوں! اللہ تعالی نے اپنی سخت پکڑ، درد ناک عذاب اور سنگین انتقام کے بارے میں جو واضح اور مکمل بیان کیا ہے جیسا کہ اللہ کے اس قول میں ہے:

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیْدٌ

البروج 12

بے شک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔

اور اسی طرح اللہ رب العزت نے فرمایا :

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ

ال عمران4

بیشک وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا ان کے لئے سخت عذاب ہے اوراللہ غالب، بدلہ لینے والا ہے۔

اس میں اور اس بات میں ابن آدم غور و فکر کرے گا کہ اللہ جلد حساب لینے والا ہے تو یہ غور و فکر اسے اپنے رب کو خوش کرنے والے عمل کو انجام دے کر اور اسے ناراض کرنے والے عمل سے بچ کر رب کے تقوی پر ابھارے گی۔ اسی طرح وہ اللہ تعالی کے ساتھ باادب رہنے کے ایک اور راستے پر چلا کیونکہ عقل مندوں کے نزدیک اس میں تھوڑا بھی شک نہیں کہ یہ ادب ہے ہی نہیں کہ کمزور و عاجز بندہ اپنے قوی و قادر، انتقام والے، زبردست غالب رب سے اس کے اوامر و نواہی کو نہ مان کر اس سے مقابلہ کرے۔ جب ایک مسلمان اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہے تو وہ جان جاتا ہے کہ وہی اس کی حاجتوں کو پورا کرنے والا ، اس کی خواہشات کی تکمیل کرنے والا ، اس پر اپنی نعمتیں نچھاور کرنے والا اور اسے اجر و ثواب سے نوازنے والا ہے جب تک کہ وہ اس کا فرمابردار رہے، اس کے لئے متواضع ہو ،اس پر بھروسہ کرنے والا ہو ، اس سے امید لگانے والا اور اس سے خوف کھانے والا ہو۔ اور اس طرح سے مسلمان بندہ اپنے مولا جل وعلا کے ساتھ ادب کی راہوں میں سے ایک اور راہ پر چلا۔ عقل و خرد والوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ ادب ہے ہی نہیں کہ حرام چیزوں میں پڑ کر، گناہوں کا ارتکاب کر کے خود کو اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کا مستحق بنا کر بندہ اپنے رب سے بدگمان رہے اور یہ گمان رکھے کہ وہ اس سے باخبر نہیں ہے اور اس کو اپنے دردناک عذاب و عقاب سے دو چار کرنے والا نہیں ہے۔ وہی بدگمانی ہے جس کا ذکر اللہ رب العزت نے اپنے اس قول میں فرمایا ہے :

وَ ذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ

حم السجدہ 23

اور یہ ہے تمہارا وہ گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا اور اس نے تمہیں ہلاک کردیا تو اب رہ گئے ہارے ہوؤں میں۔

اللہ کے بندوں! اللہ کا تقوی اختیار کرو۔ اس کی توحید، اس کی اطاعت اور اس کے شکر اور اچھی عبادت کے ذریعہ اور اس کی حکم کی مخالفت اور اس کی معصیت سے بچ کر اس کے ساتھ بہتر ادب سے پیش آؤ۔ اس کی خوشنودی سے سرفراز ہوگے اور اس کی تکریم کے گھر جنت میں جاؤ گے۔ ہمیش یاد رکھو کہ  اللہ نے آپ کو خیر الانام پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے چناچہ اس نے اپنے سچے اور بہتر کلام میں فرمایا :

اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا

الاحزاب 56

بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلٰی اِبْرَاھِیمَ وعلی اٰلِ اِبْرَاھیمَ اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِیْد’‘ ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید

اللہ تو راضی ہوجا تمام خلفاء ابو بکر ،عمر ،عثمان اور علی سے اور تمام اصحاب سے اور تابعین سے اور ان سے جو قیامت تک اچھی طرح ان کی پیروی کریں اور ان لوگوں کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا اپنے عفو کرم، جود اور احسان سے۔ اے اکرم الاکرمین! اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا کر، دین کے قلعہ کی حفاظت فرما ، مسلمانوں کے دلوں کو جوڑ دے، ان کی صفوں کو متحد کر دے، ان کے سربراہوں کی اصلاح کر اور حق پر ان کو جمع کر دے ، اے اللہ ! اس ملک کو اور مسلما نوں کے بقیہ تمام ملکوں کو امن و اطمینان کا گہوارہ بنا دے ، اے اللہ ہمیں اہنے وطن میں امن عطا فرما، ہمارے ولی امر کی حق سے تائید کر اور انھیں نیک مشیروں سے نواز۔ اے اللہ! دعا کے سننے والے! انھیں تو اس کام کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو اور تو اس سے راضی ہو۔ اے اللہ ! انھیں اور ان کے ولی عہد کو اس کی توفیق دے جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی ہو، جس میں بندوں اور ملک کا مفاد ہو۔ اے وہ ذات جس کی طرف قیامت کے دن لوٹنا ہے، اےاللہ! اس ملک کی حفاظت فرما کہ وہ ہر خیر کو سمیٹے ہو، ہر شر سے محفوظ ہو اسی طرح سارے اسلامی ممالک کو۔ اے اللہ! مسجد اقصی کو آزاد کرا۔ فلسطین میں مسلمانوں کی حفاظت کر۔ ان کا معین و مددگار  اور حامی بن جا۔ اے اللہ! ہمارے دین کی اصلاح فرما جس میں ہمارے معاملے کی حفاظت ہے۔ ہماری دنیا کی اصلاح فرما جس میں ہماری زندگی ہے اور ہماری آخرت کی اصلاح فرما جس میں ہمیں لوٹ کر جانا ہے اور زندگی کو ہمارے لئے ہر بھلائی کا باعث بنا اور موت کو ہر شر سے نجات کا ذریعہ بنا۔ اے اللہ! تمام معاملات میں ہمارا انجام درست کر۔ اے اللہ ! ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا۔ اے اللہ! میں تیری نعمت کے زائل ہونے سے، تیری دی ہوئی عافیت کے پھر جانے سے، تیرى ناگہانی گرفت سے، اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے تيری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں اور دے اور کم نا کر۔ نواز اور محروم نا کر۔ عزت دے ذلیل نہ کر۔ ترجیح دے اور ہم پر کسی کو ترجیح نہ دے ۔ ہمیں راضی کر اور ہم سے راضی ہوجا۔ اے اللہ! تو جس طرح چاہے ہمارے دشمنوں سے نمٹ۔ اے اللہ! ہم تجھے تیرے اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کی شراراتوں سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تجھ سے نیکیوں کے کرنے، برائیوں کو چھوڑنے اور مساکین سے محبت کرنے کی توفیق طلب کرتے ہیں اور ( ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ) تو ہمیں معاف کر دے اور ہم پر اپنی رحمت فرما اور جب تو کسی قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہے تو ہمیں فتنے ميں مبتلا کئے بغير موت دے دینا۔ ہم تجھ سے تیری محبت، ہر اس شخص کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور ہر اس عمل سے محبت کی توفیق طلب کرتے ہیں جو تیری محبت کے قريب کردے۔ اے اللہ ہمارے نفسوں میں تقوی ڈال دے ، انھیں پاک کر۔ تو ہی سب سے زیادہ پاک کرنے والا ہے۔ تو ہی ہمارا مدگار اور سرپرست ہے۔ اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا ہے تو ہماری مغفرت نہ کر ے گا، ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ اے اللہ! درود و سلام نازل فرما اپنے بندے محمد ﷺ پر اور ان کی آل و اصحاب پر
والحمد للہ رب العالمین

خطبة المسجد الحرام :

فضیلة الشیخ  الدكتور :اسامه خیاط حفظه الله

28 ربیع الاول  1445 بمطابق  13 اكتوبر 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اُسامہ خیاط حفظہ اللہ

مسجد الحرام کے عظیم المرتبت خطباء میں ایک نام ڈاکٹر اسامہ خیاط کا ہے، آپ 12 فروری 1956ء کو پیدا ہوئے ۔ ام القریٰ یونیورسٹی مکہ المکرمہ سے پی ایچ ڈی کیا اور پھر یہیں تدریس بلکہ کتاب و سنت ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی رہے ۔ آپ ایک بلند پایہ مصنف بھی ہیں اور رابطہ عالم اسلامی کے بنیادی رکن بھی ہیں۔