اور آپس میں ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے سے نہ کھاؤ

پہلا خطبہ :

تمام تعریف اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی کی حمد بجالاتے ہیں اور اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفس کی برائی اور برے اعمال کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالی ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔

بے شمار درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل پر اور آپ ﷺ کے اصحابِ کرام پر۔ دائمی اور بے شمار درود و سلام۔

اما بعد !

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو جس طرح کے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور خلوت و سرگوشی، ہر حال میں اس کی نگرانی کا ڈر دل میں رکھو ۔

مسلمانو! مال و دولت اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے جس کے ذریعے زمین کو آباد کیا جاتا ہے ، مصیبتوں کو دور کیا جاتا ہے، ضرورتِ زندگی کی تکمیل ہوتی ہے، اخلاق و مروت کی پاسداری ہوتی ہے، نیک نامی  حاصل کی جاتی ہے اور اسی کے ذریعے مسلمانوں کے مسائل میں مدد کی خاطر تگ ودو کی جاتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :حلال مال ایک آدمی کے لئے کیا ہی بہترین چیز ہے ۔ صحیح بخاری۔

 انسانی زندگی کی بقا مال کے بغیر ممکن نہیں، اسی لئے مال کو انسان کے لیے مزین کیا گیا ہے اور اس کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ

آل عمران – 14

مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لئے مزین کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔

زمین میں جو پاکیزہ چیزیں ہیں ان کا اصل حکم یہ ہے کہ وہ بندوں کے لئے مباح ہیں تا کہ رب العالمین کی اطاعت میں ان سے مدد حاصل کی جائےارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ۚ

الجاثیة – 13

اور آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے تابع کر دیا ہے۔

تمام پچھلی امتوں کو اللہ تعالی نے فتنوں کے ذریعے آزمایا اور اس امت کا فتنہ مال ہے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ہر امت کے لئے کوئی ایک فتنہ رہا ہے اور میری امت کافتنہ مال ہے۔ بندے سے اس کے مال کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اس نے اسے کیسے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا۔

 نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہلیں گے جب تک اُس سے پوچھ نہ لیا جائے اس کی عمر کے بارے میں کہ اس نے اسے کن چیزوں میں صرف کیا؟ یا پھرعلم کے بارے میں میں کہ اس نے اسے کن چیزوں میں خرچ کیا؟ پھر اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور پھر اس کے جسم کے بارے میں کہ کہاں اورکن چیزوں کے لئے استعمال کیا ۔سنن ترمذی

 لوگوں کے ساتھ مالی تعاون ان کے اخلاق کو پرکھنے کا معیار اور مروت کو جانچنے کا ایک ذریعہ ہے ۔چنانچہ جو شخص لوگوں کے مالی معاملات کرتا ہے اور لوگ اس کی صداقت وامانت کی گواہی دیتے ہیں تو گویا یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ وہ شخص عقلمند اوردیانت دارہے۔ بندوں کے حقوق عدمِ قصاص اس اور معافی پرمبنی ہیں۔ اللہ تعالی نے لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس سے بغض وحسد اورعداوت کی آگ بھڑکتی اُٹھتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ

النساء – 29

اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ۔

 اور مال کی حرمت اسی طرح ہے جس طرح کے جان اور عزت اور آبرو کی ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے قربانی کے دن منٰی میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ: اللہ تعالی نے تم پر تمہارے کے خون کو، اموال کو اور عزت و ناموس کو اسی طرح حرام قراردیا ہے جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر اور تمہارے اس  مہینے میں مسلّم ہے۔ لوگوں کے آپس کے معاملات دنیا اور بنیادی مباحات میں سے ہیں جن سے لوگ اپنی زندگی میں کبھی بھی بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ اوران سے کامل استفادہ راست بازی اور امانت داری کے بغیر ممکن نہیں۔ اور لوگوں کے باہمی معاملات میں صاف گوئی اور شفافیت بنیادی چیز ہے، جو اس کی مخالفت کرتا ہے اور اپنے بھائی کے ہاتھوں ایسی چیز کو فروخت کرتا ہے جو حرام ہو یا پھر جو اس کی ملکیت میں نہ ہو تو وہ منع کردہ امور کا مرتکب ہوتا ہے۔ اور ایسی چیز کی خرید و فروخت کرنا جس کی شریعت میں اجازت نہ ہو، یا ایسی چیز جس میں جھوٹ ہو، یا یہ کہ بیچے جانے والے سامان میں دھوکہ دہی سے کام لیا گیا ہو تو ان سے متعلق امور کے مرتکب کے لئے شریعت نے وعید سنائی ہے۔

 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک اناج کے ڈھیر کے پاس سے ہوا ،آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ اُس اناج میں ڈالا تو انگلیوں پرتری آگئی، توآپ ﷺ نے پوچھا: اے اناج کے مالک! یہ کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اس میں پانی پڑ گیا تھا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:  پھر تو نے اس بھرے ہوئے اناج کو اوپر کیوں نہ رکھا کے لوگ دیکھ لیتے۔ سن لو! جو شخص بھی فریب کرے اور دھوکہ دے تو وہ مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ صحیح مسلم

سارے مؤمنین ایک کنبے کی مانند ہوتے ہیں اور اُن میں تفرقہ ڈالینے والی چیزوں میں سے ایک اہم چیز مال و دولت میں مذموم مقابلہ آرائی ہے۔ چنانچہ جو شخص اپنے بھائی کی سودے پر سودا کرے یا اس کی بیع پر بیع  کرے یا خریدنے کی نیت کے بغیر ہی کسی سامان کی قیمت بڑھادے تو  وہ حرام کام کا مرتکب ہوگا ۔رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرو خرید و ،فروخت میں دھوکا نہ دو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو،ایک  دوسرے سے منہ مت پھیرو ۔ صحیح مسلم

اور اللہ تعالی کی ذات عظیم ہے اس کے نام کی کی قسم صرف عظیم کام کے لئے ہی کھائی جاتی ہے۔ بندہ مؤمن باہمی لین دین میں قسم کھانے سے پرہیز کرتا ہے۔ کوئی شخص اگرسچی قسم بھی کھا لے اور پھرلوگوں کو اس کوسامان کو خریدنے کی رغبت دلائے تواس شخص کے مال کی برکت کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قسم کااٹھانا سامانِ تجارت کے فروغ کا ذریعہ ہے لیکن اس سے اس مال کی برکت کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ صحیح مسلم

 اور جو شخص کسی سامان تجارت میں جھوٹی قسم کھاتا ہے تاکہ وہ لوگوں میں رواج پائے تو ایسا شخص درحقیقت بہت سارے برے کاموں کو جمع کرلیتا ہے جن میں جھوٹ بولنا ،اللہ تعالی کی شان میں کوتاہی برتنا اور خریدار کو دھوکہ دینا شامل ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی نہ کلام فرمائے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ آپ ﷺ نے تین بار فرمایا تو جناب ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: برباد ہو گئے وہ لوگ اور نقصان میں پڑگئے۔  وہ کون لوگ ہیں اللہ کے رسول ﷺ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: احسان کر کے احسان کو جھٹلانے والا اور جھوٹی قسم کو کھا کر مال کی نکاسی کرنے والا۔ امام مسلم

معاہدوں کو پورا کرنا ،عہد و پیمان کی حفاظت کرنا اور لوگوں کی حسرتوں کا خیال رکھنا دین اسلام کے محاسن میں سے ہے جن کا اللہ تعالی نے حکم دیا:

اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں سوائے ایسی شرطوں کے کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یہ کسی حرام کو حلال۔ سنن ترمذی

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ ‎﴿١﴾‏ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ‎﴿٢﴾‏ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ

المطففین – 1/3

بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔ اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔

اور جو سود خور ہوتا ہے وہ اپنے حق سے زیادہ لیتا ہے اور چونکہ وہ کمزوروں کو اپنی طاقت دکھاتا ہے اسی لئے طاقت اور قوت والے پروردگار نے یہ اعلان جنگ کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ‎﴿٢٧٨﴾‏ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ

البقرۃ – 278/279

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔

اور اس کے علاوہ ایسے شخص کے لئے لعنت کی وعید ہے۔  نبی اکرمﷺنے سود کو کھانے والے پر اسے کھلانے والے پر اور اس کے لکھنے والے پر اور سود کے گواہوں پر لعنت کی ہےاور فرمایا کہ وہ سب کے سب اس کام میں برابر ہیں۔ مسلم صداقت اور امانت کا ہونا ضروری ہے بے شک بہتر نوکر جسے تو رکھنا چاہے وہ ہے جو زور دار ہو اور جو شخص کسی پیشہ ور کے جانے کا دعوی کرے کہ اسے اس کی وقفیت نہ ہو اور اس کا مال حاصل کرے تو گویا اس نے لوگوں کو ایسی چیز کے بارے میں دھوکے میں ڈالا جو اس کے پاس ہی ہے۔

نبی  اکرم ﷺنے فرمایا: جو شخص جھوٹ  اور مکر و فریب کے ساتھ کسی ایسی چیز کا اظہار کر رہا ہے جو اس پاس نہیں ہے تو وہ جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی طرح ہیں ۔ یعنی جو چیز اپنے پاس نہ ہو اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کے نزدیک اپنی برتری اور بڑائی کو ثابت کرے اور باطل طریقے سے خود کو مزین کرنے کی کوشش کرے تو یہ مضموم عمل ہے ۔اللہ سبحانہ و تعالی کا دین حنیف ہے اور اس نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ تین طرح کے لوگوں کے مال کی سنگینی کی وجہ سے وہ ان کا حریف ہوگا ۔ان میں سے ایک وہ ہے جو نوکر اور مزدوروں کو ان کے حقوق نہیں دیتے یا ان کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا اُن میں سے  ایک وہ شخص کہ جس  نے میرے نام پر عہد کیا پھر اسے توڑ دیا ، پھر دوسرا وہ شخص کے جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی ،پھر وہ شخص جس نے کوئی مزدور  اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا لیکن اسے اس کی مزدوری نہیں دی۔ صحیح مسلم

 جو شخص کسی کو قرض دے کر اس کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے تو اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور قرض دار جو قرض کی ادائیگی  کی طاقت رکھنے کے باوجود اس کو ادا نہیں کرتا اور اس میں ٹال مٹول کرتا ہے تو ظالم اور احسان فراموش ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: مردہ شخص کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے صحیح مسلم۔

اور بندوں کے حقوق کی بنیاد ان امور پر ہے کہ حقدار کو اس کا حق دیا جائے اور اگر کوئی غیر مستحق مطالبہ کرے تو اس کو روکا جائے اور رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں اللہ تعالی کے نزدیک ملعون ہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ :رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں پر اللہ کے رسول ﷺ کی لعنت ہے۔ سنن الترمذی۔

 اور جو شخص کوئی عہدہ سنبھالے یا کسی منصب پر فائز ہو یا فرض زکاۃ کی وصولی کے لیے نمائندہ بنایا جائے اور وہ لوگوں کے ہدایااور تحائف کو اپنے لئے قبول کرتا ہو تو گویا وہ شخص خائن  ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:زکوٰۃ وصول کرنے والے عامل کا کیا معاملہ ہے کہ ہم اسے زکوۃ کی وصولی کے لئے بھیجیں اور وہ اُسے وہاں سے لے کر آئے اور پھر یہ کہے کہ آپ کے لئے یہ ہے اور یہ مجھے ہدیہ کے طور پر دیا گیا۔ کیوں نہیں وہ اپنی ماں یا باپ کے گھر بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ ملتا یا نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ تم میں سے جو شخص بھی اُس میں خیانت کرے گا وہ اُسے قیامت  کے دن اپنی گرفت پر اٹھائے ہوئےآئے گا۔ متفق علیہ

 اور امانت اتنی اہم ہے کہ نبی اکرم ﷺنے اپنی بعثت کے ابتدائی دور میں ہی اس کی ادائیگی کا حکم دے دیا تھا۔ہرقل نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ وہ یعنی نبی تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں تو اس نے کہا کہ: وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، ہمارے آباؤ اجداد جن کی عبادت کرتے تھے وہ ان سے ہمیں منع کرتے ہیں، وہ ہمیں نماز پڑھنے، صدقہ و خیرات کرنے، پاکدامنی اختیارکرنے، عہد و پیمان کو پورا کرنے اور امانت کو ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔صحیح بخاری

قیامت کے دن سب سے سنگین صورتحال میں امانت کے بارے میں بندے کا محاسبہ ہوگا۔ اسے پل صراط پر لایا جائے گا جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اور رشتے ناطے کو بیچ دیا جائے گا۔ صحیح مسلم

مسلمانوں کے اوقاف کی دیکھ ریکھ کرنے والا شخص اگر یہ فکر نہ کرے کہ کون سی چیز مسلمانوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے، یا پھراوقاف سے مقرر کردہ تنخواہوں سے زیادہ وصول کرے یا کسی کو محروم کردے یا وقف کرنے والوں کی شرائط کی خلاف ورزی کرے تو وہ بھی اپنی امانت میں خیانت کا مرتکب ہو گا۔ اور جو وصیت کو نافذ نہ کرے یا اس کے الفاظ میں رد و بدل کرے یا اس کے تقاضے کی مخالفت کرےیا اس میں سے کچھ چھپا لے تو وہ بھی اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کا مرتکب شمار ہوگا۔ اور ضعیفوں کا ولی اگر ان پر ظلم کرے یا انھیں ان کے حقوق نہ دے تو وہ ظالم ٹھہرایا جائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے جس کے ہاتھ میں کوئی چیز بطور امانت کے آئےاور وہ اس کا انکار کر دے یا اس کی حفاظت پر کوتاہی برتے اور اسے برباد کر دے یا کوئی چیز اجرت پر لے اور اسے ضائع کردے یا یہ کہ لوگ اسے کسی معاملے میں امانت دار سمجھیں اور وہ ان کے ساتھ خیانت کرے تو گویا اس نے ان کے حسن ظن پر پانی پھیر دیا اور معاشرے میں جو ایک دوسرے پر بھروسہ کیا جاتا تھا اسے بھی برباد کر دیا۔ اور کسی کا سامان لے کر اسے برباد کرنے والا تو چور کی مانند ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مخزومی عورت عاریتا سامان لیتی تھی اور پھر انکار کر دیتی تھی تو آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ صحیح مسلم۔

جس نے کسی وارث کو وراثت سے محروم کردیا یا اس کے حصے میں کمی کر دی تو اس نے حرام مال کما یا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میت کی طرف سے مقرر کردہ وراثت کے حصوں کو ان کے حق داروں تک پہنچا دو۔ متفق علیہ

جو کسی کمزور پر اپنی طاقت کے بل بوتے پر زیادتی کرے اور اس کی رضامندی کے بغیر اس کا مال ہڑپ لے تو اُسے  چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کی طاقت اور قوت کو یاد رکھے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے: کسی شخص کا مال دوسرے کے لئے اس کی خوشی اور رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ہے۔ مسند احمد۔

جس نے کسی کی زمین کو ہڑپ کیا یا زمین میں اپنے حصے کو بڑھانے کے لئے کسی دوسرے کے نشان میں رد و بدل  کیا تو اسے قیامت کے دن سات زمینوں کے برابر طوق پہنایا جائے گا ۔صحیح بخاری صحیح مسلم

جس نے کسی مسلمان سے اس کا حق چھینا تو اس کے متعلق ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ اس نے جہنم کی آگ اپنے اوپر حلال کر لی اور جنت کو اس پر حرام کر دیا گیا ۔ایک شخص نے اللہ کے نبیﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ اگرچہ وہ ایک معمولی چیز ہو؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: چاہے وہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو۔ صحیح مسلم

جو شخص بغیر فقروفاقہ کا اور بغیر کسی تباہ کن مشکل کے لوگوں سے ان کا مال مانگتا ہے تو گویا وہ لوگوں سے آگ کے انگارے کا سوال کر رہا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے مال کو بڑھانے کے لئے لوگوں سے ان کا مال مانگتا ہے تو وہ آگ کے انگارے مانگتا ہے ،پھر چاہے کم اکٹھے کر لے یا زیادہ اکٹھے کر لے۔ صحیح مسلم

 لوگوں کے درمیان ہر وہ معاملہ جو ظلم و ستم دھوکہ دہی مکروفریب اور حیلے بہانوں کو روکنے پر مشتمل ہو جسے انجام دینا اللہ تعالی نے واجب کر رکھا ہے ہے یا کسی ایسے فعل کے ارتکاب پر مشتمل ہے جس سے اللہ تعالی نے منع کر رکھا ہے تو یہ سب ناحق مال کھانے کی زمرے میں داخل ہیں۔ اور حرام کاموں کے اردگرد مشتبہ چیزوں کی چراگاہ ہوتی ہے ،تو اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ جو اس چراگاہ کی طرف جائے گا تو وہ حرام کام میں مبتلا ہو جائے  گااور جو شخص شبہ والی چیزوں سے بچاؤ اختیار کرے گا تو وہ شخص اپنی عزت و آبرو اور اپنے دین کی حفاظت کر پائے گا اور جواِن میں داخل ہو جائے گا تو ان کا معاملہ اس کے برعکس ہوگا۔

 کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور دنیا سے وہ اس حال میں جائے کہ اس کے اور کسی اور مسلمان کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی جانی یا مالی تنازع نہ ہو۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کہ میری یہ تمنا ہے کہ میں اللہ تعالی سے اس حال میں ملاقات کروں کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جانی یا مالی ظلم و زیادتی کے عوض کوئی مطالبہ نہ کرے۔

 مسلمانو!حرام جس قدر بھی بڑھ جائے وہ برکتوں سے خالی رہتا ہے، نحوست اور بربادی کا سبب بنا رہتا ہے، وہ سعادتمندی کے لئے ایک بڑی رکاوٹ بنا رہتا ہے اور وہ غضب الہی کا باعث ہے کہ جب بندہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے مال کو دل کے بجائے اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اوراس کے معاملے میں اللہ تعالی سے ڈرتا رہتا ہے۔ عارض رضی اللہ تعالی عنہ آپ ﷺ کے ساتھ ایک عید گاہ کی طرف نکلے تو راستے میں آپ ﷺ نے لوگوں کو خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھا اورفرمایا: اے تاجروں کی جماعت! تو لوگوں نے آپ ﷺ کی بات سننا شروع کردی اور آپ ﷺ کی طرف اپنی گردنوں اور نگاہوں کو اونچا کرلیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تاجرلوگ قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جو اللہ تعالی سے ڈرتا رہے، نیک کام کرے اور اور سچ بولے۔ سنن ترمذی

حلال مال اگر چہ مقدار میں کم ہی ہو اگرانسان قناعت پسند ہے تو وہ مال کافی ہوجاتا ہے اور بندے کے لیے تھوڑا مال اس سے بہتر ہے کہ بعد میں مال کے سلسلے میں کسی سے مقابلہ آرائی کرتا پھرے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی  قسم میں تمہارے متعلق کسی قسم کی محتاجگی سے نہیں ڈرتا بلکہ اس بات سے ڈر لگتا ہے کہ دنیا تم پر بھی دنیا اسی طرح کردی جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کی گئی۔ پھر پہلے لوگوں کی طرح تم اس مال کے لیے آپس میں ایک دوسرے پر رشک کرو گے اور جس طرح وہ ہلاک ہوگئے اسی طرح تمہیں بھی یہ چیز ہلاک کر کے رہیں گی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ہے اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے مالوں کو بہتر طریقے سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری بات باہمی رضامندی سے تجارت کی کوئی وی صورت ہو۔

اللہ تعالی میرے لئے اور آپ کے لئے قرآن مجید کو بابرکت بنائے اور اس کی آیتوں اورنصیحتوں کو ہمارے لئے مفید بنائے۔ میں اپنی بات کو یہیں ختم کرتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے مغفرت طلب کرتا ہوں ہو تو آپ بھی اسی سے مغفرت طلب کیجیے یقینا وہ بہت مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہے اس کے احسانات پر شکر ہے۔ اس کی توفیق اور انعامات پر اللہ تعالی کی عظمتِ شان کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں۔ اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ بے شمار درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل پر اور صحابہ کرام پر۔

 پاکیزہ اور حلال مال بہت کثیر مقدار میں ہے اور اللہ تعالی نیک اور پاک طینت لوگوں کا پالنے والا ہے۔ جو اللہ تعالی کی متعین کردہ حدود میں نافرمانی سے گریز کرے گا اور اس کے عطا کئے ہوئے رزق میں اس کے حقوق کو ادا کرے گا تو اللہ تعالی اسے اور زیادہ عطا کرے گا اور اس کے ساتھ خیر و بھلائی کا معاملہ کرے گا اور اس کی دعاؤں کو قبول کرے گا اور اس کے قلیل مال میں برکت عطا کردے گا اور اس کے رزق میں کشادگی کرعطا کرے گا۔ اللہ تعالی جسے حلال عطا کرے اور وہ اسے خیر اور بھلائی کے کاموں میں لگائے اور گناہ کے کاموں میں خرچ کرنے سے اجتناب کرے تو یہ وہ نعمت ہے جس پر نیک لوگ بھی رشک کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حسد رشک صرف دو لوگوں پر کرنا چاہیے، ایک وہ جسے اللہ تعالی نے قرآن مجید عطا کیا اور وہ راتوں کو نماز میں اس کی تلاوت کرے دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالی نے مال و دولت سے نوازا تو وہ اسے رات کی گھڑی اور دن کے مختلف حصوں میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہا۔ صحیح بخاری صحیح مسلم

درحقیقت مفلس وہ نہیں ہے جو مال کی کمی کی وجہ سے غریب ہے بلکہ مفلس وہ ہے جس نے نیکی حاصل نہیں کی ،گناہوں کو نہ چھوڑا ،باطل طریقے سے لوگوں کے مال کو کھایا اور لوگوں کے عزت اور ناموس پر ناحق حملہ کیا۔

اللہ تعالی نے آپ سب کو اپنے نبی کریم ﷺ پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ! ہمارے نبی کریم محمد ﷺ پر درود و سلام نازل فرما۔

 اے اللہ ! ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم سے راضی ہو جا، جنہوں نے انصاف کے ساتھ فیصلے کیے ہیں اور ان کے ساتھ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے راضی ہوجا اور ان پر اپنے جود و کرم کی بارش کرتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا اے اکرم الاکرمین۔

 اے اللہ! مسلمانوں کو عزت اورغلبہ عطا فرما اور شرک و بدعت کو نیست و نابود فرما۔

 اس کو اور تمام عالم اسلام کو اور خیر و برکت عطا فرما اور انہیں خوشحالی کا گہوارہ بنا دے۔

اے اللہ! ہمارے امام اور ان کے ولی عہد کو اپنی رضا اور نیکی کے کاموں کی توفیق دے اور انہیں نیک کاموں پر لگا دے اور ان کے ذریعے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا۔

 اے سارے جہانوں کے پروردگار دار! تو مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کو قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔

 اے اللہ! تو ہمیں دنیا میں میں نیکی اور خیر دے اور آخرت میں بھی نیکی اور خیرعطا فرما اور ہمیں عذاب قبر سے بچا۔

 اے اللہ! ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہماری مغفرت کرے اور ہم پر رحم نہ کرے تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

 اے اللہ !تو ہمیں بارش عطا کر۔

اے اللہ کے بندو! اللہ تعالی اپنے بندوں کو عدل کا ،انصاف کا، قرابت داروں سے حسن سلوک کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں اورغیر شائستہ حرکتوں سے اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے۔ بہت نصیحت حاصل کرو۔ وہ اللہ جوعظمت اور جلال والا ہے اسے یاد کرو وہ تمہیں یاد کرے گا اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو تو تمہیں اور زیادہ عطا کرے گا۔ اللہ تعالی کا ذکر بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو جو یقینا اللہ تعالی اس سے باخبر ہے۔

خطبة الجمعة مسجد النبویﷺ: فضیلة الشیخ عبد المحسن القاسم حفظه اللہ
10 ربیع الثانی 1444ھ موافق 4 نومبر2022

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ جسٹس ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

آپ یعنی جناب عبد المحسن بن محمد بن عبد الرحمن القاسم القحطانی کو پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے گریجویشن کیا اور المعہد العالی للقضاء سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مسجد نبوی کی امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ محکمۃ الکبریٰ مدینہ منورہ میں قاضی (جسٹس ) بھی ہیں ۔