زکوۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جو مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے تاکہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہو اور سماج میں محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مدد کی جا سکے۔ زکوۃ نقدی، سونے، چاندی، مالِ تجارت اور زرعی اجناس پر واجب ہوتی ہے۔
ایک عام سوال ہے کہ کیا خواتین کے زیرِ استعمال سونے اور چاندی کے زیورات پر بھی زکوۃ فرض ہے؟
اس بارے میں فقہاء کے درمیان کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس مضمون میں ہم زیورات پر زکوۃ کے وجوب، اس کے دلائل، فقہی آراء اور اس کے عملی اطلاق کا تفصیلی جائزہ لیں گے تاکہ ایک عام مسلمان کے لیے اس مسئلے کی وضاحت ہو سکے۔
کونسے زیورات مقصود ہیں ؟
جب زیورات کی زکوۃ کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد وہ زیورات ہوتے ہیں جو خواتین کے ذاتی استعمال میں ہوتے ہیں نہ کہ وہ جو سنار نے فروخت کے لیے رکھے ہوں۔ کیونکہ جو چیز بھی تجارت کی نیت سے رکھی گئی ہو چاہے وہ سونا، چاندی، کپڑے، جوتے، لیپ ٹاپ یا موبائل فون ہی کیوں نہ ہوں، ان پر زکوۃ فرض ہوتی ہے کیونکہ وہ تجارتی مال کے زمرے میں آتے ہیں۔
لیکن یہاں ہمارا موضوع وہ زیورات ہیں جو خواتین نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے خرید رکھے ہیں خواہ وہ انہیں پہنتی ہوں یا صرف محفوظ رکھا ہو۔ اس مسئلے پر ابتدا سے ہی علماء کا اختلاف چلا آ رہا ہے اور یہ اختلاف دورِ صحابہ سے موجود ہے۔ کچھ علماء کے نزدیک ان زیورات پر زکوۃ فرض ہے جبکہ کچھ کے نزدیک نہیں۔
زیورات پر زکوۃ کے بارے میں تین بنیادی موقف
زیورات پر زکوۃ کے حوالے سے فقہاء کے درمیان ابتدا سے ہی اختلاف پایا جاتا ہے اور اس مسئلے میں بنیادی طور پر تین موقف سامنے آتے ہیں:
پہلا موقف: زیورات پر زکوۃ نہیں ہے
زیورات پر زکوۃ کے مسئلے میں ایک موقف یہ ہے کہ خواتین کے ذاتی زیورات جو تجارت کے لیے نہ ہوں، ان پر زکوۃ واجب نہیں۔ اس رائے کے حامی کئی جلیل القدر صحابہ کرام ہیں جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم المرتبت صحابہ شامل ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ زیورات بنیادی طور پر زینت اور ذاتی استعمال کے لیے ہوتے ہی اس لیے ان پر زکوۃ لاگو نہیں ہوتی۔ بالکل اسی طرح جیسے گھریلو سامان یا روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء پر زکوۃ فرض نہیں کی گئی۔
اس موقف کے برعکس ایک روایت میں ذکر ہے کہ عبداللہ بن شداد بن الہاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، وہ کہنے لگیں:
دخلَ عليَّ رسولُ اللہِ صلَّى اللہُ عليهِ وسلَّمَ فرأى في يديَّ فتَخاتٍ من وَرِقٍ ، فقالَ: ما هذا يا عائشةُ ؟ ، فقلتُ: صنعتُهُنَّ أتزيَّنُ لَكَ يا رسولَ اللہِ، قالَ: أتؤدِّينَ زَكاتَهُنَّ؟ قلتُ: لا ، أو ما شاءَ اللہُ ، قالَ: هوَ حَسبُكِ منَ النَّارِ1
میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، آپ نے میرے ہاتھ میں چاندی کی کچھ انگوٹھیاں دیکھیں اور فرمایا: ”عائشہ! یہ کیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: میں نے انہیں اس لیے بنوایا ہے کہ میں آپ کے لیے بناؤ سنگھار کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم ان کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟“ میں نے کہا: نہیں، یا جو کچھ اللہ کو منظور تھا کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تمہیں جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہیں“۔
صحابہ کرام کا موقف
بڑے جلیل القدر صحابہ کرام اس موقف کے حامی تھے کہ زیورات پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چاہے زیورات کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہوں، ان کی مالیت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو اگر وہ کسی کے ذاتی استعمال میں ہیں تو ان پر زکوۃ نہیں لگتی۔ اس رائے کی تائید کرنے والوں میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابہ شامل تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب زیورات روز مرہ کے استعمال میں ہوں یا محض زینت کے لیے رکھے گئے ہوں تو وہ ان اشیاء میں شمار ہوتے ہیں جن پر شریعت نے زکوۃ لازم نہیں کی کیونکہ زکوۃ عام طور پر ایسے اموال پر فرض کی جاتی ہے جو قابلِ تجارت ہوں یا جن میں نشو و نما اور بڑھوتری کا پہلو پایا جاتا ہو۔
زکوۃ کیوں واجب نہیں؟
اب زکوۃ کیوں واجب نہیں؟ تو صحابہ كرام كا موقف یہ ہے كہ زکوۃ صرف ان چیزوں پر واجب ہوتی ہے جو انسان کے ذاتی استعمال میں نہ ہوں۔ جو چیزیں انسان نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے رکھی ہوں چاہے وہ کتنی ہی قیمتی یا نایاب کیوں نہ ہوں ان پر زکوۃ فرض نہیں ہوتی۔ علماء اس اصول کو “اموالِ کنیہ” کہتے ہیں جس کا مطلب ہے “وہ چیزیں جو انسان نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے رکھی ہوں”۔ اس اصول کے تحت اگر کوئی چیز ذاتی ضرورت اور استعمال میں ہو تو اس پر زکوۃ لازم نہیں چاہے وہ سونے چاندی کے زیورات ہوں یا کوئی اور قیمتی چیز۔
زیورات پر زکوۃ نہ ہونے کا اصولی موقف
مثال کے طور پر۔۔۔ اگر کسی شخص کا گھر 10 یا 20 کروڑ روپے کا ہو تو وہ اس کی زکوۃ ادا نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس کے ذاتی استعمال میں ہے۔ اسی طرح اگر وہ 50 لاکھ یا ایک کروڑ روپے کی گاڑی استعمال کر رہا ہے تب بھی زکوۃ لازم نہیں ہوگی کیونکہ شریعت کے مطابق وہ چیزیں جو روزمرہ کے استعمال میں ہوں، ان پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی۔
صحابہ کرام کا بھی یہی موقف تھا کہ جب ایسی قیمتی چیزوں پر زکوۃ نہیں ہے جو انسان کے استعمال میں آتی ہیں تو زیورات پر بھی زکوۃ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ بھی خواتین کے ذاتی استعمال میں ہوتے ہیں۔ مزید برآں، زیورات کی مالیت عام طور پر گھروں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔ جہاں ایک گھر کی قیمت کروڑوں روپے تک پہنچ سکتی ہے وہیں زیورات عموماً 10 لاکھ، 15 لاکھ، 20 لاکھ یا زیادہ سے زیادہ 40 لاکھ تک کے ہوتے ہیں جو کہ کسی بڑے گھر کی قیمت کے برابر بھی نہیں پہنچتے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض صحابہ کرام اور علماء کی رائے یہ ہے کہ زیورات پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔
سونے اور چاندی کے زیورات کا مسئلہ
زیورات کے معاملے میں فقہاء نے خاص طور پر سونے اور چاندی کے زیورات پر بحث کی ہے باقی تمام اقسام کی جیولری کو انہوں نے زکوۃ سے خارج کیا ہے۔ مثلاً: اگر کسی کے پاس ڈائمنڈ (ہیرا) کے زیورات ہیں تو ان پر زکوۃ نہیں ہے حالانکہ ڈائمنڈ کی قیمت سونے اور چاندی سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح پلاٹینم جیسے قیمتی دھاتوں کے زیورات پر بھی زکوۃ واجب نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ چیزیں ذاتی استعمال میں آتی ہیں اور شریعت کے اصول کے مطابق استعمال کی چیزوں پر زکوۃ نہیں لگتی۔
یہی وجہ ہے کہ کئی جلیل القدر صحابہ جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ اس موقف کے قائل تھے کہ زیورات پر زکوۃ واجب نہیں۔ بعد کے فقہاء میں امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے بزرگ علماء بھی اسی رائے کی طرف گئے ہیں۔
دوسرا موقف: زیورات پر زکوۃ واجب ہے جب وہ نصاب کو پہنچ جائیں
دوسرا موقف یہ ہے کہ زیورات پر زکوۃ واجب ہے بشرطیکہ ان کی مقدار نصاب تک پہنچ جائے۔ اس رائے کے حامل علماء یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عام طور پر ذاتی استعمال کی چیزوں پر زکوۃ فرض نہیں ہوتی لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیورات کو اس اصول سے مستثنی قرار دیا ہے۔ ان علماء کے مطابق زیورات پر زکوۃ کے وجوب کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر ہے جن میں زیورات کی زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
زیورات پر زکوۃ واجب ہونے کے دلائل
وہ علماء اور فقہاء جو زیورات پر زکوۃ کے وجوب کے قائل ہیں ان کی دلیل قرآن و حدیث سے مستنبط ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سونے اور چاندی پر زکوۃ فرض ہونے کے بارے میں اللہ تعالی کا صریح حکم موجود ہے۔ اللہ رب العالمین فرماتے ہیں:
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ2
اور جو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔
یہ علماء اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اگر سونے اور چاندی کو زکوۃ دیے بغیر جمع کیا جائے تو وہ “کنز” یعنی ذخیرہ شدہ دولت شمار ہوگا اور اس پر سخت عذاب کی وعید ہے۔
حدیث میں زیورات کی زکوۃ کا واضح حکم
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ:
أن امرأتَيْنِ أَتَتَا رسولَ اللهِ – صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم – وفي أَيْدِيهِما سِوَارَانِ من ذهبٍ، فقال لهما : أَتُحِبَّانِ أن يُسَوِّرَكُما اللهُ – تعالى – سِوَارَيْنِ من نارٍ ؟ !، قالتا : لا، قال : فأَدِّيَا زكاتَهُ3
دو عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن تھے تو آپﷺ نے ان سے فرمایا: ”کیا تم دونوں اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”کیا تم پسند کرو گی کہ اللہ تم دونوں کو آگ کے دو کنگن پہنائے؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو تم دونوں ان کی زکاۃ ادا کرو۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ:
أنَّ امرأةً أتت رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ومعها ابنةٌ لها وفي يدِ ابنتِها مَسكتانِ غليظتانِ مِن ذهبٍ فقالَ لها أتُعطينَ زَكاةَ هذا قالت لا قالَ أيسرُّكِ أن يسوِّرَكِ اللہُ بهما يومَ القيامةِ سوارينِ من نارٍ قالَ فخلعَتْهما فألقتْهما إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ وقالت هما للہ ، عزَّ وجلَّ ولرسولِه4
ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ساتھ اس کی ایک بچی تھی، اس بچی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تم ان کی زکاۃ دیتی ہو؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں یہ اچھا لگے گا کہ قیامت کے روز اللہ تعالی تمہیں آگ کے دو کنگن ان کے بدلے میں پہنائے“۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس عورت نے دونوں کنگن اتار کر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دیے اور بولی: یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔
ان دونوں حدیثوں میں نبیﷺ نے زکوۃ ادا نہ کرنے پر شدید وعید سنائی ہے اور یہ زکوۃ کے وجوب کی دلیل ہے۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
كنت ألبسُ أوضاحًا من ذهبٍ، فقلتُ : يا رسولَ اللهِ، أكنزٌ هوَ ؟ فقال : ما بلغ أنْ تؤدي زكاتُهُ فزُكِّيَ، فليس بكنزٍ (أخرجه أبو داود (1564) واللفظ له، والطبراني (23/281) (613)، والدارقطني (2/105) وقال النووي إسناده حسن : (المجموع للنووي : 6/33 )
ترجمہ : میں سونے کے پازیب پہنا کرتی تھی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا یہ کنز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مال اتنا ہو جائے کہ اس کی زکاۃ دی جائے پھر اس کی زکاۃ ادا کر دی جائے وہ کنز نہیں ہے“۔
اسی حوالے سے حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت بھی پیش کی جاتی ہے، جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:
“یا رسول اللہ! میرے پاس کچھ زیورات ہیں، کیا یہ کنز (یعنی جمع شدہ خزانہ) میں شمار ہوں گے؟”
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر تم ان کی زکوۃ ادا کرتی ہو تو یہ کنز نہیں ہیں۔5
اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے:
“جو زیورات اس حد (نصاب) تک پہنچ جائیں کہ ان پر زکوٰۃ واجب ہو اور ان کی زکوۃ دے دی جائے تو وہ کنز میں شمار نہیں ہوں گے۔”
یہ احادیث واضح طور پر اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ اگر زیورات نصاب تک پہنچ جائیں تو ان پر زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے۔
ائمہ و محدثین کا رجحان
یہ موقف کئی صحابہ کرام، تابعین اور بڑے محدثین کا بھی رہا ہے۔ اگر ہم امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر محدثین کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو ان کے رجحانات بھی اس طرف نظر آتے ہیں کہ زیورات پر زکوۃ واجب ہے۔
لہٰذا! اس موقف کے مطابق اگر کسی کے زیورات زکوۃ کے نصاب (یعنی ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی) تک پہنچ جائیں تو ان پر زکوۃ دینا لازم ہوگا چاہے وہ زیورات پہننے کے لیے رکھے گئے ہوں یا محفوظ رکھے گئے ہوں۔
تیسرا موقف: زیورات پر زکوۃ واجب ہے چاہے وہ نصاب تک پہنچیں یا نہ پہنچیں
تیسرا موقف یہ ہے کہ زیورات پر زکوۃ واجب ہے چاہے ان کی مقدار نصاب تک پہنچے یا نہ پہنچے۔ اس موقف کے مطابق اگر کسی کے پاس کچھ بھی زیور ہو تو اس پر زکوۃ دینا ضروری ہے چاہے وہ زیور نصاب کی مقدار (ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی) تک نہ بھی پہنچتا ہو۔
یہ موقف امام البانی رحمہ اللہ کا ہے اور ہمارے ہاں برصغیر میں اہلِ حدیث کے اکثر علماء کا بھی یہی رجحان ہے۔ علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ اور شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظ اللہ جیسے علماء بھی اس رائے کے حامی ہیں۔ اسی طرح شارحینِ حدیث میں سے مبارک پوری رحمہ اللہ جیسے بڑے علماء کا بھی یہی موقف تھا۔
اس موقف کے مطابق چونکہ زیورات ایک ایسی چیز ہیں جن کی ملکیت واضح طور پر فرد کے پاس ہوتی ہے اور ان پر شریعت کے مطابق مال کی صفائی کا عمل لازم ہے، اس لیے ان پر زکوۃ دینا ضروری ہے چاہے ان کی مقدار زیادہ ہو یا کم۔ لہٰذا! اس رائے کے مطابق اگر کسی کے پاس زیورات ہیں تو ان پر زکوۃ ادا کرنا لازم ہے چاہے ان کی قیمت بہت کم ہی کیوں نہ ہو۔
موقف کی دلیل
ان علماء کا موقف اس حدیث پر مبنی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کیا تم ان زیورات کی زکوۃ دیتی ہو؟” اور آپﷺ نے یہ نہیں پوچھا کہ آیا یہ زیورات نصاب تک پہنچے ہیں یا نہیں۔ بس یہ پوچھا کہ زکوۃ دی جا رہی ہے یا نہیں۔ اس سے یہ استدلال کیا گیا کہ زیورات پر زکوۃ فرض ہے اور نصاب کی شرط نہیں ہے۔
تو یہ تین مختلف موقفات ہیں جن کا میں نے تفصیل سے ذکر کیا ہے تاکہ آپ کو ان اختلافات کے بارے میں مکمل آگاہی ہو سکے۔ اس سے آپ کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ اس مسئلے پر مختلف علماء کی رائے کیا ہے اور آپ کس موقف کو اختیار کر سکتے ہیں۔
جمہور علماء کا موقف
لیکن جمہور علماء جن میں سعودی عرب کے علماء اور پاکستان و بھارت کے بعض علماء بھی شامل ہیں کا موقف ہے کہ زیورات پر زکوۃ تب واجب ہوگی جب وہ نصاب تک پہنچیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ شریعت نے زکوۃ کے واجب ہونے کے لیے ہر مال کا نصاب مقرر کیا ہے۔ اس کے بغیر کسی مال پر زکوۃ فرض نہیں ہوتی۔
اس موقف کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ6
“ان کے مالوں میں حق ہے جو معلوم ہے”
اس آیت سے یہ بات واضح ہے کہ کسی مال پر زکوۃ فرض کرنے کے لیے ایک معلوم حق (نصاب) ہونا ضروری ہے۔
اختلافات کا خلاصہ
یہ تین مختلف موقفات ہیں جو علماء میں زیورات پر زکوٰۃ کے حوالے سے پائے جاتے ہیں۔ اور اس تفصیل کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے سامنے مختلف آراء آ سکیں تاکہ آپ بہتر طور پر سمجھ سکیں کہ یہ معاملات کس طرح کی مختلف تفسیروں کے تحت آتے ہیں۔ ان اختلافات کو جاننا آپ کے لیے ضروری ہے تاکہ آپ ہر موقف کو جان سکیں اور اس کے بعد کوئی فیصلہ کر سکیں کہ آپ کو کس موقف کو اختیار کرنا ہے۔
لہٰذا! آپ کو اس بات کا علم ہو کہ جمہور علماء کے مطابق زیورات پر زکوۃ تب واجب ہوگی جب وہ نصاب تک پہنچیں اور اس کی بنیاد شریعت کی واضح اصولوں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ہے۔
____________________________________________________________________________________________________________________