کیا ایزی پیسہ اور جیز کیش آفرز استعمال کرنا جائز ہے؟

تحریر : الشیخ عثمان صفدر

     دورِ جدید  میں  جہاں دیگر چیزوں نے ترقی کی وہیں تجارتی ذرائع اور کاروباری طریقو ں میں بھی جدت آگئی ہے۔ جیسے پہلے بینک کے معمولی معاملات کے لئے  بھی  صارف کا بینک کی برانچ میں  جانا ضروری ہوتا تھا ۔پھر انٹرنیٹ آیا اور آہستہ آہستہ سارے بینک  اپنے سسٹم سمیت  آن لائن ہوگئے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس میں  مو بائل بینکنگ  کی سہولت بھی میسر ہے۔ اسی طرح ترسیل ِ زر کےلئے  دیگر کئی سروسز جن میں معروف  نام “ایزی پیسہ “،”جیز کیش”اور اس قسم کی دیگر کمپنیاں ہیں جن کی سروسز دراصل موبائل بینکنگ ہیں۔

موبائل بینکنگ کی آفر :

              ہم موبائل بینکنگ کی طرح ان سروسز کے اکاؤنٹس میں رقم ڈپازٹ کرواتے ہیں ،پھر ان موبائل ایپلی کیشنز کے ذریعے مطلوبہ خریداری کرتے ہیں یعنی خریدی ہوئی چیز کی قیمت اداکردیتے ہیں۔اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کیونکہ یہ سب چیزیں روزمرہ کے معاملات میں آسانی اور سہولت کے لئے ہی بنائی گئی ہیں۔لیکن ایک چیز جس کے بارے میں اکثر پوچھا  جاتا ہے جو کہ مشتبہ بھی ہےکہ ایزی پیسہ  یا جیز کیش کی طرف سے آفرز ملتی  ہے کہ اگر آپ  اپنے ایزی پیسہ یا جیز کیش اکاؤنٹ میں  مقررہ رقم ڈپازٹ کریں گےتو آپ کے موبائل  بیلنس  میں مقررہ رقم ریچارج ہوجائے گی ۔

مذکورہ آفر کی حقیقت :

یہاں جس  بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ایزی پیسہ  یا جیز کیش  کے ذریعے خریداری یا رقم کی ترسیل  حقیقتاً موبائل بینکنگ ہے۔مثال کے طور پر جس طرح ہم بینک اکاؤنٹ میں جب اپنی رقم ڈپازٹ کرواتے ہیں تووہ رقم بینک پر ایک قرض ہوتا ہے۔اور شریعت کا ایک اُصول ہے جس کو علماء نے اس طرح بیان کیا گیا کہ :    

كلُّ قرْضٍ جَرَّ نفعًا  فهو رِبًا

     جس قرض کے ذریعے سے کوئی نفع حاصل کیا جائے تو وہ سُود ہوجاتا ہے۔

لہٰذا اگر ہم ایسی کسی ایپلی کیشن کو استعمال کرتے ہوئے اُ س میں رقم ڈپازٹ کریں اور اُ س ڈپازٹ پر ہمیں کوئی انعام ملے تواسے استعمال کرنا ہمارے لئے جائز نہیں ہے۔کیونکہ جو چیز انعام کی صورت  میں ہمیں  ملی ہے وہ رقم اکاؤنٹ میں ڈپازٹ کروانے کی وجہ سے ملی ہے۔ایزی پیسہ یا جیز کیش کی سروس کو استعمال کرتے ہوئے  اگر ہم اپنی رقم کی ترسیل کررہے  ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

البتہ اگر اِن ایپلی کیشنز میں رقم ڈپازٹ کرواکر کوئی انعام لیا جائےتو یہ  بینک کے سیونگ اکاؤنٹ کی طرح کا معاملہ ہوگا   جس طرح صارف کی طرف سے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم رکھوائی جاتی ہے  جس پر بینک ہر ماہ منافع کے نام سے صارف کو ایک مخصوص رقم ادا کرتا ہے اور صارف کی اصل رقم بینک میں اُسی طرح رکھی رہتی ہے۔ یا پھر یہ کہ کمپنی کی طرف سے بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ اتنی رقم اکاؤنٹ میں رکھتے ہیں تو آپ کو اتنا بیلنس ملے گا ۔

خلاصہ :

خلاصہ یہ ہے کہ  ایسی کسی آفر یا  انعام سے فائدہ حاصل کرنا  شریعت کی رُو سے جائز نہیں  ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حلال اختیار کرنے کی اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا ء فرمائے ۔ آمین

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ عثمان صفدر حفظہ اللہ

آپ کراچی کے معروف دینی ادارہ المعہد السلفی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالشھادۃ العالیہ کی سند حاصل کی، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، نیز اسلامک بینکنگ اور فنانس میں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی جاری ہے۔ اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی کے مدیر ، الھجرہ آن لائن انسٹیٹیوٹ کے مدیر ہیں ، البروج انسٹیٹیوٹ کراچی میں مدرس کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔