اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سفِرِ ہجرت میں نبی کریم ﷺ کے ساتھی تھے ۔غارِِ ثور میں بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ایک ایسی بہت بڑی فضیلت اور منقبت ہے جسے کوئی اور صحابی حاصل نہیں کرسکا۔ چونکہ مذہبِ شیعہ صحابہ کرام سے بغض وعداوت اور نفرت پر قائم ہے اس لئے بعض شیعہ سفرِِ ہجرت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صحبت کے منکر ہیں۔ درج ذیل میں ہم مذہبِ شیعہ کی چند مستند کتابوں سے دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کریں گے کہ سفرِِ ہجرت میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے ساتھی تھے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
التوبة – 40
اگر تم اس (نبی) کی مدد نہ کرو گے تو (اس سے پہلے) اللہ نے اس کی مدد کی جب کافروں نے اسے (مکہ سے) نکال دیا تھا۔ جبکہ وہ دونوں غار میں تھے اور وہ دو میں سے دوسرا تھا اور اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا: ’’غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘ پھراللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور ایسے لشکروں سے اسکی مدد کی جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کے بول کو سرنگوں کر دیا اور بول تو اللہ ہی کا بالا ہے اور اللہ ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے۔
مشہور شیعہ مفسرعلی بن ابراہیم قمی اپنی قدیم تفسیر القمی میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’حدثني أبي، عن بعض رجاله رفعه إلى أبي عبد الله عليه السلام، قال: لما كان رسول الله صلى الله عليه وآله في الغار قال لأبي بكر: كأني أنظر إلى سفينة جعفر في أصحابه يعوم في البحر، وأنظر إلى الأنصار محتبين في أفنيتهم۔ فقال أبو بكر: وتراهم يا رسول الله؟ قال: نعم۔ قال: فأرنيهم، فمسح على عينيه فرآهم، فقال في نفسه: الآن صدقت أنك ساحر، فقال له رسول الله صلى الله عليه وآله: أنت الصديق‘‘1
’’ غار کے اندر نبی علیہ السلام نے حضرت جعفر بن ابی طالب کو بمعہ رفقاء کشتیوں میں سوار بجانبِ حبشہ جاتے ہوئے دیکھ لیا اور انصارِِ مدینہ کو ان کے گھروں میں دیکھ لیا۔ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بھی نظارہ دیکھنے کی تمنا کی۔ نبی کریم علیہ السلام نے اپنا دستِ مبارک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں پر پھیر دیا۔ فوراً حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی یہ مناظر دیکھنے لگے۔ فرمایا: “اے اللہ کے رسول ﷺ، میں نے ان کو دیکھ لیا ہے”۔ تو نبی علیہ السلام نے فرمایا: “تم واقعی صدیق ہو”‘‘۔
طوسی تفسیر التبیان میں لکھتے ہیں
{ ثاني اثنين } وهو نصب على الحال أي هو ومعه آخر، وهو أبو بكر في وقت كونهما في الغار من حيث { قال لصاحبه } يعني أبا بكر2
یعنی یہ جملہ (ثاني اثنين) حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ یعنی رسول اللہ اور اس کے ساتھ دوسرا، یعنی ابو بکر رضی اللہ عنہ جو اس وقت غار میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ ( قال لصاحبہ) میں صاحب سے مراد ابو بکر ہیں ۔
طبرسی تفسیر مجمع البیان میں لکھتے ہیں :
{ثاني اثنين} يعني أنه كان هو وأبو بكر {إذ هما في الغار} ليس معهما ثالث أي وهو أحد اثنين ومعناه فقد نصره الله منفرداً من كل شيء إلا من أبي بكر والغار الثقب العظيم في الجبل وأراد به هنا غار ثور وهو جبل بمكة. {إذ يقول لصاحبه} أي إذ يقول الرسول لأبي بكر {لا تحزن)} أي لا تخف {إن الله معنا)3
یعنی ثانی اثنین سے مراد رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر ہیں ۔ یہ دونوں جب غار میں تھے ان دونوں کے ساتھ کوئی تیسرا نہیں تھا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کی ایسے وقت میں مدد کی جب سوائے ابو بکر کے کوئی اور ان کے ساتھ نہیں تھا۔ غار سے مراد پہاڑ میں بڑا شگاف ہے۔ اس سے مراد غارِ ثور ہے۔ ’’ لصاحبہ‘‘ یعنی جب رسول ﷺ نے اپنے ساتھی ابو بکر سے کہا کہ تم غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
حسن بن سلیمان مختصر بصائر الدرجات میں لکھتے ہیں :
موسى بن عمر بن يزيد الصيقل عن عثمان بن عيسى عن خالد بن يحيي قال قلت لأبي عبد الله عليه السلام سمى رسول الله صلى الله عليه وآله أبا بكر صديقا فقال نعم انه حيث كان معه أبو بكر في الغار4
خالد بن یحی کہتے ہیں کہ میں نے امام ابو عبد اللہ صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے ابو بکر کا نام صدیق رکھا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ! جب ابو بکر آپ ﷺ کے ساتھ غار میں تھے ۔
فیض کاشانی التفسير الصافي میں لکھتے ہیں:
إذْ هُمَا فِي الغَارِ } غار ثور وهو جبل في يمنى مكة على مسيرة ساعة { إذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ } وهو أبو بكر { لاَ تَحْزَنْ } لا تخف { إنَّ اللهَ مَعَنَا } بالعصمة والمعونة)5
غار سے مراد غارِ ثور ہے جو مکہ کے داہنی جانب ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے ۔ جب نبی ﷺ اپنے ساتھی ابو بکر سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے اپنی عصمت اور مدد کے ساتھ ۔ کاشانی بھی کہتے ہیں کہ آیت میں ’’ صاحبہ ‘‘ سے مراد ابو بکر ہیں۔
طباطبائی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں:
{ ثاني اثنين إذ هما في الغار } ثاني اثنين أي أحدهما، والغار الثقبة العظيمة في الجبل، والمراد به غار جبل ثور قرب منى وهو غير غار حراء الذي ربما كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يأوي إليه قبل البعثة للأخبار المستفيضة، والمراد بصاحبه هو أبو بكر للنقل القطعي6
یعنی دونوں میں سے کوئی ایک اور غار پہاڑ میں بڑے سوراخ کو کہتے ہیں۔ یہاں غار سے مراد منیٰ کے قریب جبلِ ثور کا غار ہے حرا والی غار نہیں ہے جس میں رسول اﷲ ﷺ نزولِ وحی سے قبل بھی عبادت کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے اور قطعی نصوص کے مطابق ’’ صاحبہ‘‘ سے مراد ابو بکر ہیں۔
صاحب تفسیر المیزان طبابطائی كا بھی یہی کہنا ہے کہ اس آیت میں صاحبہ سے مراد ابو بکر صدیق ہیں ۔
علی بن ابراہیم قمی تفسیر امام حسن عسکری میں لکھتے ہیں:
ان رسول الله صلى الله عليه وآله في الغار قال لفلان كأني أنظر إلى سفينة جعفر في أصحابه يقوم في البحر وأنظر إلى الأنصار محتسبين في أفنيتهم فقال فلان وتراهم يا رسول الله قال نعم قال فأرنيهم فمسح على عينيه فرآهم (فقال في نفسه الآن صدقت أنك ساحر ط) فقال له رسول الله أنت الصديق7
کہ “غار کے اندر نبی علیہ السلام نے حضرت جعفر بن ابی طالب کو بمعہ رفقاء کشتیوں میں سوار بجانبِ حبشہ جاتے ہوئے دیکھ لیا اور انصارِ مدینہ کو ان کے گھروں میں دیکھ لیا۔ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بھی نظارہ دیکھنے کی تمنا کی۔ نبی کریم ﷺ نے اپنا دستِ مبارک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں پر پھیر دیا۔ فورا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی یہ مناظر دیکھنے لگے۔ فرمایا، “اے اللہ کے رسول ﷺ، میں نے ان کو دیکھ لیا ہے۔” تو نبی علیہ السلام نے فرمایا، “تم فی الواقع صدیق ہو”
سبزواری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وكان ثان اثنين اي أحد اثنين هو وأبو بكر وحدهما. والغار لغة هو الثقب العظيم في الجبل وقصد به هنا غار الثور الواقع في جبل بمكة إذ كان يقول النبي (ص) لصاحبه أبي بكر لا تحزن يعني “لا تخف إن الله معنا ” أي مطلع على ما نحن فيه وهو يحفظنا ويتولی نصرنا 8
وہ ان دو میں سے کوئی ایک تھا جو اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا۔ دو سے نبی ﷺ اور ابو بکر اکیلے مراد ہیں۔ اور غار لغت میں پہاڑ کے بڑے سوراخ کو کہتے ہیں اور یہاں اس سے مراد غارِ ثور ہے جو مکہ کے ایک پہاڑ میں واقع ہے جہاں پر رسول اللہ ﷺ اپنے صحابی ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے کہ غم نہ کرو، یعنی “ڈرو مت کیونکہ اللہ ہمارے ساتھ ہے” یعنی وہ جانتا ہے کہ ہم کس حال میں ہیں۔ وہ ہماری حفاظت کرے گا اور ہماری مدد کا خیال رکھے گا۔
ان سب شیعہ کتبِ تفاسیر میں یہ صاف صاف لکھا ہے کہ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غار میں تھے۔
ملا باقر مجلسی بحار الانوار میں لکھتے ہیں :
ثاني اثنين إذ هما في الغار ” يعني أنه كان هو وأبو بكر في الغار ليس معهما ثالث وأراد به هنا غار ثور وهو جبل بمكة ” إذ يقول لصاحبه ” أي إذ يقول الرسول صلى الله عليه وآله لأبي بكر : ” لا تحزن ” أي لا تخف ” إن الله معنا‘‘ يريد أنه مطلع علينا عالم بحالنا فهو يحفظنا وينصرنا9
یعنی ثانی اثنین إذ ھما في الغار سے مراد ایک تو رسول اللہ ﷺ اور دوسرے ابو بکر جوغار میں تھے۔ کوئی تیسرا ان دونوں کے ساتھ نہیں تھا اور یہاں غار سے مراد غارِ ثور ہے جو مکہ کا ایک پہاڑ ہے ۔ ’’ إذ یقول لصاحبہ ‘‘ یعنی رسول اللہ ﷺ ابو بکر سے کہہ رہے تھے کہ ’’ غم نہ کر ‘‘ یعنی مت ڈرو اللہ ہمارے ساتھ ہے یعنی وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہمارے ہر حال سے باخبر ہے اور وہ ہماری حفاظت اور مدد فرمائے گا۔
یعنی قرآن کے لفظ ’’ صاحبہ‘‘ سے مراد سیدنا صدیقِ اکبر ہیں۔ صدیق کی صحبت قرآن سے بھی ثابت ہو گئی۔
کلینی اپنی کتاب الکافی میں لکھتے ہیں :
حميد بن زياد عن محمد بن أيوب عن علي بن أسباط عن الحكم بن مسكين عن يوسف بن صهيب عن أبي عبد الله ( ع ) قال : سمعت أبا جعفر ( ع ) يقول : إن رسول الله (صلی الله علیه وسلم) أقبل يقول لأبي بكر في الغار : أسكن فإن الله معنا10
ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر علیہ السلام کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے غار کے اندر ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ پرسکون ہو جاؤ۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
شیعوں کے مشہور عالم شیخ مفید اپنی کتاب مسار الشیعہ میں لکھتے ہیں:
وفي صبیحة هذه اللیلة صار المشركون إلی باب الغار عند ارتفاع النهار لطلب النبی ﷺ فستره الله تعالیٰ عنهم وقلق أبو بكر بن أبی قحافة ۔ وكان معه في الغار11
اس رات کی صبح کو مشرکین دن کی بلندی پر غار کے دروازے پرنبی ﷺ کی تلاش میں آئے لیكن اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ كوان سے چھپا لیا ۔ حضرت ابو بکر بن ابی قحافہ جو غار میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے اس موقع پر پریشان ہو گئے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو رفیقِ سفر بنانے کا عمل حکمِ الہی سے ہوا
ملا باقر مجلسی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ امام حسن عسکری کی تفسیر کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی ابو بکر کے ساتھ ہجرت اللہ کے حکم سے ہوئی تھی ۔ اللہ تعالی ٰنے سفرِ ہجرت کی مشکلات اور صعوبتوں کے لیے رسولِ کریم ﷺ کو حکم بھیجا کہ اس سفر کی خدمات کے لیے لائق ترین شخص حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان کو اپنے ساتھ لے جائیے۔
إن الله تعالى أوحى إلى النبي يا محمد إن العلي الأعلى يقرأ عليك السلام ، ويقول لك : إن أبا جهل والملا من قريش قد دبروا يريدون قتلك ، وآمرك أن تبيت عليا في موضعك ، وقال لك : إن منزلته منزلة إسماعيل الذبيح من إبراهيم الخليل ، يجعل نفسه لنفسك فداء ، وروحه لروحك وقاء ، وأمرك أن تستصحب أبابكر12
بیشک اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ پر وحی فرماتے ہوئے کہا کہ خدائے بزرگ و برتر آپ کو سلام کہتا ہے اور آپ سے فرماتا ہے کہ ابو جہل اور قریش کے سرداروں نے آپ کو قتل کرنے کی سازش کی ہے۔ لہذا آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سلا دیں اور اللہ نے آپ سے یہ کہا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کا وہی مقام ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا حضرت ابراہیم کے نزدیک ہے جو اپنی جان کو آپ کی جان کی حفاظت کیلئے پیش کرے گا اور اپنی روح کو آپ کی روح کے لئے ڈھال بنائے گا اور آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ابو بکر کو اپنے سفر کا ساتھی بنا لیں۔
علامہ ملا باقر مجلسی فرماتے ہیں کہ:
وأمرك أن تستصحب أبابكر، فإنه إن آنسك وساعدك ووازرك وثبت على ما يعاهدك و يعاقدك كان في الجنة من رفقائك، وفي غرفاتها من خلصائك 13
اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا ہے کہ آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لے لیں کیونکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ سے محبت کی، آپ کی مدد کی، آپ سے ہمدردی و حمایت کی اور آپ کے ساتھ کیے ہوئےعہد و اقرار پر قائم رہے تو وہ جنت میں آپ کے ساتھیوں میں سے اور جنت کے حجروں میں آپ کے خاص مقربین میں سے ہوں گے۔
قاضی سید نوراللہ شوستری اپنی کتاب مجالس المؤمنین میں لکھتے ہیں :
“وبہمہ حال رفتن محمد ﷺ و بردن ابوبکر رضی اللہ عنہ، بے فرمانِ خدا نبود۔”14
یعنی “نبی علیہ السلام کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہجرت میں اپنے ساتھ لے جانا فرمانِ خداوندی کے بغیر نہ تھا۔”
شیخ مفید اپنی کتاب الإفصاح میں لکھتے ہیں :
کہ ہجرت كی رات ابو بکر کا نبی کریم ﷺ کے ساتھ نكلنا اور غار میں ساتھ ہونا مشہور و معروف ہے۔15
جعفر سبحانی اپنی کتاب سید المرسلین میں لکھتے ہیں :
ان ما هو مسلّم به هو أن رسول اللّه صلّى اللّه عليه وآله أمضى هو وأبو بكر ليلة الهجرة وليلتين أخريين بعدها في غار ثور الذي يقع في جنوب مكة16
یہ بات متفق طور پر تسلیم شدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی رات اور اس کے بعد دو اور راتیں غارِ ثور میں گزاریں جو مکہ کے جنوب میں واقع ہے۔
اور جو شخص ابو بکر رضی اللہ عنہ کے صاحبِ رسول یعنی آپ کے خاص ساتھی اور یارِ غار ہونے کا منکر ہے وہ در حقیقت قرآن کا منکر ہے۔
خلاصہ کلام
شیعہ کی تمام مستند کتبِ تفاسیر اور دیگر کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے سورہ توبہ کی آیت میں وارد شدہ لفط ’’ صاحبہ ‘‘ (ساتھی) سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ صاحب کا لفظ اصل میں اکثر اوقات ساتھ رہنے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے بیوی کو ’’ صَاحِبَة ‘‘ کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(سورۃ الانعام آیت: 101)
وہ آسمانوں اور زمین کو ایجاد کرنے والا ہے۔ اس کی اولاد کیسے ہو سکتی ہے جبکہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ اسی نے تو ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے ۔
یارِ غار کے چند فضائل و مناقب:
حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صحابیت قرآن مجید سے ثابت ہے اور اس کا انکار قرآن کا انکار ہے ۔ چنانچہ اسی فضیلت وعظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تمام لوگوں کی اللہ نے مذمت کی ہے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یوں تعریف کی ہے ۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی :
إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا17
اہلِ جنت کے سردار :
حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما اہلِ جنت کے سردار ہیں۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما اچانک آتے ہوئے نظر آئے تو نبی ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا:
أبو بَكْرٍ وعمرُ سيِّدا كُهولِ أَهْلِ الجنَّةِ منَ الأوَّلينَ والآخرينَ ، ما خَلا النَّبيِّينَ والمرسلينَ ، لا تُخبِرهما يا عليُّ 18
یه دونوں نبیوں اور رسولوں كے سوا سب اولین و آخرین كے سردار هیں۔ اے علی ! تم ان دونوں کو نه بتانا۔
صدیقِ اكبر سے محبت جنتی ہونے كی ضمانت :
حضرت صدیقِ اكبر رضی الله عنہ سے سچی محبت كرنے والے جنت میں داخل ہوں گے چنانچہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی الله عنہ كا سهارا لیتے ہوئے نبی اکرم ﷺ باہر تشریف لائے تو حضرت ابو بكر و عمر رضی الله عنهما خدمتِ اقدس میں حاضر هوئے۔ نبی كریم ﷺ نے حضرت علی رضی الله عنہ سے فرمایا: اے علی! كیا تم ان دونوں بزرگوں سے محبت كرتے ہو؟ عرض كی: جی ہاں یا رسول الله! آپ ﷺ نے فرمایا: ان سے محبت رکھو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔19
یارِ غار :
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سرکارِ دوعالم رحمتِ کائنات کی معیت و خدمت کا ایسا اعزاز حاصل ہوا جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ۔ یہ سعادت ازل سے آپ کی قسمت میں لکھی جا چکی تھی۔ اس عظمت و فضیلت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے فرمایا:
من یهاجر معي ، قال أبوبكر ، هو الصدیق20
ہجرت میں میرے ساتھ کون ہوگا؟ تو جبریلِ امین علیہ السلام نے کہا: ابو بکر جو’’ صدیق ‘‘ ہے ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ُكنتُ مع النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في الغارِ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فإذا أنا بأَقْدامِ القَوْمِ، فَقُلتُ: يا نَبِيَّ اللہِ لو أنَّ بَعْضَهُمْ طَأْطَأَ بَصَرَهُ رَآنا، قالَ: اسْكُتْ يا أبا بَكْرٍ، اثْنانِ اللہُ ثالِثُهُما.
( صحيح البخاري : 3922)
کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ غار میں تھا۔ میں نے جو سر اٹھایا تو قوم کے چند لوگوں کے قدم (باہر) نظر آئے میں نے کہا اے اللہ کے نبی (ﷺ) ! اگر ان میں سے کسی نے بھی نیچے جھک کر دیکھ لیا تو وہ ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”ابو بکر! خاموش رہو ہم ایسے دو ہیں جن کا تیسرا اللہ ہے۔“
دعائے مصطفی ﷺ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
رحم اللہ أبا بکر زوّجنی بنته ، وحملني إلی دار الھجرۃ ، وأعتق بلالاً من ماله21
اللہ تعالیٰ ابو بکر پر رحم فرمائے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کیا اور دار الھجرت یعنی مدینہ تک پہنچایا اور اپنے مال سے بلال کو آزاد کروایا۔
رفاقتِ مصطفیٰ ﷺ :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
قَالَ: إنِّي لَوَاقِفٌ في قَوْمٍ، فَدَعَوُا اللهَ لِعُمَرَ بنِ الخَطَّابِ، وقدْ وُضِعَ علَى سَرِيرِهِ، إذَا رَجُلٌ مِن خَلْفِي قدْ وضَعَ مِرْفَقَهُ علَى مَنْكِبِي، يقولُ: رَحِمَكَ اللَّهُ، إنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مع صَاحِبَيْكَ؛ لأنِّي كَثِيرًا ما كُنْتُ أسْمَعُ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يقولُ: كُنْتُ وأَبُو بَكْرٍ وعُمَرُ، وفَعَلْتُ وأَبُو بَكْرٍ وعُمَرُ، وانْطَلَقْتُ وأَبُو بَكْرٍ وعُمَرُ، فإنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ معهُمَا، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هو عَلِيُّ بنُ أبِي طَالِبٍ.
( صحيح البخاري: 3677)
میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا جو عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے لیے دعائیں کر رہے تھے اس وقت ان کا جنازہ چارپائی پر رکھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک شخص نے میرے پیچھے سے آکر میرے شانوں پر اپنی کہنیاں رکھ دیں اور (عمر رضی الله عنه كو مخاطب کر کے) کہنے لگے اللہ آپ پر رحم کرے۔ مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ (دفن) کرائے گا كیونکہ میں رسول اللہ ﷺ کو اکثر یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ میں اور ابو بکر اور عمر تھے، میں نے اور ابو بکر اور عمر نے یہ کام کیا، میں اور ابو بکر اور عمر گئے۔ اس لیے مجھے یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان ہی دونوں بزرگوں کے ساتھ رکھے گا۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنهما فرماتے ہیں كہ میں نے جو مڑ کر دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو حقائق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور حق بات پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
- (تفسير القمی: ج2، ص414-415 )
- (تفسیرالتبيان ج 5 ،ص: 221)
- تفسير مجمع البيان للطبرسي الجزء 5 ص:57
- (مختصر بصائر الدرجات، لحسن بن سليمان الحلي ، ص: 29)
- (التفسير الصافي للفیض الکاشاني ج 2 ص: 344)
- ) تفسير الميزان للطباطبائي (1412 هـ) الجزء 9 صفحة 279)
- ( تفسیر امام حسن عسکری آیت “(اذهما فى الغار)”
- (الجديد في تفسير القران المجيد للسبزواري ج 3 ص: 338)
- (بحار الأنوار ج19 ص:33 باب 6 : الهجرة ومباديها)
- (الكافي ج 8 ص: 262 )
- (مسار الشیعة :، ص: 48 )
- (بحار الأنوار، ج 19 ص: 82حديث: 34)
- (حیات القلوب ،ج 2 ص310، تفسير الإمام العسكري:٤٦٦ ، مدينة المعاجز ج 1 ص: 210 باب 188)
- (مجالس المومنین،قاضی سید نوراللہ شوستری : ص 203 )
- ( الإفصاح للمفيد ،ص:185 )
- (كتاب سيد المرسلين لجعفر السبحاني ج1 ص591)
- ( کنز العمال ، ج 12 ۔ ص: 515 )
- (صحيح الترمذي: 3666، وابن ماجه:95)
- (تاریخ دمشق لابن عساکر، جزء 32 ، ص: 94 ، کنز العمال ، علاء الدین علی ، ج 13 )
- (تاریخ ابن عساکر ، جزء 32 ، ص: 49 )
- ( تاریخ دمشق لابن عساکر ، جزء 32 ، ص: 94 ، مسند أبی یعلیٰ ،ج1، ص: 281 )