پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے کائنات کو خوبصورت بنایا،میں اس کا شکر بجا لاتا ہوں نعمتوں پر اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں جس سے ہم توفیق اور مدد مانگتے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جو اللہ کے توکل پر زندہ رہے ۔اللہ تعالیٰ آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل پر صلوٰۃ و سلام نازل فرمائے جو ہمارے لئے باعثِ شفاعت ہو۔
حمد و ثنا كے بعد!
میں آپ سب کو اور اپنے آپ کو تقویٰ کی وصیت کرتاہوں جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
آل عمران – 102
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔
اللہ تعالیٰ نے تمام جہان کو اپنی نرالی کاری گری سے مزین فرمایااور حسنُ جمال کی تمام خصوصیات و خوبیاں اس میں ودیعت فرمائیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ
السجدة – 7
جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی۔
اللہ تعالیٰ نے آسمان کو سورج ،چاند اور ستاروں سے مزین فرمایا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ
الحجر – 16
یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے اسے سجا دیا گیا ہے۔
اور زمین کو نہروں ،پہاڑوں ،پھول پودوں سے مزین کر کے اُس کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
الكهف – 7
روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعث بنایا ہے کہ ہم انہیں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال والا ہے۔
اسی طرح تمام چوپایوں کو حسن و جمال کا باعث قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
النحل – 8
گھوڑوں کو، خچروں کو، گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وه باعث زینت بھی ہیں۔ اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں۔
اور انسان بذاتِ خود تو پوری کائنات سے بھی بڑھ کر خوبصورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے شکل و صورت ،بناوٹ اور بہترین خد و خال سے زینت بخشی ہے تو اس انسان اپنی ذات کے اعتبار سے خوبصورت اور شفاعت کے اعتبار سے حسن و جمال کا پیکر ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ ﴿٧﴾ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ
الانفطار – 7/8
جس (رب نے) تجھے پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھاک کیا، پھر (درست اور) برابر بنایا۔ جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا۔
خوبصورتی ایک فطرت ،نعمت اور باعثِ تفریح چیز ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ
آل عمران – 14
مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لئے مزین کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔
یہاں پر دینِ اسلام کی عظیم خوبی اس وقت نکھر کر سامنے آتی ہے جب وہ انسانی ضرورتوں کو پورا کرتا اور فطرت کی دہائی پر لبیک کہتا ہے اور اس وقت کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کردہ خوبصورتی سے لطف اندوز ہونا کاان پر احسان فرمایا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
الاعراف – 32
آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیا اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی اہل ایمان کے لئے، دنیوی زندگی میں مومنوں کے لئے بھی ہیں۔ ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں۔
نبی مکرم ﷺ حسن و جمال اور خوبصور تی میں ایک میانہ اور مثالی نمونہ ،سب سےبڑھ کر پاکیزہ اور سب سے بڑھ کر صاف ستھرے تھے ۔خوشبو کا تحفہ واپس نہ کرنا اور اُس کا بکثرت استعمال کرنا اور معطر خوشبؤوں سے لطف اندوز ہونا آپ ﷺ کا مبارک رویہ تھا۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے: جیسے ریحان خوشبوپیش کی جائے وہ اُسے واپس نہ کرے کیونکہ یہ بلا مشقت خوشبو ہے ۔ صحیح مسلم
ہمارے پیار ے رسول ﷺ حسین و جمیل ہونے اور حسن و جمال کو پسند کرنے کے ساتھ ساتھ بلا تکلف جمال اور بلااسراف زینت اور بلا شہرت لباس سے آراستہ ہونے کے خوگرتھے ،آپ ﷺ اپنے بال ، داڑھی میں کنگی کرتے ،اس کی ظاہری حالت کا خاص خیال رکھتے اور جب کوئی وفد آپ ﷺ کے پاس تشریف لاتا تو آپ ﷺانتہائی خوبصورت لباس زیبِ تن فرماتے جیساکہ جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم ﷺ کاقد میانہ ،سینہ کشادہ و فراغ اور زلفیں کانوں کی لو تک دراز تھیں ،ایک بار میں نے آپ ﷺ کو سرخ جوڑے میں ملبوس دیکھا تو آپ ﷺ سے بڑھ کر کبھی کسی چیز کو حسین نہ پایا۔
اور جناب ابن ِ عباس رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں نے ہمیشہ آپ ﷺ کو انتہائی خوبصورت پوشاک میں ملبوس دیکھا ۔
یاد رہے کہ مسلمان ہمیشہ موقع محل کی مناسبت اور ہر جگہ کی موافقت سے زیب و زینت اختیار کرتاہے اور کسی مسلمان کے نزدیک اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ تمام مقامات سے بڑھ کر زینت کے لائق اللہ تعالیٰ کے وہ گھر ہیں جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور سب سے بڑھ کر خوبصورت مقامات ہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ
الاعراف – 31
اے اولاد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔
اور جناب حسن بن علی رضی اللہ عنہما جب مسجد کے لئے تیار ہوتے تو اپنا سب سے عمدہ اور خوبصورت لباس پہن لیا کرتے تھے اور جب ان سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ فرماتے : بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسندکرتا ہے اور میں اس لئے بھی زینت اختیار کرتاہوں کہ میرا رب فرماتا ہے کہ ہر مسجد میں حاضری کے وقت زینت اختیار کرلو۔اور مسلمان ہمیشہ وہی زینت اختیار کرتاہے جو موقع محل اور اس کے حال و احوال کے مطابق ہو۔
جیساکہ جناب مالک بن نضلۃ جشمی کے بارے میں آتاہے کہ ایک بار وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بوسیدہ کپڑوں میں حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺنے ان سے پوچھا : کیا تمہارے پاس مال و دولت ہے؟ تو انہوں نے کہا : جی ہاں سب کچھ ہے۔تو آپ ﷺ نے پوچھا: کس قسم کا مال ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ : اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ ،بکریاں ،گھوڑے اور غلام عطا کئے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو پھر اللہ کی نعمت او راس کے فضل و کرم کے آثار بھی تم پر دکھائی دینے چاہییں۔
منبع حسن وجمال ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہمیں آگاہ کرتے ہوئےفرمایاکہ یقیناً ظاہری خوبصورتی بھی جسم و اعضا کی دیکھ بھال کا حصہ ہے۔رسول اللہ ﷺ نےجب ایک ایسے شخص کو دیکھا کہ جس کا سر پرآگندہ اور بال بکھرے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اِسے کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس سے وہ اپنے بال ٹھیک کرلے؟۔اور ایک دوسرے شخص کو دیکھا جس کے کپڑے میلے تھے تو آپ ﷺ نےفرمایا:کیا اسے پانی نہیں ملتا جس سے یہ اپنے کپڑے دھولے ؟۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: جس کے بال ہوں اُسے ہمیشہ انہیں سنوار کر رکھنا چاہیئے ۔
جنابِ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے روز جب ابو قحافہ کو لایا گیا تو ان کے سر اور داڑھی کے بال ثغامہ(سفید پھول) کی مانند سفیدی مائل تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے کسی چیز سے بدل دو(یعنی اس سفیدی کو خزاب سے بدل دو) البتہ سیاہ کرنے سے بچنا۔
ازدواجی سلسلے کی مضبوطی اور زوجین کے باہمی تعلقات کی بائیداری میں خوبصورتی کے بہت بڑے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کا فیملی میں بہت واضح حق اور حصہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ
البقرۃ – 228
اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ ۔
حتیٰ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: عورت کے لئے اُسی طرح خوبصورت بنتا ہوں جس طرح میں چاہتا ہوں کہ وہ میرے لئے خوبصورت بنے۔
اسلام نے خوبصورتی کے مفہوم پر غالب آلودگیوں کو دور کرتے ہوئے اسے خوب بنایا اور سنوارا اور اس کی حقیقی خوبصورتی اور زندگی میں مسلمان کے پیغام و کردار کے مطابق نمایاں حدودو علامات کی نشاندہی کی تاکہ حماقت و بے شرمی سے پاک فضیلت کے دائرے میں خوبصورتی اور مردانہ کمالات و امتیازات کے مجروح ہوئے بغیر حسن و جمال کا اظہار ہوسکے نیز یہ کہ خوبصورتی اختیار کرنے والا کہیں رب کے ناراض کرنے والے ممنوع عمل یاتخلیق کو خراب کرنے والے غلط مفہوم یا شبہات کاشکار نہ ہوجائے۔اور شرعی دلائل سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مرد و زن کی زینت کے مابین فرق کرنے والی حدود سے تجاوز کرنا دینِ اسلام کے نزدیک انتہائی ناپسند ہے۔اور اس سے اخلاق و کردار کی عمارت گر جاتی ہے ،فضائل کے اقدار ہل جاتے ہیں ،امت کی عظمت اور معاشرے کی پاکیزگی کمزور پڑجاتی ہےاور اس کے عواقب و نتائج انتہائی مہلک و تباہ کن ہیں۔
جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جن عورتوں نے مردوں کی اور جن مردوں نے عورتوں کی مشابہت اختیار کی وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔
لہٰذا مردوں اور عورتوں میں سے ہر ایک کی ایک خاص شکل اور خد و خال ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انہیں دوسروں سے امتیاز بخشا ہے ۔اسلام نے مسلمان کی ایک ایسی شخصیت بنائی ہے کہ جس کی اپنی ایک خاص رونق و بہار ہے اور اقدار و نظریات کے تحت اس کی شناخت مقرر کی تاکہ وہ خلافِ شرع تشبیہ میں تعلیل یا عظمت سے عاری تقلید کا شکا رنہ ہوجائے۔
جناب ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی قوم کی تشبیہ اختیارکی وہ انہیں میں سے ہوگا۔اسی طرح اسلام نے زینت اختیار کرنے میں ایسی مبالغہ آرائی سے بھی منع فرمایاہے کہ جس سے اللہ کی بناوٹ میں مستقل تبدیلی ہوجائےجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ
النساء – 119
اور انہیں راه سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دﻻتا رہوں گا اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کی کان چیر دیں، اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں۔
عورت کی خوبصورتی اور اس کی حقیقی زینت کا مقصد یہ ہے کہ اس کی روح پرور حیااور اس کی شخصیت کو نکھار نے والی پاکدامنی کے زیرِ سایہ اس کے حسن و جمال کو اجنبیوں کی نگاہوں سے بچایاجاسکے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
النور – 31
اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیده زینت معلوم ہوجائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔
اگر ہم زینت کی بات کریں تو ہمارے لئے بہت ہی بہتر ہوگاکہ ہم حسن و جمال کو کبھی فراموش نہ کریں کہ جس سے ہمارے جسم پروان چڑھتے اور اعضاء پاکیزہ ہوتے اور روحیں عروج پاتی ہیں ۔اور بلاشبہ وہ دلوں کا ایمان سے مزین ہونا ہی ہے۔کیونکہ ایمان سے مزین دل ہی ہر طرح کی حقیقی خوبصورتی اور حسن و جمال کی تجلیوں کا مرکز ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ﴿٧﴾ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَنِعْمَةً ۚ
الحجرات 8/9
لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناه کو اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے، یہی لوگ راه یافتہ ہیں۔ اللہ کے احسان وانعام سے۔
اور جب کسی کا دل ایمان سے مزین ہوجائے تو وہ خوبصورت روح،اعلیٰ وقار ،بلنداخلاق اور پاکیزہ کردار ہوکر دین و دنیا کے حسن و جمال سے فیضیاب ہو جاتا ہے۔ اور جب دل ایمان سے میزن ہوجائے تو سارے کے سارے اعضاء بھی خوبصورت ہوجائے ہیں جس طرح کے زبان شاندار عبارت ،پاکیزہ کلمات اور ایسے عمدہ الفاظ سے معطر ہوجاتی ہے جو دلوں کو گرویدہ اور عقلوں کو موہ لیتے ہیں۔ جیسا کہ نبی مکرم ﷺ نے بتایاکہ: یقیناًبعض بیان زینت و سحر انگیز ہوا کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے لئے قرآن ِ عظیم کو بابرکت اور ذکر ِ حیم کو نفع بخش بنائےاسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنے تمہارے اور تمام مسلمانوں کے لئے اللہ عظیم و جلیل سے تمام گناہوں کی بخشش طلب کرتاہوں اور تم بھی اُسی سے بخشش طلب کرو بلا سبہ وہ غفور رحیم ہے۔
دوسراخطبہ:
ہم اللہ کے شکرگزاروں کی طرح حمد بیان کرتے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں جو صبر کرنے والوں کا دوست ہےاور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں جو متقین کے امام ہیں ۔اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کے آل و اصحاب پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔
حمد و ثنا کے بعد!
میں تمہیں اور اپنے آپ کو اللہ کے تقوے کی نصیحت کرتاہوں ۔وہ حسن و جمال جو ہمیں اسلامی راستے پر ہمیشہ گامزن رکھے بلاشبہ وہ جنت کی اُن نعمتوں کے حصول کا باعث ہے جن میں ہر خوبصورتی کا کمال اور ہر حسن و جمال کی تکمیل ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۚ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
القصص – 60
اور تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے وه صرف زندگی دنیا کا سامان اور اسی کی رونق ہے، ہاں اللہ کے پاس جو ہے وه بہت ہی بہتر اور دیرپا ہے۔ کیا تم نہیں سمجھتے ۔
او ر فرمایا:
عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ ۖ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ
الانسان – 21
ان کے جسموں پر سبز باریک اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن کا زیور پہنایا جائے گا۔
اے اللہ کے بندو خبر دار! رسولِ ہدیٰ پر درود بھیجو کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نےتمہیں اپنی کتاب میں اس کا پابند کرتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
اے اللہ ! اپنے پیارے رسول ﷺ پر اور ان کی آل پر اسی طرح رحمتیں اور برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابرھیم علیہ السلام پر اور اُن کی آل پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں ۔
اے اللہ ! خلفاء راشدین اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا۔
اے اللہ ! اسلا م اور اہل ِ اسلام کو عزت عطا فرما۔کفر اور اہلِ کفر کو نیست و نابود فرما۔
اے اللہ ! اس ملک کو دیگر تمام مسلم ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنا ۔
اے اللہ ! جو اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں ان کی سازشوں کو انہیں پر لوٹادے اور انہیں نیست و نابود فرما۔
اے اللہ ! ہمیں جنت کے قریب کرنے والے اعمال کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ ! ہر بھلائی کی ہمیں توفیق عطا فرما اور ہر شر سے ہمیں محفوظ فرما۔
اے اللہ ! مسجد اقصیٰ کی حفاظت فرما۔اور اُسے مسلمانوں کے قبضے میں لوٹادے۔
اے اللہ ! مکاروں اور سازشی عناصر سے مسجد ِ اقصیٰ کی حفاظت فرما۔اور اُسے سازشوں سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ہمیں جنت کے اعلیٰ مرتبے عطا فرما۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے پاکدامنی کا سوال کرتے ہیں ۔
اے اللہ ! ہمارے اگلے پچھلے ،چھوٹے بڑے ،سب گناہوں کو معاف فرما۔
اے اللہ ! تو سب کچھ جانتا ہے تجھ سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ۔
اے اللہ ! نعمتوں کے زوال سے اور عافیت کے تبدیل ہونے سے ہم تیری پناہ مانگتے ہیں۔
اے اللہ ! سستی ،کاہلی اور ناکامی سے تیری پناہ مانگتے ہیں اور تیرے فضل و رحمت کے طلب گار ہیں۔
اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔
اے اللہ ! ہماری افواج کی جو سرحدوں پر نگرانی کررہی ہیں ان کی مدد فرما۔
اے اللہ ! اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت بڑے خسارہ اٹھانے والے ہوجائیں گے۔
اے اللہ ! ہمارے دلوں کو اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بغض او ر عناد دے پاک کردے ۔ اے اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ بے شک عدل و احسان کا قریبی رشتے داروں کا حق اداکرنے کا حکم دیتاہے ۔اور برائی اور بے حیائی سے روکتاہے ۔ تمہیں وعظ کرتاہے تاکہ تم اللہ کی بات کو قبول کرلو۔اللہ کا ذکر اور اُس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو۔ اللہ کا ذکر بہت بڑا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے آگاہ ہے۔
خطیب فضیلة الشیخ عبدالباری الثبیتی (حفظه اللہ تعالیٰ)
بتاریخ: 8/ذی القعدة/1442 هجری، بمطابق 19/جون/2021 عیسوی۔