دُرست دین داری ہی اقدار کا معیار ہے

deen ki durustigi..

پہلا خطبہ :

 ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے جس نے اپنی قدرت سے کشتیوں اور افلاک کو رواں دواں کیا، آدم کو چنا اور فرشتوں سے ان کے لئے سجدہ کرایا، اور ابلیس نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو ہلاک ہوا، میں اللہ سبحانہ کی تعریف کرتا ہوں، وہ تعریف کے لائق ہے، اپنے فضل و کرم سے اس نے اپنے بندوں سے تھوڑے کو قبول کیا، اور زیادہ نوازا۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ ہم مثل سے بلند ، نظیر سے پاک ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سر دار و نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے ور سول، بشارت دینے والے ڈرانے والے، روشن چراغ ہیں۔

 اللہ درود اور برکت نازل کرے ان پر، اور ان کے آل پر جو تاریکی میں چودہویں کے چاند ہیں ، اور ان کے اصحاب منارہ ہدایت پر، اور تابعین پر ، اور ان کی اچھے سے پیروی کرنے والے پر ، اور ان کے راستے پر چلنے والے ان کی اقتدا کر کے ہدایت یاب ہونے والے پر۔

 اور بے شمار ولا محدود اور بے انتہا سلامتی نازل کرے۔

اما بعد !

اے لوگو! میں تم کو اور خود کو اللہ کے تقوی کی نصیحت کرتا ہوں، اللہ سے ڈرو اللہ تم پر رحم کرے، اور برابر استغفار کرتے رہو ، ذہنی راحت، انشراح صدر، نفس کا سکون، دل کا اطمنان، اور اچھے متاع کا جسے قصد ہو ، وہ استغفار کو لازم پکڑے۔ تنزیل عزیز میں ہے:

وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ۖ

ھود – 03

اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناه اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اسی کی طرف متوجہ رہو، وه تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (زندگی) دے گا اور ہر زیاده عمل کرنے والے کو زیاده ﺛواب دے گا۔

جسے قوت اور صحت وعافیت چاہئے وہ استغفار کرتا رہے :

وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً

ھود – 52

اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو، تاکہ وه برسنے والے بادل تم پر بھیج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت قوت بڑھا دے۔

مصائب سے حفاظت اور حوادث سے سلامتی کے خواہاں کو ہمیشہ استغفار کرنا چاہئے:

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

الانفال – 33

اور اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وه استغفار بھی کرتے ہوں۔

اے مسلمانو! تہذیبوں کا قیام اور ان کا عروج، ان کا سقوط و زوال سب کا انحصار اس پر ہے کہ ان میں اقدار و مبادی کیا ہیں اور زندگی کے تئیں ان کا نقطہ نظر کیا ہے ، اسی طرح ان کی بقاء اور قوت کا انحصار اس پر ہے کہ انسان کے سلوک کو منضبط کرنے اور اس کی تربیت میں ان کے معیار کیا ہیں۔ کوئی بھی امت اپنے کارناموں و آداب کی چیزوں میں سے کسی پر اس قدر حریص نہیں ہوتی جس قدر وہ اپنی ان تہذیبی اقدار پر ہوتی ہے جو اس کی زندگی، اس کے جوہری معاملات کی تشکیل کرتے ہیں، اور اس کو سر بلند کرتے ہیں۔

 مسلمانو! اخلاق امتوں کی تعمیر کی بنیاد ہے، اس کی مضبوطی ہلاکت و بربادی سے حفاظت و سلامتی کا ضامن ہے، بلکہ انفرادی و اجتماعی زندگی اللہ کے حکم سے بغیر بلند اقدار واعلی اخلاق کے ممکن نہیں:

وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ

الاعراف – 58

اور جو ستھری سرزمین ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے، اسی طرح ہم دﻻئل کو طرح طرح سے بیان کرتے ہیں، ان لوگوں کے لئے جو شکر کرتے ہیں۔

کہا گیا ہے کہ : دل کی ہر صفت اعضاء پر اپنا اثر دکھاتی ہے، اور جب بھی اخلاق عمدہ ہو گا تو اس کا نتیجہ درست طرز عمل کی صورت میں نکلے گا، اور انسان کے افعال کی درستگی اس کے اخلاق کی درستگی پر منحصر ہے۔ اور جو بھی معاشرہ مکارم اخلاق کے بندھنوں سے نہیں جڑے گا وہ امن، ہم آہنگی اور اتحاد کی نعمت سے بہرہ ور نہیں ہو گا، بلکہ اس میں دراڑ ، باہمی کشمکش ظاہر ہو گی، پھر نیست و نابود ہو جائے گا۔

اے مسلمانو! تہذیب کو اس کے مادی اثرات سے ، اور مادی آسائش سے نہیں بلکہ انسان کی حفاظت اور اس کی عزت کے تحفظ میں وہ کتنا کار گر ہے اس سے ناپا جائے گا۔ مادی چیزیں، ایجادات، دریافتیں یہ سب بشریت کی سلامتی، اور امن واطمنان کو عام کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔

 مسلمانو! اخلاقی قواعد دینی اصولوں اور ایمانی مقاصد سے وابستہ ہیں، اور شرعی تعلیم سے بھی جدانہیں۔شاطبی رحمہ اللہ نے کہا: شریعت نام ہے مکارم اخلاق سے آراستہ ہونے، احکام کو منظم کرنے، اخلاق کو سنوارنے کا۔ پھر کہا: یہی وہ چیز ہے جو برے حال اور نظام کی خرابی سے بچاتی ہے۔

مسلمانو! اخلاق کا لب لباب دینداری ہے، جو اخلاق میں تم سے برتر ہے وہ دین میں تم سے برتر ہے، پیس اخلاق کے بغیر کوئی دین نہیں اور دین کے بغیر کوئی اخلاق نہیں۔ صحیح اخلاق اور درست اقدار ؛ اشخاص، حالات ، زمانے اور جگہوں کے بدلنے سے نہیں بدلتے، اس لیے یہ دشمن اور دوست ، دور و نزدیک، قوی و ضعیف، غالب وشکست خوردہ، نیک اور بد سب کے ساتھ ہوتے ہیں۔ قرآن عزیز میں ہے:

 وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنَا

البقرۃ – 83

اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔

اور صحیح حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:

وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ

رواه الترمذي بسند صحيح، من حديث أبي ذر ومعاذ بن جبل – رضي الله عنهما –

اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔

اور بڑی تباہی یہ ہے کہ اخلاق مفادات کے تابع ہوں، یہ جھوٹ اور انحراف ہے، اس صور حال میں یہ مفادات کی سیاست ہو گی، اصولوں کی نہیں۔

بھائیو! اس لیے آج انسانیت بہت سے ممالک میں خوف و اضطراب کا شکار ہے، اور موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات کی آگ، کچھ دریاؤں میں خشکی، اور معیارات میں امتیازی سلوک، قوموں کا مختلف نقطہ نظر، عالمی بحرانوں کا سامنا، اور قتل وغارت گری، گھروں سے بے دخلی، اور وطنوں سے جلاء وطنی، یہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا سبب اخلاق واقدار سے بے رخی، دین حق کے نقوش پر دست درازی، خود غرضی اور انانیت کا غلبہ، شہوتوں میں غرق ہونا، خاندانی بکھراؤ، اور جنسی انار کی ہے، قرآن عزیز میں ہے:

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

الروم – 41

خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ اُن کو اُن کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔

 الحاد، انفرادی آزادی میں انحراف، ذہنی اور فکری آوارگی، اور خاندان اور اس کے نظام کے خلاف بغاوت ظاہر ہوئی، یہاں تک کہ وہ اللہ کی پناہ۔ ہم جنس پرستی تک پہنچ گئے، یہ غیر فطری کام اور بے حیائی ہے جسے جہان والوں میں سے پہلے کسی نے نہیں کیا:

 أَخْرِجُوهُم مِّن قَرْيَتِكُمْ كُم إِنَّهُمْ أَنَاسُ يَتَطَهَّرُونَ

الاعراف – 82

ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں۔

 اے احباب ! وہ خسارے میں ہیں، حالانکہ وہ سلامتی کے حصول، جنگوں کے خاتمے، انصاف اور مساوات عام کرنے، امن کو بڑھانے اور انسانی حقوق کے احترام کے وعدوں پر زندگی گزار رہے ہیں، اوراس زعم میں ہیں کہ مادی ترقی روحانی خلا کو پر کرنے، صحیح اقدار، درست اخلاق کو پھیلانے کا ضامن ہے۔ وہ جسمانی شہوتوں، مادی خواہشات کے دلدل میں غرق ہیں، اوراخلاقی ضوابط سے آزاد۔

 جب اقدار کمزور ہوتے ہیں تو انسان فساد کے آلات، گمراہی کے ذرائع اور ہر وہ چیز ایجاد کرتاہے جو تباہی اور بربادی کی طرف لے جائے۔ زبر دست سائنسی ترقی کی صورت میں اللہ نے جو انعام کیا، اور انسانیت کے لیے سائنس کے میدانوں جیسے صنعت، طب، تعلیم، ثقافت، مواصلات، ٹیکنالوجی، فضائی علوم، وغیرہ میں جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہ ناقابل تردید امر ہے۔ اور وہ اس لائق ہیں کہ ان کا شکر ادا کیا جائے اور ان میں اللہ کے حق کو پہچانا جائے لیکن اصل مصیبت اخلاق واقدار کو نظرانداز کرنے، اپنی ذات، روح، قلب اور عمل صالح کا صحیح خیال نہ رکھنے میں ہے۔

اے مسلمانو! وہ اقدار ہی ہیں جو تہذیب کو ثقافت سے اور علم کو رویہ سے جوڑتے ہیں، لہذا تہذیبی اقدار ہی روح ہیں، اور ایسی روشنی ہیں جو لوگوں کو حقیقی زندگی فراہم کرتی ہے۔

اے مسلمانو! ہمارے نبی محمد ﷺ کے پیغام پر غور کرو کہ وہی زندگی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ

الانفال – 24

اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں۔

بلکہ وہی روح ہے، اللہ عزوجل نے فرمایا:

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ

الشوریٰ – 52

اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں۔

اور وہ نور ہے اللہ عزو جل نے فرمایا:

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ‎﴿١٥﴾‏ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

المائدۃ – 15/16

اے اہل کتاب! یقیناً تمہارے پاس ہمارا رسول ﷺ آچکا جو تمہارے سامنے کتاب اللہ کی بکثرت ایسی باتیں ﻇاہر کر رہا ہے جنہیں تم چھپا رہے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے، تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے۔ جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ انہیں جو رضائے رب کے درپے ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتا ہے اور اپنی توفیق سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف ﻻتا ہے اور راه راست کی طرف ان کی رہبری کرتا ہے۔

احباب! رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اقدار کا مقام اُم المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے، جب کہ وہ پہلی وحی کے وقت نبی کریم ﷺ کا وصف بیان کر رہی ہیں:

كَلَّا، فَوَاللَّهِ لا يُخْزِيكَ اللَّهُ أبَدًا؛ إنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وتَصْدُقُ الحَدِيثَ، وتَحْمِلُ الكَلَّ، وتَقْرِي الضَّيْفَ، وتُعِينُ علَى نَوَائِبِ الحَقِّ

صحيح البخاري – 6982

ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالی آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بوجھ اٹھاتے ہیں، نادار کو کما کر دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر مدد کرتے ہیں۔

پھر جب وحی کا سلسلہ چل پڑا تو آپ ﷺ کے وصف میں اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول جلوہ گر ہوا کہ :

كَانَ خُلقة القُرْآنَ

آپ ﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔

 بھائیو! : لوگوں کی اصلاح، بلکہ انسانیت کی اصلاح کا کوئی راستہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ دین کی تعلیمات، اس کے اخلاقی منہج پر عمل کیا جائے، اور لوگ اس کے فضائل و ہدایات کو اپنائیں۔ اپنی تعلیمات واقدار کے ساتھ دین حق نے امت کو بنایا، اور اس کے لئے ایسی تہذیب بنائی جو دوسروں کو نصیب نہ ہو سکی، اور نہ انسانی اقدار ؛ جیسے انصاف، رحم، مساوات، رواداری، اعتدال اور بقائے باہم ، بے شمار عظیم اقدار کے ساتھ کوئی قوم پندرہ صدیوں تک اس کی طرح جھمی نہ رہ سکی۔ اسلام کی تہذیب اس میں موجود اعتقاد، اخلاق، تشریح اور طرز عمل سے عبارت ہے۔ دین شعائر اور ان کی ادائیگی، اخلاق اور اس کے اثرات میں فرق نہیں کرتا۔اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ

العنکبوت – 45

 یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔

 خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا

التوبة – 103

 آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں۔

فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ

البقرۃ – 197

جو شخص تم میں سے حج ﻻزم کرلے وه اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناه کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے،

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ

الزمر – 9

 بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں۔

أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ ‎﴿٣٥﴾‏ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ

القلم – 35/36

کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناہ گاروں کے کر دیں گے تمہیں کیا ہو گیا، کیسے فیصلے کر رہے ہو۔

أَمْ تَجْعَلُ الَّذِينَ ءَامَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ

ص – 28

کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے ان کے برابر کر دیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دینگے؟

مسلمانو! اور اگر آپ ہمارے مذہب میں اخلاقیات کے مقام کی مزید وضاحت چاہتے ہیں تو سخت ترین اور تاریک ترین حالات میں اسلام کے اقدار کو دیکھیں اور ان پر غور کریں، کہ حالت جنگ اور معرکہ آرائی، اور لڑائی کی شدت کے وقت مسلمانوں کا قائد اپنی فوج سے کہہ رہا ہے:

لا تخونوا، ولا تغدروا، ولا تُمثلوا، ولا تقتلوا طفلا، ولا شيخًا كبيرًا، ولا امرأةً، ولا تقطعوا نخلا، ولا تحرقوه، ولا تقطعوا شجرةً مثمرةً، ولا تذبحوا شاةً، ولا بقرةً، ولا بعيرًا إِلَّا لِمَأْكَلَةٍ، وسوف تمرُّون على قوم فرغوا أنفسهم في الصوامع فدَعُوهُمْ ، وما فرَّغوا أنفسهم له

خیانت نہ کرنا، غداری نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا، کسی بچے، بوڑھے آدمی، عورت کو قتل نہ کرنا، کسی کھجور کے درخت کو نہ کاٹنا، اسے نہیں جلانا، کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا، اور کھانے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے بکری، گائے اور اونٹ کو ذبح نہ کرنا، اور تم ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اپنے آپ کو عبادت خانوں میں محدود کر لیا ہے، تو انہیں اور جس چیز کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو الگ کیا ہے چھوڑ دو۔

 اسلام میں جنگ امن اور سلامتی کو عام کرنے کے لیے ہے۔

 يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا ادْخُلُوا فِي السّلْمِ كَافَةُ

البقرة – 208

ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔

وَإِن جَنَحُوا لِلسَّامِ فَأَجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ

الانفال – 61

اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تو بھی صلح کی طرف جھک جا اور اللہ پر بھروسہ رکھ۔

نبی ﷺ نے حلف الفضول کی تعریف کرتے ہوئے کہا:

ما أُحِبُّ أَنَّ لي به حُمرَ النَّعَمِ، ولو دُعيت لمثله في الإسلام لأجَبْتُ

مجھے پسند نہیں کہ اس کے عوض مجھے سرخ اونٹ دئے جائیں اور اگر اس طرح کی دعوت اسلام میں مجھے ملتی تو میں قبول کر لیتا۔ کیونکہ یہ ایک مثبت معاہدہ ہے، ایک ایسا معاہدہ جو امن کے اقدار کو تقویت دیتا ہے۔ مدینہ منورہ کی دستاویز میں اس واضح منہج کا بیان اور ان عظیم اقدار کے استحکام کی وضاحت ہے۔ اس دستاویز نے مدینہ کے معاشرے کے تمام عناصر کو ان لوگوں کے خلاف متحد کر دیا جو اس ریاست کے لوگوں کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔

وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ

الحشر – 9

اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے۔

یہ  ہے عظیم اقدار۔ اگر آج دنیا ان کو اپنالے تو یہ اس بات کا ضامن ہیں کہ وہ تفاہم کے ارادے سے یکساں گفت و شنید ، رواداری ، بقائے باہم، عدل اور بھلائی کے راستے بنائیں۔

اللہ نے فرمایا:

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‎﴿١٦٢﴾‏ لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ

الانعام – 162/163

آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے۔

 اللہ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کی ہدایت سے بہرہ مند کرے، اور مجھے اور آپ کو نبی کریم ﷺ کے طریقہ سے فائدہ پہنچائے، میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور میں اللہ سے اپنے لیے، اور آپ کے لیے اور باقی تمام مسلمانوں کے لیے ہر گناہ و خطا کی مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ اس سے مغفرت طلب کریں، بیشک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ :

 ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے ، اس نے اپنی توحید پر دلیلیں قائم کیں، اور مخلوق کے لئے اپنی حکمت کے عجائب ظاہر کئے ، میں اللہ سبحانہ کی اس کی بھر پور نعمتوں پر تعریف کرتا ہوں، اور اس کی توفیق و ہدایت پر شکر بجالا تا ہوں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں، اس کی ربوبیت اور الوہیت میں اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سرداراور نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور تمام مخلوقات کی طرف بھیجے گئے رسول ہیں۔

 اللہ ان پر درود و سلام نازل فرمائے، کہ آپ ﷺ نے جنت کی بشارت دی، اس کے عذاب سے ڈرایا، اور ان کے آل و اصحاب اور رشتہ داروں پر ، اور تابعین اور ان کی اچھے سے پیروی کرنے والوں پر، اور جو ان کے نہج اور ملت پر چلے ان پر۔

پیارے بھائیو! اسلام کے اقدار اور اس کی تہذیب کی بنیاد؛ دین، توحید خالص، اللہ کے کلمے کی سر بلندی کے لئے جہاد کرنے ، اور عقیدہ پر فخر کرنے پر ہے، اور اس وضاحت کے ساتھ ؛ یہ بلندی، انصاف، رحمت اور انسانیت کے اعتبار سے سب سے عظیم ہے جسے تاریخ نے جانا۔اسلام کی تہذیب کارجحان انسانی ہے اور اس کا رخ عالی ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

الحجرات – 13

 اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا، اور تمہیں کنبوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔

اے مسلمانو! تہذیب کے اقدار اور اسلام کے اخلاق کو مسلمان نبوت کے زمانے سے لے کر خلفائے راشدین کے زمانے، پھر اس کے بعد کے اسلامی حکومتوں کے زمانے، پورے اسلامی تاریخ میں، بلکہ استعمار کے زمانے میں بھی، اور آج بھی جیتے آرہے ہیں، یہ مستقل اقدار ہیں، اور مسلمانوں میں اسلامی اخلاق راسخ ہیں، زمانے کے اثرات اور سیاسی انقلابات اور معاشرت و معیشت کی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوتے۔

بر خلاف دوسری تہذیبوں کے جس میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ وہ غالبا فقر وغناء، سلامتی و خوشحالی کے اعتبار سے لوگوں اور زمانے کے احوال سے منسلک ہوتی ہیں تو جب حالت میں بدلاؤ آتا ہے تو پیمانے الٹ جاتے ہیں اور معیار میں خلل پڑ جاتا ہے، ان کا مضبوط کمزور کو کھا جاتا ہے، مالدار غریب پر چڑھ دوڑتا ہے، اور ظالم ان کے حقوق کو ہڑپ کر جاتا ہے۔ بلکہ مسلمانوں نے اپنی فتوحات اور تہذ یہی مظاہر میں ان ملکوں کو تباہ نہیں کیا جہاں وہ گئے اور نہ کسی آبادی کو برباد کیا، جنہوں نے ان سے قتال نہیں کیا اور نہ ان پر ہتھیار اٹھائے ، انہیں نہ قتل کیا اور نہ ان سے لڑائی کی۔

جہاں تک دوسروں کی تہذیبوں کا مسئلہ ہے تو وہ جن ملکوں میں داخل ہوئے انہیں تباہ و برباد کیا ، وہاں رہنے والوں کو بے گھر کیا، آبادیوں کو تمہیں نہیں کیا، اور عزت داروں کو ذلیل کر کے رکھ دیا۔ اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام کے اقدار اس کی تہذیب اور اخلاق، عقیدہ و شریعت کے احکام اور اسلام کے اخلاقی معیار سے منسلک ہیں۔

اے لو گو اللہ سے ڈرو اللہ تم پر رحم کرے، اور اس آیت کے سلسلے میں اہل علم کے قول پر غور کرو:

وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمِ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ

ھود – 117

آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیکو کار ہوں۔

بعض مفسرین نے کہا: یعنی وہ صرف کفر کی وجہ سے ہلاک کئے جانے والے نہیں تھے یہاں تک کہ کفر کے ساتھ بگاڑ بھی آگیا، تو شعیب علیہ السلام کی قوم کو کم ناپ تول کی وجہ سے ہلاک کیا گیا، اور قوم لوط بدکاری کی وجہ ہلاک کی گئی ، اہل علم کہتے ہیں: یہ اس بات پر دلیل ہے کہ دنیا میں نیست و نابود کئے جانے کے عذاب سے شرک کے مقابلے میں نافرمانیاں زیادہ قریب ہیں۔ ہر چند کہ آخرت میں شرک کا عذاب زیادہ بڑا ہو گا۔

یہ سب باتیں رہیں اور درود و سلام بھیجو ہدیہ میں دئے گئے رحمت اور نعمت اپنے نبی محمد رسول اللہ ﷺ پر، جس کا حکم تم کو تمہارے رب نے قرآن کریم میں دیا ہے جیسا کہ اس نے فرمایا اور وہ اس کا قول سچا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ درود و سلام اور برکت نازل کر تیرے بندے اور رسول ہمارے نبی محمد حبیب مصطفی نبی مجتبی ﷺ پر، ان کے نیک و پاک باز آل پر، اور ان کی بیویوں مؤمنوں کی ماووں پر۔

 اے اللہ تو خلفاء راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور تمام صحابہ اور تابعین اور قیامت تک ان کی درست طریقے سے پیروی کرنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا۔ تو اپنی عفو و کرم اور سخاوت کے ذریعہ ان کے ساتھ ہم لوگوں سے بھی راضی ہو جا یا اکرم الاکرمین!

 اے اللہ ہمیں ہمارے ملکوں میں امن و امان عطا فرما، ہمارے امام اور حکمرانوں کی اصلاح فرما، ہمیں ان لوگوں کے ماتحت کر جو تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیر ا تقوی اختیار کرتے ہیں، اور تیری رضا چاہتے ہیں، اے رب العالمین !

 اے اللہ! ہمارے امام اور حکمران کو تو اپنی توفیق عطا فرما، تو ان کو اپنی طاعت کے ذریعہ مضبوط کر، ان کے ذریعہ اپنے کلمہ کو بلند فرما، انہیں اسلام اور مسلمانوں کی مدد کرنے والا بناء ان کو ان کے ولی عہد کو ان کے بھائی اور مددگاروں کو اس چیز کی توفیق دے جس کو تو پسند کرتا ہے اور جسے تو چاہتا ہے،انہیں نیکی اور تقوی کی توفیق دے۔

 اے اللہ مسلمانوں کے حکمرانوں کو تو اپنی کتاب اور اپنے نبی محمد ﷺ کی سنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرما، انہیں تو اپنے مومن بندوں کے لئے رحمت بنا، ان کے کلمے کو حق و ہدایت پر جمع فرما، اے رب العالمین۔

اور ملت اسلامیہ کے لیے ہدایت کو مستحکم کر دے جس میں تیری اطاعت کرنے والوں کو عزت ملے، اور تیری نافرمانی کرنے والے ہدایت پائیں۔ جہاں بھلائی کا حکم دیا جائے، اور برائی سے روکا جائے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

اے اللہ! مسجد اقصی کو غصب و قبضہ کرنے والوں سے آزاد فرما، اس کی شان اور مقام کو بلند فرماء اس کی بنیاد کو مضبوط فرما، اس کے گوشوں کو قائم رکھ ،اے دعاؤوں کو سننے والا۔

اے اللہ! ہماری فوج کی مدد فرما جو ہمارے ملک کے باڈر پر تعینات ہیں ، ان کی رائے کو درست فرما، ان کے نشانے کو درست رکھ،ان کی کمر کس دے، ان کے عزائم کو مضبوط کر، ان کے قدموں کو ثابت قدم رکھ، ان کے دلوں کو جوڑ دے، ان کے دشمنوں پر انہیں مدد عطا فرما، اے اللہ تو اپنی طرف سے ان کی حمایت اور ان کی مدد فرما۔

 اے اللہ! ان کی حفاظت فرما سامنے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے اور اوپر سے ، اور ہم اس بات سے تیری پناہ میں آتے ہیں کہ انہیں نیچے سے اچانک پکڑ لیا جائے۔

 اے اللہ !ان کے شہیدوں پر رحم فرما، ان کے زخمیوں کو شفا دے، ان کو اپنے گھر والوں اور بچوں میں حفاظت فرما، بیشک تو دعاؤوں کو سننے والا ہے۔

اے اللہ !سیر یا اور ترکی کے ہمارے بھائیوں سے مصیبتوں اور کر بتوں کو دور کر دے، ان کےمردوں پر رحم کر، انہیں شہادت کا درجہ دے، کیونکہ وہ دب کر مرے ہیں اور ان کے مریضوں کو شفا دے، اللہ ان کی کمزوری پر رحم کر، اے اللہ وہ بھوکے ہیں انہیں کھانا کھلا، نگے ہیں انہیں کپڑا پہنا، وہ مساکین ہیں ان پر رحم کر اے مساکین پر رحم کرنے والے، اللہ اپنے طرف سے ان کے لئےمددگار متعین کر۔

 اے اللہ! تیرے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں، تو بے نیاز ہے ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش برسا، ہمیں نا امید نہ کر، اللہ بارش نازل کر، اللہ بارش نازل کر۔

 اے اللہ! ہم تجھ سے مغفرت طلب کرتے ہیں تو بخشنے والا ہے تو ہم پر موسلا دھار بارش برسا، اور جو کچھ نازل کر اسے تیری اطاعت میں ہمارے لئے قوت بنا۔

اے اللہ! پودوں کو اگا دے، تھنوں کو بھر دے، اور اپنی اور آسمان سے برکات نازل کر ۔

 اے اللہ! ہم تیری مخلوق ہیں تو ہماری گناہوں کی وجہ سے ہمیں اپنے فضل سے محروم نہ کر ، ہمارے رب ہم نے تجھ پر توکل کیا، ہمیں ظالم قوم کے ساتھ نہ کر۔

 اے اللہ! ہمارے گناہوں کو معاف فرما، ہمارے عیوب کی پردہ پوشی فرما، ہماری مصیبتوں کو دور کر ، ہم میں سے جو آزمائش میں ہیں ان کو عافیت عطا فرما، جو بیمار ہیں ان کو شفا دے، جو فوت ہو چکے ہیں ان پر رحم فرما۔

 اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔

خطبة الجمعة مسجدالحرام: فضیلة الشیخ صالح بن حمید حفظه اللہ
26 رجب 1444 ھ بمطابق 17 فروری 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ صالح بن حمید حفظہ اللہ