أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
البقرۃ 185
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام واکرام ہے کہ اس نے ہمیں ایک بار پھر اس ماہِ مبارک تک جینے اور سانس لینے کی مہلت دی اور یہ ہمت عطا کی کہ اس کی رضا کے حصول کیلئے بھوک وپیاس کی شدت برداشت کر سکیں۔ بلا شبہ یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ممکن ہوا ہے۔ عید کادن مسلمانوں کے لیے خوشی کادن ہےکہ اللہ تعالی کی رحمتوں اور برکتوں سے بھرا مہینہ رمضان المبارک حسب استطاعت عبادات میں گزارنے کے بعد اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنے کا موقع عنایت فرما یا۔ روزہ جیسی عظیم عبادت بجا لانے کی توفیق ملنے خوشی کادن کیسے منانا ہے؟ اس کے متعلق چند باتیں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ عید کا دن بھی ہمارے لیے برکت اور مسرت والا دن بن جائے۔
رب العزت کا شکر بجا لایئے
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجیئے کہ اس نے آپ کو ایک عظیم عبادت بجا لانے کی توفیق عطا کی اور آپ کو اس خوش نصیب لوگوں میں شامل کردیا جنہیں روزِ قیامت جنت میں جانے کے لیے مخصوص دروازہ ’’ باب الریان ‘‘ نصب ہوگا۔ لہذا اس عظیم نعمت پر شکرانہ ادا کرنا لازمی ہے اور شکرانے کی افضل ترین صورت بارگاہِ الہی میں سجدہ ریز ہونا ہے ۔ یہی نبی کریم ﷺ کی سنت بھی ہے ۔ جیساکہ سیدنا ابن ابی اوفی ٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الضحى ركعتين حين بشر بالفتح، أو برأس أبي جهل
سنن الدارمي (1/ 406)
رسول اللہﷺ کو جب فتح مکہ کی یا ابوجہل کے سر قلم کئے جانے کی خوشخبری ملی تو آپ ﷺنے چاشت کے وقت دو رکعت نماز پڑھی۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أتاهُ أمرٌ فسُرَّ بهِ ، فخرَّ للَّهِ ساجدًا
صحيح الترمذي : 1578
كہ نبی کریم ﷺکو جب کوئی خوشخبری ملتی تو اللہ کے حضور سجدے میں گر پڑتے۔
’’اسی طرح کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ صحیحین میں موجود ہے کہ جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو وہ خوشخبری سن کر سجدے میں گر پڑے۔‘‘1
لہذا کسی نعمت کے مل جانے پر یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر سجدہ شکر ادا کرنا نبی كریم ﷺ كی سنت ہے ۔ اور مکمل نماز پڑھنا شکرکا اعلی درجہ ہے۔
یتیموں سے حسنِ سلوك
عید کے دن اس بات کا اہتمام کریں کہ اپنے رشتہ داروں میں یااپنے محلے داروں میں کسی کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو۔ کوئی یتیم موجود ہو، تو ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں تحفہ تحائف لے جائیں ۔کھانے پینے کی چیزیں لیکر جائیں ۔یا مالی تعاون کریں۔تاکہ آپ کو جنت میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت اور صحبت نصیب ہو ۔جیساکہ سیدنا سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أنا وَكافلُ اليتيمِ في الجنَّةِ كَهاتين
صحيح الترمذي : 1918
میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح ساتھ ہوں گے ۔
یعنی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے والے کو صرف جنت ہی نہیں ملتی بلکہ جنت میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت وصحبت کا شرف بھی حاصل ہوتا ہے، ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اور بڑی سعادت اور اعزاز کی بات نہیں ہو سکتی۔لہذا اس سعادت مندی اور خوش بختی کو اپنا نصیب بنانے کے لیے یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام کریں ۔ اگر استطاعت ہو تویتیم کی کفالت کریں یا اچھےکھانے ،کپڑے مہیا کریں۔لیکن اگر مالی استطاعت نہ ہو تو حسب توفیق جس قدر میسر ہو سکے ، یتیم کے ساتھ بھلائی کرنے سے یہ فضیلت حاصل ہو سکتی ہے۔
بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک
اپنے رشتہ داروں یا محلے میں داروں میں کوئی عورت بیوہ ہے تو اس کے گھر اور بچوں کا حال معلوم کیجئےاور انہیں ضروریات زندگی خرید کر دیجیئے ۔ یہ بہت اجر وثواب کا کام ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
السَّاعِي علَى الأرْمَلَةِ والمِسْكِينِ، كالْمُجاهِدِ في سَبيلِ اللَّهِ، أوِ القائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهارَ.
صحيح البخاري: 5353
جو شخص بیواؤں اور مسکینوں کا خدمت گزار ہے، وہ وہ مجاہد فی سبیل اللہ یا رات بھر قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔
یعنی ایک طرف میدان جہاد میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر تلوراوں اور ہتھیاروں کے سامنے اللہ کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والا مجاہد اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی خاطر سارا دن بھوکا پیاسا رہنے والا روزہ دار ور رات بھر جاگ کر نیند اور سکون کو قربان کرنے والا تہجد گذار ہے جبکہ دوسری طرف بیوہ اور مسکین کی خدمت گذار شخص ہے ۔ لیکن اجر وثواب کے لحاظ سے یہ ان دونوں کے برابر ہے ۔ سبحان اللہ ! کیسی عظیم فضیلت کا حامل عمل ہے۔
جہادفی سبیل اللہ، رات کا قیام کرنا اور دن کو ہمیشہ روزے رکھنا یہ تینوں عمل قابل رشک ہیں، جو انسان یہ تینوں بڑے عمل کرنے سے عاجز ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے معاشرے اور سوسائٹی میں ضرورتمند غریبوں ، بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ ہمدردی ، تعاون ان کی کفالت، خبرگیری او ران کے اخراجات کی فکر میں اللہ تعالی کی رضا کی خاطرمصروف عمل رہے تو ایسا آدمی روز محشر مجاہدین، قیام اللیل اور صائم النھار افراد میں شمار ہوگا،اگر کوئی بھی انسان اپنے اندر بے حسی اور سخت دلی محسوس کرتا ہو تو اس کا روحانی علاج یہ ہے کہ وہ خصوصی طور پر ان افراد کی خدمت وکفالت کرے۔
غرباء ومساکین کی مدد
عید کے دن ایسے غرباء ومساکین جو مالی استطاعت نہ ہونے کے باعث اچھے کپڑے اور جوتے نہیں پہن سکتے ، یا ان کے گھروں میں اچھے کھانے نہیں پک سکتے ، ایسے لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور دلجوئی کا اظہار کیجئے ۔ ان کے ضروریات پوچھ کر انہیں کو پورا کرنے کی کوشش کیجئے ۔ اگر اللہ نے آپ کو مال ودولت سے نوازا ہے توان کے کیلئے کپڑوں اور جوتوں کا انتظام کیجئے ۔ انہیں کھانے پینے میں اپنے ساتھ شامل کر لیجیئے ۔ گھر میں پکے ہوئے پسندیدہ کھانوںمیں سے کچھ حصہ ایسے گھروں میں بھی بھیج دیجیئے ۔ یہ کامل ایمان کی نشانی ہے ۔ جیساکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يُؤْمِنُ أحَدُكُمْ، حتَّى يُحِبَّ لأخِيهِ ما يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.
صحيح البخاري: 13
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
غریبوں کی مدد کرکے آپ دلی راحت ، اطمناناور سکون پائیں گے اور اللہ کے نزدیک محبوب وپسندیدہ انسان ہونے کا شرف پائیں گے ۔ لہذاآپ جس قدر کسی غریب اور بے سہارا شخص کی مدد کر سکتے ہوں ، ضرور کیجیئے ،اللہ تعالی کی مدد بھی آپ کے ساتھ شامل ِ حال ہوگی ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
والله في عَوْنِ العَبْدِ ما كانَ العَبْدُ في عَوْنِ أَخِيهِ
صحيح مسلم: 2699
اللہ تعالیٰ تب تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں رہتا ہے ۔
دوسروں کی مدد کرکےحقیقت میں آپ اللہ تعالیٰ سے اپنی مدد کا بندوبست کر لیتے ہیں ۔ جو نہایت فائدہ مند عمل ہے ۔
بیماروں کی تیمار داری
عید کے دن اپنے بیمار عزیزوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے گھر جاکر ان کی تیمار داری کیجیئے جو بیماری کے باعث عید کی خوشیوں میں شریک نہیں ہو سکے، مسلمان بھائی کی عیادت کرنا بڑی فضیلت والا عمل ہے ۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من أتى أخاهُ المسلِمَ عائدًا مشى في خِرافةِ الجنَّةِ حتَّى يجلسَ فإذا جلسَ غمَرتْهُ الرَّحمةُ فإن كانَ غدوةً صلَّى عليْهِ سبعونَ ألفَ ملَكٍ حتَّى يُمسِيَ وإن كانَ مساءً صلَّى عليْهِ سبعونَ ألفَ ملَكٍ حتَّى يصبِحَ
صحيح ابن ماجه: 1191
جب آدمی اپنے مسلمان بھائی كی عیادت کرنے کے لئے آتا ہے تو وہ جنت كے باغیچے میں چلتا رہتا ہے حتی كہ آكر بیٹھ جائے، جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے ۔ اگر صبح كے وقت ہو تو ستر ہزار فرشتے شام ہونے تك اس كے لئے دعا كرتے رہتے ہیں اور اگر شام كے وقت میں ہو تو صبح تك ستر ہزار فرشتے اس كے لئے دعا كرتے رہتے ہیں۔
عید کے دن قبرستان جانے کا حکم
قبرستان کسی بھی دن جا سکتا ہے لیکن عیدکے دن کو قبروں کی زیارت کے لیے خاص کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ قبروں کی زیارت اللہ تعالیٰ نےمشروع قرار دیا ہے، لہٰذا یہ عبادت ہےاور عیدکے دن کو قبروں کی زیارت کے لیے خاص کرنا ایسا امر ہے جس کو اللہ نے مشروع قرار نہیں دیا اور ہر وہ عبادت جو مشروع نہیں۔ جائز نہیں ہے۔لہذا عید کے دن خاص کرکے قبر کی زیارت کرنا ایک نئی شریعت سازی ہے جس کے لیے کتاب و سنت سے دلائل درکار ہیں، لہٰذا جو شخص کتاب و سنت سے کوئی دلیل پیش نہ کر سکے تو اس کا یہ فعل بدعت ہے۔
علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
تخصيص يوم العيد بذلك بدعة؛ فإن الرسول عليه الصلاة والسلام لم يكن يخصص المقابر بالزيارة يوم العيد، ولا يمكن للمرء أن يخصص وقتاً من الأوقات لعبادة من العبادات إلا بدليل من الشرع؛ لأن العبادة تتوقف على الشرع في سببها، وفي جنسها، وفي قدرها، وفي هيئتها، وفي زمانها، وفي مكانها، لابد أن يكون الشرع قد جاء في كل هذه الأشياء فإذا خصصنا عبادة من العبادات بزمن معين بدون دليل كان ذلك من البدع، فتخصيص يوم العيد بزيارة المقبرة بدعة ليست واردة من الرسول عليه الصلاة والسلام ولا عن أصحابه رضي الله عنهم2
صرف عید کے دن قبرستان جانےکے لیے مختص کرنا بدعت ہے۔کیونکہ رسول اللہ ﷺنے عید کے دن زیارت کے لیے قبرستان مختص نہیں کیے تھے۔کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ وقت اور عبادت کے لیے شریعت سے دلائل کے بغیر مختص کرے۔ چونکہ عبادت کا دارومدار اس کے سبب، جنس، مقدار، شکل، وقت اور مقام کے اعتبار سےشرعی دلیل پر منحصرہے۔ ، اس لیے ان تمام چیزوں میں دلیل ضروری ہے، لہٰذا اگر ہم عبادت میں سے کسی ایک کو بغیر ثبوت کے مخصوص وقت پر مختص کریں تو وہ بدعت ہوگی ۔ لہذا عید کے دن کو قبرستان کی زیارت کے لیے مخصوص کرنا بدعت ہے جو رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ آج کل عید کے دن قبرستان جانے کا جو رواج عام ہوچکا ہے کہ اس کو سنت یا ضروری سمجھا جاتا ہے حتی کہ عید کے دن باقاعدہ اہتمام کے ساتھ قبرستان جانے کی ترتیب بنائی جاتی ہے، اس کی ترغیب بھی دی جاتی ہے، حتی کہ متعدد علاقوں میں تو اجتماعی طور پر قبرستان جانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، اسی طرح عید کے دن قبرستان جانے کے لیے خود ساختہ فضائل بھی بیان کیے جاتے ہیں تو واضح رہے کہ مروّجہ صورتحال میں یہ رسم ناجائز ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ اس رسم کی قباحت اور برائی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب قبرستان جاکر بدعات ورسومات کا ارتکاب کیا جائے۔اس رسم کے ناجائز ہونے کی وجوہات درج ذیل ہیں۔
- عید کے دن قبرستان جانے کی کوئی مخصوص فضیلت یا ترغیب معتبر روایات سے ثابت نہیں۔
- عید کے دن قبرستان جانے کا مروّجہ اہتمام حضور اقدس ﷺ، حضرات صحابہ کرام اور تابعین عظام سے ثابت نہیں۔
- عید کے دن قبرستان جانا اپنی ذات میں ایک جائز عمل ہے، لیکن جب جائز عمل کو سنت یا ضروری قرار دیا جائے اور اس کا حد سے زیادہ اہتمام کیا جانے لگے تو وہ جائز کام بھی ممنوع ہوجاتا ہے، یہ شریعت کا عام اصول ہے۔
- عید کے دن قبرستان جانے کی مروجہ رسم میں متعدد خرابیاں داخل ہوچکی ہیں اس لیے مروّجہ رسم سے اجتناب کرنا چاہیے۔
نمازوں کی پابندی کریں
ماہِ رمضان گزر جانے کے بعد لوگ جس عمل میں سب سے زیادہ سستی کرتے ہیں وہ نماز ہے ،جیسے ہی ماہ رمضان گزر گیا مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں ، حالانکہ نماز عام دنوں میں بھی واجب ہے ۔ اسلام لانے کے بعد عبادات میں سب سے بنیادی حیثیت نماز کو ہی حاصل ہے ۔نماز کی اہمیت کا اندازہ نبی کریم ﷺ کی اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے :
إنَّ أوَّلَ ما يحاسبُ النَّاسُ بِه يومَ القيامةِ من أعمالِهمُ الصَّلاة
صحيح أبي داود.: 864.
بلا شبہ روزِ قیامت لوگوں سے ان كے اعمال میں سب سے پہلے جس عمل كا حساب لیا جائے گا وه نماز ہوگی ۔
ایك اور حدیث میں رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إنَّ أولَ ما يُحاسَبُ به العبدُ يومَ القيامةِ من عملِه صلاتُه ، فإن صلحَتْ فقد أفلح و أنجح ، و إن فسدَتْ فقد خاب و خسر
صحيح الترغيب: 540
قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا محاسبہ ہو گا، اگر وہ ٹھیک رہی تو کامیاب ہو گیا، اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ ناکام اور نامراد رہا۔
لہذا اگر خدا نخواستہ کوئی شخص پہلے سوال کاہی درست جواب دینے میں ناکام ہوگیا تو آگے اس کا کیا حال ہوگا ؟ اس لیے ضروری ہے کہ روزانہ پنج وقتہ نمازوں کی اسی طرح پابندی کریں جیسے ماہِ رمضان میں کرتے رہے ۔
نیک کاموں میں ہمیشگی اختیار کریں
مؤمن کے لیے عید کی خوشی تب ہی حاصل ہو سکتی ہے کہ جن نیک کاموں کا اہتمام اس نے ماہِ رمضان میں شروع کیا تھا ،انہیں اسی طرح جاری وساری رکھےاور ان نیک اعمال میں کوتاہی کرنے سے اجتناب کرے ، عمل اگرچہ قلیل کیوں نہ ہو لیکن اس پر ہمیشگی اختیار کی جائے تو تو ہ قلیل عمل بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت محبوب ہوجاتا ہے ۔ جیساکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَحَبُّ الأعمالِ إلى اللهِ أدْومُها و إن قَلَّ
صحیح البخاري :6465، ومسلم :783
اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو گرچہ وہ کم ہو۔
تکبیرات پکارتے ہوئے عید گا ہ جانااور نماز شروع ہونے تک تکبیرات بلند کرنا:
عید کا چاند دیکھنے کے بعد نماز عید تک تکبیرات کہنی چاہئیں، جیساکہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں آتا ہے :
كان رسول الله یخرج یوم الفطر فیکبر حتی یأتی المصلیٰ وحتی یقضی الصلاۃ ، فإذا قضی الصلاۃ قطع التکبیر
السلسلۃ الصحیحۃ: 171
رسول اللہ ﷺ (عید )فطر کے دن (نماز کے لیے) نکلتے تو تکبیر بلند کرتے یہاں تک (اسی حالت میں ) عیدگاہ تک پہنچ جاتے اور نماز ادا کرنے تک تکبیروں کا سلسلہ جار ی رہتا۔ جب نماز ادا کرلیتے تو تکبیریں کہنا ختم کردیتے ۔
تکبیرات کا آغاز گھر سے
كان يُكبِّرُ يومَ الفطرِ من حين يخرجُ من بيتِه حتى يأتيَ المصَلَّى
صحيح الجامع: 5004
رسول کریم ﷺ گھر سے نکلتے ہوئے تکبیرات پڑھتے اور عید گاہ پہنچنے تک پڑھتے رہتے۔
تکبیرات بلند آواز سے کہنا
عید گاہ کو جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیریں کہنا ثابت ہیں۔3
عید کی تکبیرات
تکبیرات عید کے لئے رسول اللہ ﷺ سے کوئی خاص الفاظ ثابت نہیں ، البتہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین عظام رحمھم اللہ سے تکبیرات کے بعض الفاظ ثابت ہیں ، جیساکہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ وہ عید کے موقع پر یہ تکبیرات پڑھتےتھے:
اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ، لا إلهَ إلَّا الله، واللهُ أكبر اللهُ أكبر، ولله الحَمد4
اجتماعی تکبیر کا حکم
عيد ميں تكبيريں كہنا نبى كريم ﷺ سے مسنون و مشروع ہيں، اور يہ بھى باقى عبادات كى طرح ايك عبادت ہے، اس ليے اس كے متعلق سنت ميں وارد شدہ پر ہى انحصار و اقتصار كرنا ضرورى ہے، اور اس كى كيفيت ميں كسى بھى قسم كا نيا طريقہ ايجاد كرنا جائز نہيں، بلكہ جو سنت نبويہ ﷺ اور آثار سے ثابت و وارد ہے وہى كافى ہےاور تكبير كہنے كا طريقہ يہ ہے كہ ہر مسلمان شخص اكيلا بلند آواز سے تكبير كہے حتى كہ لوگ بھى سنيں اور اس كى اقتدا كريں اور وہ انہيں تكبيريں كہنا ياد دلائے، ليكن اجتماعى طور پر تكبيريں كہنا بدعت ہے وہ اس طرح كہ دو يا دو سے زيادہ افراد بلند آواز سے اكٹھے تكبيريں كہيں سب اكٹھے ہى تكبير كہنا شروع ہوں اور اكٹھے ہي بيك آواز ميں ختم كريں يہ بدعت طريقہ ہے۔اور اس عمل كى كوئى اصل نہيں اور نہ ہى كوئى دليل ملتى ہے، اور يہ تكبير كے طريقہ اور صفت ميں بدعت ہے۔ اللہ نے اس كى كوئى دليل نہيں اتارى، لہذا جو كوئى بھى اس طريقہ سے تكبيريں كہنے سے روكتا ہے وہ حق پر ہے؛ كيونكہ رسول كريم ﷺ كا فرمان ہے:
مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ
صحيح مسلم: 1718
” جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردودہے ” ۔
عید کی سنتیں اور آداب
غسل کرنا
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکے بارے میں آتا ہے :
كان يغتسل في هذين اليومين5
کہ وہ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عیدگاہ جانے سے پہلے غسل فرماتے تھے ۔
عمدہ کپڑے پہننا
یعنی اپنے پاس موجود کپڑوں میں سے سب سے بہتر کپڑا پہننا۔ نیا کپڑا پہننا ضروری نہیں ہے۔حضرت جابر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ:
كانت للنبي صلى الله عليه وسلم جبة يلبسها في العيدين، ويوم الجمعة
ابن خزيمة: 1766
”رسول الله ﷺکے پاس ایک جبّہ تھا جسے آپ ﷺعیدین اور جمعہ کے دن پہنتے تھے۔“
اچھی خوشبو لگانا
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح ثابت ہے کہ وہ عید الفطر کے دن خوشبو لگایا کرتے تھے۔6 جیسے کہ فریابی کیمیں موجود ہے۔
ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اہل علم کو عیدین کے دن زیب و زینت اور خوشبو لگانے کو مستحب کہتے ہوئے سنا ہے، اسی طرح امام شافعی نے بھی اسے مستحب کہا ہے۔7
پہلے نماز ، پھر خطبہ
حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ
كانَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَخْرُجُ يَومَ الفِطْرِ والأضْحَى إلى المُصَلَّى، فأوَّلُ شَيءٍ يَبْدَأُ به الصَّلَاةُ
صحيح البخاري: 956
”رسول الله ﷺعید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن عید گاہ تشریف لے جاتے تھے اور(وہاں پہونچ کر) سب سے پہلے نماز ادا فرماتے تھے(خطبہ سے پہلے نماز ادا فرماتے تھے)۔“
عید الفطر میں سنتِ نبویﷺ
حضرت بریدہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ :
كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ لا يخرج يومَ الفطرِ حتى يطعمَ، ولا يطعمُ يومَ الأضحى، حتى يصلي
صحيح الترمذي: 542
رسول اللهﷺکی عادتِ مبارکہ تھی کہ عید الفطر کے دن عید کی نماز کے لیے جانے سے قبل کچھ تناول فرماتے تھے اور عید الاضحیٰ کے دن عید کی نماز کے بعد ہی کھاتے تھے۔
طاق کھجوریں کھا کرعید گاہ جانا
عیدالفطر کے دن عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے طاق عدد کھجوریں یا کوئی بھی میٹھی چیز کھانی چاہیئے۔ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ:
كانَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لا يَغْدُو يَومَ الفِطْرِ حتَّى يَأْكُلَ تَمَراتٍ، وياكلهن وتراً
صحيح البخاري: 953
رسول اللہ ﷺعیدالفطر کے دن نہ نکلتے جب تک کہ آپ ﷺ چند کھجوریں نہ کھا لیتے اورآپ طاق عدد میں کھجوریں کھایا کرتے تھے۔
عید الاضحی میں سنتِ نبوی ﷺ
عید الاضحیٰ کے دن جو چیز آپ ﷺسب سے پہلے کھاتے تھے، وہ قربانی کا گوشت ہوتا تھا اور بیہقی کی روایت سے ثابت ہے کہ قربانی کے جانور میں کلیجی سب سے پہلی چیز تھی جو آپ ﷺتناول فرماتے تھے۔“
عید گاہ پیدل جانا اور پیدل واپس آنا
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ فرماتے ہیں:
أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يخرجُ إلى العيدِ ماشيًا ويرجعُ ماشيًا
صحيح ابن ماجه: 1077
کہ ”نبی ﷺعید کی نماز کے لیے پیدل جاتے تھے اور پیدل واپس آتے تھے۔
ایک راستے سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا
حضرت جابر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ:
كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ إذَا كانَ يَوْمُ عِيدٍ خَالَفَ الطَّرِيقَ
صحيح البخاري: 986
نبی ﷺعید کے دن (عیدگاہ) ایک راستہ سے جاتے تھے اور دوسرے راستے سے واپس آتے تھے۔
نماز عید بغیر آذان اور اقامت کے
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں :
صَلَّيْتُ مع رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ العِيدَيْنِ، غيرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ، بغيرِ أَذَانٍ وَلَا إقَامَةٍ.
صحيح مسلم: 887
میں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ کئی مرتبہ بغیر اَذان اور اِقامت کے نماز عیدین پڑھی ہے۔
عید کی نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ پڑھنا
عید کی نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ پڑھنا مسنون ہے ۔حضرت نعمان بن بشیر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ:
كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يَقْرَأُ في العِيدَيْنِ وفي الجُمُعَةِ بـ{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}، وَ{هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ}. قالَ: وإذَا اجْتَمع العِيدُ وَالْجُمُعَةُ في يَومٍ وَاحِدٍ، يَقْرَأُ بهِما أَيْضًا في الصَّلَاتَيْنِ.
صحيح مسلم: 878
عید کا خطبہ سننا
عید کی نماز کے بعدعید کے خطبہ میں حاضر رہنا اور غور سے سننا رسول اللہﷺکی سنت اور صحابا کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مبارک عمل ہے اور علم و تربیت کے ساتھ ساتھ اجر و ثواب میں زیادتی کا سبب بھی ہے اور سب سے بڑھ کر خطبہ کے آخر مسلمانوں کی دعاؤں میں شامل رہنے کا ذریعہ بھی جس کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے۔لیکن خطبہ میں حاضر رہنا واجب نہیں ہے۔ بلکہ خطبہ نما زکے تابع ہےیعنی چونکہ نماز عیدین سنت موٴکدہ ہے لہٰذا خطبہ سننا بھی واجب نہیں۔بوقت ِضرورت اٹھ کر جانے کا جواز ہے۔جیساکہ حضرت عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
شهِدْتُ مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ العيدَ، فلمَّا قضَى الصَّلاةَ قال: إنا نخطُبُ، فمَنْ أحبَّ أنْ يجلِسَ للخُطبةِ فَلْيجلِسْ، ومَنْ أحبَّ أنْ يذهَبَ فَلْيذهَبْ
صحيح أبي داود: 1155
کہ میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ عید میں حاضر ہوا تو جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا: ”ہم خطبہ دیں گے تو جو شخص خطبہ سننے کے لیے بیٹھنا چاہے تو بیٹھے اور جو جانا چاہے تو چلا جائے۔
خُطبے کے لیے منبر کا استعمال
عید کے خُطبے کے لیے منبر کا استعمال نہیں کیا جائے گا ۔نماز ِ عید سے پہلے خُطبہ دینے اور اِس خُطبہ کے لیے منبر اِستعمال کرنے کی بدعت مروان بن عبدالملک امیر(گورنر) مدینہ نے شروع کی ، اُس کے لیے کثیر بن الصلت نے مٹی اور گارے کا منبر تیار کیا تھا ۔(صحیح بخاری ، صحیح مسلم )
نمازِ عید سے پہلے یا بعد میں نفل نماز پڑھنا
عید گاہ میں نمازِ عید سے پہلے یا بعد میں کوئی بھی نفل نماز پڑھنا ممنوع ہے ۔حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے:
أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ خَرَجَ يَومَ الفِطْرِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا ولَا بَعْدَهَا ومعهُ بلَالٌ .
صحيح البخاري: 989
نبی کریم ﷺ عیدالفطر کے دن نکلے اور (عیدگاہ) میں دو رکعت نماز عید پڑھی۔ آپ ﷺ نے نہ اس سے پہلے نفل نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔ آپ ﷺ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
عورتوں کا عیدگاہ جانا
عید کے دن عورتوں کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم ہے ، جیساکہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
كُنَّا نُؤْمَرُ بالخُرُوجِ في العِيدَيْنِ، وَالْمُخَبَّأَةُ، وَالْبِكْرُ، قالَتْ: الحُيَّضُ يَخْرُجْنَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، يُكَبِّرْنَ مع النَّاسِ.
صحيح مسلم : 883
، ہمیں دونوں عیدوں میں نکلنے کا حکم دیاجاتا حتی کنواری اور جوان لڑکیوں کوعیدگاہ جانے کا حکم تھا ۔ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حیض والی عورتیں بھی نکلتیں اور وہ لوگوں سے الگ پیچھے رہتی تھیں اور وہ لوگوں کے ساتھ تکبیر کہا کرتی تھیں۔
عورتوں کی شرکت کی حکمت
اس میں ایک حکمت تو یہ ہے کہ خطبے میں دین کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔اوردین سیکھنا عورتوں پر بھی فرض ہے۔
دوسرے عید مسلمانوں کی اجتماعی شان وشوکت کے اظہا کا دن ہے۔عورتوں اور بچوں کی شرکت سے یہ مقصد زیادہ بہتر طریقے پر پورا ہوتا ہے۔
تیسرے یہ کہ عید اجتماعی خوشی کا موقع ہے۔جس میں مرد اورعورتیں سبھی اہل ایمان شامل ہیں۔لہٰذا عورتوں کو اس خوشی میں شرکت سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔
عورتوں کا تکبیر کہنا
عورتوں کا تکبیر کہنا بھی حدیث نبوی سے ثابت ہے ۔سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
كُنَّا نُؤْمَرُ أنْ نَخرُجَ يَومَ العِيدِ حتَّى نُخْرِجَ البِكْرَ مِن خِدْرِهَا، حتَّى نُخْرِجَ الحُيَّضَ، فيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، فيُكَبِّرْنَ بتَكْبيرِهِمْ، ويَدْعُونَ بدُعائِهِمْ، يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذلكَ اليَومِ وطُهْرَتَهُ.
صحيح البخاري: 971
نبی کریم ﷺکے زمانہ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔ کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہر آتی تھیں۔ یہ سب مردوں کے پیچھے پردہ میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں تاکہ عید کے دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کر سکے۔
یعنی عید کے دن عورتیں بھی تکبیریں کہتی تھیں اور مسلمانوں کے ساتھ دعاؤں میں بھی شریک ہوتی تھیں۔ درحقیقت عیدین کی روح ہی بلند آواز سے تکبیر کہنے میں مضمر ہے تاکہ دنیا والوں کو اللہ پاک کی بڑائی اور بزرگی سنائی جائے اور اس کی عظمت کا سکہ دل میں بٹھایا جائے۔ آج بھی ہر مسلمان کے لیے نعرہ تکبیر کی روح کو حاصل کرنا ضروری ہے۔ مردہ قلوب میں زندگی پیدا ہوگی۔
عیدین میں تکبیرا ت اور نمازِ عید کا طریقہ:
نمازِ عید کا آغاز دیگر نماز وں کی طرح تکبیرِ تحریمہ سے ہو گا ، لیکن نمازِ عید میں تکبیرِ تحریمہ کے بعد مزید تکبیرات بھی پڑھی جاتی ہیں۔ پہلی رکعت میں تلاوت سے پہلے سات تکبیریں کہی جائیں گی ، اور دوسری رکعت میں سجدے سے کھڑے ہو چکنے کے بعد پانچ تکبیریں ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فطراور قربانی ( والے دن کی نمازوں میں ) پہلی رکعت میں(تکبیرِ تحریمہ کے بعد اور قراءت سے پہلے) سات تکبیریں بلندکیا کرتے اور دوسری میں(قراءت سے پہلے) پانچ تکبیریں ، (دونوں رکعتوں کی یہ تکبیریں) رکوع کے (لیے کہی جانے والی) تکبیروں کے علاوہ ہیں ۔8
صدقہ فطر ادا کرنا
عید کے دن نمازِ عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :
فَرَضَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِن تَمْرٍ، أوْ صَاعًا مِن شَعِيرٍ علَى العَبْدِ والحُرِّ، والذَّكَرِ والأُنْثَى، والصَّغِيرِ والكَبِيرِ مِنَ المُسْلِمِينَ، وأَمَرَ بهَا أنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إلى الصَّلَاةِ.
صحيح البخاري: 1503
رسول اللہ ﷺنے صدقہ فطر ایک صاع (18ء3 کلوگرام) کھجور یا ایک صاع جَو کی مقدار ہر (صاحبِ استطاعت) غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر واجب فرمایا اور اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کرنے کا حکم فرمایا۔
صدقہ فطرنکالنےکا وقت
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لها وقتان : وقت جواز ، وهو قبل العید بیوم أو یومین ، ووقت فضیلة وهو : یوم العید قبل الصلاة9
صدقہ فطرنکالنے کے دو اوقات ہیں: وقتِ جواز : جو عید سے ایک یا دو دن پہلے ادا کرنے کا ہے اور ایک فضیلت کا وقت : جو عید کے دن نماز سے پہلے ادا کرنا ہے۔
عید کی مبارکباد دینا
عید کی مبارکباد دینا اصحاب رسول کا عمل ہےاور یہ چاروں مکاتب فقہ کا متفقہ فتوی ہے کہ عید کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں۔اس کیلئے کوئی بھی اچھے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں، اس کیلئے افضل ترین الفاظ ” تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ” ہیں؛ کیونکہ یہ الفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہیں۔چنانچہ جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ :
كان أصحاب النبي إذا التَقَوا یومَ العیدِ یقول بعضهم لبعض : تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ 10
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام عید کے موقع پر جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو کہتے:
” تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ”
اسی طرح حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عید کے دن رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور میں نے کہا :
تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ11
اللہ تعالیٰ ہمارے اور آپ کے نیک اعمال قبول فرمائے تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں ہاں ضرور !
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
عید کی نماز سے واپس آنے کے بعد اگر کوئی اپنے بھائی سے کہہ دے کہ: ” تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ، وَغَفَرَ اللهُ لَنَا وَلَكَ ” اور آگے سے جواب میں بھی اسی طرح کے الفاظ کہے تو کیا یہ مکروہ ہے؟ تو انہوں نے کہا: “یہ مکروہ نہیں ہے۔12
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن وحدیث کے تمام احکام کامکمل طور پر ادائیگی کا ایسا پابند بنادے کہ ہر ہمارا ہر دن عید کا دن بن جائے ۔
اللهم آتنا في الدنيا حَسَنَةً وفي الآخرةِ حسنةً وقِنَا عذابَ النارِ ، اللهم آتِ نُفُوسَنا تَقْواهَا ، وَزَكِّها أنت خيرُ مَنْ زَكَّاها، أنت وَلِيُّهَا ومولاها ، اللهم إنا نسألك الجَنَّةَ وما قَرَّبَ إليها من قولٍ أو عملٍ ، ونعوذُ بك من النارِ وما قَرَّبَ إليها من قَوْلٍ أو عَمَلٍ . اللهُمَّ وفِّقْ ولاةَ أمورِ المسلمين لما تُحِبُّه وترضاه ، اللهم اجعلهم رحمةً على عبادِك ، مُحَكِّمين لشرعِك ، وارزقْهم البطانةَ الصالحةَ . اللهم احفظْ بلادَنا وجميعَ بلادِ المسلمين منْ كلِّ سوءٍ ومَكْرٍ وكَيْدٍ .اللهم ارفعْ عنَّا الوباءَ والغلاءَ والفِتَنَ ما ظَهَرَ منها وما بَطَنَ . اللهُمَّ تقبَّلْ صيامَنا وقيامَنا ، اللهم اغفرْ لنا ولآبائِنا وأمهاتِنا ، وأَصْلِحْ قلوبَنا وذرياتِنا وأزواجَنا ، اللهم تُبْ علينا إنك أنت التوابُ الرحيمُ . اللهم اجعلْ خيرَ أعمالِنا خواتيمَها ، اللهم اختمْ بالصالحاتِ أعمالَنا ، اللهم اغفرْ لنا ولوالدِينا وللمسلمين ، اللهم اجعلنا مِمَّنْ وفقْتَه لصيامِ وقيامِ شهرِ رمضانَ إيماناً واحتساباً ، اللهُمَّ باركْ لنا في أعمارِنا وأعمالِنا وأرزاقِنا وذرياتِنا .اللهم صلِّ وسَلِّمْ وباركْ على نبيِّنا محمَّدٍ .سبحانَ ربِّك ربِّ العِزَّةِ عما يصفون ، وسلامٌ على المرسلين ، والحمدُ للهِ ربِّ العالمين .
- (بخاري،: 4418 )
- مجموع الفتاوى (328/17)
- (السنن الکبری للبیہقی 3؍279و سندہ حسن)
- رواه ابنُ أبي شَيبةَ (5651). وصحَّح إسنادَه الألباني في إرواء الغليل: 3/125
- أخرجه مالك في الموطأ بسند صحيح :1/146
- کتاب: “احکام العیدین” للفریابی، صفحہ: 83
- فتح الباری از ابن رجب : 6 / 68 )
- ( مجموع الفتاوی : 18/266)
- ( مجموع الفتاوی : 18/266)
- (فتح الباری : 2 / 517 ، وتمام المنة للألباني : 354 ، بإسناد صحیح )
- (سنن البہیقی :6088 وحسّنه الألباني )
- ( المنتقى شرح الموطأ : 1 / 322)