اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ
اَمَّا بَعْدُ
انسانی زندگی میں لین دین کی اہمیت اور ضرورت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کوئی بھی انسانی معاشرہ لین دین کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، تو یہ مبالغہ نہ ہوگا، اس لیے کہ انسانی معاشرے میں بسنے والے لوگ اپنی ضروریاتِ زندگی کو مکمل کرنے اور اسے بہتر بنانے کے لیے ایک دوسرے کے محتاج ہیں جو لین دین کا متقاضی ہے۔ اگرچہ شریعت نے مالی معاملات کے تعلق سے مفصل احکام بیان فرمائے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے اندر موجود زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی حرص، طمع اور لالچ کے باعث بسا اوقات حلال و حرام کے اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر صرف حصولِ نفع کو ہی اپنا مطمحِ نظر اور ہدف بنا لیتے ہیں جو معاشرے کے کمزور طبقوں کے استحصال، ناجائز منافع خوری اور ناحق مال کھانے جیسے جرائم کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بد امنی اور فساد پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ لوگوں کے اسی مزاج کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے شریعت نے لین دین اور حصولِ منفعت کے حوالے سے کچھ ایسے قواعد و ضوابط مقرر فرمائے ہیں کہ جن پر کاربند رہنے سے ان تمام مفاسد کا سدِ باب ہو جاتا ہے، بشرطیکہ انہیں سرِ تسلم خم کیا جائے نہ کہ مختلف حیلے اور بہانوں سے اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال کرنے کی کوشش کی جائے، جیسا کہ یہودی کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے جب یہودیوں پر ہفتے کے دن شکار کرنے کی پابندی عائد فرمائی تو انہوں نے اس کے لئے چور راستے نکالے ۔ وہ یا تو جمعہ کو ہی سمندر میں جال بچھا دیتے یا پھر کنارے پر حوض وغیرہ کھود دیتے۔ جب مچھلیاں اس میں پھنس جاتیں تو نکلنے کا راستہ بند کر دیتے اور اتوار کو جا کر شکار کرلیتے ۔ اسی طرح جب اللہ تعالی نے ان پر چربی کو حرام قرار دیا تو انہوں نے اسے پگھلایا اور تیل بنا کر بیچنا شروع کردیا۔ وہ اپنے زعمِ باطل میں یہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے چربی نہیں کھائی بلکہ تیل کی کمائی کھائی ہے۔ یہ یہودیوں کی خباثت اور شرارت تھی کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کی خودساختہ اور من چاہی تفسیر کرتے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ1
وہ لوگ جو یہودی بن گئے، ان میں سے کچھ لوگ بات کو اس کی جگہوں سے پھیر دیتے ہیں۔
اور یہ خباثت صرف یہودیوں ہی میں نہیں بلکہ مشرکین میں بھی تھی۔ وہ بھی اپنے حیلوں کے ذریعے اللہ تعالی کی حرمتوں کو پامال کیا کرتے تھے ،چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے:
يُحِلُّونَهُ عاماً وَيُحَرِّمُونَهُ عاماً لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا ما حَرَّمَ اللَّهُ2
ایک سال اسے حلال کرلیتے ہیں اور ایک سال اسے حرام کرلیتے ہیں، تاکہ ان کی گنتی پوری کرلیں جو اللہ نے حرام کیے ہیں۔
غور طلب بات:
آج بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جوعلماء کرام سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے حرام کردہ امور کو ان کے لیے یا تو حلال کردیں یا پھر اس میں کوئی ایسی گنجائش پیدا کردیں کہ وہ حرام کام کا ارتکاب بھی کرلیں اور انہیں گناہ بھی نہ ملے۔ یہ کتنی ہی عجیب سوچ ہے! گویا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ معاذاللہ علماء کرام کو بھی شرعی معاملات میں قانون سازی کا کوئی اختیار حاصل ہے کہ ان کے حلال قرار دینے سے حرام چیز حلال ہو جائے گی۔ کیا محض ناموں کی تبدیلی سے ہر طرح کا حرام حلال ہو جائے گا؟ قطعا نہیں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں ایسے اور اس سے ملتے جلتے فتنوں کی نشاندہی پہلے ہی فرما دی تھی۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ليشرَبنَّ ناسٌ من أمَّتي الخمرَ يُسمُّونَها بغيرِ اسمِها
کہ میری امت میں سے کچھ لوگ شراب کو اس کا نام تبدیل کرکے پئیں گے
اس حدیث کے آخر میں ان کی سزا کا بھی بیان ہے کہ:
ويجعَلُ منهمُ القِرَدةَ والخَنازيرَ3
کہ اللہ ان میں سے ہی کچھ کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔
مشہور تابعی جناب ایوب السختیانی فرماتے ہیں :
يُخَادِعُونَ اللَّهَ كَمَا يُخَادِعُونَ آدَمِيًّا، لَوْ أَتَوُا الأَمْرَ عِيَانًا كَانَ أَهْوَنَ4
وہ اللہ کو ایسے دھوکہ دیتے ہیں جیسا کہ کسی انسان کو دھوکہ دیا جاتا ہے اگر وہ حیلہ کے بجائے براہ راست اس گناہ کے مرتکب ہو جائیں تو گناہ کمتر ہوتا۔
کیونکہ اس حیلے میں اس حرام گناہ کے ارتکاب کے ساتھ ساتھ اللہ کو دھوکہ دینے کی جسارت بھی شامل ہو جاتی ہے۔
مورگیج اور جاوید احمد غامدی صاحب کی رائے:
معروف ٹی وی اینکر اور دانشور جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی طرف سے وقتاً فوقتاً عجیب وغریب آراء سامنے آتی رہتی ہیں ، انہی آراء میں سے ایک رائے
Mortgage پر گھر لینے کے تعلق سے ہے۔ Mortgage کی چند صورتیں اگرچہ جائز اور اسلامی اصولوں کے مطابق ہیں، لیکن فی زمانہ امریکہ اور یورپ وغیرہ میں گھروں کو خریدنے کے لیے Mortgageکا جو طریقہ رائج ہے، ( یہی طریقہ پاکستان میں بھی ہوم فائنانس کے نام سے رائج ہے )
اس میں سودی پہلو کے نمایاں ہونے کے باعث علماء نے اسے حرام قرار دیا تھا۔ لیکن غامدی صاحب کا اس حوالے سے ایک نرالہ موقف سامنے آیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ:
”آپ اگر بینک سے جا کے کہیں کہ مجھے دو کروڑ روپیہ دے دیجیے، تو وہ آپ کو ایک پائی بھی دینے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوگا ۔ لیکن وہ کار کی شکل میں آپ کو لاکھوں دے دیتا ہے اور مکان کی صورت میں آپ کو کروڑوں دے دیتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس میں روپیہ ایک Consumableچیز کی بجائے ایک Usableچیز میں بدل گیا ہے، تو جب روپیہ Usableچیز میں بدل جاتا ہے تو اس میں پھر سود نہیں ہوتا ۔ سود صرف Consumableچیزوں میں ہوتا ہے۔ یعنی Usableچیزوں میں کبھی سود نہیں ہوتا ، اس میں جو آپ زائد دیتے ہیں تو وہ کرایہ ہے۔ مثال کے طور پر آپ کا ایک گھر ہے۔ میں آپ کے پاس کرائے پر گھر لینے کے لیے آتا ہوں ۔ آپ مجھے یہ کہیں کہ اس کا 50 ہزار روپے مہینے کا کرایہ دے دیا کرو اور 50 ہزار روپے کی قسط کر لو ،آج کی قیمت کے لحاظ سے جب قسط پوری ہو جائے گی تو مکان بھی تمہارا ہو جائے گا۔ یہ تو سراسر احسان ہے! کون اس کو کرنے کے لیے تیار ہے؟ بینک آپ کے ساتھ یہی کام کرتا ہے۔ اس لیے میرے نزدیک Mortgageپر گھر لینا، گاڑی لینا، کوئی بھی چیز لینا، یہ بالکل جائز ہے، اس میں کوئی ادنی درجہ خرابی کی چیز نہیں ہے۔!
غامدی صاحب کی رائے کا جائزہ:
غامدی صاحب کے اس موقف سے ہی آپ اندازہ لگا لیں وہ مسلمانوں کے کتنے خیر خواہ ہیں کہ ہمیشہ ان کو مشکلات سے نکالنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ چاہے اس کے لیے دین اور شرعی احکامات کو ہی داؤ پر کیوں نہ لگانا پڑ جائے۔! پھر اس کوشش میں غامدی صاحب صرف شرعی احکامات اور اصولوں کو ہی پامال نہیں کرتے بلکہ اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے Financial Definitions اور دنیا میں رائج اقتصادیات اور معاشیات کے اصولوں کو بھی پسِ پشت ڈال دیتے ہیں جیسا کہ ان کے پیش کردہ موقف سے بھی واضح ہو رہا ہے کہ بینک بنیادی طور پر آپ کو پیسے نہیں دے رہا بلکہ گھر دے رہا ہے ۔ چونکہ اب وہ پیسہ ایک استعمال شدہ چیز میں تبدیل ہو گیا ہے تو اس کا کرایہ بینک آپ سے لے سکتا ہے۔ اب آخر میں وہ کرائے کے ساتھ اس کی قسطوں کی تکمیل پر اگر گھر آپ کی ملکیت میں دے دے تو اس میں حرج ہی کیا ہے ؟
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غامدی صاحب کے اس موقف میں شرعی اور مروجہ اقتصادی اصول دونوں کے مطابق حرج موجود ہے۔ جو شخص اقتصادیات کی Definitionسے واقف ہوگا وہ اس حرج کو باآسانی سمجھ جائے گا ۔اگر آپ گوگل پر Mortgageکی تعریف تلاش کریں تو یہ تعریف سامنے آتی ہے :
A mortgage is a loan used to purchase or maintain a home, plot of land, or other real estate. The borrower agrees to pay the lender over time, typically in a series of regular payments divided into principal and interest. The property then serves as collateral to secure the loan.
اس تعریف کی رُو سے بھی Mortgageبنیادی طور پر خرید و فروخت کا کوئی معاہدہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ تو قرض کی ایک شکل ہے جو دو فریق، قرض دینے والے اور قرض لینے والے کے مابین طے پاتا ہے۔ اس میں قرض دینے والا بینک جبکہ قرض لینے والا صارف ہوتا ہے ۔ Mortgageکی اس صورتحال کو سمجھنے کے بعد یہ بھی یاد رہے کہ بہت سے ممالک میں باقاعدہ یہ قانون موجود ہے کہ بینک خرید و فروخت کے معاملات میں شامل نہیں ہوسکتا۔ وہ کسی جائیداد کو حاصل کرکے اسے آگے فروخت نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ بینک کی حیثیت محض ایک مالیاتی ادارے کی ہے، جس کا کام صرف مالیاتی تعاون فراہم کرنا ہے نہ کہ خرید و فروخت کرنا ۔ تو اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ Mortgageقرض کی ہی ایک صورت ہے اور یہی تعریف دیگر کئی اداروں نے بھی کی ہے۔ مزید یہ کہ آپ Mortgageکے ایگریمنٹ کو ہی دیکھ لیں ، اس میں تفصیل کے ساتھ واضح کیا گیا ہے کہ آپ نے کتنا سود ادا کرنا ہے ، اور کب ادا کرنا ہے، نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس صورت میں آپ پر جرمانہ لاگو ہوگا۔ اگر یہ خرید و فروخت ہی کا معاہدہ ہے تو اس میں Interestیعنی سود کہاں سے آگیا !؟
مندرجہ بالا تفصیلات سے ثابت ہوا کہ اقتصادی اصول اور مالیاتی تعریفات کی رُو سے تو غامدی صاحب کا موقف غلط ہے ہی لیکن شرعی تعلیمات کی رُو سے بھی اگر دیکھا جائے تو غامدی صاحب کا موقف درست نہیں ہے ۔ کیونکہ شرعی تعلیمات کے مطابق جو چیز بھی آپ بیچنا چاہتے ہیں اس کی ملکیت آپ کے پاس ہونی ضروری ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ :
لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ5
جو چیز آپ کی ملکیت میں نہیں اسے نہ بیچیں۔
اگر بالفرض ہم اسے خرید و فروخت کا معاہدہ بھی مان لیں تب بھی اس حدیث کی روشنی میں یہ جائز نہ ہوگا۔ کیونکہ جو چیز بینک کی ملکیت میں نہیں ہے تو وہ اسے فروخت بھی نہیں کرسکتا۔ جب آپ بینک کے پاس جا کر کسی گھر کا معاہدہ کرتے ہیں تو کیا وہ گھر بینک کی ملکیت میں ہوتا ہے؟ یقینا نہیں ہوتا! بلکہ وہ گھر بنایا کسی اور نے ہوتا ہے، تعمیر کسی اور کی ہوتی ہے، اس کا مالک بھی کوئی اور ہوتا ہے ، جو اس کی ایک قیمت مقرر کرتا ہے ۔ آپ وہاں جا کر Mortgageکا معاہدہ کرتے ہیں پھر بینک اس گھر کی قیمت گھر کے مالک کو ادا کرکے آپ کے نام سے اسے خرید کر پھر اس کے کاغذات اپنے پاس رکھتا ہے ، ان سب معاملات میں بینک کا کردار سوائے مالیاتی تعاون فراہم کرنے کے اور کچھ بھی نہیں۔ وہ گھر کبھی بینک کی ملکیت تھی ہی نہیں تو Financial تعریف اور شرعی تعریف دونوں لحاظ سے یہ خرید و فروخت کی صورت بنتی ہی نہیں ہے، اگر ہم اس کو خرید و فروخت کا معاہدہ مان بھی لیں تو بھی شرعی تعلیمات کے لحاظ سے اس گھر کا اس بینک کی ملکیت میں ہونا ضروری تھا ، جو کہ نہیں ہے ! تو بنیادی طور پر ان کے لیے اس گھر کا بیچنا بھی ناجائز ہوا ۔ جب بیچنا ہی ناجائز ہوا تو پھر اس پر مزید سود کو بھی شامل کرلینا کہ خریدار اس کو ادا کرتا رہے ، یہ تمام معاملات شرعی تعلیمات سے سراسر متصادم ہیں۔
اس لیے Mortgageقطعی طور پر حرام ہے! غامدی صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنی اس رائے پر نظرثانی فرمائیں۔ کہیں ان کی یہ رائے بھی انہی حیلوں کی طرح ایک حیلہ تو نہیں جس میں اللہ تعالی کے حرام کردہ چیزوں کے نام تبدیل کر کے انہیں حلال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔!؟
اللہ تعالی غامدی صاحب کو ہدایت عطا فرمائے کہ وہ امت کو گناہ اور حرام کی طرف لے جانے سے باز رہیں ۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
_______________________________________________________________________________