کارانشورنس جائز یا ناجائز؟

موجودہ دور میں جہاں تن آسانی اور سہولیات کی فراوانی ہے وہی کچھ چیزوں میں پریشانی اور نقصان کا اندیشہ بھی ہے۔جیسے تجارت  میں نئی جہتیں اور طور طریقے رائج ہورہے ہیں تو وہیں   مال یا سودے میں  نقصان  کے امکانات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔  تجارت میں نقصان کے اِس پہلو کے پیش ِ نظر  اِس میدان میں ایک اور جہت کا اضافہ ہوا جو موجودہ دور کی  تجارت میں جزوی طور پر رائج ہوچکا ہے جسے ہم ضمانت(Insurance)کے نام سے جانتے ہیں۔

انشورنس  کامفہوم :

عام طور پر جس طرح کےتجارتی  معاملات میں   ہمیں انشورنس کی ضرورت پیش آتی ہے  اُس میں گڈز انشورنس، میڈیکل انشورنس،کار انشورنس اور لائف انشورنس شامل ہیں۔اس کے علاوہ بھی کئی طرح کے معاملات میں انشورنس کی پالیسیاں   آتی رہتی ہیں۔انشورنس کیا ہےاور یہ کہ  اسے فراہم کرنے والے ادارے کس طرح کام کرتے ہیں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔

مثال کے طور پر صارف ایک گاڑی خریدتا ہے جس کی قیمت تیس لاکھ روپے ہے ۔اب چونکہ گاڑی قیمتی ہے تو کسی حادثے کی صورت میں نقصان بھی زیادہ ہوگا اسی خدشے کے پیشِ نظر صارف کسی انشورنس کمپنی سے کار کی انشورنس پالیسی لے لیتا ہےجس میں ہوتا یہ ہے کہ کمپنی گاڑی کی قمیت کے حساب سے ایک پالیسی بناتی ہے اور صارف کو دے دیتی ہے ۔گاڑی اگر تیس لاکھ کی ہے تو انشورنس دس لاکھ کی ہوگی  جو کہیں دو سال تو کہیں پانچ سال تک کے لئے کارآمد ہوگی۔  اب یہ دس لاکھ کی رقم صارف کوطے شدہ مدت میں قسط وار دینے ہوگی ۔پھر خدانخواستہ اگر انشورنس کی مدت کے درمیان گاڑی کوکوئی حادثہ پیش آجاتا ہے  تو صارف کے انشورنس کلیم کرنے پر کمپنی صارف کو دس لاکھ کی رقم ادا کرے گی چاہے صارف نے صرف چھ ماہ  کی قسطیں ادا کی ہوں یا چار ماہ کی ۔ کمپنی صارف کو پورے دس لاکھ دینے کی پابند ہوگی۔

اسی طرح گڈز انشورنس  کا معاملہ ہے جس میں صارف بیرونِ ملک سے کوئی چیز منگواتا ہے تو نقصان سے بچنے کے لئے اُس سامان پر انشورنس حاصل کرلیتا ہے۔بظاہر یہ سادہ سا معاملہ ہے جس میں کسی چیز کے نقصان کی پیشگی ضمانت حاصل کی گئی ہے ۔اب اگر ہم شریعت کے بیان کردہ اُصولوں پر اِس معاملے کا جائزہ لیں تو سمجھ آتا ہے کہ یہ معاملہ کسی طرح  بھی جائز نہیں ہے ۔

سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہونی چاہیئے کہ شریعت میں تجارت پر کسی قسم کے  نقصان سے بچنے کے لئے پیشگی احتیاطی تدابیر (risk management)  اختیار کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے ۔بلکہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

  وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ

البقرۃ – 195

اور(جان بوجھ کر) اپنے  آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

قرآن ِ کریم کی اِس آیت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔جبکہ  انشورنس احتیاطی تدبیر والا معاملہ نہیں ہے  اور علماء نے اِسے حرام قرار دیا ہےجس کی وجہ سُود ہے۔

انشورنس میں سود کا عنصر :

کسی بھی تجارت میں اگر ہم جنس چیز کا سودا ہورہا ہوتو اس میں قیمت ایک ہی ہونی چاہیئے، اُس میں فرق نہیں ہونا چاہیئے ۔مثال کے طور پر صارف نے کمپنی سے دس لاکھ روپے کی انشورنس لے لی اور قسطوں کی ادائیگی شروع ہوگئی، ابھی صارف نے صرف دولاکھ روپے کی رقم ہی اداکی تھی کہ صارف کسی حادثے کا شکار ہوگیا ۔اب صارف کی جانب سے حادثے میں ہونے والے نقصان کی تلافی کے لئے انشورنش کو کلیم کیا گیا۔ آسان اور مختصر الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ صارف نے انشورنس کی مد میں صرف دو لاکھ روپے ادا کئے تھے لیکن حادثے کی وجہ سے کلیم کرنے پر اُس نے دس لاکھ روپے کمپنی سے وصول  کئے  جو کہ سُود ہے ،حرام ہے۔

انشورنس میں جُوّے کا عنصر :

پھر سُود کے علاوہ اِس میں جُوّے کا عنصر بھی شامل ہے ۔اور جُوّے کے بارے میں ہم نے گذشتہ ایک بیان میں  بتایا تھا کہ جب دوفریق کسی تجارتی معاہدے میں شامل ہوں اور اُن دونوں میں سے کوئی بھی یہ نہ جانتا ہو کہ وہ نقصان میں رہے گا یا فائدے میں تو یہ جُوّا کہلائے گا۔

کار انشورنس میں بھی جُوّا اِسی طرح ہوتا ہے کہ صارف اور انشورنس کمپنی کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے لیکن دونوں میں سے کوئی یہ نہیں جانتا کہ کون فائدے میں رہے  گا اور کون نقصان میں۔صارف اگر دس لاکھ روپے مکمل ادا کردیتا ہے اور اُسے انشورنس کلیم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تو وہ  نقصان میں رہا ۔اِ س کے برعکس اگر وہ معاہدے کے ابتدائی ایام میں کسی حادثے کی وجہ سے انشورنس کلیم کرتا ہے تو کمپنی کو ایک یا دوو لاکھ کے عوض میں دس لاکھ روپے ادا کرنے پڑے جس کی وجہ سے کمپنی نقصان میں رہی اور یوں یہ معاملہ جُوّے کی شکل اختیار کر گیا۔

یہاں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ  یہ دل کے اطمینان  کے لئے ہے تاکہ دلی طور پر وہ مطمئن ہوں کہ کسی حادثے اور نقصان کی صور ت میں ان کے پاس کوئی متبادل حل ہے یا یہ کہ نقصان کے ازالے کی صورت ہے۔کسی بھی معاملے میں تالیف ِ قلبی  اور دلی اطمینان حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ معاملہ حرام کردہ چیزوں کا نہ ہو، اُس میں اللہ رب العالمین کی معین کردہ حدود سے تجاوز نہ ہو،رب کی نافرمانی نہ ہو  اور شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو۔یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اپنی جمع پونچی بینک میں اس لئے رکھوارہا ہے تاکہ وہ محفوظ رہے اور ساتھ ساتھ اُسے ایک معقول منافع بھی ملتا رہے تو یہ جائز نہیں ہوگا کیونکہ یہ سُود ہے ۔اسی طرح کار انشورنس ،گڈز انشورنس اور لائف انشورنس   بھی سُود اور جُوّے کی وجہ سے حرام ہےجس سے شریعت نے ہمیں منع کیا ہے ۔البتہ میڈیکل انشورنس کا معاملہ دیگر انشورنس کے معاملات سے قدرے مختلف ہے  جس میں جواز اور ممانعت دونوں طرح کی صورتیں موجود ہیں۔ جس کی تفصیل آئندہ مضمون میں بیان کی جائےگی۔ ان شاءاللہ

اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نا جائز اورحرام تجارت سے محفوظ فرمائے اور حلال  تجارت کو اختیار کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے ۔ آمین

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ عثمان صفدر حفظہ اللہ

آپ کراچی کے معروف دینی ادارہ المعہد السلفی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالشھادۃ العالیہ کی سند حاصل کی، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، نیز اسلامک بینکنگ اور فنانس میں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی جاری ہے۔ اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی کے مدیر ، الھجرہ آن لائن انسٹیٹیوٹ کے مدیر ہیں ، البروج انسٹیٹیوٹ کراچی میں مدرس کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔