سودی معیشت اور جدیدبینکاری

 اسلام ایک فطری مذہب ہے یہ حقوق العباد کو حقوق اللہ کی طرح بڑی اہمیت دیتا ہےبلکہ بعض روایات سے تو یہاں تک واضح ہوتا ہے کہ حقوق اللہ کی نسبت حقوق العباد کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ حقوق اللہ کی بابت تو یہ امیدکی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالی عفو و کرم کرتے ہوئے بندے کو معاف کردے گااس کے برعکس حقوق العباد کے متعلق یہ آیا ہے کہ جب تک حق والا معاف نہیں کرے گا اللہ تعالی بھی اسے معاف نہیں کرے گا۔ اسی لئے اسلام نے ہر اس عمل کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے جس سے لوگوں کے حقوق کی پامالی اور حق تلفی ہوتی ہو۔اسلام نے جن باتوں کو ناجائز اور حرام قرار دے کر انسانوں کو ان سے روکا ہےان میں سے ایک سود بھی ہے۔چونکہ سود وہ معاملہ ہےجس میں تھوڑی رقم یا جنس دے کر زیادہ رقم یا جنس لی جاتی ہے۔اس میں سود دینے والے پر ظلم ہوتا ہے اور سود لینے والابیٹھے بٹھائے بغیر کسی محنت کے منافع کمارہا ہےاسی لئے اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے۔

سود کی مذمت:

﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّٰهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (275) يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (276) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (277) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (278) فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279)﴾

البقرۃ: 275 – 279

ترجمہ: ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنادیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سود بیچنا بھی (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام تو جس کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا اور (قیامت میں) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد اور جو پھر لینے لگے گا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں جلتے رہیں گے۔ اللہ سود کو نابود (یعنی بےبرکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوۃ دیتے رہے ان کو ان کے کاموں کا صلہ اللہ کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔اے ایمان والو اللہ تعالٰی سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ ہاں اگر توبہ کر لو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔

نیز ارشاد ہے:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾

آل عمران: 130

ترجمہ: ’’ اے ایمان والو! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو‘‘ ۔

نیز ارشاد ہے:

﴿فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا؀ وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا﴾

النساء: 160 – 161

ترجمہ: تو ہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کو حلال تھیں ان کو حرام کردیں اور اس سبب سے بھی کہ وہ اکثر اللہ کے راستے سے (لوگوں کو) روکتے تھے ۔ اور اس سبب سے بھی کہ باوجود منع کئے جانے کے سود لیتے تھے اور اس سبب سے بھی کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لئے ہم نے درد دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

نیز اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ﴾

الروم: 39

ترجمہ: اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو اللہ کے نزدیک اس میں افزائش نہیں ہوتی اور جو تم زکوۃ دیتے ہو اور اس سے اللہ کی رضامندی طلب کرتے ہو تو (وہ موجب برکت ہے اور) ایسے ہی لوگ (اپنے مال کو) بڑھانے والے ہیں۔

سود کا مفہوم

قرآن مجید میں سود کے لئے ربوٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔جس کا معنی ہے اضافہ اور زیادتی۔گویا لغوی طور پر اصل رقم پر جو بھی اضافہ ہو اسے سود کہا جاتا ہے۔مگر رقم پر اضافہ کی ہر صورت ربوٰ یا سود نہیں بلکہ اس کی بعض سورتیں جائز اور بعض ناجائز ہیں۔مثلاً کاروبار اور تجارت کے ذریعہ بھی اصل رقم پر منافع کی صورت میں اضافہ ہوتا ہے یہ شرعاً بھی جائز ہے اور اخلاقاً بھی۔مگر سود اصل رقم پر مخصوص انداز کا اضافہ ہے جس کی اجازت قطعا ً نہیں بلکہ یہ سرے سے حرام ہے۔اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا:

’’کہ اللہ تعالی نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے۔‘‘

چونکہ عربوں میں سود یا ربوٰ کی صورت متعین اور معلوم تھی اس لئے اس کی وضاحت اور تشریح کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:’’ دور جاہلیت میں ایک آدمی دوسرے کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور قیمت کی ادائیگی کے لئے وقت مقرر کرلیتا۔اگر مقررہ مدت پر وہ ادائیگی نہ کرسکتاتو وہ قیمت میں اضافہ قبول کرکے مزید مہلت لے لیتا تھا۔اسے سود کہتے تھے‘‘۔

﴿اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ً﴾

البقرۃ: 275

ترجمہ:کہ اللہ تعالی نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے۔

چونکہ عربوں میں سود یا ربوٰ کی صورت متعین اور معلوم تھی اس لئے اس کی وضاحت اور تشریح کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:’’ دور جاہلیت میں ایک آدمی دوسرے کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور قیمت کی ادائیگی کے لئے وقت مقرر کرلیتا۔اگر مقررہ مدت پر وہ ادائیگی نہ کرسکتاتو وہ قیمت میں اضافہ قبول کرکے مزید مہلت لے لیتا تھا۔اسے سود کہتے تھے‘‘۔

 اسی طرح مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے۔’’قبل از اسلام رواج تھاکہ ایک آدمی قرض لیتا اور کہتا کہ اگر تم  مجھے اتنی مہلت دے دو تو میں اصل رقم سے اتنی رقم زائد دوں گا‘‘۔ یہ بھی سود کی ایک صورت تھی جسے قرآن مجید نے حرام قرار دیا ہے۔

تجارت اور سود میں بنیادی فرق: سود خور لوگ اس معاملہ کو جائز ثابت کرنے کے لئے کہا کرتے ہیں کہ ہمارا یہ معاملہ بھی ایک قسم کی تجارت ہے جس طرح تجارت میں منافع جائز ہے اس طرح ہم بھی اپنی رقم پر منافع لیتے ہیں۔

 ان لوگوں کی بات سراسر غلط اور خلاف حقیقت ہے کفار بھی یہی کہا کرتے تھے۔چنانچہ اللہ تعالی نے ان کا ذکر یوں کیا ہے :

﴿ اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ﴾

البقرۃ: 275

’’ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنادیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سود ابیچنا بھی (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ تجارت کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام‘‘۔

 اس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ ربوٰ یعنی سود کو ایک قسم کی تجارت کہتے تھے۔اللہ تعالی نے تجارت کو حلال اورربوٰ یعنی سود کو حرام کیا ہے۔

تجارت اور سود میں فرق

حالانکہ یہ دونوں معاملے الگ الگ ہیں۔تجارت میں ایک آدمی اپنی چیزکو فروخت کرنے کے لئے پیش کرتا ہے اور دوسرا اسے خرید رہا ہوتا ہے۔اس میں تاجر جو اصل رقم سے زائد رقم لیتا ہے اسے نفع کہا جاتا ہے۔تجارت کا نفع اس لئے جائز ہے کہ بیچنے والے نے پہلے اس چیز کو خود تیار کیا یا وہ اسے کہیں سے خرید کرلایا، پھر کچھ عرصہ اسے اپنے پاس رکھا پھر اس سلسلہ میں اس نے اپنی بدنی،ذہنی اور مالی صلاحیتوں کو صرف کیااور اس کے عوض وہ منافع لے رہا ہوتا ہے۔اس لئے یہ جائز ہے۔اس کے برعکس سود میں ایک آدمی دوسرے کو اپنی رقم دے کر اسے کچھ مہلت دیتا ہے اور وہ اس مہلت کے بالمقابل زائد رقم طلب کرتا ہے جس کے لئے اس نے کچھ بھی محنت نہیں کی ہوتی۔یہ سود ہے جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے۔

اسی طرح تجارت میں ایک طرف ایک جنس ہوتی ہےاور اس کے بالمقابل رقم یا قیمت ہوتی ہے یہ جائز ہے کہ دونوں طرف چیز الگ الگ ہوتی ہے۔جبکہ سود کے معاملہ میں دونوں طرف ایک ہی چیز ہوتی ہے۔اسی طرح تجارت میں ایک آدمی اپنی چیز دے کر اس کے عوض میں کوئی چیز لے رہا ہوتا ہے۔مگر سود میں ایک فریق کو تو معاوضہ مل رہا ہوتا ہے۔جبکہ دوسرے فریق کو کچھ نہیں ملتا بلکہ الٹا وہ دے رہا ہوتا ہے۔نیز تجارت میں تو ایک دفعہ منافع لے کر معاملہ مکمل ہوجاتا ہے اس کے برعکس سود کی صورت میں رقم دینے والا اپنی رقم پر مسلسل سود لیتا رہتا ہے۔اور عموما یہ سود اصل رقم سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔اس قسم کے اسباب کے پیش نظر اللہ تعالی نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔

 ان کے علاوہ سود خور اخلاقی پستی کا بھی مریض ہوتا ہے وہ خود غرض،بخیل،بےرحم اور زرپرست بن جاتا ہے ایک اچھے مسلمان میں ایسی باتیں قابل مذمت ہیں۔ان بدعات کے نتیجہ میں انسانوں کے ما بین نفرت،عداوت اور قطع تعلقی وغیرہ جیسی عادات آجاتی ہیں جن کی اسلام قطعا ًاجازت نہیں دیتا۔

چونکہ سود انسان کے دین کا بھی دشمن ہے اور اخلاق کا بھی۔اس لئے اللہ تعالی نے انتہائی سخت الفاظ کے ساتھ سود سے منع فرمایا اور اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے مترادف ٹھہرایا ہے۔چنانچہ ارشاد ہے

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ﴾

البقرۃ: 278 – 279

ترجمہ:  اے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔

 یہی وجہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ ’’جاہلیت کے تمام سودی معاملات کالعدم ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس کا سود ساقط کرتا ہوں انہوں نے لوگوں سے جو سود لینا تھا وہ نہیں لیں گے‘‘۔ [1]

 اللہ تعالی نے انسانوں کو بہت سےگناہوں سے منع کیا ہے مگرجس قدر وعید سود کے متعلق ہے ایسی سخت وعید دوسرے کسی گناہ پرنہیں ہے۔سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سود کے ستر درجے ہیں اور اس کا کم از کم گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے‘‘۔[2]

 ایک اور حدیث میں ہے آپ نے فرمایا :’’ سود لینے والا، کھانے اور کھلانے والا،دینے والا،اس کی دستاویز لکھنے والا اور ایسے معاملہ پر گواہ بننے والا سب لوگ لعنتی ہیں‘‘۔[3]یاد رہے کہ جنس کا جنس سے یعنی غلہ کا غلہ سے تبادلہ کرتے ہوئے برابری ضروری ہے ورنہ یہ بھی سود بن جائے گا۔

سود کے نقصانات

سابقہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ کوئی آدمی اپنی اصل پر بغیر محنت و مشقت کئے اور بغیر اپنی کسی صلاحیت کو استعمال کئے جو زائد رقم لے وہ سود ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اگر غور کیا جائے تو سود کے بہت سے نقصانات بھی ہیں ۔مثلا سود خور آدمی خود غرض، مفاد پرست، حریص، تنگ دل اور زر پرست بن جاتا ہے۔ اور اس کے دل میں مال و دولت کی ہوس مزید پروان چڑھتی چلی جاتی ہے اس کے برعکس اسلامی تعلیمات کے نتیجہ میں انسان ایک فیاض، سخی،ہمدرد ،فراخ دل،عالی ظرف اور دوسروں کا خیر خواہ اور خیر اندیش ہوتا ہے۔سود خور ان تمام صفات عالیہ سے یکسر محروم ہوتا ہے۔

 سود کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ اس طرح غریب طبقہ مزید غریب اور محروم کیا جاتا ہے ایک شخص پہلے ہی ضرورت مند اور محتاج ہوتا ہے اور اسے سود پر رقم ملے تو وہ مزید زیربار ہوجاتا ہے اور اس کی رہی سہی قوت خرید بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے اور وہ جو کچھ کماتا ہے وہ ساہوکار لے جاتا ہے۔

 جواز سود کی عقلی توجیہات

( 1) بعض مغرب زدہ لوگوں میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ سود صرف اسی صورت میں قابل اعتراض ہے جب وہ ذاتی ضرویات کیلئے دی گئی رقم پر لیا جائے ان کا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی کاروبار کیلئے کسی سے رقم لے یا کسی کو رقم دے تو ایسی صورت میں سود کا لین دین حرام نہیں بلکہ سراسر معقول، جائز اور حلال ہے۔مگر ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ یہ بھی اصل رقم سے زائد ہے جو وہ بلاوجہ اور بلا معاوضہ لے رہا ہے لہذا یہ بھی ناجائز ہے۔

(2ـ)اس طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم جب اپنی رقم کسی کو دیتے ہیں تو اپنی ضرورت کو روک کر دوسرے کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور اس میں رقم کے ڈوبنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اس لئے اس پر سود لینا جائز ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ اگر مال دار آدمی کو رقم ڈوبنے کا اندیشہ ہو تو وہ ایسا کام ہی نہ کرے اور بے خطر ہوجائے یا پھر وہ مدیون سے کوئی چیز بطور ضمانت لے کر رکھ لے۔

(3) نیز بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں دوسرے کو اپنے مال سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ دیتا ہوں ،لہذا اس میں سے مجھے بھی حصہ ملنا چاہئے۔یہ بات اگرچہ درست ہے مگر اسے ایسی صورت میں مشارکت کا معاملہ کرنا چاہئے کہ اگر رقم لینے والے کو کاروبار میں نفع ہوا تو یہ نفع میں شریک ہو اور اگر اسے خسارہ آئے تو یہ خسارہ میں بھی حصہ دار بنے۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ وہ منافع میں تو حصہ دار بننے پر تیار ہے مگر خسارہ کی صورت میں بالکل الگ تھلگ ہوجائے؟

 ہماری اب تک کی گزارشات سے یہ واضح ہوچکا ہے سود شرعی طور پر قطعا ناجائز اور حرام ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں پر ظلم ہے نیز اس کے روحانی اور اخلاقی نقصانات بھی زیادہ ہیں۔

اصلاح احوال

ایک سوال: ہماری اس قسم کی گفتگو سن کر بعض مغرب زدہ دانشور کہہ دیا کرتے ہیں کہ چونکہ اب تک غیر سودی نظام مالیات مدون نہیں ہوا۔لہٰذا عارضی طور پر سودی نظام جاری رہنا چاہیے۔جب غیر سودی نظام سامنے آجائے گا تو اسے ختم کردیں گے۔یہ محض خام خیالی ہے سود چونکہ شرعا ًحرام ہےاسے دستوری طور پر بھی ممنوع قرار دینا چاہیے ۔ اس کے نتیجے میں خود بخود غیر سودی نظام سامنے آجائے گا اگر سودی نظام اسی طرح چلتا رہے تو قیامت تک اس سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔اور بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ سود کے بغیر ہمارا ملک چل ہی نہیں سکتا۔یہ محض شیطانی وسوسہ ہےہم سود جیسی نحوست کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔اللہ تعالی کا کوئی بندہ جرأت کرکے سود کو مکمل طور پر ممنوع قرار دے پھر دیکھیں کہ کیوں کر اللہ تعالی کی رحمت اور اس کا فضل ہمارے شامل حال ہوتا ہے۔إن شاءاللہ۔

 یہ تو ہیں سود کے متعلق اسلامی احکامات۔ ان کے علاوہ کوئی بھی سنجیدہ،غیر متعصب اور انسانیت کا خیر خواہ آدمی سود کو قبول کرتا ہے نہ پسند۔اگر ہم مغربی ماہرین معاشیات کی کتابوں کا وسیع مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بھی سود کو انسانیت کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ سمجھتے ہیں۔معروف مغربی ماہر اقتصادیات

سررائے ہارڈ نے لکھا ہے کہ انسانی معاشرہ کی بہتری چاہتے ہو تو سود سے نجات حاصل کرو۔

 بینکاری کا آغاز

مغربی ممالک میں بینکاری کا آغاز یوں ہوا کہ ابتدا میں جب کاغذ کے نوٹ نہ ہوتے تھے اس وقت لوگ اپنی دولت سونے یا چاندی کی صورت میں جمع کیا کرتے تھے۔جس کے پاس زائد از ضرورت دولت ہوتی وہ اسے بطور امانت سناروں کے پاس رکھ کر اس سے رسید لے لیتا کہ میری اتنی دولت فلاں سنار کے پاس بطور امانت پڑی ہے پھر وہی رسیدیں خرید و فروخت کے سلسلہ میں ایک سے دوسرے کی طرف منتقل ہونے لگیں۔ ہر لین دین کے موقعہ پر سنار سے سونا لے کر ادائیگی کرنے کی بجائے محض رسیدوں پر خرید و فروخت کرنے میں لوگوں کو سہولت تھی۔ چنانچہ کاروبار کا یہ انداز لوگوں میں رائج ہوگیا۔ موجودہ زمانہ میں بینک نوٹ، چیک اور ڈرافٹ وغیرہ اسی رسید کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں۔آہستہ آہستہ ان سناروں اور ساہوکاروں نے محسوس کیا کہ ایسے لوگ بہت کم ہیں جو بیک وقت اپنی تمام رقم کی واپسی کا مطالبہ کریں۔سونے چاندی کی بہت بڑی مقدار ان کے پاس یوں ہی بےکارپڑی رہتی ہے۔انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس ذخیرہ کا کچھ حصہ بطور قرض دے کر اس پر منافع کمایا جائے۔جن سے یہ کاروبار منافع بخش ثابت ہوا تو انہوں نے لوگوں سے زیادہ سونا چاندی حاصل کرنے کی خاطر امانت پر سود دینا شروع کردیا۔اس طرح وہ تھوڑی شرح سود پر رقم لے کر حاجت مندوں کو زیادہ شرح سود پر قرضہ دے کر منافع کمانے لگے۔

 موجودہ زمانے کے بینک اسی طریقہ کی ترقی یافتہ شکل ہیں اگرچہ بینکوں میں ہونے والے لین دین کی بنیاد سود پر ہے جوکہ یقینا ناجائز،غلط اور حرام ہے اس کے با وصف بینک بہت سی ایسی خدمات بھی سرانجام دیتا ہے جو انسانوں کے لئے مفید بھی ہیں اور ناگزیر بھی۔مثلا رقوم کا ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنا اور ادائیگی کا انتظام کرنا،بیرونی ممالک سے لین دین کی سہولت ،قیمتی اشیاء کی حفاظت وغیرہ۔کیونکہ بینک بہت تھوڑا معاوضہ لے کروقت اور سرمایہ کو بچاتا ہے۔تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بینکوں کو یکسر ختم کرنے کی بجائے ان کے نقائص کو دور کرکے اس نظام کی اصلاح کی جائے۔اس طرح بینکاری کا نظام پاکیزہ ہوکر کئی گناہ زیادہ منافع بخش بھی ہوجائے گا۔

 بعض حضرات کا خیال ہے کہ اس وقت لوگ سود کی لالچ میں آکراپنا سرمایہ بینکوں میں جمع کراتے ہیں اگر سود ملنے کی توقع نہ ہو تو کون اپنا سرمایہ بینکوں میں جمع کرائے گا؟ مگر حقیقت ہے کہ سود ختم کردینے کے بعد لوگ منافع کی امید پر بھی اپنی رقوم بینکوں میں جمع کراتے رہیں گےبلکہ جس قدر رقم انہیں سود کی صورت میں ملتی ہے منافع کی صورت میں اس سے کہیں زیادہ انہیں ملنے لگے گی۔

پاکستان میں غیر سودی بینکاری کا آغاز

چونکہ سود قطعاحرام ہے اور بینکوں کا نظام بھی اصلاح کا محتاج ہے اسی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئےپاکستان کے ماہرین معاشیات روز اول ہی سے سوچ بچار کرتے آرہے ہیں کہ کسی طرح سود سے گلو خلاصی ہوجائے اور بینکوں کا نظام بھی اسلامی صورت میں آجائے۔

 چنانچہ یکم جنوری۱۹۸۱ء سے بینکوں میں غیر سودی شعبہ بھی کھول دیا گیا اس کا اہل پاکستان نے پرجوش خیر مقدم کیا اور چند ہی مہینوں کے اندر ان کھاتوں میں جمع کرائی جانے والی رقم دو ارب روپے ہوگئی۔بینکوں کے نظام کی اصلاح عوامی امنگوں کے عین مطابق ہے۔کیونکہ پاکستان کے اسلامی معاشرہ میں سود ہمیشہ ناقابل قبول رہا ہے۔عوام کی اکثریت بینکوں میں سودی نظام کے تحت اپنی رقوم جمع کراتی ہےمگر وہ دلی طور پر اسے قبول نہیں کرتے۔بینکوں میں بطور تجربہ جو کھاتے کھولے گئے ہیں ان میں سے ایک نفع نقصان میں شراکت بچت کھاتہ ہے اور دوسرا نفع نقصان میں شراکت کا میعادی کھاتہ اگرچہ ابھی اس نظام میں اصلاح کی مزید ضرورت ہے تاہم امید ہے کہ اگر ہماری حکومت اور ماہرین خلوص دل سے کوشش کریں تو اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔پاکستان میں غیر سودی بینکاری کا محدود تجربہ کرنے کے بعد یہ حقیقت آشکارا ہوگئی ہے کہ اس سے بینکوں کی رقوم میں بالکل کمی نہیں آئی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ رقوم جمع کرائی گئی ہیں اور عوام کو سود کی صورت میں جتنی رقم ملتی تھی نفع نقصان کے کھاتے میں اس سے بھی زیادہ رقوم ملنے لگی ہیں الحمدللہ۔

اسلامی ترقیاتی بینک

اسلامی ممالک کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ اقتصادی ترقی کے لئےآپس مین تعاون کریں اور غیر سودی بینکاری کا نظام رائج کریں۔چنانچہ اللہ تعالی کی توفیق سے ’’اسلامی ترقیاتی بینک‘‘ وجود میں آچکا ہے اس کا صدر دفتر جدہ میں ہے تمام اسلامی ممالک اس بینک کے رکن بن کر بلا سود قرضے حاصل کر سکتے ہیں۔اس کامیاب تجربہ کودیگر بینکوں میں بھی روبہ عمل لایا جاسکتا ہے۔

وصٍلی اللّٰہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ أجمعین


[2] سنن ابن ماجہ: کتاب التجارات، باب التغلیظ الربا، حدیث نمبر:2274یہ حدیث صحیح ہے

[3] صحیح مسلم:کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربا

[1] ابوداؤد: کتاب المناسک، باب صفۃ حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث نمبر 1905

سنن ابن ماجہ: باب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، حدیث نمبر 3074یہ حدیث صحیح ہے۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشيخ ضياءالرحمٰن مدنی حفظہ اللہ

مسلک اہل حدیث کی ایک عظیم شخصیت پروفیسر ظفراللہ صاحب رحمہ اللہ کے عظیم سپوت الشیخ ضیاء الرحمٰن مدنی حفظہ اللہ کی دینی خدمات کی فہرست بھی بڑی طویل ہے ، آپ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کے سینئر مدرس اور مدیر ہیں ،مسلک اہل حدیث کراچی کے مشہور علماء میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔