بیع سلم کی مروّجہ صورتیں اور ان کا شرعی حکم

جائز کاروباری معاملات میں سے ایک صورت بیع السلم (بیع السلف) کی بھی ہوتی ہے درج ذیل سطور میں ہم بالکل عام فہم انداز میں بیع السلم ، اس کی تعریف،حکم اور شرائط کو تفصیل کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔ وباللہ التوفیق

 بیعِ سلم کی تعریف

کتبِ فقہ :

نیل الاوطار ، الفقه السلامي وأدلته اور الملخص الفقهی

وغیرہ میں بیع السلم کی تعریف کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ:

’’لین دین کا وہ معاملہ کہ جس میں فروخت کنندہ یہ ذمہ داری قبول کرے کہ وہ مستقبل کی فلاں  تاریخ پر خریدار کو ان ان متعین صفات کی حامل چیز مہیا کرے گااور خریدار مطلوبہ شئے کی مکمل قیمت پیشگی (Advance)اُسی مجلسِ عقد میں ادا کرے ۔‘‘

مزیدآسان الفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’مخصوص صفات کی حامل چیز خریدنے کا معاملہ طے کرکے قیمت مکمل طور سےپہلے فوری ادا کر دینا اور چیز بعد میں یا کچھ تاخیر سے حاصل کرنا ، بیع السلم یا بیع السلف کہلاتا ہے۔‘‘

بیعِ سلم کاحکم

یہ معاملات کی ایسی قسم ہے کہ جو کتاب و سنت اور اجماع امت کی رو سے جائز ہے۔

قرآن کریم سے ثبوت

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ﴾

البقرۃ: 282

ترجمہ: ’’اے ایمان والو ! جب تم آپس میں مقررہ وقت تک ادھار کا معاملہ کیا کرو تو اس کو لکھ لیا کرو‘‘۔

مفسر قرآن، حبر امت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ مقررہ مدت تک ضمانت دی گئی ’’بیع السلف‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جائز قرار دیا ہے اور اس کی اجازت دی ہے، اور پھر انہوں نے بطو ر دلیل کے مذکورہ آیت پڑھی۔‘‘ [1]

سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بیع کا یہ سلسلہ اپنے حساب سے موجود تھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ اصلاحات کے ساتھ باقی رکھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص بیع السلف (بیع السلم) کرنا چاہتاہے وہ معلوم وزن ، معلوم ومتعین پیمانے اور معلوم و متعین مدت کے ساتھ کرے۔‘‘[2]یہ حدیث بیع السلم کے جواز کی دلیل ہے ، مزید تفصیل کتب ستہ وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

اجماعِ امت سے ثبوت

امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے اس کے جواز پر اہلِ علم کا اجماع نقل کیا ہے ۔[3]

 لوگوں کی حاجت و ضرورت بھی اس کی متقاضی ہے کہ یہ بیع جائز ہو ،کیونکہ اس میں فریقین میں سے ہر ایک فائدہ اٹھاتاہے، فروخت کنندہ جلد و فوری رقم وصول کر کے اور خریدار(فوری ادائیگی کی وجہ سے) چیز سستی حاصل کر کے۔ [4]

حافظ ذوالفقار علی حفظہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:

 سلم کی اجازت کا فلسفہ

بعض کسانوں اور مینو فیکچررز کے پاس ضرورت کے مطابق مثلاً بیج، کھاد ، آلات، خام مال خریدنے اور لیبر وغیرہ کے لئے رقم نہیں ہوتی ، ایسے لوگوں کو اسلام نے یہ سہولت دی ہے کہ وہ حصول رقم کی خاطر اپنی فصل یا پیداوار قبل از وقت فروخت کر سکتے ہیں تاکہ قرض کے لئے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچے رہیں۔ اضافی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی چیز بیچنے کے لئے کسٹمر تلاش کرنے کی فکر سے آزاد ہو جاتاہے کیونکہ اس کا سودا پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔

اس سے خریدار کو بھی فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ سلم میں قیمت ان چیزوں کی نقد قیمت سے کم ہوتی ہے جونقد ادا کی جاتی ہو، مزید برآں اگر چیز آگے بیچنا چاہتا ہو تومارکیٹنگ کیلئے مناسب وقت بھی اسے مل جاتا ہے۔ [5]

محقق العصر الشیخ مبشراحمد ربانی حفظہ اللہ امام ابن قیم رحمہ اللہ سے بیع سلم کی رخصت میں حکمت تحریر فرماتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں:

اسلام نے جب اس بیع کو جائز قرار دیا ہے تو اسے سود نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ تو ایک اسلامی تدبیر ہے، جس کی وجہ سے انسان سود پر قرض لینے سے بچ سکتا ہے۔لوگ اس کو اپنا لیں تو سود پر قرض لینےسے مسلمانوں کی جان چھوٹ سکتی ہے۔[6]

 بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بیع السلم بیعِ معدوم ہے اور خلاف ِقیاس ہے،لہٰذایہ جائز نہیں۔

اس حوالہ سےہم معروف محقق الشیخ مبشر احمد ربانی اور پھر امام ابن قیم رحمہ اللہ کے جوابات تحریر کریں گے۔

شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

’’معدوم (غیر موجود) کی بیع جائز ہے۔قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیحہ میں یاکسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت وارد نہیں ہوئی ۔ہاں جس طرح بعض موجودہ اشیاء کی بیع حرام ہے، اسی طرح بعض معین معدوم چیزوں کی بیع سے روکا گیا ہے۔

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو لفظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

پھر شیخ نے بیعِ سلم کی تعریف اور اس کے جواز کے دلائل لکھنے کے بعد فرمایا:

’’لاتبع مالیس عندک‘‘

’’جوتیرے پاس نہیں اس کی بیع نہ کر‘‘ [7]

اللہ کے رسول ا صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان کسی معین چیز کے بارے میں ہے، جیسا کہ امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ھذا بیوع الاعیان دون بیوع الصفات‘‘

کہ یہ ممانعت معین چیزوں کی بیع میں ہے صفات کی بیع میں نہیں یعنی جس میں عدم (نہ ہونے) کی صفت پائی جائے ، اس کے لئے نہیں۔ [8]

یا پھر اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ وہ چیز فروخت نہ کر جس کے دینے پر قدرت نہیں رکھتا۔جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔ [9]

پھر شیخ نے بیعِ سلم کی تعریف اور اس کے جواز کے دلائل لکھنے کے بعد فرمایا:

’’خلاصہ یہ ہے کہ شریعت نے ایسی چیز کی بیع کی اجازت دی ہے جو معدوم ہو جبکہ اس کے اوصاف وزن اور مدت وغیرہ معلوم ہو جائیں اور اس میں کسی قسم کی جہالت باقی نہ رہے‘‘۔[10]

امام ابنِ قیم رحمہ اللہ بیعِ سلم کے خلافِ قیاس یا بیعِ معدوم ہونے کے اعتراض کےحوالہ سے جواباًفرماتے ہیں:

بعض حضرات بیع سلم کو خلافِ قیاس کہتے ہیں ، ان کے پاس دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ جو چیز تمہارےپاس نہیں ہے اسے مت بیچو‘‘[11]پس بیعِ سلم بھی معدوم ہے لہٰذا وہ ناجائزہونی چاہیے۔لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ بیعِ سلم میں جس چیز کا سودا ہوتا ہے وہ (اپنی صفات کےاعتبارسےواضح و)ظاہرہوتی ہے،فروخت کنندہ کےذمہ ہوتی ہے،اوراُسےعموماً سونپے جانے پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔

اوریہ تو بالکل ایسی ہی صورت ہے جیسے نفع کے عوض مزدوری کرنا۔ اور اس صورت کا مطابق ِ قیاس ہونا ہم زبردست دلائل سے ثابت کر چکے ہیں ۔لہٰذا بیع معدوم پر اس کا قیاس غلط ہے۔

بیعِ معدوم میں تو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اسے حاصل کرنے پر قدرت ہوگی بھی یا نہیں ۔اس میں فروخت کنندہ اورخریدار دونوں ہی دھوکہ میں رہتے ہیں پھر اس پر اس کے مخالف چیز کو قیاس کرنا یہی تو بدترین قیاس ہے، ظاہری بھی اور باطنی بھی ، صورۃ ًبھی اور معنا ًبھی، کسی طرح بھی یہ قیاس کسی عقلمند کے نزدیک تھوڑی دیر کیلئے بھی صحیح نہیں سمجھا جا سکتا ۔کہاں وہ(بیعِ معدوم کہ)جو نہ پاس ہو ، نہ ملکیت میں ہو اورنہ ہی اُسے سونپنے پرقدرت و طاقت حاصل ہو اور کہاں وہ(بیعِ سلف کہ) جو فروخت کنندہ کے ذمے ہو، خریدار کو مل سکتی ہو،اور جسے سونپےجانے پرقدرت وطاقت حاصل ہو۔

اب ان دونوں کو جمع کر دینا ایسے ہی ہے جیسے مردار اور ذبیحہ کو ایک کہنا ، جیسے سود اور تجارت کو ایک سمجھنا ۔

اور جو حدیث(بیعِ سلم کے عدمِ جواز کے لئے)پیش کی گئی ہے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سیدناحکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا’’کہ جو تمہارے پاس نہیں اُسے مت بیچو‘‘[12]

اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ:کوئی شخص کسی معین چیز کو جو اس کے پاس نہ ہو بلکہ دوسرے کی ملکیت میں  ہو،وہ اُسےکسی کوبیچ دے پھراس کوحاصل کرنے کی کوشش کرتا پھرے اور اسےخریدارتک پہنچانے کی سعی میں رہے۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ:وہ اس چیز کو بیچنے کی کوشش کرتا ہے جسے خریدار تک پہنچانے کی قدرت و طاقت اسے نہیں ۔گو وہ ایسی ذمہ داری اٹھالیتا ہےکہ جس کے بارے میں اُسے معلوم نہیں کہ وہ اُسے ادا کر بھی پائے گا کہ نہیں ۔

اس طرح اس میں کئی ایک خرابیاں لازم آتی ہیں:

 (1) ایک ایسی معین چیز کابیچنا جو اس کی ملکیت میں نہیں۔

(2) ایسا معاملہ اپنے ذمہ لینا جسے پورا کرنے کی طاقت نہیں۔

(3) ایسی چیز کا ادھارکرناجس کے ملنے کی عادتاً توقع نہیں ۔

(اور جہاں تک بیعِ سلم کا تعلق ہے تو)جب مذکورہ تینوں خرابیاں نہ ہوں تو بیشک اور قرضوں کی طرح یہ بھی ایک طرح کا قرض ہوگا۔جیسے کوئی چیز مؤخر قیمت پر قرضاًلے لی جائے۔

پس قیاس و مصلحت کا تقاضہ یہی ہے کہ ادھار کی خریدو فروخت جائز ہو۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:’’ایمان والو! جب تم قرض کا لین دین کرو جس میں مدت مقرر کی گئی ہو تو لکھت پڑھت کر لیا کرو‘‘[البقرۃ: 282]

یہ آیت قیمت اور مال دونوں کو شامل ہے(یعنی دونوں میں ادھارجائز ہے) سیدنا عبداللہ بن عباس  جو قرآن کریم کے ترجمان ہیں انہوں نے اس سے یہی سمجھا اور سمجھایاہےجیساکہ وہ فرماتے ہیں کہ: اپنی ذمہ داری پر قرض حلال ہے۔پھر آپ رضی اللہ عنہما نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ پس ادھار کی خریدو فروخت قیاس کے مطابق اور مصلحت کے موافق ہے ۔شریعت جو مکمل ہے اور مکمل انصاف پر مبنی ہے وہ اسے کبھی ناجائز نہیں کر سکتی۔(بیعِ سلم میں ) مکمل قیمت تو اسی وقت لے لی جاتی ہے اور چیز بعد میں دی جاتی ہے۔ اس لئےکہ اگر قیمت بھی نہیں لی جائے تو ذمہ داری بے فائدہ ہوگئی ا سی کا نام سلم رکھا گیا ہے (یعنی ایسی بیع کہ جس میں)قیمت ہاتھوں ہاتھ سونپ دی جاتی ہے،اور اگر قیمت اور چیز دونوں ہی ادھار ہوں تو یہ

’’بیع الکالی بالکالی‘‘

 ’’یعنی ادھار کے بدلے ادھا ر کی بیع ‘‘ہوجائے گی جو حدیث کی رو سے ناجائز ہے اور جس کا بیان پہلےگزر چکا ہے۔اس میں خطرے بڑھ جائیں گے اور معاملہ غرر ودھوکے کا ہو جائے گا۔

اسی لئے شارع علیہ السلام نے اس مسئلہ میں مخصوص باغ یا کھیتی کے پھل و اناج کومنع فرمادیا۔ اس لئے کہ ممکن ہے اس میں پھل نہ آئے اور نہ اناج نکلے تو دے گا کہاں سے؟؟

اور پھر ابنِ قیّم رحمہ اللہ تھوڑا آگے چل کے فرماتے ہیں :

اس (بیعِ سلم )کا جواز انسانی حاجت کو پورا کرنے کے لئے ہے اس میں(خریدار و فروخت کنندہ) دونوں کے لئے سہولت ہے۔ایک کو قیمت پہلے مل جاتی ہے اور دوسرے کو چیز سستی مل جاتی ہے۔

پس سچ تو یہ ہے کہ شریعت میں جو ہے اسی میں آسانی ہے، اسی میں مصلحت ہے، وہی مطابق قیاس ہے۔وہی عقل سےبھی ملتا ہے۔۔۔۔[13]

 بیعِ سلم کی شرائط

بیع سلم میں ان تمام شروط وپابندیوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو شریعت نے عام بیع میں مقرر کی ہیں۔البتہ سلم کو غرر (جہالت و دھوکہ)سے صاف رکھنے کے لئے کچھ خاص شرائط بھی رکھی گئی ہیں جودرجِ ذیل ہیں:

رأس المال (قیمت)سے متعلقہ شرائط یہ ہیں:

(1)اس کی جنس معلوم ہو۔

جیسے سونے چاندی میں ہے ،روپیہ میں ہے،ڈالرمیں ہے یا کسی اور صورت میں ۔

(2)اس کی مقدار معلوم ہو۔

(3)اسے مکمل طور سے مجلس عقد میں ہی ادا کر دیا جائے۔

 مسئلہ: بیعِ سلم میں قیمت مؤخر کرنے کا حکم؟

جمہور اہلِ علم مالکیہ ، شافعیہ اور حنفیہ کے مطابق بیعِ سلم میں خریدی گئی چیز کی مکمل قیمت پیشگی مجلسِ عقد ہی

میں ادا کرنا شرط ہے ، اُسے مؤخر نہیں کیا جاسکتااور اگرمکمل قیمت کی ادائیگی سے قبل دونوں فریق یعنی فروخت کنندہ و خریدار الگ الگ ہوجائیں تو عقد باطل قرار پائے گاکیونکہ اس طرح یہ ادھار کی ادھار کے ساتھ بیع ہوجائیگی جوکہ حدیث کی رو سے حرام ہے[14]،البتہ مالکی فقہاء کے مطابق اس میں دو سے تین دن تک کی تأخیر کی اجازت ہے ، کیونکہ یہ معمولی تأخیر ہےجو قابلِ برداشت ہے لیکن اگر معاہدہ میں مکمل قیمت کی ادائیگی کی مدت تین دن سے زیادہ طے ہوتو مالکیہ کے مطابق بھی عقد باطل ہوجائے گا۔

 تاخیر سے ملنے والی شئے، سامان (مسلم فیہ) کی شرائط یہ ہیں :

(1)وہ ضمانت کے تحت ہو۔(فروخت کنندہ اسے حوالہ کرنے کا ضامن ہو)

(2)اس کا ایسامکمل وصف بیان کردیا جائے کہ جس سے اس کی مقدار و و زن اورممتاز صفات کا علم ہوجائے تاکہ کسی بھی قسم کے دھوکہ و تنازع کا خدشہ باقی نہ رہے۔

(3)اس کی مدت معلوم ہوکہ کب تک وہ چیزخریدار کے حوالہ کردی جائیگی۔[15]

بعض اہل علم نے شرائط کو کچھ مزید پھیلا کر اور کھول کر بیان کیا ہے، جس سے مجموعی طور پر کبھی تو سات شرائط دکھائی دیتی ہیں جیسا کہ ’’المخلص الفقہی‘‘میں شیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ نے لکھا ہے اورکبھی شرائط اس تعدادسے بھی آگے نظر آتی ہیں جیسا کہ شیخ وہبہ زحیلی رحمہ اللہ نے ’’الفقہ الاسلامی‘‘ میں گیارہ تک شرائط ذکر کی ہیں۔

اس سلسلہ میں قارئین کی مزید وضاحت کے لئے اپنے وقت کے معروف و معتبر اہلِ علم کی لکھی جانے والی حواشی ، تعلیقات، تشریحات، فتاویٰ جات اور آراء تحریر کی جاتی ہیں تاکہ مسئلہ سلم،اس کی شرائط کا فہم اور بھی سہل ہو جائےاوردیگرمتعلقہ مسائل کی مکمل وضاحت ہوجائے۔

مجتہد العصر حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کے فتاویٰ میں لکھا ہے:

بیع سلم کے جائز ہونے کی شرطیں حسب ذیل ہیں

(1)مبیع (سامان)کی جنس معلوم ہو مثلاً کہ وہ گیہوں ہے یا جو، مکئی یا باجرہ۔

(2)اس کی صفت معلوم ہو کہ وہ جید یعنی کھری ہے یا ردی۔

(3)اس کی نوع معلوم ہو مثلاًبارانی زمین کی ہے یا نہری زمین کی۔

(4) وقت ادائیگی معلوم ہو جو کم از کم ایک مہینہ ہے اور اس سے زائد وقت جو وہ مقرر کرے وہ بھی معلوم ہو۔

(کم از کم ایک مہینہ کی شرط کی وضاحت آگے آرہی ہے)

(5)جو چیز فروخت کی جارہی ہے اس کی مقدار معلوم ہو ۔

(6)سرمایہ جو کہ اب دیا جارہا ہے جس کے بدلے مقررہ وقت پر سامان وصول کرنا ہے اگر یہ سرمایہ (قیمت) تولنے یا ماپنے یا گننے کی چیز ہو تو ا س کا معلوم کرنا بھی ضروری ہے۔

(7)اگر فروخت کردہ سامان ایسی چیز ہے جس کے اٹھانے میں مشقت اور کرایہ خرچ ہوتا ہو تو جس جگہ سے وصول کرنا ہے اس کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے ۔

بطور تصدیق ووضاحت کے حافظ محمد عبداللہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

جوابات صحیح ہیں……بازاری نرخ سے اتنا کم مقرر نہ کیا جائے کہ سال میں کبھی بھی اتنا کم ہونے کا خیال نہ ہو، اگر ایسا ہو تواس میں بھی سود کاشبہ ہے، نیزیہ بھی شرط ہے کہ غلہ کے بدلے غلہ نہ ہوکیونکہ حدیث میں اس کو سود کہا گیا ہے اور مدت کم از کم ایک ماہ شرط نہیں کیونکہ حدیث میں اس کا ثبوت نہیں۔[16]

شیخ الحدیث علامہ داؤ دراز دھلوی رحمہ اللہ ،صحیح بخاری کی مختصر تشریح ، ترجمہ و فوائد کے ضمن میں کچھ نکات علمیہ تحریر فرماتے ہیں ، وہ درج ذیل ہیں:

جو چیزیں ماپ تول کر بیچی جاتی ہیں ان میں ماپ تول ٹھہرا کر سلم کرنا چاہئے۔اگر ماپ تول مقرر نہ کئے جائیں تو یہ بیع سلم جائز نہ ہوگی الغرض اس بیع کے لئے ضروری ہے کہ وزن مقرر ہو اور مدت مقرر ہو ورنہ بہت سے مفاسد کاخطرہ ہے۔مثلاً سوروپے کا اتنے وزن کا غلہ آج سے پورے تین ماہ بعد تم سے وصول کر لوں گایہ طے کرکے خریدار نے سو روپیہ اسی وقت ادا کردیا ۔یہ بیع سلم ہے جو جائز ہے۔اب مدت پوری ہونے پر وزن مقررہ کا غلہ اسے خریدار کو ادا کرنا ہوگا۔

کیل اور وزن سے ماپ تول مراد ہیں ۔اس میں جس چیز سے وزن کرناہے،(وہ)کلو (ہے)یا قدیم سیر، من۔یہ بھی جملہ باتیں طے ہونی ضروری ہیں۔

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔’’ اس امر پر اجماع ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ یا وزن کے قابل ہیں ان کا وزن مقرر ہوناضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے۔حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ مدینہ میں اس قسم کے لین دین کا عام رواج تھا‘‘۔[17]

دیار عرب کے معروف عالم دین شیخ ابو بکر الجزائری حفظہ اللہ اس سلسلے میں رقمطراز ہیں:

میعاد ادائیگی اتنی ہو کہ اس مدت میں قیمت کا اتار چڑھاؤ ہو سکتا ہو مثلاًایک ماہ یا دو ماہ اس لئے کہ دو چار دن کی مدت کا حکم عام ’’بیع‘‘ والا ہے اور بیع میں یہ شرط ہے کہ مبیع کو اچھی طرح دیکھ لے یا اس کی معرفت حاصل کرلے۔

 وقت ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت مطلوبہ جنس کا پایا جانا ممکن ہو لہٰذا بہار کے موسم کو تازہ کھجور کی ادائیگی کا وقت یا سردیوں میں انگور کی ادائیگی کاوقت مقرر نہ کیا جائے، اس لئے اس صورت میں مسلمانوں میں اختلاف واقع ہوگا۔[18]

بیع سلم سے متعلق اہم مسائل

(1) کیا مدت کا تعین شرط ہے؟

 اگر چہ علماء نے مدت معینہ کے تقرر کو شرط قرار دیا ہے مگر شافعیہ کہتے ہیں کہ جب بیع سلم تاخیرسے (جس میں دھوکہ بھی ہو سکتا ہے)جائز ہے تو معاہدہ کے وقت ادائیگی بالاولیٰ جائز ہے، حدیث میں اجل (مدت) کا ذکر اس لئے نہیں کہ صرف یہی شرط ہے (یا اس کا موجود ہونا ہر حال میں ضروری ہے) بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ جب کوئی معاملہ اجل (مدت)سے متعلق ہو تو اس میں وہ معلوم ہونی چاہئے۔

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

 صحیح اور حق بات یہی ہے جسے شافعیہ نے اختیار کیا ہے کیونکہ کسی بھی حکم کو بغیر دلیل کے لازم کر لینا درست نہیں۔[19]

(2) مدّتِ مقررہ تک مال ادا نہ کیا گیا ۔

معروف عالم شیخ عبدالستار حماد صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’اگر اس (طے شدہ) مدت میں مال مہیا نہ کیا جائے تو تاجروں کے عرف میں اسے جرمانہ تو کیا جاسکتا ہے، لیکن ریٹ وغیرہ میں کمی کرنے کا دباؤنہیں ڈالا جاسکتا ،(کیونکہ) اس(بیعِ سلم ) میں رقم پیشگی ہی ادا کرنا پڑتی ہے، بصورت دیگر طرفین سے ادھار ہوگا جو شرعاً درست نہیں ہے۔‘‘ [20]

(3) ’’معاہدہ بیعِ سلم‘‘ میں ادائیگی کی جگہ کا تعین نہیں کیاگیا ہوتو؟

الشیخ ابو بکر الجزائری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

اگر ’’معاہدہ بیع‘‘ میں ادائیگی کی جگہ کا تعین نہیں کیاگیا تو ’’مقام معاہدہ‘‘ ہی ادائیگی کی جگہ طے پائے گا۔اگرجگہ کا تعین کیاگیا ہے تو اس پر عمل کیاجائے گا اور اس بارے میں جس جگہ ادائیگی پر دونوں متفق ہوں ، اس کے مطابق عمل کیا جائے گا اس لئے کہ مسلمان معاملات میں جو شرطیں طے کر لیں ان کی پابندی ضروری ہے۔[21]

(4) کیا مسلم فیہ (طے شدہ چیز) کا مسلم الیہ(جسے قیمت دی گئی یعنی فروخت کنندہ ) کے پاس ہونا ضروری ہے؟

اس سلسلے میں معلوم ہو کہ یہ شرط تو بہر حال نہیں ہے، البتہ انتہائے مدت تک اس کا دستیاب ہونا ضروری ہے۔صحیح بخاری شریف میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ لوگوں نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ (بیعِ سلم کے وقت) کیا ان لوگوں کے پاس کھیتی موجود ہوتی تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم ان سے اس کے متعلق پوچھتے نہیں تھے۔

جس سے یہ بات واضح ہے کہ مطلوبہ چیز کا فروخت کنندہ کے پاس ہونا شرط نہیں ہے وگرنہ اُس چیز کا اگر فروخت کنندہ کے پاس ہوناضروری ہوتا تو وہ اُس کا سوال ضرور کرتے۔

علامہ محدث داؤد راز دھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

سلم ہر شخص سے کرنا درست ہے۔مسلم فیہ(یعنی وہ سامان جس میں سلم کیا گیا ہے ) یا اس کی اصل اس کے پاس موجود ہو یانہ ہواتنا ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ معاملہ کرنے والا ادا کرنے اور وقت پر بازارسے خرید کر یا اپنی کھیتی یا مزدوری وغیرہ سے حاصل کر کے اس کے ادا کرنے کی قدرت رکھتاہے یا نہیں۔[22]

(5) تمام اجناس میں بیع سلم جائز ہے۔

جیسا کہ صحیح بخاری میں موجودیہ الفاظ اس بات کے مؤید ہیں’’من أسلف فی شیء…‘‘جو کسی بھی چیز میں سلف (سلم )کا معاملہ کرے ۔

یہاں ’’فی شیء‘‘ کہا گیا جو تمام جائز اشیاء کو شامل ہے۔البتہ شرائط ضرور ملحوظ رکھی جائیں۔

(6) قلاش آدمی اور بیعِ سلم۔

علامہ محدّث داؤد راز دھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اگر کوئی شخص قلاش محض ہو اور وہ بیع سلم کر رہا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دھوکہ سے اپنے مسلمان بھائی کا پیسہ ہڑپ کرنا چاہتاہے اور آج کل عام طور پر ایسا ہوتا رہتاہے(لہٰذا سلم کے وقت اس کا دھیان بھی رکھنا چاہئے)۔[23]

(7) مخصوص باغ یا زمین کے مخصوص قطعہ کی پیداوار میں بیع سلم کرنے کا حکم۔

 مخصوص باغ یا زمین کے مخصوص قطعہ کی پیداوار میں بیع سلم کرناجائز نہیں ،کیونکہ اس میں غرر پایا جاتا ہے، ممکن ہے وہ باغ پھل نہ دے یا قطعہ زمین میں فصل ہی نہ ہو۔

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص باغ کی کھجور میں بیع سلم نہیں کی۔

علامہ ابن المنذر رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع ذکر کیا ہے کہ متعین باغ وزمین کی پیداوار میں سلم کی ممانعت پر علماء متفق ہیں۔[24]

جواز کی استثنائی صورت

علامہ داؤد راز دھلوی رحمہ اللہ

“باب الکفیل فی السلم”

کے تحت وارد ہونے والی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

اگر کسی خاص کھیت کے غلہ میں یا کسی خاص درخت کے میوہ میں سلم کرے اور ابھی وہ غلہ یا میوہ تیار نہ ہوا ہو تو یہ سلم درست نہ ہوگی۔لیکن تیار ہونے کے بعد خاص کھیت اورخاص پیداوارمیں بھی سلم کرنا درست ہے۔اس (ممانعت)کی وجہ یہ ہے کہ جب تک غلہ یا میوہ پختگی پر نہ آیا ہو اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہو سکتا کہ غلہ یا میوہ اگے گا یا نہیں؟۔احتمال ہے کہ کسی آفت ارضی یا سماوی سے یہ غلہ اور میوہ تباہ ہوجائے پھر دونوں میں جھگڑا ہو۔[25]

(8) شیئرز کے سودوں میں بیعِ سلم جائز نہیں

 حافظ ذوالفقار علی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں:

شیئرز کے سودوں میں چونکہ کمپنی کا نام ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے جس سے اس کی حیثیت متعین چیز میں سلم کی ہو جاتی ہے جو ناجائز ہے، ممکن ہے جب سپردگی کا وقت آئے مارکیٹ میں اس کمپنی کے شیئرز دستیاب نہ ہوں لہٰذا شیئرز میں بیعِ سلم جائز نہیں۔[26]

(9)کپڑوں میں بیعِ سلم جائزہے

مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ نے کپڑوں میں بھی بیع سلم کو جائز قرار دیا ہے۔[27]

علامہ ابن المنذررحمہ اللہ نے کپڑوں میں بیع سلم کے جواز پر اجماع نقل کیا ہے.[28]

(10)سلم میں رہن اور ضمانت(گارنٹی) طلب کرنا

بیع سلم میں بیچی گئی چیز چونکہ فروخت کنندہ کے ذمہ ادھار ہوتی ہے لہٰذا خریدار حوالگی یقینی بنانے کے لئے رہن یا گارنٹی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت سے بیع سلم کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے اس کےبعد والی آیت میں بصورت ِادھار رہن کی اجازت دی گئی ہے۔لہٰذارہن کا جواز بیع سلم میں قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے۔[29]

امام بخاری رحمہ اللہ نے

’’باب الرھن فی السلم‘‘

 کا عنوان قائم کیا ہے اور اس میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین مدت کے لئے ایک یہودی سے غلہ لیا تو اس کے عوض میں اس کے پاس لوہے کی زرہ گروی رکھی۔

(11) سلم میں کسی کوضامن بنانا

شارح صحیح بخاری علامہ داؤد راز دھلوی رحمہ اللہ

“باب الکفیل فی السلم “

کے تحت وارد ہونے والی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

معلوم ہوا سلم یا قرض میں اگر کوئی دوسرا شخص سلم والے یا قرض دار کاضامن ہو تو یہ درست ہے۔

(12)سلم کے ذریعہ خریدی گئی چیز کو قبضہ سے قبل آگے فروخت نہ کیا جائے

علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’’ سلم کے ذریعے خریدی گئی چیز کو قبضہ سے قبل فروخت کرنے کی حرمت میں ہم کسی اختلاف کا علم نہیں رکھتے۔بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضہ سے قبل غلے کی بیع سے منع فرمایا ہے۔‘‘[30]

(13)تجارت میں سلم کا استعمال

اکثر علماء کی رائے میں یہ رعایت تاجروں کے لئے بھی ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں چنانچہ انہوں نے

’’باب السلم الی من لیس عندہ اصل‘‘

 قائم کرکے اس کا اثبات کیا ہے۔

اس باب کے تحت جو وہ روایت لائے ہیں وہ مختصراًپچھلے صفحات میں گزر چکی ہے کہ صحابہ کرام  جس سے بیع سلم کا معاملہ کرتے اس سے مال کی موجودگی کا دریافت نہ فرماتے تھے۔ [31]

(14) مزعومہ اسلامی بینکوں میں سلم کا استعمال

حافظ ذوالفقار علی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

بلا شبہ سلم ایک بہترین غیر سودی تمویل(financing) ہے جو عصر حاضر میں بھی لوگوں خصوصاً کاشتکاروں اور مینو فیکچرز کی مالی ضرورتیں پوری کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور بعض اسلامی بینک اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔لیکن ہمارے ہاں اسلامی بینک اس کی عملی تطبیق میں گڑبڑ کرتے ہیں جس سے یہ معاملہ شرعی اصول کے مطابق نہیں رہتا ۔وہ یوں کہ گنے کے سیزن میں شوگر ملوں کو گنا خریدنے کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ملز مالکان چاہتے ہیں کہ ہمارا مقصد بھی پورا ہو جائے اور ہم سود سے بھی محفوظ رہیں اب وہ اسلامی بینک کی طرف رجوع کرتے ہیں ،بینک اس شرط پر رقم فراہم کرتا ہے کہ آپ نے ہمیں اس کے عوض فلاں تاریخ تک اتنی چینی مہیا کرنی ہے یعنی بینک سلم کا معاہدہ کر لیتا ہے شوگر ملز کی طرف سے فراہمی یقینی بنانے کے لئے بینک ضمانت بھی طلب کرتا ہے چونکہ بینک کاروباری ادارہ نہیں جو آگے بیچنے کے لئے گاہک تلاش کرتا پھرے اس لئے معاہدے کے وقت ہی یہ بھی طے کر لیا جاتاہے کہ مل مالک بینک کے وکیل کی حیثیت سے یہ چینی مارکیٹ میں اس قیمت پر فروخت کرکے رقم بینک کے سپرد کریگا۔بعض دفعہ معاہدے کے وقت اس کی صراحت نہیں ہوتی مگر فریقین کے ذہن میں یہی ہوتا ہے۔اگر شوگر مل بروقت چینی فراہم نہیں کرتی توبینک دی گئی رقم کے فیصد کے حساب سے جرمانہ وصول کرتا ہے جو بینک کی زیر نگرانی قائم خیراتی فنڈ میں جمع کروایا جاتاہے۔

بینک کا خود قبضہ کرنے کے بجائے فروخت کنندہ کو ہی وکیل بنانا شرعی اصول کے خلاف ہے۔

چنانچہ علماء احناف کے سرخیل علامہ سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’اس کا مطلب یہ ہے کہ سلم کے ذریعے بیچی گئی چیز فروخت کنندہ کے ذمہ ادھار ہوتی ہے اور جس کے ذمہ ادھار ہو وہ خود اپنی ذات سے اس کی وصولی کے لئے اس شخص کا وکیل نہیں بن سکتا جس کا اس کے ذمہ ادھار ہو‘‘۔[32]

علامہ ڈاکٹر محمد سلیمان اشقر سلم سے اسلامی بینکوں کے فائدہ اٹھانے کے طریقہ کار کی وضاحت کرتےہوئے لکھتے ہیں:

’’دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بینک چیز کی مارکیٹنگ کے لئے فروخت کنندہ کو ہی اپنا وکیل مقرر کردے خواہ اس کی اجرت دے یا نہ دے۔تو اگر یہ وکالت پہلے سے عقد سلم سے مربوط ایگریمنٹ کے ذریعے ہوتو یہ عمل باطل ہوگا جو جائز نہیں کیونکہ یہ ایک عقد میں دو عقد جمع کرنے کے مترادف ہے اور اگر (ایگریمنٹ تو نہ ہو مگر) پہلے ہی سے ذہن میں یہ ہو کہ معاملہ اس طرح تکمیل کو پہنچے گا تو پھر بھی یہ جائز نہیں‘‘۔[33]

(15)سلم متوازی

یہاں یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی بینکوں میں سلم سے فائدہ اٹھانے کا جو طریقہ اسلامک بینکنگ کے ماہرین نے تجویز کیا ہے اس کو “سلم متوازی”کہتے ہیں۔یعنی بینک کسی تیسرے فریق کے ساتھ سلم کا معاہدہ کرلے جس کی تاریخ ادائیگی پہلی سلم والی ہی ہو۔متوازی سلم میں مدت کم ہونے کی وجہ سے قیمت زیادہ ہوگی اور یوں دونوں قیمتوں میں فرق بینک کانفع ہوگا۔مگر ہمارے ہاں اسلامی بینکوں میں یہ طریقہ شاذو نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔زیادہ تر فروخت کنندہ کو ایجنٹ بنانے کا طریقہ ہی اختیار کیا جاتا ہے جو شرعاً درست نہیں۔[34]

وصلی اللّٰہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ اجمعین


[1] کتاب الام: باب السلف۔ مصنف عبدالرزاق :ص 14064

[2] صحيح بخاری : كتاب السلم، باب السلم فی وزن معلوم

[3] الاجماع ص :112

[4] المغنی از ابن قدامہ، مفہوماً

[5] دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم ص 164

[6] آپ کے مسائل اور ان کا حل 413/1

[7] ترمذي:كتاب البیوع، باب ما جاء في كراهیة البیع ما لیس عندك(صحيح)

[8] شرح السنة 140/8

[9] مجموع الفتاویٰ: 530/20

[10] آپ کے مسائل اور ان کا حل413-411/1

[11] ترمذي:كتاب البیوع، باب ما جاء في كراهیة البیع ما لیس عندك(صحیح)

[12] ترمذي:كتاب البیوع، باب ما جاء في كراهیة البیع ما لیس عندك(صحیح)

[13] اعلام الموقعین مترجم314/1

[14] الموسوعۃ الفقہیۃ:202/25

[15] فقہ السنہ:152/3

[16] فتاویٰ اہلحدیث266-67/2

[17] صحیح بخاری :کتاب السلم، ترجمہ و تشریح از مولانا محمدداؤد راز، جلد 3

[18] منہاج المسلمـ مترجم، ص 547

[19] فقہ السنہ 152/3

[20] 2فتاویٰ اصحاب الحدیث 253/2

[21] 3منہاج المسلم :مترجم ص :547

[22] صحیح بخاری:کتاب السلم، ترجمہ و تشریح از مولانا محمدداؤد راز، جلد 3

[23] صحيح بخاري:كتاب السلم،باب السلم في وزن معلوم

[24] دیکھئے المغنی از ابن قدامہ۔البیوع

[25] صحیح بخاری:کتاب السلم، ترجمہ و تشریح از مولانا محمدداؤد راز، جلد 3

[26] 2دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم، ص :169

[27] فقہ الحدیث 312/2

[28] الاجماع، مترجم ص 112

[29] سورة البقرة :282

[30] دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم

[31] فصیل کیلئے حوالہ مذکورہ بالا

[32] 1المبسوط:ج15 ص101

[33] بحوث فقهية قضایا اقتصادية معاصرة:ج1 ص:214

[34] دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم از حافظ ذوالفقار علی حفظہ اللہ

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ عبدالوکیل ناصر حفظہ اللہ

کراچی کے معروف علماء میں سے ا یک نام الشیخ عبدالوکیل ناصر صاحب کا ہے، آپ ان دنوں جامعۃ الاحسان الاسلامیہ کراچی کے سینئر مدرس کی حیثیت سے دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ سندھ بھر میں خطابات و بیانات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔