امن و امان ایک عظیم نعمت

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، وہی شان و شوکت ، عظمت و کبریائی والا اور نعمتیں عطا کرتا ہے، وہی تنگی و خوشحالی میں تعریف کے لائق ہے، میں اسی کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں اسی کی طرف توبہ کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، آسمان و زمین اسی کے ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ ہی کو دین حنیف دیکر بھیجا گیا، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر، ان کی آل اور نیک و متقی صحابہ کرام پر سلامتی، برکتیں ، اور رحمتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اطاعت الہی کرتے ہوئے تقوی الہی اپناؤ؛ کیونکہ تقوی بہترین زادِ راہ ہے، نیز تقوی اپنانے والا ہی دنیا میں کامیاب اور آخرت میں کامران ہوگا، فرمانِ باری تعالی ہے:

 وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا

الطلاق – 5

جو اللہ تعالی سے ڈرے تو اللہ تعالی اسے سارے گناہ مٹا کر عظیم اجر سے نوازتا ہے۔

لوگوں!

اللہ تعالی کی نازل کردہ اور عطا شدہ نعمتوں کو یاد رکھو، اور جن مصیبتوں سے اس نے تمہیں نجات دی ہے انہیں مت بھولو، اللہ سبحانہ و تعالی بہت ہی کریم، جوّادِ عظیم، وسیع رحمت، اور محکم شریعت والا ہے، چنانچہ یہ اللہ کی رحمت کا ہی تسلسل ہے کہ اس نے انسانوں کی فلاح و بہبود ، خوشی و شادمانی اور پر امن زندگی کے لئے شریعت نازل فرمائی ، ان مقاصد کے لئے اللہ تعالی نے ایسے تمام اسباب فراہم کیے جن کی وجہ سے امن و امان، سکون و اطمینان اور خوشحال زندگی میسر آ سکے ، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ

الانفال : 24

 اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بات مانو جب بھی وہ تمہیں زندگی افزا احکامات کی دعوت دیں۔

امن ہی اسلام کا قلعہ ہے، اور مسلمان اس قلعے کے باسی ہیں، یہ قلعہ مسلمانوں کی دشمنوں سے حفاظت کرتا ہے، اور مسلمان اس قلعے کی شریر عناصر سے حفاظت کرتے ہیں، امن اسلام کی چار دیواری ہے، اسی چار دیواری میں مسلمان اپنے آپکو محفوظ تصور کرتے ہیں، نیز شر پسند اور باغیوں سے اپنے آپ کو بچا پاتے ہیں، مسلمان اس چار دیواری کو ٹوٹنے اور گرنے سے محفوظ رکھتے ہیں، بلکہ کسی قسم کا شگاف بھی نہیں پڑنے دیتے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے اسی کی بقا میں دین، مال و جان، عزت آبرو، لین دین، آزادانہ نقل و حرکت سمیت زندگی کی تمام سر گرمیوں کی بقا رکھی ہے، اسی حصار کی موجودگی میں لوگ اپنی معاشی و دیگر ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں آتے جاتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

القصص – 57

کیا ہم نے پرامن حرم کو ان کی جائے قیام نہیں بنایا، جہاں ہمارے حکم سے ہر طرح کے پھل رزق کی صورت میں لائے جاتے ہیں؟ لیکن ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ۔

نیز عبید اللہ بن محصن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جو شخص اپنے گھر میں پر امن صبح کرے، بدنی طور پر صحیح سلامت ہو اور اس دن کا کھانا بھی اس کے پاس ہو تو گویا اس کے لئے ساری دنیا اکٹھی کر دی گئی ہے) ترمذی نے روایت کیا ہے، اور اسے حسن قرار دیا۔

امن و امان اور اسلام و ایمان کا چولی دامن کا ساتھ ہے، چنانچہ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جس وقت نیا چاند دیکھتے تو فرماتے:

اَللَّهُمَّ أهِلَّهُ عَلَيْنا بالأمْنِ وَالإِيمانِ وَالسَّلامَةِ وَالإِسْلامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ‏ ، هِلالَ خَيْرٍ وَرُشْدٍ

یا اللہ! اسے ہم پر امن وایمان ، سلامتی اور اسلام کیساتھ طلوع فرما، [چاند!]میرا اور تیرا رب اللہ ہے، [یا اللہ!] اسے خیر و بھلائی کا چاند بنا]اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا۔

امن کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے دین، جان، عزت آبرو، مال و دولت، املاک، عزت و احترام اور اپنی ہر چیز کے بارے میں مطمئن رہے، انسان کو ان کے بارے میں کسی قسم کا خطرہ و خدشہ لاحق نہ ہو، اسی طرح انسان کے ایسے ادبی و معنوی حقوق جنہیں اسلام نے تحفظ دیا ہے ان کے بارے میں بھی مکمل اطمینان میں رہے۔

امن و امان اسلام سے ہی ممکن ہے، شریعت اسلامیہ ہی مسلمان کی زندگی و موت ہر دو حالت میں امن کی ضامن اور پاکیزہ زندگی کا باعث ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

النحل – 97

کوئی بھی مرد یا خاتون ایمان کی حالت میں نیک عمل کرے تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کرینگے اور ہم انہیں ان کے اچھے اعمال کا بدلہ بھی دینگے۔

اللہ رب العالمین کے بارے میں عقیدہ توحید سب سے پہلا واجب ہے، چنانچہ عقیدہ توحید پایۂِ ثبوت تک پہنچانے والے شخص کو اللہ تعالی کی جانب سے امن و ہدایت، اور دنیا و آخرت میں شرک کی وجہ سے ملنے والی سزاؤں سے تحفظ ملتا ہے، لہذا ہمارے جد امجد ابراہیم ﷺ کے واقعہ میں فرمانِ باری تعالی ہے:

 قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ (80) وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (81) الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ

الانعام – 80/82
[ابراہیم] نے کہا : کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ اس نے مجھے ہدایت دی ہے، اور میں اس سے نہیں ڈرتا جسے تم اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہو مگر یہ کہ میرا رب ہی کچھ چاہے، میرے رب نے ہر چیز کا علم سے احاطہ کر رکھا ہے تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟۔ اور میں تمہارے شریکوں سے کیوں ڈروں؟ حالانکہ تم انہیں اللہ کے برابر شریک بنانے سے نہیں ڈرتے، جس کی کوئی دلیل اللہ نے تم پر نہیں اتاری، [بتاؤ]دونوں گروہوں میں سے امن کا زیادہ حق دار کون ہے اگر تم جانتے ہو؟۔ [نہیں جانتے تو سنو] جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “جو شخص ظلم کی تینوں اقسام یعنی : 1) شرک، 2) لوگوں پر ظلم، 3) شرک سے نچلے درجے کا اپنے آپ پر ظلم ، ان تمام سے بچ جائے تو اسے ہی مکمل امن و امان اور کامل ہدایت ملے گی، اور جو شخص اپنے آپ پر ظلم سے نہ بچ سکے تو اس کے لئے محدود مقدار میں امن و ہدایت ہوگی” انتہی

یعنی جس قدر شرک اکبر سے نچلے درجے کے ظلم سے بچے گا اسی قدر اسے امن و ہدایت نصیب ہوگی۔؎

فرمانِ باری تعالی ہے:

لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ

الانبیاء – 103

انتہائی گھبراہٹ کا وقت بھی انھیں غمگین نہیں کرے گا اور فرشتے آگے بڑھ کر ان سے ملیں گے [اور کہیں گے] یہی وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔

امن و امان پیدا کرنے کے لئے مسلمانوں کو اسلامی شریعت پر عمل پیرا ہونا چاہیے؛ کیونکہ اسلامی شریعت ہی حقوق اللہ و حقوق العباد کی ضامن ، نیز گناہ، ظلم و زیادتی، اور بغاوت سے روک تھام کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ

العنکبوت – 45

اور نماز قائم کر، بیشک نماز برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے، اور اللہ کا ذکر بہت بڑی [عبادت ]ہے۔

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النحل – 90

 اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو [مال] دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (باہمی حسد نہ کرو، دھوکہ مت دو، بغض مت رکھو، خفگی مت رکھو، ایک دوسرے کے بھاؤ پر بھاؤ مت لگاؤ، اور اللہ کے بندے بن کر بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ کبھی اس پر ظلم نہیں کرتا، اسے حقیر نہیں سمجھتا، اور نہ ہی کبھی اسے رسوا کرتا ہے، تقوی یہاں ہے، آپ نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، کسی بھی شخص کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، تمام مسلمانوں کے آپس میں مال و جان اور عزت آبرو حرام ہیں) مسلم

آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (ذمی لوگوں پر ظلم مت کرو)

اللہ تعالی نے امن و امان کو کچھ عبادات اور احکام کے لئے ضروری قرار دیا، چنانچہ اللہ تعالی نے حالت خوف سے نکل کر نماز ادا کرنے کے بارے میں فرمایا:

فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ فَإِذَا اطْمَأْنَنْتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا

النساء – 103

پھر جب تم نماز ادا کر لو تو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرو اور جب اطمینان حاصل ہو جائے تو پھر [پوری ]نماز ادا کرو ، بلاشبہ مومنوں پر نماز مقررہ اوقات میں فرض کی گئی ہے۔

جانوروں اور کھیتی باڑی کی زکاۃ اسی وقت جمع ہو سکتی ہے جب امن و امان قائم و رائج ہو۔

اور حج کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ

البقرۃ – 196

 جب امن میں ہو جاؤ تو جو شخص حج کے ساتھ عمرہ بھی کرے تو وہ میسر قربانی کرے۔

بلکہ بسا اوقات امن میں کی گئی عبادات خوف میں کی گئی عبادات سے زیادہ بہتر ہوتی ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

النور – 55

 تم میں سے مومن اور نیکو کار لوگوں کیساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انھیں زمین پر ایسے ہی خلافت عطا کرے گا جیسے تم سے پہلے لوگوں کو عطا کی تھی اور انکے دین کو مضبوط کرے گا جسے اللہ نے پسند کیا ہے نیز ان کے خوف کو امن میں تبدیل کر دے گا۔ چنانچہ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے تو وہی فاسق ہیں ۔

امن پیدا کرنے کا سبب یہ بھی ہے کہ پورا معاشرہ مجرموں، دہشت گردوں اور شر پسندوں سے امن کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کرے، اس کے لئے اچھی باتوں کا حکم دے، برائی سے روکے، آگہی و رہنمائی کرے ، درست راستے کی تعلیمات پہنچائے، بدعات سے روکے، ملت اسلامیہ اور حکمران کا التزام کرے، نیز گمراہ و شر پسند عناصر کے بارے میں متعلقہ اداروں کو آگاہ کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

آل عمران – 104

تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے، نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے ، یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (جو شخص تم میں سے برائی دیکھے تو اسے خود ختم کرے، اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے کوشش کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھے تو اسے اپنے دل میں برا جانے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے) مسلم

امن و امان کے قیام کے لئے سب سے بڑا ذریعہ طاقتور حکمرانی اور مجرمین کیساتھ سختی ہے، چنانچہ انہیں شریعت کے مطابق سزاؤں کے ذریعے اس دھرتی پر فساد پھیلانے سے روکا جائے، لہذا جس انداز سے بھی ظالم کا ظلم تھمے اسے روکنا چاہیے چاہے ظالم مسلمان ہی کیوں نہ ہو، جبکہ اہل کتاب ذمی اور کافر پر امن انداز سے اپنے اپنے دین پر چلیں گے کیونکہ ان کی بد عقیدگی اور کفر کا خمیازہ انہی پر ہوگا، ان سمیت تمام رعایا کی ذمہ داری حکمران پر عائد ہوتی ہے۔

عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “اللہ تعالی حکمران کے ذریعے وہ کچھ کروا دیتا ہے جو قرآن سے نہیں کرواتا”

امت اسلامیہ کی بہترین حالت اسی وقت ہوگی جب دینی حمیت و بصیرت کیساتھ ساتھ حکمران بھی طاقتور ہو، ایسی صورتحال میں امت اسلامیہ کے دینی و دنیاوی معاملات بہترین انداز میں چلیں گے، اس کے بعد یہ درجہ آتا ہے کہ حکمران طاقتور تو ہو لیکن دینی حمیت و بصیرت کچھ لوگوں کے ہاں کمزور پڑ چکی ہو، تو ایسی صورت میں بھی طاقتور حکمران شر پسندوں اور مجرموں کی روک تھام کر سکتا ہے، اور امت کامیابی کے راستے پر گامزن رہتی ہے۔

شرعی اسلامی احکامات کی پاسداری کرنے والوں کے بارے میں ہمارا مشاہدہ ہے کہ بہت سے مسلمانوں پر لمبی عمر کے باوجود مال و جان، عزت آبرو، یا حق تلفی کا کوئی دعویدار سامنے نہیں آتا؛ وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی احکامات کی پاسداری کی اور حقوق ادا کیے، چنانچہ اس طرح وہ لوگ امن و ایمان کیساتھ خوش و خرم زندگی گزارتے رہے، اور انہیں اللہ کے ہاں اچھا بدلہ بھی ملے گا، چنانچہ شریعت اسلامیہ کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے والے کے خلاف چارہ جوئی کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ اور نبی ﷺ کا فرمان سچ ہے کہ: (مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں)۔

نعمتِ امن کو شریعت اسلامیہ نے مکمل تحفظ اور کامل دیکھ بھال کے بعد مضبوط حصار میں محفوظ کیا ہے، نیز اللہ تعالی نے لوگوں کے دینی اور دنیاوی مفادات کو نعمتِ امن سے ہی منسلک رکھا ، چنانچہ اگر کوئی شخص امن مخدوش کرنے کے لئے زنا یا لواطت کا مرتکب ہو تو حکمران کی جانب سے جرم ثابت ہونے پر عفت اور نسب کے تحفظ کے لئے اس پر حد قائم کی جائے گی، اگر کسی نے چوری کے ذریعے امن مخدوش کرنے کی کوشش کی تو دولت کے تحفظ کے لئے اس پر بھی حد قائم کی جائے طرح جس شخص نے منشیات استعمال کی، یا انہیں پھیلانے کی کوشش کی تو اس شخص نے بھی امن سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے؛ اس لیے اس پر بھی انسانی عقل کو تحفظ دینے کے لئے حد قائم کی جائے گی، اور اگر کوئی جان بوجھ کر کسی کا قتل کرے تو حکمران انسانی جانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے قصاص لے گا، اور اگر کوئی معصوم جانوں کا قتل کر کے مال لوٹے ، سڑکوں پر ڈاکے مارے تو حکمران اللہ تعالی کا یہ فرمان نافذ کرے گا:

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (33) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

المائدة – 33/34

 جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ اور زمین میں فساد بپا کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں ان کی سزا تو یہی ہے کہ انہیں اذیت کے ساتھ قتل کیا جائے یا سولی پر لٹکایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیئے جائیں یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے۔ ان کے لیے یہ ذلت تو دنیا میں ہے اور آخرت میں انہیں بہت بڑا عذاب ہوگا۔ مگر جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ، تمہیں علم ہونا چاہئے کہ اللہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔

چنانچہ جس شخص سے اللہ اور اس کا رسول اعلان جنگ کر دیں تو وہ کبھی بھی با مراد نہیں ہو سکتا، بلکہ ہمیشہ نا مراد ہی رہے گا۔

لہذا جتنی بھی شرعی سزائیں ہیں وہ حقیقت میں معاشرے کو شریر عناصر سے تحفظ دینے کے لئے ہیں، نیز یہ سزائیں مجرمین کے لئے کفارہ بھی ہیں؛ تاہم پکڑے جانے سے پہلے جو مجرم توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے، اور اگر کسی کے ذاتی گناہ پر اللہ تعالی نے پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔

اللہ تعالی جب کسی معاشرے کو امن سے نوازے تو ان کی معیشت بحال ، زندگی خوشحال ، معاملات آسان، اور مال و دولت ، عزت ،آبرو محفوظ ہو جاتی ہیں۔

اور اگر امن و امان کی حالت دگر گوں ہو تو زندگی ناقابل برداشت حد تک اجیرن ہو جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

النحل – 112

 اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی ہے جو امن والی ، اور مطمئن تھی ، اس کے ہاں کھلا رزق ہر جگہ سے آتا تھا ، اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لبادہ پہنا دیا ، اس کے بدلے جو وہ کرتے رہے۔

امن و امان تکمیل دین کا اہم جزو، اور شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے، چنانچہ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “ہم نے رسول اللہ ﷺ کو شکایت کی-آپ اس وقت کعبہ کے سائے تلے چادر پر ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے- ہم نے کہا: “آپ ہمارے غلبے کے لئے اللہ سے دعا کیوں نہیں فرماتے” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تم سے پہلے امتوں میں ایک آدمی کو زمین میں دبا کر اس کے سر کو آرے سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا، لوہے کی کنگھی کے ذریعے ہڈی سے گوشت اتار دیا جاتا، لیکن یہ تمام اذیتیں اسے دین سے دور نہیں کر سکتی تھیں، اللہ کی قسم! اللہ تعالی اس دین کو ضرور غالب فرمائے گا حتی کہ ایک سوار صنعا سے حضر موت تک کا سفر کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گا، اور نہ اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیے کا خوف رکھے گا، لیکن تم جلد بازی کرتے ہو) بخاری

فرمانِ باری تعالی ہے:

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ

البقرة – 152

 تم میرا ذکر کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر کرتے رہو، ناشکری مت کرو۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا وتنہا ہے ، وہی طاقتور اور مضبوط ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اس کے بندے اور امین رسول ہیں، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، ان کی آل ، اور تمام صحابہ کرام پر اپنی رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔ حمد و صلاۃ کے بعد: کما حقہ تقوی الہی اختیار کرو ، اور اسلام کے مضبوط کڑے کو اچھی طرح تھام لو۔

اللہ کے بندوں!

نعمتِ امن عظیم نعمتوں میں سے ہے، چنانچہ جو لوگ اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر بجا لاتے ہیں اللہ تعالی انہیں اجر کیساتھ مزید نعمتوں سے بھی نوازتا ہے، اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نعمتوں کی قدر نہیں کرتے تو انہیں نعمتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ (9) وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ (10) إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ

هود – 9/11

اگر ہم کسی انسان کو اپنی رحمت کا مزا چکھائیں اور پھر اس سے رحمت چھین لیں تو وہ مایوس ہو کر ناشکری کرنے لگتا ہے۔ اور اگر کوئی مصیبت آنے کے بعد ہم اسے نعمتیں عطا کریں تو کہتا ہے میری تو مشکلات دور ہوگئیں پھر وہ اترانے اور تکبر کرنے لگتا ہے۔ سوائے ان کے جو صبر کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لگے رہتے ہیں ، انہی لوگوں کے لئے بخشش بھی ہے اور بہت بڑا بدلہ بھی۔

اس لیے شریعتِ الہی دنیا و آخرت میں انسانیت کے لئے سراپا رحمت، عدل، سلامتی اور امن ہے، نبی ﷺ سے مری ہے کہ: (اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر رحمت ایک ماں کی اپنی اولاد کیساتھ محبت سے بھی کہیں زیادہ ہے)۔

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الأحزاب – 56

 یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو۔

اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً

یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! شر پسند عناصر کا قلع قمع فرما، یا اللہ! ظالموں اور بربریت بپا کرنے والوں سے انتقام لے، یا رب العالمین! اور ہمیں ان سے دور فرما، یا ارحم الراحمین! یا اللہ! تیری اور دین دشمن قوتوں پر اپنی پکڑ نازل فرما۔

یا اللہ! اپنے دین، قرآن، اور سنت نبوی کو غالب فرما، یا ذالجلال و الاکرام، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں یا ارحم الراحمین! یا اللہ! مسلمانوں کی مشکل کشائی فرمائی، یا اللہ! مسلمانوں کی مصیبتیں ختم فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کی مشکلات، تکالیف، اور مصیبتوں کو ختم فرما دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! مسلمانوں کی طرف سے خود ہی انتقام لے، یا اللہ! انہیں ظالموں پر غلبہ و فتح نصیب فرما، یا اللہ! مسلمانوں پر اسلام کی وجہ سے ظلم و زیادتی کرنے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! ان پر اپنی پکڑ نازل فرما وہ تیرے سامنے بالکل بے بس ہیں۔

یا اللہ! یا ذا الجلال و الاکرام! ہم سب کی توبہ قبول فرما، یا اللہ ! ہم سب کی توبہ قبول فرما، یا اللہ! ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو دین کی سمجھ عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! یا ارحم الراحمین! تو ہمارے گناہ، ظلم و زیادتی معاف فرما، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، اور ہم سے اپنا فضل مت روک، یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما، یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما، یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما،یا اللہ! رحمت والی بارش نازل فرما، عذاب، تباہی، نقصانات اور غرق کا باعث بننے والی بارش سے بچا، اور پھر اسے شہروں دیہاتوں سب کے لئے مفید بنا، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! سرحدوں پر پہرہ دینے والے ہمارے فوجیوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! دفاعِ حق کے لئے ہماری سرحدوں پر پہرہ دینے والے فوجیوں کی حفاظت فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کے دلوں کو ثابت قدم بنا، یا اللہ! انہیں اپنے دشمنوں کے خلاف فتح نصیب فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہماری تمام معاملات میں درست رہنمائی فرما، یا اللہ! ہمیں اپنی اطاعت میں مشغول فرما، اور تیری نافرمانی سے دور فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! جادو گروں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا ذو الجلال و الاکرام! یا اللہ! جادو گروں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو ان کی مکاریوں اور چالوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! ان پر اپنا نہ ٹلنے والا عذاب نازل فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہمیں ہمارے علاقوں میں امن و امان عطا فرما، اور ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما۔

یا اللہ! اپنے بندے خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! اُسکی تیری مرضی کے مطابق رہنمائی فرما، اور اسکے تمام اعمال اپنی رضا کے لئے قبول فرما، یا اللہ! ہر اچھے نیکی کے کام کی انہیں توفیق دے، یا اللہ! ان کے ذریعے اپنے دین کو غلبہ عطا فرما ، ان کے ذریعے اپنے دین کو غلبہ عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کے دونوں ولی عہد کی تیری مرضی کے مطابق رہنمائی فرما، یا اللہ! ہر اچھے نیکی کے کام کی انہیں توفیق دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی سے نواز اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! تمام مسلمان اور مؤمن مرد و خواتین کو بخش دے، چاہے زندہ یا فوت شدہ سب کو بخش دے، یا اللہ! تمام مسلمانوں کی قبروں کو منور فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کے معاملات آسان فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی سے نواز اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ

النحل – 90/91

 اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے۔

اللہ عز و جل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

   فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ

آپ ان دنوں مسجد نبوی کے امام ، قبل ازیں مسجد قباء کے امام تھے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوبصورت آواز میں بہترین لہجے میں قرات قرآن کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کے محبین موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ تادیر آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ۔آمین