مسلم ممالک میں امن اور ہماری ذمہ داریاں

پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں بہت اعلی اور بلند شریعت دی ہے، آسانی اور سہولت اس کا شعار ہے، رحمت و شفقت اس  کا عنوان ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، یہ گواہی توحید پرستوں کے دلوں میں بہت عظیم گواہی ہے،  اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں  کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ،اللہ تعالی نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر ایسی شریعت کے ساتھ بھیجا جو کہ دین حنیف ہے اور اپنے ماننے والوں کی ضروریات کا اسے اچھی طرح ادراک ہے، آپ ہمیشہ اسی شریعت کی دعوت دیتے رہے، نیز اسی شریعت کے دلائل سے اس کا خوب دفاع بھی کیا، اس شریعت کے قطعی اصولوں کے ذریعے اس کا تحفظ بھی یقینی بنایا، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام  پر رحمتیں  اور سلامتی  نازل فرمائے ۔

حمد و صلاۃ کے بعد: مسلمانوں!

اللہ تعالی ڈرو، اللہ کا ڈر سب سے بڑی نیکی ہے اور اسی کی اطاعت سے شان بلند ہوتی ہے

 يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

البقرة – 194

 اے ایمان والو! اللہ سے کما حقُہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔

مسلمانوں!

اللہ کا شکر ادا کرونعمتوں اور عنایات پر، اسی کی حمد بیان کرو کہ اس نے تم سے مصیبتیں اور آزمائشیں ٹال رکھی ہیں، اپنے اردگرد لوگوں سے عبرت حاصل کرو کہ کتنے ملکوں میں اختلافات بپا ہوئے اور حکومتی گرفت کمزور ہوگئی جس کی وجہ سے قانون کی ہیبت جاتی رہی، حکومت اور قومیت کچھ بھی باقی نہ رہا، آخر کار خانہ جنگی شروع ہو گئی  اور یکجہتی کے تار پور بکھر گئے، امن سبوتاژ ہو گیا۔ جب امن تباہ ہو جائے تو یہ بہت گراں گزرتا ہے، پھر دوبارہ امن قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے، بجھے ہوئے فتنوں کو خبیث ہی ہوا دیتا ہے، فتنوں کی قیادت غدار کرتے ہیں اور ظالم ہی فتنے پیدا کرتے ہیں۔

فتنوں میں ملوّث ہونے سے فتنے مزید بار آور ہوتے ہیں، دوسروں کو ساتھ ملانے پر فتنوں کی افزائش ہوتی ہے اور تشہیر پر  مزید پروان چڑھتے ہیں۔

بےکار شخص  کا کیا ہدف ہو سکتا ہے ؟ صرف یہی کہ لوگوں کو انقلاب، مظاہروں، دھرنوں، بغاوت اور حکمرانوں کے خلاف اکسایا جائے؟  حالانکہ حالات و واقعات یہ چیز ثابت کر چکے ہیں کہ ملکی قیادت اور حکمرانوں  کے خلاف بغاوت تمام فتنوں، مشکلات اور بلاؤں کی جڑ ہے، چنانچہ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (تم میرے بعد خود غرضی دیکھو گے، تم صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھے حوض  پر ملو) متفق علیہ

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “خود غرضی کا مطلب یہ ہے کہ: دنیاوی امور میں صرف اپنے مفاد کو مقدم رکھا جائے گا، تم پھر بھی ان کی بات سننا اور اطاعت کرنا چاہے حکمران خود غرض ہی کیوں نہ ہو اور تمہارا حق تمہیں نہ دے”۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “جو بھی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرے تو اس بغاوت سے پیدا ہونے والی خرابی فائدے سے کہیں بڑی ہوتی ہے”۔

اسی طرح عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: “بیٹا! منصف حکمران تو موسلا دھار بارش سے بھی بہتر ہے، جبکہ دائمی ہنگاموں سے ظالم حکمران بہتر ہے”۔

فتنے عقل کو امتحان میں ڈال دیتے ہیں اور انسانی جہالت عیاں کر دیتے ہیں۔

جس وقت  فتنوں کی وجہ سے خانہ جنگی شروع ہو جائے اور لوگ ہنگامہ آرائی پر اتر آئیں تو خواب بھی چکنا چور ہو جاتے ہیں، قدم پھسل جاتے ہیں، علم و حلم سے مزین اور گناہ و زیادتی سے بچنے والوں کے علاوہ سب کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

زبان پر لگام اور ہتھیار کی زبان بیوقوفوں کو خاموش کرواتی دیتی ہیں جبکہ علم  جہالت مٹاتا ہے، اور دانشمندی فتنوں کا سد باب کرتی ہے۔

حُلُومَكُمْ يَا قَوْمُ لَا تَعْزِبُنَّهَا

وَلَا تَقْطَعُوْا أَرْحَامَكُمْ بِالتَّدَابُرِ

لوگو! بردباری  مت چھوڑنا اور نہ ہی بے رخی کرتے ہوئے رشتے توڑنا۔

مسلمانوں! جب چیخ و پکار شروع ہو، خوب دنگے اور فساد ہونے لگیں، کہرام  مچ جائے، مظاہرے اور انقلاب  برپا ہوں تو ان حالات کو سب سے پہلے اسلام دشمن قوتیں ہی اپنے مفاد کیلیے استعمال کرتی ہیں ، ان کی سیاست ہی اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ  مسلمانوں کے حقوق پامال کئے جائیں، مسلمانوں کی املاک  ہڑپ کی جائیں، مسلم ممالک پر مسلح چڑھائی کر کے ان کی معیشت تباہ کر دی جائے، مسلمانوں کی دولت لوٹ لی جائے، اور مسلم علاقوں میں افراتفری پھیلا ئی جائے، صرف اس لیے کہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو سکیں اور اہداف حاصل کر سکیں۔

عدل اور مبنی بر عدل قوانین و احکام کوئی بھی ایسی قوت قائم نہیں کر سکتی  جو ظلم  و استبداد کے گڑھے میں گری ہوئی ہو جو اپنی قوت پر گھمنڈ کی وجہ سے دھوکے میں پڑی ہوئی ہو۔

حقیقی طور پر عدل و رحمت سے کام لینے والوں اور جابر و ظالم حکمرانوں کے دعوے یکساں  نہیں ہو سکتے جنہوں نے اپنے آپ کو پوری دنیا کے ٹھیکے دار ، حقوق کے محافظ، امن و سلامتی  کے نقیب بنایا ہوا ہے۔

امن و سلامتی کا پاسبان وہ کیسے ہو سکتے ہیں جو انقلاب اور بغاوت  کے ہمنوا ہوں، جو جنگیں اور ہنگامے برپا کرنے میں ملوث ہوں، غداروں کی پشت پناہی کریں، جن کا ماضی قوت، مال و دولت اور استحکام سے مالا مال شاندار حکومتوں کے خلاف جنگوں سے بھر پور ہو ۔

موجودہ تمام اقوام اور سلامتی کونسل  نے اس بات پر زور تو دیا ہے کہ امن و سلامتی یقینی بنائی جائے لیکن لگتا ایسے ہے کہ انہوں نے امن و سلامتی کو زندہ درگور کرنے اور اس کے خاتمے کا عزم کیا ہے!!

سلامتی کے قیام کے لئےلکھی جانے والی دستاویزات پانی پر تحریر کی طرح ہیں اور شجرِ دھوکا و فراڈ کے پتوں پر لکھا نوشتہ  ہے۔

كَـمْ لِـلـسَّلَامِ مَوَاثِقاً عَبَثَتْ بِهَا

رِيْـحُ الـسِّـيَاسَةِ شَمْأَلًا وَجُنُوْبًا

سلامتی کے کتنے ہی معاہدوں کے ساتھ سیاست کی اندھیری نے کھلواڑ کیا کبھی اسے شمال تو کبھی جنوب کی جانب گرا دیا۔

إِنْ تَـكْـتُبُوْا لِلسِّلْمِ عَهْداً فَاجْعَلُوْا

مَـعَ الـثَـكَـالَى بِالْمِدَادِ مَشُوْبًا

اگر تم سلامتی کا کوئی معاہدہ تحریر کرنے لگو تو اس کی روشنائی میں اجڑی ہوئی گود والی ماؤں کے آنسو بھی شامل کر لینا۔

أَوْ فَـانْـقُشُوْا بِدَمِ الضَّحَايَا خَطَّهُ

وَتَـذَكَّـرُوْا يَـوْماً قَضَوْهُ عَصِيْبًا

یا جان کی قربانی دینے والوں کے خون سے  اسے تحریر کرنا اور وہ دن یاد رکھنا جو انہوں نے سخت کرب اور تکلیف میں گزارا تھا۔

صُوْغُوْا عَدْلًا لِلْبَرِيَّةِ شَامِلًا

لَا مَرْتَعًا لِلْأَقْوِيَاءِ خَصِيْبًا

ایسا عادلانہ معاہدہ تحریر کرو جو سب کے لئےہو  ، محض طاقتور کے لئےزر خیز میدان مت تیار کرنا!!۔

امن و سلامتی کے جھوٹے پاسبانوں! سلامتی مفاد پرستی  میں گم ہو چکی ہے، تمہاری پاسبانی میں سلامتی  معدوم اور جھوٹ بن چکی ہے۔

اپنی عیش پرستی کی آوازیں دھیمی رکھو مبادا بھوکے ، بے گھر اور  جلاوطن  افراد خواب سے بیدار ہو جائیں!!

جس عیاشی میں تم مست ہو  اس کی جھنکار  پست رکھو  مبادا   مکانو، گھروں اور ہسپتالوں کے ملبے تلے گمشدہ بچوں کے خواب ٹوٹ جائیں!!۔

سنیوں کو ہدف بنا کر ان کی حکومت، قیادت، بااثر شخصیات، علمائے کرام، ان کی دولت، معیشت تباہ کرنا، سنی علاقوں کا محاصرہ کر کے مساجد، جامع مساجد اور اسکولوں کو نشانہ بنانا تمام مسلمانوں کے خلاف منظم دہشت گردی  ہے، بلکہ یہ جنگی جرائم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے اپنے علاقے اور وطن میں انسانی حقوق کی پامالی اور ان کا استحصال بھی ہے۔

مسلمانوں!

مسلمانوں کی صفوں میں  واضح دراڑیں ، شگاف اور رخنے موجود ہیں، ہر شخص کی الگ رائے اور فکر ہے، مسلمان فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، ہر فرقے  کی الگ نیت  ہے، ہر گروہ اپنے مقاصد کے لئےکام کرتا ہے اور ہر جماعت کا اپنا مسلک ہے، سب ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے اور باہمی نفرت پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہمیں مسلمانوں میں صرف سخت دھمکیاں ہی سنائی دیتی ہیں نیز تشدد اور سختی دیکھائی دیتی ہے، ہر کوئی اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلا رہا ہے، اور اپنا غصہ مسلمان بھائی پر نکال رہا ہے۔

امت کو کبھی بھی ایسا شخص اتحاد اور یگانگت نہیں دے سکتا جو جاہل  ہو، اختلافات کو ہوا دے اور انہیں بھڑکائے، تشدد اور سختی کے ذریعے دین سے متنفر کرے، فحش گوئی کے ذریعے لوگوں سے زیادتی کرے، انہیں گالیاں نکالے،  یا دشمنی  پیدا کرے ، دلوں میں نفرت اور صفوں میں شگاف ڈالے، یا خود باتیں گھڑ کر دین کی صورت میں پیش کرے اور سمجھ بوجھ اور حدیث  کے بغیر ہی فتوی جھاڑے، اور بدعات و خرافات  میں مبتلا ہو کر گمراہ رہے ۔

فروعی اور فقہی مسائل میں اختلاف عداوت کا باعث نہیں بننا چاہیے، فروعی اختلاف کی وجہ سے باہمی اتحاد، اتفاق میں رخنے نہ پڑیں اور نہ ہی مخالف کو بدعتی، فاسق، یا کافر قرار دیں، تاہم مسلمان پر یہ واجب ہے کہ حق کی جستجو میں لگا رہے اور صرف اسی بات کو تسلیم کرے جس پر قرآن کریم یا حدیث نبوی سے دلیل ملے چاہے وہ اس کے استاد یا اس کے اپنے فقہی مذہب سے متصادم ہو، لہذا اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اس قسم کے مسائل میں اختلاف کو  تنازعات، جھگڑے ، ناچاقی اور گروہ بندی کا ذریعہ بنائیں، سلف صالحین میں  بہت سے مسائل کے اندر اختلاف تھا لیکن اجتہادی مسائل میں کوئی بھی ایک دوسرے پر قدغن نہیں لگاتا تھا، بلکہ ان کے دل فراخ تھے، امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہم بھائی بھائی رہیں اگرچہ متنازعہ مسئلہ میں ہمارا اتفاق نہ بھی ہو!؟”

کوئی بھی قول یا عمل سنت سے متصادم ہو یا اجماع سے ٹکراتا ہو تو اس سے روکنا واجب ہے، جبکہ کسی بھی مسئلے میں واضح سنت یا اجماع نہ ہو لیکن اس میں اجتہاد کی گنجائش ہو تو پھر اس سے نہیں روکا جائے گا چاہے وہ شخص اپنے اجتہاد کی وجہ سے اس پر عمل کر رہا ہوں یا کسی کے مسئلہ بتلانے کی بنیاد پر۔

قرآن و سنت کی نصوص سے متصادم فتوی دینا جائز نہیں ہے ، اگر کوئی دے تو اس مجتہد کی رائے کالعدم ہو جائے گی اور اس کی بات ماننا حرام ہو گا ؛ اس لیے کہ اس سے مجتہد کی بات کو شریعت پر مقدم کرنا لازم آتا ہے، جو کہ حرام ہے ۔

یہ کوئی عقل و دانش والی بات نہیں ہے کہ سنی مذاہب کے درمیان اختلافات کو ہوا دی جائے، اور [دوسری جانب ]سنیوں کے دشمن امت کو نقصان پہنچانے کے در پے ہوں ، حالانکہ دشمن اور ظالم قوتیں بلا واسطہ یا بالواسطہ باہمی تعاون پر متحد و متفق ہیں، قرآن کریم میں ہے کہ:

وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ

الانفال – 46

تنازعات میں مت پڑو ، وگرنہ پھسل جاؤ گے اور تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی۔ [الأنفال: 46] تنازعات سے  ناکامی اور نا مرادی  ملتی ہے نیز  دشمن غالب آتا ہے۔

عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (سب کا خون مسلمانوں [دیت اور قصاص میں] برابر ہے، کوئی ادنی مسلمان بھی کسی کو امان دے دے تو اسے تسلیم کیا جائے گا، دور افتادہ علاقے میں رہنے والا مسلمان کسی کو پناہ دے دے تو وہ بھی ماننی ہو گی، اور مسلمان غیروں کے خلاف یک جان ہیں)  ابو داود

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو  ہماری طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی جانب رخ کرے، ہمارا ذبیحہ کھائے تو یہی وہ مسلمان ہے جس کے لئےاللہ اور اس کے رسول کی جانب سے امان ہے، خیال کرنا اللہ کی جانب سے ملی ہوئی امان کو توڑ مت دینا) بخاری

جبکہ عقیدے پر تمام صحابہ  کرام کا اتفاق تھا، صحابہ کرام کے مابین عقیدے سے متعلق کوئی اختلاف یا تنازعہ نہیں تھا، سب اس بات کے قائل تھے کہ جو کچھ بھی کتاب و سنت میں ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔

صحابہ کرام کی یہ عادت تھی کہ  وہ بدعات اور نت نئے غیر شرعی طریقوں کے ذریعے عبادت کرنے سے منع فرماتے تھے، جن بدعات سے بچنا ضروری ہے ان میں: قبروں کا طواف کرنا، قبروں پر جانور ذبح کرنا، مردے کے لئےنذر ماننا، مردوں سے مدد طلب کرنا، اسی طرح اولیا اور صالحین  کی شان میں غلو کرتے ہوئے ان کے سامنے رکوع کرنا، جھکنا، انہیں سجدے کرنا، ان کے تھوک یا جسم سے برکت حاصل کرنا شامل ہے، حالانکہ ان کے جسم سے برکت لینے کو حبیب و محبوب رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں آپ کے جسم سے تبرک لینے پر قیاس کرنا ہر اعتبار سے باطل ہے، کس عقل یا نص کی بنا پر کسی بھی عالم یا ولی کو  چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزار کیوں نہ ہو سید البشر نبی ﷺ  پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے؟!

انہی بدعات میں: مسجد وغیرہ میں ذکر کرتے ہوئے ناچنا، اچھلنا، کودنا، گھومنا اور ہیجان انگیز حرکتیں کرنا  بھی شامل ہے،  یہ ایسی بدعات ہیں جس میں کچھ مسلمان جہالت یا کسی کے پیچھے لگنے کی وجہ سے مبتلا  ہیں، ان تمام چیزوں سے روکنا ضروری ہے لیکن روکنے کے لئےحکمت، اچھا انداز گفتگو، اور ایسا طریقہ اپنائیں جس سے آپ ہدف پا لیں، اور کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہو۔

جو شخص کسی بدعت یا باطل کام میں ملوث ہو تو اس پر حق کی جانب رجوع واجب ہے، کیونکہ حق کی جانب رجوع باطل پر اڑے رہنے سے بہتر ہے۔

امت میں اتحاد و اتفاق سلف صالحین کے فہم کے مطابق کتاب و سنت سمجھنے سے ہی پیدا ہو گا۔

قول عمل کے بغیر درست نہیں ہو سکتا، قول و عمل  نیت کے بغیر درست نہیں ہو سکتے اور قول و عمل سمیت نیت  صرف سنت پر عمل کرنے سے ہی درست ہو گی۔

یا اللہ ! ہماری رہنمائی فرما، اور ہمیں ہمارے نفس کے شر سے محفوظ فرما، میں اپنے گناہوں کی بخشش اللہ تعالی سے چاہتا ہوں تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لئےہے، جو پناہ طلب کرنے والوں کو پناہ دیتا ہے، میں اس اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہ ہونے کی گواہی دیتا ہوں جو بیماریوں سے مایوس ہونے والوں کو شفا دیتا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں  کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اتباعِ سنت نبوی کرنے والا ہی کامیاب و کامران اور ہدایت یافتہ ہو گا،  اور  نا فرمانی کرنے والے کا گمراہی و تباہی  مقدر ہو گی، اللہ تعالی اُن پر، ان کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں ،سلامتی،  اور برکتیں نازل فرمائے۔

حمدو صلاۃ کے بعد:

مسلمانوں!  تقوی الہی اختیار کرو، اور اسے اپنا نگہبان جانو، اسی کی اطاعت کرو، اور نافرمانی مت کرو

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ

التوبة – 119

اے ایمان والو! تقوی الہی اختیار کرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔

مسلمانوں!

سوشل میڈیا پر ٹویٹ کرنے والے ایسے لوگوں سے بچو جن کی تحریروں سے پاگل پن، جن کے ویڈیو کلپس کے ذریعے بیوقوفی چھلکتی ہے، انہوں نے کتنا ہی دنگا اور فساد بپا کیا، جھوٹ اور الزامات کا بازار گرم کیا، غلط اور سراسیمگی سے بھر پور باتیں کیں، ویسے سوشل میڈیا پر الا ما شاء اللہ عقلمند کم ہی ہیں ہے۔

سوشل میڈیا اس وقت ہر کس و نا کس کا میدان ہے، شہرت پسندی انہیں یہاں تک کھینچ لائی ہے، ناموری کی چاہت انہیں مزید شوق دلاتی ہے، فالورز کی کثیر تعداد انہیں دھوکے میں ڈال چکی ہے اور وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کوئی بھی ان سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور نہ ہی کوئی ان کا قائم مقام بن سکتا ہے، لیکن اگر انسان گم سم ہو، کوئی اسے تلاش کرنے والا نہ ہو ، ایسا مفلوس الحال ہو جسے دروازے سے بھی دھتکار دیا جائے تو یہ اس کے لئےاس بات سے بہتر ہے کہ وہ باطل اور برائی میں مشہور ہو۔

ذرائع ابلاغ میں کام اور ٹویٹ کرنے والوں!

اپنے دین اور ملک مملکت سعودی عرب کا دفاع کرو، اپنی قلموں کو امن، استحکام، اتحاد، یگانگت مستحکم بنانے کے لئےاستعمال کرو، اور ایسے تمام امور سے باز رہو  جو فتنے ، فساد، افراتفری، ہنگامے  اور بیوقوفانہ اقدامات کا باعث بنے، کسی بات کو کہنے یا کرنے سے پہلے اس کی تصدیق لازمی کر لو۔

احمد الہادی، شفیع الوری ، نبی  ﷺ پر بار بار درود و سلام بھیجو، جس نے ایک بار درود پڑھا اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پر  دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر درود  و سلام نازل فرما،  ! تمام صحابہ کرام اہل بیت اور تابعین و تبع تابعین سے راضی ہو جا، اور ان کے کیساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، یا کریم! یا وہاب!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! شرک اور مشرکین کو ذلیل و رسوا فرما، دین دشمنوں کو تباہ و برباد فرما، یا اللہ! ہمارے ملک کو امن و امان کا گہوارہ بنا اور تمام مسلم ممالک کو امن و سکون عطا فرما۔

یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ اور تیری رضا کا باعث بننے والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور نیکی و تقوی کے کاموں کے لئےان کی رہنمائی فرما، یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری شریعت اور سنت نبوی کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! حلب اور شام میں ہمارے مسلمان بھائیوں کی مدد فرما، یا اللہ! کمزوروں پر رحم فرما، یا اللہ! انہیں قتل کرنے والوں کے خلاف تو اعلان جنگ فرما، یا اللہ! انہیں قتل کرنے والوں کے خلاف تو اعلان جنگ فرما، یا اللہ! انہیں قتل کرنے والوں کے خلاف تو اعلان جنگ فرما، یا اللہ! ان پر گولہ باری برسانے والے پر اپنا عذاب، سزا، اور پکڑ نازل فرما، یا اللہ! گولہ باری کرنے والوں کو انہیں کے گولہ بارود سے تباہ و برباد فرما دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! پوری دنیا میں کمزور مسلمانوں کو بچا لے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری سرحدوں کو محفوظ فرما، ہماری فوج کی حفاظت فرما اور انہیں تیرے اور ان کے اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا فرما۔

یا اللہ! ان میں سے اپنی جانیں نچھاور کرنے والوں کو شہداء میں قبول فرما، اور دعاؤں کو سننے والے زخمیوں کو شفا یاب فرما۔

یا اللہ! تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، اور آزمائش میں پڑے ہوئے لوگوں کو نجات عطا فرما، قیدیوں کو رہائی نصیب فرما، فوت شدگان پر رحم فرما، اور ہم پر زیادتی کرنے والوں خلاف ہمیں کامیابیاں عطا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں بلند فرما، یا کریم! یا عظیم! یا رحیم!

مصنف/ مقرر کے بارے میں

  فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ

مسجد نبوی کے ائمہ و خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ صلاح بن محمد البدیر کا ہے جو متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور امام مسجد نبوی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ جج بھی ہیں۔