اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات میں الحاد اور اس کی صورتیں

الحاد کے معنیٰ ہیں : کسی ایک طرف مائل ہونا ۔ اسی سے لحد ہے جو اس قبر کو کہا جاتاہے جو قبر کے گھڑے کے اندر ایک طرف بنائی جاتی ہے ۔ دین میں الحاد اختیار کرنے کا مطلب کج روی اور گمراہی اختیار کرنا ہے‘‘ ۔ ( تفسیر احسن البیان ص ۳۹۰ مطبوعہ دار السلام لاہور)

اسماء ، اسم کی جمع ہے جس سے مراد :اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے نام ہیں جو باری تعالیٰ نے خود اپنے لئے منتخب کئے ہیں اور اپنے رسول ﷺ اور کتابِ عظیم کے ذریعے کچھ ہمیں بھی بتلائے ہیں ۔ اسی طرح صفات صفت کی جمع ہے جس سے مراد : اللہ تعالیٰ کی وہ بلند وبرتر صفات ہیں جن میں اس کا کوئی شریک نہیں جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

الشوریٰ – 11

’’ اس جیسی کوئی چیز نہیں وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔

اہل سنت والجماعت کا اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے باب میں یہ عقیدہ ہےکہ ’’ اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں اور تمام صفات پر حقیقی معنیٰ میں بغیرتمثیل ‘بغیر تشبیہ ‘بغیر تکييف ‘بغیر تعطیل اور بغیر تحریف کئے ایمان لانا ‘ جونام اللہ نے خود ہمیں بتائے ہیں یا نبی کریم ﷺ نے بتائے ہیں جیسے استواء ‘ نزول ‘ ید وغیرہ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

الشوریٰ – 11

’’اس جیسی کوئی چیز نہیں ‘وہ سننے اور دیکھنے والا ہے‘‘یعنی کائنات میں اللہ جیسی کوئی چیز نہیں‘نہ ذات میں نہ صفات میں۔پس وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے۔واحد اور بے نیازہے۔

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد کی صورتیں ۔

اللہ تعالیٰ کے ناموں اور صفات میں الحاد ( کج روی ) کی جملہ صورتیں ذیل کے سطور میں بیان کی جاتی ہیں ۔

پہلی صورت : اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے کسی نام یا اس سے ثابت ہونے والی صفت کا انکار کرنا ۔ جیسا کہ اہلِ جاہلیت اللہ تعالیٰ کے نام مبارک ’’رحمٰن ‘‘ کا انکار کیا کرتے تھے ۔چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَہُمْ نُفُوْرًا

الفرقان – 60

’’ ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ رحمان کو سجدہ کرو تو جواب دیتے ہیں رحمان ہے کیا ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دے رہا ہے اور اس (تبلیغ) نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کر دیا ‘‘۔

یا جیسا کہ بعض مبتدعہ نے اللہ تعالیٰ کا نام تو تسلیم کیا لیکن اس نام پر مشتمل صفت کا انکار کردیا جیسا کہ بعض باطل فرقے کہتے ہیں ’’ اللہ رحیم ہے بغیر رحمت کے اور سمیع ہے بلا سمع کے ۔

دوسری صورت : اللہ تعالیٰ کے ناموں پر اپنی طرف سے اضافے کرلینا ، یعنی اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے نام گھڑ لینا جس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے نہیں دی ۔ یہ الحاد اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائےعالیہ توقیفی ( یعنی اللہ کی طرف سے متعین کردہ ) ہیں ۔ لہذا جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ ناموں جو اس نے اپنے لئے منتخب کئے ہیں انہیں چھوڑ کر اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نام گھڑ لیتاہے وہ اللہ تعالیٰ پر وہ بات کہتاہے جس کا اسے علم نہیں اور اللہ تعالیٰ نے ایسی بات کہنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

الاعراف – 33

آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں ۔

جیسا کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو لفظ ’’خدا ‘‘ ’’ گوڈ ‘‘ یا فلاسفہ نے علہ الفاعلہ اور عیسائیوں نے ’’الاب ‘‘ (والعیاذ باللہ ) کا نام اللہ کیلئے متعین کیا ہے ۔

تیسری صورت : اللہ تعالیٰ کے ناموں میں تبدیلی کردینا جیسا کہ مشرکین نے کیا کہ اللہ کے ذاتی نام سے اپنے بت کا نام ’’ لات ‘‘ رکھ لیا اور اس کے صفاتی ناموں عزیز سے ’’عزیٰ ‘‘ اور ’’ المنان ‘‘ سے ’’مناۃ ‘‘ بنالیا ۔

اس کے الحاد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے نام اسی کی ذات کیلئے خاص ہیں ۔ لہذا انہی معنوں میں اللہ کے وہ نام مخلوق کیلئے استعمال کرنا کہ اس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جانے لگے ۔ یہ الحاد ( کج روی ) ہے ۔

فرمان باریٰ تعالیٰ ہے:

رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا

مریم – 65

’’ آسمانوں کا، زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی بندگی کر اور اس کی عبادت پر جم جا۔ کیا تیرے علم میں اس کا ہم نام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے؟ ‘‘۔

چوتھی صورت : اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کمی کردی جائے ۔ مثلاً: اسے کسی ایک ہی مخصوص نام سے پکارا جائے اور دوسرے صفاتی ناموں سے پکارنے کو برا سمجھا جائے ۔

پانچویں صورت : اللہ کے ناموں اور صفات میں الحاد کی ایک صور ت یہ بھی ہے کہ ان میں تاویل ، تعطیل ، یا تشبیہ سے کام لیا جائے ۔

تاویل : اس طرح کہ جیسا کہ بعض مبتدعہ کہتے ہیں کہ ’’یداللہ ‘‘ سے مراد قوت ہے اور ’’ استواء‘‘ کا مطلب غلبہ ہے ۔ اللہ کو ہر جگہ ذات کے اعتبار سے حاضر سمجھتے ہیں ۔اور تعطیل سے مراد کلی انکار ہے ۔تشبیہ سے مراد مخلوق کی صفات

چھٹی صورت : یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ نام یا صفات ایسی ہی ہیں جیسا کہ مخلوق کی صفات ۔ جیسا کہ بعض مبتدعہ نے یہ کہا کہ اللہ کا ہاتھ مخلوق کے ہاتھ کی طرح ہے ۔ اس کا استواء ونزول مخلوق کے نزول واستواء کی طرح ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔

ساتویں صورت : اللہ تعالیٰ کی صفات میں پائے جانے والے معنیٰ ومفہوم کو مخلوق کیلئے بھی استعمال کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ مخلوق بھی اس صفت کی مالک ہے جیسا کہ اللہ ۔ مثال کے طور پر ہمارے معاشرے میں عام طور پر رائج ہے کہ لوگ اپنے پیروں اور بزرگوں کو ان صفات سے متصف کرتے ہیں جو ان معنیٰ میں محض اللہ تعالیٰ کیلئے استعمال ہوتی ہیں ۔

مثلاً: جیسا پیر عبد القادر جیلانی کو غوث اعظم اور دست گیر کہا جاتاہے ۔ علی ہجویری کو داتا ، گنج بخش کہا جاتاہے ، خواجہ معین الدین چشتی کو غریب نواز کہا جاتاہے ۔ وغیرہ وغیرہ

یہ تمام صفات اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ان القابات اور صفات کا جو غیر اللہ کیلئے استعمال کی گئی ہیں حقیقۃ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ۔ آئیے دیکھتے ہیں ان کا معنیٰ ومفہوم کیا ہے ؟

غوث اعظم سے مراد: سب سے بڑا فریاد سننے والا

اب قرآن کریم کی روشنی میں ملاحظہ کریں کہ سب سے بڑا فریاد سننے والا کون ہے ؟

فرمان باری تعالیٰ ہے :

أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللَّـهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ

النمل – 62

’’ بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کے جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے؟ تم لوگ تھوڑا ہی غور کرتے ہو ۔ ‘‘

دست گیر :کا معنیٰ ہے مصیبت کے وقت تھامنے والا ۔ یہ اللہ کی صفت ہے فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

یونس – 12

’’ اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں اپنے پہلو پر یا بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہر حالت میں پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے وہ تکلیف دور کردیتے ہیں تو ایسے گزر جاتا ہے جیسے اس نے تکلیف کے وقت ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔ ایسے حد سے بڑھے ہوئے لوگوں کو وہی کام اچھے معلوم ہونے لگتے ہیں جو وہ کرتے ہیں۔‘‘

داتا سے مراد : سب کچھ دینے والا

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :

مَّا يَفْتَحِ اللَّـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

فاطر – 2

’’ اللہ اگر لوگوں کے لئے اپنی رحمت (کا دروازہ) کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جسے وہ بند کردے تو اس کے بعد اسے کوئی کھولنے والا نہیں ۔ اور وہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے‘‘۔

نیز ایک اور آیت میں فرمایا :

لِّلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ ﴿٤٩﴾ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ

الشوریٰ – 49/50

’’ آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالٰی ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہے بیٹے دیتا ہے۔یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔

گنج بخش :سے مراد خزانے بخشنے والا ۔

یہ صفت بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے لیکن اسے مخلوق میں چند پیروں کیلئے استعمال کیا جاتاہے ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَلِلَّـهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَـٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ

المنافقون – 7

’’اور آسمان و زمین کے خزانے اللہ تعالٰی کی ملکیت ہیں لیکن یہ منافق بےسمجھ ہیں ‘‘۔

نیز فرمایا :

إِنَّ اللَّـهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

آل عمران – 37

’’بلاشبہ اللہ جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے‘‘۔

غریب نواز سے مراد : غریبوں کو نوازنے والا ۔

غریبوں کو نوازنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔

فرمان باریٰ تعالیٰ ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَاللَّـهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ

فاطر – 15

’’ لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور وہ (ہر چیز سے) بے نیاز اور حمد کے لائق ہے۔‘‘

یعنی سب سے بڑا مدد کرنے والا ، مشکل میں ہاتھ تھامنے والا ، دینے والا ، غریبوں کو نوازنے والا یہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات اور افعال ہیں ۔ مخلوق کیلئے ان کا استعمال شرک بھی ہے اور الحاد بھی ۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ خالد حسین گورایہ حفظہ اللہ

آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا، بعد ازاں اسی ادارہ میں بحیثیت مدرس خدمات دین میں مصروف ہیں، آپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں نائب المدیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔