حج اور درسِ توحید

مسلمانو ! اے حجاج بیت اللہ ! میں آپ سب کو اور اپنے آپ کو اللہ عز وجل کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت و تاکید کرتا ہوں کیونکہ تقوی ہی نعمتوں کو لاتا اور مصیبتوں کو دور ہٹاتا ہے ، اعمال و نفوس کی اصلاح کرتا اور گنا ہوں خطاؤں کو بخشواتا ہے ـ  چنانچہ ارشاد الہی ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴿٧٠﴾ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

الاحزاب – 70/71

 اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرا کرو اور سیدھی بات کہا کرو ، وہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو شخص اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرے گا وہ بہت بڑی مراد و کامیابی پائے گا۔

مناسک و عبادات کے دن

حجاج بیت اللہ ! اے اللہ کے مہمانو ! آپ ایام تشریق کے آخری دن ( 13 ذوالحج ) کو پہنچ گۓ ہیں ـ آپ نے احرام باندھا ، تلبیہ ( لبیک اللہم لبیک ) پکارا ، میدان عرفات میں وقوف کیا اور مزدلفہ میں رات بسر کی اور جمرات کو کنکریاں ماریں ـ بیت اللہ شریف کا طواف کیا اور صفا  و مروہ کے مابین سعی کی ـ آپ مقامات مقدسہ میں چلتے پھرتے شعائی ر دین و مناسک حج کو ادا کرتے  چلے آ رہے  ہیں اور اللہ تعالی سے اسکی رحمتوں اور کرموں کے جھونکے پا رہے ہیں ـ

اللہ اکبر ! کتنے آنسو بہائیے گئیے ، کتنی حاجات و ضروریات پوری کی گئی ہیں اور دعائی یں قبول کی  گئی ہیں اور لرزشیں معاف کی گئی ہیں ، اللہ سے دعاء ہے کہ وہ ہماری اور آپ کی عبادات قبول فرمائیے ـ

شکران نعمت :

مناسک کی ادائیگی بھی اللہ کی  ایک عظیم نعمت ہے جس پر توفیق سے نوازنے والے مالک کا شکر ادا کرنا واجب ہے  ـ اللہ کی ظاہری و باطنی تمام نعمتوں پر ہم اسکے شکر گزار ہیں ـ

اللہ میری اور آپ کی بخشش فرمائیے ، یہ بات ذھن میں رکھیں کہ اللہ رب العالمین کی حمد و  شکر کی حقیقت یہ ہے کہ اسکے احکام کی پیروی کی جائیے اور اسکے منع کردہ امور سے احتناب کیا جائیے اور انعام کرنے والی ذات بابرکات کا ہمیشہ شکر ادا کیا جائیے اور اسکی حدود سے تجاوز کرنے سے ڈرا جائیے اور اسکے ساتھ ی بندہ جب جب اللہ کے احسانات کو یاد کرئیے اس سے حیاء کرے اور اللہ کا شکر زبان سے بھی ظاھر ھوتا ہے کہ بندہ اسکی نعمتوں کا اعتراف کرے اوران پر اسکی حمد و ثناء بیان کرے اور دل میں اللہ کی محبت اور اسکے سامنے انکساری کا جذبہ موجزن ھو ، اور جسم کے دیگر اعضاء پر اطاعت و فرمانبرداری کا رنگ نمایاں ھو اور یہ چیز ہر وقت واجب ہے اور ان ایام میں اسکی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ دن شکر و ذکر کے اظہار کے دن ہیں ـ

ارشاد الہی ہے :

وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ

النحل – 114

 اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرنے والو ہو۔

توحید و شرک

خبردار ! اللہ کے اوامر و احکام میں سے سب سے عظیم حکم اسکی توحید کو اپنانا اور اسکے منع کردہ امور میں سے سب سے بڑا گناہ شرک ہے ـ اللہ تعالی نے ایجاد و امداد کی نعمت پر اپنا احسان جتلایا ہے ـ تو پھر اسکے سوا کسی دوسرے کا شکر کیسے ادا کیا جائیے ؟ اور عبادت اسکے سوا کسی دوسرے کی کیسے کی جا سکتی ہے ؟

قرآن کریم میں ارشاد الہی ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّـهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ

فاطر – 3

 اے لوگو ! اللہ کے تم پر جو احسانات ہیں انھیں یاد کرو ، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ( اور رازق ) ہے ؟ جو تمھیں آسمان سے اور زمین سے رزق دے ـ اسکے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔

مدرسۂ حج

حج دروس و اسباق کا مدرسہ ہے اور اسکے دروس میں سے سب عظیم درس توحید ہے بلکہ اس مدرسے کا مقصد اور ثمرہ اللہ تعالی کے لئیے اسکی توحید کو ثابت کرنا اور اسے عبادت کیلئے  خالص کرنا ہے حتی کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں :

{ پھر نبیﷺنے کلمۂ توحید کے ساتھ تلبیہ کہنا شروع کیا ـ } ( صحیح مسلم )

تلبیہ اور درس توحید

تلبیہ سارے کا سارا ہی توحید ہے اور احرام کی دو چادروں کے سوا باقی تمام کپڑوں کو اتار پھینکنا اپنے اندر یہ معانی سموئیے ہوئیے ہے کہ بندہ اللہ واحد الاحد کے سوا کسی دوسرے کا ہر گز قصد نہ کرے اور مناسک و اعمال حج تمام کے تمام ہی توحید باری تعالی کا پتہ دینے والے ہیں ـ

چنانچہ خود اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ

الحج – 28

اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقرره دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں اور چوپایوں پر جو پالتو ہیں۔ پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔

عرفہ اور توحید :

سنن ترمذی میں ہے کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:

{ بہترین دعاء وہ ہے یوم عرفہ میں کی جائیے اور میں نے اور سابقہ انبیاء نے جو دعائی یں مانگی ہیں ان میں سے بہترین دعاء یہ ہے : { لا الہ الا اللہ  وحدہ لاشریک لہ ، لہ الملک و لہ الحمد و ھو علی کل شیء قدیر ـ }

اور حضرت عائی شہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺفرمایا : { جمرات پر کنکریاں مارنا اور صفا و مروہ کے مابین سعی کرنا اللہ کا ذکر کرنے کیلئے  مشروع کی گئی ہیں ـ ( ترمذی ــ حسن صحیح )

بلکہ خانہ کعبہ تاسیس و تعمیر ہی توحید پر کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد الہی ہے :

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا

الحج – 26

اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔

حج اور توحید

حج کے موقع پر انسانوں کی تمام جنسیں رنگا رنگ بولیاں ، الگ الگ مقامات اور مختلف رنگوں کے باوجود ایک ہی ہیئی ت و شکل اور ایک ہی عبادت کی ادائی یگی کیلئے  جمع ھوتے ہیں تاکہ وہ اپنی زبان حال سے بھی کہیں کہ ہم سب ایک انتہائی اعلی مقصد کیلئے  جمع ھوئیے ہیں اور وہ مقصد ہے صرف اللہ تعالی کیلئے  عبادت کو خالص کرنا ، اسی واحد و حق کیلئے  عبادت کو مخصوص کرنا جسکی طرف ساری مخلوقات ہی پناہ لیتی ہیں اور ہر حال میں اسی کی طرف توجہ کرتی ہیں ـ

حج اور براءت

شرک اور مشرکین سے براءت وہ ازلی نداء ہے ، جیسے قرآن کریم نے حج کے موقع پر بلند کیا اور وہ نداء آج تک دہرائی جا رہی ہے چنانچہ ارشاد الہی ہے :

وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّـهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ 

التوبة – 3

اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے، اور اس کا رسول بھی۔

محاسبۂ نفس

اے پوری روئیے زمین کے مسلمانو ! اے حجاج بیت اللہ ! ایسے مواقع پر امت اس بات کی کتنی حاجتمند ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملہ پر نظر ثانی کرے اور اپنے رب کے ساتھ تعلقات کی جانچ پڑتال کر کے انھیں استوار کرے ، اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور خلل و بگاڑ کو پہچانے تاکہ اسکی اصلاح کر سکے ـ خصوصا آج کل کے حالات میں جن میں امت اسلامیہ مبتلا ہے ـ

مقصد تخلیق کائی نات

اللہ نے اپنی تمام مخلوقات کو اپنی عبادت کیلئے  پیدا فرمایا ہے اور ان پر یہ نعمت بھی فرمائی ہے کہ وہ تمام عبادات کو صرف اللہ کیلئے  خاص کریں ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ

الذاریات – 56

میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں۔

یہ عبادت ہی تمام قضایاکا سب سے بڑا قضیہ اور دین کی اصل و جڑ ہے اور جب لوگوں کے دلوں پر شرک کا زنگ چڑھ گیا اور زمین پر جاہلیت کا دور دورہ ہو گیا تو اللہ تعالی نے اسی مقدس سر زمین سے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کو کلمۂ توحید کے ساتھ مبعوث فرما دیا اور آپ ﷺنے فرمایا :

{ اے لوگو ! یہ کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے ـ اتنا کہہ دینے سے تم نجات و فلاح پا جاؤ گے ـ یہ کلمۂ توحید اگر چہ چند الفاظ پر مشتمل ہے لیکن اپنے مدلولات اور تقاضوں کے اعتبار سے ایک  بحر بے کنار ہے ـ جس نے اس کلمہ کا اختیار کر لیا ، اللہ نے اسکی سن لی ـ امت اسلامیہ کی مشکلات صرف اسے اپنانے سے ہی دور ھو نگی جسے اپنا کر بکریاں چرانے والے بڑے بڑے قائی دین اور امتوں کی رہبری کرنے والے لیڈر بن گئیے تھے ـ توحید کا نور چمک اٹھا تھا ـ اور ایمان و سلامتی کا پھریرا ( جھنڈا ) پوری روئیے زمین پر لہرانے لگا تھا ـ

البتہ بارگاہ الہی سے دھتکار ے گئیے ابلیس لعین نے قسم کھائی تھی کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے گا چنانچہ وہ اپنے گمان میں کافی حد تک کامیاب ھو گیا ـ اسی نے عیسائی یوں کو اس چیز پر لگائیے بغیر دم نہیں لیا کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو معبود بنا لیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر انھیں حضرت مریم علیھا السلام کا قصد و ارادہ کرنے اور اسے پکارنے پر لگا دیا اور اسی پر بس نہیں بلکہ ان پادریوں کا پکارنے پر بھی لگا دیا جنکے بارے میں وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اللہ کے مقرب ہیں ، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ شیطان نے لوگوں کو اللہ تبارک و تعالی سے بدظن کر دیا  اور وہ یہ سمجھنے لگے کہ اللہ بھی اس دنیا کے بادشا ہوں کی طرح ہی ہے اور وہ بھی واسطوں کے بغیر کسی کی ضرورتیں پوری نہیں کرتا بلکہ وہ  اسکے یہاں شفاعت و سفارش کرتے ہیں اور انھیں اللہ کے قریب کرتے ہیں ـ

دعاء : ایک عبادت :

ہاں ! اللہ تعالی نے حضرت محمد ﷺکی امت پر رحم فرمایا اور انھیں قرآن کریم سے نوازا اور قرآن نے پوری طرح واضح کر دیا جس سے زیادہ وضاحت ممکن ہی نہیں کہ اللہ اپنے بندوں کے بہت قریب ہے وہ اپنے بندوں کی دعاء و پکار کو سنتا ہے اور انکے تمام حال و احوال کو خوب جانتا ہے ، چنانچہ ارشاد الہی ہے :

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ 

البقرة – 186

بلکہ دعاء و پکار کو تو اللہ تعالی نے عبادت کا نام دیا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

 وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

غافر – 60

اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا ہے) کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وه ابھی ابھی ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔

دعاء : مظہر توحید :

قرآن کریم نے اس بات کو باربار پوری تاکید کے ساتھ بیان کیا ہے کہ صرف اللہ تعالی ہی سے دعاء کرنا صرف اسی کو پکارنا توحید اور غیر اللہ کو پکارنا اور ان کی دہائی دینا شرک ہے چنانچہ اپنے نبی ﷺسے مخاطب ہو کر فرمایا :

قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا ﴿٢٠﴾ قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا

الجن – 20/21

آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نقصان نفع کا اختیار نہیں۔

ایک جگہ فرمایا ہے :

وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ

یونس – 106

اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے۔ پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ﻇالموں میں سے ہو جاؤ گے۔

اور آگے ہی فرمایا :

وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ 

یونس – 107

اور اگر تم کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے واﻻ نہیں ہے اور اگر وه تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے واﻻ نہیں۔

ایک جگہ ارشاد ہے :

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلً

الاسراء – 56

کہہ دیجیئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وه تم سے کسی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔

اور ایک مقام پر معبودان باطلہ کا عجز و درماندگی بیان کرتےہوئیے فرمایا :

إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ

فاطر – 14

اگر تم انہیں پکارو تو وه تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے، بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کرجائیں گے۔ آپ کو کوئی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا۔

ان تمام آیات کے واضح و صریح ہونے کے باوجود بعض جاہل مسلمانوں کے حال پر افسوس ہوتا ہے ، جو کہ ان شرکیہ بلاؤں میں مبتلاہو چکے ہیں اور طرح طرح کی بدعتوں اور گمراہیوں کو انہوں نے اپنا رکھا ہے ، پتھروں اور عمارتوں ( مزاروں ) سے تعلقات جوڑ رکھے ہیں ، اپنی حاجتیں طلب کرنے اور مشکلات دور کروانے کیلئے  مزاروں درباروں کے فوت شدہ مردوں سے لو لگا رکھی ہے حتی کہ یہ فتنہ بکثرت اسلامی ممالک میں پھیل چکا ہے ، وہاں ایسی قبریں اور مزارات پائے جاتے ہیں جنکی زیارت کے قصد سے ہزاروں لوگ جاتے ہیں اور ان قبرروں مزاروں میں مدفون مردوں سے وہ مطالبات کرتے ہیں جو صرف اللہ تعالی سے ہی کئے جانے چاہییں ، ان پر جانوروں کے چڑھاوے چڑھائیے جاتے ہیں ، نذریں مانی جاتی ہیں ، نفع کے مطالبے کئے جاتے ہیں اور نقصان دور کرنے کی درخواستیں کی جاتی ہیں ـ

شہادت توحید کے تقاضے :

اے مسلمان ! اے وہ شخص جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کو‏ئی معبود بر حق نہیں اور حضرت محمد ﷺاللہ کے رسول  ہیں ! اے وہ شخص جو اللہ پر اور قیامت پرایمان رکھتا ہے ! وہ چیز جس کا خاص اہتمام کرنا آپ پر واجب ہے وہ یہ ہے کہ اپنے تصورات و اعمال کو قران کریم سے صیقل کرو تاکہ آپ ان تمام تصورات و اعمال سے بری ہو جائيں جو شہادت توحید کے تقاضوں کے منافی ہیں ـ

اے علماء کرام !اے انبیاء کے وارثو ! اگر عوام الناس کو جہالت کی بنا پر اور انھیں صحیح بصیرت بہم نہ پہنچانے والے میسر آنے کی بناء پر معذور مانا جائے تو بتایئے کہ آپ لوگوں کا اللہ کے یہاں کیا عذر ہو سکتا ہے جبکہ آپ نے بیان توحید کا حق ادا کرنے میں تقصیر و کوتاہی کی اور لوگوں کو دین کی اہم اساس و بنیاد ” توحید ” پر آمادہ کرنے میں کمی کی ـ

توحید تفرقہ و نزاع :

خبردار رہیں ! امت اسلامیہ کا وہ مرض جس نے اسے کمزور کر رکھا ہے اور اسکی وہ بیماری جس نے اسے تھکا رکھا ہے اور اس پر اسکے دشمنوں کو مسلط کر رکھا ہے وہ مرض اس امت کا اپنے دین اور اس کی بھی اصل توحید میں تفرقہ و نزاع ہے اور اس امت کے آخر کے اصلاح بھی اس چیز سے ممکن ہے جس سے اس کے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی اور وہ کیا چیز ہے ؟ وہ وہی ہے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کی اور فرمایا تھا :

{ ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت بخشی ہے ، لہٰذا ہم جیسے بھی کسی دوسرے دین و طریقے سے عزت حاصل کرنے کی کوشش کریں اللہ ہمیں ذلیل ہی کرے گا ـ }

خالق سے بے تعلقی : جب امت اپنی قوت کے سرچشم میں کوتاہی  برتے گی اور اپنے خالق کو چھوڑ کر دوسروں کی طرف متوجہ ہو جائے گی اور اونٹوں کو انکے اصل چرواہے کی بجائیے ان کا حدی خوان کوئی دوسرا ہو گا تو وہ ضایع ہو جائے گی اور بشری پیمانے کام کرنے لگیں گے اور غلبہ اس کاہو جائے گا جو اسلحہ و قوت میں زیادہ ہو گا جیسا کہ آج کل کی حالت سب کے سامنے ہے۔

معیار فتح و نصرت : ایمان

اس امت اسلامیہ کی تاریخ پر غور و فکر کرنے والا شخص بآسانی اندازہ کر سکتا ہے کہ اس امت کا پیمانہ اور معیار کبھی بھی اسلحہ کی کثرت اور افرادی قوت کی زیادتی نہیں رہا بلکہ غزوہء حنین سے قطع نظر تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کو جن معرکوں میں فتح و نصرت نصیب ہوئی ان میں سے کسی میں بھی ان کا اسلحہ اور فوجی قوت مد مقابل سے زیادہ نہ تھی صرف غزوہ ء حنین میں مادی و افرادی قوت میں مسلمان زیادہ تھے مگر اس کےباوجو انھیں شکست سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ انھیں ان کی کثرت نے غرور و تکبر میں مبتلا کردیا تھا ، اور اللہ نے انھیں شکست سے دو چار کر کے یہ یاد دہانی کروائی کہ وہ میزان جس پر مسلمان اپنے آپ کو تولیں وہ مادی و فوجی کثرت نہیں  بلکہ ایمان ، اس دین اسلام سے تعلق و تمسک ، اللہ تعالی کے لیے اخلاص توحید اور اسی کیلئے  اپنی زندگی تک کو قربان کرنا ہے ، جہاں تک معاملہ ہے اسلحہ اور سامان حرب ضرب یا جنگی تیاریوں کا تو اس کیلئے  جو استطاعت میں کافی ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ

الانفال – 60

تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو۔

اور پھر اللہ پر بھروسہ کریں وہ آپ لوگوں کیلئے  کافی ھو جائیے گا جیسا کہ اللہ کا وعدہ ہے :

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّـهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

الانفال – 64

 اے نبیﷺ! آپ کیلئے  اور آپ کے پیروکار مومنوں کیلئے  کافی ہے ـ

اپنی حالت آپ بدلنا

اے مسلم امہ ! اللہ کبھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جسے اپی حالت کے بدلنے کا خود خیال نہ ہو ، بنی  اسرائیل چالیس برس تک صحراء میں مارے مارے پھرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے اپنے اندر وہ صفات پیدانہ کر لیں جنکی بدولت وہ فتح و نصرت اور ارض مقدس میں داخل ہونے کے مستحق ہوئے ، کیا اس امت اسلامیہ کیلئے  بھی وہ وقت نہیں آیا کہ یہ بھی تیہ کے صحراؤں میں مارے مارے پھرنے سے باہر نکل آئيں ؟ جبکہ یہ امت اللہ کی رحمتوں اور اسکی فتح و نصرت کے وعدوں والی امت ہے ، کیا اس امت پر نازل ہونے والے مصائب و مشکلات اس کے لئے  کافی نہیں کہ یہ اپنے رب کے دین کی طرف رجوع کریں ـ

مسلمانو ! رحمت اور فتح و نصرت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتیں جب تک کہ اس کے اسباب مہیا نہ کریں اور اسباب کا خالق اللہ تعالی ہے ، اور وہی تمام حوادث کے اندازے  کرنے اور انھیں جاننے والا ہے ـ اپنے پروردگار اللہ کی طرف لوٹ آؤ ، اپنے ایمان کی تصحیح و اصلاح کر لو اور ہم سب سے ہر شخص کو چاہئیے کہ وہ اپنے آپ کو جانچے ـ اپنے اہل و عیال کی پڑتال کرے ـ اور اپنے پورے ماحول کا جائزہ لے تاکہ ہم سب اسی راہ پر چلیں جس پر چلنےکا اللہ تعالی نے ہمیں حکم فرمایا ہے ، کیونکہ کوئی جماعت اس وقت تک نہیں سدھرتی جب تک کہ اس کے افراد میں سدھار نہ آئے اور یہی کیا کم ہے کہ امت خود اپنے آپ کیلئے  تو کافی ہو جائے اگر ہم سب ایسا کر گزرے تو پھر فتح و نصرت کی بشارت یقینی ہے اور اللہ کے وعدوں پر وثوق و یقین کرنا ہی ہو گا ـ

اللہ پر عدم اعتماد

خبردار ! عقیدے کا خلل و بگاڑ جس میں امت کا ایک بہت بڑا گروہ مبتلا ہوچکا ہے اسی میں سے ایک یہ ہے کہ امت کا اللہ پر اعتماد کمزور اور اسکا اس پر یقین ضعیف ہو چکا ہے ـ غیر اللہ پر توکل و اعتماد کر چکے ہیں ، اور غیر اللہ کا ڈر ان کے دلوں میں جاگزیں ہوچکا ہے اور لوگ عہد جاہلیت کے دعوے سے تمسک و تعلق جوڑ چکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اسلامی رشتہ و رابطہ کر چھوڑ کر دوسری نسبتوں میں بندھ گئے ہیں حتی کہ بعض شکست خوردہ ذہنیت کے مالک لوگوں  نے تو یہ بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں کئی مسائل میں اسلامی قواعد و ضوابط پر نظر ثانی کرنی چاہیئے اور یہ ذہنی غلام اللہ کا یہ ارشاد بھول بیٹھے ہیں :

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

آل عمران – 85

جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔

کتاب و سنت کی طرف رجوع

اللہ کے بندو ! اللہ کا خوف کھاؤ اور اسکی طرف رجوع کر لو ، اس سے مغفرت و بخشش مانگو اور اس کی طرف چلنے کی اپنی ڈگر کو صحیح کر لو ، اپنے دین کی طرف رجوع کر لو اور دین میں کس مقام پر کھڑے ہواس کی بھی جانچ پڑتال کر لو اور وحی صافی کے سرچشمہ سے آب شیریں حاصل کرو ، آپ کے سامنے وہ دونوں چیزیں موجود ہیں جنھیں اپنا لو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ دونوں چیزیں کتاب اللہ اور اس کے رسول ﷺکی سنت ہیں ، دین میں فقاہت حاصل کرو اور علم دین کو سیکھو  اللہ کی شریعت پر چلنے کی پابندی کرو ، سیدھے چلو ، اور سیدھے چلو اور ٹھیک راستہ اپناؤ اور میانہ روی اختیار کرو ( افراط و تفریط میں مبتلا نہ ہوجاؤ ) اللہ سے امیدیں قائم رکھواور بشارتیں پاؤ ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

النور – 55

تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ﻻئے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں۔

اللہ کی صفات عالیہ

اللہ تبارک و تعالی نے اپنی ذات عالی کی قدرت کے بارے میں فرمایا ہے :

 وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

الانعام – 13

اور اللہ ہی کی ملک ہیں وه سب کچھ جو رات میں اور دن میں رہتی ہیں اور وہی بڑا سننے واﻻ بڑا جاننے واﻻ ہے۔

اور ارشاد ہے :

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ 

الانعام – 18

اور وہی اللہ اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور وہی بڑی حکمت واﻻ اور پوری خبر رکھنے واﻻ ہے۔

 اور فرمایا ہے :

وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ

الانعام – 59

اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ اور وه تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وه اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔

لوح محفوظ اور قضاء و قدر

کتاب اللہ ایسی آیات سے بھری پڑی ہے جن میں یہی مفہوم بیان ہوا ہے اور وہ آیات اس حقیقت واجبہ کو ظاھر کرتی ہیں کہ اس روئیے زمین پر چھوٹا یا بڑا کوئی بھی حادثہ رونما ہوتو وہ لوح محفوظ میں قلم کی لکھی تقدیر کے عین مطابق ہی ہوتا ہے ، اور یہ چیز زمین اور آسمانوں کی تخلیق سے بھی پہلے کی لکھی ہوئی ہے اور وہ بہت ہی علم رکھنے والے بہت خبر رکھنے والے اللہ کے علم کے عین مطابق ہی ہوتا ہے ، اللہ وہ پاک ذات ہے جس سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اور دنیا میں جو کچھ بھی روپذیر ہوتا ہے وہ اللہ کی طے کردہ اسی تقدیر کے مطابق  ہوتا ہے بندہ چاہے اس کا علم حاصل کرپائیے یا اس سے جاہل رہے اور اس پر رضا مند ہویا ناراض رہے ـ

یہی مومنوں کی توحید کے کمال کا نقطہ ہے ـ ان کے دل قضاء و قدر کیلئے  خوب محکم ہوتے ہیں اور بلاء مصیبت پر صبر کرنا ان کے لئے ایک معمولی بات ہوتی ہے ، اور خوشی میسر آنے پر شکر کرنا بھی ان کے لئے ایک معمول کی بات ہوتی ہے ، انہوں نے اپنے تمام معاملات اللہ کے سپرد کئے ہوتے ہیں اور وہ اسی سے مغفرت و بخشش اور رحمت کا سوال کرتے ہیں ـ

قانون الہی :

مسلمانو ! کوئی امت اللہ کی سنت کونیہ سے خارج نہیں ہوتی چاہے زمانے کتنے ترقی کر جائیں یا تنزلی میں مبتلا ہوں اور کوئی زمین میں چاہے کتنا ہی سرکش ہوجائےاور اللہ کے احکام سے کتنا ہی باغی بن جائیے اور یہ تہذیبیں اس کے سوا کیا ہیں کہ یکے بعد دیگرے آتی صدیاں ہیں یا بستیاں ہیں جن میں سنت الٰہیہ ( اللہ کا قانون ) رواں دواں ہے ، جس میں کوئی تغیر و تبدیلی ہونے والی نہیں ہے ـ

مسلمان کی بے خبری

آپ کو اس بات پر تعجب ہوگا کہ بعض مسلمان اس بات سے بے خبر ہوچکے ہیں اور بکثرت لوگ اس سے غفلت میں مبتلا ہیں یہی وجہ ہے کہ ان ہوں نے غیر اللہ سے ڈرنا شروع کر رکھا ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوبیٹھے ہیں ـ اور اللہ کے بندوں کو دہشت زدہ کرنے والے کافروں کی روش پر چل رہے ہیں ـ

اللہ سے حسن ظن

خبردار ! ان حالات میں واجب یہ ہے کہ ہم اللہ پر حسن ظن رکھیں اس کی طرف رجوع کریں اور اپنے نفس کا محاسبہ کریں ، اللہ سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں اور اللہ تعالی اپنی مخلوق کے ساتھ لوگوں کے وہم و گمان سے بھی زیادہ لطف و کرم کرنے والے ہے ـ

مسلمانو ! اللہ ہر پکارنے والے کی سننے والا ہے ، ہر مناجات و سرگوشی کرنے والے کے قریب ہے ـ اس نے اپنے بندوں کو دعاء کرنے کا حکم فرمایا ہے اور خود دعاء کو قبول کرنے کا عہد کیا ہے ـ اس نے بندوں کو اللہ پر توکل کرنے کا حکم دیا ہے اور خود اس نے ان کے لئے کافی ہونے کا وعدہ فرمایا ہے ـ

اللہ کے رسول ﷺاور ان کی امتیں آزمائی گئیں اور طرح طرح کے مصائی ب و مشکلات سے دوچار ھوئی یں اور اللہ کی طرف سے کشائش اور اس کی رحمت بہت ہی قریب ہے ، اور یہ چیزیں وہاں سے آتی ہیں جہاں سے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے جیسا کہ ارشاد الہی ہے :

وَاللَّـهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

یوسف – 21

 اللہ اپنے امر و ارادہ پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ـ

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

یہ امت اسلامیہ دوسری عام امتوں کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ برگزیدہ ، مرحومہ اور فتح و نصرت یافتہ امت ہے ، اس پر چاہے جتنی بھی مصیبتیں آئیں اور ضعف و کمزوری کے چاہے کتنے ادوار گزریں بہرحال رحمتیں اور فتح و نصرت اسی کا مقدر ہے ـ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے ارشاد فرمایا:

{ اللہ تعالی نے میرے لئے ساری زمین سمیٹ سکیڑ دی اور میں نے اس کا مشرق و مغرب سب دیکھ لیئے ـ } اسی حدیث میں آگے چل کر آپ ﷺ فرماتے ہیں ” میرے رب نے فرمایا : اے محمد ! میں جب کوئی فیصلہ کر دیتا ہوں تو اسے کوئی نہیں بدل سکتا ، اور  میں نے آپ کی امت کو یہ انعام دے رکھا ہے کہ انھیں قحط سالی سے ہلاک نہیں کروں گا اور ان کے اپنے آپ کے سوا دوسرے دشمنوں کو ان پر مسلط نہیں کروں گا جو کہ ان کی عزتوں سے کھیلیں اگر چہ ساری دنیا کے لوگ بھی ان کے خلاف ہوجائيں ـ حتی کہ یہ خود ہی ایک دوسرے کو ہلاک کرنے لگیں گے اور ایک دوسرے کو قیدی بنانے لگیں گے ـ }  ( صحیح مسلم )

حسن انجام : امت کا مقدر

غرض جس امت کے اللہ تعالی نے یہ  اوصاف بیان کئے ہیں اسے کسی بھی حالت میں مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور نہ ہی اس کے بارے میں کبھی بھی یہ سوچنا چاہیئے کہ یہ امت مر چکی ہے ـ اس کا معاملہ ختم ہوچکا ہے یہ وہم و گمان صرف وہی کر سکتا ہے جو اللہ سے بدظنی رکھے اگر چہ اس امت کی تاریخ میں کئی مدو جزر اور اتار و چڑھاؤ آئے ہیں لیکن یہ ایک ثابت و قائم حقیقت ہے کہ بہرحال حسن انجام صرف امت مسلمہ ہی کے حق میں رہا ہے ، آپ دعائیں کرتے رہیں کہ یہی وہ اسلحہ ہے جو شکست نہیں دیا جاتا اور یہی وہ تیر ہے جو کبھی خطا نہیں جاتا ـ ارشاد الہی ہے :

ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿٥٥﴾ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ

الاؑعراف – 55/56

تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر کے بھی اور چپکے چپکے بھی۔ واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔ اور دنیا میں اس کے بعد کہ اس کی درستی کردی گئی ہے، فساد مت پھیلاؤ اور تم اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرتے ہوئے اور امیدوار رہتے ہوئے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے نزدیک ہے۔

اللہ سے تعلق پیدا کرنا اور اسی کے ساتھ اطمینان پانا توحید کی حقیقت ہے ـ

 سبحان ربک رب العزة عما یصفون و سلام علی المرسلین والحمد  للہ رب العالمین

مصنف/ مقرر کے بارے میں

IslamFort