يمن مين حوثي بغاوت کے خلاف سعودی عرب کی مدد کیوں ضروری ہے ؟

آج سے کچھ چودہ سوسال پہلے کا واقعہ ہے جو پیارے پیغمبر محمد مصطفیٰ  ﷺ  کی ولادت کے سال رونما ہوا ۔ یمن کے ایک جابر وجائر اللہ کے دشمن ابرہہ نے جو یمن کا گورنر جنرل تھا ہاتھیوں کا لشکر لیکر کعبۃ اللہ پر یلغار کی ۔ اس وقت مکہ میں اہل توحید نہیں تھے بلکہ مشرکین آباد تھے ۔ جن کے سردار عبد المطلب تھے ۔ ابرہہ نے اُس وقت کے مشرکین کے کعبۃ اللہ سے لگاؤ کو جانچنے کےلئےعبد المطلب کے چند اونٹ اپنے قبضے میں لے لئے ۔ عبد المطلب ابرہہ کے پاس پہنچا ابرہہ نے خوش آمدید کہا اور آنے کا سبب پوچھا ، عبد المطلب نے کہا میرے کچھ اونٹ آپ نے قبضے میں لے لئے ہیں ازراہ کرم وہ مجھے واپس دے دیجئے ۔ ابرہہ یہ مطالبہ سن کر حیران بھی ہوا اور متعجب بھی ، اور خود ہی عبد المطلب سے کہنے لگا کہ میں تو تمہارے رب کے گھر کو گرانے آیا ہوں تم نے اس کی بابت مجھ سے کوئی بات نہ کی اور لگے اپنے ان حقیر اور چند ٹکے کی مالیت کے اونٹوں کا مطالبہ کرنے۔ عبد المطلب نے جواب دیا  :

أنا رب الإبل وللبيت رب يحميه

 میں تو ان اونٹوں کا مالک ہوں انہی کی فکر کروں گا !،ہاں اس گھر کا بھی کوئی مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرلے گا ۔

پھر کعبۃ اللہ آئے اور اس کا کنڈا پکڑ ا اور یہ اشعار پڑھ کر دعا کی اور قریش کو لیکر پہاڑوں کی چوٹیوں اور گھاٹیوں پر چلا گئے تاکہ ان متکبرین کا انجام دیکھ سکیں ۔

لاهم إن العبد يمنع رحله فامنع حلالك

لا يغلبن صليبهم ومحالهم عددا يوالك

إن يدخلوا البلد الحرام فأمر ما بدا لك

اے اللہ! بندہ تو بس اپنی سواری کی حفاظت کرسکتاہے تو اپنے حرم کی حفاظت کر ۔ یہ تو ہرگزنہیں ہوسکتاکہ ان کی صلیب اوران کی ڈولیں تیری ڈولوں پرغالب آجائیں۔ ہاں اگر یہ اس بلد حرام میں داخل ہوجائیں تو تو جیسا چاہے کر  ۔

یہ محض ایک تاریخی واقعہ ہے ۔ جسے غالبا ہر مسلمان پڑھتاہے ، سنتاہے ، لیکن اس سے سبق حاصل نہیں کرتا ۔ اگر اس واقعہ کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں بہت سے دروس وعبر ہیں ۔

اول: ہر وقت کے جبارین اور متکبرین کا مطمح نظر کعبۃ اللہ رہا ہے اور وہ ان کی آنکھوں میں کھٹکتا رہاہے۔ ان میں سے جس کا بس چلا اس نے اس پر چڑھائی سےبھی گریز نہ کیا ۔

دوم : یہ لشکر یمن کے شہر صنعاء سے نکلا تھا ۔

سوم : اس وقت مکہ کے بظاہر متولی مشرک لوگ تھے ۔ جنہوں نے اس کی حفاظت کرنے سے معذوری ظاہر کردی ۔ اور وہ کر بھی نہیں سکتے تھے ۔ کیونکہ حرمات اللہ ، اور بیوت اللہ کی حفاظت وتعمیر کا کام مشرکین کے بس کی بات نہیں فرمان باری جل وعلا ہے:

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّـهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَـٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ

التوبة – 18

اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکٰوۃ دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں ۔

چہارم : اس وقت مشرکین کے سردار عبد المطلب نے  ابرہہ سے جس مسئلے کے حل کےلئےبات چیت کی وہ معیشت کا مسئلہ تھا کیونکہ ان کا اس کا اور اس کے کنبے قبیلے کا انہی اونٹوں پر گزر بسر ہوتاتھا ۔ لہذا وہ مشرک تھے اور مشرک کا مطمح نظر محض دنیا ہوتی ہے آخرت نہیں ۔ اس لئے وہ اپنی دنیا کےلئےہی سوچتاہے اور اسی کےلئےلڑتا بھڑتاہے ۔ اس لئے عبد المطلب نے کہا کہ میری معیشت کی مضبوطی کا تعلق ان اونٹوں سے ہے آپ مجھے اونٹ دے دیں میرا مسئلہ حل ہوجائے گا اور یہ کعبہ جانے اور اس کا رب ۔

پنجم : اور پھر وہ ( غیر جانبدار رہتے ہوئے ) قریش کو لیکر پہاڑوں کی چوٹیوں پر تماشہ دیکھنے کےلئےبیٹھ گیا ۔

اب اگر اس واقعہ اور اس میں چھپے حقائق سے پردہ اٹھایا جائے تو بظاہر نظر یہ آتاہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ۔ بہت سے حقائق ایسے ہیں جو آپس میں ملتے ہیں اور کچھ مختلف بھی ہیں ۔

اصحاب فیل اور آج جو کعبۃ اللہ کے گھیراؤ کی کوششیں کی جارہی ہیں ان میں بہت سے پہلوؤں میں مماثلت ہے ۔اول یہ کہ آج کہ وقت بھی کعبۃ اللہ پر حملے کی باتیں کی جارہی ہیں اوراس کےلئےعملی اقدامات بھی اٹھائے جارہے ہیں سعودیہ کے یمن کی سرزمین سے متصل بارڈر پر آئے روز حملے ہو رہے ہیں میڈیا واخبارات سے باخبر کوئی شخص اس کا انکاری نہیں ۔ اور کعبۃ اللہ پر حملے کی باتیں کرنے والے بھی یمن سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جوکہ حوثی قبائل سے معروف ہیں ۔

 لیکن یہاں ایک حقیقت مختلف ہے کہ اس وقت کعبۃ اللہ کے متولی مشرک نہیں بلکہ اہل توحید لوگ ہیں جو آل سعود خاندان کے نام سے معروف ومشہور ہیں ۔ اس لئے جب انہوں نے بیت اللہ پر حملے کے حوالے سے اہل باطل کے عزائم کو بھانپا تو عبد المطلب کی طرح معیشت کے تحفظ کی بات نہیں کی بلکہ اپنی جان دینے کےلئےتیار ہوگئے اور دیگر مسلمانوں کو بھی اس گھر کی حفاظت کےلئےدعوت دی ۔ لیکن عالم اسلام کے بہت سے فیس بک ، ٹویٹر اور یو ٹیوب کے مجاہد اور سڑکوں پر ریلیاں نکالنے کی حد تک محدود رہنے والے اور توحید وسنت سے بغض وعداوت رکھنے والے لوگوں کو یہ بات کچھ بھائی نہیں اس لئے انہوں نے دانستہ یا نادانستہ سعودی عرب کے خلاف اول فول بکنے کاایک بہت بڑا محاذ کھول دیا جس میں ہمارے میڈیا کے ماہرین اور نام نہادتجزیہ نگاروں اور اینکرز نے بھی دل کی بھڑاس نکال کر خوب داد وصول کی۔ لہذا سعودیہ کی مخالفت میں بولنے والے اس گروہ کے لوگ  بظاہر کتنے ہی عذر لنگ تراشیں کہ یہ سعودیہ کی جنگ ہے ہمیں اس میں کودنے کی ضرورت نہیں !۔ اس جنگ میں کودنے سے ہمارے پڑوسی ممالک سے تعلقات خراب ہوجائیں گے! خطے میں آگ لگ جائے گی ! ملک میں فرقہ واریت کو ہوا ملے گی وغیرہ وغیرہ لیکن ان کی زبان حال وہی جواب دے رہی ہے جو عبد المطلب نے دیا تھا کہ میرا مسئلہ چند اونٹو ں کا ہے ۔جہاں تک کعبہ کا تعلق ہے تو ’’ للبیت ربا یحميه ‘‘ اس کا رب ہے خود حفاظت کرلے گا اس سے ہمیں سروکار نہیں، ہمارا بنیادی مسئلہ چند اونٹوں (معیشت )کا ہے اسے سب سے پہلے حل ہونا چاہئے ۔ اسی کی بنیاد پر ہمیں فیصلے کرنے چاہئیں ۔

اور دوسرا کام جو ہمارے اس فکر کے حامل ساتھی کر رہے ہیں وہ عبد المطلب کے کام سے ملتا جلتاہے کام ہےکہ عبد المطلب تو قریش کو لیکر پہاڑوں پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے لگے تھے ۔ اور ہمارے ان ساتھیوں کو چونکہ پہاڑ نہیں ملے اس لئے انہوں نے ثالثی کے نام سے مسئلہ سے کنارہ کش ہوکر تماشہ دیکھنے بیٹھ گئے ہیں کہ کیا ہوتاہے؟اب اگر سعودیہ کو اس میں فتح مل گئی تو اس قسم کے لوگ دوبارہ فیس بک ، ٹویٹر کے پیچز پر کود پڑیں گے اور غازیوں شہیدوں کی داستانیں شیئر کرنے لگیں گے ۔

مگر یہاں ایک بات بہت خوش آئند ہے کہ الحمد للہ عالم اسلام میں بہت سے ایسے اہل توحید بھائی ہیں جوحقیقی خطرے کو بھانپ چکے ہیں اور اللہ کے گھر کی حفاظت کےلئےبے تاب ہیں ۔ موضوع کی مزید تفصیل میں جانے سے پہلے تمام اہل اسلام سے گذارش ہے کہ خدارااصل خطرے کو سمجھیں اور اہل نفاق کے کردار سے ہٹ کر اہل ایمان کا کردار ادا کریں ۔ اور ایسے نہ بنیں کہ

يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا

الاحزاب – 20

سمجھتے ہیں کہ اب تک لشکر گئے نہیں۔ اور اگر فوجیں آجائیں تو تمنائیں کرتے ہیں کہ کاش! وہ صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوتے کہ تمہاری خبریں دریافت کیا کرتے، اگر وہ تم میں موجود ہوتے (تو بھی کیا؟) نہ لڑتے مگر برائے نام ۔

تو گاؤں ، دیہات اور شہروں میں بیٹھ کر خبریں جنگ وجہاد کی خبریں سننے والا کوئی مجاہد اور غازی نہیں بن جاتا ۔اس لئےاپنے ایمان کا جائزہ لیتے ہوئے بتائیے کہ کیا ہم  ابرہہ کی فکر کے لوگوں کے حمایتی ہیں یا عبد المطلب کی یا اس وقت کے ابابیلوں کی مانند اللہ کے گھر کی حفاظت کےلئےسینہ سپر ہونے کےلئےتیار ہیں ۔ اور رب کا بھی فرمان ہے کہ ’’ میرے گھر کی تعمیر وہی کرتاہے جو ایمان والا ہو ‘‘بظاہر اس امت کے ٹی وی چیلنوں پر بیٹھےنام نہاد مفکرین اور بعض مذھبی اداکاروں اورکاسہ برداروں کی حرکات سے تو یہ لگتا ہے اللہ کے گھر کی حفاظت کی سعادت اب بھی شاید  ابابیلوں( یا موحدین جن میں سرفہرست آل سعود ہیں ) کے ہی نصیب میں ہے ۔ جو اللہ کے گھر کی طرف اٹھی ہر ناپاک نگاہ کو’’کعصف مأکول ‘‘ کھائے ہوئے بھس کی مانند بنا دیتی ہیں ۔

در اصل ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا حال بالکل ایسا ہی ہوچکا ہے جیسا کہ کسی کہنے والے نے خوب کہا۔

ہم زندہ بندے کی قدر نہیں کرتے اور جب مرجاتاہے تو اسے آسمانوں پہ چڑھادیتے ہیں ۔ہم دنیا میں جاری حقائق وحوادث کے دوررس نتائج پر غور نہیں کرتے مگر جب وقت ہاتھ سے نکل جاتاہے تو لگتے ہیں پٹاری کھول کر بین بجانے ۔ موجودہ صورت حال میں صحیح اور مناسب فیصلہ کرنا شاید فکری غلامی کے باعث ہمارے لئے ممکن نہیں رہا ۔ اس لئے عراق میں قتل عام ہوا جن میں سب سے اکثریت سنی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی ذبح ہوئے ۔ کوئی نہیں بولا کہ اس کی وجہ سے فرقہ واریت کو ہوا ملے گی ۔ شام میں کلسٹر بموں کے دسیوں حملے ہوچکے شہداء کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کر گئی ۔ چھوٹے بچے زہریلی گیس سے دم گھٹنے سے مرے شام کی مدد علی الاعلان روس اور ایران عراق کرتے رہے ۔ کسی نے فرقہ واریت کا نام نہیں لیا ، کسی نے نہیں کہا کہ خطے میں آگ بھڑک اٹھے گی ۔ لیکن جب سر زمین حرمین کے تحفظ کی خاطر یمن کے باغیوں کولگام دینے کی باری آئی تو فوراً ہمارے دانشوروں کے دل میں بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں معصوم مسلمانوں کےلئےہمدردی جاگ اٹھی ۔ یہ سب اس امر کی عکاسی ہے کہ ہم ذہنی غلام ہیں کوئی مغرب کا ، کوئی نام نہاد ملاؤں کا، جنہیں سعودیہ میں رائج توحید ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔

 خدارا کفر مسلمانوں کو ذہنی اور فکری اعتبار سے اپاہج کرنے کے بعد حالات اس نہج پہ لے جا رہا ہے کہ ہمارے دلوں میں موجود ایمانی حس جو تھوڑی بہت زندہ ہے وہ بھی مرجائے اور اس کےلئےوہ تجربے کرتا رہتاہے ۔ سب سے پہلے انہوں نے ہمارے پیارے محمد  ﷺ  کی ذات کی توہین کی،سڑکوں پر امت کے جذبات بہت نظر آئے لیکن پھر جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ۔ یہی حال ہماری مقدس کتاب قرآن پاک کے ساتھ ہوا ۔ اسے بھی جلایا گیا ہم سڑکوں پر نکل کر پھر گھروں میں دبک گئے ۔ اب وہعملی تجربہ کرنے جا رہے ہیں کعبۃ اللہ پر ۔ جو مسلمانوں کو متحد رکھنے کا اللہ رسول کے بعد بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ مگر بہت سے مسلمان حکمران اور نام نہاد مسلمان اس تجربے کابھی آنکھوں سے مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں ۔تاکہ بعد میں سڑکوں پر چند ریلیاں نکال کر ، اسمبلیوں میں قرار داد یں پاس کراکر ، انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوا لیں ۔

الغرض یمن کا مسئلہ اس وقت سعودیہ کا مسئلہ نہیں نہ خلیج کا مسئلہ ہے بلکہ یہ عالم اسلام کا سب سےبنیادی مسئلہ ہے اگر اس پر کفر کا وار کامیاب گیا تو پھر اہل اسلام کےلئےکوئی ایسی چیز نہیں رہے گی جو انہیں متحد کرسکے اور سوچنے کی بات ہے کہ جب ہمارے پیارے پیغمبر کی توہین ہو، ہماری مقدس کتاب قرآن مجید کی بے حرمتی ہو ، ہمارے کعبۃ اللہ پر یلغار کی جائے تو اے مسلمان بتا اس کے بعد زندگی کا کوئی لطف رہے گا!!؟ ۔

یمن کا مسئلہ صرف سعودیہ کا مسئلہ اس لئے نہیں کہ :

اول : سعودیہ یمن پر حملہ کرکے نہ تو اپنی معیشت مضبوط کرنا چاہتاہے نہ اپنی جغرافیائی حدود بڑھانا چاہتاہے۔

دوم :  اگر سعودیہ کو محض حوثی قبائل یا زیدی یا دیگر شیعہ حضرات سے عداوت ہوتی تو یہ حوثی ، زیدی ، ودیگر شیعہ اس سے پہلے بھی موجود تھے سعودیہ نے ان کے خلا ف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ اور اب جب کی ہے تو اس لئے کہ حوثی ، اور سابق صدر صالح کی ملیشیات ایرانی اور مغربی مدد کی بنیاد پر یمن کو سرزمین حرمین پر یلغار کا دروازہ بنانا چاہتی ہیں ۔

سوم : حوثیوں نے یمن میں کیا کچھ نہیں کیا ؟ بدامنی پھیلائی ، خون بہایا ، بے گناہ اور معصوم لوگوں کو قتل کیا، مساجد گرائیں حفظ قرآن مدارس منہدم کئے ، اہل علم کا قتل عام کیا ۔وہاں کی قانونی حکومت کا تختہ الٹا ، اور بھاری اسلحہ سعودی حدود پر جمع کرنا شروع کردیا ۔ حرمین پر حملے کی انہوں نے دھمکیاں دیں ۔

چہارم : سعودیہ کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ کسی ملک میں کسی نوعیت کی بھی مداخلت کی حمایت نہیں کرتا ۔ اور ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ جہاں بھی تنازعات موجود ہوں انہیں بات چیت سے حل کیا جائے ۔ اور یمن کا معاملہ بھی انہوں نے اسی طرح ڈیل کرنے کی کوشش کی لیکن ۔ لا حیاة لمن تنادی ۔

پنجم : کیا اس کارروائی میں اہل اسلام کےلئےعموما اور اہل یمن کےلئےخصوصا فائدہ مند ہے یا نہیں ؟ کیا اب بھی کاروائی ضروری نہیں تھی جب کہ دار الخلافہ باغیوں کے قبضے میں چلا گیا اورقریب تھا کہ عدن بھی  مقبوضہ بن جائے ۔

ششم: عموما ہمارے میڈیا میں یہ بات نشر کی جارہی ہے کہ حوثی قبائل کا مکہ مدینہ پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ اس حوالے سے مکہ مدینہ کو کوئی خطرہ ہے ، تو ان مفاد پرست عناصر کی خدمت میں عرض ہے کہ حوثی تحریک کے ایک رہنما نے ایک ٹی وی پروگرام میں علی الاعلان یہ بات کہی ہے کہ اگر خلیجی ممالک اور سعودیہ اپنی حرکات سے باز نہیں آئے تو ہمارا پڑاؤ کعبۃ اللہ کا مقام رکن یمانی ہوگا۔

تفصیل کےلئےآپ یہ لنک ملاحظہ کرسکتے ہیں:

https://www.youtube.com/watch?v=V5t3s1Rjuis

نیز حوثی تحریک کے سربراہ عبد الملک حوثی اپنی ایک تقریر میں سعودیہ کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ: ’’انہیں اپنے فعل کی بہت بھاری قیمت اداکرنی پڑے گی .‘‘

https://www.youtube.com/watch?v=Ac_4FdKIWEI

حوثیوں نے یمن کے شہر صنعاء سے حاجیوں اور معتمرین کو لے جانی والی حج وعمرہ کی ٹریول ایجنسیز کو بھی خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں جس کی بنا پر بہت سی حج وعمرہ کی کمپنیوں کو اپنا کام صنعاء سے عدن منتقل کرنا پڑا ۔ملاحظہ کیجئے :

https://newhub.shafaqna.com/…/10924408-الحوثي-يه

حوثیوں کے ایک اور رہنما عبد الکریم الخیوانی نے سعودیہ کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ سال مکہ میں داخل ہوں گے ۔ ملاحظہ کیجئے :

http://www.alainonline.net/news_details.php?sid=17955

ان تمام حقائق کے بعد بھی کوئی اس خام خیالی میں ہے کہ حوثیوں کا بیت اللہ اور مکہ ومدینہ کے حوالے سے کوئی برا ارادہ نہیں تو ایسے شخص کی آنکھوں پر فریب نفس ،دھوکہ اور تعصب کی پٹی کے سوا کچھ نہیں ۔ اگر ان حوثیوں کو سعودیہ سے عداوت تھی تو یہ ریاض پر حملے کا ذکر کرتے کیونکہ آل سعود کا دار الخلاٖفہ ریاض ہے نہ کہ مکہ ومدینہ لیکن ان کے زعماء ورہنماؤں کامقدس مقام مکۃ المکرمہ کا نام لینے سے ان کے عزائم بخوبی واضح ہوچکے ہیں ۔

قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ

آل عمران – 118

 اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ حوثیوں کی سعودیہ سے دشمنی سیاسی نہیں بلکہ نظریاتی اور عقیدہ کی دشمنی ہے ۔ اور اس وجہ سے دشمنی ہے کہ سعودی حکمران بیت اللہ کے متولی کیوں ہیں ؟!

یہ چند مثالیں ہیں حوثیوں کے ناکام عزائم کی جو احباب عربی دان ہیں اور انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں انہیں ایسی بیسیوں مثالیں ملیں گی ۔ والعاقل تکفيه الإشارة۔

اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ان تمام حقائق کے بعد بھی سعودی حکومت کی حمایت اور مدد کرنا ضروری نہیں؟! جبکہ: 1: حوثی بیت اللہ پر قبضے کا خواب دیکھ رہے ہیں ان کے ہاتھ روکنے ضروری ہیں ۔حرمین کی حفاظت ہر مسلمان کا فرض ہے ۔

امام حرم مکی جناب سعود الشریم حفظہ اللہ فرماتے ہیں :’’ یمنی باغیوں پر حملہ دینی ضرورت ہے یہ ایسا دشمن ہے جو حرمین شریفین پر قبضے کے خواب دیکھ رہا ہے ‘‘۔اور یہ بات ہم سابق الذکرسطور میں واضح کرچکے ہیں کہ ان کے کون سے زعماء نے حرمین کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے ۔

2: حوثی باغی ہیں اور قرآن مجید نے باغیوں سے لڑنے کا حکم دیاہے ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :

فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ 

الحجرات – 9

 پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروه سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وه اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔

3: سعودی حکمران متولیان حرم ہیں ، حرم کے ساتھ اس کے متولیوں کی حفاظت بھی لازم ہوتی ہے ۔اور اگر وہ مدد طلب کرتے ہیں تو ان کی مدد کرنا ضروری ہے ۔

4:سعودی حکومت پاکستانیوں کی بالخصوص اور عالم اسلامی کی بالعموم محسن ہے ۔ اب اس محسن پر مشکل وقت پڑا ہے ان کی تائید وحمایت ہمارے لئے لازم بن جاتی ہے

 فرمان باری تعالیٰ ہے :

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

الرحمٰن – 60

اور نبی اکرم  ﷺ  نے ارشاد فرمایا:

 ومن أتى إليكم معروفا فكافئوه ، فإن لم تجدوا ما تكافئونه فادعوا له حتى تعلموا أن قد كافأتموه

جو آپ کے ساتھ نیکی کرے اس کو اس کا بدلہ دو ، اگر تمہارے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے تم اس کی نیکی کا بدلہ چکا سکو تو اس کےلئےدعا کرو ( اور اتنی دعا کرو کہ ) حتی کہ تمہیں یقین ہوجائے کہ تم نے اس کی نیکی کا بدلہ چکا دیاہے۔

سعودی حکومت نے عالم اسلام کی ہر مشکل اور ہر قضیے میں مدد کی ۔ فلسطینی کاز کی سعودی حکومت نے سیاسی ، عسکری اور اقتصادی ہر میدان میں مدد کی ۔ عسکری سطح پر جب 1948 ء میں عرب اور یہودیوں کے مابین جنگ لگی تو ملک عبد العزیز نے مکمل عسکری مدد فراہم کی اور انہوں نے سعودی فوج کی ایک بڑی تعداد سویس نہر کے راستے روانہ کی جو یہودیوں کے خلاف مصری افواج کے شانہ بشانہ لڑی ۔ نیز اقتصادی اور سیاسی مدد کی مثالیں ان گنت ہیں  ۔[1]

افغانستان میں سویت یونین کی جارحیت کے خلاف وہاں کی مسلمانوں کی سعودیہ کی جانب سے بھرپور مدد کی گئی ۔

سعودیہ نے محض محاذوں اور سورش زدہ علاقوں میں مسلمانوں کی حمایت نہیں کی بلکہ سیلاب ، زلزلوں ، اور دیگر قدرتی آفات میں بھی وہ اپنے بھائیوں کی مدد سے پیچھے نہیں رہے ۔ افریقا ہو یا ایشیا ، ہر جگہ سعودی پیش پیش رہے ۔ نوے کی دہائی کے چند ہی سالوں میں ایک رپورٹ کے مطابق ۷۷ بلین ریال کی مدد کی گئی ۔ افریقی ممالک میں قحط سالی کے وقت ایک ہزار ملین ریال کی نقد امداد دی گئی جبکہ غذائی اجناس اور ادویات اس کے علاوہ ہیں اس سے ۱۷ افریقی ممالک نے فائدہ اٹھایا ۔ [2]

1988ء میں شمالی یمن میں زلزلوں میں سعودیہ نے 443ملین ریال کی مدد کی ۔ 1988 ء ہی میں جب تونس میں سیلاب نے تباہی مچائی تو سعودی حکومت نے فورا 50ملین ڈالر کی امداد دی۔ پاکستان میں زلزلوں اور سیلابوں میں سعودی حکومت نے جو مدد کی وہ ہماری حکومت اور عوام سے ڈھکی چھپی نہیں ۔

5 :یمن کی سرزمین اور یمن کے رہنے والوں کی مدح میں احادیث نبویہ  ﷺ  وارد ہیں ۔ جس بنا پر یمن کے مظلوم لوگوں کی مدد تمام مسلمانوں کا فرض بنتاہے ۔ ذیل کی سطور میں یمن اور اس کے باسیوں کے فضائل میں وارد چند احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔

ارض حجاز میں جب نور ہدایت جلوہ افروز ہوا تو اس کی کرنیں یمن تک بھی پہنچیں ہمارے پیارے پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے لبِ مبارک سے یمن کے باشندوں اور سرزمین یمن کےلئےکلمات خیر بھی کہے ۔

چند روایات ملاحظہ ہوں :

رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:

اللهم بارك لنا في شامنا، اللهم بارك لنا في يمننا

 اے اللہ ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما ۔ آپ  ﷺ  نے یہ دعا تین مرتبہ دہرائی ۔ صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول:

وفی عراقنا

 ہمارے عراق کے متعلق بھی دعا فرمادیجئے آپ  ﷺ  نے فرمایا:

 إن بها الزلازل والفتن وهناك يطلع قرن الشيطان

وہاں زلزلے ہیں ، فتنے ہیں اور وہیں سے شیطان کے سینگ ابھریں گے یعنی شیطان کے مددگار نکلیں گے ۔ [3]

رسول اللہ  ﷺ  نے سرزمین شام کے بعد یمن کو اہمیت دی اور وہاں رہائش اختیار کرنے کا حکم دیا ۔

ابن حوالہ کہتے ہیں رسول اللہ  ﷺ  نے ارشاد فرمایا :’’ ایک ایسا وقت آئے گا کہ اہل اسلام کے تین لشکر بن جائیں گے ۔ ایک شام میں ایک یمن میں اور ایک عراق میں ۔ ابن حوالہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے مشورہ دیجئے میں کس لشکر کو اختیار کروں اگر مجھے وہ زمانہ مل جائے تو۔ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا شام کے لشکر کو اختیار کرنا ، وہ اللہ تعالیٰ کی بہترین سرزمین ہے ۔

اللہ تعالیٰ اس میں اپنے بہترین لوگوں کو بساتاہے ۔ ہاں اگر ایسا نہ کرسکو تو یمن چلے جانا اور وہاں کے چشموں کا پانی پینا ۔۔۔‘‘ [4]

ایک روایت میں ہے آپ  ﷺ  نے تین مرتبہ فرمایا:

 علیک بالشام

 شام اختیار کرنا ۔ پھر فرمایا:

فمن أبی فلیلحق بیمنه، ولیسق من غدرہ

یمن سے جا ملنا اور وہاں کے کنوؤں اور چشموں کا پانی پینا ۔

اہل یمن کی فضیلت :

آپ  ﷺ  نے فرمایا : تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں جو نہایت نرم دل ، رقیق القلب لوگ ہیں ۔ ایمان یمانی ہے اور حکمت یمانی ہے اور فقہ یمانی ہے ۔ اور کفر کا سر مشرق کی طرف ہے ۔ [5]

ایک مرتبہ آپ  ﷺ  نے یمن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’ الإيمان هاهنا‘‘ ایمان یہاں ہے ۔ جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم ایک مرتبہ مکہ کے راستے میں رسول اللہ  ﷺ  کے ساتھ تشریف لے جارہے تھے ۔ تو آپ فرمانے لگے ’’ ابھی تم پر اہل یمن نمودار ہونے والے ہیں جیسے کہ وہ بادل ہیں ۔ زمین میں بسنے والوں میں وہ بہترین لوگ ہیں ۔

امام نووی نے صحیح مسلم میں اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے ’’ باب تفاضل أهل الایمان ورجحان أهل اليمن فيه ‘‘۔

اب ان تمام حقائق اور دلائل کے بعد بھی اگر کوئی شخص یمن جنگ میں سعودی اور یمن کی مظلوم عوام کی حمایت وتائید کے بارے میں تذبذب کا شکار ہے تو پھر اس کےلئےیہی کہا جاسکتاہے ۔

آنکھیں اگر ہوں بند تو پھر دن بھی رات ہے

اس میں بھلا قصور کیا ہے آفتاب کا


[1] جہود المملکة العربیة السعودیه فی خدمة الدعوۃ الاسلامیة ماضیا وحاضرا 

[2] المملكة وهموم الأقلیات ص 293

[3] صحیح بخاری

[4] سنن ابی دؤد

[5] صحیح مسلم

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ خالد حسین گورایہ حفظہ اللہ

آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا، بعد ازاں اسی ادارہ میں بحیثیت مدرس خدمات دین میں مصروف ہیں، آپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں نائب المدیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔