مروجہ اسلامی بینکوں نے فنانسنگ کے جو مختلف طریقے متعارف کرائے ہیں ان میں سر فہرست مرابحہ ہے۔ جس کو اسلامی بینکنگ کے نام پر وسیع پیمانے پر فروغ حاصل ہوا ہے۔
بیع مرابحہ کا مفہوم یہ ہے:
’’فروخت کنندہ کوئی چیز اس وضاحت کے ساتھ بیچے کہ میں نے یہ اتنے میں خریدی ہے اور اتنے منافع کے ساتھ فلاں قیمت پر تمہیں فروخت کرتا ہوں‘‘۔
چنانچہ علامہ موفق الدین ابی محمد عبداللہ بن احمد بن محمد قدامہ حنبلی مقدسی فرماتے ہیں:
معنی بیع المرابحة، ھو البیع براس المال وربح معلوم، ویشترط علمھما براس المال فیقول راس مالی فیه او ھو علی بمائة بعتک بھا، وربح عشرة
المغنی -6 : ص/266
’’مرابحہ کا معنی ہے اصل لاگت اور متعین نفع کے ساتھ فروخت کرنا اس میں ضروری ہے کہ فروخت کنندہ اور مشتری کو اصل لاگت معلوم ہو، چنانچہ بیچنے والا یہ کہے کہ اس میں میرا اصل سرمایہ سو ہے یا یہ مجھے ایک سو کی پڑی ہے میں آپ کو دس نفع لے کراتنے میں بیچتا ہوں‘‘۔
لغت کی مشہور کتا ب’’المعجم الوسیط‘‘ میں ہے:
ھو بیع براس المال مع زیادة معلومة
اصل قیمت پر متعین نفع کے ساتھ فروخت کرنا بیع مرابحہ ہے۔
عام بیع اور مرابحہ میں یہ فرق ہے کہ عام بیع میں چیز کی اصل قیمت اور اپنا نفع بتانا ضروری نہیں ہوتا جبکہ مرابحہ میں مشتری کو اصل قیمت سے آگاہ کرنا لازمی شرط ہے۔
مرابحہ کی ضرورت اور اس کے بنیادی اصول:
مرابحہ ایک تمدنی اور معاشرتی ضرورت ہے کیونکہ ہر آدمی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ کسی چیز کو اس کی اصل قیمت پر مناسب نفع کے بدلے خرید سکے بعض دفعہ فروخت کنندہ اصل قیمت سے بھی کئی گنا زیادہ نفع مانگ لیتا ہے۔ اس بناء پر انسان سوچتا ہے کہ کوئی ایسا شخص مل جائے جو اپنی لاگت پر معقول نفع لے کر بیچنے پر تیار ہو۔ اس لحاظ سے بیع مرابحہ کی بنیاد امانت داری پر ہے لہذا اس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ یہ ہر قسم کی خیانت اور غلط بیانی سے مبرا ہوا اور مشتری کو اصل قیمت کا علم ہو جیسا کہ ’’الموسوعة الفقیة الکویتیة‘‘ میں ہے۔
یشترط ان یکون الثمن الاول معلوما للمشتری الثانی لان العلم بالثمن شرط فی صحة البیوع فاذا لم یعلم الثمن الاول فسد العقد
’’اس میں یہ شرط ہے کہ مشتری ثانی کو پہلی قیمت کا علم ہو۔ کیونکہ بیوع کے صحیح ہونے کے لیے قیمت کا علم شرط ہے۔ جب پہلی قیمت کا علم نہیں ہوگا تو عقد فاسد ہو جائے گا‘‘۔
مرابحہ کی مختلف قسمیں اور ان کا شرعی حکم:
نفع کے تعین کے اعتبار سے مرابحہ کی دو صورتیں ہیں:۱۔پوری قیمت پر نفع کی ایک مخصوص مقدار مقرر کر لی جائے۔ مثلا یوں کہا جائے کہ اس قیمت سے اتنے روپے زائد میں بیچتا ہوں یہ صورت سب کے نزدیک جائز ہے۔ چنانچہ علامہ موفق الدین ابی محمد عبداللہ بن احمد بن محمد قدامہ حنبلی مقدسی رقم طراز ہیں:
فھذا جائز لا خلاف فی صحته، ولا نعلم فیه عند احد کراھة
المغنی – 6: ص/266
’’یہ جائز اس کے صحیح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہمیں نہیں علم کہ اس کے متعلق کسی سے کراہت منقول ہو‘‘۔
۲۔دوسری صورت یہ ہے کہ نفع کا ایک خاص تناسب طے کر لیا جائے۔ مثلا یوں کہا جائے کہ اصل قیمت پر اتنے فیصد زائد نفع وصول کروں گا۔ صحابہ اور فقہاء کے ہاں یہ صورت بیع ’’دہ یاز دہ‘‘یا’’ دہ دواز دہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس چیز میں میرا اصل سرمایہ اتنے روپے ہے اور میں ہر دس کے بدلے ایک روپیہ یا ہر دس کے بدلے دو روپے نفع لوں گا اس کے جواز میں اختلاف ہے۔
قاضی شریح سعید بن مسیب اور ابراہیم نخعی ا سکے جائز ہونے کے قائل ہیں۔
چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں:
عن شریح و سعید بن السیب و ابراہیم النخعی انھم کانوا یجیزون بیع دہ دوازدہ
السنن الكبریٰ: كتاب البیوع ، باب المرابحة
’’شریح سعید بن مسیب اور ابراہیم نخعی بیع دہ دواز دہ جائز قرار دیتے ہیں‘‘۔
امام ابن سیرین رحمہ اللہ سے منقول ہے:
لا بأس ببیع دہ دوازدہ
مصنف عبدالرزاق: كتاب البیوع، باب بیع ده دوازده
’’بیع دہ دوازدہ میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ چنانچہ انہوں نے امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے:
لا بأس العشرة باحد عشر، ویاخذ للنفقة ربحا
صحیح البخاری: كتاب البیوع، باب من اجری الأمصارعلی ما یتعارفون بینهم فی البیوع الإجازة
’’اس میں کوئی حرج نہیں کہ دس کو گیارہ کے بدلے بیچے اور اخراجات پر بھی نفع وصول کریں۔‘‘
شیخ الاسلام حافظ ابن حجررحمہ اللہاس کی تشریح میں لکھتے ہیں:
ی لا باس ان یببع ما اشتراہ بمائة دینار مثلا کل عشرة منه باحد عشر فیکون راس المال عشرة والربح دینارا
فتح الباری
’’یعنی اس میں کوئی حرج نہیں کہ جو چیز سو دینار کی خریدی ہے وہ اس طرح بیچے کہ ہر دس کے بدلے گیارہ دینار لوں گا تو اصل مال دس دینار ہوئے اور ایک دینار نفع۔‘‘
امام ثوری رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ اہل الرائے اور ابن منذر کی رائے میں بھی یہ جائز ہے۔ [المغنی: ۶ ص ۲۶۶]
اس کے برعکس سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے میں مرابحہ کی یہ صورت ناجائز ہے۔ چنانچہ سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
بیع دہ دوازدہ ربا
مصنف عبد الرزاق: كتاب البیوع، باب بیع ده دوازده
’’بیع دہ دوازدہ سود ہے۔‘‘
اور عبداللہ بن ابی یزید کہتے ہیں:
سمعت ابن عباس یکرہ بیع دہ دوازدہ قال و ذلک بیع الا عاجم
السنن الكبریٰ للبیهقی و مصنف عبدالرزاق : كتاب البیوع، باب المرابحة
’’ میں نے عبداللہ بن عباسؓ سے سنا کہ وہ بیع دہ دوازدہ کو مکروہ سمجھتے تھے فرماتے تھے یہ عجمیوں کی بیع ہے۔‘‘ امام احمد نے بھی اس کو مکروہ کہا ہے اور امام اسحاق بن راہویہ کے خیال میں بھی یہ ناجائز ہے۔
راجح رائے:
اگر فریقین کے دلائل کا موازنہ کیا جائے تو حسب ذیل وجوہ کے باعث ان بزرگوں کی رائے راجح معلوم ہوتی ہے جو اس کے حق میں ہیں۔
٭قرآن و حدیث میں کوئی ایسی نص نہیں جو اس کی حرمت پر دلالت کرتی ہو۔ نیز اس سے کسی شرعی ضابطے کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوتی۔
٭پہلی قسم کی طرح اس میں بھی ہر چیز واضح ہے اصل لاگت بھی معلوم ہوتی ہے اور نفع بھی متعین ہے۔
٭جہاں تک سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے آثار کا تعلق ہے ان کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
وھذا یحتمل ان یکون انما نھی عنه اذا قال ھو لک بدہ یازدہ او قال بدہ دوازدہ لم یسم راس المال ثم سماہ عند النقد وکذلک ماروی عن ابن عمر فی ذلک
السنن الكبریٰ، كتاب البیوع، باب المرابحة
’’اس کا مطلب ہے کہ یہ ممانعت تب ہے جب یہ کہے کہ یہ چیز میں تجھے اس طرح فروخت کرتا ہوں کہ ہر دس کے بدلے ایک یا ہر دس کے بدلے دو نفع لوں گا۔ اصل لاگت کا تذکرہ نہ کرے پھر ادائیگی کے وقت اس کی وضاحت کرے۔‘‘
سیدنا عبداللہ عمررضی اللہ عنہ کی روایت کا بھی یہی مطلب ہے۔ یاد رہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا اثر سنداً بھی ثابت نہیں کیونکہ اس کو سفیان بن عیینہ صیغہ عن سے بیان کر رہے ہیں اور مدلس ہیں۔
مرابحہ میں ضمنی اخراجات کا حکم:
یہاں یہ امر بھی قابل ملاحظہ ہے کہ بیچی جانے والی چیز پر جو اخراجات آتے ہیں فروخت کنندہ ان کو بھی اصل لاگت میں شامل کر کے مجموعی لاگت پر نفع حاصل کر سکتا ہے۔ اوپر صحیح بخاری کے حوالے سے امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ فروخت کنندہ اخراجات پر بھی نفع لے سکتا ہے۔ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
للبائع ان یحسب فی المرابحة جمیع ماصرفه ویقول قام علی بکذا
فتح الباری
’’مرابحہ میں بائع کو یہ بھی حق ہے کہ وہ تمام اخراجات کو شمار کر کے یہ کہے کہ مجھے یہ چیز اتنی رقم (قیمت) میں پڑی ہے۔
بیع مرابحہ اور بینکاری:
مذکورہ بالا تفصیل سے مرابحہ کا شرعی تصور اور اس کے اصول و مبادی نکھر کر سامنے آگئے ہیں اور یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ اس کا بینکاری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ اسلامی بینکاری کے حامی مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’ آج کل معاشی حلقوں میں ایک بینکاری کا طریقے کے طور پر مروج ہے۔ جبکہ مرابحہ کا اصل تصور اس خیال سے مختلف ہے۔ مرابحہ اصل میں اسلامی فقہ کی ایک اصطلاح ہے اور اس سے مراد ایک قسم کی بیع ہوتی ہے۔ جس کا اپنے اصل تصور کے اعتبار سے تمویل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ [اسلامی بینکاری کی بنیادیں:ص ۹۶]
دوسری وجہ لکھتے ہیں:
’’بنیادی طور پر مرابحہ طریقہ تمویل نہیں بلکہ بیع کی ایک خاص قسم ہے۔ شریعت کی رو سے تمویل کے مثالی طریقے ’’مشارکہ‘‘ اور ’’مضاربہ‘‘ ہیں۔
ٓآگے چل کر لکھتے ہیں:
’’ یہ بات کسی صورت نظر انداز نہیں ہونی چاہیے کہ مرابحہ اصل کے اعتبار سے طریقہ تمویل نہیں۔ یہ تو صرف سود سے بچنے کا ایک وسیلہ اور حیلہ ہے۔ ایسا مثالی ذریعہ تمویل نہیں جو اسلام کے معاشی مقصد کی تکمیل کرتا ہو۔‘‘[اسلامی بینکاری کی بنیادیں:۱۰۸]
اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ:
المرابحة اللآ مر بالشراء یا المرابحة للواعد بالشراء
یعنی خریدار کا آرڈر دینے یا خریدار کا وعدہ کرنے والے کے ساتھ مرابحہ کا معاملہ کرنا ہے۔ اس کو مرابحہ مرکبہ بھی کہتے ہیں۔
اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کلائنٹ بینک سے درخواست کرتاہے کہ آپ میرے لیے اس کو الٹی کی فلاں فلاں چیز خرید لیں میں وہ مرابحہ کی بنیاد پر آپ سے خرید لوں گا۔ شرح منافع کا تعین پہلے ہی ہو جاتا ہے۔ اور اس کا تعین شرح سود سے کیا جاتاہے۔ عام طور پر بینک کلائنٹ کی دلچسپی جانچنے کے لیے ٹوکن منی (الحامش الجدی) بھی وصول کرتا ہے پھر جب بینک حسب وعدہ مطلوبہ سامان خرید لیتا ہے تو باقاعدہ بیع کے ذریعے کلائنٹ کو فروخت کرتا ہے اور کلائنٹ عموما اپنے وعدے کے مطابق خریدنے کا پابند ہوتا ہے۔ بعض دفعہ بینک پر بھی وعدے کی پابندی لازم ہوتی ہے لیکن عموما بینک آزادہی ہوتاہے۔ اگر بینک کے سامان خریدنے کے بعد کلائنٹ حسب وعدہ خریدنے سے انکار کر دے تو بینک وہ سامان کسی دوسرے کو بیچ دیتا ہے اور اصل لاگت سے جتنا خسارہ ہوتا ہے وہ وعدہ کرنے والے سے وصول کرتا ہے۔ بینک چونکہ تجارتی ادارہ نہیں اس لیے وہ خود سامان خریدنے کے بجائے اس کلائنٹ کو ہی خریداری کے لیے وکیل مقرر کر دیتا ہے کہ آپ یہ سامان خود خرید لیں۔ اور اکثر کلائنٹ اپنا سپلائر بھی خود متعین کرتا ہے اور اس کا مطالبہ ہوتا ہے کہ بینک اسی سے مطلوبہ سامان خرید کر اسے فروخت کرے۔ کلائنٹ کا بینک کے ساتھ یہ معاہدہ بھی ہوتا ہے کہ بیع کے بعد اگر اس نے وعدے کے مطابق ادائیگی نہ کی تو وہ اتنی رقم بینک کے زیر نگرانی قائم خیراتی فنڈ میں جمع کروائیگا۔
اس سے واضح ہوتاہے کہ اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ قطعا وہ نہیں جس کو ہمارے اسلام نے جائز قرار دیا ہے بلکہ اس میں اور شرعی مرابحہ میں کئ ایک اعتبار سے فرق ہے۔مثلاً:
٭شرعی مرابحہ میں بیچا جانے والا سامان تاجر کے پاس پہلے سے موجود ہوتا ہے اس کے برعکس اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ میں مطلوبہ سامان بینک کے پاس موجود نہیں ہوتا۔
٭شرعی مرابحہ میں چونکہ تاجر نے سامان خریداری کے آرڈر یا وعدے کے بغیر خریدا ہوتا ہے اس لیے وہ حالات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ممکن ہے گاہک فورا آجائے اور یہ فروخت ہو جائے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس کو طویل عرصہ تک انتظار کرنا پڑے اور یہ بھی خدشہ ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں بازار میں اس چیز کی قیمت کم ہو جائے اور یہ نقصان اٹھا کر بیچنے پر مجبور ہو۔ اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ میں بینک کو یہ خطرات در پیش نہیں ہوتے۔
٭شرعی مرابحہ ایک ہی مرحلہ میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے برخلاف اسلامی بینکوں میں مروجہ مرابحہ دومختلف مرحلوں میں انجام پاتا ہے۔ پہلے مرحلہ میں وعدہ ہوتا ہے اور دوسرے مرحلہ میں عقد کی رسم ادا ہوتی ہے۔
٭ شرعی مرابحہ میں ادائیگی نقد بھی ہو سکتی ہے اور ادھار بھی لیکن بینکاری مرابحہ موجل ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ لوگ بینکوں میں جاتے ہی اس لیے ہیں کہ ان کے پاس رقوم نہیں ہوتیں۔
٭شرعی مرابحہ کا معاملہ کرتے وقت سود فریقین کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوتا جبکہ اسلامی بینکوں میں نفع کا تعین ہی شرح سود سے ہوتا ہے۔
٭شرعی مرابحہ میں صرف دو فریق ہوتے ہیں: (۱)بیچنے والا(۲)خریدنے والا۔
اس کے برعکس یہاں ایک تیسرا فریق بینک بھی ہوتا ہے۔
مروجہ مرابحہ کا شرعی حکم:
یہ صورت چونکہ شرعی مرابحہ سے بالکل مختلف ہے اس لیے اس کو شرعی مرابحہ کی بنیاد پر جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کا جواز اس بات پر موقوف ہے کہ یہ پوری طرح شرعی اصول سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟
جیسا کہ گزشتہ سطور میں بیان ہوا کہ مرابحہ کی بنیاد پر بیچی جانے والی چیز نہ تو پہلے سے بینک کے پاس موجود ہوتی ہے اور نہ ہی بینک براہ راست خریدتا ہے بلکہ وہ کلائنٹ سے کہتا ہے کہ آپ میرے ایجنٹ کی حیثیت سے یہ چیز خود خرید لیں۔ لہذا مناسب ہوگا کہ مرابحہ کی مختلف صورتوں کا الگ الگ حکم بیان کرنے سے قبل کلائنٹ کو وکیل بنانے کی شرعی حیثیت واضح کردی جائے۔
کلائنٹ کے ذریعے خریداری کی شرعی حیثیت:
اس امر پر سب متفق ہیں کہ مرابحہ ایک جائز طریقہ تجارت تو ہے مگر یہ طریقہ تمویل نہیں ہے۔ لہذا اسے اس طرح انجام دینا کہ یہ عام بیع کی بجائے سودی لین دین کا معاملہ نظر آئے درست نہیں۔ کلائنٹ کو خریداری کا ایجنٹ بنانے میں سودی لین دین کے ساتھ مشابہت بالکل واضح ہے اس لیے موجودہ اسلامی بینکوں کے حامی بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ چنانچہ ’’المعاییر الشرعیة‘‘ میں ہے:
الاصل ان تشتری المئوسسة السلعة بنفسھا مباشرة من البائع ویجوزلھا تنفیذ ذلک عن طریق وکیل غیر الآمر بالشراء ولا تجعل لتوکیل العمیل (الآمر بالشراء) الاعند الحاجة الملحة
ص : 112
’’اصل یہ ہے کہ بینک فروخت کنندہ سے براہ راست خود سامان خریدے۔ اور بینک ایجنٹ کے ذریعے بھی خرید سکتا ہے مگر وہ ایجنٹ کلائنٹ کے علاوہ کوئی دوسرا ہونا چاہیے ناگزیر صورت کے علاوہ کلائنٹ کو ایجنٹ نہیں بنانا چاہیے۔‘‘
اسلامی بینکاری کے لیے سر گرم عمل مولانا تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’کلائنٹ کو وکیل بنادینا تاکہ وہ تمویل کار کی طرف سے اس چیز کو خرید لے مرابحہ کو مشتبہ بنا دیتا ہے اس وجہ سے بعض شریعہ بورڈز نے اس تکنیک کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔‘‘ [اسلامی بینکاری کی بنیادیں:ص 164]
طرفہ تماشا یہ ہے کہ تقریبا تمام اسلامی بینک اسی تکنیک کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اب ذیل میں شرعی اصول کی روشنی میں اس کی مختلف صورتوں کا الگ الگ حکم بیان کیا جاتا ہے۔
پہلی صورت:
اس معاملہ کی پہلی صورت یہ ہے کہ بینک کیساتھ کیے ہوئے وعدہ کی پابندی فریقین کے لیے لازم ہو کہ بینک ہرصورت سامان دینے اور کلائنٹ خریدنے کا پابند ہو۔ یہ صورت عملًا بیع ہی کی ہے جو شرعی اصول سے متصادم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
چنانچہ ڈاکٹر محمد سلیمان الاشقر لکھتے ہیں:
’’واذا تم ھذا فان الاتفاق فی الحقیقة ھو عقد لان مافیه من اتفاق اراد تین علی انشاء حق فھو عقد بلاریب ولوسمی وعدا فھو عقد ایضا فاذا جری الاتفاق علی ھذہ الطریقة فھوعقد باطل و حرام لاسباب‘‘
بحوث الفقهیة فی قضاء الإقتصادیة معاصرة : ج/1 ، ص/82
’’جب یہ معاملہ پورا ہو جائے تو یقینا یہ ایگریمنٹ در حقیقت عقد ہے۔ کیونکہ دو ارادوں کا ایک حق کو وجود میں لانے پر اتفاق بلاشبہ عقد ہے اگرچہ اسے وعدے کا نام بھی دیا جائے پھر بھی یہ عقد ہے جب ایگریمنٹ اس طریقے کے مطابق پورا ہو تو وہ چند اسباب کی بناء پر باطل اور حرام ہے۔‘‘
وہ کون سے شرعی اسباب ہیں جن کی بنیاد پر یہ عقد حرام قرار پاتا ہے اس کی وضاحت میں شیخ اشقر فرماتے ہیں:
٭اس کے حرام ہونے کا پہلا سبب یہ ہے کہ بینک کلائنٹ کو ایک ایسی چیز بیچ رہا ہے جو ابھی تک اس کی ملکیت نہیں حالانکہ نبیﷺنے اس چیز کی بیع کی ممانعت فرمائی ہے جو قبضے میں نہ ہو۔ اور آپﷺنے اس بیع سے بھی منع فرمایا ہے کہ ایسی چیز آگے بیچی جائے جو انسان کے پاس موجود نہ ہو۔
٭بینک نے معلق (contingent) بیع کی ہے کیوں کہ کلائنٹ بینک سے یہ کہتا ہے کہ اگر تم اس کو خرید لو تو میں تم سے لے لوں گا جبکہ شرعی طور پر بیع معلق صحیح نہیں ہے۔
٭اس کی حرمت کا تیسرا سبب یہ ہے کہ یہ سود پر قرض دینے کا حیلہ ہے۔
٭اگر بیچی جانے والی چیز کا تعلق غذائی اشیاء سے ہو تو اس میں ممانعت کا چوتھا سبب بھی شامل ہو جاتا ہے۔ جس کی طرف امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ نبیﷺنے طعام کی بیع سے منع فرمایا حتی کہ تاجر اسے اٹھا کر اپنے ٹھکانوں پر لے جائیں۔ [بحوث فقیھة فی قضایا اقتصادیة معاصرة: ج۱]
علاوہ ازیں یہ آنحضرتﷺکے اس ارشاد کے بھی مخالف ہے۔
البیعان بالخیار مالم یتفرقا
صحیح بخاری: كتاب البیوع، باب كم یجوز الخیار
’’الگ ہونے تک بائع و مشتری دونوں کو (فسخ بیع) اختیار ہوتا ہے۔‘‘
لیکن بینک میں مروجہ مرابحہ میں یہ اختیار سلب کر لیا جاتا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واذا أری الرجل الرجل السعلة فقال اشتر ھذہ واربحک فیھا کذا فاشتراھا الرجل فالشراء جائز والذی قال اربحک فیھا بالخیار ان شاء أحدث فیھا بیعا وان شاء ترکه وھکذا ان قال اشترلی متاعا ووصفه له او متاعا ای متاع شئت وانا اربحک فیه فکل ھذا سواء یجوز البیع الاول ویکون ھذا فیما اعطی من نفسه بالخیار
كتاب الام : ج/3 ، ص/39
‘‘جب ایک شخص دوسرے کو کوئی چیز دکھا کر یہ کہے کہ یہ خرید لیں میں آپ کو اتنا منافع دوں گا اس پر وہ شخص وہ چیز خرید لے تو پھر یہ خریداری جائز ہوگی۔ تاہم جس نے یہ کہا تھا کہ میں اتنا نفع دے دوں گا اس کو اختیار ہے اگر چاہے تو بیع کرے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔ اور اسی طرح اگر یہ کہے کہ میرے لیے فلاں قسم کا سامان خرید لو یا یہ کہے کہ جو سامان تم چاہو وہ خرید لو میں آپ کو اس میں اتنا نفع دوں گا تو پہلی بیع جائز ہو گی اور آرڈر دینے والے کو اختیار ہوگا۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
وان تبایعابه علی ان الزما انفسھما الامر الاول فھو مفسوخ من قبل شیئین احدھما انه تبایعاہ قبل یملکه البائع والثانی انه علی مخاطرة اِن اشتریته علی هذا اربحک فیه کذا
’’اگر دونوں اس چیز کی اس طرح بیع کریں کہ وہ دونوں پہلے آڈر کو لازم سمجھیں تو یہ دو وجہ سے فسخ ہو گی۔
۱) دونوں نے چیز ملکیت میں آنے سے پہلے بیع کی ہے۔
۲)اس میں غرر ہے کیونکہ اس نے کہا ہے کہ اگر آپ اتنے کی خرید لیں تو میں آپ کو اتنا نفع دوں گا۔‘‘ [حوالہ مذکورہ]
نیز یہ بیع الکالی بالکلالی کی قبیل سے ہے۔ کیونکہ بینک نے سامان بعد میں دینا ہے اور کلائنٹ نے قیمت بعد میں ادا کرنی ہے۔ شرعی طور پر یہ بھی ممنوع ہے۔
ان النبی ﷺ نھی عن بیع الکالیء بالکالیء
سنن دارقطنی : ج/5، ص31
’’بلاشبہ نبیﷺ نے ادھا ر کے بدل ادھار بیع سے منع فرمایا ہے۔‘‘
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ روایت تو ضعیف ہے لیکن اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ ادھار کی ادھار کے بدلے بیع جائز نہیں۔ [نیل الاوطار: ج ۸، ص ۲۱۳]
مالکی فقہاء نے مکروہ بیع کی ایک صورت یہ بھی ذکر کی ہے کہ آدمی کسی دوسرے سے یہ کہے
’’کیا آپ کے پاس فلاں فلاں چیز ہے جو آپ مجھے ادھار بیچ دیں۔‘‘ [الموسوعة الفقیھة الکویتیة بحوالہ مواجب الجلیل للخطاب البیان والتحصیل لابن رشد]
اسلامی بینک کاری کے ماہر ڈاکٹر رفیق یونس مصری لکھتے ہیں:
فاذا لم یکن ھنالک خیار فانھا لا تجوز لان المواعدة الملزمة فی بیع المرابحة تشبه البیع نفسه حیث یشترط عندئذ ان یکون البائع مالکا للمبیع حتی لا تکون ھنالک مخالفة لنھی النبی ﷺ ان یبیع الانسان مالیس عندہ فالمرابحة ظاھر ھا البیع وباطنھا التمویل فانھا لاتجوز
المصارف الإسلامیة: ص/33
’’جب اختیار نہ ہو تو معاملہ جائز نہیں کیونکہ بیع مرابحہ میں لازمی وعدہ نفس بیع کے مشابہہ ہے۔ جب بیع میں یہ شرط ہے کہ فروخت کنندہ بیچی جانے والی چیز کا مالک ہو تو نبیﷺکے اس فرمان کہ ’’جو انسان کے پاس نہیں وہ بیچنا منع ہے۔‘‘ کا ظاہری مطلب بیع ہو اور حقیقت میں فنانسنگ ہوتو یہ جائز نہیں۔‘‘
شیخ بکر بن عبداللہ ابو زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فکیف یجوز للمصرف ان یبیع مالم یملک اصلا و یصافق ویربح فیه فملکه تقدیری لا حقیقی استیلائه علیه تقدیری لا حقیقی فالمنع من ھذا یکون وصف باب الاولی‘‘
فقه النوازل : ج/2 ، ص/93
’’بینک کے لیے یہ کیسے جائز ہے کہ وہ ایک ایسی چیز بیچے کہ جس کا وہ بالکل ہی مالک نہیں ہے وہ سودا حاصل کر کے نفع حاصل کرتا ہے حالانکہ وہ چیز اسکی تقدیری ملکیت میں ہے نہ کہ حقیقی۔ چنانچہ اس کی ممانعت بدرجہ اولی ہونی چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر احمد ریان لکھتے ہیں:’’ھذا العقد تکتفه مجموعة من المحاذیر الفقھیة التی من اھمھا: ان الوعد من العمیل بالشراء، وموافقة المصرف علی ذلک؛ ھو عقد حتی وان کتب فی الاوراق انه وعد، لان العبرة بالمعانی ولیست بالمبانی کما یقول الفقھاء، وبما انه عقد فیشترط له توفر کافة شروط عقد البیع، واکثرھا غیر متوفرة فیة‘‘
فقهة البیوع المنھی عنھا مع تطبیقاتھا الحدیثة فی المصارف الاسلامیة
’’اس معاملہ کو متعدد فقہی خرابیوں نے گھیرا ہوا ہے ان میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ کلائنٹ کی طرف سے خریداری کا وعدہ اور بینک کی اس پر موافقت معاہدہاگرچہ کاغذات میں اس کو وعدہ لکھا جاتا ہے۔ کیونکہ فقہاء کے قول کے مطابق حقائق کا اعتبار کیا جاتا ہے نہ کہ الفاظ کا۔ اور جب یہ معاہدہ ہے تو اسمیں معاہدہ بیع کی تمام شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے اور ان میں سے اکثر یہاں نہیں پائی جاتیں۔
یہان یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ اس میں منافع کے لیے شرح سود کو معیار بنانے سے یہ معاملہ مزید مشکوک ہو جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے حامی بھی اس کو پسندیدہ قرار نہیں دیتے چنانچہ مولانا تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ حلال منافع کے تعین کے لیے سود کی شرح کا استعمال پسندیدہ نہیں اور اس سے یہ معاملہ کم از کم ظاہری طور پر سودی قرض کے مشابہ بن جاتا ہے اور سود کی شدید حرمت کے پیش نظر اس ظاہری مشابہت سے بھی جہاں تک ہو سکے بچنا چاہیے۔‘‘ [اسلامی بینکاری کی بنیادیں: ص ۱۲۴]
مزید لکھتے ہیں:
’’البتہ یہ بات درست ہے کہ اسلامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کو جتنا جلدی ممکن ہو اس طریقہ کار سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے۔ اس طرح کہ اول تو اس میں شرح سود کو حلال کاروبار کے لیے مثالی اور معیاری سمجھ لیا جاتا ہے جو کہ پسندیدہ بات نہیں دوسرا اس لیے کہ اس سے اسلامی معیشت کے بنیادی فلسفے کو فروغ نہیں ملتا۔ اس لیے کہ اس سے تقسیم دولت کے نظام پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔‘‘ [اسلامی بینکاری کی بنیادیں: ص:۱۲۵]
دوسری صورت: اس معاملے کی دوسری صورت یہ ہے کہ وعدہ یک طرفہ ہو یعنی گاہک اپنے وعدے کا پابند ہو لیکن بینک آزاد ہو یہ صورت بھی درست نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد ’’البیعان باالخیار‘‘ میں بیچنے والے خریدنے والے دونوں کو اختیار دیا گیا ہے ایک کو پابند اور دوسرے کو مستثنی رکھنا اس تفریق کی کوئی اصل نہیں چنانچہ ڈاکٹر رفیق یونس مصری لکھتے ہیں:
انی اری ضرورة الخیار لکلا المتواعدین اماالخیار لا حدھما فقط فھو تحکم
تعلیق المصارف الاسلامیة: ص ۳۲
’’میری رائے میں دونوں کو اختیار ضروری ہے فقط ایک کو اختیار سینہ زوری ہے۔‘‘
تیسری صورت:
اس معاملے کی تیسری صورت یہ ہے کہ کلائنٹ اور بینک دونوں پابند نہ ہوں۔ بینک کے چیز خریدنے کے بعد کلائنٹ کو بیع کرنے اور نہ کرنے دونوں کا اختیار ہو۔ اس طرح بینک بھی اپنے فیصلے میں آزاد ہو تو یہ صورت جائز ہوگی بشرطیکہ بینک نے وہ چیز کلائنٹ کے ذریعے نہ خریدی ہو اور نفع کے لیے شرح سود کو معیار بھی نہ بنایا گیا ہو کیونکہ اس طرح یہ معاملہ سودی قرض کے مشابہ بن جاتا ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر سلیمان الأشقر کے فتوی کا ذکر بھی مفید رہے گا۔
’’ نظام البیع المرابحة کما تجریه بعض البنوک الاسلامیة فی الوقت الرھن نظام غیر جائز وھو تحایل علی الربا او ھو بیع السلعة من البنک قبل امتلا کھا وکلا ھما ممنوع شرعا والسنة النبویة تمنع ھذا البیع وان المذاھب الاربعة کلھا تقول بانه محرم و خاصة مذھب المالکیه الذی ینص نصا صریحا علی منعه والذین قالوا فی مئوتمر البنک الاسلامی بدبی بجوازہ غلطوا علی الفقه الاسلامی غلطا کبیرا وانه لا مستند لھم فی ماقالوا‘‘۔
بحوث فقیھة فی قضایا اقتصادیة معاصرة: ج ۱ص ۱۱۳، ۱۱۵
’’بیع مرابحہ کا نظم جس کو دور حاضر میں بعض اسلامی بینک جاری کیے ہوئے ہیں ناجائز ہے اور یہ سود کے حاصل کرنے کا حیلہ ہے یا یہ بینک کی طر ف سے ایسی چیز کی بیع ہے جو ابھی اس کی ملکیت میں نہیں آئی اور دونوں شرعا ممنوع ہیں اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم اس بیع کی اجازت نہیں دیتی بلاشبہ مذاہب اربعہ اس کو حرام قرار دیتے ہیں خاص طور پر مالکیوں کا مذہب جس نے اس ممانعت کی واضح طور پر صراحت کی ہے اور جنہوں نے دوبئی میں اسلامی بینک کی کانفرنس میں اس کو جائز قرار دیا۔ انہوں نے فقہ اسلامی کے ذمے بہت بڑی غلطی لگائی اور ان کے پاس اپنی تائید میں کوئی دلیل نہیں ہے۔‘‘