اسلامی بینکوں میں کیا جانے والا مرابحہ ، اجارہ اور مشارکہ متناقصہ وہ معاملات ہیں جو ان بینکوں کے دیگر معاملات پر حاوی ہیں ۔سب سے زیادہ معاہدے اور ٹرانزیکشن انہی معاملات کے تحت ہوتی ہیں۔بلکہ اگر یوں بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جس طرح سودی بینکوں کا اصل کاروبار سود پر قرض دینا ہے ، اسی طرح اسلامی بینکوں کا اصل کاروبار’’مرابحہ ، اجارہ اور مشارکہ متناقصہ‘‘ ہیں۔مروجہذرائع تمویل (Financing) کی شرعی حیثیت کے تعین کے لئے اس کاشرعی مرابحہ ، اجارہ اور مشارکہ متناقصہ کی شرائط و ضوابط سے تقابل ضروری ہے۔
’’مرابحہ‘‘: مرابحہ کا اصل ماخذ ’’ربح‘‘ یعنی منافع ہے۔مرابحہ کا لغوی طور پر مطلب یہ ہوگا کہ ایسا معاملہ کرنا جس میں ربح یعنی منافع طے ہو۔
فقہاء کے نزدیک مرابحہ کی اصطلاحی تعریف:
’’کسی چیز کی خرید وفروخت اس کی اصل قیمت اور معلوم منافع کے ساتھ‘‘۔
یعنی ایک شخص کسی چیز کی فروخت کرتے وقت خریدنے والے کو چیز کی اصل قیمت اور اپنا منافع بیان کر کے فروخت کرے ۔
یہی وہ تعریف ہے جو فقہاء اسلام نے کتب فقہ مثلاً ہدایہ[1]بدائع الصنائع[2] ، المغنی[3] روضۃ الطالبین4میں بیان کی ہےاگرچہ ان کی عبارات میں کچھ فرق ہے۔
بیع مرابحہ کے جواز کی دلیل:
(1) اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ﴾
البقرۃ: 275
(2) علماء نے یہ قاعدہ ذکر کیا ہے کہ :
الأصل فی المعاملات الحل
کہ تجارتی و عوضی معاملات میں اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہیں سوائے ان معاملات کے جنہیں شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔اور چونکہ بیع مرابحہ بھی معاملات سے متعلق ہے اور قرآن و حدیث میں کوئی ایسی نص نہیں ملتی جس میں اس کی حرمت کا تذکرہ ہو لہٰذا یہ بیع حلال ہے۔
بیع مرابحہ اور عام بیع میں فرق اور مرابحہ کی ضرورت
عام بیع (خرید وفروخت کا معاملہ) میں بھی اگرچہ بیچنے والا اپنا منافع رکھ کر بیچتا ہے لیکن اس میں اور بیع مرابحہ میں فرق اس منافع کو بیان کرنے کا ہے۔بیع مرابحہ میں دوکاندار چیز کی اصل قیمت اور اپنا منافع دونوں بیان کرتا ہے۔بیع مرابحہ کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ خریدار کو ہمیشہ یہ خدشہ رہا ہے کہ بیچنے والا
جائز منافع سے زیادہ وصول نہ کرلے، اسی لئے جب بیچنے والاچیز کی صحیح قیمت اور اپنا منافع بیان کردیتا ہے تو خریدار مطمئن ہوجاتا ہے ۔اسی لئے ’’بیع مرابحہ ‘‘ کو علماء نے بیوع الامانہ کی ایک قسم قرار دیا ہے کہ یہ عام بیع کی نسبت زیادہ امانتداری کی متقاضی ہے۔
اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ
مروجہ مرابحہ ، شرعی مرابحہ سے کافی مختلف ہے۔ مروجہ مرابحہ دراصل مرابحة للآمر بالشراء کہلاتا ہے۔اس کی بنیادی صورت یوں ہوتی ہے کہ صارف بینک سے مخصوص چیز خریدنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے جسے وہ خود خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ بینک مطلوبہ سامان صارف کے کہنے پر خرید کر مرابحہ کی صورت میں اسے فروخت کردیتا ہے، اور صارف اس کی قیمت اقساط میں ادا کرتا ہے۔
مروجہ مرابحہ اور شرعی مرابحہ میں فرق
مروجہ مرابحہ اور شرعی مرابحہ میں کافی حوالوں سے فرق پایا جاتا ہے جس میں سے تین بنیادی فرق یہ ہیں:
(1) شرعی مرابحہ میں بیچنے والے کے پاس سامان پہلے سے موجود ہوتا ہے جسے وہ معلوم منافع پر فروخت کرتا ہے۔ مروجہ مرابحہ میں بینک کے پاس سامان موجود نہیں ہوتا بلکہ وہ صارف کے کہنے پر مطلوبہ سامان خرید کر اسے فروخت کرتا ہے۔
(2) شرعی مرابحہ میں ادائیگی عموماً نقد ہوتی ہے ، جبکہ مروجہ مرابحہ میں نقد ادائیگی کا کوئی تصور نہیں۔
(3) شرعی مرابحہ دراصل ایک بیع یعنی خرید وفروخت کا معاملہ ہے، جبکہ مروجہ مرابحہ اسلامی بینکوں میں طریقہ ہائے تمویل (mode of financing) کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اسلامی بینکوں کے حامی مفتی تقی عثمانی صاحب خود یہ اقرار کرتےہیں کہ :’’ بنیادی طور پر مرابحہ طریقہ تمویل نہیں بلکہ بیع کی ایک خاص قسم ہے‘‘۔ [4]
مروجہ مرابحہ کی تفصیل
مروجہ مرابحہ کی تفصیل تصویر نمبر (۱) اور اس کی وضاحت میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے:
picture
وضاحت:
(1) سب سے پہلے صارف بینک سے ایک معاہدہ کرتا ہے جسے (Master Murabaha Facility Agreement) کہا جاتا ہے۔اس معاہدہ میں :
صارف بینک سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ مطلوبہ سامان بینک سے خریدے گا۔
اس وعدہ کو مزید پختہ کرنے کیلئے بینک صارف سے ایک مخصوص رقم بطور سیکیورٹی جمع کرانے کا تقاضا کرتا ہے، تاکہ صارف کے وعدہ سے مکر جانے کی صورت میں اگر بینک وہ سامان خرید چکا ہو تو اسے واپس کرنے یا کسی اور کو بیچنے کی صورت میں ہونے والے نقصان کو اس سیکیورٹی سے پورا کرے۔
بینک صارف کو یہ یقین دلاتا ہے کہ وہ مطلوبہ سامان خرید کر مقررہ مدت میں اسے بیچے گا۔
ادائیگی کا طریقہ کاراور بینکاری کے دیگر معاملات کی تفصیلات طے کی جاتی ہیں۔
(2) پھر بینک اسی صارف سے ایک معاہدہ کرتا ہے جسے (Agency Agreement) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت بینک اسی صارف کو اپنا وکیل مقرر کرتا ہے کہ وہ بینک کی وکالت یا نیابت میں جا کر مطلوبہ سامان خرید لے۔
(3) بینک اس سامان کی قیمت ادا کرتا ہے جو کبھی تو وکیل کے ذریعہ یاکبھی براہ راست بیچنے والے تک پہنچتی ہے۔
(4) سامان صارف کو موصول ہوتا ہے اور جب تک وہ سامان صارف تک نہ پہنچے اور صارف اسے خرید نہ لے وہ بینک کی ملکیت ہوتا ہے اور سامان کی تلفی یا کسی نقصان کی صورت میں بینک اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
(5) پھر ایک الگ معاہدہ کے تحت صارف بینک سے وہ سامان خرید لیتا ہے اور اس کی ملکیت حاصل کرتا ہے۔
(6) صارف اس سامان کی قیمت اقساط میں بینک کو ادا کرتا ہے۔
اسلامی بینکوں کے (Murabaha Financing) اور سودی بینکوں کے (Interest base Financing ) میں بنیادی فرق:
اسلامی بینکوں کے ربح(منافع) اور سودی بینکوں کے ربا(سود) میں بنیادی فرق مخاطرت (Risk)کا ہے۔ سودی بینک قرض دیتے ہیں اور اس پر سود وصول کرتے ہیں اور اس میں کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوتا ۔ مرابحہ میں اسلامی بینک صارف کا مطلوبہ سامان خریدتے ہیں پھر صارف کو بیچتے ہیں اور اس دوران انہیں نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے، یہی اندیشہ اور رسک اسلامی بینکوں کے منافع کو ربا سے نکال کر ربح بناتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اسلامی بینک اس پورے عمل میں کسی قسم کے اندیشہ ، رسک ،یاضمانت کو قبول کرتے ہیں ؟
کیا مرابحہ میں اسلامی بینک حقیقی خرید و فروخت کرتے ہیں؟ کیونکہ ضمانت اور رسک حقیقی خرید و فروخت میں ہے ، کاغذی بیع میں نہیں!۔
کیا اسلامی بینک حقیقی بیع کی تمام شرعی شرائط پر عمل پیرا ہوتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ اگر سرسری نظر سے بھی اسلامی بینکوں میں جاری مرابحہ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کسی قسم کا رسک ، مخاطرت نظر نہیں آتی۔
حقیقی خرید وفروت میں بازارمیں موجود ایک تاجر کو عمومی طور پر دوبنیادی اندیشوںکا سامنا ہوتا ہے:
1. جو سامان اس کے پاس موجود ہے وہ کوئی خریدے گا بھی یا نہیں؟۔
2. سامان فروخت ہو کر خریدنے والے کے پاس اس کی منتقلی تک اس کے ضائع ہونے تلف ہوجانے اور دیگر ہر قسم کے نقصان کوتاجر نے ہی برداشت کرنا ہوتا ہے۔
اسلامی بینک کو عملی طور پر ان دونوں اندیشوں کا سامنا نہیں ہوتا۔
1. بینک کے پاس کوئی سامان نہیں جس کے نہ بکنے کا اسے کوئی اندیشہ ہو۔
2. صارف کے کہنے پر بینک کوئی بھی سامان خریدنے سے پہلے صارف سے تحریری صورت میں وعدہ لیتا ہے کہ وہ یہ سامان بینک سے لازماً خریدے گا۔
3. بینک اس وعدہ پر ہی اکتفاء نہیں کرتا بلکہ پہلے سے صارف سے ایک مخصوص رقم سیکیورٹی کی مد میں وصول کرتا ہے تاکہ صارف کے وعدہ سے مکر جانے کی صورت میں ہونے والے نقصا ن کو پورا کیا جاسکے۔
4. سامان خریدنے سے لے کر صارف تک پہنچنے تک بینک کا عملاً کوئی کردار نہیں ہوتا۔بلکہ سامان بیچنے والے کے پاس سے براہ راست صارف تک منتقل ہوتا ہے اور بینک پہلے اسے اپنے قبضہ میں لینے کی کوئی زحمت نہیں کرتا۔
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کیسے تصورکیا جاسکتا ہے کہ اسلامی بینک مرابحہ کے حوالہ سے کسی قسم کا رسک یا مخاطرت کا سامنا کرتا ہے؟ اور اگر بینک کو مرابحہ میں تمویل کے ذریعہ جو منافع حاصل ہورہا ہے اس کا دارومدار مخاطرت پر نہیں تو اس ’’ربح‘‘ کو’’ ربا‘‘ سے الگ حکم دینے کا کیا جواز ہے؟۔
مروجہ مرابحہ پر چند بنیادی شرعی اعتراضات:
( پہلا اعتراض )
(Master Murabaha Facility Agreement ) میں صارف سے لیا جانے والا وعدہ اور اس کا لازمی ایفاء: وعدہ کی پاسداری شریعت میں اخلاقی طور پر یقیناً فرض ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا﴾
الاسراء: 34
ترجمہ: ’’وعدے پورے کرو، بیشک وعدوں کی پاسداری کے متعلق پوچھا جائے گا‘‘۔اسی لئے ایک مسلمان کا یہ دینی تقاضا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرے، لیکن قانونی طور پر کسی وعدے کو جبراً پورا کرانا یا قانونی طور پر وعدے کے ایفاء کو لازم قرار دینا خصوصا ً بیوع کے معاملات میں بہت سے شبہات کو جنم دیتا ہے۔اسلامی بینکنگ کے کتنے ہی مسائل ایسے ہیں جس میں صارف سے وعدہ لیا جاتا ہے اور اسے قانوناً لازم قرار دیا جاتا ہے اور اس حیلہ کے ذریعہ بینک اپنے حصہ کا سارا رسک صارف کے کھاتے میں ڈال کر بے نیاز ہوجاتا ہے۔
مروجہ مرابحہ میں بھی اسی حیلہ کا استعمال کیا گیا ہے ، صارف سے وعدہ لیا جاتا ہے کہ جب بینک اس کا مطلوبہ سامان حاصل کرلے گا تو صارف اسے ضرور خریدے گا، یا یہ وعدہ لیا جاتا ہے کہ اگر صارف نے اس سامان کو نہ خریدا تو بینک کو ہونے والا نقصان صارف برداشت کرے گا، اور اس حیلہ کے استعمال سے مرابحہ میں جو شرعی مخالفات سامنے آتی ہیں ان سے قطعی طور پر صرف نظر کیا جاتا ہے۔ان شرعی مخالفات میں سب سے بدتر مخالفت مروجہ مرابحہ کا سودی تمویل سے مشابہ ہوجانا ہے۔ان مخالفات کا ذکر آئندہ سطور میں ہوگاان شاء اللہ۔
مروجہ مرابحہ میں صارف سے لئے جانے والے یکطرفہ وعدہ اور اس کے لازمی ایفاء کے حوالہ سے اسلامی بینکوں کےذمہ داران دو بنیادی دلائل پیش کرتے ہیں:
(پہلی دلیل) :
مذہب مالکیہ میں ایفاءوعدہ کو لازم قرار دیا گیا ہے ، لہٰذا اسی کو دلیل بناتے ہوئے مرابحہ میں صارف پر ایفاءوعدہ کو لازم قرار دیا گیا ہے۔[5]
اس دلیل کے جواب میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا:
(1) پاکستان میں بالخصوص اسلامی بینکاری کی بنیاد مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب اور ان کے رفقاء نے رکھی ہے ، اورمفتی صاحب اور ان کے رفقاء نے اسلامی بینکاری کی بنیادوں کو عموماً فقہ حنفی پر استوار کیا ہے کیونکہ مفتی صاحب کا تعلق مسلک حنفی سے ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ جب تمام بنیادیں اور اصول فقہ حنفی سے مستمد و مستفاد ہیں تو اس معاملہ میں فقہ حنفی سے درخور اعتناء کا کیا مطلب؟ کیا یہ
خروج عن المذھب
نہیں ؟ ۔ خود مفتی تقی عثمانی صاحب اسلامی بینکاری کے متعلق غلط فہمیوں کے ازالہ میں فرماتے ہیں :
خروج عن المذھب
اس کو کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں کوئی مسئلہ مصرح ہو کہ یہ چیز ناجائز ہے اور ہم اس کو چھوڑ کر مالکی یا شافعی مذہب سے مسئلہ لے لیں جب کہ وہاں اس کو جائز کہا گیا ہو ۔
خروج عن المذھب
ہے‘‘۔[6]
عرض یہ ہےکہ فقہ حنفی میں بھی وعدہ کے ایفا ء کو مستحب تو کہا گیا ہے لیکن قانونی طور پر اس ایفاءِوعدہ کو لازم قرار نہیں دیا گیا۔ جیسا کہ ابن عابدین نے
العقود الدرية
میں ذکر کیا ہے2۔سوال یہ ہے کہ جب فقہ حنفی میں یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ موجود ہے توپھر فقہ مالکی کی طرف جانے کی کیا ضرورت پیش آئی؟۔کیا یہ
خروج عن المذھب
نہیں؟۔
بہرحال یہ ایک الزامی توجیہ ہے ، ہمارا تعلق الحمد للہ اہلحدیث مسلک سے ہے جس میں مذہب قرآن و حدیث ہے اور اس میں
خروج عن المذھب
کا کوئی تصور نہیں۔
(2) فقہ مالکیہ کی طرف جس بات کی نسبت کی گئی ہے ، میں بہت احترام سے ذکر کرنا چاہوں گا کہ یہ نسبت غلط ہے۔ مالکیہ نے ایفاءوعدہ کو اخلاقاً اور قانوناً دونوں لحاظ سے واجب قرار تو دیا ہے لیکن وہ صرف تبرعات میں ہے ، یعنی جب ایک شخص کسی سے بھلائی کا ارادہ کرے، اس سے وعدہ بھی کرلے ، تو دینی لحاظ سے بھی اور قانونی لحاظ سے بھی اس پر یہ واجب ہے کہ اس وعدہ کو پورا کرے، اور اس کے لئے بھی انہوں نے ایک شرط رکھی ہے کہ جب اس وعدہ کی وجہ سے جس سے وعدہ کیا گیا ہو وہ کسی معاملہ میں یا کام میں داخل ہوجائے تو وعدہ کرنے والے پر ایفاء دینی اور قانونی طور پر واجب ہے۔
امام سحنون مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ جس وعدہ کا ایفاء لازم ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کہے کہ تم اپنا مکان گرادو میں تمہیں قرض دوں گا تا کہ تم نیا مکان بنا سکو، یا تم حج کے لئے نکلو میں تمہیں زاد راہ فراہم کروں گا، یا تم فلاں سامان خرید لو میں تمہیں ادھار پیسے دوں گا، یا تم شادی کرلو میں تمہیں قرضہ فراہم کروں گا تو ایسے وعدہ کو پورا کرنا لازم ہے، کیونکہ وہ شخص اس وعدہ کی بناء پر اس کام میں داخل ہوا ہے ، جہاں تک محض وعدہ کا تعلق ہے تو اسے پورا کرنا مکارم اخلاق سے تعلق رکھتا ہے لیکن واجب نہیں ہے‘‘۔[7]
جہاں تک عقود معاوضات (یعنی تجارتی معاملات) کا تعلق ہے تو اس میں فقہاء مالکیہ نے وعدہ ایفاء کو واجب قرار نہیں دیا ، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس معاملہ میں وعدہ کو شامل کرکے اس کے ایفاء کو مالکیہ کی طرف نسبت کر کے لازم قرار دیا جارہاہے ، مالکیہ نے تو اس معاملہ کو ہی سرے سے ناجائز قرار دیا ہے اگرچہ وہ بغیر وعدہ کے ہی کیوں نہ ہو!!۔
اما م ابن جزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ بیع عینہ کی تین اقسام ہیں : پہلی قسم : یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ تم فلاں سامان میرے لئے دس درہم میں خرید لو میں تمہیں کچھ عرصہ بعد پندرہ درہم دوں گا۔ یہ سود ہے اور حرام ہے‘‘۔[8]
امام ابن رشد مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ تم میرے لئے فلاں سامان دس درہم نقد میں خرید لو میں تم سے بارہ درہم ادھار میں خرید لوں گا، تو یہ معاملہ حرام ہے‘‘[9]۔ یہی بات دیگر فقہاء مالکیہ نے بھی کہی ہے جن میں الباجی[10]، ابن عبدالبر[11] اور قاضی عیاض رحمہم اللہ [12]جیسے جلیل القدر فقہاء شامل ہیں۔ اور جس حرام معاملہ کی ان علماء نے نشاندہی کی ہے وہ بعینہ مروجہ مرابحہ کی صورت ہے۔تو ایک ایسے معاملہ میں وعدہ کے لازمی ایفاء کی نسبت ان علماء کی طرف کیسے کی جاسکتی ہے جس معاملہ کو انہی علماء نے صریح حرام قرار دیا ہو؟
عقود معاوضات میں
الوعد الملزم
(لازمی ایفاء کا وعدہ ) کی مالکیہ کی طرف نسبت کو بہت سے علماء نے غلط قرار دیا ہے ، ان میں سے اسلامی بینکاری کے ماہر علماء میں ڈاکٹر سلیمان الاشقر[13]، ڈاکٹر رفیق
یونس المصری[14]، محترم ربیع محمود الروبی[15]، علامہ عبداللہ بن بیہ[16]، ڈاکٹر علی احمد سالوس[17]، فضیلۃ الشیخ بکر ابو زید[18] جیسے جلیل القدر علماء بھی شامل ہیں۔
(دوسری دلیل ) :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’لا ضرر ولاضرار‘‘۔ کہ ’’ نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ خود نقصان اٹھاؤ‘‘۔ اس حدیث کی روشنی میں صارف سے لیا جانے والاوعدہ بالکل جائز ہے، کیونکہ اگر بینک صارف کے کہنے کے مطابق سامان خرید لے پھر صارف سامان لینے سے انکاری ہوجائے اور بینک کو کوئی اور ایسا صارف نہ ملے جو بینک سے یہ سامان خرید ے تو بینک کو بہت نقصان ہوگا، اسی لئے بینک صارف سے وعدہ لیتا ہے ، کیونکہ بینک نے یہ سامان صارف کے کہنے پر خریدا تھا ، اپنے لئے تو نہیں خریدا !، لہٰذا صارف کے انکاری ہوجانے پر بینک کو ہونے والے نقصان کا ذمہ دار صارف ہے اور اسے یہ نقصان برداشت کرنا چاہئے۔
اس دلیل کا جواب چند نکات کی صورت میں دینا چاہوں گا:
اگر بینک نے یہ سامان صارف کے لئے خریدا ہے تو بینک تو صارف کا وکیل ہوا ، اور اس صورت میں بینک کا سامان کی قیمت ادا کر کے صارف سے اس سے زیادہ وصول کرنا قرض دے کر سود طلب کرنے کے مترادف ہے اور قطعی حرام ہے۔
اگر بینک نے یہ سامان اپنے لئے خریدا ہے تو صارف اس کے نقصان کاذمہ دار نہیں ہے ، کیونکہ اگر صارف وہ سامان خریدنے سے انکار کردیتا ہے اور بینک وہ سامان کسی اور کو بیچے اور اس میں بینک کو منافع ہو تو کیا وہ منافع بینک اپنے پاس رکھے گا یا صارف کو دے گا؟۔اگر نقصان صارف نے برداشت کرنا ہے تو اصولی طور پر منافع بھی صارف ہی کو ملنا چاہئے، اس منافع کا تذکرہ بینک کیوں نہیں کرتا؟۔
اگر بینک اس پورے معاملہ میں رسک نہیں اٹھاتا تو پھر منافع کا حقدار کیسے ہوسکتاہے؟۔ فضیلۃ الشیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ بیع مرابحہ کے جواز کی صورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ یہ جواز اس لئے ہے کہ اس صورت میں ایفاءوعدہ کا التزام نہیں ہے ، نہ ہی نقصان کا عوض ادا کرنے کی شرط ہے ، تو اگر سامان تلف ہوجائے تو صارف پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی ، بینک یہ سامان خریدتے وقت رسک لیتا ہے، اسے مکمل یقین نہیں ہوتا کہ صارف اس سے یہ سامان خریدے گا یا نہیں ؟ اور یہی مخاطرت (رسک اٹھانا) اس معاملہ کو جواز کی شکل دیتا ہے ‘‘۔ یعنی اگر بینک اس معاملہ میں کسی قسم کا رسک اٹھانے پر رضامند نہیں تو مرابحہ کی صورت میں حاصل ہونے والا منافع بھی اس کے لئے جائز نہیں ۔ کیونکہ عدم مخاطرت کی صورت میں یہ معاملہ قرض پر سود لینے کے مشابہ ہوجائے گا۔
لا ضرر و لاضرار
والا قاعدہ بینک صرف اپنے لئے ہی کیوں استعمال کرتا ہے ، کیا یہ قاعدہ صارف پر منطبق نہیں ہوتا، جو بیچا رہ سامان نہ لینے کے باوجود بھی ایک بھاری رقم ادا کرنے کا پابند ہے!، کیا یہ اس کے لئے نقصان اور ضرر نہیں؟۔
وعدہ کا لازمی ایفاء : ایک جادو کی چھڑی!
اسلامی بینکاری نظام میں ’’وعدہ کا لازمی ایفا ء ‘‘ ایک جادو کی چھڑی ثابت ہوئی ہے ، جہاں کوئی شرعی قباحت آئی وہاں اس جادو کی چھڑی کو استعمال کر کے اس حرام کو حلال بنا لیا گیا ہے، مثلاً:
مشارکہ متناقصہ میں مشارکہ کے معاہدہ میں ہی صارف سے وعدہ لے لیا جاتا ہے کہ وہ اس مشارکہ کے ذریعہ جو چیز خریدی گئی ہے اس میں بینک کے جو حصص (شیئرز) ہیں انہیں خریدے گا۔ اب اگر ظاہری طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک معاہدہ میں دو معاہدے ہیں: (1) مشارکہ کا معاہدہ ۔ (2) مشارکہ کے تناقص (بتدریج ختم کرنے ) کا معاہدہ ، جسے (Diminishing Musharakah) کہا جاتا ہے۔ اور اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے :
نهى رسول اللّٰه ﷺعن صفقتين في صفقة واحدة
مسند احمد بن حنبل: مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حسن
کہ’’ نبی ﷺنے ایک معاہدہ میں دو معاہدے کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔ اب یہاں معاہدے کو لازمی وعدہ کا نام دے کر جائز کرلیا گیا ہے ، اور راقم یہ سمجھنے سے قاصر ہےکہ معاہدہ میں اور وعدہ کے لازمی ایفاء میں سوائے نام کے اور کیا فرق ہے؟ کیا لازمی ایفاء ، معاہدہ کی خصوصیت نہیں کہ جسے وعدہ کے ساتھ منطبق کردیا گیا ہے؟۔
اسلامی بینکوں میں لیزنگ جسے اجارہ
المنتہیہ بالتملیک
کہا جاتا ہے میں صارف سے یہ وعدہ کیا جاتا ہے کہ اگر صارف نے ایک مخصوص عرصہ تک کرایہ ادا کیا تو بینک اسے وہ چیز جس کا وہ کرایہ ادا کررہا تھا بالکل معمولی قیمت میں بیچ دے گا یا ہدیہ کردے گا۔ کسی چیز کو بیچنا یا عوض کے بدلہ ہدیہ کرنا دونوں ایک معاہدہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور دونوں میں سے ایک معاہدہ کا ذکر اجارہ کے معاہدہ میں ضرور ہوتا ہے ، یعنی پھر ایک معاہدہ میں دو معاہدے (1) اجارہ کا معاہدہ۔ (2) ہدیہ یا بیچنے کا معاہدہ۔ اور اس معاملہ کو بھی لازمی وعدہ کہہ کر حلال کر لیا جاتا ہے۔
مضاربہ میں سرمایہ کی ضمانت لینا سود ہے ، اسلامی بینک اول تو کسی سے مضاربہ کرتے نہیں ہیں اگر کسی کو مضاربہ پر سرمایہ فراہم کرتے ہیں تو اس سے یہ وعدہ لیتے ہیں کہ وہ ان کا سرمایہ انہیں ضرور لوٹائے گا، اور اس سود کو بھی لازمی وعدہ کا نام دے کر جائز کرلیا جاتا ہے۔
مرابحہ میں بھی صارف سے لئے جانے والا وعدہ جو کہ دراصل معاہدہ ہے اس سے بہت سی شرعی قباحتیں جنم لیتی ہیں :
(1) ملکیت میں آنے سے پہلے چیز کی فروخت
جب صارف سے یہ وعدہ لیا جاتا ہے کہ وہ بینک سے مطلوبہ سامان ضرورخریدے گا تو یہ وعدہ بذات خود ایک معاہدہ کی حیثیت اختیارکر جاتا ہے کیونکہ معاہدہ میں بھی وہی خصوصیات ہوتی ہیں جو اس وعدہ میں پائی جارہی ہیں ، یعنی سامان کی تعیین ، قیمت کا تعین ، ادائیگی کا طریقہ کار، ایجاب و قبول ،یہ سب کچھ اس وعدہ میں شامل ہوتا ہے ، اور پھر بعد میں جو الگ سے مرابحہ کا ایگریمنٹ کیا جاتا ہے وہ صرف دکھلاوا ہوتا ہے، کیونکہ صارف تو اس وعدہ کے ذریعہ سامان خریدنے کا پابند ہوچکا ہوتا ہے۔ تو اس میں سب سے پہلی قباحت یہ آتی ہے کہ بینک جب صارف سے یہ وعدہ لے رہا ہوتا ہے اس وقت مطلوبہ سامان بینک کے پاس موجود نہیں ہوتا تو گویا کہ بینک صارف کو وہ چیز بیچ رہا ہے جس کا وہ مالک نہیں اور اس سے نبی ﷺنے منع فرمایا ہے ۔حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے نبی ﷺسے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ،
اگر ایک شخص میرے پاس آکر مجھ سے ایسی چیز مانگتا ہے جو اس وقت میرے پاس نہیں ہوتی تو کیا میں بازار سے خرید کر پھر اس کو بیچ دوں ؟ تو نبی ﷺنے فرمایا : ’’نہیں ، جو چیز تمہارے پاس نہیں تم اس کا معاہدہ نہ کرو‘‘۔[19]اس حدیث میں بالکل واضح ہے کہ اگر کسی شخص سے کوئی سامان طلب کیا جائے جو اس کے پاس موجود نہیں تو وہ طالب سے اس سامان کے متعلق کوئی وعدہ یا معاہدہ ہرگز نہ کرے جب تک کہ وہ سامان اس کی ملکیت میں نہ آجائے۔جبکہ بینک سامان کی ملکیت حاصل کرنا تو درکنار ابھی اسے اس کی مکمل معلومات بھی نہیں ہوتیں کہ وہ پہلے ہی صارف سے تمام وعدے لے چکا ہوتا ہے ، اور اس شرعی قباحت کو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ یہ تو صرف ایک وعدہ ہے کوئی معاہدہ تو نہیں !۔
(2) خيار البيع کی نفی
نبی ﷺکا فرمان ہے :
البيعان بالخيار مالم يتفرقا ، وکانا جميعا
صحیح بخاری : کتاب البیوع، باب اذا بین البیعان ولم یکتما و نصحا
کہ تاجر اور صارف دونوں کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ دونوں بیع کی جگہ پر اکٹھے ہوں ۔ یعنی جب جدا ہوجائیں تو یہ اختیار ختم ہوجاتا ہے ۔ اس اختیار کو علماء خیار البیع کہتے ہیں ، یہ اختیار تاجر اور خریدار دونوں کے لئے ہے اور شریعت کا عطا کردہ ہے اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا ، اور تمام علماء کا اس پر اتفاق و اجماع ہے۔ لیکن مروجہ مرابحہ میں صارف سے وعدہ لے کر اس اختیار کو چھین لیا جاتا ہےاور شریعت کے حکم کی صریحاً نافرمانی کی جاتی ہے۔
(4) سودی معاملہ سے مشابہت
جیسا کہ بحث کے آغاز میں یہ ذکر ہوا کہ سودی بینکوں اور اسلامی بینکوں کے معاملات میں بنیادی فرق مخاطرت (رسک ) کا ہے۔ سودی بینک کے کسی معاملہ میں مخاطرت نہیں ہے اس لئے ان کا منافع ربا (سود) کہلاتا ہے۔ اسلامی بینکوں کا منافع اس وقت تک جائز ہوگا جب تک ان کے معاملات میں مخاطرت کا عنصرموجود رہے گا۔ لیکن مرابحہ میں جو تھوڑا بہت مخاطرت کا عنصر موجود تھا اسے بھی صارف سے لئے گئے وعدہ کے ذریعہ ختم کردیا گیا ۔
روجہ مرابحہ میں الوعد الملزم ( لزوم وعدہ ) کے معاشرہ پر اثرات
مروجہ مرابحہ میں صارف سے لئے گئے لازمی وعدہ کے معاشرہ پر بھی بہت گہرےمنفی اثرات مرتب ہوتےہیں ۔ جب بینک کو یہ اطمئنان ہوتا ہے کہ صارف نے اس سے یہ سامان لازمی خریدنا ہے تو اسے نہ اس بات سے کوئی غرض ہوتی ہے کہ یہ سامان ضرورت کا ہے یا تعیش کا؟ یہ چیز معاشرہ میں زیادہ پھیل رہی ہے اور مقبول ہے یا کوئی اور چیز ؟ اور نہ ہی اسے اس بات سے کوئی غرض ہوتی ہے کہ یہ سامان مناسب قیمت میں کہاں سے ملے گا؟ ، اسے صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ یہ سامان مل جائے، چاہے جتنی قیمت پر ملے اور یہ سامان صارف کے سپرد کر کے اس سے زائد رقم وصول کی جائے ۔اسلامی بینکوں میں جو (Assets Financing) ہے اس میں عموماً ایسی چیزیں طلب کی جاتی ہیں جو معاشرہ میں زیادہ رائج نہیں ہوتیں ۔ اسلامی بینک کے اس رویہ کی وجہ سے معاشرہ میں حقیقی تجارتی ماحول پیدا نہیں ہوسکتا ، تاجروں کے درمیان چیز بیچنے میں مقابلہ بازی کا جو رجحان ہوتا ہے اور اس رجحان کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے یہ رجحان بھی مروجہ مرابحہ کی وجہ سے ختم ہوسکتا ہے ، اور بینک کا صرف اپنے منافع کو سامنے رکھنے کی وجہ سے ایسی چیزوں کی خریداری کرنا جو معاشرہ میں رائج نہ ہوں اس سے معاشرہ کی حقیقی تجاری سرگرمیوں کے متاثر ہوجانے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔
مرابحہ میں الوعد الملزم ( لازمی وعدہ ) کا شرعی متبادل
صارف کا مطلوبہ سامان کی خریداری سے انکاری ہونے کے سبب اسلامی بینک کو ہونے والے نقصان سے بچنے کے لئے دیگر شرعی متبادل موجود ہیں جنہیں اختیار کر کے بینک ممکنہ نقصان سے تحفظ بھی حاصل کرسکتا ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت بھی موجود نہیں ۔ان متبادل میں سے چند اہم یہ ہیں:
اسلامی بینک سامان خریدتے وقت تین دن کے خیار الشر ط کا مطالبہ کرے ۔ خیار الشرط سے مراد یہ ہے کہ خریدار یہ شرط لگائے کہ مجھے تین دن کا اختیار دیا جائے اگر میں سامان لوٹانا چاہوں تو ان تین دنوں میں لوٹا سکتا ہوں ، اگر بیچنے والا اس پر رضامند ہوجائے تو یہ اختیار خریدار کو مل جاتا ہے اور بیچنے والا پابند ہوتا ہے کہ تین دن میں سامان واپس ہونے کی صورت میں اس کی قیمت لوٹا دے۔یہ اختیار شریعت کی طرف سے بیچنے والے اور خریدار دونوں کو حاصل ہے ، نبی ﷺکا فرمان ہے :
أو يخير أحدهما الآخر فتبايعا علی ذلك فقد وجب البيع
صحیح بخاری: کتاب البیوع، باب اذا خیر احدھما صاحبہ بعد البیع فقد وجب البیع
کہ تاجر یا خریدار میں سے کوئی ایک دوسرے کو اختیار دیدے، اور وہ دونوں اس پر معاہدہ کرلیں تو بیع ہوجائے گی‘‘۔ یعنی وہ اختیار بھی حاصل ہوجائے گا اور بیع بھی مکمل ہوجائے گی۔ بیع مرابحہ میں اس سہولت کی جانب سب سے پہلے امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ اللہ نے
کتاب الحيل
کتاب الحيل : ص 79 ، 127 3اعلام الموقعين :4/ 23
میں اور پھر علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے
إعلام الموقعين‘‘3
میں ذکر کیا ہے۔ جب اسلامی بینک کے پاس تین دن کا اختیار ہوگا تو وہ صارف سے یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ سامان دیکھ لیں اگر صارف کو منظور ہو ا تو بیع کر لے گا اور صارف کے انکار کرنے پر بینک یہ سامان خیار الشرط کی بناء پر واپس لوٹا سکتا ہے ، اور اس کا کوئی نقصان بھی نہ ہوگا۔
اسلامی بینک بیع مرابحہ میں ہر ایک سے معاہدہ نہ کرے ، بلکہ صرف انہی سے معاہدہ کرے جن کے حوالہ سے اسے مکمل اطمئنان ہو کہ اپنے وعدے سے نہیں پھریں گے۔
نقصان سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسلامی بینک صارف کی ہر مطلوبہ چیز نہ خریدے ، بلکہ صرف انہی چیزوں کے متعلق بیع مرابحہ کرے جو معاشرہ میں رائج ہو ں تاکہ صارف کے انکار کی صورت میں یہ چیز بازار میں بیچ سکے اور اسے نقصان نہ ہو۔
( دوسرا اعتراض )
اسلامی بینک کا مطلوبہ سامان کی خریداری میں صارف ہی کو وکیل مقرر کردینا۔
مروجہ مرابحہ میں مطلوبہ سامان کی خریداری کے لئے بینک اسی صارف کو اپنا وکیل بنادیتا ہے کہ وہ بینک کی طرف سے جاکر مطلوبہ سامان خرید لے اور پھر بینک وہ سامان صارف کو زائد نفع پر بیچ دیتاہے۔ جیسا
کہ اسٹیٹ بینک مرابحہ کے بارے میں اصول بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :
“Agency Agreement” means the Agency Agreement between the Institution and the Client as provided in the Murabaha Document # 2″. [20]
’’ایجنسی ایگریمنٹ سے مراد وہ وکالتی معاہدہ ہے جو ادارہ (بینک) اور صارف کے درمیان ہوتا ہے ، جیسا کہ مرابحہ کی دستاویز نمبر 2 میں تحریر ہے‘‘۔
اس کے جواز کے لئے یہ کہاجاتا ہے کہ جو سامان صارف کو درکار ہے اس کے بارے میں بینک یا کسی اور سے زیادہ معلومات صارف کو ہی ہوتی ہیں اور وہی بہتر چیز کی خریداری کرسکتا ہے ، بینک کو اس معاملہ میں چونکہ کوئی تجربہ نہیں ہوتا اس لئے وہ صارف ہی کو وکیل بنا دیتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر بینک کو اس معاملہ کا تجربہ نہیں ہے تو اسے یہ معاملہ کرناہی نہیں چاہئے ، اور اگر صارف کو زیادہ معلومات ہیں تو اس کی معلومات سے استفادہ کا یہ طریقہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے یہ پوچھ لیا جائے کہ یہ سامان کہاں سے مل سکے گا، یا کہاں سے لینا زیادہ بہتر ہے،اسے وکیل بنادینا ہی تو واحد حل نہیں۔
صارف ہی کو سامان کی خریدار میں وکیل بنادینے سے مرابحہ کا معاملہ مزید مشتبہ ہوجاتا ہے:
صارف ہی کو وکیل بنادینے سے بینک کا عملی طور پر مرابحہ میں کوئی کردار باقی نہیں رہتا اس کی کوئی محنت نہیں ہوتی تو مرابحہ کے منافع کو جائز کہنے کا پھر کیا جواز رہ جاتا ہے؟۔
بعض بینک صارف کو وکیل بنا دینے کے بعد مطلوبہ سامان کی قیمت کے برابر رقم صارف کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیتے ہیں ، اور پھر صارف کی طرف سے ملنے والی سامان کی رسید پر مرابحہ کا معاہدہ کرلیتے ہیں۔یہ معاملہ تو بالکل ایسا ہے کہ کوئی شخص کسی کو کوئی چیز خریدنے کے لئے قرض فراہم کرے اور پھر اس قرض پر سود وصول کرے۔
صارف کو وکیل بنادینے کا کچھ افراد ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ، اور جھوٹی رسید بناکر بینک سے رقم لیتے ہیں اور پھر اسے کسی اور مدمیں استعمال کر کے زائد رقم قسطوں میں بینک کو لوٹاتے رہتے ہیں اور یہمعاملہ صریحاً سود اور حرام ہوجاتا ہے۔
اسی لئے خود مفتی تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں : ’’ کلائنٹ کو وکیل بنادینا تاکہ وہ تمویل کار کی طرف سے اس چیز کو خرید لے ، مرابحہ کو مشتبہ بنادیتا ہے‘‘[21]اسی طرح اسلامی بینکوں کے لئے شرعی معیار مقرر کرنے والی کتاب
المعاییر الشرعیہ
میں ہے کہ :
الأصل أن تشتري المؤسسة السلعة بنفسها مباشرة من البائع ويجوز لها تنفيذ ذلك عن طريق وكيل غير الآ مر بالشراءو ولا يلجأ لتوكيل العميل (الآمر بالشراء) إلا عند الحاجة الملحة
المعايير الشرعية ، المرابحة ، رقم المعيار 3/1/3،ص 95
اصل یہ ہے کہ بینک خود براہ راست بیچنے والے سے سامان خریدے ، اور اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ کسی وکیل کے ذریعہ خریداری کرے لیکن یہ وکیل صارف نہ ہو، اور صارف کو کسی انتہائی ضرورت کے بنا وکیل نہ بنایا جائے‘‘۔
اس کے باوجود بھی تقریباً تمام اسلامی بینک بنا کسی خاص ضرورت کے صارف ہی کو وکیل مقرر کرتے ہیں۔
( تیسرا اعتراض )
مروجہ مرابحہ میں نفع کے لئے شرح سود کے بینچ مارک (KIBOR) یا ( LIBOR) کو معیار مقرر کرنا۔
اسلامی بینک مروجہ مرابحہ میں نفع کے تعین کے لئے شرح سود کو معیار مقرر کرتا ہے۔ (KIBOR) سے مراد ہے Karachi Interbank Offered Rate جو کہ دراصل قرض پر سود وصول کرنے کے لئے ایک تناسب یا شرح ہے جوپاکستان کے تمام سودی بینکوں کے سود کی شرح کو دیکھ کر یومیہ ، یا ہفتہ وار یا ماہانہ طے کیا جاتا ہے۔اسی طرح بین الاقوامی سطح پر (LIBOR) ایک شرح سود ہے جو کہ London Interbank Offered Rate کا مخفف ہے، اور یہ دنیا کے تقریباً دس بڑے بینکوں کے شرح سود کو سامنے رکھ کر لندن میں بینکرز کی ایک فرم طے کرتی ہے اور دنیا کےتمام بینک اس شرح کو مستقبل کے سودوں کے لئے معیار بناتےہیں۔
اسلامی بینک کا شرح سود کو معیار بنانا نہ صرف یہ کہ مروجہ مرابحہ کو مشتبہ کردیتا ہے بلکہ پورے اسلامی بینکاری نظام کو مشکوک کردیتا ہے ۔ ایک عام شخص کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ آخر اسلامی بینک کا شرح سود سے کیا تعلق ہے؟۔
شرح سود کو معیار بنانے کے حوالہ سے اسلامی بینک کے سرکردہ افراد کا یہ کہنا ہے کہ یہ اسلامی بینک کی مجبوری ہے کیونکہ اسے مارکیٹ میں رہنا ہے اور چونکہ دیگر بینکوں سے بھی اس کے معاملات ہوتے ہیں اس لئے اپنے معاملات کو منضبط کرنے کے لئے اسے یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑتا ہے۔
اس دلیل کو دیکھتے ہوئے تو ہمارے ذہن میں ایک اور انتہائی کربناک سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اسلامی بینک جس کے قیام کا بنیادی مقصد سود کو بینکاری نظام سے مٹانا تھا وہ خود سودی بینکوں سے سودی لین دین میں اس حد تک ملوث ہوچکا ہے کہ اسے مجبوراً شرح سود کو اپنے شرعی معاملات میں بھی معیار مقرر کرنا پڑ رہا ہے؟۔اگر اسلامی بینکوں کے معاملات کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو
بادی النظر
اسلامی بینکوں میں ملنے والا منافع سودی بینکوں سے ملنے والے منافع سے بالکل قریب ہوتا ہے، اور جس طرح سودی بینکوں میں شرح منافع بڑھتا ہے اسلامی بینک بھی اپنامنافع بڑھاتے ہیں ۔
اس کی وضاحت درج ذیل چارٹ میں ملاحظہ کیجئے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مختلف بینکوں کا ماہ ستمبر 2012 میں (Saving Account) پر منافع کا کیا تناسب تھا۔ ان بینکوں میں اسلامی اور سودی دونوں بینکوں کا شرح منافع بیان کیا گیا ہے، جو کہ ان بینکوں کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔
Picture
اس چارٹ میں چھ بینکوں کا شرح منافع درج ہے ، ان میں سے تین اسلامی بینک ہیں اور تین سودی بینک ہیں اور تمام بینکوں کا ایک مہینہ کا شرح منافع بالکل یکساں ہے۔
*اسلامی بینکوں سے ہونے والے مرابحہ، اجارہ میں لئے جانے والے منافع یا کرایہ کی شرح بھی سودی بینکوں سے دئیے جانے والے قرضہ پر سود کی شرح کے بالکل قریب یا کبھی کبھی زیادہ ہوتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی زیادتی کا اسلامی بینک کے مارک اپ اور ڈیپازٹرز کو ادا کئے جانے والے منافع پربہت نمایاں اثر ہوتا ہے۔
ان تمام باتوں سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ اسلامی بینک کا شرح سود کو معیار مقرر کرنا خالی از معنی نہیں ہے ، بلکہ یقیناً اسلامی بینکوں کے معاملات میں ایسی خامیاں موجود ہیں جن کی بناء پر انہیں اپنے منافع کو شرح سود سے مربوط کرنا پڑتا ہےاور یہی چیز ان بینکوں کو اسلامی قرار دینے میں اصل رکاوٹ ہے۔
(ایک اور دلیل)
مفتی تقی عثمانی صاحب ، مرابحہ میں منافع کو شرح سود سے مربوط کرنے کے جواز کی دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ : اس کی مثال یوں ہے کہ دو بھائی کاروبار کرتے ہیں ، ایک بھائی شراب بیچتا ہے اور اس میں وہ منافع کی شرح پانچ فیصد رکھتا ہے ، دوسرا بھائی شراب نہیں بیچتا بلکہ کوئی حلال مشروب بیچتا ہے لیکن اس میں وہ اپنے بھائی کی شرح منافع کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا منافع بھی پانچ فیصد ہی رکھتا ہے ، تو ہم دوسرے بھائی کے کاروبار کو حرام تو نہیں کہیں گے ، کیوں کہ وہ تو بالکل جائز چیز بیچ رہا ہے بس شرح منافع میں وہ اپنے بھائی کے شرح منافع کو معیار مقرر کرتا ہے، اسی طرح اسلامی بینک کا مرابحہ کا معاملہ بالکل حلال ہے اور شریعت کے مطابق ہے ، وہ صرف شرح منافع میں سودی بینکوں کے شرح منافع کو معیار مقرر کرتا ہے سودی کام تو نہیں کرتا لہٰذا ایسا کرنے سے اسلامی بینک کا معاملہ حرام نہیں ہوتا‘‘[22]
اس دلیل کے جواب میں دو باتیں عرض کروں گا:
(1) اگرچہ یہ ایک عقلی دلیل ہے اور اس کا نصوص سے کوئی تعلق نہیں اس کے باوجود بھی یہ دلیلبرمحل نہیں ہے ،
کیونکہ مفتی صاحب نے جو مثال دی ہے اس میں دوسرے بھائی نے پہلے بھائی کی اس چیز کو اپنایا ہے جو حرام نہیں تھی یعنی شرح منافع ، پہلے بھائی کے کاروبار میں اصل جو چیز حرام تھی وہ شرح منافع نہیں تھا بلکہ وہ چیز تھی جو بیچی جارہی تھی یعنی شراب۔ اگر دوسرا بھائی اس شراب کو اپناتے ہوئے کوئی ایسی چیز بیچتا جو شراب کے مثل ہوتی یعنی کوئی نشہ آور چیز بیچتا تو وہ حرام کے زمرے میں داخل ہوجاتا۔ جبکہ اسلامی بینک اس چیز کو اپنارہے ہیں جو اصلاً حرام ہے یعنی شرح سود! دونوں مثالوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، لہٰذا اس مثال کو یہاں منطبق نہیں کیا جاسکتا۔
(2) دوسری بات یہ ہے کہ مرابحہ کے منافع کو (KIBOR) سے منسلک کردینے کی صورت میں مرابحہ کے جواز کیلئے علماء کی بیان کردہ ایک انتہائی اہم شرط میں خلل واقع ہوجا تا ہے۔ وہ شرط یہ ہے کہ مرابحہ میں بیچنے والا اپنا منافع صاف اور متعین کر کے بتائے ۔ جبکہ (KIBOR) اور (LIBOR) منضبط شرح سود نہیں ہیں بلکہ ان میں یومیہ، ہفتہ وار، یا ماہانہ بنیادوں پر تغیر واقع ہوتا رہتا ہے اور اس کے کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں منافع میں کمی یا زیادتی واقع ہوتی رہے گی جو کہ ناجائز ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکوں کے لئے قوانین مرتب کرنے والی کتاب
المعايير الشرعية
‘‘ میں درج ہے کہ :’’ مرابحہ میں واجب ہے کہ سامان کی قیمت اور منافع معین ہو اور معاہدہ کرتے وقت طرفین کے علم میں ہو۔ اور کسی بھی حال میں یہ جائز نہیں کہ سامان کی قیمت یا منافع کو کسی نامعلوم تناسب پر چھوڑ دیا جائے یا کسی ایسے تناسب پر جو مستقبل میں قیمت یا منافع تعیین کرے۔ جیسا کہ یہ جائز نہیں کہ بیع مرابحہ کرتے وقت منافع کو (LIBOR) کے تناسب پر چھوڑ دیا جائے‘‘۔[23]
( چوتھا اعتراض )
اقساط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ ۔اس جرمانہ کو صدقہ کا نام دیا جاتا ہے ۔
المعاییر الشرعیہ میں ہے :
يجوز أن ينص في عقد المرابحة للآمر بالشراء على التزام العميل المشتري بدفع مبلغ أو نسبة من الدين تصرف في الخيرات في حالة تأخره عن سداد الأقساط في مواعيدها المقررة، على أن تصرف في وجوه الخير بمعرفة هيئة الرقابة الشرعية للمؤسسة ولا تنتفع بها المؤسسة
المعايير الشرعية : المرابحة ، رقم المعيار 5 / 6،ص 97 – 98
’’جائز ہے کہ مرابحہ کے معاہدے میں صارف (خریدار ) کا مقررہ وقت پر اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں ایک مخصوص رقم یا قرض کے تناسب سے کچھ رقم کی ادائیگی کا التزام بھی تحریر کردیا جائے جو کہ فلاحی کاموں میں استعمال کی جائے گی، ایسے فلاحی کام جو اس بینک کے شریعہ سپروائزری بورڈ کی معرفت میں ہوں ، اور اس رقم سے بینک کوئی فائدہ حاصل نہ کرے‘‘۔
اسٹیٹ بینک کی ہدایات کے مطابق :
“Where any amount is required to be paid by the Client under the Principal Documents on a specified date and is not paid by that date, or an extension thereof, permitted by the Institution without any increase in the Contract Price, the Client hereby undertakes to pay directly to the Charity Fund, constituted by the Institution2 “[24].
’’ جب بنیادی معاہدہ کے تحت صارف پر ایک مقررہ وقت میں مخصوص رقم کی ادائیگی لازم ہو اور وہ ادائیگی نہ کر سکے ، اگرچہ بغیر کسی اضافی رقم کے بینک کی جانب سے اس مدت میں توسیع کردی جائے تو بھی نادہندہ رہے، تو اس معاملہ میں صارف اپنے اوپر یہ لازم کرے کہ وہ بینک کے خیراتی فنڈ میں کچھ رقم دے گا‘‘۔
مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتےہیں : ’’ تاخیر کے سد باب کا ایک معقول طریقہ وہ ہے جو میں نے ابتداء میں پیش کیا تھا اور وہ بعد میں کافی مقبول ہوا ، وہ یہ کہ مرابحہ یا اجارہ کے معاہدے میں مدیون یہ بات بھی لکھے کہ اگر میں نے ادائیگی میں تاخیر کی تو اتنی رقم کسی خیراتی کام میں خرچ کروں گا۔یہ رقم دین (قرض) کے تناسب سے بھی طے کی جاسکتی ہے ۔ایسی رقم سے ایک خیراتی فنڈ بھی قائم کیا جاسکتا ہے ۔اس فنڈ سے کسی کی
امداد بھی کی جاسکتی ہے اور اس سے لوگوں کو بلا سود قرض بھی دیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ رقم بینک کی آمدنی میں شامل نہیں ہوگی۔ یہ طریقہ زیادہ مفید اس لئے ہے کہ اس طریقہ میں رقم کی شرح متعین نہیں ، زیادہ سے زیادہ بھی رکھی جاسکتی ہے ، اس سے قرضدار پر دباؤ ہوگا‘‘۔[25]
دلیل : اس صدقہ کے جواز کے لئے دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ بعض مالکیہ کا مؤقف ہے کہ اگر کوئی شخص قرض لیتے ہوئے ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اپنے اوپر صدقہ کی شرط لگا لے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس شرط کو پورا کرے اور اس کے لئے امام حطاب المالکی کی اس عبارت کو پیش کیا جاتا ہے :
إذا التزم أنه إذا لم يوفه حقه في وقت كذا، فعليه كذا وكذا لفلان أو صدقة للمساكين فهذا محل الخلاف المعقود له هذا الباب،فالمشهور أنه لا يقضي به … وقال ابن دينار يقضى به
’’ جب قرضدار اپنے اوپر یہ لازم کرے کہ اس نے قرض خواہ کا حق اس کے وقت پر ادا نہیں کیا تواس پر فلاں (غیر قرض خواہ) کے لئے اتنا مال لازم ہے یا مساکین کو صدقہ کرنا لازم ہے ، تو اس میں اختلاف ہے ، اور اسی کو بیان کرنے کے لئے یہ باب باندھا گیا ہے، پس مشہور (راجح قول ) یہ ہے کہ اس پر فیصلہ نہیں کیا جائے گا ، اور ابن دینار کہتے ہیں کہ اس پر فیصلہ کیا جائے گا‘‘۔[26]
اس دلیل کے جواب میں چند نکات پر بات کرنی ہوگی:
(1) راجح قول کے مقابلہ میں مرجوح کا اختیار: اس معاملہ میں مالکیہ کے علاوہ دیگر تمام مسالک میں اجماع ہے کہ ادائیگی قرض میں تاخیر کی صورت میں قرضدار پرکسی بھی قسم کا جرمانہ یا قرضدار کا اپنے اوپر التزام جائز نہیں۔ صرف مالکیہ میں اختلاف ہے اور وہ بھی جیسا کہ امام حطاب مالکی رحمہ اللہ نے خود ذکر کیا کہ یہ قول مالکیہ میں سے صرف ابن دینار اور ابن نافع کا ہے اور مالکی مسلک میں یہ قول’’ مرجوح یعنی ناقابل قبول‘‘ ہے، اور راجح قول وہی ہے جو دیگر تمام ائمہ و مفتیان کا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اپنے مسلک کو چھوڑ کر دوسرے مسلک کی راجح بات یا قول پر عمل کرنا تو شاید بعض علماء کے نزدیک بعض صورتوں میں جائز ہو ، لیکن کسی اور مسلک کے مرجوح قول کو اختیار کرنا تو کسی بھی عالم کے نزدیک جائز نہیں خاص طور پر اس صورت میں جبکہ وہ قول سود جیسے گناہ کی طرف لے جائے، بلکہ صاحبِ مسلک کا اپنے مسلک کے راجح قول کو چھوڑ کر مرجوح اختیار کرنے کو بھی علماء نے ناجائز قرار دیا ہے تو پھر کسی اور مسلک کے مرجوح اقوال کو اختیار کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟۔
علامہ قاسم ابن قطلوبغا حنفی کہتے ہیں :
إني قد رأيت من عمل في مذهب أئمتنا بالتشهي، حتى سمعت من لفظ بعض القضاة: وهل ثمّ حجر؟ فقلت: نعم. اتباع الهوى حرام، والمرجوح في مقابلة الراجح بمنزلة العدم
تصحیح القدوری،ص 1
’’ میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے جو ہمارے ائمہ کے مسلک میں اپنی خواہشات سے عمل کرتے ہیں ، حتی کہ میں نے بعض قاضیوں کو یہ کہتے سنا : کہ کیا یہ ممنوع ہے ؟ ، میں نے کہا: جی ہاں بالکل ، خواہشات کی پیروی حرام ہے ، اور راجح قول کے مقابلہ میں مرجوح ،معدوم (بالکل نہ ہونے) کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی طرح ابن عابدین حنفی لکھتے ہیں:
الواجب على من أراد أن يعمل لنفسه، أو يفتي غيره أن يتبع القول الذي رجّحه علماء مذهبه، فلا يجوز له العمل أو الافتاء بالمرجوح
’’جو شخص خود کوئی عمل کرنا چاہے یا کسی اور کو فتوی دینے لگے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس قول کو اختیار کرے جسے اس کے مذہب کے علماء نے راجح قرار دیا ہے ، اور اس کے لئے کسی مرجوح قول پر عمل کرنا یا فتوی دینا جائز نہیں‘‘[27]
خودمالکی مسلک کے عالم ابو الولید الباجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأما الحكم والفتيا بما هو مرجوح فخلاف الإجماع
الإحكام في تمييز الفتاوى عن الأحكام وتصرفات القاضي والإمام للقرافي ص 92
’’مرجوح قول پر فیصلہ کرنا یا فتوی دینا (علماء کے ) اجماع کے خلاف ہے‘‘۔
(2) تنگ دست اور مالدار میں فرق نہ کرنا
اسلامی نظام معیشت کی بنیادی خوبی اور اعلی وصف یہ ہے کہ اس نظام نے جہاں حقوق کی ادائیگی کے حوالہ سے سختی رکھی ہے وہاں مجبور کی مجبوری کا بھی احساس کیا ہے ، اور تنگ دست قرضدار کی مجبوری کا احساس کرتے ہوئے ایک سنہرا اصول بیان کیا کہ :
﴿ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَّأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾
البقرۃ: 280
کہ اگر:’’(قرضدار) تنگ دست ہو تو اسے مہلت دو اس کی آسانی تک ،اور اگر تم (یہ قرض ) اس پر صدقہ کر (کے چھوڑ ) دو تو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو‘‘۔ سودی نظامِ بینکاری کا ظلم و استحصال ہی یہی ہے کہ وہ سود لینے کے ساتھ ساتھ وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں تنگدست و مالدار میں کوئی فرق کئے بغیر جرمانہ عائد کرتا ہے ، اور وہ تنگ دست جو اصل رقم دینے کی سکت بھی نہیں رکھتا بینک کے ظالمانہ شکنجے میں دبا رہتا ہے۔
مروجہ اسلامی نظام بینکاری کی بنیاد اگر اسلام کے اصولوں پر رکھی گئی ہے تو اس کی یہ بنیادی خوبی ہونی چاہئے تھی کہ یہ اسلام کی طرف سے تنگدست و مجبور افراد کے لئے عطا کی گئی ہمدردی ، سہولت ، احسان جیسے اعلی اوصاف سے مزین ہوتا تاکہ سودی نظام بینکاری کے صحیح اور حقیقی متبادل کی صورت میں پوری دنیا میں متعارف ہوتا، لیکن مروجہ اسلامی نظام بینکاری، اسلامی نظام معیشت کے اس بنیادی وصف سے کوسوں دور نظر آتا ہے اور بالکل سودی نظام بینکاری کی مانند بے رحم اور بے حس قرض خواہ کا کردار ادا کرتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلامی بینک مرابحہ کے آغاز ہی میں صارف سے یہ وعدہ لے لیتا ہے کہ مقررہ وقت پر عدم ادائیگی کی صورت میں ایک مخصوص رقم ادا کرنا ہوگی جسے اسلامی بینک صدقہ کا نام دیتا ہے، اور بینک کو اس بات سے کوئی غرض و دلچسپی نہیں ہوتی کہ صارف کی عدم ادائیگی کی کیا وجہ ہے ؟ کیا وہ تنگدست یا مجبور تو نہیں ؟ کیا وہ قرآن میں بیان کردہ ’’ذو عسرۃ‘‘ میں تو شامل نہیں کہ جو قرآن کے مطابق مہلت کے
حقدار ہیں؟۔یہی وجہ ہے کہ اس پورے معاہدے میں عملی طور پر تو درکنار تحریری صورت میں بھی ایسی کوئی شرط یا شق نہیں ملتی جس میں بینک صارف کو کسی طرح کی مہلت دینے کا پابند نظر آئے۔
اسلامی بینک اپنے ہر صارف کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے کہ وہ ٹال مٹول کر کے اس کا مال کھانے کی کوشش میں ہے اور کسی طرح اس سے وہ پیسہ واپس وصول کر لیا جائے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سودی نظام بینکاری کو چھوڑ کر اسلامی نظام بینکاری کی جانب آنے والے افراد یقینی طور پر اچھے مسلمان ہیں جو کسی نہ کسی طرح سود سے بچنا چاہتے ہیں ، اسلامی بینک کو بھی چاہئے کہ اپنےصارفین کا احترام کرتے ہوئے اور ان کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے انکے بارے میں حسن ظن رکھے اور یہ کوشش کرے کہ اپنے نادہندگان میں تنگدست اور مالدار کا فرق رکھے ، اور ایسا تنگدست جو کہ اپنی اصل رقم ادا کرنے سے بھی قاصر ہے اس پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے اسے مہلت دی جائے اور اگر وہ بالکل ہی تہی دامن ہو تو اس سے صدقہ لینے کے بجائے قرآنی حکم کے مطابق اس پر صدقہ کرے ، اور فرمان الہِی کے مطابق یقیناً یہی اسلامی بینک کے حق میں بہتر ہے۔
(2) کیا یہ واقعی صدقہ ہے یا تاخیر پر جرمانہ ہے؟
اسلامی بینک کی جانب سے صارف کو تاخیر کی صورت میں اضافی رقم کا پابند کیا جانا کسی صورت بھی صدقہ نہیں کہلایا جاسکتا کیونکہ:
1.اس رقم کی بنیاد قرض کی ادائیگی میں تاخیر ہے۔
2.اس رقم کا تعین قرض کی بقایہ رقم اور تاخیر کی مدت کو دیکھ کرکیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اسٹیٹ بینک نے مرابحہ کے حوالہ سےاس رقم کو (PENALTY) تصور کیا اور اس کے تعین کا طریقہ کار بیان کیا کہ:‘‘
“A sum calculated @ ——% per annum for the entire period of default, calculated on the total amount of the obligations remaining un-discharged۔”
رقم کا حساب مدت نادہندگی کے ۔۔۔۔فیصد (جسے بینک طے کرے گا) سالانہ سے ہوگا، جسے قرض کی بقایہ رقم سے حساب کر کے متعین کیا جائے گا۔
3.نام نہاد صدقہ کی رقم خود بینک ہی وصول کرتا ہے ، اور صارف پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ یہ رقم بینک میں ہی جمع کرائے ۔ بلکہ بینک اس رقم کو اپنا حق تصور کرتا ہے اور اس کی وصولی کے لئے عدالت میں بھی جاسکتا ہے ۔ جیسا کہ اسٹیٹ بینک کی اسی مرابحہ دستاویز میں تحریر ہے:
“In case (i) any amount(s) referred to in clause 10.01 above, including the amount undertaken to be paid directly to the Charity Fund, by the Client, is not paid by him, or (ii) the Client delays the payment … the Institution shall have the right to approach a competent Court … (ii) for imposing of a penalty on the Client”.
’’درج بالا شق نمبر 10.01 میں مذکور رقم ، اور خیراتی فنڈ میں دی جانے والی وہ رقم جس کا صارف نے اپنے اوپر التزام کیا تھا اگر وہ صارف کی طرف سے ادا نہیں کی جاتی یا اس کی ادائیگی میں تاخیر کی جاتی ہے ۔۔۔ تو بینک مجاز عدالت میں جانے کا حق رکھتا ہے ۔۔۔ تاکہ صارف پر جرمانہ نافذ کیا جاسکے‘‘۔
اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ اسلامی بینک صدقہ کی رقم کو اپنا حق سمجھتا ہے اور اس کی وصولی کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ تو اس رقم کو صدقہ کہنے کی پھر کیا دلیل رہ جاتی ہے؟۔
4.صدقہ ایک عبادت اور خیرات و تعاون ہے ، اور تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جو عمل تبرع ِمحض ہے ، صرف تعاون پر مبنی ہے اس میں کوئی الزام وجبر نہیں کیا جا سکتا۔ مؤیدین اسلامی بینک یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ صدقہ بینک نے صارف پر لازم نہیں کیا بلکہ صارف نے خود اس کا التزام لیا ہے ، اور اگر کوئی شخص کسی نیک کام مثلاً، صدقہ ، ہدیہ وغیرہ کو اپنے اوپر لازم کرے تو وہ لازم ہوجاتا ہے جیسا کہ مالکیہ ودیگر بعض علماء نے ذکرکیا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کیا یہ دلیل درست ہے یا نہیں؟، اور کیا واقعتاً جب کوئی شخص اپنے اوپر کوئی نیک کام لازم کر لے تو اس پر لازم ہوجاتا ہے یا نہیں؟، اور اس حوالہ سے علماء کے اختلاف سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اس دلیل کواگر قبول کر بھی لیتے ہیں تو چند سوال ذہن میں ابھرتے ہیں جن کا تسلی بخش جواب نہیں مل سکا کہ :
کیا مرابحہ کا معاہدہ بینک تیار کرتا ہے یا صارف ؟۔ اگر معاہدہ بینک بناتا ہے اور تمام شرائط بینک نے پہلے سے تحریر کی ہوئی ہوتی ہیں اور صارف نے صرف دستخط کرنے ہوتے ہیں تو اس میں صارف کی رضامندی اور التزام صرف دستخط ہی سے تصور کئے جاتے ہیں؟ ۔
اگر صارف یہ کہے کہ میں اس صدقہ کا التزام نہیں کروں گا تو کیا بینک اس سے مرابحہ کا معاہدہ کرے گا؟۔
کیا بینک کا بغیر التزام کے صارف سے معاہدے سے انکار کردینے کو صارف پر صدقہ کے التزام کے حوالہ سے جبر تصور نہیں کیا جائیگا؟۔
کیا کبھی مروجہ اسلامی بینک نے کسی صارف سے اس صدقہ کے التزام کے بغیر کوئی ایک معاہدہ بھی کیا ہے؟۔
(4) تاخیر کی صورت میں مالی جرمانہ لگایا جاسکتا ہے؟
اگر قرضدار مالدار اور قرض ادا کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود ادائیگی میں جان بوجھ کر تاخیر کا مرتکب ہو تو وہ شریعت کی نظر میں ظالم ہے۔ نبی ﷺکا فرمان ہے:
مطل الغني ظلم
’’مالدار (قرضدار ) کا (ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے‘‘[28]۔ بلکہ شریعت نے اس حوالہ سے قرض خواہ کی رہنمائی بھی کی ہے کہ وہ اس صورت میں کیا کرے ۔نبی ﷺکا فرمان ہے :
لي الواجد يحل عرضه وعقوبته
’’مالدار کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت اور اس پرسزا کو حلال کردیتا ہے‘‘۔[29]
لیکن تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ یہ جرمانہ مالی نہیں لگایا جائے گا ، ابن المبار ک رحمہ اللہ اس حدیث کی توضیح میں فرماتےہیں : ’’عزت حلال ہونے سے مراد ہے کہ اس پر سختی کی جائے گی اور اس کی سزا سے مراد ہے کہ اسے قید کردیا جائے گا‘‘[30]۔ امام ابوبکر الجصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والمراد بالعقوبة هنا الحبس لأن أحدا لا يوجب غيره
اس حدیث میں سزا سے مراد قید ہے کیونکہ (علماء میں سے ) کسی نے بھی اس کے علاوہ کوئی اور سزا واجب نہیں کی۔[31]بلکہ علماء نے اس کے برعکس بطور جرمانہ کسی بھی قسم کے مالی اضافہ کو حرام کہا ہے اور بیان کیا ہے کہ دور جاہلیت کا اصل سود یہی تھا، امام قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ دور جاہلیت کا اصل سود یہی تھا کہ ایک شخص کسی کو کوئی چیز ادھار پر بیچتا ، جب ادائیگی کا وقت آتا اور خریدار کے پاس رقم نہ ہوتی تو وہ مطلوبہ رقم میں اضافہ کر کے اس کو مزید مہلت دے دیتا‘‘[32]۔ ابن عبدالبررحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ :’’ دور جاہلیت کا سود یہ تھا کہ اگر ایک شخص نے کسی کو قرض دیا ہوتا اور ادائیگی کا وقت آتا تو قرض خواہ ، قرضدار سے پوچھتا کہ: ’’ادائیگی کرو گے یا (مزید مہلت لے کر ) سود ادا کرو گے؟ ، اگر قرضدار اس وقت ادائیگی کر دیتا تو وہ لے لیتا ورنہ اس پر سود لگا دیتا‘‘[33]۔ شریعت نے قرض کے بدلہ ہر قسم کے منافع کو ناجائز کہا ہے ، اس بارے میں ایک حدیث بھی ذکر کی جاتی ہے کہ :
کل قرض جر منفعة فهو ربا
’’ہر وہ قرض جس سے قرض خواہ کو کوئی فائدہ ملےوہ سود ہے‘‘5۔ یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس معنی میں صحابہ کرام سے صحیح آثار منقول ہیں، ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ ہر وہ قرض جس میں اضافی رقم کا مطالبہ ہووہ سود اور حرام ہے بغیر (علماء کے ) کسی اختلاف کے، اور اس حوالہ سے ابی بن کعب ، ابن عباس اور ابن مسعود سے صحیح آثار منقول ہیں ‘‘۔ اسی طرح اس کی حرمت پر اجماع کو ابن المنذر رحمہ اللہ نے بھی ذکر کیا ہے فرماتے ہیں :
أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زيادة أو هدية فأسلف على ذلك: أن أخذ الزيادة على ذلك ربا
اس بات پر تمام علماء کا اجماع ہے کہ جب قرض دینے والا ، قرض لینےوالے پر یہ شرط لگائے کہ وہ اسے بڑھا کر دے گا ، یا کوئی ہدیہ دے گا اور اس شرط پر وہ اسے قرضہ دے تو اس کا یہ زائد رقم لینا سود ہے‘‘۔[34]
ڈاکٹر نزیہ حماد لکھتے ہیں : ’’ خلافت راشدہ سے لے کر خلافت عثمانی کے اختتام تک اس مالی جرمانہ کا کوئی حکم ہم تک نہیں پہنچا ، جبکہ یقیناً اس پوری مدت میں بہت سی تاخیر اور ٹال مٹول کا سامنا رہا ہوگا، لیکن تعزیر کی بنیاد پرحبس و قید و دیگرسزاؤں کے احکامات صادر ہوئےلیکن اس مالی جرمانہ کا کوئی حکم کتب فقہ میں مذکور نہیں‘‘۔[35]
(5) بینک کا صدقہ سے منفعت حاصل کرنا
اگر ایک لمحہ کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ صدقہ جائز ہے تو یہ بات تو طے ہے کہ اس صدقہ سے بینک کا کوئی منفعت حاصل کرنا قطعی حرام ہے ، اس کا اقرار خود مفتی تقی عثمانی صاحب اور دیگر علماء نے بھی کیا ہے اور یہی بات المعايير الشرعية میں بھی تحریر ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ لیکن اگر عملی طور پر بینک کے معاملات کی جانب دیکھاجائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اسلامی بینک اس سے اگر مادی نہ صحیح معنوی منفعت ضرور حاصل کرتا اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ :
یہ صدقہ جہاں خرچ کیا جاتا ہے وہاں بینک ہی کی تشہیر کی جاتی ہے۔
بہت سی کانفرنسز میں اور ذرائع ابلاغ میں یہ بات ذکر کی جاتی ہے کہ فلاں اسلامی بینک نے اس سال اتنے روپے خیراتی کاموں پر خرچ کئے جس سے بینک کو نیک نامی کی منفعت حاصل ہوتی ہے۔
یہ صدقہ جن اداروں کو دیا جاتا ہے انہیں بھی اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا اکاؤنٹ اسی بینک میں کھلوائیں ۔
یہ اور اسی قسم کے دیگر مادی و معنوی فوائد ہیں جنہیں اسلامی بینک ان نام نہاد صدقات سے حاصل کرتا ہے۔ کیا یہ منفعت کا حصول اس کے لئے جائز ہے؟۔
(6) سودی بینکوں کے ظلم اور استحصال کے لئے شرعی دلیل کی فراہمی:
اس صدقہ کے حامی علماء کو چاہئے تھا کہ اگر ایسا صدقہ لگانا تھا تو کم از کم اس کے لئے دلائل فراہم کرتے وقت اتنا ضرور خیال کر لیا جاتا کہ کہیں ان دلائل کا سہارا سودی بینک نہ لیں ، کہ جن کی مخالفت میں اسلامی بینکنگ کی پوری مارکیٹ قائم ہے، لیکن اتنے زور و شور سے دلائل دئے گئے اور بودے دلائل کا اتنا ڈھیر لگا دیا گیا اور اتنی بحوث لکھ دی گئیں کہ سودی بینکوں کو اپنا ظلم و استحصال شرعی سانچہ میں ڈھالنا آسان ہوگیا۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘۔
نام نہاد صدقہ و جرمانہ کا صحیح و حقیقی متبادل
مروجہ اسلامی بینکوں کو چاہئے کہ وہ کسی صارف سے معاہدہ کرنے سے پہلے اس کی حقیقی مالی استعداد کا علم ضرور حاصل کریں تاکہ ادائیگی میں تاخیر سے بچنا ممکن ہو۔
صارف سے ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کسی بھی عملی اقدام سے پہلے تنگدست اور مالدار میں فرق ضرور رکھا جائے ۔ تنگدست وہ شخص ہے جس کے پاس موجود رقم اس کی اور اس کے خاندان کی کفالت سے زائد نہ ہو۔ایسا تنگدست شریعت کی نظر میں مہلت کا مستحق ہے ، بلکہ اکثر علماء کے نزدیک اسے مہلت دینا واجب ہے۔
اگر صارف قرض ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود تاخیر کرتا ہے تو اس پر مالی جرمانہ کے علاوہ اور کوئی بھی سزا دی جاسکتی ہے۔
ایسے معاملہ میں بینک کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ صارف پر یہ شرط لگائے کہ ادائیگی کی صلاحیت ہونے کے باوجود تاخیر کی صورت میں اسے باقی ساری اقساط ایک ساتھ ادا کرنی ہوں گی۔
اسی طرح بینک ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں بیع فسخ کرنے کا بھی مجاز ہے اور اسے یہ شرعی حق حاصل ہے کہ جو چیز اس نے صارف کو بیچی تھی وہ اس سے واپس لے کر اس کی ادا کردہ رقم لوٹا دے۔
خلاصہ کلام
اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ میں بہت سی شرعی قباحتیں موجود ہیں جو مروجہ مرابحہ کے ’’ربح‘‘ (Markup) کو سودی بینکوں کے ’’ربا‘‘ (Interest) کی مانند کردیتی ہیں ۔ ان شرعی قباحتوں میں :
(1) بینک کا صارف سے مرابحہ کی ابتداء میں لیا جانے والا وعدہ جس کا قانوناًالتزام کرایا جاتا ہے۔ جو مروجہ مرابحہ کو
بيع مالا يملک
جیسی ممنوع بیع کے حکم میں داخل کردیتا ہے۔
(2) بینک کا مرابحہ میں مطلوبہ سامان کی خریداری کے لئے صارف ہی کو وکیل مقرر کرنا۔جو اس معاملے کو سودی تمویل سے مشابہ کردیتا ہے۔
(3) بینک کا مروجہ مرابحہ میں منافع کا شرح سود کے ذریعہ تعین کرنا۔
(4) اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں صارف پر لگایا جانے والا جرمانہ جسے صدقہ کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ وہ بنیادی شرعی قباتیں ہیں جن کی موجودگی میں کسی مزعومہ اسلامی بینک سے معاملہ کرنا حرام ٹھہرتا ہے۔
مرابحہ ! اسلامی بینکنگ پر ایک سوالیہ نشان ؟
اسلامی بینکنگ کے آغاز کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی تھی کہ اسلامی بینک سودی بینک کی طرح صرف تمویل پر منافع حاصل نہیں کریں گے ، بلکہ ان کا اصل کام تجارت ہوگا ، وہ صرف ایک مالیاتی ادارہ کی حیثیت سے کام نہیں کرے گا جو لوگوں سے پیسہ لے کر آگے فراہم کرے ۔ بلکہ وہ ایک حقیقی تجارتی ادارہ ہوگا جو کہ سرمایہ داروں سے شراکت داری کی بنیاد پر سرمایہ لے کر تجارت میں لگائے گا اور یہ شراکت داری نفع نقصان دونوں میں ہوگی، جہاں تک مرابحہ اور اجارہ کا تعلق ہے ، یہ معاملات انتہائی ہلکی سطح پر جاری رکھیں جائیں گے ، تاکہ تمویل کی ضروریات کو بھی پورا کیا جاسکے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مرابحہ خود بھی کوئی مثالی طریقہ تمویل (Mode of Financing) نہیں ، جیسا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں : ’’یہ بات کسی صورت نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ مرابحہ اصل کے اعتبار سے طریقہ تمویل نہیں ۔ یہ تو صرف سود سے بچنے کا ایک وسیلہ اور حیلہ ہے۔ ایسا مثالی ذریعہ تمویل نہیں جو اسلام کے
معاشی مقصد کی تکمیل کرتا ہو‘‘۔[36]یعنی اس کا استعمال ایک حیلہ کے طور پر کرنا چاہئے ، دوسرے الفاظ میں اس کا استعمال انتہائی ضرورت کے وقت میں کرنا چاہئے اور جہاں اس سے بچنا ممکن ہو بچنا چاہئے، اس تناظر میں تو مرابحہ کا استعمال اسلامی بینکوں میں انتہائی کم ہونا چاہئے تھا۔
لیکن موجودہ حقائق اس کے بالکل بر عکس ہیں ، تقریباً تمام اسلامی بینکوں کا اصل کاروبار اب مرابحہ ہی رہ گیا ہے، کیونکہ یہ سودی بینکنگ کے مزاج کے بالکل قریب ہے ، اور جہاں پر تھوڑا سا فرق ہے، تھوڑا سا خطرہ ہے ، وہاں مزید حیلوں کا سہارا لے کر بالکل ہی سودی صورت کے مطابق بنا لیا گیا ہے ، تاکہ بازارِ سود میں لوٹ پوٹ ہونے والی عالمی معیشت میں جہاں کچھ لوگ اپنا دامن سود سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں بھی اسلامی نام سے دھوکہ دے کر ، سودی پراڈکٹ پر اسلام کا لیبل لگا کر بیچ دیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکوں کے پرزور حامی اور بانیوں میں شمار ہونے والے علماء اور تاجر حضرات بھی اب اس حقیقت کو ماننے لگے ہیں کہ اسلامی بینکنگ کو جس مزاج پر چلانے کا تہیہ کیا گیا تھا وہ اس میں ناکام ہوچکے ہیں ۔ بطور مثال دو اقوال درج ذیل ہیں:
(1) علامہ یوسف قرضاوی:
جو کہ معروف عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی بینکنگ کے پرزور حامی بھی ہیں اورقطر اسلامی بینک اور فیصل اسلامی بینک کے شریعہ بورڈ کے چیئر مین ہیں کہتے ہیں:
أن المرابحة هي قريبة من التمويل الربوي”” مشيرا إلى أنه للأسف أصبحت المصرفية الإسلامية سجينة للمرابحة وأصبحت 95 في المائة من عملياتها في المرابحة – بحسب تقديراته
’’مرابحہ سودی تمویل کے بہت قریب ہے اور افسوس ہے کہ اسلامی بینک مرابحہ کے’’قیدی ‘‘ بن گئے ہیں ، اور میرے اندازے کے مطابق اسلامی بینکوں کے تمام معاملات میں مرابحہ کی نسبت 95 فیصد ہے‘‘۔[37]
(2) ڈاکٹر صالح کامل
جو اسلامی بینکوں کی جنرل کونسل کے سربراہ ، اور البرکہ اسلامی بینک اور اردن اسلامی بینک کے بانی ہیں کہتے ہیں:
بشرنا الناس بأن [المصرف الإسلامي سيقود الأمة] نحو التنمية الاقتصادية وزيادة المصادر وتشغيل العاطل وتأهيل العاجز، ولكن أقول بكل الصدق والتجرد: أننا أخذنا مفهوم البنك [الربوي]، ولم نستطع أن نتجاوز نمط الوساطة المالية؛ فأصبحت الصيغ الاستثمارية المفضلة لدى البنوك الإسلامية هجينًا بين القرض والاستثمار يحمل معظم سمات القرض الربوي وعيوب نظام الرأسمالي الغربي ويعجز عن إبراز معالم الاستثمار الإسلامي المبني على المخاطرة وعلى الاستثمار الحقيقي
’’اسلامی بینکنگ کے آغاز میں ہم نے لوگوں کو یہ خوشخبری دی تھی کہ اسلامی بینک اس امت کو اقتصادی ترقی ، ذرائع آمدنی میں اضافہ، بے روزگار کو روزگار اور عاجز کو با صلاحیت بنانے کی جانب گامزن کرے گا ، لیکن اب میں بالکل سچائی اور غیر جانبداری سے کہتا ہوں کہ: ہم نے سودی بینکوں کا ہی مفہوم اپنا لیا ہے، ہم ایک درمیانی مالی واسطہ کی حیثیت سے آگے ہی نہ بڑھ سکے ، اور اب اسلامی بینکوں کا سب سے پسندیدہ طریقہ سرمایہ کاری ، قرض اور سرمایہ کاری کا دوغلی نسل کا بچہ ہے ، جس میں سودی قرض کی اکثر علامات بھی ہیں اورمغربی سرمایہ دارانہ نظام کی خامیاں بھی ہیں، اور یہ اسلامی بینک اسلامی سرمایہ کاری کی اکثر صفات کے اظہار سے لاچار ہے جو کہ مخاطرت اور حقیقی سرمایہ کاری پر مبنی ہے‘‘۔
یہ دو اقوال ہی عبرت کے لئے کافی ہیں ، یہ ان افراد کا اعتراف ہے جو کہ نہ صرف اسلامی بینک کے بھرپور مؤید رہے ہیں ، بلکہ اسلامی بینکوں میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں اور اسلامی بینکوں کے معاملات سے
بہت اچھی طرح سے واقف ہیں ۔
جو باتیں ان حضرات نے کہی ہیں وہ حقیقت ہے ، اور درج ذیل دو چارٹ اس کے آئینہ دار ہیں۔
درج ذیل پہلا چارٹ عالمی بینک (World Bank) کی جانب سے تیار کردہ ہے جسے سلیمان سید علی نے تیار کیا ہے۔ [38]اس چارٹ میں سات اسلامی ممالک میں اسلامی بینکنگ کے معاملات کا تناسب ذکر ہے ۔ ہم نے صرف مرابحہ کا تناسب ذکر کیا ہے۔ اس چارٹ میں واضح دیکھاجاسکتا ہے کہ اسلامی بینکوں میں مرابحہ کا تناسب کتنا زیادہ ہے، حتی کہ بعض ممالک میں جیسے یمن میں اسلامی بینکوں کا سو فیصد معاملہ صرف مرابحہ ہی ہے ، اور بعض ممالک جیسے کویت اور متحدہ عرب امارات میں یہ تناسب 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ جائزہ رپورٹ 2008 ء میں تیار کی گئی تھی ، گزشتہ چار سالوں میں یقیناً اس تناسب میں اضافہ ہی ہوا ہے کمی نہیں۔
Picture
دوسرا چارٹ اسٹیٹ بینک پاکستان کے اسلامی بینکنگ ڈیپارٹمنٹ کا تیار کردہ ہے جس میں پاکستان کے اسلامی بینکوں کے معاملات کا فیصدی تناسب ذکر کیا گیا ہے ، یہ رپورٹ بھی2008ء کی تیار کردہ ہے۔[39]
اس رپورٹ میں پاکستان کے اسلامی بینکوں کے معاملات کا فیصدی تناسب ذکر کیا گیا ہے ، جس میں یہ واضح ہے کہ اسلامی بینکوں میں ذرائع تمویل(Modes of Financing) یعنی مرابحہ ، اجارہ اور مشارکہ متناقصہ کا تناسب بینک کے باقی دیگر تمام معاملات کے تین چوتھائی سے بھی زیادہ ہے یعنی تقریباً 90فیصد!۔ اور نفع و نقصان کی شراکت داری جس کی بنیاد پر اسلامی بینک وجود میں آیاتھا اس کا تناسب صرف 2 فیصد ہے اور اس میں بھی مضاربہ کا کوئی حصہ نہیں!۔
Picture
اسی طرح ایک اور رپورٹ جو اسٹیٹ بینک کے اسلامی بینکنگ ڈپارٹمنٹ نے سال 2012 ء میں ستمبر کے مہینہ میں جاری کی ، جس میں اسلامی بینکوں کی سال 2012 ءکی تیسری سہ ماہی جو کہ جولائی تا ستمبر ہے کا جائزہ لیا گیا ۔ اس رپورٹ کے اعداد وشمار بھی گزشتہ اعداد وشمار سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔[40]
Picture
خلاصہ کلام :
اسلامی بینک کے قیام کا بنیادی مقصد معاشرہ کو سود اور عوام کو مالی ظلم و استحصال سے بچا نا اور اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی سنجیدہ کوششیں کرنا تھا۔ اسی لئے ابتداء میں علماء نے یہ طے کیاتھا کہ اسلامی بینک مضاربہ اور مشارکہ جیسے شراکت داری والے معاملات کی طرف زیادہ توجہ دے گا ، اورچونکہ ابتداء میں اسلامی بینک کو مشکلات کا سامنا تھا اس لئے مرابحہ اور اجارہ کو عبوری دور کے لئے اسلامی بینکاری نظام میں شامل کیا گیا تھا بلکہ کئی علماء نے اس کی عبوری دور کے لئے بھی اجازت نہیں دی تھی۔ اب اسلامی بینک اپنے ابتدائی دور سے گزر کر پختہ دور تک پہنچ چکا ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جن بینکوں نے مرابحہ کو ابتدائی طور پر عبوری نظام کی حیثیت سے اپنایا تھا وہ بتدریج اس کو ختم کر کے مضاربہ اور مشارکہ کی جانب آتے ، لیکن صورتحال اس کے بالکل بر عکس ہے، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں اس کی وضاحت کی جاچکی ہے۔اسلامی بینکوں نے اب مرابحہ ، اجارہ اور مشارکہ متناقصہ ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے ، جبکہ اس میں سود کا شائبہ بھی ہے ، صارف کا استحصال بھی ، سودی حیلہ بھی اور مشکوک معاملات بھی!، اب ایسے نظام سے یہ توقع رکھنا کہ یہ معاشرہ کو اسلامی معاشی نظام کی جانب لے کر جائے گا بالکل عبث اور بیکار ہے، خصوصاً اب جبکہ اس نظام کو تقریباً ایک تہا ئی صدی سے زیادہ بلکہ نصف صدی گزر چکی ہے ۔اس لئے جو علماء اب بھی اس نظام کے حامی ہیں انہیں چاہئے کہ یا تو اس نظام کی اصلاح کے لئے انقلابی اقدامات اٹھائیں یا پھر اس نظام کو یہ سمجھ کر جائز نہ کہیں کہ یہ نظام ابھی اپنی ابتدائی عمر سے گزر رہا ہے اس لئے اسے وقت دیا جائے!۔بلکہ ہماری نظر میں مروجہ مرابحہ اور سودی بینکوں کا سودی قرضہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ، بلکہ اس سے بھی کڑوی حقیقت تو یہ ہے کہ صارفین کے لئے سودی بینک ، اسلامی بینکوں سے کہیں زیادہ رحم دل واقع ہوئے ہیں۔
مروّجہ اجارہ کی شرعی حیثیت
اجارہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے اجرت دینا۔
فقہاء کی اصطلاح میں :
اجارہ سے مراد ایسا معاہد ہ ہے جس میں ایک متعین چیز کے مخصوص فائدہ کو محدود مدت تک معلوم عوض کے بدلہ دیا جائے ، یا کسی عمل کے بدلہ عوض ادا کیا جائے۔[41]
اس کی مثا ل یوں ہے کہ : ایک شخص اپنا گھر کسی کو محدود مدت تک رہائش کے لئے دے اور اس کے عوض اس سے کرایہ وصول کرے جو کہ دونوں فریقین کے علم میں ہو۔
مروجہ اجارہ کی صور ت
اسلامی بینکوں میں کیا جانے والا اجا رہ، شرعی اجارہ سے صورت میں کافی مختلف ہے ، اسے
اجارۃ المنتہیہ بالتملیک
(Hire – Purchase)کہتے ہیں۔یعنی کرایہ کا ایسا معاہد ہ جس کے آخر میں چیز کی ملکیت کرائے دار کو منتقل ہوجائے۔اجارہ کی یہ صورت فقہاء نے ذکر نہیں کی اور نہ ہی اس طرح اجارہ کا تصور فقہا ء نے دیا بلکہ(Hire – Purchase) کا آغاز ہی اسلامی سرزمین پر نہیں ہوا،اس کا آغاز سب سے پہلے امریکہ میں 1905ء میں ہوا۔[42]بعد میں اسے سودی بینکوں نے (Leasing Contract) کے نام سے ترویج دی ، اور اسی صورت کو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اسلامی بینکوں میں اجارہ کے نام سے شروع کیا گیا۔ اس معاہدہ کا بنیادی مقصد کسی چیز کو کرایہ پر دینا نہیں ہے ، بلکہ اس چیز کو فروخت کرنا ہے، اور خریدنے والا اس چیز کی قیمت اقساط میں ادا کرتا ہے ، جبکہ اس کی ملکیت بیچنے والے کے پاس رہتی ہے، اور بظاہر معاہدہ کرایہ کا کیا جاتا ہے ، خرید وفروخت کا نہیں۔ اسلامی بینکوں میں اجارہ کے ذریعہ (Car Financing) اور (Home Financing) کیجاتی ہے۔
مروجہ اجارہ میں ملکیت کے انتقال کی صورتیں
اسلامی بینکوں میں کئے جانے والے اجارہ کے معاہدے میں گاڑی یا گھر کی ملکیت پہلے بینک حاصل کرتا ہے پھر اسے صارف کو کرایہ پر دیتا ہے ، کرایہ کی مدت کے اختتام پر ملکیت منتقل کرنے کی کئی صورتیں اسلامی بینکوں میں رائج ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ عام صورتیں یہ ہیں:
1۔کرایہ کی مدت کے اختتام پر کرایہ کو ہی قیمت تصور کر کے چیز کی ملکیت صارف کو منتقل کرنا۔ یعنی کرایہ کا معاہدہ اور پھر بغیر کسی الگ معاہدہ کے ملکیت کی منتقلی۔
2۔بینک اپنے صارف سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ اگر اس نے مقررہ مدت تک کرایہ ادا کیا تو بینک اسے مذکورہ چیز ہدیہ کردے گا۔یعنی کرایہ کا معاہدہ اور اس معاہدہ میں ہدیہ کا وعدہ۔
3۔ بینک اپنے صارف سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ اگر اس نے مقررہ مدت تک کرایہ ادا کیا تو بینک اسے مذکورہ چیز الگ معاہدہ کر کے نمائشی قیمت کے بدلہ بیچ دے گا۔یعنی کرایہ کا معاہدہ اور اس معاہدہ میں بیچنے کا وعدہ۔
اول الذکر صورت بالاتفاق حرام ہے اور اس پر مجمع فقہ اسلامی اور ہیئہ کبار علماء سعودی عرب کا فتوی بھی ہے، کیونکہ اس میں ایک ہی چیز پر بیک وقت دو معاہدوں کو ملا دیا گیا ہے، جس سے بہت سی شرعی مخالفتیں جنم لیتی ہیں، اور اب یہ صورت اسلامی بینکوں میں موجود نہیں ہے۔
مروجہ اجارہ کی صورت تصویر نمبر 2 میں ملاحظہ کریں
picture
وضاحت:
(1) صارف ، بینک سے معاہدہ کرتا ہے کہ وہ بینک سے مطلوبہ سامان (گھر ، گاڑی) کرایہ پر حاصل کرے گا، اور اس کے لئے بطور ضمانت (Security) مخصوص رقم بینک میں جمع کراتا ہے۔
(2) بینک مطلوبہ سامان یا تو خود خریدتا ہے یاپھر صارف کو اپنا وکیل بناتا ہے اور صارف بینک کی طرف سے مطلوبہ سامان خریدتا ہے ۔
(3) بینک مطلوبہ سامان کی قیمت فروخت کنندہ کو نقد ادا کرتا ہے۔
(4) صارف بینک سے اجارہ کا معاہدہ کر کے گاڑی حاصل کرتا ہے۔
(5) صارف مخصوص مدت تک بینک کو کرایہ ادا کرتا ہے، یہ کرایہ عموماً (KIBOR) یا (LIBOR) سے منسلک ہوتا ہے۔
(6) کرایہ کی مدت ختم ہونے کے بعد درج بالا انتقال ملکیت کی صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ذریعہ چیز کی ملکیت صارف کو منتقل ہوجاتی ہے۔
مروجہ اجارہ اور شرعی اجارہ میں کئی بنیادی فرق ہیں
(1) شرعی اجارہ میں مطلوبہ سامان مؤجر (کرایہ لینے والا) کی ملکیت ہوتا ہے اور اس کے پاس موجود ہوتا ہے ، جبکہ مروجہ اجارہ میں مطلوبہ سامان بینک کے پاس موجود نہیں ہوتا بلکہ وہ بعد میں خرید کر اسے صارف کے حوالہ کرتا ہے۔
(2) شرعی اجارہ میں مؤجر کا مقصود سامان کی ملکیت اپنے پاس رکھ کر صرف اس کی مخصوص منفعت کو کرایہ پر دینا ہے، اور مستأجر ( کرایہ دار) کا مقصد بھی سامان کے عین کا حصول نہیں بلکہ اس کی منفعت کا حصول ہوتاہے، جبکہ مروجہ اجارہ میں بینک کا مقصود صرف منفعت کو کرایہ پر دینا نہیں ہوتا بلکہ سامان بیچنا ہوتا ہے ، اور صارف کا مقصد بھی کوئی مخصوص منفعت کا حصول نہیں بلکہ سامان کی ملکیت کا حصول ہوتا ہے۔
مروجہ اجارہ ، درحقیقت اجارہ ہے یا بیع
شریعت کا قانون ہے کہ
العبرة في العقود بالمقاصد والمعاني لا بالألفاظ والمباني
کہ شرعی
رو سے معاملات میں مقاصد کا اعتبار کیا جاتا ہے ، ظاہری الفاظ کا نہیں۔ مروجہ اجارہ میں اسلامی بینکوں کا مقصود سامان کی فروخت ہوتا ہے اور صارف کا مقصود سامان خریدنا ہوتا ہے ، بظاہر معاملہ کرایہ داری کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے، اور کرایہ بھی چیز کی قیمت کے حساب سے متعین کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم ابواللیل کہتے ہیں:’’یہ معاہدہ دراصل قسطوں پر بیع کی نئی شکل ہے‘‘[43]اسی طرح دیگر کبار اہل علم بھی اسی کے قائل ہیں کہ یہ اجارہ نہیں بیع ہے، ان میں سلیمان بن ترکی الترکی[44]، شیخ عبداللہ محمد عبداللہ [45]، شیخ دبیان محمد الدبیَان[46]شامل ہیں، اسی طرح بعض ممالک کے قوانین میں بھی اسے بیع ہی تصور کیا گیا ہے جیسا کہ مصر کا شہری قانون [47]اور کویت کا تجارتی قانون[48]۔اسی لئے مروجہ اجارہ کو (Ijarah Financing) اور (Ijarah Loan) کہا جاتا ہے، اور اسی لئے کوئی ایک اسلامی بینک بھی مروجہ اجارہ کے تحت دی گئی چیز کی واپسی کا تقاضہ نہیں کرتا، اب چونکہ مقصد چیز کی بیع ہے لہذا مروجہ اجارہ پر ، کرایہ داری کے احکامات لاگو نہیں ہوں گے بلکہ بیع کے احکامات کا اطلاق کیا جائے گا۔اور اجارہ کی مکمل صورت کا جائزہ لینے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل اقساط پر چیز کی فروخت ہے جسے اجارہ کا نام دیا گیا ہے۔
اسلامی بینک قسطوں پر چیز کی فروخت کا طریقہ کار کیوں اختیار نہیں کرتے؟
یہ ایک بہت اہم سوال ہے کہ جب مروجہ اجارہ میں قسطوں پر فروخت کے طریقہ سے بہت حد تک مماثلت ہے اور مروجہ اجارہ میں اصل مقصد بھی چیز کی فروخت ہی ہے تو پھر اتنا حیلہ کر کے اجارہ اور بیع کو ملانے کی کیا ضرورت ہے؟ اسلامی بینک ، اسے بیع التقسیط ہی کیوں نہیں کہہ دیتا اور اپنی اور صارف کی حیثیت کو مالک اور کرایہ دار کے بجائے ، فرخت کنندہ اور خریدار کی حیثیت سے متعارف کیوں نہیں کراتا؟۔
اس کا آسان اور سیدھا سا جواب یہ ہے کہ، تاکہ بینک سامان قسطوں پر فروخت کرنے کے باوجود بھی
سامان کی ملکیت اپنے پاس رکھے اور اسے مکمل اطمینان رہے، اور وہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہے، وہ اس طرح کہ:
اجارہ میں کرایہ دار سامان کا مالک نہیں ہوتا ، اگر کسی موقع پر کرایہ دار ، کرایہ ادا کرنے سے عاجز ہو تو بینک اس سے اپنا سامان واپس لے سکتا ہے ، اور اس سے جو رقم بینک نے وصول کی تھی وہ چونکہ کرایہ تھا اس لئے بینک اسے واپس نہیں کرتا کیونکہ صارف اس کرایہ کے عوض منفعت حاصل کرچکا ہے، اور اجارہ فسخ ہونے کی صورت میں مؤجر کرایہ واپس نہیں کرتا، جبکہ قسطوں پر فروخت کی صورت میں سامان کی ملکیت صارف کو مل جانے کے بعد اگر صارف اقسا ط ادا نہ کرسکے اور وہ تنگ دست ہو تو شرعی طور پر بینک اس پر جرمانہ نہیں لگا سکتا اور نہ ہی وہ سامان زبردستی واپس لے سکتا ہے، اور اگر سامان واپس لے تو شرعی اور قانونی طور پر بینک پر یہ واجب ہوتا ہے کہ صارف کی ادا کردہ رقم میں سے سامان کے استعمال کے برابر رقم منہا کر کے باقی رقم صارف کو واپس کرے۔
مروجہ اجارہ میں بینک سامان کی انشورنس کراتا ہے اور سامان تلف ہوجانے کی صورت میں انشورنس سے حاصل شدہ رقم کا سامان کے مالک ہونے کی حیثیت سے قانونی حقدار ٹھہرتا ہے ، جبکہ صارف چونکہ صرف کرایہ دار ہے اس لئے وہ خالی ہاتھ رہتا ہے، اور دوسری طرف سامان (گھر ، گاڑی) پر لگنے والے ٹیکس ، اور سامان (مثلاً گاڑی ) کے خراب ہونے کی صورت میں درستگی وغیرہ کے اخراجات کو ’’جاری اخراجات‘‘ (Running Expenses) کہہ کر بینک صارف کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیتا ہے۔
شرعی اجارہ میں بعض صورتوں میں کرایہ دار سے کرایہ معاف ہوجاتا ہے جب کرایہ دار کو سامان کی مخصوص منفعت حاصل نہ ہو، مثال کے طور پر اگر اس نے گھر کرایہ پر حاصل کیا اور گھر پر کسی نے جبراً قبضہ کرلیا تو ایسی صورت میں چونکہ اسے گھر کی مطلوبہ منفعت حاصل نہیں ، اس لئے وہ کرایہ ادا نہیں کرتا، لیکن مروجہ اجارہ میں چونکہ بینک صارف کو گھر کرایہ پر نہیں دے رہا ہوتا بلکہ درحقیقت بیچ رہا ہوتا ہے اس لئے وہ بہر صورت صارف سے ماہانہ رقم وصول کرتا رہتا ہے ، چاہے صارف کو منفعت حاصل ہو یا نہیں۔
صارف چونکہ کرایہ دار ہے اس لئے وہ یہ سامان (مثلاً گھر) کسی کو بیچ نہیں سکتا، جبکہ بینک چونکہ مالک مکان ہے اس لئے وہ جب چاہے کسی کو بھی وہ سامان بیچ سکتا ہے، اور صارف اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔
الغرض کہ اسلامی بینک اجارہ اور بیع کے ملاپ سے بننے والے مروجہ اجارہ میں ہر جائز و ناجائز فائدہ سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ اس اجارہ کی حقیقت ہے جسے اسلامی بینک سودی بینکوں کے لیزنگ (Leasing Contract) کا متبادل قرار دیتے ہیں۔
مروجہ اجارہ میں شرعی اعتراضات
( پہلا اعتراض)
بینک کا صارف سے وعدہ لینا کہ وہ مطلوبہ سامان کو بینک سے کرایہ پر حاصل کرے گا۔
یہ بالکل اسی وعدہ کی طرح ہے جو مروجہ مرابحہ کے (Master Murabaha Facility Agreement) میں بینک صارف سے لیتا ہے ، اور مزید اطمئنان کے لئے مخصوص رقم سیکیورٹی کے طور پر بھی لی جاتی ہے۔ اس حوالہ سے گزشتہ صفحات میں تفصیل گزر چکی ہے کہ اگر صارف پر اس وعدہ کے ایفاء کو قانوناً لازم کیا جاتا ہے تو اس سے معاملہ ناجائز ہوجاتا ہے ، کیونکہ اس وعدہ کی وجہ سے معاہدہ منعقد ہوجا تا ہے اور بعد میں الگ سے جو اجارہ یا مرابحہ کا معاہدہ کیا جاتا ہے وہ محض دکھلاوا ہے، کیونکہ جس ایگریمنٹ میں صارف سے پہلے ہی وعدہ لے لیا گیا ہے اسی میں مطلوبہ سامان کی تفصیلات ، کرایہ کا تعین ، ادائیگی کا طریقہ کار طے کرلیا جاتا ہے، جبکہ ابھی بینک نے مطلوبہ سامان حاصل نہیں کیا ہوتا۔اور بیع کی طرح اجارہ میں بھی یہ شرط ہے کہ مؤجر (سامان کرایہ پر دینے والا) کے پاس سامان موجود ہو ۔
( دوسرا اعتراض)
بینک کا صارف کو وکیل بنانا۔
اس حوالہ سے بھی مرابحہ میں تفصیل گزرچکی ہے کہ بینک کا صارف کو ہی وکیل بنادینے سے معاملہ مشتبہ ہوجاتا ہے اور سودی تمویل کے مشابہ ہوجاتا ہے۔
( تیسرا اعتراض)
بینک کا سامان کی ملکیت کو اپنے پاس رکھنا۔
جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان ہوا ہے کہ مروجہ اجارہ دراصل بیع (خرید وفروخت) کا معاملہ ہے، لہذا اس پر بیع کے احکامات کا ہی اطلاق کیا جائے گا۔بیع کے احکامات میں سے ایک یہ ہے کہ معاہدہ ہونے کے بعد سامان کی ملکیت بائع سے مشتری کی طرف منتقل ہوجاتی ہے ، چاہے قیمت مکمل ادا کی گئی ہو یا ادائیگی جاری ہو مجمع الفقہ الاسلامی کی قسطوں پر خرید وفروخت کے بارے میں قرار داد کے مطابق :
لا حقَّ للبائع في الاحتفاظ بِملكيَّة المبيع بعد البيع
بائع کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ بیع ہوجانے کے بعد ملکیت کو اپنے پاس محفوظ رکھے[49]۔ جبکہ مروجہ اجارہ میں بینک چیز کی ملکیت کو اپنے پاس رکھتا ہے، اور بعد میں آخری قسط کی ادائیگی کے بعد خود بخود یا پھر الگ معاہدہ کے تحت یا ہدیہ کے ذریعہ سامان کی ملکیت منتقل کی جاتی ہے۔
( چوتھا اعتراض)
ایک معاہدہ میں دو معاہدے‘‘کی قباحت مروجہ اجارہ میں صارف کو ملکیت کی منتقلی کے لئے عموماً بینک کی جانب سے ہدیہ کا وعدہ کیا جاتا ہے ، یا مدت کے اختتام پر رسمی قیمت کے بدلہ فروخت کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ مرابحہ کی بحث میں تفصیلاً گزر چکا ہے کہ کسی معاہدہ میں کسی چیز کا دو طرفہ یا یکطرفہ وعدہ اور اس کا التزام دراصل بذات خود ایک معاہدہ کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے، کیونکہ قانوناً و قضاءلازمی ایفاء ،معاہدہ کی صفت ہے نا کہ وعدہ کی۔لہٰذا اسلامی بینک کا صارف سے کیا گیا وعدہ ایک معاہدہ ہے اور اس طرح اجارہ کے معاہدہ میں دو معاہدے شامل ہیں: اجارہ کا معاہدہ، بیع کا معاہدہ۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اجارہ کے ساتھ بیع کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے ، اور دونوں معاہدوں کو ایک معاہدہ میں جمع کیا جاسکتا ہے ، ڈاکٹر علی قرۃ الداغی کہتے ہیں:’’جمہور فقہاء (مالکیہ ، شافعیہ، اور حنابلہ) نے اجارہ اور بیع کو ایک معاہدہ میں جمع کرنے کو جائز کہا ہے۔ شرح الخرشی میں ہے : ’’اجارہ اور بیع کو ایک معاہدہ میں جمع کرنا جائز ہے ، جیسے کوئی شخص کسی سے کھال خریدے اس شرط پر کہ بیچنے والا اس کھال سے مشتری کو جوتا بنا کر دے گا‘‘[50]۔اسی طرح المغنی میں ہے : ’’اگر دو مختلف قیمت والے عقد ایک عوض کے بدلہ جمع کردئے جائیں ۔۔۔ جیسے وہ یوں کہے : میں تمہیں یہ گھر بیچتا ہوں اور دوسرا گھر کرایہ پر دیتا ہوں ایک ہزار کے عوض ، تو یہ عقد صحیح ہوگا۔[51]
اس کا جواب یہ ہے کہ :
اولاً:
مروجہ اجارہ درحقیقت اجارہ نہیں بلکہ بیع ہے ، کیونکہ اس میں مؤجر(بینک) اور مستاجر(صارف) کا مقصد سامان کی منفعت نہیں ہوتا بلکہ تملیک اور تملک ہوتا ہے ، یعنی چیز بیچنا اور خریدنا مقصود ہوتا ہے ، لہٰذا مروجہ اجارہ میں بیع کا وعدہ ایک معاہدہ میں دو معاہدے کی قباحت کو شامل ہے۔
ثانیاً:
مروجہ اجارہ میں اجارہ اور بیع کے جمع ہونے سے بیع میں غرر اور جہالت داخل ہوجاتی ہے ، چونکہ بیع آخری قسط کی ادائیگی کے ساتھ معلق ہوتی ہے ، اور بیع میں ضروری ہے کہ مبیع(سامان) کی کیفیت سے فروخت کنندہ اور خریدار دونوں مکمل آگاہ ہوں، لیکن مروجہ اجارہ میں بینک اور صارف دونوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ آخری قسط کی ادائیگی تک مبیع (سامان ) کی کیا کیفیت ہوگی ؟بینک صارف سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ اجارہ کی مدت کے اختتام پر یہ چیز اسے بیچ دے گا، اور دونوں کو ہی اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ مقررہ مدت تک چیز باقی بھی ہوگی یا نہیں ، اگر موجود ہوگی تو اس کی کیفیت کیسی ہوگی؟۔
جہاں تک ہدیہ کا تعلق ہے تو یہ ہدیہ اقساط پوری کرنے کے عوض دیا جارہاہے اور اگر ہدیہ کسی عوض کے بدلہ ہو تو اس کا حکم ہدیہ کا نہیں ہوتا بلکہ بیع کا حکم ہوتا ہے ، ایسے ہدیہ کو ہدیۃ الثواب کہتے ہیں ، شرح حدود ابن عرفہ میں ہے :
هبة الثواب.. عطية قصد بها عوض مالي.. وحكمها حكم البيع
ہدیہ ثواب ایسا عطیہ ہے جس میں مالی عوض کا حصول مراد ہو، اور ایسے ہدیہ پر بیع کا حکم لگتا ہے‘‘۔دلیل الطالب میں ہے:
فإن كانت بعوض معلوم فبيع
اگر ہدیہ کسی معلوم عوض کے بدلہ ہو تو وہ بیع ہے۔امام کاسانی رحمہ اللہ بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں:’’اگر وہ ہدیہ دیتے وقت عوض (بدلہ )کی شرط لگادے یعنی وہ یوں کہے کہ : ’’میں تمھیں یہ چیز تحفہ میں دیتا ہوں اس شرط پر کہ تم مجھے وہ کپڑا دو گے‘‘، تو ایسے معاہدہ کی نوعیت میں اختلاف ہے ، ہمارے تینوں اصحاب (امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، اور امام محمد ) یہی کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ہے تو ہدیہ کا لیکن اس کاحکم تجارت کا ہوگا‘‘[52]۔تو واضح ہوا کہ اس ہدیہ کا حکم بھی بیع کا ہی ہے کیونکہ بینک صارف کو یہ ہدیہ اقساط پوری کرنے کے عوض دیتا ہے ، اور چونکہ یہ بیع ہے لہٰذا اس کا وعدہ کرنا ، بیع کا وعدہ ہے اور وعدہ میں جب یکطرفہ یا دو طرفہ التزام ہو تو ایسا وعدہ معاہدہ میں بدل جاتا ہے ، لہٰذا مروجہ اجارہ میں سامان کی ملکیت کی منتقلی کے لئے بینک کا صارف سے ہدیہ کا وعدہ کرنا دراصل دو معاہدوں کو ایک معاہدہ میں جمع کرنا ہے۔
اسلامی بینک کی طرف سے ہدیہ کے حوالہ سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہم یہ ہدیہ اقساط کے بدلہ نہیں دے رہے ، بلکہ یہ محض ہدیہ ہے جو ہم اپنے صارف کو اچھے مراسم کی بنیاد پر دے رہے ہیں ، تو ہمارا اسلامی بینک سے یہ سوال ہے کہ کیا وہ گاڑی اور گھر جو انہوں نے صارف کو اجارہ کے طور پر دیئے تھے اور پانچ سال ، دس سال تک اس کا کرایہ (بقول بینک ) وصول کیا ، کیا بینک وہ گھر اور گاڑی اپنے صارف سے واپس لے سکتا ہے؟، ایک اور سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں غربت اپنی حدوں کو چھو رہی ہے لاکھوں کروڑوں افراد ایسے ہیں جنہیں کوئی رہائش میسر نہیں ، جن کے پاس کوئی سواری نہیں، تو اسلامی بینک ایسے صارف کو جو مہنگی رہائش کے بھی متحمل ہوسکتے ہیں، اور مہنگی سواری بھی خرید سکتے ہیں کو ہی گھر اور گاڑی ہدیہ کرنے پر مصر کیوں ہیں ، کیا وہ یہ گاڑیا ں اور گھر جنہیں وہ بلا عوض اپنے صارفین کو ہدیہ کر رہے ہیں ان غریبوں کو نہیں دے سکتے جو اس کے اصل مستحق ہیں؟۔اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی بینک ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ وہ یہ ہدیہ ان اقساط کے عوض دے رہے ہیں جو انہوں نے وصول کی ہیں ، لہذا اسے ہدیہ نہیں بیع ہی کہا جائے گا۔
خلاصہ کلام
مروجہ اسلامی بینکوں میں رائج اجارہ ، شرعی اجارہ سے عملی اور ماہیتی اعتبار سے بہت مختلف ہے۔
مروجہ اجارہ درحقیقت بیع کا معاملہ ہے اور اس پر بیع کے احکامات کا ہی اطلاق کیا جائے گا۔
مروجہ اجارہ میں درج ذیل شرعی قباحتیں پائی جاتی ہیں:
بینک کا صارف سے اجارہ کی ابتداء میں لیا جانے والا وعدہ جس کا قانوناًالتزام کرایا جاتا ہےیہ وعدہ مروجہ اجارہ کو ’’بیع مالا یملک‘‘ (ایسی چیز کی فروخت جو انسان کی ملکیت میں نہ ہو) جیسی ممنوع بیع کے حکم میں داخل کردیتا ہے۔
بینک کا اجارہ میں مطلوبہ سامان کی خریداری کے لئے صارف ہی کو وکیل مقرر کرنا۔جو اس معاملہ کو سودی تمویل سے مشابہ کردیتا ہے۔
بینک کا مروجہ اجارہ میں کرایہ کے تعین میں شرح سود کو معیار مقرر کرنا ۔جس کے سبب اجارہ میں کرایہ مجہول(نام معلوم) ہوجاتا ہے۔
اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں صارف پر لگایا جانے والا جرمانہ جسے صدقہ کا نام دیا جاتاہے۔
بینک کا سامان کی ملکیت کو اپنے پاس رکھنا۔
ایک معاہدہ میں دو معاہدے کی قباحت۔
ان تمام شرعی اعتراضات کی موجودگی کے سبب اسلامی بینکوں میں جاری اجارہ کا معاہدہ شرعی لحاظ سے صحیح نہیں ۔اس کے ناجائز و حرام ہونے کا فتوی سعودی عرب کی کبار علماء کمیٹی نے بھی دیا ہے اور اس کا بنیادی سبب ایک معاہدہ میں دو معاہدوں کی قباحت قرار دیا ہے۔[53]
مروجہ اجارہ کا شرعی متبادل
مروجہ اجارہ کا حقیقی شرعی متبادل ، قسطوں پر بیع ہے ، اور اس میں بینک کے لئے یہ سہولت بھی ہے کہ وہ چیز فروخت کرنے کے بعد اس کی ملکیت بطور رہن کے اپنے پاس رکھ لے، اور جب اقساط مکمل ہوجائیں تو اس کی ملکیت صارف کو واپس کردی جائے۔یہی وہ متبادل ہے جس کی طرف سعودی عرب کی علماء کمیٹی نے بھی درج بالا فتوی میں رہنمائی کی ہے۔
مشارکہ متناقصہ
Diminishing Musharakah
مشارکہ عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے شراکت داری ۔ اصطلاحی طور پر فقہا ء نے مشارکہ کی مختلف تعریفات کی ہیں جو کہ تقریبا ہم معنی ہیں، ان تعریفات میں سے ایک یہ ہے کہ:
الإجتماع في إستحقاق أو تصرف
‘کسی چیز کے استحقاق (حق ملکیت ) یا اس کے تصرف میں (دو یا دو سے زائد افراد کا) جمع ہوجانا[54]۔ یعنی دو یا دو سے زائد افراد مل کر کوئی چیز خریدیں یا اس کی ملکیت بغیر کسی معاہدہ کے دونوں کو مل جائے ، یا دو یا دو سے زائد افراد مل کر سرمایہ لگا کر کوئی کاروبار شروع کریں اور اس کے منافع میں حصہ دار بنیں۔
مشارکہ کے جواز کی دلیل
اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
﴿ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ﴾
النساء: 12
ترجمہ:’’اگر (میت ) کی وراثت میں (میت کے بھائی بہن ) دو سے زائد ہوں تو وہ مال کے تیسرے حصہ میں شراکت دار ہیں‘‘۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيْهِ شُرَكَآءُ مُتَشَاكِسُوْنَ ﴾
الزمر: 29
ترجمہ: ’’اللہ تعالی مثال بیان کرتا ہے ایسے شخص کی جس (کی ملکیت) میں کئی شراکت دار ہیں جو ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں‘‘۔
اﷲ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَإِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ لَيَبْغِيْ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾
ص: 24
ترجمہ:’’اور بیشک بہت سے شراکت دار ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں ، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے‘‘۔
اسی طرح نبی ﷺکا فرمان ہے:
إن اللّٰه عز وجل يقول : أنا ثالث الشريكين ما لم يخن أحدهما صاحبه فإذا خانه خرجت من بينهما
بیشک اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں دو شراکت داروں کے ساتھ تیسرا ہوں جب تک کہ ان میں سے کوئی اپنے شریک کے ساتھ خیانت نہیں کرتا ، جب وہ خیانت کرتا ہے تو میں ان کے درمیان سے نکل جاتا ہوں۔
مشارکہ کی اقسام
مشارکہ کی بنیادی طور پر دو قسام ہیں :
(۱) شركة الملك۔ (۲) شركة العقد۔
(1) شركة الملك:
اس سے مراد یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد افراد کسی چیز کی ملکیت میں شراکت دار ہوں ۔ یہ ضروری نہیں کہ دونوں کی شراکت داری برابر ہو ۔اور اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ شراکت داری کا سبب خریدو فروخت ہی ہو ، بلکہ وصیت یا ہدیہ وغیرہ کے ذریعہ بھی دو یا دو سے زائد افراد کسی چیز کی ملکیت میں شریک بن سکتے ہیں۔
(2) شركة العقد:
عقد کا مطلب ہے معاہدہ ، اس سے مراد ایسا معاہدہ ہے جس کے ذریعہ دو یا دو سے زائد افراد مال میں یا عمل میں یا دونوں میں شریک (پارٹنر) بنتے ہیں ، اور تمام شرکاء کو مال یا عمل میں تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے ، اور شراکت داری سے وجود میں آنے والے کاروبار و تجارت کا منافع طے شدہ تناسب کے مطابق تمام شرکاء میں تقسیم ہوتا ہےاسے (Joint Commercial Enterprise) کہا جاتا ہے۔ شركة العقد کی مزید پھر کچھ اقسام ہیں :
(1) مال میں شراکت
یہ قسم مالی شراکت کے تناسب ، اور حق تصرف کے لحاظ سے دو اقسام پر مبنی ہے:
عقد کا مطلب ہے معاہدہ ، اس سے مراد ایسا معاہدہ ہے جس کے ذریعہ دو یا دو سے زائد افراد مال میں یا عمل میں یا دونوں میں شریک (پارٹنر) بنتے ہیں ، اور تمام شرکاء کو مال یا عمل میں تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے ، اور شراکت داری سے وجود میں آنے والے کاروبار و تجارت کا منافع طے شدہ تناسب کے مطابق تمام شرکاء میں تقسیم ہوتا ہےاسے (Joint Commercial Enterprise) کہا جاتا ہے۔ شركة العقد کی مزید پھر کچھ اقسام ہیں :
(1) مال میں شراکت
یہ قسم مالی شراکت کے تناسب ، اور حق تصرف کے لحاظ سے دو اقسام پر مبنی ہے:
(1) شركة العنان :
اس سے مراد ایسی شراکت داری ہے جس میں مالی ،عملی شراکت داری کا تناسب ، حق تصرف، منافع کی تقسیم برابری کی سطح پر نہ ہو ، یعنی کسی شریک کا مال زیادہ ہو، کسی کو تصرف کا اختیار زیادہ دے دیا جائے ، اسی طرح کسی شریک کو دیگر شرکاء کی نسبت زیادہ منافع ملے۔ البتہ خسارہ کی صورت میں ہر شریک اپنی مالی شراکت داری کے حساب سے نقصان برداشت کرتا ہے۔
(2) شركة المفاوضة:
اس سے مراد ایسی شراکت داری ہے جس میں تمام شرکاء مالی، عملی شراکت داری، حق تصرف ، منافع کی تقسیم اور خسارہ اٹھانے میں برابر ہوں، اس کے شرعی حکم میں اختلاف ہے اور راجح یہی ہے کہ
شركة المفاوضة
ناجائز ہے۔
(2) عمل میں شراکت
(3) ایک شریک کی جانب سے مال اور دوسرے شریک کی جانب سے عمل
اس شراکت داری کو اصطلاحاً مضاربہ کہتے ہیں۔
مشارکہ متناقصہ کی تعریف:
درج بالا تفصیل ذکر کرنے کا مقصدیہ واضح کرنا تھا کہ مشارکہ متناقصہ شراکت داری کی ایک نئی قسم ہے جس کا ذکر کتب فقہ میں نہیں ملتا اور سب سے پہلے اس کاا ستعمال اسلامی بینک میں ہی کیا گیا ہے۔ متناقصہ نقص سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کمی ۔
مشارکہ متناقصہ سے مراد ایسا مشارکہ ہے جس میں ایک شریک دوسرے شریک کا حصہ تدریجاً خریدنے کا وعدہ کرتا ہے حتی کہ آخر میں وہ شریک پورے اثاثہ کا مالک بن جاتا ہے۔[55]اسلامی بینکوں میں مشارکہ متناقصہ کا استعمال عموماً ٹھوس اثاثہ جات کی تمویل (Fixed Asset Financing) میں کیا جاتا ہے ، اور کبھی کسی کاروبار میں مشارکہ متناقصہ کے ذریعہ مالی تمویل کاری کی ضروریات کو بھی پورا کیا جاتا ہے ۔ شرعیہ اسٹینڈرز کے مطابق مشارکہ متناقصہ کا شمار شركة العقد کی قسم شركة العنان میں سے ہے ۔[56] جبکہ مروجہ اسلامی بینکوں کے تعامل سے یہ محسوس ہوتا ہے وہ اسے شركة الملك کی حیثیت دیتے ہیں۔
اسلامی بینکوں میں مشارکہ متناقصہ کے ذریعہ عموماً جن چیزوں میں تمویل کی جاتی ہے ان میں :
House Financing
Car Financing
Plant and machinery financing
وغیرہ شامل ہیں۔
مشارکہ متناقصہ کی صورت
وضاحت:
(1) سب سے پہلے صارف بینک سے اپنے مطلوبہ سامان کے لئے تمویل (Financing) کی خواہش کا اظہار کرتا ہے ، اور بینک صارف سے مشارکہ کا معاہدہ کرتا ہے۔ اسی معاہدہ میں صارف بینک سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ مطلوبہ سامان میں بینک کا جو حصہ (Share) بنتا ہے وہ الگ الگ (Units) کی صورت میں ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر خریدے گا۔
(2) بینک اور صارف دونوں مل کر مطلوبہ سامان میں مخصوص رقم ادا کرکے ملکیت میں شراکت دار بن جاتے ہیں ، جس میں بینک کا حصہ کم از کم 80 اور زیادہ سے زیادہ 90فیصد تک ہوتا ہے اور اگر کوئی کاروبار ہے تو صارف اور بینک شرکہ العقد کے ذریعہ پارٹنر بن جاتے ہیں۔
(3) صارف اور بینک کے سرمایہ سے مطلوبہ سامان حاصل کیا جاتا ہے یا کوئی کاروبار شروع کیا جاتا ہے۔
(4) اگر مشارکہ متناقصہ کے ذریعہ کوئی سامان خریدا گیا ہے تو مذکورہ سامان کو صارف استعمال کرتا ہے مثلاً: گھر میں رہائش رکھتا ہے یا گاڑی کو استعمال کرتا ہے ، اسی استعمال کو بینک منافع تصور کرتا ہے جو کہ صارف کو مل رہا ہے اور اگر کوئی کاروبار ہے تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی یا منافع بینک اور صارف کے مابین شراکت داری کے تناسب سے تقسیم ہوتا ہے۔
(5) بینک اپنی شراکت داری کو اکائیوں (Units) میں تقسیم کرتا ہے ، مثلاً اگر بینک کا حصہ 80فیصد ہے تو بینک اسے آٹھ آٹھ فیصد کی دس یا دس دس فیصد کی آٹھ اکائیوں(Units) میں تقسیم کرتا ہے، اور صارف اپنے وعدہ کے مطابق مخصوص مدت میں ان اکائیوں کو خریدنے کا پابند ہوتا ہے ، حتیٰ کہ آخری اکائی کی خریداری کے ساتھ ہی شراکت داری ختم ہوجاتی ہے اور صارف اس چیز کی مکمل ملکیت حاصل کرلیتا ہے۔اور جب تک وہ ان اکائیوں کو مکمل خرید نہیں لیتا اس وقت تک چونکہ وہ محصولہ سامان میں بینک کا حصہ استعمال کر رہا ہے لہذا وہ بینک کو اس کے حصہ کے تناسب سے کرایہ ادا کرتا ہے۔
اس مکمل وضاحت کی روشنی میں مشارکہ متناقصہ کی صورت یوں بنتی ہے کہ گھر کی خریداری کا خواہش مند صارف بینک سے مشارکہ کی بنیاد پر گھر خریدنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے ، بینک اور صارف سرمایہ لگا کر ایک گھر جس کی قیمت مثلاً دس لاکھ روپے ہو خریدتے ہیں ، اس میں صارف دو لاکھ روپے ادا کرتا ہے اور بینک آٹھ لاکھ روپے ، اس طرح صارف کا اس شراکت داری میں حصہ بیس فیصد ہوتا ہے اور بینک کا اسی فیصد، پھر مشارکہ کی ابتداء میں کئے گئے معاہدہ کے مطابق صارف متعین مدت میں بینک کا حصہ خریدتا ہے ، بینک اپنے حصہ کو اکائیوں (Units) میں تقسیم کرتا ہے، مثلاً وہ ایک لاکھ کے آٹھ یونٹس بناتا ہے اور صارف اپنے وعدہ کے مطابق ہر تین مہینہ بعد ایک یونٹ خریدنے کا پابند ہوتا ہے۔
مروجہ مشارکہ متناقصہ پر شرعی اعتراضات
( پہلا اعتراض):
بینک کا صارف سے وعدہ لینا کہ وہ شراکت داری کے ذریعہ حاصل کردہ سامان میں بینک کا جو حصہ بنتا ہے اسے مختلف اکائیوں (Units) کی صورت میں خریدے گا۔
بینک یہ وعدہ صارف سے اس وقت لیتا ہے جب ابھی مشارکہ کی تکمیل نہیں ہوتی اور نہ ہی ابھی کوئی سامان خریدا گیا ہوتا ہے، یعنی مشارکہ کی ابتداء ہی میں مشارکہ کے تناقص (Diminish) کا عہد لے لیا جاتا ہے۔ اس وعدہ کی وجہ سے مشارکہ متناقصہ میں کئی شرعی اشکالات وارد ہوتے ہیں:
(1) سرمایہ کی ضمانت
مشارکہ میں دو یا دو سے زائد افراد نفع اور نقصان کی بنیاد پر شراکت داری کرتے ہیں ، اگر نفع ہو تو طے شدہ بنیاد پر تقسیم ہوجاتا ہے ، اور اگر نقصان ہو تو شراکت داری کے تناسب سے ہر شریک نقصان اٹھاتا ہے اور اس میں کسی کو استثناء نہیں ہوتا، اور مشارکہ میں کسی بھی شریک کے سرمایہ کی ضمانت نہیں دی جاتی ،یہی بات مشارکہ کو سودی معاملہ سے الگ کرتی ہے۔ لیکن مروجہ مشارکہ میں بینک کا صارف سے مشارکہ کی ابتداء ہی میں یہ وعدہ لے لینا کہ بینک کا جو حصہ بنتا ہے وہ صارف خریدے گا اور جب تک وہ بینک کا حصہ خرید نہیں لیتا وہ بینک کو کرایہ بھی ادا کرے گا، اور پھر اس وعدہ کو قانوناً لازمی ایفاء کرانادراصل مشارکہ میں سرمایہ کی ضمانت لینا ہے ، اور یہ صورت بالکل یوں ہی بن جاتی ہے جیسے کوئی شخص کسی کو مکان خریدنے کے لئے دس لاکھ روپے قرض دے پھر اس سے گیارہ لاکھ روپے وصول کرے، یعنی مشارکہ میں سرمایہ کی ضمانت لینے یا ضمانت دینے سے مشارکہ سودی معاملہ کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔
(2) ایک معاہدے میں دو معاہدے
مشارکہ متناقصہ میں بینک مشارکہ کے معاہدے کے ساتھ ہی صارف سے وعدہ لیتا ہے کہ وہ موجودہ مشارکہ میں بینک کا جو حصہ بنتا ہے اسے ضرور خریدے گا، اسے بینک وعدہ کا نام دیتے ہیں جبکہ اس وعدہ کا قانوناً التزام کرایا جاتا ہے ، اور یہ بات گزشتہ صفحات میں بارہا مقام پرتفصیل کے ساتھ ذکر ہوئی ہے کہ ایسا وعدہ جس میں قانوناً التزام کا عنصر پایا جائے وہ دراصل معاہدہ ہے ، وعدہ نہیں۔اور اس تفصیل کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ مروجہ مشارکہ متناقصہ میں بھی یہ قباحت موجود ہے کہ ایک معاہدے میں دو معاہدے جمع کردئیے جاتے ہیں۔
(3) بيع ما لا يملك (ایسی چیز فروخت کرنا جس کا وہ مالک نہ ہو) کی قباحت
بینک صارف سے مشارکہ کے آغاز ہی میں یہ وعدہ لے لیتا ہے کہ صارف بینک کا حصہ خریدے گا، اورجس وقت یہ وعدہ لیا جاتا ہےاس وقت مطلوبہ سامان کی ملکیت حاصل کرنا تو الگ بات ، وہ سامان ابھی خریدا بھی نہیں گیا ہوتا، اور جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ جس وعدہ کا قانوناً التزام کرایا جاتا ہو اس کی حیثیت معاہدے کی ہوتی ہے، تو گویا اس معاہدے کے ذریعہ بینک ایساسامان صارف کو بیچ رہا ہے جوکہ ابھی خود بینک کے پاس موجود نہیں ، اور ایسی خرید وفروخت شرعاً جائز نہیں۔
( دوسرا اعتراض):
بینک کے (Units) خریدنے میں صارف کی طرف سے تاخیر کی صورت میں ’’صدقہ‘‘کا التزام:
جیسا کہ مرابحہ اور اجارہ کی بحث میں یہ ذکر ہوا کہ کسی بھی مالی معاملہ میں ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اگر قرضدار جان بوجھ کر تاخیر کا مرتکب ہوا ہو تو اس پر مالی جرمانہ کے علاوہ کوئی اور سزا دی جاسکتی ہے، اور جہاں تک بات ہے صدقہ کی تو یہ دراصل مالی جرمانہ ہے اور قطعاً حرام ہے۔
لیکن مشارکہ متناقصہ میں صدقہ کا التزام نہایت حیران کن ہے، کیونکہ مروجہ مشارکہ میں صارف بینک سے (Units) خریدتے وقت ہر (Unit) کے لئے الگ معاہد ہ کرتا ہے جس میں ہر دفعہ الگ ایجاب و قبول ہوتا ہے کیونکہ بینک محصولہ سامان میں خود کو شریک تصور کرتا ہےگویا کہ وہ سامان میں حق ملکیت رکھتا ہے اور صارف نے جب بھی شراکت داری میں اپنا حصہ بڑھانا ہو تو وہ بینک سے ان (Units) کوخریدتا ہے جو کہ محصولہ سامان میں بینک کی حق ملکیت و شراکت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ (Units) بینک کی ملکیت ہیں اور ہر دفعہ صارف یکمشت ادائیگی کر کے ایک ایک (Unit) الگ الگ خریدتا ہے تو وہ شرعاً و قانوناً بینک کا قرضدار تو نہ ہوا، پھر تاخیر اور سبب تاخیر پر بحث کیوں ہو؟ پھر صارف پر صدقہ کا التزام چہ معنی دارد؟ اور اگر بینک صارف کو اپنا قرضدار سمجھتا ہے اور اس کی نظر میں ان اکائیوں (Units) کی قیمت صارف پر قرض ہے ، تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ صارف ان (Units) کا مالک ہے اور اب اس نے صرف ان کی قیمت ادا کرنی ہے، اگر ہم اس بات کو تسلیم کریں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ پھر بینک ان (Units) کا کرایہکیوں وصول کرتا ہے؟ ، وہ تو حق ملکیت وحق شراکت ہی نہیں رکھتا کہ اپنے حصہ کو استعمال کرنے پر صارف سے کرایہ کا تقاضا کرے ؟۔
الغرض یہ کہ صدقہ کا التزام اور اس کی منطق مرابحہ اور اجارہ میں تو پھر کسی حد تک معقول نظر آتی ہے اگرچہ شرعاً وہ ناجائز ہی سہی، لیکن مشارکہ متناقصہ میں تو صدقہ کا التزام دائرہ معقولیت سے بھی خارج ہے چہ جائیکہ ہم اس پر کوئی شرعی بحث کریں۔
مشارکہ متناقصہ کی مجوزہ شرعی صورت
مشارکہ متناقصہ کی درست شرعی صورت اسی وقت بن سکتی ہے جب اس میں وارد شرعی اعتراضات کو ختم کیا جائے:
(1) بینک مشارکہ کے آغاز میں صارف سے وعدہ لے سکتا ہے کہ صارف بینک کا حصہ خریدے گا، لیکن اس وعدہ کا قانونی التزام نہ ہو۔
(2) مشارکہ کا معاہدہ اور مشارکہ میں بینک کا اپنا حصہ بیچنے کا معاہدہ الگ الگ ہونا چاہئے، دونوں معاہدوں کو ایک ہی معاہدے میں جمع نہ کیا جائے۔
(3) مشارکہ متناقصہ میں صدقہ کا کوئی جواز نہیں ،چونکہ یہ ایک خریدو فروخت کا معاہدہ ہے لہذا اس میں بینک صارف پر کوئی جبر و زبردستی نہیں کرسکتا، البتہ اتنا ضرور کیا جاسکتا ہے کہ صارف پر یہ واضح کردیا جائے کہ اگر وہ بینک سے اس کا حصہ نہیں خریدے گا تو بینک اپنا حصہ (Share) کسی اور کو فروخت کرنے میں آزاد ہوگا۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، مروجہ اسلامی بینکوں کے سرکردہ افراد کو یہ توفیق دے کہ وہ انہیں حقیقی اسلامی مالیاتی و تجارتی ادارہ بنائیں اور پوری دنیا میں سودی اقتصادی نظام کی بیخ کنی کر کے عالمی اسلامی اقتصادی نظام کے نفاذ کو ممکن بنائیں۔
واللّٰہ اعلم وصلی اللّٰہ وسلم علی نبینا محمد
[1] البناية في شرح الهداية 6/486 [2] بدائع الصنائع للكاساني 7/3163. [3] المغني 4/259 4روضة الطالبين للنووي 3/526 [4] اسلامی بینکاری کی بنیادیں۔ ص 8 [5] کانفرنس اسلامی بینک دبئی 1979ء۔ مجلہ مجمع فقہ اسلامی ع 5 ، ج 2 ، ص 753 [6] اسلامی بینکاری ۔غلط فہمیوں کا ازالہ، ص 46 2العقود الدرية لابن عابدين ،ج / 2، ص321 [7]الفروق للقرافی، [8] س 56 2القوانين الفقهية 407 [9] المقدمات 2/58 [10] المنتقی 5/38 [11] الاستذکار 19/255 [12] التنبيهات 2/604 [13] بحوث فقهية في قضايا اقتصادية عصرية ص 96 [14] بحوث في المصارف الاسلامية ،ص 253 [15] بيع المرابحة للواعد الملزم لشراء ، ص 21 [16]مجلة المجمع الفقه الاسلامی، ع 5 ، ج 2 ، ص 945 – 989 [17] سابق مصدر [18] سابق مصدر [19] الترمذی: کتاب البیوع، باب ماجاء فی کراھیۃ بیع ما لیس عندک (صحیح) [20] Murabaha document # 1 , Clause 1.02 State Bank of Pakistan [21] اسلامی بینکاری کی بنیادیں:ص: [22] An Introduction of Islamic Finance (82) [23] المعايير الشرعية: المرابحة ، رقم المعيار 4 / 6،ص 96 [24] Murabaha document # 1 , Clause 10.1 State Bank of Pakistan [25] اسلام اور جدید معیشت و تجارت 144 – [26] تحرير الكلام في مسائل الالتزام، ص 170-172 [27] عقود رسم المفتی ،ص 4 [28] صحیح بخاری:کتاب الحوالات، باب الحوالۃ و ھل یرجع فی الحوالۃ [29] سنن أبي داؤد کتاب الاقضیۃ، باب فی الحبس فی الدین وغیرہ(حسن) [30] سنن أبي داؤد ،3628، أيضاً [31] أحکام القرآن للجصاص ص 647 [32] 3تفسير القرطبی 3/ 67 [33] الاستذکار 20/ 259 5سنن البيهقي 5 / 350-351 [34] المغني لابن قدامة 4/354 [35] دراسات في أصول المداينات، ص 291 [36] اسلامی بینکاری کی بنیادیں، ص 108 [37]الشرق الاوسط۔ 24/10/2010 [38] Islamic Banking in the Mena Region, Salman Syed Ali (page 18) [39] Handbook of Islamic Banking Products & Services (page : 4) [40] Islamic Banking Bulletin , September 2012 , SBP (page 11) [41] الروض المربع شرح زاد المستقنع ، ص 318 اورحاشيۃ ابن عابدين 9/6 – 7 [42] Wikipedia, (Hire – Purchase) [43] البيع بالتقسيط والبيوع الائتمانيَّة الأخرى،ص: 315 – 317 [44] مجلة مَجْمَع الفقه الإسلامي، العدد الخامس 4/ 2599 [45] البيع بالتقسيط، ص: 195 [46] الإجارة المنتهية بالتمليك ص :2 [47] القانون المدَنِي المصري، شق نمبر 430 [48] القانون التجاري الكويتِيِّ، شق نمبر 140 [49] مجمع فقہ الإسلامی کا فیصلہ نمبر (53 – 6/2) [50] شرح الخرشي على مختصر خليل: (7/4) [51] المغني لابن قدامة: (4/260) [52] بدائع الصنائع :6\ 132 [53] توی کبار علماء کمیٹی ۔ تاریخ فتوی (29/10/1420ھ) [54] المغنی لابن قدامة (5/ 3) [55] المعايير الشرعية (171) [56] المعايير الشرعية (171)