ماہِ ربیع الاول اسلامی تاریخ میں ایسا مہینہ ہےجس میں محسنِ انسانیت جناب محمد رسول اللہ ﷺ اس کائنات میں تشریف لائے اور اسی مہینے میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی ۔ چنانچہ جمہور محدثین اور مؤرخین کے راجح اور مختار قول کے مطابق آپ ﷺ 9ربیع الاول کو پیدا ہوئےاور 12 ربیع الاول کو اس کائنات سے رخصت ہوگئے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک مقام پر آپ ﷺ کی بعثت کو اہل کائنات کے لئے باعثِ رحمت جبکہ دوسرے مقام پر مؤمنوں کیلئے احسان قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
(سورۃ آل عمران: 164)
ترجمہ: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیات پڑھتا، ان (کی زندگیوں) کو سنوارتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
جب آپﷺ کی بعثت امت کیلئے باعثِ رحمت اور احسان ہیں تو بحیثیت امتی ہم پر آپﷺ کے کچھ حقوق بھی ہوں گے۔ لہذا ہر مسلمان کا یہ دینی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ اسے اپنے پیارے نبی کی سیرت کے حوالے سے یہ علم ہو کہ نبیﷺ کے امتی ہونے کی حیثیت سے اُس پر کیا کیا حقوق ہیں جن کی ادائیگی کے بغیر کوئی بھی اپنے آپ کو نبی ﷺ کا سچا امتی ہرگز نہیں کہلا سکتا۔ درج ذیل سطور میں امت پر لازم ہونے والے رسول اللہﷺ کے حقوق کو چند عناوین کے تحت بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پہلا حق : نبی كریم ﷺ پر ایمان لانا ۔
نبی ﷺ کے حقوق میں پہلا حق آپ ﷺ پر ایمان لانا ہے ۔چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللہِ وَرَسُولِهِ
(سورۃ النسآء: 136)
ترجمہ: اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر
فَآمِنُوا بِاللہِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا
(سورۃ التغابن: 8)
ترجمہ: لہٰذا اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس نور (قرآن) پر بھی جو ہم نے نازل کیا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی نبوت و رسالت اور جو کچھ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں ان تمام پر ایمان لانا اور دل سے انہیں سچا ماننا ہر امتی پر فرض عین ہے۔رسول پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا۔ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :
وَمَن لَّمْ يُؤْمِن بِاللہِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَعِيرًا
(سورۃ الفتح: 13)
ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو ایسے کافروں کے لئے ہم نے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔
یہاں ہمیں اللہ تعالیٰ پر، اس کے رسولوں پر، قرآن کریم پر اور سابقہ کتب پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ تمام ایمان واجب میں سے ہیں جس کے بغیر کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا۔ جس چیز کے بارے میں تفصیل نہیں پہنچی اس پر اجمالاً ایمان لانا فرض ہے اور جہاں تفصیل معلوم ہے وہاں تفصیلاً ایمان لانا فرض ہے۔ جو کوئی اس مامور طریقے پر ایمان لاتا ہے وہی ہدایت پا کرکامیاب ہوتا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللہَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ
(سورۃ الانفال: 20)
ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور رسول کے حکم کو سن کر اس سے روگردانی نہ کرو ۔
اسی طرح ایک اور جگہ اللہ نے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللہِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللہِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
(سورۃ النسآء: 136)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ پر، اس کے رسول پر اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے۔ نیز اس کتاب پر بھی جو اس سے پہلے اس نے نازل کی تھی۔ اور جو شخص اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت کا انکار کرے تو وہ گمراہی میں بہت دور تک چلا گیا ۔
یعنی اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاو ۔ نبی ﷺ پر ایمان لانا یہ آپ ﷺ کا بنیادی حق ہے ،آخری نبی کی حیثیت سے ، اور ہم آخری امتی ہونے کی حیثیت سے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ :
أُمِرْتُ أنْ أُقاتِلُ النَّاسَ حتَّى يَشْهَدُوا أنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، ويُؤْمِنُوا بي، وبِما جِئْتُ به، فإذا فَعَلُوا ذلكَ، عَصَمُوا مِنِّي دِماءَهُمْ، وأَمْوالَهُمْ إلَّا بحَقِّها، وحِسابُهُمْ علَى اللہِ
( صحيح مسلم: 21)
ترجمہ: مجھے اللہ کا یہ حکم ہے کہ لوگوں سے لڑوں ،ان سے جنگ کروں ، اُس وقت تک جب تک وہ اللہ کی توحید کو قبول نہ کر لیں ۔ اور مجھ پر ایمان نہ لائیں ۔ صرف مجھ پر ہی نہیں بلکہ (وبِما جِئْتُ به )اللہ کی طرف سے جو وحی میں لیکر آیا ہوں اس پر بھی ایمان لائیں ۔ ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی تصدیق ہو ، زبان سے اقرار ہو ، دل سے تصدیق ہو ، اور پھر عمل اس اقرار اور تصدیق کے مطابق ہو ۔
قرآن پاک میں اللہ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللہِ وَاللہُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللہُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ
(سورۃ المنافقون: 1)
ترجمہ: جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ تو یقیناً اللہ کا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ بلاشبہ تو یقیناً اس کا رسول ہے اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلاشبہ یہ منافق یقیناً جھوٹے ہیں۔
اس آیت میں منافقوں کو جھوٹا کیوں کہا گیا حالانکہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کی رسالت کی گواہی دے رہے ہیں ۔ یہاں منافقوں کو جھوٹا اس لیے کہا گیا کیونکہ رسالت کی گواہی ان کے دل میں نہیں تھی بلکہ زبان پر تھی ۔ تو معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کو زبان سے بھی نبی ہونے کا اقرار کرنا ، پھر دل سے بھی سچا نبی ماننا اور پھرعمل سے بھی ثابت کرنا۔ یہ ہے ایمان برسول اللہ اور یہ سب سے پہلا حق ہے ۔
دوسرا حق: نبی ﷺ کی اطاعت کرنا ۔
نبی ﷺ کے حقوق میں دوسرا حق یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اطاعت کی جائے ۔ آپ ﷺ کی اطاعت ہم پر واجب ہے ۔ ، اطاعت ِرسول کا مطلب یہ ہے کہ جس بات کا حکم دیا ہے اس کو بغیر کسی چوں وچرا کے مان لینا ۔
اطاعت رسول دین کے اہم ستون میں سے ہے ۔اللہ پاک قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اطاعت رسول کا حکم دیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللہِ
(سورۃ النسآء: 64)
ترجمہ: اور ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے ہیں ، اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے ۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللہَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ
(سورۃ محمد: 33)
ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو ۔ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو۔
یعنی اعمال کے قبول ہونے کی شرط یہ ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا پابند رہے۔ اگر کوئی شخص اطاعت سے نکل کر مخالفت پر اتر آئے اور دشمنوں کے ساتھ ساز باز شروع کر دے تو اس کے سارے اعمال باطل ہیں، خواہ وہ اپنے خیال میں کتنے اچھے عمل کرتا رہے، جیسا کہ منافقین تھے کہ انہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اور عہدِ اطاعت کے بعد مخالفت کا راستہ اختیار کیا۔ گویا آیت کا مطلب یہ ہواکہ ہر عمل جس میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ ہو اور وہ ان کے بتائے ہوئے طریقے پر نہ ہو وہ باطل ہے، کیونکہ عمل کی قبولیت کے لیے اخلاص اور اتباع سنت شرط ہے، جیسا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ.
(صحيح مسلم: 1718)
ترجمہ: جو شخص وہ عمل کرے جس پر ہمارا عمل نہیں وہ مردود ہے۔‘‘
ایک مقام پر اللہ پاک نے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دے دیا ۔ چنانچہ فرمایا:
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللہَ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا
(سورۃ النسآء: 80)
ترجمہ: جو رسول کی فرماں برداری کرے تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تجھے ان پر کوئی نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔
چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور مبلغ ہیں، اس لیے ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسرے شریعت کے احکام سب ایسے ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توضیح کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں، لہٰذا قرآن مجید سمجھنے کے لیے کوئی شخص سنت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے۔
تیسرا حق : اتباعِ سنت :
نبی ﷺ کے حقوق میں تیسرا حق آپ ﷺ کی سنت کی اتباع اور پیروی کی جائے ۔آپ ﷺکی سنتوں کو اپنانا ہر امتی کی ذمہ داری ہے کیونکہ آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل دنیا وآخرت دونوں میں فلاح و نجات کا سبب ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللہَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللہُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(سورۃ آل عمران: 31)
ترجمہ: کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہیں تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
اس آیت میں رسول کریم ﷺ کی اتباع و پیروی کو محبت خداوندی کی دلیل قرار دی گئی ہے، گویا اتباعِ رسول کے بغیر اگر کوئی شخص اللہ سے محبت کا دعویٰ کرے تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام فرمایا گیا :
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللہَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
(سورۃ الأحزاب: 21)
ترجمہ: بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔
اطاعت اور اتباع میں فرق
کسی کی بات سے اتفاق کرنا اور اسے تسلیم کرنا اطاعت کہلاتا ہے۔ جبکہ عملی قدم اٹھانے کو اتباع کہتے ہیں۔مثلاً ہم جب بھی کوئی بات سنتے ہیں اگر وہ اچھی لگے تو اسے مان لیتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں، پس بات ماننا اطاعت ہے اور اس پر عمل کرنا اتباع ہے یعنی پہلے اطاعت کی جاتی ہے پھر اتباع کیا جاتا ہے کیونکہ جب تک آپ کہنے والے کی بات سے متفق نہیں ہوتے اس کی بات پر عمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اطاعتِ رسول اور اتباعِ رسول ﷺ میں معمولی سا فرق ہے۔ اطاعتِ رسول کے معنی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرقول اورحکم کو تسلیم کیا جائے اور اتباع کے معنی ہیں کہ جو افعال آپ ﷺنے جس طرح سے انجام دئے ان کو اسی طرح سے انجام دیا جائے- یعنی جو کچھ آپ ﷺ نے کیا اور جس طرح سے کیا اس طرح سے ہم بھی کریں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ أَطِيعُوا اللہَ وَالرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ
(سورۃ آلعمران: 32)
ترجمہ: کہہ دے اللہ اور رسول کی اطاعت کرو پھراگر وہ منہ موڑیں تو اللہ انکار کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
یعنی رسول اللہ کی بات ماننا اطاعتِ رسول ہے اور رسول جو چیز پیش کرتا ہے اس پر عمل کرنا اتباع رسول ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ
(سورۃ الأعراف: 3)
ترجمہ: جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو،یعنی اس پر عمل کرو۔
آپ ﷺ کے تمام اقوال، افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لئے آپ ﷺ کی اتباع ضروری ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا معاشرت سے، معیشت سے ہو، یا سیاست سے، زندگی کے ہر شعبے میں آپﷺ کے فرامین اور ہدایات واجب الاتباع ہیں۔
چوتھا حق : رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنا۔
نبی کریم ﷺ کے حقوق میں چوتھا حق یہ ہے کہ آپ ﷺ سے ہر چیز سے بڑھ کر محبت ہو ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللہُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
(سورۃ التوبۃ: 24 )
ترجمہ: (اللہ تبارک وتعالٰ نے اس آیت کے اندر آٹھ چیزوں کا نام لیا ہے) کہ دے اگرتمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو اللہ کے امر کا انتظار کرو، اللہ کا امر کیا ہے ؟ وہ تمہاری ہلاکت اور بربادی کا امر ہے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اسی لیے نبی كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فَوَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ لَا يُؤْمِنُ أحَدُكُمْ، حتَّى أكُونَ أحَبَّ إلَيْهِ مِن والِدِهِ ووَلَدِهِ والنَّاسِ أجْمَعِينَ.
(صحيح البخاري: 15)
ترجمہ: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں جب تک میں اس کو اس کے والد سے، اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ جاؤں۔ یعنی تمام چیزوں سے بڑھ کر نبی کریم ﷺ سے محبت یہ نبی ﷺ کا حق ہے ۔
اگرچہ دنیا کی یہ ساری چیزیں اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت بھی ناگزیر اور قلوب انسانی میں ان سب کی محبت بھی طبعی ہے (جو مذموم نہیں) لیکن اگر ان کی محبت اللہ اور رسول کی محبت سے زیادہ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے میں مانع ہو جائے، تو یہ بات اللہ کو سخت ناپسندیدہ اور اس کی ناراضگی کا باعث ہے اور یہ وہ فسق (نافرمانی) ہے جس سے انسان اللہ کی ہدایت سے محروم ہو سکتا ہے۔
احادیث میں نبیﷺ نے بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے ، مثلا: ایک موقع پر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا: ”یا رسول اللہ! مجھے آپ، اپنے نفس کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں“۔ آپ ﷺنے فرمایا ”جب تک میں اس کے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اس وقت تک وہ مومن نہیں“، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ”پس واللہ! اب آپ مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں“۔ آپﷺنے فرمایا: ”اے عمر! اب تم مومن ہو“۔
پانچواں حق: رسول اللہ ﷺ کی تعظیم وتوقیر کرنا ۔
نبی کریم ﷺ کے حقوق میں سے پانچواں حق یہ ہے کہ دل وجان سے نبی کریم ﷺ کی اعلی درجے کی تعظیم اور توقیر کی جائے ، رسول اللہ ﷺکی تعظیم وتوقیرایک واجب عمل ہے، کیونکہ نبی ﷺ کی تحقیر کرنے کا مطلب کفر کا ارتکاب اوردین اسلام سے ارتداد ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ، لِّتُؤْمِنُوا بِاللہِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
( سورۃ الفتح :8،7)
ترجمہ: اے میرے نبی ! ہم نے بے شک آپ کو گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ، تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، اور اللہ کے دین کو قوت پہنچاؤ، اور اس کی توقیرکرو، اور صبح و شام اس کی پاکی بیان کرو۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
(سورۃ الحجرات: 2)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی اس کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا
(سورۃ النور: 63)
ترجمہ: مسلمانو ! رسول کے بلانے کو تم آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی طرح نہ بناؤ۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے رتبے کا احترام کرتے ہوئے نبی رحمت ﷺ کو فقط نام لے کر بلانے سے متعلق فرمایا کہ جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کا نام لے کر بلاتے ہو اس طرح نبی ﷺ کو نہ بلایا کرو بلکہ نبی ﷺ کو نبوت ورسالت کے القاب سے بلایا کرو ، ان آیات سے نبی ﷺ کے احترام وتوقیر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔
تعظیم رسول اللہ ﷺ کا مفہوم
رسول اللہ ﷺکی تعظیم سے مراد آپ ﷺسے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیزکا ادب و احترام ہے جیسے آپ کا اسم مبارک ، آپ کے ارشادات ، اقوال ، سنتیں، آپ کی ازواج مطہرات ، اہل بیت عظام ، صحابہ کرام ،آپ ﷺ کے شہروں کی تعظیم ہے یہ سب احترام ، محبت ،توقیر وتعظیم رسول ﷺمیں داخل ہے ۔اور ان سب کا احترام ، تعظیم اور توقیر واجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نےرسول اللہ ﷺ کی شان کی تعظیم وتوقیر میں ازواج مطہرات کو رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی اور سے نکاح حرام قرار دیا ہے ۔
ثمامہ بن آثال کا واقعہ
ثمامہ بن آثال ایک مشرک تھا ۔ نبی ﷺ پرایمان لے آیا ، ایمان لانے کے بعد اللہ کے نبی ﷺ سے کہتا ہے کہ اب سے کچھ دیر پہلے اس دنیا میں سب سے زیادہ منحوس اور سب سے زیادہ قابل نفرت آپ ﷺ کا دین تھا ۔ اب سب سے زیادہ پیارا اور محبت کے قابل آپ کا دین بن چکا ہے ۔ پھر کہا کہ اب سے کچھ دیر پہلے آپ ﷺ کا چہرہ میرے نزدیک سب سے زیادہ منحوس اور قابل نفرت تھا ۔ اب سب سے زیادہ پیارا اور محبوب آپ ﷺ کا چہرہ ہے ۔ اب سے کچھ دیر پہلے پوری کائنات میں سب سے زیادہ منحوس اور قابل نفرت آپ ﷺ کا شہر تھا ۔ اور اب سب سے زیادہ محبت کے قابل آپ ﷺ کا شہر مدینہ بن چکا ہے ۔ یہ اللہ کے پیغمبر کے تعظیم کے تقاضے ہیں کہ آپ ﷺ کی بات کی تعظیم ہو ۔ آپ ﷺ کے دین کی تعظیم ہو ۔ آپ ﷺ کے فرامین کی تعظیم ہو ۔ آپ ﷺ کے ازواج مطہرات کی تعظیم ہو ۔ اور آپ ﷺ کے شہروں کی تعظیم ہو ۔
چھٹا حق : رسول اللہ ﷺ سے خیر خواہی کی جائے
رسول اللہ ﷺ کے حقوق میں سےچھٹا حق یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکمل خیر خواہی ہو ۔ اس کی د لیل آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الدِّينُ النَّصِيحَةُ. قُلْنا: لِمَنْ؟ قالَ: لِلہِ ولِكِتابِهِ ولِرَسولِهِ ولأَئِمَّةِ المُسْلِمِينَ وعامَّتِهِمْ.
(صحيح مسلم: 55)
ترجمہ: کہ دین خیر خواہی کا نام ہے صحابہ کرام نے پوچھا کس کیلئے خیر خواہی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک اللہ کیلئے ۔ دوسرا اللہ کی کتاب کیلئے ۔ تیسرا اللہ کے رسول کیلئے ۔ اور چوتھا مسلمان حکمرانوں کیلئے اور پانچواں عامۃ الناس کیلئے ۔
یہاں اللہ کے رسول کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ پر ایمان لائیں ۔ آپ ﷺ کے دین کو قبول کیا جائے ۔ آپ ﷺ کے دین کو دنیا کے کونوں تک پہنچایا جائے ۔ آپ ﷺ کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ آپ ﷺ کے مشن کی آبیاری کی جائے ۔ آپ ﷺ کے دین کو سمجھا جائے ۔ اور پھر دعوت کے ذریعہ آپ ﷺ کے دین کو پھیلایا جائے ۔
امام خطابی رحمہ الله اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
فمعنى النَّصِيحَة لله سبحانه، صحة الاعتقاد في وحدانيته، وإخلاص النية في عبادته، والنَّصِيحَة لكتاب الله، الإيمان به والعمل بما فيه، والنَّصِيحَة لرسوله، التصديق بنبوته، وبذل الطاعة له فيما أمر به ونهى عنه، والنَّصِيحَة لأئمة المؤمنين، أن يطيعهم في الحقِّ، وأن لا يرى الخروج عليهم بالسيف إذا جاروا، والنَّصِيحَة لعامة المسلمين إرشادهم إلى مصالحهم .
(معالم السنن للخطابي:4/126)
ترجمہ: الله تعالیٰ كیلئے خیرخواہی کا معنی یہ ہے کہ اس کی توحید پر صحیح اعتقاد ہواور اس کی عبادت میں اخلاص نیت ہو، الله كی کتاب كیلئے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا، الله كے رسول كیلئے خیر خواہی كا معنی یہ ہے کہ اس کی نبوت پر ایمان لانا، اور جس چیز کا حکم اور منع کیا ہے اس میں اس کی اطاعت کرنا، اور مسلمان حکمرانوں كیلئے خیر خواہی یه هے كه حق بات میں ان كی اطاعت کرنا اور اگر وہ ظلم کریں تو تلوار سے ان کے خلاف بغاوت نہ کریں، اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ ان کے مفادات کی طرف رہنمائی کریں۔
ساتواں حق : رسول اللہ ﷺ کی مخالفت نہ کی جائے ۔
رسول اللہ ﷺ کے حقوق میں سے ساتواں حق یہ ہے کہ رسول ِکریم ﷺ کی مخالفت سے گریز کیا جائے ۔ اور جو دین آپ ﷺ نے دیا ہے اس میں کوئی کمی نہ کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(سورۃ النور: 63)
ترجمہ: جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائیں یا انھیں کوئی دردناک عذاب پہنچ جائے۔
آیت کا یہ حصہ اس بات کی دلیل ہے کہ زندگی کے تمام امور کو نبی کریم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت اور ان کی سنت کی کسوٹی پر پرکھنا واجب ہے، جو چیز آپ کی سنت کے مطابق ہوگی اسے قبول کرلیا جائے گا، او جو قول و عمل اس کے مخالف ہوگا اسے رد کردیا جائے گا، چاہے کہنے یا کرنے والا کوئی بھی انسان ہو۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو لوگ اللہ کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ دنیا میں فتنوں کا شکار ہوں گے ۔ مصیبتوں کا شکار ہوں گے ۔ انہیں کہیں سکون نہیں ملے گا ۔ اور آخرت میں بھی دردناک عذاب ہوگا ۔ لہذا آپ ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سنتوں کی مخالفت نہ کی جائے ۔بلکہ ہو بہو ان کی اتباع کی جائے ۔ اور پیروی کی جائے ۔
آٹھواں حق : رسول اللہ ﷺ کو حاکم تسلیم کیا جائے
رسول اللہﷺ کے حقوق میں سے آٹھواں حق یہ ہے کہ اختلافات اور تنازعات کی صورت میں آپ ﷺ کی طرف رجوع کیا جائے ۔ چونکہ اختلافات اور تنازعات کا پیدا ہوجانا ممکن ہے اور کثرت سے اختلافات پیدا ہو رہے ہیں تو ان اختلافی امور میں اللہ کے رسول ﷺ کو فیصل اور حاکم ماننا ۔ اور جو فیصلہ آپ ﷺ فرما دیں اس کو بغیر کسی تنگی کے قبول کرنا ۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ :
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(سورۃ النسآء: 65)
ترجمہ: (اے محمد ﷺ !) تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے اختلافات اور تنازعات میں آپ کو حکم (فیصلہ کرنے والا) تسلیم نہ کرلیں پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں كوئی کھٹک ، تنگی ،ملال ، افسوس اور گھٹن محسوس نہ کرے اور اس فیصلہ پر پوری طرح سر تسلیم خم کردیں۔
مطلب یہ ہوا کہ نبی ﷺ کسی بات یا فیصلے سے اختلاف تو کجا، دل میں انقباض بھی محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔ یہ آیت بھی منکرین حدیث کے لئے تو ہے ہی، لیکن دیگر افراد کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے جو قول امام کے مقابلے میں حدیثِ صحیح سے انقباض ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ یا تو کھلے لفظوں میں اسے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یا اس کی دور ازکار تاویل کرکے یا ثقہ راویوں کو ضعیف باور کرا کے مسترد کرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فإنه من يعِشْ منكم بعدي فسيرى اختلافًا كثيرًا، فعليكم بسنتي وسنةِ الخلفاءِ المهديّين الراشدين تمسّكوا بها، وعَضّوا عليها بالنواجذِ، وإياكم ومحدثاتِ الأمورِ فإنَّ كلَّ محدثةٍ بدعةٌ، وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ
(صحيح أبي داود: 4607)
ترجمہ: میرے بعد تم لوگ بڑے اختلافات دیکھوگے ۔ بڑے تنازعات دیکھوگے ۔ عقیدے میں ، نماز میں ، روزے میں ، حج میں ، زکوٰۃ اور جہاد میں ، جب تم یہ اختلافات دیکھو تو تمہارے پاس ایک ہی راستہ اور ایک ہی حل ہے وہ ہے کہ تم میری سنت کو اختیار کرنا ۔ اگر کوئی چیز میری سنت میں نہ ملے تو خلفاء راشدین کا طریقہ تمہارے سامنے موجود ہے ۔ لہذا اللہ کے رسول ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ دو انسانوں میں ، دو گروہوں میں ، دو جماعتوں میں یا دو مذاہب میں اگر اختلاف پیدا ہوجائے تو ہر چیز کو چھوڑ کر اللہ کے رسول کی سنت کی طرف رجوع کرو ۔
نواں حق : رسول الله ﷺ كےدین میں اضافہ نہ کیا جائے
رسول اللہ ﷺ کے حقوق میں سےنواں حق یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو دین لیکر تشریف لائے ہیں اس کو کافی سمجھا جائے ۔ اس میں مزید کوئی اضافہ نہ کیا جائے ۔ کوئی ایک نکتہ یا شوشہ اپنی طرف سے بنا کر اس دین میں داخل نہ کیا جائے ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ۔
مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ
(صحيح مسلم: 1718)
ترجمہ: جو شخص وہ عمل کرے جس پر ہمارا عمل نہیں وہ مردود ہے۔‘‘
آپﷺ نے مزید ارشاد فرمایا:
مَن أحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعليه لَعْنَةُ اللَّهِ والمَلَائِكَةِ والنَّاسِ أجْمَعِينَ، لا يُقْبَلُ منه صَرْفٌ ولَا عَدْلٌ
(صحيح البخاري: 6755)
ترجمہ: یعنی جو شخص ایک نئی چیز جاری کردے اور دین میں داخل کردے جوقرآن میں نہیں ہے ۔ جو حدیث میں نہیں ۔ ایساکام کرنے والا مردود ہے ۔ اس پر دن رات اللہ کی لعنتیں برستی ہیں ۔ اللہ کے فرشتوں کی پھٹکاریں برستی ہیں ۔اور سارے جہاں کے لوگوں کی لعنتیں برستی ہیں۔ رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے ۔
إنَّ اللهَ حجب التوبةَ عن كلِّ صاحبِ بدعةٍ حتى يدَعَ بدعتَه
(: صحيح الترغيب: 54)
ترجمہ: یعنی اللہ تعالیٰ نے بدعتی انسان سے توبہ کو چھپا لیا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی بدعت کو ترک کردے ۔
دین میں کوئی نیا اضافہ نہ کیا جائے ، یہ بھی اللہ کے رسول ﷺ کا حق ہے ۔ کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے پورے اخلاص کے ساتھ اور پوری دیانت داری کے ساتھ دین مکمل اور پورا پیش کرکے گئے ، اور درج الفاط ارشاد فرما کر ساری کائنات پر یہ حجت قائم کرکے گئے کہ:
لا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَومَ القِيَامَةِ علَى رَقَبَتِهِ بَعِيرٌ له رُغَاءٌ يقولُ: يا رَسولَ اللهِ، أَغِثْنِي، فأقُولُ: لا أَمْلِكُ لكَ شيئًا، قدْ أَبْلَغْتُكَ
( صحيح مسلم: 1831)
ترجمہ: میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس طرح آتا ہوا نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر اونٹ سوار ہو کر بلبلا رہا ہو اور وہ کہے : اللہ کے رسول ! میری مدد فرمائیے ، اور میں جواب میں کہوں : میں تمہارے لیے کچھ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا ، میں نے تمہیں ( دنیا ہی میں ) حق پہنچا دیا تھا ۔
دسواں حق :نبی ﷺ پردرود شریف پڑھاجائے
رسول اللہ ﷺ کے حقوق میں سے دسواں حق یہ ہے کہ آپ ﷺ پر کثرت سے درود شریف پڑھا جائے ۔ کیونکہ اللہ کے نبی کریم ﷺ نے یہ دین ہم تک تکلیفیں برداشت کرکے ، اذیتیں سہہ کر ، مار کھا کر پہنچایا ہے، لہذا یہ اللہ کے نبی ﷺ کا ہم پر احسان ہے اور احسان کا بدلہ احسان ہے ۔ اور احسان کیا ہے کہ اللہ کے رسول پر کثرت سے درود پڑھیں ، درود شریف کیا ہے ؟ یہ رحمت کی دعائیں ہیں ، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ :
إِنَّ اللہَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(سورۃ الأحزاب:56)
ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس پر درود بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالی امت کے ہر فرد کو آپ ﷺ کے حقوق کو سمجھنے اور انہیں ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے -آمین یا رب العالمین۔