توحیدِ باری تعالیٰ

پہلا خطبہ :

یقیناً تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں، ہم اُسی سے بخشش طلب کرتے ہیں اور اُسی سے مدد مانگتے ہیں اور اپنے نفسوں کی شرارتوں اور بُرے اعمال سے بچنے کے لئے اُسی کی پناہ میں آتے ہیں۔جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے اُسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ رب العزت کے سوا کوئی سچا معبودِ نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔

اے اللہ! دُرود و سلام اور برکتیں نازل فرما آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل اور اصحابِ کرام  پر۔

حمد و ثنا کے بعد !

مسلمانو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔

اللہ کے بندوں توحیدِ الٰہی کو دل و دماغ، گفتارو کردار، طور طریقے اور قصد و اردے میں خالص کرلینا قرآنِ کریم کا سب سےعظیم مقصد، انبیاء اور رسل علیہم السلام کی دعوت کی سب سے بڑی غرض و غایت ہے لیکن سوشل میڈیا کے بعض ذرائع میں اِس جانب تساہل برتا جارہا ہے۔ چنانچہ یہاں لوگوں قرآن و سنت کی محکم، ناقابلِ شک، غیر محتمل اور یقینی نصوص سے پھیر کر ایسے مشتبہ اُمور کی طرف دعوت دی جاتی ہےجو عقلی دلائل اور فلسفیانہ موشگافیوں پر مبنی ہیں، جن کی بنیاد کھوکھلی اور تجائج بے حد کمزور اور ضعیف ہیں۔ یا وہ موضوع اور ضعیف نصوص سے استدلال پر مبنی ہیں یا محکم نصوص کی ایسی بے جا تاویلوں پر مبنی ہیں جو شریعت کے عظیم مقاصد اور عربی زبان  متفقہ معانی و مفاہیم سے کوسوں دور ہیں۔

اے مسلمان بھائی جب آپ دُعا کریں تو صرف اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں۔ جب آپ مانگیں تو اُسی اللہ تعالیٰ سے مانگیں۔ جب آپ پناہ طلب کریں تو اُسی بُلند و برتر ذات سے طلب کریں۔ ہمارے خالق نے اپنے بندوں کو پکارتے ہوئے جو واضح بیان اور روشن تعلیم دی ہے، اُس سے زیادہ واضح اور روشن بیان و تعلیم  ہو ہی نہیں سکتی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ

غافر – 60

اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا ہے) کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔

مصائب و مشکلات اور آفتوں کو دور کرنے والے،ہمیں بے بہا نعمتیں عطا کرنے والے خالق و پروردگار نےدوسری جگہ ارشاد فرمایا:

ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ

الاعراف – 55

تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر کے بھی اور چپکے چپکے بھی۔ واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔

اے مسلمان بھائی ! فوت شدگان سے مدد طلب نہ کریں ،خواہ وہ نبی ہوں، انبیاء ہوں یا بزرگ اوراولیاء ہوں۔ اسی طرح اُن زندہ لوگوں سے بھی مدد طلب نہ کریں، جو آپ کے پاس موجود نہ ہوں۔ یا اُن سے وہ چیزیں طلب نہ کریں جو اُن کی طاقت سے باہر ہوں بلکہ مصائب و آلام میں اپنے رب کی طرف رجوع کریں۔ مشکل کُشائی اور حاجت روائی کے لئے صرف اُسی سے مدد طلب کریں اور جو آدمی مُردوں وغیرہ کی طرف رجوع کرے گا تو وہ دائمی ہلاکت اور ہمیشہ رہنے والے عذاب سے دوچار ہوگا۔ جیسا کہ شیخ صنع اللہ حنفی نے بھی اِسی طرح فرمایا ہے اور اِمام مقریضی شافعی کہتے ہیں کہ: اول تا آخر تمام آسمانی کتابیں اِس شرکیہ مذہب کو باطل ٹھراتی ہیں، اِس کی تردید کرتی ہیں، مشرکین کی مذمت کرتی ہیں اور کھلے الفاظ میں مشرکین کو اللہ تعالیٰ کا دشمن قرار دیتی ہیں۔

اللہ کے بندو! بُلند وبالا اور طاقت سے متصل ور متصف اللہ رب العزت کے اِس کلام سے بڑھ کرکوئی کلام کامل اور واضح نہیں ہوسکتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

البقرۃ – 186

جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے اپنی اٗمت کوتعلیم دینے میں اس قدر توانائی سرف کی کہ اُس میں آپ ﷺ کی کوئی نذیر ہی نہیں ملتی، خواہ کوئی کتنے ہی بلند و بالا مقام والا ہو۔ آپ ﷺ نے ہمیں قطعی یقین پر مبنی تعلیم د ی ہے کہ کسی بھی قسم کی دُعا اور کسی بھی طرح کا وسیلہ سُود مند نہیں ہوسکتاجب تک کہ آپ ﷺ کی تعلیمات کی پاسداری نہ کی جائے، جیساکہ آپ ﷺ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: اے لڑکے! میں تجھے کچھ باتیں سکھانا چاہتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے حقوق کی حفاطت کرو، اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے گا۔ تم اللہ تعالیٰ کے حقوق کا خیال رکھو تو اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے پاؤ گے۔ اور جب مانگو اللہ تعالیٰ ہی سے مانگو،اور جب مدد طلب کرو تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرو۔(مسند احمد و سنن الترمذی)

یہ پوری اُمت کے لئے وصیت ہے کہ دل صرف اللہ رب العالمین کی طرف متوجہ ہوں۔ انسان اپنی غربت و مفلسی اور حاجت و ضرورت کو صرف اللہ رب العزت کے دربار میں پیش کرے۔

میرے اسلامی بھائیو! کیوں کہ یہ شرک ہے جو کہ عبادت و اعمال کو برباد کردیتا ہے اور اِنسان کو دئرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے۔ ناکامیوں اور نامرادوں سے اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ ہے۔ اور دُعا جو ہے یہ خوشیوں کو منافع کو ختم کرنے اور تنگدستی و مصیبتوں کے ازالے کے لئے خاص کرنے کا نام ہے ۔اور دُعا عبادت بھی ہے  جیسا کہ کتا ب و سنت کے دلائل موجود ہیں۔ اسی لئے اللہ رب العزت کے علاوہ کسی نبی یا ولی سے دُعا کرنا جائز نہیں ہے۔ اور مدد میں عطا کرنے، طاقت و قوت دینے اور نصرت کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں۔لہٰذا مدد صرف اللہ تعالیٰ ہی سے طلب کی جائےگی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ‎﴿١٣﴾‏ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ

فاطر – 13/14

یہ اللہ تم سب کا پالنے والا ہے، اسی کی سلطنت ہے۔ جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وه تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وه تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے، بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کرجائیں گے۔ آپ کو کوئی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا۔

لہٰذا اے اللہ کے بندے! اگر آپ کسی مردے سے مانگتے ہیں، کسی فوت شدگان سے مانگتے ہیں یا اُس سے کوئی مدد طلب کرتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی بُلند مقام و مرتبے کا مالک ہی کیوں نہ ہوں۔ مثال کے طور پر رزق طلب کرتے ہیں یا کسی بیماری سے شفا طلب کرتے ہیں یا کسی مصیبت کو دور کرنے یا نفع کے حصو ل کے لئےپکارتے ہیں تو یہ شرک ہے ۔اِسی طرح کسی زندہ انسان سے کوئی ایسی چیز طلب کرنا جائز نہیں ہے کہ جس کی طاقت اللہ رب العزت کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے ۔ایسی چیز صرف ایک اللہ تعالیٰ ہے طلب کی جائےگی جو ہر چیز پر قادر ہے  اور ہر چیز کا مالک ہے۔

اے میرے اسلامی بھائی! اللہ تعالیٰ کے اس قول “صرف تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں” اُس کے اِس پیغام کو مضبوطی سے تھام لیجئے، جسے آپ اپنی نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں۔ اور ہر ایسی دعوت سے بچ کر رہیں جو دین کی اِس بنیاد کو کھوکھلا کردے۔

اللہ کےبندو!صرف اللہ رب العزت کے کلام کی بات کو سنئےاور پیارے نبی اکرم ﷺ کی توجیہات کا لحاظ کریں اُنہیں سنیں اور ملحوظ خاطر رکھیں۔

اللہ کے بندو! اگر آپ ہر خوف سے نجات اور ہر پسندیدہ چیز سے بہرہ ور ہونا چاہتے ہیں تو قرآن مجید کی تعلیمات اور تمام انبیاء اور رسل علیہم کے سردار اور بیارے نبی اکرم ﷺ کی تربیت سے انحراف مت کریں ۔انبیاء اور رسولوں ک راستے پر چلیں اور رسول اللہ ﷺ کو دیکھیں کہ آپ ﷺ سخت ترین حالت میں غزوہ بدر کے اندراپنے رب سے مناجات اور آہو زاریاں کررہے ہیں جیسا کہ ہمارے پروردگار نے ہمیں اُس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے:

إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ

الانفال – 9

اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے۔

اور جو شخص نبی اکرم ﷺ سے وارد مسنون دُعاؤں میں غور کرے گا تو وہ پائے گا کہ آپ ﷺ اپنی دُعا کی ابتداء اِن الفاظ سے کرتے تھے: “اے ہمارے رب” یا “اے اللہ”یا “اے ہمیشہ زندہ رہنے والی اور ہم چیز کو قائم رکھنے والی ذات” “اے جاہ و جلال اور عزت و شرف والی ذات ” ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ

الاعراف – 180

اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو۔

اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے صحابہ کرام سے کسی بھی موقع پر ہی ثابت نہیں ہے کہ اُنہوں نے “یا رسول اللہ مدد!” پکار لگائی ہوحالانکہ اُن کے زمانے میں ایسے متعدد واقعات رونما ہوئے تھے جب میں وہ سخت مصیبت اور بڑی بڑی آزمائشوں میں گرفتار ہوئے تھے۔

لہٰذا اے مسلمان بھائی! ایسے خیالات و ابہام سے بچ جائیں جو عقلوں سے کھلواڑ اور خیالات کو پرآگندہ   کرتے ہیں اور توحید کی سلامتی اور عقیدے کی صحت کو مخدوش کردیتے ہیں۔ اور جو شخص کسی کے متعلق یہ اعتقاد رکھے کہ وہ نفع کے حصول یا اُس کے نقصان کو دور کرنے کی قدرت و طاقت رکھتا یا وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اُس کی حاجت روائی کرسکتا ہے تو گویا اُس نے اپنے درمیان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اُنہیں واسطہ بنا لیا ہے جنہیں وہ پکارتا ہے اور جن سے وہ فریاد کرتا ہے۔ اور اُس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھ دیا۔ صراط مستقیم سے بھٹک گیا اور ضلالت و گمراہی کے گھڑہے میں جاگرا، شرکِ اکبر کا مرتکب ہوچکا ہے جو کہ انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ

الزمر – 3

اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیا بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا (سچا) فیصلہ اللہ (خود) کرے گا۔ جھوٹے اور ناشکرے (لوگوں) کو اللہ تعالیٰ راه نہیں دکھاتا۔

یہ موحدین کے امام ابوالانبیاء ابراھیم علیہ السلام ہیں۔ اپنے رب کو پکارتے ہوئے کہتے ہیں،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ

ابراھیم – 14

توکیا ہم اُن کے راستے پر نہ چلیں اور اِن کے طریقے کو نہ اپنائیں تاکہ ہماری توحید محفوظ رہ سکے اور ہمارا عقیدہ دُرست رہ سکے۔

مسلمانو! وہ لوگ جو ہمیں کتاب و سنت کے طریقے سے اور انبیاء اور رُسل کے منہج سے پھیرنا چاہتے ہیں،ہم اُن کی تعلیمات کی طرف رجوع کیوں کریں؟ ایسے الفاظ و کلمات کے چکر میں پڑ کرجو یا تو خالص شرکیہ ہوتے ہیں نئی نئی من گھڑت دُعاؤں پر مشتمل ہوئے ہیں۔

اللہ کے بندو! ہمارے رب کی کتاب اور ہمارے بنی اکرم ﷺ کی مثالی تعلیمات و ارشادات میں ہی ہمیں غور و فکر کرنا چاہیئے، جو کہ ویسے ہی واضح اور جری ہیں جیسے دن کے اُجالے میں سورج نمایا ہوتا ہے ۔ یہ اللہ کے نبی ایوب علیہ السلام ہیں ۔ اپنے رب سے سرگوشی کرتے ہیں تو فوراً اُس ذات کی طرف سے جواب آجاتا ہے جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہےاور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ

الانبیاء – 84

تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انہیں تھا اسے دور کر دیا اور اس کو اہل وعیال عطا فرمائے بلکہ ان کے ساتھ ویسے ہی اور اپنی خاص مہربانی سے تاکہ سچے بندوں کے لئے سبب نصیحت ہو ۔

یہ یونس علیہ السلام ہیں جو مچھلی کے پیٹ میں ہیں اور سمندر ی گہرائی میں پھنس گئے ہیں۔

 وہ عظمت والے پروردگارکی طرف رجوع کررہے ہیں۔ تو اُنہیں بُلند و برتر اور ہر چیز کی خبر رکھنے والی ذات کی مہربانی پالیتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ‎﴿٨٧﴾‏ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ

الانبیاء – 88

یہ زکریا علیہ السلام ہیں جو اپنےرب کے حضور گڑ گڑاتے ہیں، عاجزی اختیار کرتےہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ ‎﴿٨٩﴾‏ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ

الانبیاء – 89/90

اور زکریا (علیہ السلام) کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب سے دعا کی ۔کہ اے میرے پروردگار! مجھے تنہا نہ چھوڑ، تو سب سے بہتر وارث ہے۔ ہم نے اس کی دعا کو قبول فرما کر اسے یحيٰ (علیہ السلام) عطا فرمایا اور ان کی بیوی کو ان کے لئے درست کر دیا۔ یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے۔ اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔

لہٰذا اللہ کے بندو! ہدایت کے راستے پر چلو،اپنے خالق کے لئے اپنی توحیدکی حفاظت کرواور اُن لوگوں کی طرف میلان مت رکھو جو تمہیں ہلاکت و گمراہی کے دہانے تک پہنچادے۔

اللہ کے بندے! کیسے تو اپنے خالق و مالک کی ہدایت کو لازم نہیں پکڑتا جبکہ تجھے یقین بھی ہے کہ وہی ہر چیز کا خالق ہے، اُسی کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے۔ لہٰذا اپنی توحید کو بچاؤ، اپنے رب کی تعظیم کرو، اپنے نبی اکرم ﷺ کے طریقے کو اپناؤ ،آپ عظیم اور کامل ترین کامیابی سے ہمکنار ہوجاؤ گے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ

المؤمنون – 1

بے شک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔

اور ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاکسی کو بھی مت پکارو۔ صرف اور صرف اُسی کی طرف رجوع کرو۔بھلا ایسے شخص کی کامیابی کو دوام کیسے حاصل ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے سوا  دوسروں سے مدد طلب کرتا ہےجبکہ وہ خود اپنے اعمال کے مرہونِ منت ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:  جب انسان مر جاتا ہے تو اُس کے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتاہے سوائے تین چیزو ں کے :

  1. صدقہ جاریہ ۔
  2. وہ علم کہ جس سے  فائدہ اُٹھایا جارہا ہو۔
  3. یا نیک اور صالح اولاد جو اُس کے لئے دُعا کرے۔

اے اللہ ! تو مسلمانوں  کو ہر بھلائی کی توفیق عطا فرما۔

اےاللہ ! تو ہمارے لئے ہمارے دین کی حفاظت فرما اور ہمیں توحید و سنت پر ثابت قدم رکھ۔

اے اللہ ! ہمیں اپنے نبی اکرم ﷺ کی سنت کی توفیق عطا فرما۔ میں اپنی بات کو مکمل کرتا ہوں ۔اپنے لئے اور آپ سب کے لئے اللہ تعالیٰ سے ہر گناہ کی مغفرت طلب کرتاہوں، آپ بھی اُسی سے مغفرت طلب کیجئے، یقیناً وہ بہت زیادہ بخشنے والا مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ :

تمام تعریفیں اُس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور بہت زیادہ تعریفات۔

حمدو ثنا کے بعد!

مسلمانو! اللہ تعالیٰ اور اُس کے نبی اکرم ﷺ کے حکموں کو ملحوظِ خاطر رکھواور یاد رکھو کہ دُعا عبادات میں سے ایک عبادت ہے۔ آپ پر کوئی بھی مصیبت آئے یا آپ کو کسی مشکل کا سامناہوتو آپ اپنے خالق کے سامنے دونوں ہاتھ اُٹھا کرپورے اخلاص اور صدق دل کے ساتھ ایک عاجز و درماندہ کی طرح دُعا کریں ۔ اُس شخص کی طرح دُعا کریں جو اپنے رب کے اِس قول پر پوری طرح یقین رکھتا ہو۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ

النمل – 62

بے کس کی پُکار کوجب وہ پکارےکون قبول کرتاہے، کون قبول کر کے سختی کو دور کرتا ہے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے۔

اور صحیح حدیث میں بھی یہ وارد  ہےکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات (جبکہ رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے) آسمانِ دنیاپر نزول فرماتا ہےاور اعلان کرتا ہے : ہے کوئی مجھ سے دُعا کرنے والا کہ میں اُس کی دُعا قبول کروں،ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ میں اُسے عطا کروں، ہے کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا کہ میں اُسے بخش دوں۔

مسلمانو! اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے افضل مخلوق محمد رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنا افضل ترین اعمال میں سے ہے۔

اے اللہ! دُرود و سلام نازل فرماآپ ﷺ پر ،خلفائے راشدین ،ہدایت یافتہ آئمہ اور قیامت تک  احسان و بھلائی کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والوں پر۔

اے اللہ ! مسلمان مرد اور عورتوں کو معاف فرما۔

اے اللہ ! اپنے نبی اکرم ﷺ کی سنت کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما۔

اے اللہ ! دنیا و آخرت میں ہمیں خیر و بھلائی عطا فرما اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔

اے اللہ ! تو ہمارے امام خادمِ حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ اُمور کی توفیق عطا فرما۔اور اُن کے ولی عہد کو بھی ہر طرح کی خیر کی توفیق عطافرما۔

اے اللہ ! تو ہمیں دنیا و آخرت میں خیر و بھلائی عطا فرما۔ اور جہنم کے عذاب سے ہمیں بچالے۔

اےاللہ ! تو ہم پر رحمت کی بارش نازل فرما، ہم تیری رحمت کا سوال کرتے ہیں۔یا رب العالمین اےاللہ ! تو ہمیں دنیا و آخرت میں ہر طرح کی خیر و بھلائی سے نواز۔

خطبه الجمعة مسجدِ نبوی ﷺ : فضیلة الشیخ عبدالباری بن عواض الثبیتی حفظه اللہ
15جمادی الاول 1444 ھ بمطابق 9دسمبر 2022

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ 

مسجد نبوی کے معروف خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ داکٹر عبدالباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ کا ہے ، جن کے علمی خطبات ایک شہرہ رکھتے ہیں۔