پہلا خطبہ :
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں کہ جس نے ہمیں بہترین صورت میں پیدا فرمایا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ تنہا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اکرم محمد ﷺ اُس کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔
دُرود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کی آل پر اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر۔
حمد و ثنا کے بعد!
میں اپنے آپ کو اور آپ تمام حضرات کو تقویٰ کی وصیت کرتاہوں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
التوبة – 119
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
قرآن کریم میں ایسے قصے مذکور ہیں کہ جن میں عبرتیں اور پندونصائح اور بہت سے اسباق ملتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اولین مخلوق آدم علیہ السلام اور اُن کی بیوی حوا علیہا السلام کا قصہ ہمارے سامنے بیان فرمایا جس میں شیطان کے ساتھ مقابلے اور کشمکش کا بیان ہے، یہ کشمکش بڑھتی چلی گئی اور اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ جب تک بنی نوع انسان کا وجود رہے گا اور اُن کا دشمن ابلیس باقی رہے گایہ کشمکش بھی جاری رہے گی یہاں تک زمین اور اُس پر موجود تمام چیزوں کا وارث اللہ رب العالمین بن جائے یعنی قیامت قائم ہوجائے۔
یہ قصہ چونکہ عظیم مقاصد اور مفید نصائح پر مشتمل ہے اسی لئے قرآن کریم کی متعدد جگہوں پر اُس کا تذکرہ ہوا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿١٩﴾ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ﴿٢٠﴾ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ ﴿٢١﴾ فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٢٢﴾ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
البقرۃ – 19/23
اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ اور اُس مخلوق کے پاس نہ جاؤ ورنہ ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔ پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈاﻻ تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیده تھیں دونوں کے روبرو بے پرده کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زنده رہنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ اور ان دونوں کے روبرو قسم کھالی کہ یقین جانیئے میں تم دونوں کا خیر خواه ہوں۔ سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پرده ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے؟۔ دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور اُن کی بیوی کو جنت میں سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا اور یہ شرف اُن کو اُن کی عزت اور اُن کے بُلند مقام و مرتبے کی وجہ سے عطا ہوا، کیوں کہ جو بھی اوامرِالٰہی کو بجا لاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک باعزت ہوجاتا ہے، اُس کا دل سکینت سے بھر جاتا ہے، اُس کا نفس مطمئن ہوجاتا ہے اور اُس کی زندگی اور حالات خوشگوار ہوجاتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے دوری اختیار کرتا ہے اوراُس سے اعرا ض کرتا ہے وہ نہایت تنگی کی زندگی گزارتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوٌا علیہما السلام سے فرمایا :
فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا
البقرۃ – 19
تم دونوں پھر جہاں سے چاہو کھاؤ۔
حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لئے تمام پاکیزہ چیزوں کو مباح قرار دیا ہےاور کھانے پینے کی چیزوں میں بڑی وسعت دی ہے اسی لئے حلال چیزوں کا دائرہ وسیع اور حرام چیزوں کا دائرہ تنگ ہے اس کے باوجود انسان پر نفس عمارہ غالب آجاتا ہے اور وہ منع کردہ اشیاء کی طرف جھانکنے لگتا ہے، جائز اور مبُاح کی حدود کو تجاوز کرنے لگ جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العالمین نے آدم اور حٌوا علیہما السلام سے فرمایا:
وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ
البقرۃ – 19
اُس درخت کے پاس نہ جاؤ۔
یعنی اُس کے قریب جانے سے بھی منع فرمادیا کہ کہیں یہ قریب جانا اُس درخت سے کھانے کا سبب نہ بن جائےجو کہ منع کرنے کا اصل مقصود تھا۔ پھر شیطان برابر آدم علیہ السلام کو فریب میں ڈالتا رہا اور جھوٹی قسمیں کھاتا رہا یہاں تک کہ آدم اور حٌوا علیہما السلام دونوں اُس درخت سے چکھ بیٹھے۔ یہیں سے اسلام نے احتیاطی طرزِ عمل کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور حرام کے قریب بھی پھٹکنے سے ڈرایا ہے تاکہ نفس کو بُرائی سے بچایا جاسکے۔ اخلاق کا تحفظ کیا جاسکے اور معاشرے کو فساد و بگاڑ سے محفوظ کیا جاسکے اور اُسے اللہ تعالیٰ کی حدود کی پاسداری کرنے کا عادی بنایا جاسکے۔ اور جو بھی شرک میں واقع ہوتا ہے اُس وجہ یہ ہی ہوتی ہے کہ وہ شرک تک لے جانے والے اُن اسباب سے قریب تر ہوجاتا ہےکہ جن سے اُسے روکا گیا ہے۔
اسی طرح جو بدعت کا شکار ہوتا ہے تو اُس کا سبب بھی آلِ بدعت کی صحبت، اُن کی کتابوں کے مطالعے اور اُن پر اعتماد و بھروسے میں تساہل برتتا ہے اور جو شخص صغیرہ گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اور اُن پر اسرار کرتا ہے تو وہ پھر کبیرہ گناہوں کا بھی شوقین بن جاتا ہے۔اسی طرح جدید ٹیکنالوجی مقصد تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے پھر چاہے وہ مقصد اچھا ہو یا خراب۔
لہٰذا جو اُن مسائل کے پیچھے پڑا رہتا ہے، اُن کے لئے خلوت اختیار کرتا ہے اُن کا غلط استعمال کرتا ہے تو اُس کی نماز، اخلاق اور اوقات کار برباد ہوجاتے ہیں اور اطاعتِ الٰہی معصیت میں اور اللہ رب العزت سے اُنس و محبت وحشت میں بدل جاتی ہے۔ یہ محرمات اور اِن آیتوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منع کردہ اُمور کے قریب ہونے پر بھی انسان گناہ کا مرتکب ہوجاتا ہے چہ جائے کہ وہ گناہ کا ارتکاب کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
البقرۃ – 19
ورنہ تم ظالموں میں سے ہوجاؤ۔
بسااوقات انسان ایسے شبہات میں پڑھ کر اپنے نفس پر ظلم کرتا ہےجو اُسے کھانے پینے ،پہننے ،والدین اور رشتے داروں کے حقوق میں حرام کاموں کے ارتکاب تک لے جاتے ہیں۔ نیز مال و دولت اور معاملات وغیرہ میں سُود ،دھوکہ اور خیانت وغیرہ تک پہنچا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اِس قصے کے زمن میں فرمایا:
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ
البقرۃ – 20
کہ پھر اُنہیں شیطان نے بہکایا۔
یہ وسوسہ ڈالنے والا اور بار بار پلٹ کر آنے والا شیطان ابنِ آدم کے لئے ہر جگہ گھات لگائے بیٹھا ہے اور وہ انسان کے عداوت والی اپنی فطرت سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ وہ باطل کو مزین کرتا ہے، گناہ کو ہلکا بنا کر پیش کرتا ہے، مرد وعورت کے درمیان حرام تعلقات کو خوبصورت باور کراتا ہے۔ جو چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں عظمت والی ہے اُسے مخلوق کے ہاں معمولی و حقیر بناتا ہے۔ ثابت شدہ اور عقدی مسائل میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے، مسلمانوں کو آپس میں لڑاتا ہے۔ انسانی کمزوریوں کی تلاش میں رہتا ہے اور ہر کسی کو اُس کے حساب سے گمراہ کرنے کے لئے اسباب و وسائل اختیار کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتا۔ اس سے اُس کا مقصد و ہدف وہ ہی ہوتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا
البقرۃ – 20
تاکہ اُن کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئیں تھیں،اُن کے سامنے کھول دے۔
چنانچہ معصیت و نافرمانی اُس پردے کو تار تار کردیتی ہے جو اللہ تعالیٰ اورا ُس بندے کے درمیان ہوتا ہےاور جب پردہ ختم ہوجاتاہے تو شرم گاہ عیاں ہوجاتی ہے ۔اور یہ پہلا مرحلہ ہوتا ہے جو بعد کے مراحل کو آسان بنادیتا ہے۔ جیسے کہ اِسے کے بعد پہلے تو حرام چیز کی طرف دیکھتا ہے اُس کے بعد بُرائی کو انجام دیتا ہے اور پھر اخلاقی انارکی بالکل عام ہوجاتی ہے۔ شیطان اپنے اس مقصد میں اُسی وقت کامیاب ہوچکا جب اُس نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بیچ بو دیا ہےکہ عریانیت اور بے پردگی کو اختیارکرنابالخصوص عورتوں کا،تہذیب و تمدن اور عروج و ترقی ہے ۔اور اُس کے برخلاف باپردہ رہنا تنزلی رجعت پسندی ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ
فاطر – 6
بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اُسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے گروہ والوں کو صرف اِس لئے بُلاتا ہے تاکہ وہ بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں سے ہوجائیں۔
یہ نافرنانی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان بُلندی کے بعد پستی میں، عزت کے بعد ذلت میں اور اُنس و محبت کے بعد وحشت کی کھائی میں گر جاتا ہے۔
اللہ رب العالمین میرے لئے اور آپ کے لئے قرآن مجید کو بابرکت بنائے۔ مجھے اورآپ کو اِس میں حکیمانہ نصیحت اور آیت سے نفع پہنچائے۔ میں اپنے لئے اور آپ سب کے لئے اُس سے بخشش طلب کرتا ہوں۔ آپ سب بھی اُسی سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے۔ وہ ہی بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے۔
دوسراخطبہ :
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، میں اُسی کی تعریف کرتا ہوں اور اُسی کا شکر بجالاتاہوں۔ اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اور دُرود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کی آل اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام پر۔
حمدو ثنا کے بعد !
میں اپنے آپ کو اور تمام کو تقویٰ کی وصیت کرتاہوں۔ اللہ رب العالمین نے اِس قصے کے ضمن میں فرمایا :
وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ
البقرۃ – 22
اور اُن کے رب نے اُن کو پکارا، کیا میں تم دونوں کو اُس درخت سے منع نہیں کرچکا تھااور یہ نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے۔
یہ آدم و حوّا اور اُن دونوں کی اولاد کے لئے ایک الٹی میٹم ہے کہ جو کسی حرام کام میں گرفتار ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کوئی عذر چھوڑا ہی نہیں۔ اُس نے سب کچھ بیان فرمادیا ہے سب کچھ واضح کردیا ہے۔ اُس نے ہمیں ڈرایا بھی ہے،اب اُس کے یہاں کوئی عذر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اُس نے مجرموں کی راہیں اور شیطان کے راستے اور فساد برپا کرنے والوں کے احوال بھی کھول کھول کر بیان کردئے ہیں تاکہ دھوکے ،وسوسے اور فریب کا شکار نہ ہوجائیں۔ اِس کے باوجود بھی اگر انسان وسوسے کا شکار ہوجائےاور پھر توبہ کرلےتو اللہ تعالیٰ اُس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔
آدم و حوّا کے ارتکابِ معصیت کے قصے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم توبہ کی طرف جلدی کریں اور خالق دوجہاں کے سامنے ندامت اور عاجزی و انکساری کا اظہار کریں۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اور جو آدمی دین پر ثابت قدم ہوتا ہے وہ معمولی غلطی پر بھی بکثرت ندامت کے آنسو بہاتا ہے۔ یہ کتنے عمدہ کلمات ہیں جو آدم نے اپنے رب سے سیکھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں سکھایا کہ وہ توبہ کیسے کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کی توبہ قبول کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
البقرۃ – 37
(حضرت) آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بےشک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والاہے۔
اللہ کے بندو! اللہ کے نبی اکرم ﷺ پر دُرود بھیجوکیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تمہیں اِس کا حکم دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
ہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
اے اللہ! تو محمد ﷺ پراوراُن کی آل پر رحمت نازل فرما، جس طرح کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام اور اُن کی آل پر رحمتیں نازل فرمائیں۔ بےشک تو تعریف کیا ہوا اور بڑی شان والا ہے۔
اے اللہ! تو تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا بالخصوص خلفائے راشدین سے۔
اے اللہ! تو اُن کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا۔یا ارحم الراحمین۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور ایسے قول و فعل کی توفیق کا سوال کرتے ہیں جو ہمیں جنت سے قریب کردے۔ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ اور ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کردے۔
اے اللہ ہم تجھ سے ہر بھلائی کا سوال کرتے ہیں، خواہ وہ جلد ملنے والی ہو یا دیر سے ،اُسے ہم جانتےہوں یا نہ جانتےہوں۔ اور ہر اُس بُرائی سے تیری پناہ مانگتے ہیں جو جلد آنے والی ہے یا دیر سے۔
اے ہمارے رب! تو ہماری توبہ قبول فرما،ہمارے گناہوں کو دھو دے۔
اے اللہ! تو بہت زیادہ بخشنے والا اور معافی کو پسند کرنے والا ہے تو ہمیں معاف فرما۔
اے اللہ! ہم تیری نعمت کےزائل ہونے سے اور تیری عافیت کے پِھر جانے سے ،تیری ناگہانی گرفت سے اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے تیری پناہ جاہتے ہیں۔
اے اللہ! تو ہمارے امام خادمِ حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ اُمور کی توفیق عطا فرما۔ اور اُن کے ولی عہد کو بھی ہر طرح کے خیر کی توفیق عطافرما۔
اے اللہ! تو ہمیں دنیا و آخرت میں خیر و بھلائی عطا فرما۔ اور جہنم کے عذاب سے ہمیں بچالے۔
اےاللہ! تو ہم پر رحمت کی بارش نازل فرما، ہم تیری رحمت کا سوال کرتے ہیں۔ یا رب العالمین
اےاللہ! تو ہمیں دنیا و آخرت میں ہر طرح کی خیر و بھلائی سے نواز۔
خطبة الجمعة مسجدِ نبویﷺ: فضیلة الشیخ عبدالباری بن عواض الثبیتی حفظه اللہ
8جمادی الاول 1444 ھ بمطابق 2 دسمبر 2022