ذکر کی اہمیت و فضیلت

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ  الملک القدوس ذوالجلال والاکرام کے لئے ہیں ۔ہمارے رب کے تمام نام مقدس اور صفات اعلیٰ ہیں،وہ اپنی بیان کردہ تعریف کے عین لائق ہے،ہم اُس کی ثنا کما حقہ بیان  نہیں کرسکتے ۔دنیا  و آخرت میں ہمہ وقت اُسی کی تعریف ہے۔ظاہر اور پوشیدہ ہر طرح کے فضائل و خیرات عطا کرنےپر حمد و شکر بجا لاتا ہوں اور وہی نعمتیں عطا کرنے والا ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور وہی لازوال عزت کا مالک ہے ۔اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اُس کے بندے اور ایسے واضح نصوص کے ساتھ بھیجے گئے رسول ہیں جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمام تاریکیوں اور شرک کو ختم کیا۔

اے اللہ اپنے پیارے رسول ﷺ پر درود وسلام اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و ثنا کے بعد!

اے اللہ کے بندو! برائیوں سے  نفرت و اجتناب اور بذریعہ اعمال صالحہ  اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اُس کا تقویٰ اختیار کروکیونکہ تقوے سے اللہ تعالیٰ کی ولایت نصیب ہوتی ہے ۔جبکہ خواہش پرستی کرتے ہوئے دنیا کو ترجیح دینے والااپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے اور آخرت کی دائمی نعمتوں سے محروم ہوجاتاہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَأَمَّا مَن طَغَىٰ ‎﴿٣٧﴾‏ وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ‎﴿٣٨﴾‏ فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَىٰ ‎﴿٣٩﴾‏ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ ‎﴿٤٠﴾‏ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ

النازعات – 37/41

تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی)۔ اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی (ہوگی)۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔

اے مسلمانو! بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے سب سے عظیم صفت یعنی صفتِ ایمانی کا حوالہ دے کر تمہیں پکارااور بذریعہ نیک اعمال اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کےاور انہیں ضائع  یا کم ہونے سے بچانے کےلئے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

المائدۃ – 35

مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راه میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو۔

اور الوسیلۃ سے مراد وہ سب نیکیاں ہیں جو احکام کی پیروی اور منہیات سے رکنے سے حاصل ہوں۔اور وسیلہ نیکیوں کے تمام وسائل کو شامل ہے، اور جو تمام بھلائیوں کا مجموعہ،تمام نیکیوں کا راستہ ،تمام عذابوں سے نجات اور ہلاکت و بربادی حفاظت کا قلعہ ہے۔وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ہے،اسی سےواجبات و فرائض کی تکمیل اور عبادات کی کمی پوری ہوتی ہے  اور اسی سے اجر و ثواب  دوبالا ہوتاہے اور برائیاں مٹتی ہیں۔ اور اس کے اجر و ثواب ،فضیلت ،عظمت ،مقام و مرتبہ ،شرف ،نور او ر بھلائی کےلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے نماز ،حج اور دیگر بہت سی عبادات کے لئے فرض قرار دیا ہے جبکہ تمام حالات میں بکثرت ذکر کرنے پر شریعت نے ترغیب دلائی ہے ۔اورجب کہا جاتا ہے:

أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله

تو دین کا سب سے پہلا رکن بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ہے اور مکمل اسلامی شریعت اسی ذکر  کی تفصیل  اور گواہی کی شاخ ہےچنانچہ  لا الہ اللہ کی گواہی معبود سبحانہ کی وحدانیت  جبکہ  ان محمدا رسول اللہ  مطبوع ﷺ کی انفرادیت کا ثبوت ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

الحجرات – 1

اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔

اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس قدر بکثرت ذکر کرنے کا حکم دیا ہے اس قدر بکثرت کسی اور نیکی کا حکم نہیں دیا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

یأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ‎﴿٤١﴾‏ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

الاحزاب – 41/42

مسلمانو! اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت زیاده کرو۔ اور صبح وشام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔

البتہ سید البشر ﷺ پر بکثرت درود و سلام بھیجنے کا حکم ضرور دیا ہے ۔ جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :

جمعے کے دن مجھ پر بہت زیادہ درود و سلام بھیجو۔ تمہارا درود بلاشبہ مجھ پر پیش کیا جاتاہے ۔مسنداحمد

اسی طرح آ  پ ﷺ نے فرمایا کہ: جس نےمجھ پر ایک مرتبہ درود و سلام بھیجا اُس پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ دس بار درود و سلام بھیجتا ہے اور اس کے دس گناہ معاف اور دس درجے بلند ہوجاتے ہیں۔سنن نسائی /ابن حبان

اور یہ درود و سلام مسلمانوں کی طرف سے ہمارے نبی کریم ﷺ  کے  لئے  ان کے دین کے قائم کرنے ،اُس کے لئے خوب جد وجہد کرنے ،امت کے لئے بےشمار خیر و بھلائی اور حقیقی خیر خواہی پیش کرنے پر صلہ اور دُعا ہے۔ چنانچہ مسلمان کو حاصل ہونے والی ہر حیر و بھلائی و ثواب جسے اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے ذریعے جاری کرتاہے نیز حصول ِ جنت کے لئے آپ کا راستہ اور آپ پر درود و سلام بھیجنا یہ سب اللہ تعالیٰ کی عبادت ہےاور اس سے اللہ تعالیٰ کے ذکر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

الانفال – 45

اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔

اور آپ ﷺ کا یہ فرمان کہ: اپنے رب کا ذکر نے والے اورنہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے ۔متفق علیہ

اور آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے سب سے شاندار ،تمہارے رب کے نزدیک سب سے پاکیزہ ،تمہارے درجات میں سب سے اونچے، تمہارے سونا چاندی خرچ کرنے اور دشمن کے مقابلے میں تمہارے مرنے اور مارنے سے بھی افضل ترین عمل کی خبر نہ دوں ؟ تو صحابہ کرام علیہم السلام  نے عرض کیا : جی ضروربتائیے۔ تو آپﷺ فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔مسند احمد /سنن ترمذی /مستدرک حاکم

ابو سعید الخذری رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ روز ِ قیامت اللہ تعالیٰ کے نزدیک کن لوگوں کا درجہ سب سے افضل ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر نے  والوں کا۔سنن ترمذی۔

اسی طرح عبد اللہ بن بُسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺکے پاس ایک آدمی آیااور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اسلام کے واجبات و فرائض  تو ہم پر بہت زیادہ ہیں لہٰذا آپ ہمیں کوئی ایسی جامع عبادت بتائیں جس پر ہم ڈٹ جائیں۔  تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری زبان ہمیشہ ذکر ِ الٰہی سے تر رہے ۔ مسند احمد /سنن ترمذی/ ابن ماجہ

ذکر ِ الٰہی سے اعمال پاکیزہ ہوتے ہیں اور اُن کی کمی دور ہوتی ہے اور ذکر کرنے والا اپنے رہ جانے والے اعمال بھی پالیتا ہے اور اِس کے گناہ بھی مٹ جاتے ہیں۔ذکرِ الٰہی کے تین درجات ہیں ۔

پہلا درجہ : دل سے اللہ کا ذکر کرنا ۔ اس کا ثواب اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے عطا کرتاہے ۔ جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں،اُس کے ساتھ ہوتاہوں جب وہ مجھے یاد کرتاہے ،اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اُسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں۔متفق علیہ

دوسرا درجہ:  یہ درمیانہ درجہ ہے کہ مسلمان اپنے رب کا ذکر اپنی زبان  سے کرے اور اُس کا دل بسااوقات اِس کے مفہوم سے غافل رہےتو ایسا مسلمان بہت بری بھلائی کو حاصل کرنے والا ہے ۔اور اس درجے کے ثواب کو سوائے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کوئی اور شمار نہیں کرسکتا۔جبکہ زبان سےادا کرنے کی وجہ سے اس درجے کا اجر پہلے درجے  کے اجر سے بھی زیادہ ہے ۔جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:  بے شک بندہ اللہ کی رضامندی والا کوئی ایسا لفظ بولتاہے  جسے وہ کچھ نہیں سمجھتا مگر اس سے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کردیتاہے ۔ صحیح بخاری

تیسرا درجہ:  وہ یہ ہے کہ بندہ زبان سے اللہ ذکر کرتا ہے اور د ل میں بھی اُس کا مفہوم اور عظمت ِ الٰہی اجاگر رہتی ہو۔تو یہ درجہ ذکر کے تمام درجات  میں سب سے اعلیٰ ہے اور ایسا ذکر کرنے والا شخص بھلائیوں کی طرف سبقت لے جانے والا اور سب سے ارفع درجات کامالک ہوگا۔جیسا کہ آپ ﷺ  نے فرمایاکہ : اگر کوئی صدق ِ دل سے گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں بے شک اللہ کا رسول ہوں ،پھر اسی بات پر قائم رہے  تو وہ مرنے کے بعد ضرور جنت میں جائےگا۔مسند احمد

تو اس حدیث میں ذکر کا زبان اور دل دنوں سے صادر ہونے کا بیان ہے۔ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا: اس باغ کے پیچھے جو بھی دل و جان سے لاالہ اللہ کی گواہی دینے والا تجھے ملے اُسے جنت کی بشارت دےدے۔صحیح مسلم

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ذکر کا مطلب

 سُبْحَانَ اللهِ  وَالْحَمْدُ لِلَّه وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ  وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ

پڑھنے اور بکثرت دُعا و استغفار کرنے سے رب  سبحانہ وتعالیٰ کی کبریائی بیان کرنا ہے۔اسی طرح نبی مکرم ﷺ پر درود و سلام پڑھنا بھی ذکر ِ الٰہی میں شامل ہے۔نیز ہمارے رب تعالیٰ کو ہر نقص سے  پاک اور بے عیب  اور پاکیزہ قرار دینا جو اس  کی عزت ،عظمت ،کبریائی ،کما ل ،جمال  اور جلال کے شایان ِ شان نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ہر کسی سے اُس کی تشبیہ  کی نفی کرنا اور رب العالمین کی پاکیزگی،تعریف  اور آیۃ الکرسی اور سورۃ الحشر کی آخری آیت میں مذکورہ اُس کے شاندار ناموں ، عظیم صفات  اور حکیمانہ افعال کے ذریعے ثنا خوانی کرنا ہی اُس کی سب سے بڑی کبریائی ہے ۔نیز یہ کہ مخلوقات پر رب کی نعمتوں کے تذکرے سے اُس کی تعظیم بجا لاناجیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ

الفاطر – 3

لوگو! تم پر جو انعام اللہ تعالیٰ نے کئے ہیں انہیں یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان وزمین سے روزی پہنچائے؟

اور فرمایا:

وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ

آل عمران – 103

اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔

اس کے علاوہ دیگر آیات بھی ہیں۔ذکر زبان پر آسان اور میزان میں بھاری ہے۔اور اس سے دلوں کی پاکیزگی،زندگی اور اعمال کی اصلاح کےثمرات کا حصول ،اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے محبت کا حصول اس کے بغیر ناممکن ہے۔اور تلاوتِ قرآن ِ کریم سب سے افضل ذکر ہے ۔کیونکہ یہ رب العالمین کی تمام تعریفات ،نعمتوں کے ذکر ،شریعت کی تفاصیل ،ہر خیر و بھلائی کی ترغیب اور شر سے روکنے پر مشتمل ہے ۔

اے مسلمانو! یہ تو ذکر کی خیرات و برکات ،منافع اور نور کا بیان ہےالبتہ ذکر کا اجر و ثواب تو اتنا عظیم ہے کہ جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ اس کا کسی انسانی دل پر کھٹکا ہوا ہے۔چنانچہ ذکر ِالٰہی کے اجر و ثواب کے بارے میں ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا: جن نےدن کے شروع میں

لا إلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ ؛ وَلَهُ الحَمْدُ ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

پڑھا اسے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا،سو نیکیا ں لکھی جائیں گی،سو خطائیں مٹا دی جائیں گی اور شام تک یہ وظیفہ شیطان سے اس کی حفاظت کا ضامن رہے گا۔اور اس سے بھی زیادہ بار پڑھنے والے کے سوا کوئی بھی اس سے افضل عمل والا نہیں آئے گا۔متفق علیہ

اسی طرح ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے کہا کہ  : اے اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو میں بیٹھے بٹھائے کر لیا کروں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: سو بار سبحان اللہ پڑھ لیا کرو تو یہ آل اسماعیل سے سو غلام آزاد کرنے کے برابر ہوجائےگا۔پھر سو بار الحمد للہ پڑھ لیا کرو تو یہ زِ ین و سامان سے تیار شدہ  اللہ کی راہ میں دئے گئے سو گھوڑو ں کے برابر ہوجائےگا۔پھر سو بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو تو یہ نشان زدہ سو اونٹنیوں کی  مقبول قربانی کے  برابر ہوجائےگا۔اور سو بار لااِلہ الا اللہ پرھ لیا کرو تو اس کے ثواب سے آسمان و زمین کا خلا  پر ہوجائے گا۔مسند احمد/سنن نسائ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ: جن اذکار سے تم اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرتے ہو اُن میں سے سبحان اللہ -والحمدللہ- ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر – وہ الفاظ ہیں جو عرش کے گرد گھوم کر شہد کی مکھی کی طرح بنبناتے ہوئے اپنے پڑھنے والوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں ۔مستدرک حاکم

جناب معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جتنے جنتی لوگ  بلا ذکر ِالٰہی  کے گزرنے والے لمحات پر افسوس کریں گے اور کسی چیز پر نہیں کریں گے۔ طبرانی

انہیں تب حسرت ہوگی جب وہ ذکر کے عظیم ثواب کو دیکھ لیں گے۔ذکر کا ایک بدلہ یہ بھی ہے کہ ذکر کرنے والے کو شیطان سے حفاظت نصیب ہوجاتی ہے۔جیسا کہ حارث بن حارث اشعری رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے یحیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو پانچ کلمات پڑھنے کاحکم دیں ،جن میں سے ایک ذکر ِ الٰہی ہے۔کیونکہ اس کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جس کے پیچھے دشمن بڑی تیزی سے لگا ہواور وہ کسی مضبوط قلعےمیں داخل ہوکر اپنے آپ کو اس دشمن سے بچا لے۔اسی طرح بندہ اپنے آپ کو شیطان سے ذکرِ الٰہی کے حصار کے بغیر بچا نہیں سکتا۔ترمذی /ابن حبان/ حاکم

اور ذکر کا سب سے بڑا اجر و ثواب جہنم سے نجات اور جنت ہے اور اس سب سے بڑھ کر اللہ رب العزت کی رضا مندی کا ثبوت ہے۔اور ذکر کے ثواب  میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ذکر کرنے والوں کو ہمیشہ تنگیوں ،تکلیفوں اور بربادیوں سے بچا لیتا ہے ۔اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ‎﴿١٤٣﴾‏ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

الصافات – 143/144

پس اگر یہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے۔تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ میں ہی رہتے۔

اور ذکر کے ثواب میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ذکر کرنے والے کا نام دونوں جہانوں میں روشن کردیتا ہے ۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ

البقرۃ – 152

اس لئے تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو۔

اور ذکر کے ثواب میں سے یہ بھی ہے کہ اس سے روح و بدن کے لئے مدد اور محرمات  سے روکاوٹ  نصیب ہوتی ہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ روزی بھی میسر کرتا ہے۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم  ﷺ نے فرمایا : نبی علیہ السلام  نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ میں تمہیں  – سبحان اللہ وبحمدہ – پڑھنے کی نصیحت کرتاہوں،کیونکہ یہ مخلوقات کی دُعا و تسبیح ہےاور اسی سے مخلوقات کو رزق نصیب ہوتاہے۔

اور ذکر کے ثواب سے یہ بھی ہے کہ نفاق سے براءت نصیب ہوجاتی ہے اور کیونکہ یہ ہی دین میں سب سے بڑی مصیبت و آفت ہے۔نبی اکرم ﷺ ذکر کے لئے ہمیشہ جامع کلمات ہی اختیار فرماتے تھے۔اور آپ نے جویریہ رضی اللہ عنہا کو جو جامع کلمات بتائے وہ یہ ہیں کہ:

 اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی تعداد ،اپنے نفس کی رضا ، اپنے عرش کے وزن اور اپنے کلمات کی سیاہی کے برابر اپنی تعریفا ت کے ساتھ پاکیزہ ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے برابر پاک ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی رضا کے برابر پاک ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے وزن کے برابر پاک ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے کلمات کی سیاہی کے برابر پاک ہے۔صحیح مسلم

ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایساوظیفہ نہ بتاؤں جو تمہارے رات دن اور دن رات کے ذکر سے بھی افضل ہو؟ اللہ تعالیٰ پاک ہے اپنی مخلوق کی تعداد کے برابر اور اللہ تعالیٰ پاک ہے اپنی مخلوق کی بھلائی کے برابراور اللہ تعالیٰ پاک ہے ہر چیز کی تعداد کے برابر اور اللہ تعالیٰ پاک ہے  اپنی کتاب کے شمار کے برابر۔ اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اُس کی مخلوق کے برابراور اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اُس کی مخلوق کی بھلاائی کے برابراور اللہ تعالیٰ کی تعریف ہے ہر چیز کی تعداد کے برابراور اللہ تعالیٰ کی حمد ہے ہر چیز کی بھلائی کے برابراور اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اُس کی کتاب کے شمار کے برابر اور اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اُس کی کتاب کے شمار کی  بھلائی کے برابر ۔تبرانی/بزار

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا

الاحزاب – 35

بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لئے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

اللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے لئے قرآن عظیم کو باعثِ برکت اور اِس کی آیات و ذکرِ حکیم  کو  نفع بخش بنائےاور ہمیں سید المرسلین کے طریقے اور دُرست بات سے فیض یاب فرمائے۔اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اپنے ،تمہارے اور تمام مسلمانوں کے لئے تمام گناہوں سے اللہ تعالیٰ کی بخشش طلب کرتاہوںسو تم بھی اُسی سے بخشش طلب کرو۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اس رب العالمین کے لئے ہیں  جو نیک لوگوں کا دوست  اور اطاعت کرنے والوں کا قدر دان اور نافرمانوں کو معاف کرنے والا ہے۔میں اپنے رب کی ظاہر اور پوشیدہ تمام نعمتوں پر اُس کی حمد بجالاتا ہوں جنہیں اُس کے سوا کوئی شمار نہیں کرسکتا۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ،جو انتہائی طاقتور ،مضبوط ترین  روزی داتا ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ  ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسولِ امین  ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے  و رسول  محمد ﷺ اور اُن کی آل و اصحاب پر قیامت تک درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و ثنا کے بعد!

حرام امور سے دوری اور نیکیوں کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔

اے اللہ کے بندو! غفلت و اعراض  اور امیدوں کے غرور سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔بلاشبہ تم ایسے وقت ِ مقرر سے گزر رہے ہو جو ہر بعید کو قریب اور ہر نئے کو پرانا کردیتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں رسول اکرم ﷺ کی پیروی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا

الاحزاب – 21

یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ ہر حال میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔صحیح مسلم

اور زید بن اسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : اے اللہ ! اے میرے رب! تو نے مجھ پر بہت زیادہ احسانات کئے ہیں۔تو آپنا بکثرت شکر کرنے کے لئے میری رہنمائی فرما۔تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  تو میرا ذکر کثرت سے کیاکر۔پس جب تو نے میرا ذکر بکثرت کیا  تو یقیناً تو نے میری شکر گزاری کی ،اور جب تو نے مجھے بھلادیا تو یقیناً تو نے میری ناشکری کی ۔شعب البیہقی

اور سلف صالحین رضی اللہ عنہم  اپنے کمالِ محبت کی بنا پر ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے ذکر پر ہمیشگی کرتے تھے۔جیساکہ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا ایک ہزار گرہ والا دھاگہ تھا اور جب تک وہ ان گرہوں پر تسبیح نہ پڑھ لیتے ،سوتے  نہیں تھے۔(ابو نعیم /حلیہ)

نیز ابو نعیم نے حلیہ میں ذکر کیا کہ ابن سیرین کا ہم کلام  – سبحان اللہ العظیم   – تھا۔ اور خالد بن معدان  رحمہ اللہ  تلاوتِ قرآن کے علاوہ روزانہ چالیس ہزار مرتبہ تسبیح پڑھتے تھے۔اور خصوصاً اس پُر فتن زمانے میں جبکہ دلوں پر غفلت طاری ،آنکھوں  پر شہوات و شبہات  اور خواہش پرستی کے پردے پڑے ہیں اور دنیاوی زیب و زینت اور سجاوٹ کا دور دورہ ہے ،ان حالات میں مسلمانوں کو ذکرِ الٰہی کی اشد ضرورت ہے ۔لہٰذا مسلمان کو چاہیئے کہ وہ ایسے اذکار پر مشتمل کتب  بینی کو اختیار کرے جس  سے اُسے نفع و بصیرت حاصل ہو اور وہ اس کے مطابق عمل کرے ۔ اذکار کی مفید ترین کتابوں  میں سے  -تحفۃ الذاکرین  – وغیرہ ہیں ۔

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو ۔

اور آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا  تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اُس پر دس رحمتیں نازل فرمائےگا۔

اے اللہ محمد اور آلِ محمد ﷺ پر اُسی طرح رحمتیں اور  برکتیں نازل فرماجس طرح  تو نے ابراھیم علیہ السلام اور اُ ن کی آل پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں ۔

اے اللہ تو تمام صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین سے راضی ہوجا بالخصوص چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی سےراضی ہوجا۔

اے اللہ ! تو اُن کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! قیامت تک بدعت کو ذلیل و رسوا  کر  جو تیرے پسندیدہ دین اور تیرے نبی ﷺ کے دین کی مخالف ہے۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! تو ہمارے لئے حق کو بھی واضح کرے اور باطل کو بھی واضح کردے ۔

اے اللہ ! ہم جنت اور جنت کے قریب کرنے والے  اعمال کا تجھ سے سوال کرتے ہیں۔

اے اللہ ! ہم اپنے اور دیگر تمام مسلمانو ں کے مرحومین کی مغفرت کے لئے تجھ سے سوال کرتے ہیں ، تو اُن کی نیکیوں کو بڑھادے اور گناہوں کو گھٹا دے۔

اے اللہ ! ہماری حفاظت فرما اور ہماری اولاد کی ابلیس سے حفاظت فرما۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرتے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔

اے اللہ ! تو فلسطین کی اور  اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ،ان کی نصرت فرما، ان کی حفاظت فرما۔ اللہ کے بندو ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں  سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔

خطبة الجمعة مسجد نبوی: فضیلة الشیخ علی الحذیفی حفظه اللہ
12 محرم 1443هـ  بمطابق 20 اگست 2021

مصنف/ مقرر کے بارے میں

   فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ

آپ ان دنوں مسجد نبوی کے امام ، قبل ازیں مسجد قباء کے امام تھے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوبصورت آواز میں بہترین لہجے میں قرات قرآن کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کے محبین موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ تادیر آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ۔آمین