ذہنی سکون ، اسباب و وسائل

پہلا خطبہ :

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو بادشاہت کا مالک ہے، وہ جسے چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے ،وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے ذلت، اسی کے ہاتھ میں بھلائی ہے، بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے، اور مردہ کو زندہ سے ،اور جسے چاہتا ہے بلا حساب رزق دیتا ہے، ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، دنیا و آخرت میں اسی کے لئے حمد ہے، اسی کا فیصلہ ہے، اور اسی کی طرف آپ سب لوٹائے جاؤ گے، میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول اور دوست ہیں ،اور اس کی مخلوقات میں چنیدہ ہیں۔

آپ ﷺ نے اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور اپنی امت پر حجت قائم کردی۔ آپ ﷺ نے کوئی خیر نہیں چھوڑی  مگر امت کو اس کی رہنمائی کی، اور کوئی شر نہیں چھوڑا مگر امت کو اس سے ڈرایا ،اللہ کا درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پراور آپ ﷺ کے پاکباز، پاک اہل خانہ اورآپ ﷺ کی بیویوں امہات المؤمنین پر۔ آپ ﷺ کے روشن مبارک صحابہ پر، تابعین پر اور ان لوگوں پر جو تاقیامت ان کا اچھی طرح اتباع کریں اور بہت زیادہ سلامتی نازل فرمائے۔

اما بعد !

لوگوں! آپ اللہ تعالیٰ کا کما حقہ تقوی اختیار کریں ، اور اسلام کے مضبوط کڑے کو پکڑلیں اور مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑیں، بے شک اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔ آپ دین میں نئی گھڑی گئی چیزوں سے بچیں، بے شک ہر نئی گھڑی گئی  چیز بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

اللہ کے بندوں! زندگی بدلتی رہتی ہے وہ اپنے اندر خوشیاں اور پریشانیاں ہنسی اور رونا اور گدلا پن وشفافیت سمیٹے ہوئی ہے، جسے ایک وقت اچھا لگا تو اسے دوسرا وقت برا لگے گا ،زندگی کو بد مزا کرنے والی چیزیں بہت ہیں اور انسان کے نفس کو گدلا پن، تنگی اور دکھ وغم ہر سمت میں گھماتا رہتا ہے۔

اللہ کے بندوں! اس جیسی کثافت اس بات کی ضامن ہے کہ انسان سے ذہنی سکون کو دور کردیں، یہاں تک کہ اس کے لئے شہد کو کڑوا اور میٹھے پانی کو سخت کھارا بنا دیں۔

اللہ کے بندوں! اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی میں عظیم ترین نعمتوں میں سے دلی سکون ہے جس نے اسے اپنی زندگی میں چھک لیا وہ گویا ہر چیز کا مالک ہو گیا، اور جس نے اسے اپنی زندگی میں کھو دیا ،وہ گویا کسی چیز کا مالک نہیں ہوا، اور کسی کو یہ سمجھنا نہیں چاہیئے کہ ذہنی سکون کا مطلب کام چھوڑنا یا آرام پسندی اور سستی ہے، ہرگز نہیں بلکہ یہ پورا سکون دلی اور جسمانی عمل سے پیدا ہوتا ہے اور کوئی عجب نہیں جب یہ کہا جائے کہ کام ذہنی سکون کے تقاضوں میں سے ہے۔

مسلمانوں عربی لفظ بال کا مفہوم حال اور شان ہے، کہا جاتا ہے: فلاں خوشحال اور پرسکون نفس و دل  ہے۔ وہ اپنی اضافت کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے جیسے حالت کی پس مردگی ،حالت کی مصروفیت ،حالت کا بگاڑ۔ اور ہر عقل مند کو مقصود ہے وہ سکون جو  درستی اور شفافیت سے عبارت ہے۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ، وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۙ- كَفَّرَعَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَاَصْلَحَ بَالَهُمْ

محمد – 1/2

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیئے ، اور جو لوگ ایمان لائے اوراچھے کام کیے اوراس چیز پر بھی ایمان لائے جو محمد ﷺ پر اتاری گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کے حال کی اصلاح کر دی۔

 اہل نظر و دانش سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ذہنی سکون انسان کا مطلوب و مقصود ہے، جسے ایسے دلی سکون کی ضرورت ہے جہاں شور نہ ہوں ،اورایسے  روحانی شفافیت کی ضرورت ہے جس میں گدلے پن کی آمیزش نہ ہو، اس میں پرکشش اسباب اختیار کئے جاتے ہیں اوررکاوٹ  بننے والے اسباب ختم کیے جاتے ہیں، نفسیاتی تناؤ، بے چینی  کشیدگی اور ڈر اور مثبت پہلو پر منفی خیالوں کو غالب کرنا یہ سب ایسے عوامل ہیں جو اگرچہ ذہنی سکون کو بالکل ختم نہ کریں لیکن ذہنی سکون کے منافی ضرور ہیں، اس میں مرکزی جگہ دل ہے کیونکہ کہ جب دل صحت مند بیدار رہے گا تو وہ ذہنی سکون  کو شفافیت اور  سینے کی سلامتی کی بارشوں سے سیراب کرے گا ،جہاں لوگوں کے لئے ماحولیاتی آلودگی منفی ہے،وہ ہی منفی دلی آلودگی بھی مطلوب ہے کیونکہ پہلے کا مقصد ماحول کی حفاظت اور دوسرے کا مقصد ذہن کی حفاظت ہے۔

چنانچہ وہ شخص ذہنی سکون نہیں پاسکتا ہے جو دوسروں کی برائی کرے تاکہ ان کی بجائے وہ خود صفت تعریف سے متصف ہو، اور نہ ہی وہ شخص ذہنی سکون پاسکتا ہے جو اپنی شان بڑھانے کے لئے دوسروں کی شان گھٹائے، اور نہ ہی وہ شخص ذہنی سکون پاسکتا ہے جو دوسروں کی روشنی کو بھجائے تاکہ اس کی روشنی چمکے، نہ وہ شخص پاسکتا ہے جو دوسروں کو چپ کرائے تاکہ اسی کی بات سُنی جائے اور نہ وہ شخص ذہنی سکون پاسکتا ہے، جو دوسروں کے کندھوں پر چڑھے تاکہ ان کی بجائے خود اپنے لیے پھل توڑے۔

 اسی طرح وہ شخص بھی ہرگز ذہنی سکون چکھ نہیں سکتا ہے جو اپنی ذات پر لوگوں سے مصالحت نہ کریں اور ان کے ساتھ لڑائی کو ختم نہ کریں۔ اسی طرح وہ شخص بھی ذہنی سکون نہیں پاسکتا، جو بغیر تکلف کہ ویسا نہ رہے جیسا کہ وہ ہے اور جو ایسا لباس پہنے جو اس کا ہے ہی نہیں اور جو ایسی چال چلے جو اس کی چال نہیں۔

اسی لیے ہر مسلمان  پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفس کا دوبارہ جائزہ لے،اور اپنے متعلق ہر چیز پر نظر رکھیں اور چپکے سے ہر اس چیز سے کھسک جائے جو اس کی روح اور جسم کو نقصان پہنچائیں، چنانچہ  نہ حاسد کو ذہنی سکون ہے نہ چغل خور کو، نہ اس دل کو سکون ہے جو کینوں سے لبریز ہو، بے شک اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ذہنی سکون عطا کرتا ہے جو کہ مغموم القلب ہو۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ مغموم القلب  کون ہے؟ وہ متقی صاف ستھرا دل جس میں نہ کوئی گناہ ہو نہ کینہ ، اور نہ ہی ظلم و حسد۔ جیسا کہ  صادق المصدوق نبی اکرم ﷺ  کی صحیح حدیث میں آیا ہے۔

ذہنی سکون ایک بڑی نعمت اور عظیم عطیہ ہے جسے ہرکوئی حاصل نہیں کرپاتا وہ مال سے خریدا نہیں جاتا ،اور نہ ہی غربت کی وجہ سے ختم ہوتا ہے وہ دل احساس اور جذباتی شعور ہے ،جہاں اسے دنیا کی آسائشیں نہیں لاسکتی چاہے جتنا مال و جاہ ہو، اسے غربت ومحتاجگی روک نہیں سکتی چاہے جس حد تک  بھوک اور تنہائی ہو۔ ہوسکتا ہے ذہنی سکون اس فقیر کو حاصل ہوجو چٹائی پر سوتا ہے اور ایسا مال دار اس سے محروم ہو جائے جو مسندوں پر ٹیک لگاتا ہے اور ریشم کے بچھونے پر سوتا ہے۔

اللہ کے بندوں! یہ جذباتی احساس اور ذہنی سکون ہے جو اس پختہ پُل سے حاصل ہوتا ہے، جسے انسان  خود غرضی کینہ اور حسد کے سمندر کے اوپر بناتا ہے تاکہ اس پر وہ عزت نفس، دل کی سلامتی اور سینے کی کشادگی کے ساتھ اپنی دنیا سے اپنی آخرت کے لیے منتقل ہو۔ آپ دیکھیں گے کہ جو ہی رات نے اپنے پردے گرا دئے وہ اپنے بچھونے پر دراز ہوگیا، اپنی آنکھیں بند کرلیں، اور گہری نیند میں خراٹے لینے لگا۔ نہ کوئی فکر اس کے لیے رکاوٹ بنتی ہے اور نہ بے خوابی اس کی نیند کو بد مزہ کرتی ہے۔ تو ذہنی سکون کے حصول کا سب سے مختصر طریقہ یہ ہے کہ انسان یہ جان لے کہ زندگی جتنی بھی دراز ہو جائے وہ چھوٹی اور مختصر ہے۔ انسان کی دنیاوی زندگی کے سفر کو اللہ تعالیٰ نے انتہائی اختصار کے ساتھ قرآن مجید کی اِن تین میں بیان کردیا :

مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ‎﴿١٩﴾‏ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ‎﴿٢٠﴾‏ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ

عبس – 19/21

 اسے ایک نطفہ سے پیدا کیا، پھر اندازے پر رکھا، پھر اس کے لیے راستہ آسان کیا، پھر اسے موت دی، پھر قبر میں دفن کیا۔

 اللہ کے بندوں! زندگی کو اس سے زیادہ اور اس سے مختصر تصویر کشی کی ضرورت نہیں ہے تاکہ انسان یہ جان جائے کہ وہ عمر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو چاہا وہ ہوا، جو نہیں چاہا نہیں ہوا، جو اس کا ہے اسے مل کر رہے گا اگرچہ تمام لوگ انکار کریں۔ اور جو اس کا نہیں اسے ہرگز نہیں ملنے والا ہے، اگرچہ وہ قارون کے خزانوں کا مالک ہو۔

 جو حاصل نہیں کیا اس میں اچھے کی توقع۔

  1.  جو حاصل نہیں کیا اس میں اچھے کی توقع
  2.  جو حاصل کیا ہے اس میں بہتر رضامندی۔
  3.  جو فوت ہوگیا ہے اس پر اچھا  صبر۔

بے شک انسان اس سوچ کے ساتھ اور ہر وقت اس کے ساتھ رہ کر اور اسے ساتھ رکھ کر دل کے سکون اور بے لوث زندگی کی چادر لپیٹے گا، تاکہ آدمی اپنے لئے ذہنی سکون کو ہمیشہ برقرار رکھ سکے، اس لئے ضروری ہے کہ بندہ ان چار امور کو ذہن میں رکھے :

پہلا یہ کہ موت سے اس کو نجات نہیں بلکہ موت اسے آکر رہے گی چاہے وہ بھاگتا ہی کیوں نہ پھرے، کیونکہ موت اس کی نگرانی اس کے سامنے سے کرتی ہے، اس کے پیچھے سے نہیں۔

قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ۖ

الجمعۃ – 8

 آپ کہہ دیں! جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو یقیناً تمہیں آئے گی۔

 نیز اپنے ذہن میں علی رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول رکھیں: “میں کس دن موت سے بھاگ سکتا ہوں کیا اس دن جو مقدر نہیں ہے، یا اس دن جو مقدر ہے۔ جو دن مقدر نہیں اس سے میں ڈرتا نہیں ہوں اور جو مقدرہے اس سے چوکنا رہنے والا بچ نہیں سکتا۔

دوسرا یہ کہ دنیا میں ہمیشہ سکون نہیں مل سکتا اور یہ کے حالات بدلتے رہتے ہیں اگر انہوں نے کسی انسان کو خوش کیا ہے تو کسی دوسری جگہ کسی انسان کو مغموم  بھی کیا ہے۔

تیسرا یہ کہ لوگوں سے ہمیشہ سلامتی نہیں مل سکتی ہے، وہ چاہے اِس سے جتنا بچے اور ان سے دوری اختیار کرے ،ان سے محفوظ رہنا سرخ گندھک سے زیادہ کمیاب ہے۔ اور پہلے کہا گیا ہے کہ اگر چغل خورکا گھر یمامہ میں ہواور میرا گھر وادی حضر موت کے آخری حصہ میں ہو، تو بھی وہ مجھ تک پہنچ جائے گا۔ اور واضح غلطی میں سے بہت سے لوگوں کا یہ سوچنا ہے کہ ذہنی سکون الگ تھلگ رہنے سے حاصل ہوتا ہے، گھل مل کر رہنے سے نہیں ،آرام میں ملتا ہے مشقت میں نہیں جب کہ حسن حدیث میں ہے کہ وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتا ہے اور ان کی اذیت پر صبر کرتا ہے اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ گھل مل کر نہیں رہتا ہے اور ان کی اذیت پر صبر نہیں کرتا۔

چوتھا یہ کہ اس شخص کو ذہنی سکون نہیں جس کے پاس رضامندی نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کی تقدیر پر رضامندی پر ہی ذہنی سکون کی بنیاد ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اللہ  تعالیٰ نے اپنے عدل و انصاف، یقین اوررضا مندی میں سکون اور خوشی رکھی ہے اور شک و ناراضگی میں فکروغم رکھا ہے۔

 مکحول نے روایت کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے: بندہ اللہ سے خیر طلب کرتا ہے ،اوراللہ اس کے لیے کچھ پسند فرماتا ہے۔ اور وہ اپنے رب پر ناراض ہو جاتا ہے، مگر جب وہ انجام پر غور کرتا ہے تو پاتا ہے کہ اس کے لیے بہترہی کو چُنا گیا ہے۔

 حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا اس مخلوق کو پریشانی کہاں سے آتی ہے، انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی سے کم رضامند ہونے سے۔ پھران سے پوچھا گیا اللہ تعالیٰ سے کم رضامندی کہاں سے آتی ہے؟ انہوں نے کہا اللہ کے بارے میں ناقص معرفت سے۔ اوران سب میں جامع قول وہ ہے جسے جوامع الکلم دیئے گئے اور بات کرنے والوں میں سب سے فصیح ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس شخص نے ایمان کی چاشنی پالی ،جو اللہ تعالیٰ سے بطور رب ،اسلام سے بطور دین ،اور محمد ﷺ سے بطور رسول راضی ہوگیا۔ صحیح مسلم

اللہ میرے لئےاور آپ کے لئے قرآن و سنت میں برکتیں اور مجھے آپ کو ان کی آیت اور حکمت سے فائدہ پہنچائے، میں وہ کہہ رہا ہوں جوآپ سن رہے ہیں اورمیں اللہ سے اپنے لئے آپ کے لئے اور باقی تمام مسلمان مرد و عورتوں کے لیے ہر گناہ اورخطا کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں، اور اس کی بارگاہ میں توبہ کریں، بے شک میرا رب بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ :

اللہ کے لیے بہت زیادہ پاک بابرکت  تعریف ہے اور درود و سلام اللہ کے رسول مصطفی اور اس کے نبی مجتبی ﷺ پر۔

اما بعد !

اللہ کے بندوں! اللہ سے ڈرو اور جان لوکہ ذہنی سکون چار چیزوں پرمنحصر ہے:

پہلا : بدن، کہ نہ ہی اُسے زیادہ کام سے تھکایا جائے اور نہ ہی آرام، عیش وعشرت اور کم عملی سے  سست بنایا جائے۔

دوسرا: نفس، کہ نافرمانی اور گناہ کم کئے جائیں، دل میں دنیا کی فکر کی پروا کم کی جائے۔

تیسرا: زبان، کہ اسے اس چیزسے محفوظ رکھا جائے جواس کی گراوٹ کا سبب بنے، اور اسے گری ہوئی باتوں اور فحش کلام سے روکا جائے، اللہ آپ کی نگہبانی کرے۔

چوتھا: ذہنی سکون، اِسے اللہ کی اطاعت اور اس کے ذکر میں تلاش کرنے کی کوشش کریں، اسے آپ بے عیب دل اور اچھے اخلاق میں تلاش کریں، لوگوں سے اذیت کوروک کر، مصیبت زدہ کے آنسو پونچھ کر ، اور یتیم کے سرپر ہاتھ پھیر کراسے تلاش کریں۔ اسے آپ تلاش کریں سچائی ،امانت تواضع، اوررضا مندی میں۔ اسے تلاش کریں کم عقلوں کو نظرانداز کرکے، اور احمقوں سے لڑائی نہ کرکے۔

 اسے تلاش کریں، تجاہل عارفانہ میں، جو کہ اگر پورا ذہنی سکون نہیں ہے تو ذہنی سکون کے دس حصوں میں سے نو حصے ضرور ہے، جس کے پاس ذہنی سکون کے یہ متوقع وسائل نہ ہوں تو زبردستی اس کا  تکلف نہ کریں۔ کیونکہ ایسی صورت میں وہ اُس شخص کی طرح ہوگا جو کھارے پانی سے سیرابی طلب کرتا ہے یا اس شخص کی طرح ہوگا جو سوجن والوں کو موٹا سمجھتا ہے، یا چنگاری سے خالی راکھ میں پھونک ماراتا ہے۔

اللہ کے بندوں! اس کے بعد پھر نوافل سے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنا ذہنی سکون کے عظیم ترین اسباب میں سے ہے۔ کیونکہ نوافل کی کثرت اللہ کی محبت کا دریا ہے اورجس سے اللہ محبت کرے گا اللہ اس کی حالت درست کردے گا اور اسے سکون بخشے گا۔

حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: میرا بندہ جن جن عبادتوں کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے کوئی عبادت مجھے اتنی ذیادہ پسند نہیں جس قدر وہ عبادت پسند ہے، جو میں نے اس پر فرض کی، میرا بندہ نوافل کے ذریعے بھی اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا  ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے دیتا ہوں اوراگر میری پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری)

اور ہمارے دین ِحنیف میں جن نوافل کی طرف دعوت دی گئی ان میں سے عاشورہ کے دن کا روزہ ہے، یہ دُرست دین کے شعائر میں سے ہے۔ اس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس سے پہلے ایک سال کے گناہ معاف کر دے گا۔ صحیح مسلم

اللہ تعالی آپ پررحم کرے ،آپ درود وسلام پڑھیں بشیرونذیر پر، سراج منیر پر، اللہ تعالی نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے :

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اے ایمان والو تم پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی پڑھتے رہا کرو اور آپ ﷺ نے فرمایا: جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اللہ اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

 اے اللہ! تو درود نازل فرما اپنے بندہ رسل پر، جو روشن چہرہ، چمک دار پیشانی والے ہیں۔

 اے اللہ! توراضی ہوجا چار خلفاء پر، ابو بکر و عمر، عثمان وعلی رضی اللہ عنھم سے تیرے نبی محمد ﷺ باقی صحابہ سے، تابعین سے، اوران لوگوں سے جو تاقیامت ان کا اچھی طرح اتباع کریں۔

اے اللہ! تو اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرمایا۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔ دین کے قلعوں کی حفاظت فرما اور اس ملک کو اور مسلمانوں کے باقی تمام ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنا۔

اے اللہ! تو ہمیں ہمارے وطن میں امن عطا فرما، ہمارے پیشواؤں اور سربراہوں کی اصلاح فرما، اور سرپرستی ان لوگوں کے ہاتھ میں رکھ جو تجھ سے ڈریں، اور تیرا تقوی اختیار کریں، اور تیری رضا مندی کی پیروی کریں۔

  اے رب العالمین! اے اللہ! تو ہمارے امام اور ولی الامرکوافعال واعمال کی توفیق دے، جو تجھے پسند ہوں اور توان سے راضی ہو۔

اے اللہ! تو ان کے مشیروں کی اصلاح فرما۔

اے اللہ! ولی عہد کو اس کام کی توفیق دے جس میں ہر شے کی بھلائی ہو۔

اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما،اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ یاحی یاقیوم یا ذالجلال والاکرام۔

خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ سعود الشریم حفظه اللہ
7 محرم 1444ھـ بمطابق 05 اگست 2022

مصنف/ مقرر کے بارے میں

  فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم حفظہ اللہ

کعبہ کے ائمہ میں سے ایک نام ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم حفظہ اللہ کا ہے ، جن کی آواز کی گونج دنیا کے ہر کونے میں سنائی دیتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے بڑی صلاحیتوں سے نوازا ، جن میں سر فہرست خوبصورت آواز ہے۔ آپ 19 جنوری 1964 ء کو پیدا ہوئے ، ام القریٰ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اور اب وہیں شریعہ فیکلٹی کے ڈین اور استاد کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔