بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
تفسیر، فضائل ، پڑھنے کی کیفیت ، اوقات و مقامات
حماد امین چاؤلہ[1]
کچھ بسم اللہ کی فضیلت کے بارے میں:
اللہ تعالیٰ جو نا صرف یہ کہ ہماراخالق ہے بلکہ ہمارا پالنہار بھی ہے اور ہم پرسب سے بڑھ کررحمٰن و رحیم مہربان بھی ہے، وہ ہم سے بڑی محبّت فرماتا ہے وہ چاہتا ہے کہ ہماری دنیا و آخرت سنور جائے ، ہم اچھے کام کریں اور ہمارے ہر اچھے کام میں خوب خیر و برکت ہو جس سے ہمیں بھی فائدہ ہو اور دوسروں کو بھی ، اسی مقصد کے حصول کے لیے اُس نے ہمیں بہت سے احکامات دیے ۔ اُنہی احکامات میں سے ایک اہم حکم اُس نے ہمیں یہ دیا کہ ہم اپنے ہر اچھے کام کو ’’ اللہ ‘‘ کےمُقدّس و بابرکت نام سے شروع کریں ۔ کیونکہ ذات ِ باری تعالیٰ بڑی مقدس اوربڑی بابرکت ہے، فرمانِ الٰہی ہے:
اللَّـهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
سورہ غافر آیت نمبر 64
اللہ تووہ ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو رہنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورت بنائی تو بہترین صورتیں بنائیں اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، یہ ہے اللہ ،تمہارا رب، سو اللہ بہت برکت والا ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘اور اُس کی ذات کی طرح اُس کانام بھی بڑابابرکت ہے،فرمانِ الٰہی ہے:
تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
سورہ رحمن آیت نمبر 78
بڑا ہی بابرکت ہےتیرے پروردگار کا نام جو عزت و جلال والا ہے
اس لئے تمام جائز و اچھےکام اسی’’ اللہ ‘‘ کے نام کےساتھ شروع کرناناصرف یہ کہ اسلامی تعلیم ہےبلکہ اُن کاموں میں خیر و برکت ، آسانی و کامیابی کے حصول کا بنیادی ذریعہ بھی ہے ۔
خاص طور پر اگرہم چاہتے ہیں :
- جو کام ہم نے شروع کیا ہے وہ خیر سے آسانی کے ساتھ مکمّل ہوجائے۔
- ہمارے ہر اچھے کام میں خوب برکت اور فائدہ ہو۔
- اُس کام کو پایہ ِ تکمیل تک پہنچانے میں اللہ کی مدد ہمارے شاملِ حال رہے۔
- اور ا س میں کوئی رُکاوٹ،پریشانی ، تکلیف اور نقصان بھی نہ آئے۔
- کہ ہم اپنےہر کام میں کامیاب ہوجائیں ۔
- اور اگر اُس کام کا تعلّق نیکی سے ہے تو وہ اللہ کے یہاں قبول بھی ہو جائے اوراس کےبہترین اثرات و نتائج بھی ہمیں حاصل ہوجائیں۔
تو ہمیں اپنے اللہ کے اِس حکم کی تعمیل کرنی ہوگی۔
نیز یہ حکم اللہ نے اپنے پیارے و برگزیدہ پیغمبر جناب محمدرسول اللہﷺ کو بھی دیا اور آپﷺ کی امت یعنی تمام مسلمانوں کو بھی دیاہے۔
بسم اللہ کے مذکورہ فوائد ہمیں کب اور کیسے حاصل ہوں گے؟
یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ انسان کوکسی بھی جائز و اچھے کام میں مذکورہ فوائداُسی وقت حاصل ہوں گے جب اس میں کم از کم مندرجہ ذیل چار باتیں موجود ہوں گی:
- پہلے تو اس بات کا پختہ عقیدہ و نظریہ رکھے کہ صرف ایک اللہ ربّ العزّت ہی ہے کہ جو ہر ایک کو ہر وقت ہر طرح سےفائدہ پہنچانے اور نقصان سے بچانےپر مکمّل اور پوری طرح قدرت و طاقت رکھتا ہے، وہی قادرِ مُطلق ہے اور اُس ایک اللہ کے علاوہ کوئی بھی ذات خواہ وہ نبی مرسل ہو ، مقرّب فرشتہ ہو، جن ہو ، کوئی پیر و مُرشد ہو یا کوئی حجر و شجر وغیرہ ،اللہ جل جلالہ کے علاوہ کوئی بھی کسی کوبھی کسی بھی طرح کا فائدہ پہچانے اور نقصان سے بچانے پر قادر نہیں۔
- وہ یہ بھی پُختہ عقیدہ رکھے کہ کوئی بھی انسان اللہ کے حکم و مشیئت کے بغیرخود اپنے بل بوتے ، طاقت و اختیارات کی بناپر نہ ہی خود کوئی فائدہ حاصل کرسکتا ہےاورنہ ہی کسی شر و نقصان سےبچ سکتاہے، لہٰذا ہر انسان، ہر دم ، ہر لمحہ اللہ کا محتاج ہے ۔
- اس کے بعد وہ انسان اپنی جان ، مال ، عزّت و آبرو سب کچھ اللہ کے حوالے کردے، اس طور پر کہ اللہ ہی پر بھروسہ کرے ، اُسی سے ہی امید لگائے اور اُسی سے ہی ڈرے ۔
- پھر اللہ سے فائدہ حاصل کرنے اور نقصان سے بچنے کا مسنون ( قرآن کریم و سنّتِ نبویہ ﷺ سے ثابت شدہ) انداز و طریقہ اختیار کرےجس کا ذکر اگلی سطور میں آرہا ہے۔
ان چاروں باتوں پر عمل کرتے ہوئےپھر وہ اللہ سے وہ فائدہ بھی اور نقصان سے بچاؤ بھی طلب کرے تو اُسے یقیناً اللہ کی مکمّل حمایت ومدد حاصل ہوگی ان شاء اللہ۔
بسم اللہ پڑھنے کی کیفیت (کب،کس انداز سےاور کتنی پڑھی جائے)
’’بسم االلہ الرحمٰن الرحیم ‘‘کب اور کہاں مکمّل پڑھی جائے گی ، کب محض ’’بسم اللہ ‘‘ پڑھنےپر اکتفا کیا جائے گا اور کب ’’بسم اللہ ‘‘ کے ساتھ مزید الفاظ کا اضافہ کر کے پڑھا جائے گا؟
’’ بِسْمِ اللہ ِ ‘‘ پڑھنے کے تعلّق سے مذکورہ ان تین مواقع اور صورتوں کو ذہن نشین کرلینا ضروری ہے۔
یاد رکھیں اس کا ضابطہ یہ ہے کہ:
- (1)جہاں کہیں نبی کریم ﷺ سے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ‘‘ مکمّل پڑھنا ثابت ہے وہاں مکمّل ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ‘‘ پڑھی جائے گی ،جیسے قرآن مجید کی سورتوں کی ابتداءوغیرہ میں۔
- اور جہاں نبی کریم ﷺ سے محض ’’بسم اللہ ‘‘ پڑھنا ثابت ہو وہاں محض ’’بسم اللہ ‘‘ پڑھنے پر ہی پر اکتفا کیا جائے گا، جیسے وضوء کی ابتداء وغیرہ میں۔
- اور جہاں نبی کریمﷺ سے’’بسم اللہ ‘‘ کے ساتھ مزید الفاظ کا اضافہ کر کے پڑھنا ثابت ہو وہاں اُس مسنون اضافہ کے ساتھ ہی ’’بسم اللہ ‘‘ پڑھی جائے گی۔
- اور جہاں نبی کریمﷺ سے’’بسم اللہ ‘‘ کے ساتھ مزید الفاظ کا اضافہ کر کے پڑھنا ثابت ہو وہاں اُس مسنون اضافہ کے ساتھ ہی ’’بسم اللہ ‘‘ پڑھی جائے گی۔
خلاصہ کلام: یہ ہے کہ جہاں جس انداز سے ’’ بِسْمِ اللہ ‘‘ پڑھنا ثابت ہو وہاں اسی انداز سے پڑھیں اور جہاں مخصوص انداز سے ثابت نہ ہو اور وہ کام بھی جائز اور اچھا ہو تو وہاں اللہ کا نام ضرور لیں، چاہیں تو مکمّل’بِسْمِ اللّٰہِ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘ پڑھ لیں اور چاہیں تو محض’ بِسْمِ اللّٰہ ‘ کہنے پر اکتفا کرلیں اور چاہیں تو ’ بِسْمہ تعالیٰ‘ وغیرہ کہہ لیں۔ واللہ اعلم
بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان بے حد رحم فرمانے والا ہے
مختصر و اجمالی تفسیر
’’ب‘‘ : حرفِ ’’ ب ‘‘ کے عربی میں کئی معنی ہوتے ہیں اوریہاںاستعانت ( مدد طلب کرنے ) یا مصاحبت (ساتھ )کے معنی میں ہے ۔
’’ اسم‘ ‘: کا معنی ہے ’’ نام ‘‘۔
اللّٰہ:
رسول اللہ ﷺنے فرمایا : بِسْمِ اللّٰہ میں( ا للّٰہ )اللہ تعالیٰ کا (ذاتی) نام ہے۔ اللہ عزّوجل کے اور بھی کئی پیارے(صفاتی) نام ہیں۔
[2]
اللّٰہ اس ذات کا نام ہے جس میں تمام کمال والی صفات پائی جاتی ہیں۔ یہی لفظ اسمِ اعظم ہے۔ کیونکہ تمام کمال والی صفات اسی کے تابع ہیں، فرمان الٰہی ہے:
هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ
ا لحشر: 22
’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا حقدار نہیں ، جو ظاہر وباطن کا علم رکھتا ہے اور بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔‘‘
لفظ الجلالۃ ’’ ا للہ ‘ ‘ کا معنی ہے : وہ ذات جو ’’ معبودِ برحق ‘‘ ہے ۔
یعنی وہ مبارک اور بلند مقام ذات کہ جو ’’ اکیلامعبودِ برحق ‘‘ہے ، جس کی الوہیت ، ربوبیت اور اسماء و صفات
یعنی مبارک ناموں اوربلند و باکمال صفات میں کوئی اُس کا ہمسر و شریک نہیں ۔
اللہ کو اکیلا ماننا ’’ توحید ‘‘ کہلاتاہے اور اس کی تین بنیادی قسمیں ہیں :توحیدِ الوہیت ، توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ اسماء و صفات۔
توحیدِ الوہیت سے مراد:
عبادت اور عبادت کی جملہ اقسام ہیں ۔جس میں اللہ کا نہ ہی کوئی ہمسر ہے اور نہ ہی کوئی شریک۔ وہی اکیلا رکوع و سجود ، نذر و نیاز ، ذبح و قربانی کیے جانے کے لائق ہے ، اُسی کے سامنے ہاتھ بھی اٹھائے جائیں اور اُسی کے سامنے اُسی کے در پر سر بھی جھکایا جائے، اُسی پر توکل و بھروسہ کیا جائے ، اُسی سے محبّت کی جائے اور اُسی کی محبت کی وجہ سےکسی سے بھی محبّت کی جائے ، اُسی سے ڈرا جائے اور اُسی سے امیدیں وابسطہ کی جائیں ، اُسی کو پکارا جائےاور اُسی سے مدد مانگی جائے ان تمام امور میں کسی بھی غیر اللہ کو اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھرایا جائے۔الغرض عبادت اوراس کی تمام اقسام، وہ دلی عبادت ہو یا جسمانی و بدنی عبادت یا مالی عبادت ہو،سب کی سب اُسی ایک اللہ کے ساتھ خاص ہیں لہٰذا ان میں اللہ کو ایک ماننا اور اللہ کے ساتھ کسی بھی غیر اللہ کو شریک نہ ٹھرانا ہی لفظ الجلالہ ’’ اللہ ‘‘ کا معنی بھی اور تقاضہ بھی اور یہی مقصدِ بعثتِ رسُل علیہم السلام بھی ہے ، یہی ایمان کا ضابطہ و معیار ہے اور اسی پر کل قیامت کے دن جنت و جہنم کے فیصلے ہوں گے۔ اسے خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔
توحیدِ ربوبیت سے مراد :
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا اِس پوری کائنات اور کائنات کی ہر مخلوق کا خالق و مالک و رازق ومدبِّر ہےکائنات کی ہر شئ و ذات اُس کی غلام و محتاج ہے اور وہ سب سے بے نیاز ہے ، وہی اکیلا داتا، دستگیر،حاجت روا ، مشکل کشا، غوثِ اعظم ، فریاد رس،نیّاپار لگانے والا ،بگڑی بنانے والا، اولاد دینے والا الغرض ہر قسم کی نعمتیں دینے والا اور ہر قسم کی مصیبت ، تکلیف اور پریشانی سے نجات دینے والا بھی بس وہی اکیلا ہے ، وہی مُدبِّر بھی ہے جو اس کائنات میں اکیلا ہی ہر قسم کے تصرّفات کا اختیار بھی رکھتا ہے ، اُس کے اذن و مشیئت کے بغیر کوئی پتّہ تک ہل نہیں سکتا ،وہ جو چاہتا ہے جس کے لیے چاہتا ہےجب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے وہ کرتا ہے،سب اُس کے سامنے جوابدہ ہیں اور وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں،وہی مُختارِ کل اور قادرِ مطلق ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا ۔ان تمام امور میں وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔
توحیدِ اسماء و صفات : جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی الوہیت و عبادت اور ربوبیت میں اکیلا اور واحد و احد ہے اسی طرح وہ اپنے تمام مبارک ناموں اور بُلند و باکمال صفات میں بھی وحدہ لاشریک ہے۔
وہ رحمان و رحیم بھی ہے اور جبّار و قوی بھی ،اُس کی رحمت کائنات کی ہر شئی پر وسیع و محیط ہے،اُس کے بڑے ہی خوبصورت و مبارک نام بھی ہیں اوربلند و باکمال صفات بھی ہیں اور اُس کی الوہیت و عبادت میں ، اُس کی ربوبیت میں اور اس کے ناموں اور باکمال صفات میں اُس کا کوئی شریک و ہمسرنہیں ہے خواہ وہ نبی مرسل ہو ، مقرّب فرشتہ ہو، جن ہو ، کوئی پیر و مُرشد ہو یا کوئی حجر و شجر وغیرہ۔فرمانِ الہٰی ہے:
هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ
الحشر:22
’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا حقدار نہیں ، جو ظاہر وباطن کا مکمّل علم رکھتا ہے اور بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔‘‘
اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:
یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں جو کہ ’’ر ح م‘‘ (رحم) سے مشتق ہیں ۔
حدیثِ قدسی ہے،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ میں رحمٰن ہوں ،میں نے ہی رحم (رشتہ داری) کو پیدا کیا ہے اور اپنے نام سے اس کا نام رکھاہے۔ میں رحم (رشتہ داری)جوڑنے والوں پر رحم کروں گا اور توڑنے والوں پر رحم نہیں کرونگا۔‘‘
[3]
اوریہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں(مبالغہ یعنی جس میں حدسےزیادہ کا معنی پایا جائے) ۔
’’رحمٰن ‘‘ اور ’’ رحیم ‘‘ میں فرق:
- رحم (رحمت و مہربانی)کی صفت ’’رحمٰن ‘‘ میں ’’ رحیم ‘‘ سے زیادہ ہے۔’’رحمٰن ‘‘ میں ’’ رحیم ‘‘ کی نسبت اتنا زیادہ مبالغہ ہےکہ یہ اللہ تعالیٰ کے دوسرے ذاتی نام کا درجہ رکھتا ہے۔
- یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں ’ ’رحمٰن ‘‘ وہ مبارک اور اعلیٰ صفت ہے کہ جس کااستعمال غیر اللہ یعنی مخلوق کے لیے حرام اور ناجائز ہے۔جبکہ ’’ رحیم ‘‘ کا استعمال مخلوق کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے۔
نیز ان دونوں کے درمیان اس طرح بھی فرق کیاگیا ہے کہ :
- ’’ رحمٰن ‘‘ سے مراد ہےکہ مسلم و کافر دونوں پر رحم کرنے والا جبکہ’’ رحیم ‘‘سے مراد کہ جس کی رحمت اُس کے مؤمن بندوں کے ساتھ خاص ہو۔
- ’’ رحمٰن ‘‘ سے دنیا اور آخرت دونوں میں رحم فرمانے والا او ر ’’ رحیم‘‘ سے صرف آخرت میں رحم فرمانے والا مراد ہے۔اور دنیا کے مقابلہ میں آخرت کی رحمت کیا ہوگی اس کا اندازہ درجِ ذیل حدیث کیا جاسکتا ہے:
رسول اللہ ﷺکا فرمان ہےکہ :’’اللہ کی رحمت کے سو(100) حصّے ہیں، جن میں سے صرف ایک حصّہ اُس نے دنیا میںتمام مخلوقات انس و جن ،چرند پرند ،کیڑے مکوڑےوغیرہ کے لیےاتارا ہےجس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ نرمی و محبت کا معاملہ کرتے ہیں اور اسی (ایک رحمت کے حصے ) کی وجہ سےدرندے اپنی اولاد سے محبت و رحمت کا معاملہ کرتے ہیں۔جبکہ رحمت کے بقیہ ننانویں حصّے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ہی مختص کر رکھے ہیں کہ جن کے ساتھ وہ روزِ آخرت اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔‘‘[
[4]
بِسْمِ اللّٰہِ سے متعلّقہ چند اہم مسائل کا اجمالی جائزہ :
- بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم ‘‘ قرآن کریم کی’’ سورۃ نمل‘‘ میں آیتِ سجدہ کے بعد والی’’ آیت کا مستقل جزو ‘‘ ہے۔
- جہاں تک ’’ بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم ‘‘کا ہر سورت کی ابتداء میں لکھے اور پڑھے جانے کا تعلّق ہے تو اس میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ کسی بھی سورت کی پہلی آیت نہیں ، بلکہ محض دو سورتوں کے درمیان فاصلہ کے لیے لکھی اور پڑھی جاتی ہے سوائے سورۃ التوبہ (سورہ برأت) کے کہ اُس کے شروع میں ’’بسم اللہ ‘‘ نہ لکھی جائےگی اور نہ پڑھی جائے گی۔
بسم اللہ پڑھنے کے اوقات و مقامات:
قرآن مجید کی تلاوت اور کچھ بھی اچھا پڑھنے سے پہلے:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
العلق:1
’’پڑھ اپنے رب کےنام سے جس نے (تمام مخلوق کو) پیداکیا ‘‘۔
(2) کچھ بھی اچھا و جائزلکھنے سے پہلےجیسےخطوط ، رسائل، ایمیل، درخواست وغیرہ :
ہمارے پیارے نبی کریم جناب محمد رسول اللہﷺ کا یہ طریقہ تھا ، آپ ﷺنے جوبادشاہوں کی طرف خطوط لکھےان کی ابتدا بھی ’’ بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم ‘‘سے فرمائی تھی ، اور اسی طرح سلف صالحین کا بھی یہی عمل رہاہے۔
تنبیہ : ایک اہم مسئلہ’’ بسم اللہ اور عدد786‘‘ کی وضاحت:
آجکل عوام میں یہ رواج ہے کہ کسی بھی چیز کی ابتداء میں 786کاعددلکھتےہیں اوران کا گمان ہے کہ ابجد کے حساب سےیہ ’’ بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم ‘‘ کاعددبنتاہے اوریہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس طرح ’’بسم اللہ ‘‘ کی بے ادبی نہیں ہوتی ۔
یہ سب نہایت غلط اور غیر شرعی ہے کیونکہ ایک تو ایسا کرنا نبی کریمﷺ اور آپ کے بعد کے نیک لوگوں سے بھی ثابت نہیں لہٰذایہ دین میں نیاکام ہے ، اس لئے بدعت ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ اگر بے ادبی کے خدشہ کے پیشِ نظر ایسا کرنا صحیح ہوتا تو رسول اللہ ﷺنے جن بادشاہوں کی طرف خطوط لکھےتھےجن کی ابتداء میں بسم اللہ لکھی تھی تووہ حکمران تو کافرتھےاوروہاں اس کی بے ادبی کا خدشہ زیادہ تھا بلکہ ایران کے بادشاہ نے توخط کی اہانت کی اوراسے پھاڑڈالا،اس کے باوجود نبی کریمﷺ نے یہ طریقہ نہ بدلا اور بسم اللہ کا کوئی بدل اختیار نہیں فرمایا اس لیے ہمیں نبی کریم ﷺہی کی پیروی کرنی چاہیے۔
اسی طرح یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اعداد کبھی بھی قرآن کریم و اذکارکا بدل نہیں ہوسکتے اور اگرایک لمحہ کے لیے یہ تصور کربھی لیا جائےتوپھرکیا اس بدل کی بھی توہین کا خدشہ باقی نہیں رہتا ؟ اور کیا بسم اللہ اور قرآن کریم و اذکار کا جو یہ متبادل اعداد کی صورت میں نکالتے ہیں تو کیا ان کی توہین جائز ہے؟
اسی طرح اعداد کو متبادل کے طور پراختیار کیے جانے کا ایک اور بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ لوگ بجائے اس کے کہ اللہ کے نام ، قرآن کریم و اذکار کے معاملہ میں مزیدادب و احتیاط برتنے کی کوشش کرتے اور اس پر اُن کی تربیت ہوتی، ہوا یہ کہ اعداد کو اختیار کرکے وہ بے فکر ہوگئے اور اصل مقصد جو کہ اللہ کے نام ، قرآن کریم و اذکار کا احترام اور ان کے ساتھ زبانی و عملی تعلق تھا ،اُس سے غافل ہوگئے۔لہٰذا ان سب باتوں پر غور کرنے کی اور انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے ، جس عمل کو شریعتِ مطہرہ نے جیسے رکھا ہے اُس میں تبدیلی کرنےیا اُس کا متبادل ڈھونڈنے کی بجائے اُسے اپنی اصل حالت پر قائم رکھا جائے اور اُس سے متعلقہ جو غفلت و لاپرواہی پائی جاتی ہے اُس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سب کوہدایت عطافرمائے ۔آمین
(3)صلح نامہ اوردستاویزوغیرہ لکھنے سے پہلے
کوئی صلح نامہ یادستاویز وغیرہ لکھتےوقت اس کے شروع میں’ ’بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم ‘‘ لکھنابھی مسنون ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے صلح حدیبیہ کے موقع پرمشرکین کے ساتھ جوصلح نامہ لکھوایااس میں بھی پہلے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم ‘‘ لکھنے کاحکم دیا۔
نوٹ
مذکورہ تینوں کاموں میں پوری ’’ بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم ‘‘ پڑھی جائے۔
اگلی سطور میں جو امور ذکر کیے جارہے ہیں اُن میں جہاں محض ’’ بسم اللہ ‘‘ کا ذکرہے وہاں صرف ’’بسم اللہ ‘‘ ہی پڑھی جائے اور جہاں ’’ بسم اللہ‘‘ کے ساتھ مزید الفاظ مذکور ہیں وہاںوہ اضافی الفاظ بھی ساتھ پڑھے جائیں۔
(4)کھانے سے پہلے
[5]
رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ’ بِسْمِ اللّٰہِ‘ کہہ کردائیں ہاتھ سے اوراپنے آگے سے کھاؤ۔
اور حدیث میں ہے کہ شیطان لوگوں کے کھانے کواپنے لئے حلال کرنے کی کوشش کرتاہے اس طرح کہ اس پر ’بِسْمِ اللّٰہِ‘نہ پڑھی جائے۔
تنبیہ: اگرکھانے سے پہلے بِسْمِ اللّٰہ پڑھنابھول جائے توجس وقت یادآئے توکہے: بِسْمِ اللّٰہِ أوَّلَهُ وَآخِرَهِ ’’میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام کےساتھ اس(کھانے)کےشروع اورآخرمیں‘‘ ۔[7]
(5)پینے سےپہلے
[8]
رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے :” تم جب کوئی چیز پینے لگو تو ’بِسْمِ اللّٰہُ‘کہاکرو اوربعدمیں ( یعنی جب پی چکو تو) الْحَمْدُ للّٰہ پڑھاکرو۔“
(6)وضو، غسل اور تیمّم شروع کرتےوقت
فرمانِ رسول ﷺہے کہ:’’اس شخص کاوضو نہیں ہوتاجوشروع میں اللّٰہ کانام نہ لے۔‘‘[9] اسی معنی میں مزیدآٹھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث مروی ہیں ۔
(7،8)مسجد میں داخل ہوتےاورنکلتےوقت
رسول اللّٰہ ﷺمسجد میں داخل ہوتےاورنکلتےوقت یہ دعا پڑھتے:
مسجد میں داخل ہونے کی دعا:
’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِوَجْھِہِ الْکَرِیْمِ وَسُلْطَانِہِ الْقَدِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ والصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ۔‘
[10]
’’میں شیطان مردود سے عظمت والے اللّٰہ کی، اس کے کریم چہرے اور اس کی قدیم سلطنت کی پناہ مانگتا ہوں۔ اللّٰہ کے نام کے ساتھ(داخل ہوتا ہوں) اور درودوسلام ہورسول اللّٰہ ﷺ پر۔ اے اللّٰہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔‘‘
مسجد سے نکلنے کی دعا
[11]
بِسْمِ اللّٰهِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ أبْوَابَ رَحْمَتِكَ۔
’’اللّٰہ کے نام کے ساتھ(میں نکلتاہوں)اور درودوسلام ہورسول اللّٰہ ﷺ پر۔ اے اللّٰہ! میرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے ۔اے اللّٰہ! مجھے شیطان مردود سےبچاکے رکھ۔‘‘
(۱)گھرمیں داخل ہوتےوقت
سیدناجابر سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نےفرمایاکہ جوشخص اپنے گھرمیں داخل ہوا اوراس نے داخل ہوتےوقت اورکھاناکھاتےوقت اللّٰہ کانام لے لیاتو شیطان اپنےچیلوں سےکہتاہے کہ یہاں تمہارےلئے نہ رہنےکی جگہ ہے اورنہ کھانے کے لیے کچھ ہے اوراگر اللّٰہ کانام نہیں لیاتوشیطان اپنےچیلوں سے کہتاہے کہ یہاں تمہیں رہنےکی جگہ بھی ملے گی اورکھانابھی۔[12]
رسول اللّٰہﷺ نےفرمایا کہ تم میں سے ہرشخص گھرمیں داخل ہوتےوقت یہ دعاپڑھے:
’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَوْلَجِ ، وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ ، بِسْمِ اللّٰہِ وَلَجْنَا، وَبِسْمِ اللّٰہِ خَرَجْنَا، وَعَلَى اللّٰہِ رَبِّنَاتَوَكَّلْنَا۔ ‘
’’اےاللّٰہ! میں تجھ سے داخل ہونے اورنکلنےکی خیر و بھلائی مانگتاہوں اورہم اللّٰہ کے نام کےساتھ(گھرمیں)داخل ہوتے اورنکلتے ہیں اوراپنےپروردگار اللّٰہ ہی پربھروسہ کرتےہیں‘‘۔
یہ دعاپڑھ کرپھراپنےگھروالوں کوسلام کہے۔[13]
(9)گھرسے نکلتےوقت
رسول اللہ ﷺ گھرسےنکلتےوقت آسمان کی طرف(نظراٹھاکر)یہ دعاپڑھتےتھے:
’ بسم اللّٰہِ توكَّلْتُ عَلَى اللّٰہِ،اللَّهُمَّ إِنِّي أعوذُ بِكَ أنْ أَضِلَّ أو أُضَلَّ، أَوْ أَزِلَّ أوْ أُزلَّ ، أوْ أظلِمَ أوْ أُظلَم ، أوْ أَجْھَلَ أو يُجهَلَ عَلَيَّ۔‘
” میں اللّٰہ کےنام کےساتھ گھرسےنکلتاہوں ،میں نے اللّٰہ پربھروسہ کیا، اے اللّٰہ میں تیری پناہ چاہتاہوں (اس بات سے)کہ میں گمراہ ہوجاؤں یامجھےگمراہ کردیاجائے،میں پھسل جاؤں یامجھےپھسلادیاجائے،میں ظلم کروں یامجھ پرظلم کیاجائے،میں کسی کے ساتھ جہالت سے پیش آؤں یامیرےساتھ جہالت سے پیش آیاجائے۔‘‘[14]
(10،11،12)گھراوراولاد سے متعلق اہم حکم
گھر کے دروازےبند کرتے ، برتنوں کو ڈھانپتے اور چراغوں کو بجھاتےہوئے:
”رسول اللّٰہ ﷺکا فرمان ہے:’’کہ رات کے شروع ہوتےہی بچوں کو(گھروں میں) بندکرلیاکروکیونکہ اس وقت شیطان منتشرہوتے ہیں۔ ’بسم اللّٰہ‘ کہہ کردروازے بندکیاکرو اوراس طرح بندکیاہوا دروازہ شیطان نہیں کھول سکتانیز’بسم اللّٰہ‘ کہہ کرمشکیزوں کے منہ بند کرو،برتنوں کوڈھانکو اور چراغوں کوبجھادو۔“
[15]
(13) بیت الخلاء جاتےوقت
رسول اللّٰہﷺ بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھتے:
’بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الخُبُثِ وَالخَبَائِث مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ۔
[16]
’’ اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللّٰہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں خبیث جنوں اور جنّیوں سے۔‘‘
(14) سوتےوقت
رسو ل اللّٰہ ﷺ سوتےوقت یہ دعاپڑھتےتھے
’اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا‘
[17]
”اےاللّٰہ میں تیرےہی نام سے مرتاہوں اورتیرےہی نام سے جیتاہوں۔‘‘
اور رسول اللّٰہﷺ نے سوتےوقت یہ دعا بھی سکھلائی ہے:
’بِاسْمِكَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا وَإِنْ أَرْسَلْتَھَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ۔
[18]
”اےمیرےرب!تیرےہی نام کےساتھ(میں سوتاہوںاور)اپناپہلو(بسترپر)رکھتاہوں اورتیرےہی حکم سے اس کواٹھاؤں گا،اگرتومیریروح کوروک لے(یعنی مجھے موت دے دے)تواس(روح) پررحم فرمانااوراگراس کو(کچھ مہلت تک مزید) چھوڑدےتواُس کی اِس طرح حفاظت فرماناجس طرح تواپنےنیک بندوں کی حفاظت فرماتاہے۔“
(15)سواری پرسوارہوتےوقت :
نبی کریمﷺ سواری پر سوار ہوتے وقت یہ دعا پڑھتے:
’بِسْمِ اللّٰہِ ،الحَمدُ لِلّٰہِ ، سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ الْحَمْدُ للّٰہِ ، الْحَمْدُ للّٰہِ ، الْحَمْدُ للّٰہِ، اللّٰہُ أَكْبَر،اللّٰہُ أَكْبَر،اللّٰہُ أَكْبَر سُبْحَانَك اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذَّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ‘۔
[19]
’’اللّٰہ کے نام کے ساتھ (میں سوار ہوتا ہوں) ، تمام تعریفات اللّٰہ ہی کے لیے ہیں ،’’ پاک ہے وہ (اللّٰہ) جس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر کردیا۔ ورنہ ہم انہیں قابو میں کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔‘‘ تمام تعریفات اللّٰہ ہی کے لیے ہیں ، تمام تعریفات اللّٰہ ہی کے لیے ہیں ، تمام تعریفات اللّٰہ ہی کے لیے ہیں ، اللّٰہ سب سے بڑا ہے ، اللّٰہ سب سے بڑا ہے ، اللّٰہ سب سے بڑا ہے ، اے اللّٰہ! تو ہر عیب سے پاک ہے،یقیناً میں نےاپنے آپ پرظلم کیا ہے پس تومجھے بخش دے تیرے سوامیرے گناہوں کوبخشنے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔
(16)کسی حادثہ ، آفت اور سواری کےٹھوکرکھاتےوقت
ایک صحابی نبیﷺ کے ہمراہ(کسی سفرمیں)آپ کے پیچھے سوارتھےکہ اچانک آپﷺ کی سواری نے کچھ ٹھوکرکھائی، انہوں نےشیطان پرلعنت بھیجی تو آپ ﷺنے فرمایا کہ: ایسامت کروکیونکہ شیطان اس طرح (اپنا ذکر کیے جانے پر)خوشی(سےپھول کر) بڑی عمارت جیسا ہوجاتا ہے،بلکہ ایسے موقع پر’’بسم اللّٰہ‘‘ کہاکرو، اگرایساکروگے توشیطان (ذلیل و رسوا ہوکر) سکڑکرکسی مکھی کے برابر ہوجائے گا۔ [20]
(17) زخم یاچوٹ لگنے کےوقت
سیدناجابر رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ جنگ احدمیں اکیلےطلحہ بن عبداللّٰہ نےگیارہ (11)مردوں کی طاقت کےبرابربہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئےلڑائی کی یہاں تک کہ ان کے ہاتھ کوچوٹ لگی اوران کی انگلی کٹ گئی جس سےان کی چیخ نکل گئی تورسول اللّٰہ ﷺنے فرمایا:’لَوْقُلْتَ بِسْمِ اللّٰہِ لَرَفَعَتْكَ الْمَلائِكَةُ‘[21]۔ ”اگرتم اس وقت’’ بسم اللّٰہ‘‘ کہتےتواللّٰہ کےفرشتےتجھےاٹھالیتےاورلوگ تمہاری طرف دیکھتےرہتے۔“
(18)معاشی تنگدستی و پریشانی کے وقت
رسول اللّٰہ ﷺنےفرمایا: تمہیں کس بات نے روکا ہے کہ تم رزق کی تنگی و پریشانی کےوقت جب بھی گھرسےباہرنکلوتویہ دعاپڑھو:
’ بِسْمِ اللّٰہِ عَلَى نَفْسِي وَمَالِي وَدِينِي اللَّهُمَّ رَضِّنِي بِقَضَائِكَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا قُدِّرَلِیْ حَتَّٰى لا أُحِبَّ تَعْجِيلَ مَا أَخَّرْتَ وَلا تَأْخِيرَ مَا عَجَّلْتَ‘
”میں اللّٰہ کانام لیتاہوں اپنےنفس،مال اوردین پر،اےاللّٰہ مجھےاپنےفیصلے پرراضی رکھ ،اورجورزق تونے میرےلئے مقررفرمایاہےاس میں برکت ڈال دے تاکہ میں یہ نہ چاہوں کہ جس کام کوتو(اپنی حکمت کے مطابق) میرےلئےمؤخرکردےوہ جلدی ہوجائےاورجس کام کو تو(اپنی حکمت کے مطابق) میرےلئےجلدی کردے وہ مؤخر ہوجائے ۔“
(19) بازارمیں داخل ہوتےوقت
رسول اللّٰہ ﷺ بازارمیں داخل ہوتےوقت یہ دعاپڑھتےتھے:
’بِسْمِ اللّٰہِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ هَذِهِ السُّوقِ وَخَيْرَ مَا فِيھَا،وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِيھَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أُصِيبَ فِيھَا يَمِينًا فَاجِرَةً اَوْ صَفْقَةً خَاسِرَةً
[22]
”اللّٰہ کےنام کےساتھ داخل ہوتاہوں ،اےاللّٰہ میں تجھ سے اس بازارکی بھلائی اورجوکچھ اس میں ہے اس کی بھلائی کاسوال کرتاہوں اوراس بازارکی برائی اورجوکچھ اس میں ہے اس کی برائی سےتیری پناہ چاہتاہوں ،الٰہی! میں جھوٹی قسم اورنقصان دہ سودے سے بھی تیری پناہ چاہتاہوں ۔“
(20)حلال جانور و پرندہ ذبح کرتےوقت :
ارشادباری تعالیٰ ہے:
فَكُلُوامِمَّاذُكِرَاسْمُ اللّٰہِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ۔
الانعام:118
”پس جس (حلال قرار دئے گئے)جانورپر(ذبح کرتے ہوئے) اللّٰہ کانام لیاجائےاس میں سےکھاؤاگرتم اس(اللّٰہ) کےاحکامات پرایمان رکھتےہو۔ “
دوسری آیت میں فرمایا:
وَلا تَأْكُلُوامِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ
سورہ الانعام 121
” اورایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر(ذبح کرتے ہوئے) اللّٰہ کانام نہ لیاگیاہو،یقیناً یہ گناہ کاکام ہے۔“
(21)قربانی کاجانورذبح کرتےوقت
[23]
سیدناانس سےروایت ہے کہ آپ ﷺنےدنبے کی قربانی کرتےوقت اس کولٹاکرگردن پرپاؤں رکھا اورفرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ اللّٰہُ أَكْبَرُ ’’ میں (ذبح کرتا ہوں) اللّٰہ کے نام کے ساتھ ، اللّٰہ سب سے بڑا ہے‘‘۔
(22)شکار کےلئےتیروغیرہ چلاتےوقت
[22]
رسول اللّٰہ ﷺنےفرمایاکہ:اگرتم اپناتیر’’ بسم اللّٰہ ‘‘پڑھ کرشکارکوماروتووہ شکارحلال ہے۔
وضاحت: یعنی وہ حلال جانور یا پرندہ جسے ’بسم اللّٰہ ‘ پڑھ کرشکارکیا گیا ہو تو اُس کا کھانا حلال ہے۔
(23)حقِ زوجیت (صحبت) ادا کرنے سے پہلے
فرمانِ نبویﷺ ہے:جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس (صحبت و جماع کے لیے) آنے کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اللّٰہِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ،وَجَنِّب الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا۔
[25]
’’ میں ابتدا کرتا ہوں اللّٰہ کے نام کے ساتھ ، اے اللّٰہ! تو ہمیں شیطان سے بچا اور اس (اولاد) کو (بھی) شیطان سے بچا جو تو ہمیں عطاء فرمائے‘‘۔ اگر اللّٰہ نے اس (جماع) میں اُن دونوں کے لیے اولاد مقدّر فرمائی تو شیطان اُس اولاد کو (عقل و جسمانی طور پر) نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
(24) جنگ شروع کرتےوقت
[26]
رسو ل اللّٰہ ﷺ جب کسی امیرکےتحت کوئی لشکرجنگ یاکسی مہم کے لئے بھیجتےتواسےاللّٰہ سے ڈرتے رہنے کی تلقین فرماتےاورلشکر میں موجود مسلمانوں کی بھلائی کے لئے تاکید کرتے پھرفرماتےتھے: ”اللّٰہ کےنام کےساتھ‘‘ اس کی راہ میں لڑائی شروع کرنا۔۔۔۔۔الخ“
(25) میت کوقبرمیں اتارتےوقت
رسول اللّٰہﷺ میت کوقبرمیں اتارتےوقت فرماتےتھے:
’بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰى سُنَّةِ رَسُوْلُ اللّٰهِ‘(ترمذی ،ابوداؤد ،بیہقی)” اورآپ ﷺنے ایساکہنےکاحکم بھی دیا۔“
[27]
(26)روزانہ صبح ا ور شام
[28]
رسول اللّٰہ ﷺکا فرمان ہے: ’’جوشخص صبح وشام تین تین مرتبہ یہ دعاپڑھےگاتواس کوکوئی بھی چیز ہرگزنقصان نہیں پہنچا سکےگی۔‘‘ بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ‘میں اللّٰہ کے نام کی مدد کےساتھ (اپنےسارےکام،شروع کرتاہوں ) کہ جس کےنام کےہوتےہوئےآسمان وزمین میں کوئی بھی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی اوروہ سب کچھ سننےوالا اورجاننے والاہے۔“
(27) دم کرتےوقت
دم جھاڑسےمتعلقہ بہت سے اذکار و وظائف اور دعاؤں کےشرع میں ’’بسم اللّٰہ ‘‘ کہناکئی احادیث میں مذکورہے۔
ہر تکلیف ، درد اور بیماری میں خود پر دَم کرتے وقت[28]
سیدناعثمان بن ابی العاص کہتے ہیں کہ میں نےاپنےبدن کی بیماری کی شکایت رسول اللّٰہ ﷺ کےپاس پیش کی توآپﷺ نےفرمایاکہ:’’ درد والی جگہ پرہاتھ رکھ کرتین مرتبہ’بسمِ اللّٰہِ‘ ’’اللّٰہ کے نام کی مدد کے ساتھ‘‘ کہو اورسات 7مرتبہ یہ دعاپڑھو:’أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللّٰہِ وَقُدْرَتِهِ مِن شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحاذِرُ‘”میں اللّٰہ تعالیٰ کی عزت اورقدرت کی پناہ میں آتاہوں ہراُس چیز کےشرسے جومیں محسوس کرتاہوں اورجس کامجھےاندیشہ و خوف ہے۔“
[29]
(29)جب کسی پر دَم کریں تو جبریل علیه السلام کا دَم اختیار کیجیے
جب رسول اللّٰہ ﷺبیمارہوئے تواُس وقت آپ ﷺکوجبرئیل نے اس طرح دم کیا:
’بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ اللّٰہُ يَشْفِيكَ ، بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِيكَ۔‘
[30]
”میں اللّٰہ کےنام کےساتھ تمہیں دم کرتاہوں ہراُس چیز سے جوتمہیں تکلیف دے،ہرنفس کےشرسے اورہرحاسد آنکھ سے،اللّٰہ تجھےشفادے،میں اللّٰہ کےنام کےساتھ تجھےدم کرتاہوں۔“
’بسم اللّٰہ‘پڑھے جانے کے اکثر مواقع شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ الرّاشدی کی تصنیفِ جلیل’احکام البسملۃ‘ سے معمولی ردّو بدل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، جنہیں ذکر فرمانے کے بعد وہ فرماتے ہیں:
’’اسلام ہی ایک ایسامذہب ہے جس میں ہر(اچھی)چیز پراللّٰہ کانام لیاجاتاہے۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’یہاں ہم نےصرف وہ امورذکرکیے ہیں جن کاذکرہمیں اپنےناقص علم کے مطابق قرآن وحدیث سے ملاہے ،مگرسارےاچھےکام بسم اللّٰہ سےشروع کئےجائیں(وہ خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو ) مثلاً: خوشبولگانا،تیل لگانا،کسی برتن سے ڈھکنااتارنا،دروازہ کھولنا وغیرہ (اسے اپنی عادت بنا لیجیے ) اس طرح یہ کام باعثِ برکت ٹھہریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس تفصیل سے ہمیں ’’ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ‘‘ کی عظمت شان و فضیلت معلوم ہوئی۔‘‘ [31]
آخر میں اللّٰہ سے دعا ہے کہ وہ جمیع معاملات میں ہمیں قرآن و سنّت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا ربّ العالَمین
[1] نائب مدیر المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر [2] ابن ابی حاتم [3] سنن أبي داؤد،کتاب الزکاۃ،بَاب فِي صِلَةِ الرَّحِمِ،حدیث:1694 [4] صحیح مسلم ،کتاب التوبہ،بَاب فِي سِعَةِ رَحْمَةِ اللّٰهِ تَعَالَى،حدیث:2752 [5] صحیح البخاري:بَابُ التَّسْمِيَةِ عَلَى الطَّعَامِ وَالأَكْلِ بِاليَمِينِ،حدیث:5376 [6] مجمع الزوائد للھیثمی [7] ابوداؤد،كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ،بَاب التَّسْمِيَةِ عَلَى الطَّعَامِ،حدیث نمبر:3767 [8] ترمذی [9] ابوداؤد،كِتَابُ الطَّهَارَةِ،بَاب فِي التَّسْمِيَةِ عَلَى الْوُضُوءِ،حدیث:101 [10] أبوداود،ترمذی، ابن ماجہ [11] ایضاً [12] صحیح مسلم،كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ،بَابُ آدَابِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَأَحْكَامِھِا،حدیث:2018 [13] ابوداؤد،كِتَابُ الْأَدَبِ،بَاب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا دخل بیتہ،حدیث:5096 [14] ترمذی،أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مِنْهُ،حدیث:3427 [15] صحیح مسلم،کتاب الأشربۃ،بَابُ الْأَمْرِ بِتَغْطِيَةِ الْإِنَاءِ وَإِيكَاءِ السِّقَاءِ،حدیث:5300 [16] معجم الأوسط للطبرانی،حدیث:2803(ضعیف) [17] صحیح بخاری،كِتَابُ الدَّعَوَاتِ،بَابُ وَضْعِ اليَدِ اليُمْنَى تَحْتَ الخَدِّ الأَيْمَنِ،حدیث:6314 [18] صحیح بخاری،کتاب الدعوات،باب حدیث:6320 [19] ضعیف ذخیرۃ الحفاظ لابن القیسراني [20] ابو داؤد،کتاب الأدب، بَاب لَا يُقَالُ خَبُثَتْ نَفْسِي ۔۔۔۔۔حدیث:4982 [21] سنن النسائی،کتاب الجھاد،مَا يَقُولُ مَنْ يَطْعَنُهُ الْعَدُوُّ،حدیث:3149(السلسلۃ الصحیحۃ:2796) [22] ضعیف،(ضعیف الجامع7391) [23] صحیح بخاری،كِتَابُ الأَضَاحِيِّ،بَابُ التَّكْبِيرِ عِنْدَ الذَّبْحِ،حدیث:5565 [24] صحیح مسلم، كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ،بَابُ الصَّيْدِ بِالْكِلَابِ الْمُعَلَّمَةِ،حدیث:1929 [25] صحیح بخاری،كِتَابُ الوُضُوءِ،بَابُ التَّسْمِيَةِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَعِنْدَ الوِقَاعِ،حدیث:141 [26] صحیح مسلم [27] ابو داؤد،كِتَابُ الْجَنَائِزِ،بَاب فِي الدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ،حدیث:3213 [28] ابوداؤد،كِتَابُ الْأَدَبِ،بَاب مَا يَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ،حدیث:5088 [29] صحیح مسلم،کتاب السلام، باب استحباب وضع یدہ علی موضع الالم من الدعا ،حدیث:2202 [30] صحیح مسلم،كِتَابُ السَّلَامِ،بَابُ الطِّبِّ وَالْمَرَضِ وَالرُّقَى۔حدیث:2186 [31] احکام البسملہ، ص: 27-28
Read 3002 times