شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ
البقرة – 185
ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔
٭نزول قرآن کامہینہ…
٭لیلۃ القدر کامہینہ رمضان…
٭اپنی ہررات میں کچھ لوگوں کو جہنم سے آزاد کروا دینے کامہینہ رمضان…
٭جنت کے سارے دروازے کھول دیے جانے کامہینہ رمضان…
٭جہنم کے سارے دروازے بند کردیےجانے کامہینہ رمضان…
٭ اللہ کی طرف سے بھلائی کی طرف ندادیے جانے کامہینہ رمضان…
٭سرکش شیاطین کوجکڑدیے جانے کامہینہ رمضان…
٭روزانہ جنت کو جس مہینہ میں سنوارا جائے وہ مہینہ رمضان…
٭روزہ رکھ کربخشش حاصل کرنے والوں کامہینہ رمضان…
٭روزہ کی حالت میں فرشتوں کی دعائیں حاصل کرنے کامہینہ رمضان…
٭روزہ دار کی منہ کی بو کا کستوری پرغالب آجانے کامہینہ رمضان…
٭غزوہ بدر کی یاد تازہ کردینے والامہینہ رمضان…٭ فتح مکہ کی یادگار رمضان۔ اس کااستعبال کیسے کریں؟ غفلت کے پردوں کوچاک رکے توبہ واستغفار کے ساتھ یہ عزم مصمم کرتے ہوئےکہ اللہ تعالیٰ نے پھرہمیں یہ ماہ مبارک دکھا دیاہے اب کہ اس موقع کی غنیمت جانیں گے، اپنے اوقات کو اللہ کی عبادت، اعمال صالحہ کے بجالانے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ لینے میں صرف کریں گے،ان شاءاللہ۔
رَبِّ اَوْزِعْنِيْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْۤ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَصْلِحْ لِيْ فِي ذُرِّيَّتِيْ اِنِّي تُبْتُ اِلَيْكَ وَاِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ
النمل – 19
اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا ﻻؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے۔
استقبالی روزہ رکھنا منع ہے
کچھ لوگ رمضان کے استقبال میں ایک یا دو دن قبل ہی روزے رکھنا شروع کردیتے ہیں صحیحین کی حدیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔رسول اللہﷺ کافرمان ہے:
لَايَتقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يوْمٍ أَوْيوْمَيْنِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيوْمَ
’’یعنی کوئی شخص بھی رمجان سے قبل ایک دن پہلے یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھنا شروع کرے، صرف اس شخص کو اجازت ہے جو شعبان سے روزے رکھتاچلا آرہاہے۔‘‘ (بخاری۱۹۱۴)
جبکہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کرہی افطار کرو لیکن اگر مطلع ابر آلود ہونے کے باعث چاند چھپ جائےتو۔
أَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ
’’شعبان کے تیس دن پورے کرلو۔‘‘ (بخاری۱۹۰۹)
اسی طرح عمار بن یاسر سےمروی ہےکہ:
مَنْ صَامَ الْيوْمَ الَّذِي يَشُكُّ فِيهِ النَّاسُ فقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِﷺ
نوٹ: مشکوک دن سے مراد شعبان کاتیسواں دن ہے ۔ جب اس رات ابرآلودگی کے باعث چاند ناظرنہ آئے اور یہ شک ہوجائے کہ آیا رمضان ہے یا نہیں؟
فجر سے ہی نیت روزہ ضروری ہے
رسول اللہﷺ نےفرمایا:
مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ, فَلَاصِيَامَ لَهُ
’’جس نے فجر(صبح صادق) سے پہلے نیت نہ کی اس کاروزہ نہیں۔‘‘(سنن ابی داؤد:۲۴۵۲وجامع ترمذی:۷۳۰)
حدیث انما الاعمال بالنیات بھی ہر عمل سے قبل اس کی نیت کرنے پر ڈالاہے۔(واضح رہے کہ نیت محض دل کے ارادے کانام ہے جیساکہ علماء نے صراحت کی ہے)
لہٰذا روزے کی نیت کےلیے زبان سے کوئی الفاظ ادا نہیں کیے جائیں گے مثلاً: (وبصوم غد نویت من شھر رمضان)وغیرہ۔ یہ کسی حدیث میں نہیں لہٰذا بدعت قرار پائے گی۔ نیز یہ کہ’’غد‘‘ آنے والے کل کو کہتے ہیں جبکہ سحری اسی صبح کی کی جاتی ہے جس دن روزہ رکھا جاتاہےتو گویا منکل کی صبح فجر میں سحری کھاکر کہنا (وبصوم غد نویت)بدھ کی نیت پردلالت کرےگا۔ یہ نہ نقلاً منقول ہے اور نہ عقلاً درست اسے ترک ہی کرنا ہوگا۔
روزہ کاوقت
طلوع فجرسے غروعب شمس تک، صبح صادق سے پہلے سحری کھالی جائے اور پھر سورج کے غروب ہونے تک تمام مفطرات سے اجتناب کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ
البقرة – 187
تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاه دھاگے سے ﻇاہر ہوجائے۔ پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔
سحری ضرور کھائیں اگر چہ مختصر اور قلیل ہی کیوں نہ ہو
بعض لوگ سحری کھانا ضروری نہیں سمجھتے اور رات ہی کو کھاپی کر سوجاتے ہیں یا آدھی رات کو کھالیتے ہیں یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں،نبیﷺ کا فرمان ہے:
فَصْلُ ما بيْنَ صِيامِناوَصِيَامِ أَهْلِ الكِتابِ،أَكْلَةُ السَّحَرِ
’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کاکھانا ہے۔‘‘(صحیح مسلم:۱۰۹۶)
لہذا اہل کتاب کی مخالفت کرتے ہوئے ہمیں صحری ضرور کھانی چاہیے کیونکہ ان کی مخالفت شریعت کو مطلوب ہے۔رسول اللہﷺ نے سحری کےکھانے کوطعام مبارک قراردیاہے۔(ابوداؤد) اور فرمایا:
وَلَوْ أَنْ يَّجْرَعَ أَحَدُكُمْ جُرْعَةً مِنْ مَاءٍ،فَإِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى الْمُتَسَحِّرِيْن
یعنی تم ایک گھونٹ پانی ہی پی لو کیونکہ اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں۔(اللہ رحمت نازل کرتاہے اور فرشتے ان کے حق میں استغفار کرتے ہیں۔)(الفتح الربانی) بحوالہ رمضان المبارک فضائل وفوائد ثمرات)۔
سحری فجرسے کچھ دیرپہلے کریں
نبی علیہ السلام اور آپ کے اصحاب بالکل آخری وقت میں سحری کھایاکرتے تھے، سیدنا زیدبن ثابت بیان کرتے ہیں کہ:
سَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّﷺثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ قلْتُ كَمْ كَانَ بيْنَ الْأَذَانِ وَالسَّحُورِ قَالَ:قَدْرُ خَمْسِينَ آيَةً
ہم نے نبیﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر نبیﷺ نماز کےلیے اٹھ کھڑے ہوئے۔(بخاری:۱۹۲۱)
سیدنا انس کہتے ہیں میں نے(زید سے) پوچھا اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ کہنےلگے صرف اتنا کہ پچاس آیات کی تلاوت ہوسکے۔اس کے بہت سے فادے ہیں مثلاً: فجرکی نماز میں سستی نہ ہوگی، سحری کے فورا بعد نماز اداکریں۔ اسی طرح روزے کی ابتداء اورانتہا کے درمیان وقفہ کم ہوجاتاہے۔
روزہ کھولنے میں جلدی کریں
نبی کریم ﷺ کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ روزہ کھولنےمی تاخیر نہ کی جائے بلکہ جلدی کی جائے، جلدی کامطلب، سورج کے غروب ہونے سے قبل روزہ کھولنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد سورج کے غروب ہونے کے بعد فوراً بلا تاخیر روزہ کھولنا ہے، بعض لوگ سورج غروب ہونے کے بعد اتنا اندھیرا چھاجانےکو ضروری سمجھتے ہیں کہ تارے نظر آنے لگ جائیں ،نبی علیہ السلام کی حدیث کے مطابق یہ یہود ونصاریٰ کامعمول تھا اور ہمیں ان کی مخالفت کرنے کاحکم ہے، اسی لیے فرمایا:
لَا يزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ
’’یعنی لوگ اس وقت تک بھلائی پر ہیں گے جب تک روزہ کھولنےمیں جلدی کریں گے۔‘‘(بخاری۱۹۵۷)
افطار کے وقت اللہ سے دعا مانگنا
نبی کریم ﷺ نماز مغرب سے قبل تازہ کھجوروں سے یاپھر چھواروں سے روزہ کھولتے ار وہ بھی نہ ہوتو پھر چند گھونٹ پانی تناول فرمالیتے یہ ایک سنت طریقہ ہے افطاری سے چند لمحہ قبل اگر مسلمان اللہ سے دعامانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتاہے کیونکہ وہ روزہ رکھ کر عند اللہ ایک مخصوص مقام حاصل کرچکاہے۔رسول اللہﷺ کاارشاد گرامی ہے:
إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَاترَدُّ
’’افطاری کے وقت روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی۔‘‘(سنن ابن ماجہ:۱۷۵۳)
افطار کے وقت یہ دعاپڑھی جاسکتی ہے
ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابتلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ
سنن ابی داؤد – 2357
کسی دوسرے کو افطار کرانے کاثواب
نبی علیہ السلام نے فرمایا:
مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ
’’جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا، یا پھر کسی غازی کو تیار کیا تو اس کےلیے انھیں کی مثل اجر ہوگا۔‘‘(جامع الترمذی:۸۰۷)
اپنی استطاعت کے مطابق ہم یہ فضیلت واجر حاصل کرسکتے ہیں۔
روزہ دار کو روزہ کی حفاظت کرنا ہوگی
روزہ دار کو مکمل طور سے روزہ کی حفاظت کرنا ہوگی تاکہ وہ کماحقہ روزہ کی فضیلت واجر وثواب کو حاصل کرسکے۔ اسے چاہیے کہ جھوٹ سے،چغلی سے،اور غیبت وغیرہ سے مکمل اجتناب کرے۔
رسول اللہﷺ کافرمان ہے:
مَنْ لَمْ يَدَعْ قوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فلَيْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ أَنْ يَّدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ
’’جو شخص روزی کی حالت میں قول زُور یا عمل زُور سے باز نہیں آتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘(بخاری:۱۹۰۳)
اس سے مراد ہر وہ کام ہے جوشریعت کے خلاف ہو۔دوسری حدیث میں ہے:
الصِّيَامُ جُنَّةٌوَإِذَاكَانَ يوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يرْفُثْ وَلَايَصْخَبْ فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌأَوْ قَاتلَهُ فلْيقُلْ:إِنِّي امْرُؤٌصَائِمٌ
’’روزہ (گناہوں سے) ڈھال ہے جس دن تمھارا روزہ ہو کسی فسق وفجور کا ارتکاب نہ کرو نہ ہی چیخ وپکار کرو حتی کہ اگر کوئی تمھیں گالی دے یا تم سے لڑائی کرے تو اس سے کہہ دو میں روزہ دار ہوں۔‘‘ (بخاری:۱۹۰۴)
سیدنا جابرکہاکرتے تھے:’’جب تم روزہ رکھو توچاہیے کہ تمھارے کان، آنکھ اور زبان سب کاروزہ ہو، پڑﷺسیوں کو تکلیف نہ دو اور تم پر ایک وقار اور سکون ہو تمھارے افطار اور تمھارے روزہ کا دن برابر نہ ہو۔‘‘(بحوالہ روزہ حقیقت اور ثمرات)
وہ کام جو روزہ دار کے لیے جائز ہیں
حالت جنابت میں سحری کھا کر روزہ رکھ سکتاہے، تاہم نماز کےلیے غسل کرنا فرض ہے۔(بخاری،مسلم)
٭روزہ دار مسواک کرسکتاہے(کیونکہ مسواک کا حکم عام ہے) (بخاری)…
٭روزہ دار کلی بھی کرسکتاہے ار ناک میں پانی بھی ڈال سکتاہے، مگر مبالغہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔(ابوداؤد)…
٭سینگی کے ذریعہ سے(گندہ) خون نکلوایا جاسکتاہے۔(بخاری)…
٭روزہ دار کےلیے سرمہ لگانا بھی جائز (بخاری تعلیقا)…
٭روزہ کی حالت میں ایساٹیکہ لگوانا بھی جائز ہے جس کامقصد خوراک یا قوت کی فراہمی نہ ہو بلکہ صرف بیماری کاعلاج مقصد ہو۔(فقہ الحدیث جلد نمبر:۱،صفحہ نمبر:۷۲۶،دیکھیں)واللہ اعلم۔
روزہ کن امور سے ٹوٹ سکتاہے
٭جان بوجھ کر کھانا پینا،جماع کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے البتہ بھول چوک سے کھانے پر روزہ برقرار رہتاہے۔(بخاری دیکھیں)
٭جان بوجھ کر قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، البتہ طبیعت کی خرابی کے باعث قے آجائے تو روزہ برقرار رہےگا۔ان شاء اللہ۔ (ابوداؤد)…
٭حیض ونفاس کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور بعد میں قضاء دینی ہوگی۔(بخاری)…
٭بیوی سے ہمبستری کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور کفارہ بھی اداکر نا ہوگا(کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرنا یا ناغہ متواتر 60 روزے رکھنا یا پھر60 مسکینوں کو کھاناکھلانا)۔ (بخاری)…
٭نکسیر پھوٹ جانے سے روزہ نہیں ٹوٹےگا۔…
٭کلی کرنا، بیوی کابوسہ لےلینا یاگرمی کی وجہ سے نہانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ (ابوداؤد)…
نوٹ:بے نمازی آدمی کاروزہ رکھنا بے کار ہے مگر اسے روزہ رکھنے سے روکنا صحیح نہیں۔واللہ اعلم
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًاغُفِرَ لَهُ مَاتقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
’’جس نے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تواس کے سابقہ گناہ معاف کردیے گئے۔(بخاری۲۰۱۴)
مزیدفرمایا:
رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قبْلَ أَنْ يغْفَرَلَهُ
’’ناک خاک آلود ہوجائے اس شخص کی جس کی زندگی میں رمضان آگیا اور پھر گزر بھی گیا مگر اس کی بخشش نہ ہوسکی۔‘‘(جامع ترمذی:۳۵۴۵) ایک روایت میں ہے کہ جبریل امین نے اس پر آمین کہی تھی۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھر پور فائدہ اٹھا نے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
رمضان المبارک میں کیے جانے والے دیگر خصوصی اعمال
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
الاحزاب – 21
’’تمھارے لیےہر معاملہ میں رسول اللہﷺ کی زندگی آئیڈیل ہے…۔‘‘
روزہ اور تلاوت قرآن
یہ معلوم ومعروف ہے کہ قرآن مجید کا نزول رمضان المبارک میں ہواتھا۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ
البقرة – 185
ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔
اور یہ نزول لیلة القدر میں ہوا تھا اور یہی لیلة مبارکہ ہے فرمایا:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ
الدخان – 3
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
القدر – 1
ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن مجید کے نزول کامہینہ شعبان کو اور پھر پندرہویں شعبان کو قراردینا سراسر قرآنی نص کی مخالفت۶ ہے اور پھر اس مسئلہ کو ثابت کرنے کےلیے بے شمار رویتیں گھڑی گئیں جن میں سے ایک بھی پا یہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ شعبا ن کی پندرہویں شب کو فضیلت دینااور اسے جاگ کر، چراغاں کرکر منانا اور در حقیقت رافضیت کو فروغ دینا ہے جو کہ بار ہا یہ اقرارکرچکے ہیں کہ یہ رات ہماری ہے اس میں ہم اپنے بارہویں امام کا انتظار کرتے ہیں اس رات کااہل السنۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
قرآن مجید کا رمضان المبارک کے ساتھ خصوصی تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود محمد رسول اللہﷺ جبریل امین کے ساتھ ہر رمضان میں قرآن مجید کادور کیاکرتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے دومرتبہ دورکیا۔(بخاری)
نبی علیہ السلام کو تو ویسے ہی قرآن مجید سے بہت گہرا شغف تھا آپ جبریل امین کی تلاوت کے پیچھے جلدی جلدی پڑھا کرتے تھے۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا
طه – 114
تو قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر اس سے پہلے کہ تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے وه پوری کی جائے، ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار! میرا علم بڑھا
امام کائنات محمد رسول اللہﷺ قرآن اپنے صحابہ سے بھی سنا کرتے تھے جس طرح کہ صحیح بخاری میں آتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے ایک دن اب مسعودسے قرآن سنا نے کاکہا وہ کہنے لگے یا رسول اللہ آپ پر تو قرآن پورا ہی نازل ہواہے۔ میں آپ کوسناؤں؟ فرمایا: میں چاہتاہوں کہ آپ سے سنوں اور پھر تلاوت سن کرنبی کائناﷺ کارونا مذکورہے۔
رمضان میں تلاوت قرآن کی اہمیت
سیدنا عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يوْمَ الْقِيَامَةِ،يقُولُ الصِّيَامُ:إِلَی رَبِّ إِنِّیْ مَنعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ،وَيقُولُ الْقُرْآنُ إِنِّیْ مَنعْتُهُ النوْمَ بِاللَّيْلِ،فَشَفِّعْنِي فِيهِ،قَالَ:فيُشَفَّعَانِ
’’یعنی روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا اےمیرے رب! میں نے اس بندے کو دن بھر کھانےپینے اورخواہشات نفسانی کی تکمیل سے باز رکھا تھاتو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، قرآن کہے گا:اے اللہ!میں اسے رات کے وقت سونے سے روک دیاتھا(یعنی تلاوت کرتاتھا) تواس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ نبیﷺ فرماتےہیں ان دونوں کی سفارش قبول کی جائےگی۔ (مسنداحمد۶۶۲۶)
صحیح مسلم میں حدیث ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اقْرَؤُوا القرْآنَ؛ فَإنَّهُ يَأتِي يَوْمَ القِيَامَةِ شَفِيعًا لأَصْحَابِهِ
’’ قرآن پڑھا کرو کیونکہ قیامت کے دن اصحاب قرآن(حفظ وقراءت اور عمل کرنے والوں) کا سفارشی بن کر آئےگا۔‘‘(مسلم:۸۰۴)
لہٰذا قرآن کی تلاوت اس کی آیات میں غورو فکر اور عند التلاوۃ گریہ وزاری مطلوب ہے اس کااہتمام رمضان میں اور غیر رمضان میں ضرور ہوناچاہیے۔(واللہ والی التوفیق)
رمضان میں صدقہ وخیرات کرنا
سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللّٰهِﷺأَجْوَدَالنَّاسِ وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فيُدَارِسُهُ القُرْآنَ، فلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ
’’رسول اللہﷺ سب سے بڑھ کر سخی تھے،اور سب سے زیادہ سخاوت آپ رمضان میں کیاکرتے تھے جبکہ جبریل امین سےمل کرقرآن جید کادورکیاکرتے تھے۔جب جبریل امین کے ساتھ آپ کی ملاقات ہوجاتی اور آپﷺ قرآن مجید کادور کرتے توآپ کی سخاوت اتنی بڑھ جاتی کہ اسے آپ تیز ترین ہواسے تشبیہ دے سکتے ہیں۔‘‘(بخاری:۶ومسلم۲۳۰۸)
سیدنا انس بن مالک سے بخاری میں یہ روایت ہے کہ نبیﷺ اجودالناس تھے جو نبیﷺ عام دنوں میں سب سےبڑھ کرسخی ہو کبھی سائل کو نہ لوٹا تا ہو اور جو یہ کہتاہو کہ اگر احدپہاڑ اللہ سونے کابنا کر مجھ دے دے تو میں اسے تین دن میں مکمل تقسیم کردوں اور بانٹ دوں۔
وہ پیغمبر کائناتﷺ کی سخاوت رمضان میں کیسی ہوگی…؟؟ صدقہ وسخاوت کاایک یہ بھی انداز ہے کہ :
مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيرَ أَنَّهُ لَا ينقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا
’’جو کسی کاروزہ افطار کرائے گا اسے اس کے روزے کامکمل اجر دیاجائےگا اس طرح کہ اس روز دار کے اجر سے کوئی کمی نہ کی جائےگی۔(جامع ترمذی۸۰۷)
صدقہ وخیرات اورسخاوت بندے کے رحمدل ہونے کی اور شفیق ومشفق ہونے کی دلیل ہے اور حدیث میں ہے کہ:
إِنَّمَايرْحَمُ اللهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ
’’اللہ تعالیٰ توصرف ان ہی پر رحم کرتاہے جو اس کے بندوں کےلیے رحم دل ہوتے ہیں۔‘‘ (بخاری:۱۲۸۴)
آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت ماہ رمضان کی مبارک سعادتوں میں خوب نیکیاں کر نے کی اور برائیوں سے دور ر ہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین