بسم اللہ الرحمن الرحیم
قربانی کے مسائل
10 ذی الحجہ کی صبح سے لے کر13 ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک چار دن قربانی کرنا جائز ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ رضی اللہ عنه عَنِ النَّبِیِّ ﷺ کُلُّ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ ذَبْحٌ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ ایام تشریق کے تمام دن قربانی کے دن ہیں۔“ اسے بیہقی نے روایت کیا ہے۔
جانور ذبح کرنے کے آداب:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ اَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ص بِحَّدِ الشِّفَارِ وَاَنْ نُّوَارٰی عَنِ الْبَہَائِمِ وَقَالَ ((اِذَا ذَبَحَ اَحَدُکُمْ فَلْیُجْہِزْ)) رَوَاہُ ابْنِ مَاجَةَ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے (جانور ذبح کرنے سے قبل) چھری تیز کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ چھری کو جانور سے چھپایا جائے اور جب ذبح کرنا ہو تو جلدی جلدی ذبح کیا جائے۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
· قربانی کے وقت جانور کا منہ قبلہ کی طرف کرنا مستحب ہے۔
· قربانی سے قبل بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ کہنا مسنون ہے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ رضی اللہ عنهما قَالَ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ا ذَبَحَ یَوْمُ الْعِیْدِ کَبْشَیْنِ ثُمَّ قَالَ حِیْنَ وَجَّهْهُمَا اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لاَ شَرِیْکَ لَه وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ اَللّٰهُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُّحَمَّدٍ وَّاُمَّتِه۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے عید کے روز دو مینڈھے ذبح کئے۔ دونوں کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کر کے یہ آیت پڑھی میں نے اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا جس نے آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا اور میں ہر گز مشرکوں سے نہیں ہوں۔ (سورہ انعام‘ آیت نمبر 78)بے شک میری نماز اور میری قربانی میرا جینا اور مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا ہوں۔ (سورہ انعام‘ آیت نمبر163,162) (مذکورہ آیت تلاوت کرنے کے بعد آپ ﷺنے یہ کلمات ارشاد فرمائے) یا اللہ! یہ جانور تو نے ہی دیا تھا اور تیرے ہی نام پر میں نے اسے قربان کیا ہے۔ محمد ﷺاور ان کی امت کی طرف سے۔ اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
وضاحت :
ایک صحیح حدیث میں یہ الفظ بھی ہیں (اللہ کے نام سے ذبح کر تا ہوں‘ یا اللہ اسے آل محمد اور امت محمد ﷺکی طرف سے قبول فرما۔ (ابو داؤد‘ کتاب الاضاحی باب مایستحب من الضحایا) لہٰذا قربانی کرتے وقت اِللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنَّاکے الفاظ کہنا بھی مسنون ہیں۔
· دوسرے سے قربانی کروانی جائز ہے لیکن خود کرنا افضل ہے۔
· استطاعت کے مطابق ایک سے زیادہ قربانی دینا بھی مسنون ہے۔
· اپنے جانور کی قربانی سے گوشت خود کھانا مسنون ہے۔
· قربانی کا سارا گوشت خود استعمال کرنا ضروری نہیں۔
عَنْ جَابِرِرضی اللہ عنه فِیْ قِصَّةِ حَجَّةِ الْوَدَاعِ قَالَ…ثُمَّ انْصَرِفَ اِلَی الْمَنْحَرَ فَنَحَرَ ثَلاَثًا وَّسِتِّیْنَ بِیَدِہ ثُمَّ اعْطٰی عَلِیًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَاَشْرَکَه فِیْ هَدْیَةِ ثُمَّ اَمَرَ مِنْ کُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِیْ قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَاَکَلاَ مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے حجة الوداع کی حدیث میں روایت ہے کہ (رمی کے بعد) نبی اکرم ﷺ قربان گاہ تشریف لائے اور تریسٹھ (63) اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کئے۔ باقی اونٹ (37) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دئیے جنہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذبح کیا۔ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اپنی قربانی میں شریک کیا پھر آپ ﷺ نے ہر اونٹ سے گوشت کا ٹکڑا لینے کا حکم دیا جسے ہنڈیا میں ڈال کر پکایا گیا۔ رسول اللہﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور شوربا پیا۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
قربانی کے لئے صحت مند اور عمدہ جانور خریدنا چاہئے۔
خصی جانور کی قربانی جائز ہے۔رسول اکرم ﷺ نے دو خصی مینڈھوں کی قربانی کی۔(صحیح ابن ماجہ)
قربانی کی بجائے اس کی قیمت صدقہ کرنا سنت سے ثابت نہیں۔
قربانی کے لیے 6 شروط کا ہونا ضروری ہے :
پہلی شرط :
وہ قربانی بھیمۃ الانعام میں سے ہو جوکہ اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری ہیں ۔
کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ
الحج – 34
اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وه ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔
اور بھیمۃ الانعام سے مراد اونٹ گائے بھیڑ بکری ہيں عرب کے ہاں بھی یہی معروف ہے اورحسن ، قتادہ وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے ۔
دوسری شرط :
قربانی کا جانور شرعی محدود عمرکا ہونا ضروری ہے ، وہ اس طرح کہ بھيڑ کی نسل میں جذعہ یا پھر اس کے علاوہ میں سے ثنیہ ہونا ضروری ہے ۔
کیونکہ نبی ﷺکا فرمان ہے :
مسنہ ( یعنی دودانت والا ) کے علاوہ کوئی اورذبح نہ کرو لیکن اگر تمہیں مسنہ نہ ملے توبھيڑ کا جذعہ ذبح کرلو ) صحیح مسلم ۔
مسنہ ثنیہ اوراس سے اوپروالی عمر کا ہوتا ہے اورجذعہ اس سے کم عمر کا ۔
لہٰذا اونٹ پورے پانچ برس کا ہو تووہ ثنیہ کہلائے گا ۔
گائے کی عمر دوبرس ہوتووہ ثنیہ کہلائے گی ۔
بکری جب ایک برس کی ہوتووہ ثنیہ کہلائے گی ۔
اورجذعہایک سال کے جانور کوکہتے ہیں ، لہٰذا اونٹ گائے اوربکری میں ثنیہ سے کم عمرکے جانور کی قربانی نہیں ہوگی ، اوراسی طرح بھيڑ میں سے جذعہ سے کم عمرکے جانور کی قربانی صحیح نہيں ہوگی۔
تیسری شرط :
قربانی کا جانورچار عیوب سے پاک ہونا چاہیے :
1. آنکھ میں واضح اورظاہر عیب : یعنی جس کی آنکھ بہہ چکی ہو یا پھر بٹن کی طرح باہر نکلی ہوئي ہو ، یا پھر آنکھ مکمل اورساری سفید ہوجواس کے بھینگے پن پرواضح دلالت کرتا ہے ۔
2. واضح بیمار جانور : اس سے مراد وہ بیماریاں ہیں جوجانوروں پرظاہرہوتی ہیں مثلا وہ بخار جس کی بنا پرجانور چرنا ہی ختم کردیتا ہے اوراس کے چرنے کی چاہت ہی ختم ہوجاتی ہے ، اوراسی طرح واضح اورظاہرخارش جواس کے گوشت کوخراب کردینے والی ہو ، یااس کی صحت پراثرانداز ہورہی ہو ، اورگہرا زخم جواس کی صحت پراثرانداز ہوتا ہو وغیرہ دوسری بیماریاں ۔
3. واضح طورپرپایا جانے والا لنگڑا پن : وہ لنگڑا پن جواسے سیدھا اورصحیح چلنے سے روکے اورمشکل سے دوچار کرے ۔
4. گودے کوزائل کرنے والی کمزوری : کیونکہ نبیﷺسے جب یہ پوچھا گيا کہ قربانی کا جانور کن عیوب سے صاف ہونا چاہیے تونبیﷺنے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکےفرمایا چارعیوب سے :
وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو ، اورآنکھ کے عیب والا جانورجس کی آنکھ کا عیب واضح ہو ، اوربیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، اوروہ کمزور وضعیف جانور جس کا گودا ہی نہ ہو ) ۔اسے امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے موطا میں براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ۔
اورسنن میں براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ ہی سے ایک روایت مروی ہے جس میں ہے وہ بیان کرتے ہيں کہ نبیﷺہمارے اندر کھڑے ہوئے اورفرمانے لگے :
(چارقسم کے جانور قربانی میں جائز نہيں ) اوراسی طرح حدیث ذکر کی ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل میں اسے صحیح قرار دیا ہے ، دیکھیں حدیث نمبر ( 1148 ) ۔
لھٰذا یہ چارعیب ایسے ہیں جن کے پائے جانے کی بنا پرقربانی نہيں ہوتی ، اوران چارعیوب کے ساتھ اس طرح کے اوربھی عیوب ملحق ہوتے ہیں یا وہ عیوب جواس سے بھی شدید ہوں توان کے پائے جانے سے بھی قربانی نہيں ہوتی ، ہم انہيں ذيل میں ذکر کرتے ہیں :
1. اندھا پن وہ جانور جس کی آنکھوں سے نظرہی نہ آتا ہو ۔
2. وہ جانورجسنے اپنی طاقت سےزيادہ چر لیا ہو اس کی قربانی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ صحج نہیں ہوجاتا اوراس سے خطرہ نہيں ٹل جاتا ۔
3. وہ جانور جسےجننے میں کوئی مشکل درپیش ہو جب تک اس سے خطرہ زائل نہ ہوجائے ۔
4. زخم وغیرہ لگا ہوا جانور جس سے اس کی موت واقع ہونے کا خدشہ ہوگلا گھٹ کر یا بلندی سے نيچے گر کریا اسی طرح کسی اوروجہ سے اس وقت تک ایسے جانورکی قربانی نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس سے خطرہ زائل نہيں ہوجاتا ۔
5. کسی آفت کی وجہ سے چلنے کی سکت نہ رکھنے والا جانور ۔
6. اگلی یا پچھلی ٹانگوں میں سے کوئی ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہو ۔
جب ان چھ عیوب کوحدیث میں بیان چارعیوب کے ساتھ ملایا جائے توان کی تعداد دس ہوجائے گی ۔
چوتھی شرط :
وہ جانور قربانی کرنے والی کی ملکیت ہو یا پھر شریعت یا مالک کی جانب سے اجازت ملی ہو ۔
لہٰذا جوجانورملکیت میں نہ ہو اس کی قربانی صحیح نہیں ، مثلا غصب یا چوری کردہ جانور اور اسی طرح باطل اورغلط دعوے سے لیا گيا جانور ، کیونکہ اللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی کے ساتھ اس کا تقرب حاصل نہيں ہوسکتا ۔
اورجب عادتا قربانی ہوتی ہواورنہ کرنے سے یتیم کودل آزاری ہوتی ہو تویتیم کےلیے اس کے مال سے والی کی جانب سے قربانی کرنا صحیح ہے ۔
اوراسی طرح موکل کی جانب سے وکیل اپنے موکل کی اجازت اوراس کے مال سے قربانی کرنی صحیح ہوگی۔
قربانی کوشرعی محدود شرعی وقت کے اندر اندرذبح کیا جائے ، اوریہ وقت دس ذی الحجہ کونماز عید کے بعد سے شروع ہوکرایام تشریق کے آخری دن سورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے ، ایام تشریق کا آخری دن ذی الحجہ کی تیرہ تاریخ بنتا ہے ، تواس طرح ذبح کرنے کے چار دن ہیں ۔
عید کے دن نماز عید کے بعد ، اوراس کے بعد تین دن یعنی گیارہ ، بارہ اورتیرہ ذی الحجہ کے ایام ،لہٰذا جس نے بھی نماز عید سے قبل ہی قربانی ذبح کرلی یا پھر تیرہ ذی الحجہ کوغروب شمس کے بعد کوئی شخص قربانی کرتا ہے تواس کی یہ قربانی صحیح نہیں ہوگی۔
اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے :
وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا :
( جس نے نماز (عید) سے قبل ذبح کرلیا وہ صرف گوشت ہے جووہ اپنے اہل عیال کوپیش کررہا ہے اوراس کا قربانی سے کوئي تعلق نہيں ) ۔
اورجندب بن سفیان البجلی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ میں نبیﷺساتھ حاضرتھا توانہوں نے فرمایا :
( جس نے نماز عید سےقبل ذبح کرلیا وہ اس کے بدلے میں دوسرا جانور ذبح کرے ) ۔
اورنبیشہ ھذیلی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا :
( ایام تشریق کھانے پینے اوراللہ تعالی کے ذکرواذکار کے ایام ہیں ) اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔
لیکن اگراسے ایام تشریق سے قربانی کوتاخیرکرنے کا کوئي عذر پیش آجائے مثلا اس کی قربانی کا جانور اس سے بھاگ گيا اوراس میں اس کی کوئی کوتاہی نہيں تھی اوروہ جانورایام تشریق کے بعد واپس ملے ، یااس نے کسی کوقربانی ذبح کرنے کا وکیل بنایا تووکیل اسے ذبح کرنا ہی بھول گیا اوروقت گزر گیا ، تواس عذر کی بنا پروقت گزرنے کے بعد ذبح کرنے میں کوئی حرج نہيں ، اورنماز کے وقت میں سوئے ہوئے یابھول جانےوالے شخص پرقیاس کرتے ہوئے کہ وہ جب سوکراٹھے یا جب اسے یاد آئے تونماز ادا کرے گا ۔
اوروقت محددہ کے اندر دن یا رات میں کسی بھی وقت قربانی ذبح کی جاسکتی ہے ، قربانی دن کے وقت ذبح کرنا اولی اوربہتر ہے ، اورعید والے دن نماز عید کے خطبہ کے بعد ذبح کرنا افضل اوراولیٰ ہے ، اوراسی طرح اس کے بعدوالے دن میں یعنی جتنی جلدی ذبح کی جائے بہتراور افضل ہوگی، کیونکہ اس میں خیروبھلائی کرنے میں سبقت ہے ۔ انتھی۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین