تحریر : الشیخ عثمان صفدر
بینک کا سودی نظام :
بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ (Current Account)یا سیونگ اکاؤنٹ (Saving Account)کے حوالے سے یہ پوچھا جاتاہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ کھولنا یا سیونگ اکاؤنٹ کھولنا جائز ہے یا نا جائز ہے؟اس حوالے سے ایک بات واضح ہونی چاہیئے کہ جتنے بھی بینک ہیں وہ سُودی کاروبار کرتے ہیں۔یعنی ان کے کاروبارکی بنیاد سُود پر منحصر ہے۔جیسا کہ بینک صارف کو قرض دیتے ہیں اور اُس قرض پر سُود بھی لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ صارف کی طرف سے جو ڈپازٹ (Deposit)ان کے پاس رکھوائے جاتے ہیں وہ بھی بنیادی طور پربینک کے اوپر قرض ہوتے ہیں ۔پھر ان ڈپازٹس کے اوپر جو بھی رقم بینک دیتا ہے وہ سُو د ہوتا ہے۔یعنی بینک کی کاروباری عمارت سُود کی بنیادوں پر کھڑی ہے جس کی وجہ سے بینک کی تجارت ایک سُودی تجارت بن جاتی ہے۔لہٰذا بینک کے معاملے میں کسی بھی قسم کی شراکت یاتعاون نہیں ہونا چاہیئے ۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ
المائدة – 02
اور گناه اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو۔
یعنی گناہ ،ظلم و زیادتی کے معاملات میں کسی سےبھی تعاون کی ممانعت ہے ، یہ ہمارے لئے جائز نہیں۔قرآن مجید کی اسی آیت کی روشنی میں بینک کے معاملے کو بھی سمجھا جاسکتا ہے ، کیونکہ بینک صارف کی جانب سے کرنٹ اکاؤنٹ یا سیونگ اکاؤنٹ میں رکھوائے گئے پیسوں کو ہی اپنی تجارت اور سُودی معاملات کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ تو یہ ایک طرح سے بینک کے سُودی کاروبار میں شراکت یا تعاون ہے جو جائز نہیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ کا جواز :
اب مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں کچھ امور ایسے ہیں جن کے باعث بینک اکاؤنٹ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، مثلاً :
۞ بینک کے ذریعے رقوم کی منتقلی بہت عام ہوچکی ،اسی باعث موجودہ دور میں بینک کے بغیر تجارت کا تصور ہی نہیں گویا کہ تجارت کے لئے بینک ایک لازمی چیز ہے۔
۞تاجر اگر اندرونِ شہر تجارت کرتا ہے تو بھی رقم کی ضرورت ہے ،بیرونِ شہر تجارت کرتا ہے تو بھی معاملہ یہ ہی ہے ۔
۞اسی طرح اگر اس کا کام اشیاء کی درآمدگی (Import) یا برآمدگی (Export) پر مشتمل ہے،تو ایسے شخص کے لئے بینک اکاؤنٹ لازم ہے ۔
۞پھر موجودہ دور میں امن و امان کا معاملہ بھی ایسی صورت اختیار کرچکا ہے کہ تاجر اپنے سرمائے کی حفاظت کے لئے اسے بینک میں رکھنا ہی مناسب سمجھتا ہے ۔
ان وجوہات کے باعث اگر امن و امان کی صورتِ حال بہتر نہ ہو اور مال کے چوری ہوجانے یا چھن جانے کا اندیشہ ہو تو ہمیں شریعت کی رُو سے کرنٹ اکاؤنٹ کی حد تک کھلوانے کی اجازت ہے۔کیونکہ کرنٹ اکاؤنٹ کے لئے صارف اور بینک کے درمیان جو معاہدہ ہوتا ہے اس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ صارف کی طرف سے جو بھی رقم بینک میں رکھوائی جائے گی وہ صارف کے مطالبے تک اُس بینک میں محفوظ ہے اور جب کبھی صارف اُ س رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کرےگا بینک وہ رقم صارف کو ادا کرنے کا پابند ہوگا۔صارف جب چاہے بینک میں رکھی ہوئی اپنی رقم کو نکلوا سکتا ہے اور اسے استعمال کرسکتا ہے۔
اہم وضاحت :
کرنٹ اکاؤنٹ میں پیسے جمع کرنےکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بینک وہ رقم آپ کے لئے مخصوص کسی تجوری (Locker)میں رکھ دے گا۔ بلکہ بینک اُس رقم کوبھی اپنے سُودی کاروبار میں استعمال کرےگا لیکن چونکہ آپ کے اور بینک کے درمیان ایک معاہدہ ہے جس کے مطابق آپ بینک سے اپنی رکھوائی ہوئی رقم پر کوئی سُود نہیں لیں گےاور اِس معاہدے میں ایسی کوئی شق بھی نہیں جس میں کسی سُودی لین دین پر رضامندی کا اظہار ہو ۔لہٰذا اس حد تک شریعت ہمیں کرنٹ اکاؤنٹ کے استعمال کی اجازت دیتی ہےاور اس میں بھی یہ بات پیش ِ نظر رہنی چاہیئے کہ اگر کوئی دوسری صورت ہو جو تجارتی لین دین میں معاون ہو تو اس صورت میں کرنٹ اکاؤنٹ کی بھی اجازت نہیں ہے۔ یعنی ہم کرنٹ اکاؤنٹ کی طرف تب ہی جائیں جب ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہ ہو۔اور ایسا شخص جس کو بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو تو اس کے لئے کرنٹ اکاؤنٹ بھی رکھنا جائز نہیں۔ کیونکہ وہ بلا ضرورت یہ اکاؤنٹ کھلوارہا ہے جو کہ صراحتاً بینک کے ساتھ تعاون ہےاور فرمانِ الہٰی کے مطابق وہ شخص مجرم ہے۔
سیونگ اکاؤنٹ کسی صورت جائز نہیں :
دوسری طرف سیونگ اکاؤنٹ ہے ۔ سیونگ اکاؤنٹ کا معاملہ یہ ہے کہ بینک اور صارف کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے جس میں یہ تحریر ہوتا ہے کہ صارف جو رقم بینک میں رکھوا رہا ہے وہ اُسے ایک مخصوص مدت سے پہلے طلب نہیں کرسکتا جیسے کم از کم چھ ماہ کے عرصے سے پہلے صارف اس رقم کے مطالبے کا مجاز نہیں ۔پھر یہ کہ اگر وہ رقم چھ ماہ تک بینک کے پاس رہےگی اور اس کے بعد صارف رقم کی واپسی کا مطالبہ کرے گا تو بینک تین فیصد کے حساب سے رقم پر سُود ادا کرےگا ۔پھر جیسے جیسے صارف کی رقم پر مدت بڑھتی جائے گی بینک کی طرف سے سُود کی رقم فیصد کے حساب سے بڑھتی جائےگی۔بہرکیف دونوں ہی صورتوں میں معاملہ سُود کا ہے جو کہ قطعاً ناجائز و حرام ہے ۔ یعنی سیونگ اکاؤنٹ کھولنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہےاور نہ ہی اس میں کوئی گنجائش ہے۔چاہے آپ کی کوئی بھی مجبوری یا عذر ہو ،کیونکہ سُود کے معاملےمیں کسی بھی مجبوری یا عذر کا کوئی جواز نہیں ہے۔
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں مردار کا ذکر کیا ،پھر خون کا ذکر کیا اور پھر خنزیر کا ذکر کر کے فرمایا کہ مسلمانوں کے لئے یہ چیزیں حرام ہیں ۔ لیکن اس کے بعد انتہائی ناگزیر صورت میں ان کے استعمال کی اجازت بھی دی یعنی شدید مجبوری کی حالت میں گنجائش کا ایک راستہ بھی رکھا۔بس سُود کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے ایک قطعی حکم نازل فرما دیا کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا
البقرة – 278
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو۔
یعنی کسی مجبوری یا عذر کی صورت میں بھی سُود کی اجازت نہیں دی گئی۔لہٰذا سیونگ اکاؤنٹ کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے۔
عوام الناس کی طرف سے پیش کردہ مجبوریوں کی حقیقت :
سیونگ اکاؤنٹ کے جواز کے لیے پوچھے گئے سوالات میں عموما ً عذر اس طرح کے ہوتے ہیں ،جیسے کوئی بیوہ عورت ہے اور اس کے پاس کچھ رقم ہے تو اگر وہ اس رقم کو کسی کاروبار میں لگاتی ہے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس عورت کو اس کاروبار میں نقصان ہو جائے اور وہ رقم ضائع ہوجائے ۔تو ایسے کسی نقصان سے بچنے کے لئے وہ یہ رقم بینک میں رکھوا دیتی ہے جس پر اسے منافع(سُود) ملتا رہتا ہے ۔تو ایسا کوئی بھی عذر شرعاً قابل ِ قبول نہیں ہے ۔ پھر ایسے ہی کچھ بھونڈے عذر پیش کر کے بعض لوگ اپنے ناجائز اور حرام کام کو جائز اور حلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ کوئی ایسی عورت جو پیسہ کمانے کے لئے زنا کرتی ہے اور وہ یہ عذر پیش کرتی ہے کہ چونکہ اس کے پاس کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تو کیا اِس جواز پر اُسے اس قبیح عمل کی اجازت دے دی جائے؟!یقیناًنہیں۔ تو اسی طرح کا معاملہ سُود کے حوالے سے پیش کئے جائے والے دلائل اور مجبوریوں کا ہے۔
خلاصہ کلام :
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ مجبوری یا شدید ضرورت کی صورت میں جائز ہے اور سیونگ اکاؤنٹ کسی صورت جائز نہیں ہوسکتا ، بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ رب العالمین رزاق ہےاو روہ ہی رزق دینے والا ہے ۔ اسی بات پر ہمار اتوکل ہونا چاہیئے۔
اللہ رب العالمین ہمیں حلال اختیار کرنے اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین