اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ ان میں سے تیسرا بنیادی رکن ” روزہ ” ہے۔ اسلام میں روزے سنہ2 ہجری سے فرض قرار دیے گئے جس کے بعد سے پوری دنیا میں مسلمان روزہ رکھتے آ رہے ہیں۔ اللہ رب العزت کہ جس نے بنی نوعِ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ، وہ اپنے بندوں کے ایک ایک روحانی و جسمانی عوارض سے واقف ہے۔ چنانچہ روزے کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
(سورة البقرۃ : 184)
روزہ رکھنا ہی تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جان لو۔
اگر ہم اس آیتِ مبارکہ میں بیان کردہ حقائق کا طبی نکتہِ نظر سے مطالعہ کریں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ روزہ عبادت کے ساتھ ساتھ صحتِ انسانی کے لیے بھی بے حد مفید چیز ہے۔
جسمِ انسانی کی ساخت
انسا نی جسم دنیا کی ایک پیچیدہ ترین مشین ہے۔ اس میں دس بڑے سسٹم کام کر رہے ہیں جو آنکھ ، جگر، گردوں، دل، سانس، دماغ ، پھیپھڑے، تلی، لبلبہ اور نظامِ ہضم وغیرہ پر مشتمل ہیں ۔ انسان کا یہ جسم 78 اعضاء ، 360 جوڑوں ، 206 ہڈیوں کا مجموعہ ہے جس میں پانچ سے چھ لیٹر خون مسلسل گردش کر رہا ہے جو دن میں 12000 میل کا سفر طے کرتا ہے۔ انسانی جسم میں 37 خراب خلیے (Cells)موجود ہیں۔ اگر آپ میڈیکل سائنس کی تاریخ پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ روزہ ان سب کو تازہ دم کرکے ساری صفائی کر دیتا ہے۔
روزے کے طبی فوائد
روحانی اور قلبی سکون کے علاوہ طبی لحاظ سے بھی روزوں کے بے شمار فوائد ہیں۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال پہلے جو کچھ فرمایا تھا آج مغربی سائنسدان مکمل تحقیق اور یقین کے ساتھ اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ آج جدید میڈیکل سائنس اور مغرب کے سائنسدانوں نے روزے کے وہ طبی فوائد دریافت کرنے شروع کیے ہیں جن کا ذکر قرآن مجید، احادیث مبارکہ میں کئی سو سال پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ روزہ رکھنے کی مشق سے انسانی جسم کو ہزاروں قسم کے طبی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن میں چند ایک کو یہاں بیان کیا جاتا ہے ۔
نئے اعصابی خلیوں کی تیاری
اپریل 2020 کو Brain and Behavior نامی میگزین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ روزانہ اوسطاً 16 گھنٹے تک کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں تو دماغ نئے اعصابی خلیے تیار کرتا ہے۔ یہ دریافت 2020 میں پہلی بارسامنے آئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ تا حال معلوم نہیں ہوسکی لیکن روزے کے نتیجے میں بننے والے نئے خلیے جسم کو کئی بیماریوں سے بچانے میں مدد دیتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہماری دماغی صحت اور روزے کے درمیان گہرا تعلق ہے۔
35 دنوں کا روزہ اور ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے نتائج
10 اپریل 2018 کو الاباما یونیورسٹی نے روزے کے لیے مناسب گھنٹوں کی تعداد معلوم کرنے کے لیے ایک شاندار تجربہ کیا۔ اس تجربے کے نتیجے میں 35 دنوں تک روزانہ 16 سے 18 گھنٹے تک روزہ رکھنے سے بہت ہی حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے تحقیقی نتائج کے مطابق 35 دن تک روزانہ 16 سے 18 گھنٹے تک روزہ رکھنے سے درج ذیل نتائج سامنے آئے:
1۔ بلڈ پریشر میں نمایاں بہتری آئی۔
2۔ خون میں نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح میں نمایاں کمی آئی۔
3۔ 35 دنوں کے بعد انسولین کی سطح بھی کم ہو گئی تھی۔
اس جدید تحقیق نے سائنسدانوں کو حیرت زدہ کر دیا۔ یہ تحقیقی مقالہ ہارورڈ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ انسانی صحت کے لیے سال میں کم از کم 35 دن روزہ رکھنا کتنا ضروری ہے۔ ماہِ رمضان تقریباً 29 سے 30 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے بعد شوال کے 6 دن ملا لیں تو یہ تقریباً 35 دن بنتا ہے۔
نبی ﷺ کی صداقت
قربان جائیں نبی کریم ﷺ کے سچے فرامین پر جس نے مغربی سائنسدانوں کی تحقیق سے ہزاروں سال پہلے روزے کے لیے مثالی وقت اور دِنوں کا تعین فرمایا۔ یہ نبی ﷺ کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے 1400 سو سال پہلے جو کچھ فرمایا آج مغربی سائنسدان اپنی تحقیقات کی روشنی میں نبی ﷺ کی نبوت اور آپ کے فرامین کی سچائی کی تصدیق کر رہے ہیں۔ ماہِ رمضان تقریباً 29 سے 30 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے بعد شوال کے 6 دن جو کہ تقریباً 35 دن بنتے ہیں۔ رب العزت کی قسم ! ہم نے اس عظیم پیغمبر کی صحیح قدر نہیں کی ہے۔ سائنسدانوں نے جب بھی ہمارے فائدے کی کوئی بھی چیز دریافت کی ، معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے اس کے متعلق 1400 سال پہلے ہمیں بتا رکھا ہے یا اس کا حکم دے رکھا ہے ۔
ہارمونز، خلیات اور جینز کے افعال میں تبدیلیاں
جب آپ کچھ وقت تک غذا کو خود سے دور رکھتے ہیں تو جسم کے اندر کافی کچھ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جسم ہارمونز کی سطح میں تبدیلیاں لاتا ہے تاکہ ذخیرہ شدہ جسمانی چربی زیادہ قابل رسائی ہو جبکہ اہم خلیاتی مرمت کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ روزے کے دوران خون میں انسولین کی سطح میں نمایاں کمی آتی ہے جو چربی گھلانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح خون میں ایچ جی ایچ نامی ہارمون میں ڈرامائی اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس ہارمون کی تعداد بڑھنے سے بھی چربی گھلنے میں مدد ملتی ہے جبکہ مسلز کا حجم بڑھتا ہے۔ جسم کی جانب سے خلیات سے ناکارہ مواد کو نکالنے کا عمل بھی شروع ہوتا ہے جبکہ متعدد جینز اور مالیکیولز میں فائدہ مند تبدیلیاں آتی ہیں جن کو مختلف امراض سے تحفظ سے منسلک کیا جاتا ہے۔
جسمانی وزن میں کمی اور توند کی چربی گھلانے میں مدد
مخصوص وقت تک بھوکے رہنے یا روزہ رکھنے سے جسمانی وزن میں کمی لانا بھی آسان ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے وجہ بھی سادہ ہے۔ جب آپ روزہ رکھتے ہیں تو معمول سے کم غذا کا استعمال کرتے ہیں ما سوائے اس صورت میں جب آپ سحر و افطار میں معمول سے زیادہ غذا جزوِ بدن بنائیں۔ مزید براں روزے کی حالت میں جسمانی وزن میں کمی میں مددگار ہارمون کے افعال بھی بہتر ہو جاتے ہیں جیسا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے جبکہ جسم چربی کو توانائی کے لیے استعمال رکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک روزے سے بھی میٹابولک ریٹ میں اضافہ ہوتا ہے اور زیادہ کیلوریز کو بھی جلانا آسان ہو جاتا ہے۔
انسولین کی مزاحمت میں کمی، ذیابیطس ٹائپ ٹو کے خطرے میں کمی
ذیابیطس ٹائپ 2 حالیہ دہائیوں میں بہت تیزی سےعام ہوا ہے اور اس کے ایک بنیادی عنصر انسولین کی مزاحمت ہوتی ہے جس کے باعث بلڈ شوگر کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسولین کی مزاحمت کو کم کرنے والا ہر کام بلڈ شوگر کی سطح کو بھی کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے جس سے ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہونے سے تحفظ ملتا ہے۔ روزے یا بھوکے رہنے سے انسولین کی مزاحمت کی سطح میں کمی آتی ہے جس سے بلڈ شوگر کی سطح بھی بہتر ہوتی ہے۔
جسمانی ورم اور تکسیدی تناؤ میں کمی
تکسیدی تناؤ عمر بڑھنے کے اثرات کا حصہ ہے جس کو متعدد دائمی امراض سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔ تکسیدی تناؤ غیر مستحکم مالیکیولز پر مشتمل ہوتا ہے جن کو فری ریڈیکلز کہا جاتا ہے جو دیگر اہم مالیکیولز جیسے پروٹین اور ڈی اے این سے تعلق پیدا کرکے ان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ متعدد تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے تکسیدی تناؤ کے خلاف جسمانی مزاحمت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح تحقیقی رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس طرح ورم سے لڑنے میں بھی مدد ملتی ہے، جیسا آپ کو علم ہی ہوگا کہ ورم متعدد عام امراض کا باعث بننے والا ایک اہم عنصر ہے۔
کولیسٹرول لیول میں کمی
رمضان المبارک میں روزے رکھنے سے ایک طرف تو آپ کو وزن میں کمی کرنے میں کامیابی حاصل ہوتی ہے تو دوسری جانب جسم میں آنے والی دیگر مثبت تبدیلیوں میں کولیسٹرول لیول میں کمی بھی شامل ہے۔ اس سے آپ خود کو پہلے سے توانا، دماغی طور پر چست اور ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب آپ کا جسم اپنے دفاع کے لیے پہلے سے زیادہ فعال اور مضبوط ہو چکا ہے۔ امراضِ قلب کے ماہرین نے ایک مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمضان میں روزے رکھنے والے افراد میں چربی بننے کا عمل کم ہو جاتا ہے اور نتیجتاً کولیسٹرول کا لیول بھی کم ہوجاتا ہے اور دل کے دورے اور دل کی دیگر بیماریوں کا خدشہ انتہائی کم ہو جاتا ہے۔
دل کی صحت کے لیے مفید
امراضِ قلب اس وقت دنیا میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ خالی پیٹ رہنے یا روزے رکھنے سے بلڈ شوگر، بلڈ پریشر، خون میں چکنائی، کولیسٹرول کی سطح جیسے امراضِ قلب کے خطرے سے منسلک عناصر کو بہتر کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مگر انسانوں پر ابھی زیادہ کام نہیں ہوا اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
کینسر سے بچانے میں ممکنہ طور پر مددگار
کینسر خلیات کی قابو سے باہر نشو و نما کو کہا جاتا ہے مگر انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کے میٹابولزم پر مرتب فائدہ مند اثرات کے باعث خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے کینسر کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔ جانوروں پر اس حوالے سے اب تک ہونے والے تحقیقی کام کے نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں اور انسانوں میں نتائج ملتے جلتے رہے ہیں مگر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ایسے بھی چند شواہد سامنے آئے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ روزے سے انسانوں پر کیمو تھراپی کے متعدد مضر اثرات کی شدت میں کمی آتی ہے۔
دماغ کے لیے بھی مفید
جو چیز آپ کے جسم کے لیے اچھی ہو وہ دماغ کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ روزے کی حالت سے ایسے متعدد میٹابولک فیچرز بہتر ہوتے ہیں جو دماغ کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ ان فیچرز جیسے تکسیدی تناؤ، ورم، بلڈ شوگر کی سطح اور انسولین کی مزاحمت میں بہتری کا اثر دماغ پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔روزے سے ایک دماغی ہارمون بی ڈی این ایف کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس ہارمون کی سطح میں کمی کو ڈپریشن اور متعدد دماغی مسائل سے منسلک کیا جاتا ہے۔
الزائمر امراض کی ممکنہ روک تھام
الزائمر امراض کا کوئی علاج اس وقت موجود نہیں تو اس سے بچنا ہی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوا کہ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے الزائمر کا شکار ہونے کا عمل التوا کا شکار ہوسکتا ہے یا اس کی شدت میں کمی آسکتی ہے۔
زہریلے مادوں کی صفائی
روزے سے جسم میں موجود زہریلے مادوں کی صفائی ہوتی ہے۔ مغربی محقق ڈاکٹر ایلن کاٹ (Allan Cott) اپنی کتاب میں روزے کے متعلق لکھتے ہیں:
Fasting bring a whole some physiological rest for the digestive tract and central nervous system and normalizes metabolism1
ترجمہ : روزے سے انسان کے نظام انہضام (معدہ) اور دماغی نظام کو مکمل طور پر آرام ملتا ہے اور غذا کے ہضم کرنے کا عمل نارمل حالت پر آ جاتا ہے۔
روزہ اور غیر مسلموں کے انکشافات
اسلام نے روزے کو مومن کے لیے شفا قرار دیا اور جب سائنس نے اس پر تحقیق کی تو سائنسی ترقی چونک اٹھی اور اقرار کیا کہ اسلام ایک کامل مذہب ہے ۔
دنیا بھر کے طبی ماہرین خصوصا ڈاکٹر مائیکل، ڈاکٹر جوزف، ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر، ڈاکٹر ایم کلائیو، ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ، ڈاکٹر جیکب، ڈاکٹر لوتھر جیم، ڈاکٹر ہنری ایڈورڈ، ڈاکٹر برام جے، ڈاکٹر ایمرسن، ڈاکٹرخان یمر ٹ، ڈاکٹر ایڈورڈ نکلسن، ڈاکڑ نوربلوک، ڈاکٹر ژوفرائے (جوفرائے )، ڈاکٹر سعد الصقیر، ڈاکٹر ابراہیم سید اور جدید سائنس نے ہزاروں کلینیکل ٹرائلز سے تسلیم کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ روزے کے طبی فوائد نظامِ ہضم تک ہی محدود ہیں لیکن جیسے جیسے سائنس اور علمِ طب نے ترقی کی تو دیگر بدنِ انسانی پر اس کے فوائد آشکار ہوتے چلے گئے اور محقق اس بات پر متفق ہوئے کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔
ڈاکٹر شانتی رنگوانی ((Rangwani, shanti)
ڈاکٹر شانتی رنگوانی کے مطابق روزے کے دوران جسم میں کوئی خوراک نہیں جاتی اس لیے جسم میں نئے زہریلے مادے پیدا نہیں ہوتے اور جگر پوری طور پر تندرستی سے پرانے زہریلے مادوں کو جسم سے صاف کرتا ہے۔2
پروفیسر (Mark Mattson)مارک میٹسن
پروفیسر مارک میٹسن امریکہ کی جان ہوپکنز یونیورسٹی سے منسلک مشہور نیورو سائنس داں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 25 سال کے روزے کے بعد مجھ پر یہ بات واضح ہو گئی کہ روزہ دماغ میں ہپپوکیمپس نامی ایریا میں نئے اعصابی خلیات کی نشو و نما میں مدد کرتا ہے جو یادداشت بڑھانے اور سیکھنے کے عمل کے لیے نہایت ضروری ہے۔ نیز روزہ رعشہ کی بیماری، بھولنے کی بیماری ، شدید مرگی کے دوروں سے بچاؤ کے لیے بہت مفید ہے۔ نیز دماغی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد گار ہے ۔ پروفیسر مارک میٹسن مزید کہتے ہیں: ہماری تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ روزہ قبل از وقت بڑھاپے اور ڈیمنشیا( بھولنے کی بیماری ) کو تا دیر تک روکنے اور خلیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں بہترین نتائج کا حامل ہے ۔
پروفیسر مارک لارنس (Mark Lawrence)
یونیورسٹی آف سڈنی آسٹریلیا روزے کے رازوں کو جاننے کی خواہشمند تھی چنانچہ اس نے بھی روزے کے بارے میں ایک تازہ ترین تحقیق کی جو 3/11/2020 کو (Cell Reports)سیل رپورٹس میگزین میں شائع ہوئی۔ محقق پروفیسر مارک لارنس کہتے ہیں: ہم نے جگر پر روزہ رکھنے کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے جدید ترین تجزیاتی تکنیک کا استعمال کیا اور پہلی بار ہمیں معلوم ہوا کہ روزہ جگر کی صحت کو حیرت انگیز طور پر بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روزہ دل کی بیماری اور کینسر کے علاج میں بھی مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔
جرمن ڈاکٹر (Buchinger Wilhelmi) بوچنگر ولہیلمی
جرمن ڈاکٹر(Buchinger Wilhelmi) بوچنگر ولہیلمی نے روزے کے بارے میں سب سے بڑی تحقیق کی ہے۔ یہ تحقیق جرمنی میں ہوئی جو مشہور میگزین پلس ون میں مورخہ 2/2/2019 کو شائع ہوئی۔ تحقیق میں درج ذیل حقائق سامنے آئے چنانچہ جن لوگوں پر روزے کا تجربہ کیا گیا تھا ان میں سے 84 فیصد لوگوں نے اپنی دائمی بیماریوں جیسے ٹائپ 2 ذیابیطس، جوڑوں کی بیماری، جگر کی بیماری، کولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں حیرت انگیز بہتری دیکھی۔
پروفیسر مورپالڈا
آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر مورپالڈ اپنا قصہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو میں چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولہ دیا ہے اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا صرف روزے کا فارمولہ ہی دے دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اور کوئی نعمت نہ ہوتی۔ میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہیے پھر میں نے مسلمانوں کی طرز پر روزے رکھنا شروع کیے۔ میں عرصہ دراز سے ورمِ معدہ (Stomach Inflammation)میں مبتلا تھا کچھ دنوں بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقعی ہو گئی ہے۔ میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی کچھ عرصہ بعد ہی میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا اور ایک ماہ بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی ۔
پوپ ایلف گال
پوپ ایلف گال ہالینڈ کے سب سے بڑے پادری گذرے ہیں۔ روزے کے متعلق اپنے تجربات کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ میں نے اس طریقے کار کے ذریعے جسمانی اور ذہنی ہم آہنگی محسوس کی۔ میرے مریض مسلسل مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں انہیں کچھ اور طریقہ بتاؤں لیکن میں نے یہ اصول وضع کر لیا ہے کہ ان میں وہ مریض جو لا علاج ہیں ان کو تین روز کے نہیں بلکہ ایک مہینہ تک کے روزے رکھوائے جائیں۔ میں نے شوگر ، دل کے امراض اور معدہ میں مبتلا مریضوں کو مستقل ایک مہینے تک روزے رکھوائے۔ شوگر کے مریضوں کی حالت بہتر ہوئی اور ان کی شوگر کنٹرول ہو گئی ۔ دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوگیا اور سب سے زیادہ افاقہ معدے کے مریضوں کو ہوا ۔
ڈاکٹر لوتھر جیم
فارما کولوجی کے ماہر ڈاکٹر لوتھر جیم نے روزے دار شخص کے معدے کی رطوبت لی اور پھر اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا اس میں انہوں نے محسوس کیا کہ وہ غذائی متعفن اجزا (food particles septic)جس سے معدہ تیزی سے امراض قبول کرتا ہے بالکل ختم ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر لوتھر کا کہنا ہے کہ روزہ جسم اور خاص طور پر معدے کے امراض میں صحت کی ضمانت ہے ۔
سگمنڈ فرائیڈ
مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ فاقے اور روزے کا قائل تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ روزے سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے۔ روزے دار آدمی کا جسم مسلسل بیرونی دباؤ کو قبول کرنے کی صلاحیت پا لیتا ہے۔ روزے دار کو جسمانی کھچاؤ اور ذہنی تناؤ سے سامنا نہیں پڑتا ۔
ایلن کاٹ
ایلن کاٹ (Allan Cott) نے 1975ء میں اپنی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ روزے سے نظامِ ہضم اور مرکزی عصبی نظام کو مکمل طور پر نفسیاتی سکون ملتا ہے اور یہ میٹابولزم کے نظام کو نارمل کردیتا ہے۔3
ڈاکٹر مِنگ ہوئی زو
ریاست اٹلانٹا میں واقع جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل اہم سائنسدان ڈاکٹر مِنگ ہوئی زو نے انکشاف کیا ہے کہ روزہ رکھنے والے کے جسم میں ایک خاص مالیکیول پیدا ہوتا ہے جو رگوں اور شریانوں کی عمر رسیدگی کو روک کر انہیں تا دیر جوان رکھتا ہے۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ روزے یا فاقوں سے جسم کی اندرونی وریدیں اور شریانیں طویل عرصے تک جوان رہتی ہیں جس کے نتیجے میں امراضِ قلب سے لے کر الزائیمر جیسی خطرناک و جان لیوا بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر جوفرائے
روزے کے بارے میں ایک دلچسپ بات یورپ کے کیتھولک عیسائی ڈاکٹر ژوفرائے (جوفرائے ) نے کی ہے۔
Fasting کے نام سے جوفرائے کی کتاب پیرس سے چھپی ہے۔ جوفرائے کتاب میں انکشاف کرتے ہیں کہ روزہ تو انسانوں میں تو ہے ہی مگر کائنات کی کچھ دوسری چیزوں میں بھی روزہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً نباتات اور حیوانات میں بھی۔
جوفرائے کا استدلال
جوفرائے مثال دیتا ہے کہ جن علاقوں میں برفباری ہوتی ہے اور اس قدر کہ سطحِ زمین پر کئی ماہ برفباری کی دبیز تہہ جمی رہتی ہے۔ ایسے موسموں میں ان علاقوں کے نباتات برف کی تہوں میں دب جاتے ہیں جبکہ حیوانات اور پرندے غاروں میں جا دبکتے ہیں۔ ظاہر ہے انہیں اُس وقت کوئی غذا مہیا نہیں ہو پاتی۔ یوں ایک طویل عرصہ یہ غذا وغیرہ سے قطعی بے نیاز نیم مردہ یا بے ہوش پڑے رہتے ہیں۔ عام زبان میں اس عمل کو Hibernation کہتے ہیں البتہ جوفرائے اسے روزے سے تعبیر کرتا ہے۔ جوفرائے کہتا ہے کہ جب موسمِ سرما گزرتا ہے اور بہار جب کھلکھلاتی، برف پگھلتی اور برفوں میں زندگی سانس لیتی ہے تو بے حس و حرکت کومے میں پڑے یہ حیوانات و نباتات انگڑائی لے کے گویا اپنے روزے کی افطاری کر لیتے ہیں۔ جوفرائے عین اس مرحلے کی تحقیقات پر توجہ دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے تب صورت یہ ہوتی ہے کہ پرندوں کے پر جھڑ چکے ہوتے ہیں مگر انہیں نئے ، توانا اور خوبصورت پر عطا ہو جاتے ہیں۔ وہ سانپ پر غور کرتا ہے کہ تب اسے نئی جلد میسر آ جاتی ہے جو پہلی سے زیادہ چمکدار ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ان علاقوں کے اشجار بھی یہ عرصہ بغیر پانی کے گزارتے ہیں اور آخر میں تازہ کونپلیں اور نئے پتے پاتے ہیں۔ جوفرائے کی تحقیق کے مطابق روزہ رکھے ہوئے جانوروں میں کئی گنا توانائی بھی بڑھ جاتی ہے۔
ڈاکٹر جوفرائے کی 40 روزوں کی تجویز
انہی تحقیقات کی روشنی میں جوفرائے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے چوکس اور بیدار رہنے کے لیے ایک انسان کو سال میں چالیس روزے ضرور رکھنے چاہیے۔ ظاہر ہے مسلمان رمضان کے ساتھ شوال کے چھ روزے ملا لیں تو جوفرائے کی بیان کردہ تعداد کو پا لیتے ہیں۔ ڈاکٹر جوفرائے کی تحقیق کے مطابق روزے سے جانداروں کی جلد کے خوبصورت، چمکدار اور مضبوط ہو جانے کی بات یقیناً ہمارے لیے دلچسپ ہے۔
ڈاکٹر ایلن ماسک
ڈاکٹر ایلن ماسک Dr.Alon Mask of USAنے اپنی دریافت میں لکھا ہے’’روزہ واحد عظیم ترین طریقہِ علاج ہے ہر بیماری کا‘‘ ۔ انہوں نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ مسلسل روزہ رکھنا کینسر کے علاج کا ایک طریقہ ہے۔
پروفیسر نیکولائی
پروفیسر نیکولائی اپنی کتاب”صحت کی خاطر بھوک ” میں لکھتے ہیں کہ: ہر انسان خاص طور پر بڑے شہروں میں رہنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سال میں تین چار ہفتہ کھانا کھانے سے باز رہیں تاکہ وہ پوری زندگی صحت یاب رہیں ۔ ویسے تو قومِ مسلم حکمِ خداوندی پر روزہ رکھتی ہے تاہم روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ دنیا بھر کے طبی ماہرین خصوصاً ڈاکٹر مائیکل، ڈاکٹر جوزف، ڈاکٹر سگمنڈ فرایڈ، ڈاکٹر سیمیوںٔسل الیگز ، ڈاکٹر ایم کلاٹیو وغیرہ نے ہزاروں کلینیکل ٹرائلز کے بعد تسلیم کیا کہ روزے سے انسان صحت یاب ہوتا ہے۔
پروفیسر این نکٹین
روسی ماہر الابدان پروفیسر این نکٹین نے لمبی عمر سے متعلق اپنی اکسیر دوا کے انکشاف کے سلسلے میں لندن میں 22 مارچ 1940ء کو بیان دیتے ہوئے کہا: اصولِ زندگی تین کام پر منحصر ہیں : اول : خوب محنت کیا کرو بشرطیکہ ایسا کام جو ذہنی طور پر بھی قوت بخشے۔ دوم: کافی ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ تر چلنا پھرنا چاہیے ۔ سوم : غذا جو تم پسند کرو کھایا کرو لیکن ہر مہینے کم از کم فاقہ ضرور کیا کرو۔
عرب ڈاکٹر سعد الصقیر
ڈاکٹر سعد الصقیر انسانی جلد، کاسمیٹک سرجری اور انسدادِ بڑھاپا جیسے امور کے طبی ماہر ہیں۔ ماہِ رمضان میں ڈاکٹر سعد الصقیر نے العربیہ ٹی وی کے پروگرام ”صباح العربیہ” میں روزے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہفتہ بھر 16 گھنٹے کا روزہ رکھنا بڑھاپے کے اثرات زائل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ 1980ء میں اس حوالے سے ہوئی ایک مشہور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس تحقیق کو ایک سند کی حیثیت حاصل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے انسانی جلد ، بالوں اور ناخنوں پر روزے کے اثرات کے متعلق بتایا کہ روزے سے بال سیاہ اور مضبوط ، جلد جوان و جاذب اور ناخن زیادہ چمکدار ہو جاتے ہیں۔ یہ سارے کرشمے خون کے زیرِِ اثر ہوتے ہیں۔
آج کے دور میں یہ بات ہمیں اس لیے بھی اجنبی محسوس نہیں ہو سکتی کہ دنیا بھر میں ڈائٹنگ سے جسم سڈول ، توانا اور جوان رکھنے کی مشق عام ہو چکی ہے۔ ڈائٹنگ اور روزے میں مگر روحانیت کے علاوہ بھی بہت فرق ہے۔ روزے جیسی مستقل اور مستحکم پابندی ظاہر ہے ڈائٹنگ میں کسی صورت ممکن نہیں ہو سکتی۔
ڈاکٹر ابراہیم سید
امریکہ کے مسلمان سائنسدان ڈاکٹر ابراہیم سید کی ایک تحقیق بھی چونکا دینے والی ہے۔ یہ تحقیق لیبارٹری میں موجود جانوروں پر کی گئی۔ سادہ سا ایک کام کیا گیا۔ یعنی لیبارٹری میں موجود کچھ جانوروں کی خوراک معمول سے کم کر دی گئی۔ ایک خاص مدت تک یہ عمل جاری رکھا گیا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ کم خور جانور اپنے باقی بسیار خور ساتھیوں سے عمر میں آگے نکل گئے۔ یعنی انہیں طویل عمر نصیب ہوئی۔ اس کی سائنسی توجیہ یہی کی جا سکی کہ کم کھانے سے جسم میں زہریلے مادے بھی کم پیدا ہوتے ہیں اور یوں انسانی دفاعی نظام مضبوط تر ہو جاتا ہے۔
نوربلوک باقی
معروف ترک سائنس دان نوربلوک باقی روزے کے طبی فائدے دیکھ کر کہتا ہے:
“The day will come when every one will fast.”
“یعنی وہ وقت بھی آئے گا جب دنیا پر روزے کا فائدہ آشکار ہوگا تو ہر شخص کو روزہ رکھنا ہی پڑے گا۔‘‘
ماہر ڈاکٹروں کی مشترکہ تحقیق
جرمنی، امریکہ اور انگلینڈ کے ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے رمضان المبارک میں تمام مسلم ممالک کا دورہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمضان المبارک میں چونکہ مسلمان نماز زیادہ پڑھتے ہیں جس سے پہلے وہ وضو کرتے ہیں اس سے ناک، کان اور گلے کے امراض بہت کم ہو جاتے ہیں۔ کھانا کم کھاتے ہیں جس سے معدہ و جگر کے امراض کم ہو جاتے ہیں۔ چونکہ مسلمان دن بھر بھوکا رہتا ہے اس لیے وہ اعصاب اور دل کے امراض میں بھی کم مبتلا ہوتا ہے ۔
ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ
اور اب ہم دنیا کی نمبر ون یونیورسٹی کی تحقیق کی طرف جاتے ہیں۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی نے بھی روزے کے اسرار و رموز کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے اور حال ہی میں اپنی ویب سائٹ پر بہت سے مضامین شائع کیے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیقات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ روزہ خلیات میں توانائی پیدا کرنے والے عوامل پر اچھا اثر ڈالتا ہے جس کی وجہ سے زندگی طویل ہو جاتی ہے۔ بلڈ پریشر، ذیابیطس اور کولیسٹرول جیسی دائمی بیماریوں کے علاج میں روزے کے تقریباً ناقابلِ یقین فوائد ہیں۔ روزہ رکھنے سے خلیات میں آکسیڈیٹیو تناؤ کم ہوتا ہے جو کہ بہت سی بیماریوں کا ذمہ دار ہے۔
روزے کے جسمانی فوائد
روزہ صرف روح کی تطہیر ہی نہیں بلکہ جسم کے کئی مسائل کا حل بھی ہے۔ طبی ماہرین اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ روزہ دینی فوائد کے ساتھ ساتھ جسمانی فوائد بھی پہنچاتا ہے۔ روزہ ہمارے جسم کو مندرجہ ذیل فائدے پہنچانے کا سبب بنتا ہے ۔
آرام پہنچانے کا سبب
انسانی جسم ایک مشین کی طرح ہے جو خود کار انداز میں اپنے کام سر انجام دیتا رہتا ہے لیکن جس طرح مشین کو مسلسل کام کرنے کے بعد آرام کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ہمارے جسمانی اعضا کو بھی ان کے کام سے فرصت کی ضرورت ہوتی ہے۔ رمضان میں یہ کام بخوبی سر انجام پاتا ہے۔ ایک مہینے کم کھانے پینے کے باعث ہمارا جسم آرام کرتا ہے اور یہ پھر سے پورے سال کام کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
مختلف بیماریوں سے نجات
ماہرینِ صحت کے مطابق روزہ کولیسٹرول، بلڈ پریشر، موٹاپے اور معدہ و جگر کے کئی امراض پر قابو پانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
جگر کی کارکردگی میں اضافہ
روزہ نظامِ ہضم کو ایک ماہ کے لیے آرام مہیا کرتا ہے۔ اس کا حیران کن اثر جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کھانا ہضم کرنے کے علاوہ 15 مزید افعال بھی سر انجام دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی سست ہو جاتی ہے ۔
دل و دماغ کو آرام اور سکون پہنچانے کا سبب
ماہرین کے مطابق روزہ دل و دماغ اور اعصاب کو سکون فراہم کرتا ہے ۔ روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے جس سے دل کو آرام ملتا ہے ۔ دل حالتِ نیند اور بے ہوشی میں بھی اپنا کام سر انجام دیتا ہے اور مسلسل جسم کو خون فراہم کرتا ہے ۔ روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہو جاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں جسمانی طور پر کمزور افراد روزے رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کر سکتے ہیں ۔
وزن میں کمی
رمضان کا مہینہ ان کے لیے ایک نادر موقع ہے جو اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں تاہم اس میں ناکام رہتے ہیں۔ رمضان میں کیلوریز کی مقدار میں کثرت سے کمی واقع ہوتی ہے اور یوں وزن کم ہوتا ہے۔
فاسد مادوں سے نجات
دن کا طویل حصہ روزے میں گزارنے کے بعد انسانی جسم میں موجود زہریلا مواد اور دیگر فاسد مادے ختم ہوجاتے ہیں یوں جسم کو فاسد مادوں سے نجات ملتی ہے۔
بڑھاپے سے حفاظت
ڈاکٹر صیقر کہتے ہیں کہ یہ تاثر درست نہیں کہ روزہ انسان کو کمزور کر دیتا ہے ۔ روزہ رکھنے سے انسان بڑھاپے کو روکنے کی کامیاب کوشش کر رہا ہوتا ہے بلکہ روزے کی حالت میں انسانی جسم میں موجود ایسے ہارمونز حرکت میں آ جاتے ہیں جو بڑھاپے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ روزے سے انسانی جلد مضبوط ہوتی اور اس میں جھریاں کم ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صیقر کا کہنا تھا کہ ہفتے میں 16 گھنٹے کے ایک روزے سے انسانی جسم کو درج ذیل حیرت انگیز طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔
اخروی فائدہ
روزے کے درج بالا تمام فوائد تو دنیاوی ہیں جو بے شک ہمارے خالق نے ہماری ہی بھلائی کے لیے ہم پر فرض کیا مگر اس کی رحمت کا اندازِ کریمانہ ملاحظہ کیجیے کہ اس کے احکام ماننے سے دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری آخرت بھی سنوارنے کا بہترین بندوبست کر دیا اور فرمایا کہ روزہ ایسا عمل ہے جو مؤمن کو جہنم میں جانے سے بچاتا ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الصِّيام جنة من النَّار كجنة أحدكم من القتال
(صحيح ابن ماجه : 1336، و صحیح البخاری : 1894 )
روزہ ڈھال ہے جس طرح کہ لڑائی کے موقع پر تم میں سے کسی کے پاس ڈھال ہوتی ہے“
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الصِّيامُ جُنَّةٌ، وحِصنٌ حَصينٌ مِن النَّارِ
(صححه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند: 9225)
روزہ جہنم کی آگ سے بچاؤ کے لیے ڈھال اور ایک مضبوط قلعہ ہے۔
اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَن صامَ رَمَضانَ ثُمَّ أتْبَعَهُ سِتًّا مِن شَوَّالٍ، كانَ كَصِيامِ الدَّهْرِ
(صحيح مسلم : 1164)
جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ روزے شوال کے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے“۔
حکمتِ الہی
روزے کے درج بالا حقائق سے ہمیں اتنا تو معلوم ہو ہی گیا کہ اللہ تعالی ہمیں روزے رکھنے کا حکم کیوں دیتا ہے اور وہ یہ کیوں فرماتا ہے کہ:
وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
(سورة البقرۃ : 184)
روزہ رکھنا ہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جان لو۔‘‘
خلاصہِ کلام
غرض یہ کہ روزہ انسانی صحت کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے۔ روزہ شوگر لیول ، کولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے، اسٹریس و اعصابی اور ذہنی تناؤ ختم کرکے بیشتر نفسیاتی امراض سے چھٹکارا دلاتا ہے۔ روزہ رکھنے سے جسم میں خون بننے کا عمل تیز ہو جاتا ہے اور جسم کی صفائی ہو جاتی ہے۔روزہ انسانی جسم سے فضلات اور تیزابی مادوں کا اخراج کرتا ہے۔ روزہ رکھنے سے دماغی خلیات بھی فاضل مادوں سے نجات پاتے ہیں جس سے نہ صرف نفسیاتی و روحانی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے بلکہ اس سے دماغی صلاحیتوں کو جلا مل کر انسانی صلاحیتیں بھی اجاگر ہوتی ہیں۔ روزہ موٹاپا اور پیٹ کو کم کرنے میں مفید ہے خاص طور پر نظامِ انہضام کو بہتر کرتا ہے۔ علاوہ ازیں مزید بیسیوں امراض کا علاج بھی ہے ۔
درج بالا سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کے سب سے بڑے حکیم ، طبیب، ڈاکٹر اور سائنسدان تھے۔ آپ ﷺ جدید سائنسی علوم سے بے خبر نہیں تھے۔ آپ ﷺ روزے کی حقیقت اور اس کے طبی فوائد سے اچھی طرح واقف تھے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال کے چھ روزے رکھنے کی ترغیب دی ۔ معلوم ہوا کہ انسانی صحت کے لیے 35 روزے رکھنا کتنا ضروری ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ماہِ رمضان کے بعد بھی ریاکاری سے پاک عبادات ، نماز ، روزہ ، تہجد، صدقہ و خیرات ، تسبیحات، ذکر و اذکار ، توبہ و استغفار اور دیگر نیک اعمال پر پابندی قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور ہمارے اعمال کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور تمام مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت اور اس میں خیر و برکت عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین۔