ضمیر)مفہوم، اہمیت،اقسام و احکام)

پہلا خطبہ

الْحَمْدُ لِلَّـهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ 

فاطر – 1

اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں سزاوار ہیں جو (ابتداء) آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا  اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر (قاصد) بنانے والا ہے۔

غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ

غافر – 3

 گناہ کو بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا (١) سخت عذاب والا، انعام و قدرت والا (۲) جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف واپس لو ٹنا ہے۔

وَهُوَ اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَىٰ وَالْآخِرَةِ ۖ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

القصص – 70

دنیا اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے۔ اسی کے لئے فرماں روائی ہے اور اسی کی طرف تم سب پھیرے جاؤ گے۔

دنیا اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے۔ اسی کے لئے فرماں روائی ہے اور اسی کی طرف تم سب پھیرے جاؤ گے۔

النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمَاتِهِ

الأعراف – 158

نبی امی پر جو کہ اللہ تعالٰی پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں ۔

ان پر اللہ کی لا تعداد  رحمتیں اور سلامتیاں ہوں، اور ان کے انتہائی پاکیزہ  آل پر بھی،اور ان کی ازواج مطہرات (امھات المومنین) پر بھی۔ اور ان کے صحابہ اور تابعین پر بھی، اور ان لوگوں پر بھی جو قیامت تک ان کی پیروی کریں گے۔

حمد و ثنا کے بعد!

اللہ کے بندو!

اللہ سے ڈریں،  اور جان لیں کہ یہ دنیاگزرگاہ ہے نہ کہ ہمیشگی کی جگہ، اور اللہ نے آپ سب کو  اس زمین میں خلیفہ بنایا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ  آپ کیسے اعمال کرتے ہیں۔

فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ ﴿٥﴾ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ ﴿٦﴾ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ

اللیل – 5/7

جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے رب سے)۔ اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا۔ تو ہم بھی اسکو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔

اے مسلمانو!

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آج دنیاٹیکنالوجی اور معلومات کی بلند ترین چوٹی پر پہنچ چکی ہے، اور ہرمیدان میں آتش فشاں پہاڑ کی راکھ ہی نئی نئی ایجادات کی گواہی دیتی ہے، اور ابھی لوگ ایک نئی چیز کو دیکھ ہی رہے ہوتے ہیں کہ دوسری نئی چیز ان کے سامنے آجاتی ہے جس وجہ سے پچھلی چیز بھول جاتے ہیں۔اور اسی طرح یکے بعد دیگرے ہورہا ہے۔

اگرچہ آج دنیا  ہمت اور ریسرچ کے ذریعہ فضا میں پہنچ گئی اور ایٹم بم تک بنالئے، مگر اس کے باوجود بھی معاشرے اور عوام کے ضمیر کو نہیں جگا سکی، اور نہ ہی وہ خالی روح کو اس سبق سے بھر سکی کہ دنیاوی زندگی (آخرت تک پہنچنے اور کامیاب ہونے کافقط) ایک وسیلہ ہے نہ کہ مقصود۔ تو لوگوں نے آسمان کے ستاروں کو تو دیکھ لیامگر اپنی آنکھ کے میلے پن کو نہ دیکھ سکے۔

زندہ ضمیر کا مطلب

زندہ ضمیر ایک ایسا خالص مقصد ہے  جس کے لئے ہی اخلاص سے نصیحت کرنے والے اپنی امت اور عوام کو  بیدار کرتے ہیں، اور غالباًمصیبت آجانے کے بعد ہی  لوگ بیدار ہوتے ہیں وہ بھی بہت تھوڑے، اور مصیبت میں واقع ہونا ہی اس سے بچاؤ  کا سبب بنتا ہےجبکہ نصیحت کرنے والوں کی پکار اُن کے لیے بے معنی رہجاتی ہے۔

کہنے والے نے بالکل صحیح  کہا ہے:

بذلتُ لهم نُصحِي بمُنعرَجِ اللِّوَا
فلم يستبينُوا النُّصحَ إلا ضُحَى الغَدِ

میں نے انہیں جھنڈا ہلاہلا کر بہت  نصیحت کی۔
لیکن صبح کی گرمی سے پہلے انہوں نے  نصیحت کو پہچانا تک نہیں۔

ضمیر کا مفہوم اور فوائد

اللہ کے بندو!

ضمیر انسان کا ایک ایسا  پوشیدہ شعور ہے جو انسان کو اس کے کردار کا نگہبان بنا دیتا ہے اور وہ بذات خود اقوال ، اعمال و افکار  میں اچھے برے کی تمیز کرسکتا ہے،ہر اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے اور ہر بری بات اسے ناپسندیدہ لگتی ہے۔

امّتِ مسلمہ اور اُن کا اجتماعی ضمیر ماضی و حال کے آئنہ میں

اور اسلام خود ہی ایک ایسی آزاد شریعت ہے جو لوگوں کوبندوں کی بندگی سے آزاد کرکے  صرف ایک اللہ کی بندگی  کی دعوت دیتی ہے، اور یہ بتاتی ہے عزت تو ایمان ہی میں ہے، اور ذلت و رسوائی کفر، گناہ اور نافرمانی میں ہے۔

یہ ایک فرد کے ضمیر میں تو  واضح نظر آتا ہے، لیکن اسلامی معاشرے کے ضمیر کے سمندر  میں جاکر پورا ہی ڈوب جاتا ہے۔ کیونکہ زندہ ضمیراگر معاشرے سے ختم ہوجائے تو افراد کی حالت چلتے پھرتے بے جان سائے کی طرح ہوجائے گی۔ اور بعض اوقات یہی افراد انسان نما شیاطین کی کیفیت اختیار کرلیتے ہیں۔

اور یہ ناممکن ہے کہ کمزوری و طاقت، امیری و غربت، ایمان و فسق، عدل و ظلم کے حساب سے  لوگوں کے  معاملات مشترک ہوں اور ان کا ضمیر کے بیدار ہونے یا سو جانے اور غفلت میں پڑجانے سے کوئی تعلق نہ ہو۔

اس زمانے میں تو اسلامی معاشرے میں جیتے جاگتے اور محافظ ضمیر کا فقدان ہے،یہی  توہ  اندہ ضمیر ہے جس نے گزشتہ زمانے میں مسلمانوں کی ایسی  تربیت کی کہ اگر مشرق میں کسی کو چھینک آجاتی تو مغرب والا شخص اس کا جواب دیتا، اور اگر شمال سے کوئی مدد کی ندا لگاتا تو جنوب والے اس کی پکار کو سنتے۔

لیکن اس زمانے میں تو امت کو چاروں طرف سے دہشت نے برے طریقے سے  گھیرا ہوا ہے، اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ آپ کے برابر والا چیختا اور روتا   ہوا پکارتا ہے مگر اس کی بات سنائی نہیں دیتی،  وہ اپنے ہاتھوں سےاشارہ کرتا ہے: مدد مدد، لیکن اسے کوئی دیکھنے والا نہیں۔

فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

الحج – 46

بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

امت کا ضمیر اس وقت تک بیدار نہیں ہوگا جب تک کہ امّت کے تمام  افراد کے ضمیر بیدار نہ ہوں؛ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سایہ سیدھا ہوجائے جبکہ لکڑی ٹیڑھی ہو۔اور اگر ایک شخص کی انگلیاں ٹیڑھی اور ملی ہوئی  ہوں تو وہ انگوٹھی کیسے پہن سکتا ہے۔ اور جب بھی حفاظتی اقدامات میں تاخیر ہوتی ہے تو ضمیر کمزور ہوجاتا ہے۔گویا کہ ضمیر بے سہارا  اور بے فائدہ ہوکر رہ جاتا ہے۔

ضمیر کے اعتبار سے لوگوں کی تین قسمیں ہیں

۱ـ زندہ ضمیر: ایک قسم ایسی ہے جس کا ضمیر زندہ ہے، وہ نیکی کو پہچانتا ہے اور برائی کو نہیں جانتا، اپنی امت کے ہر دکھ درد، خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے،تسلی دیتا اور غم خواری کرتا ہےاور انکی تکلیف کو خود بھی محسوس کرتا ہے، سچے مومنوں کے لئے نرم اور ظالموں اور مجرموں کے لئے سخت ہوتا ہے، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو نہیں سنتا۔

ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

المائدة – 54

یہ ہے اللہ تعالٰی کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالٰی بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے۔

۲ـ مردہ اور غافل  ضمیر: اور ایک قِسم ایسی ہے جس کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے، کسی کام کا نہیں۔وہ اس غلام کی طرح ہے جو اپنے مالک پر بوجھ ہے جو کچھ بھی کرلے اس سے کوئی بھلائی  حاصل نہیں ہوتی، اس کا وجود گنتی میں تو ایک اضافہ ہے مگرکوئی فائدہ اور نتیجہ نہیں۔

اور وہ  ابھی  فوت نہیں ہوا بلکہ وہ  صرف دنیا کے معاملات میں ہی لگ گیا ہےاور وہ اپنے حقوق اور اولاد کے بارے میں  بہت زیادہ  فکر مند ہے ۔ اس کی زبانِ حال یہی کہتی ہے: ‘ میرا نفس، میرا نفس’۔اس سے کسی غریب کو کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو نصیحت کرسکتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ وہ کھانے پینے کے لئے پیدا ہوا ہے۔ اس قسم کے لوگ اگر ضمیر کی اصلاح نہ کریں تو وہ مردہ ضمیر والوں میں ہی شمار ہوں گے۔

۳۔ مردہ اور نقصان دہ  ضمیر :

اور تیسری قسم وہ مردہ ضمیر ہے جس کا شر (برائی)خیر(بھلائی) پر غالب آتا ہےیا یوں کہہ لیں کہ اس میں کوئی بھلائی ہی نہیں۔ اچھے کاموں میں  وہ کہیں بھی ساتھ نہ دےگا۔وہ تو صرف شر میں ہی شریک ہوتا ہے، اور ہمیشہ قباحت والے کاموں میں ہی نظر آئے گا، برائی کا حکم دے گا اور بھلائی سے دوسروں کوبھی  روکے گااور خود بھی بھلائی سے دور رہے گا، اس نے اللہ کو بھلادیا تو اللہ نے بھی اسے بھلادیا،اس کی یہ صفات ہیں:  جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، مفاد پرستی، چغل خوری اور غیبت۔ اس کی لسانِ حال یہ کہتی ہے:

میرے ساتھ ایسا طوفان ہے کہ اگر وہ دوپہر کے وقت زید تک نہ پہنچا تو رات کو آپ تک تو پہنچ جائے گا۔

اس کی مثال مکھی کی طرح ہے جو صرف زخموں پر بیٹھتی ہے، صبح و شام لوگ  ایسے شر پسند افراد سے پناہ مانگتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے میزان کو گناہوں سے بھرنے کے لئے پیدا ہوا ہے۔اور  جب وہ قیامت میں اپنے رب سے ملے گا تو  اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا۔

زندہ ضمیر ایک حقیقی ایمانی قوت

خبردار!   اللہ آپ پر رحم کرے!

اللہ سے ڈریں، اور یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ زندہ ضمیر ہی حقیقی ایمان کا  ہینڈ پمپ ہے، جس کے نتیجہ میں محبت، رحمت اور الفت جنم لیتی ہے، اور وہ اعضاء کو ایک جسم میں جمع کردیتا ہے جوکہ پوری  امت کا ایک مکمل جسم ہے۔جیساکہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:

«مثلُ المُؤمنين في توادِّهم وتراحُمهم وتعاطُفهم مثلُ الجسد، إذا اشتكَى منه عضوٌ تداعَى له سائرُ الجسد بالسَّهر والحُمَّى» .

رواه مسلم

محبت، رحم اور شفقت کے معاملے میں مومنوں کی مثال  ایک جسم کی مانند ہے، اگر جسم کا ایک حصہ بھی تکلیف میں ہو تو پورا جسم رات کو جاگ کر  بخار میں گزارتا ہے۔(یعنی ایک مسلمان کی تکلیف کی فکر  تمام مسلمانوں کو ہونی چاہئے )۔

ضمیر کی اصلاح

درحقیقت بات یہ ہے کہ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے ضمیر کے سامنے اپنے نفس کو پیش کردے تو اسے معلوم ہوجائے کہ غافل ضمیر کے درخت سے کوئی پھل نہیں نکلتا ، اور جو شخص ضمیر کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے عمل کرتا ہے چاہے وہ کام اچھائی کا ہو یا برائی کا تو اس کا ضمیر کشادہ راہوں کو بھی تنگ کردیتا ہے، اور اس کی آنکھیں حقیقت کو  دیکھنے سے  انکار کردیتی ہیں، اور عنقریب ہر  محاسبہ کرنے والا یہ جان لے گا کہ ضیر کے محاسبہ  اور اس کی اصلاح پر خاموشی اس کے اسباب سے زیادہ خطرناک ہے۔اسی لئے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ ضمیر  کو بولنے والا بنائے؛ کیونکہ خاموش ضمیر تو گونگا شیطان ہے، جس طرح برائی کے بارے میں بولنے والا ضمیر شیطان ناطق (بولنے والا) کی شکل ہے۔

اور اسلامی شریعت ضمیر کی موت اور کمزوری کے دروازے بند کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے، مسلم معاشرے کو اس کے ادراک کی ترغیب دلاتی ہے؛ تاکہ وہ مردہ یا غائب ضمیر کے ہاتھوں قربان نہ ہوجائیں، حالانکہ اس مسلم معاشرے کی قوت و اصلاح اور تکمیل  اسی زندہ و محافظ ضمیر کے ذریعہ ہی ممکن ہے ، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔

اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:

«لا تحاسَدوا، ولا تناجَشُوا، ولا تباغَضُوا، ولا تدابَروا، ولا يبِع بعضُكم على بيعِ بعضٍ، وكونوا عباد لله إخوانًا، المُسلمُ أخو المُسلم لا يظلِمُه، ولا يخذُلُه، ولا يكذِبُه، ولا يحقِرُه، التقوى ها هُنا» – ويُشيرُ إلى صدره ثلاث مراتٍ -،

حسد نہ کریں،اور عیب جوئی نہ کریں، اور بغض نہ رکھیں، اور دشمنی نہ کریں، اور ایک شخص دوسرے کی بیع(خرید و فروخت)  پر بیع نہ کرے، اورسب اللہ کے بندے اور  بھائی بھائی بن جائیں، مسلمان مسلمان کا بھائی ہےنہ ہی اس پر ظلم کرے ، اور نہ اسے رسوا کرے، اورنہ ہی اسے جھٹلائے، اور نہ ہی اسے حقیر سمجھے، ـاور اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ‘تقوی یہاں ہے’۔

اللہ کے بندو! یہی تو زندہ ضمیر ہے:

«التقوى ها هُنا» ۔

تقوی یہاں ہے۔

پھر فرمایا:

«بحسبِ امرئٍ من الشرِّ أن يحقِرَ أخاه المُسلمَ، كلُّ المُسلم على المُسلم حرامٌ، دمُه ومالُه وعِرضُه».

تقوی یہاں ہے ، پھر فرماتے: انسان کے برا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو کمزور سمجھے، ہر مسلمان کا خون،مال اور عزت (بے عزتی)  دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔

اللہ مجھے اور آپ کو قرآن و سنت کی برکتیں عطا فرمائے، اور آیاتِ قرآنی ، نصیحت اور حکمت سے فائدہ پہنچائے۔ میں نے جو کہنا تھےوہ کہہ دیا، اگر وہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر اس میں کوئی غلطی ہے تو وہ میرے اور شیطان کی طرف سے ہے، اور میں اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں بیشک وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

ہر قسم کی تعریف ایک اللہ کے لئے خاص ہے، اور درود و سلام ہوں ان  پر جن کے بعد کوئی نبی نہیں۔

حمد ثنا اور درود و سلام کے بعد!

سچے انسان کو کبھی شک نہیں ہوگاکہ پوری امت جو لڑائیوں، مصیبتوں، زیادتیوں اور جنگوں کی آگ میں جل رہی ہے یہاں تک کہ ہریالی اور خشکی سب تباہ ہوچکے ہیں، اسے ایسے سچے ضمیر کی  ضرورت ہے جو خیانت اور حسد سے پاک ہو، انتہائی مہربان اور نصیحت والا ضمیر ہو جو کہ ملت کے افراد ،  معاشرے   اور امت کی مصلحت کو معمولی و ذاتی مصلحت پر ترجیح دے؛ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب ضمیر مردہ ہوجائےتو مفاد پرستی اور انانیت جیسی بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔

اور افراد و معاشرے کایہ وتیرہ بن جاتا ہے: اپنا فائدہ دیکھو، تم ہرگز دوسروں کے لئے کچھ نہ کرنا، تمہیں  (دوسرے کے فائدے کے کام کرنے کی ) کیا ضرورت ہے؟ آپ اولادِ آدم کے نہ ہی ذمہ دار ہیں اور نہ ہی وکیل اور نہ ہی محافظ۔

مردہ ضمیر کی پہچان ’’کیسے؟‘‘

۱ـ جب ضمیر مردہ ہوجاتا ہے تو یہ بات کہی جاتی ہے:

جو اللہ کا حق ہے اسے اللہ پر چھوڑ دو اور جو قیصر کا ہے اسے قیصر پر چھوڑ دو۔اور جب ضمیر مردہ ہوجاتا ہے توخائن کو امین سمجھا جاتا ہے اور امانت دار کو خیانت کرنے والا سمجھا جاتا ہے، جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جاتا ہے۔

۲ـ جب ضمیر مردہ ہوجاتا ہے تو بکری کا بچہ شیر ہوجاتا ہے،  اور اونٹ اونٹنی کی طرح مسکین ہوجاتا ہے، گِدھ نما چھوٹا چتکبرا پرندہ گندگی نکال دیتا  ہے، اور سمندر کنویں سے پانی لیتا ہے، اور کم عقل لوگ بولنے لگتے ہیں،اور لوگ جاہلوں کو اپنا سربراہ بنالیتے ہیں، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

۳ـ جب ضمیر مردہ ہوجائے تو تنقید نصیحت لگتی ہے اور غیبت آزادی، اور چغلی تنبیہ لگتی ہے۔

۴ـ اور جب ضمیر مردہ ہوجاتا ہے توظالم کے لئے یہ بات آسان ہوجاتی ہے کہ وہ پوری عوام کو مکمل بور پر تباہ کردے اور اسے یہ پرواہ بھی نہ ہو کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہلاک ہوئے، وہ  قتل کرتا ہے اور گناہ کرتا ہے، کسی کو قیدی  بناتا ہے اور  کسی کو ملک سے نکال دیتا ہے، لوگ چیختے، پکارتے اور مدد مانگتے رہ جاتے ہیں لیکن جسے پکار رہے ہیں وہ مردہ ہوچکا ہے۔

۵ـ ضمیر کے مردہ ہونے کی وجہ سے ظلم بلند ہو جاتا ہے، عدل ختم ہوجاتا ہے، بخیلی بڑھ جاتی ہے، نصیحت کرنے والے کم ہوجاتے ہیں، آفات اور سزائیں برستی ہیں ، عمارت کی اینٹیں ایک ایک کرکے تباہ ہوجاتی ہیں، اور ترمیم کی کوئی امید نہیں ہوتی۔

ضمیر مردہ ہونے  کا نتیجہ

جب ضمیر مردہ ہوجائے تو احساس بھی مٹ جاتا ہے، اور جب احساس ختم ہوجائے تواونچائی اور نیچائی سب برابر ہوجاتے ہیں اوران لوگوں کے لئے  زیرِ زمین والی جگہ اوپر کی دنیا سے بہتر ہوجاتی ہے (یعنی انہیں  دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں)۔

فعن أبي هريرة – رضي الله عنه – أن رسولَ الله – صلى الله عليه وسلم – قال: «لا تقومُ الساعةُ حتى يمُرَّ الرجلُ على القبر فيتمرَّغُ عليه ويقول: يا ليتَني كنتُ مكان صاحِب هذا القبر، وليس به الدِّين، إلا البلاء» .

رواه البخاری و مسلم

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک انسان قبر سے نہ گزرے اور  اس پر لوٹ لگاتے ہوئے یہ کہے کہ کاش میں اس کی جگہ قبر میں ہوتا، اور اس کا کوئی دین نہیں ہوگا بلکہ محض آزمائش کی وجہ سے ایسا کہے گا۔

ولا خيرَ في نَيْل الحياة وعيشِها                 إذا ضاعَ مِفتاحُ الضمائرِ وانمَحَى

ألستَ ترَى أن الحُبوبَ ثَخينةً                   تحُولُ دقيقًا كلما تطحنُ الرَّحَى

زندگی کو حاصل کرنے اور گزارنے میں  میں کوئی بھلائی نہیں اگر ضمیر کی چابی گم اور ختم ہوجائے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ دانے  کتنے سخت ہوتے ہیں، انہیں چکی پیس کر آٹا بنادیتی ہے۔

اللہ آپ سب پر رحم کرے!

سب سے افضل مخلوق اور سب سےپاکیزہ انسان : محمد بن عبداللہ  پر درود بھیجیں،جوکہ حوض اور شفاعت والے ہیں؛ اللہ نے آپ سب کو اس کا حکم دیا ہے اور خود اس کی  شروہات کی ہیں، اور اپنے  تقدس کی تسبیح بیان کرنے والے فرشتوں کا بھی ذکر کیا، اوراے مومنو!  پھر  تمہیں بھی حکم دیا اور فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الأحزاب – 56

اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو ۔

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«من صلَّى عليَّ صلاةً صلَّى الله عليه بها عشرًا».

جو مجھ پر ایک درود بھیجے  تو اس کے بدلے اللہ اس پر   دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

پیارے نبیﷺ پر درود و سلام اور دعائیں:

یا اللہ!  اے تمام جہانوں کے رب! اپنے نبی اور رسول محمدﷺ پر رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما، اور انکی پاکیزہ آل پربھی، اور تمام صحابہ کرام سے بھی راضی ہوجا، اور ان لوگوں سے بھی جو قیامت تک ان کی پیروی کریں گے، اور ان کے ساتھ ساتھ  رحم و کرم اورمہربانی فرما کر ہم سے بھی راضی ہوجا۔

اسلام اور مسلمانوں کے لئے دعائیں:

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکوں کو رسوا کردے۔

یا اللہ! اپنے دین، کتاب، نبی ﷺ کی سنت اور مومن بندوں کی مدد فرما۔

یا اللہ!   اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! غم زدہ مسلمانوں کے غموں کو دور فرمادے، اور مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبتوں کو ختم کردے، اور قرض داروں کو قرضے سے نجات دلادے، ہمارے ساتھ ساتھ تمام مسلمان بیماروں کو اپنی رحمت سے شفا عطا فرما۔

یا اللہ!   اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اپنی رحمت سے ہمارے نفس کو تقوی عطا فرما،  اور اس کا تزکیہ فرما بیشک تو ہی سب سے بہتر تزکیہ  (پاکیزہ) کرنے والا ہے، تو ہی اس کا ولی اور مولی ہے۔

یا اللہ!  اے تمام جہانوں کے رب! ہمارے وطنوں  میں  امن پیدا فرما، اور ہمارے امیر کی اصلاح فرما، اور ہمارا امیر اس شخص کو بنانا جسے تیرا خوف اور تقوی ہو اور تیری رضا کے لئے کام کرے۔

یا اللہ!    اے ہمیشہ زندہ  رہنے والے!   اے عزت و جلال والے! ہمارے امیر کو ہر اس قول و عمل کی توفیق دے جس سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے۔ یا اللہ! اس کے مشیروں کی اصلاح فرما۔

یا اللہ! تمام وطنوں میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما جنہیں ان کے دین میں کمزور سمجھا جاتا ہے۔

یا اللہ! اپنے اور ان کے دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد فرما۔

یا اللہ!    اے عزت و جلال والے! جلد ہی ان کی مدد فرما، یا اللہ!    اے عزت و جلال والے!   اے تمام جہانوں کے رب! فلسطین، سوریا (شام) برما اور تمام ممالک میں ان مسلمانوں کی مدد فرما۔

یا اللہ!    اے ہمیشہ زندہ  رہنے والے!   اے عزت و جلال والے! جلد ہی ان کی  مدد فرما اور مصیبتیں دور فرما، اور آخری انجام ان کے حق میں بہتر فرما۔

یا اللہ! تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی (بے محتاج) ہے اور ہم محتاج ہیں، ہم پر بارش برسا اور ہمیں مایوس نہ کرنا۔

یا اللہ! ہم پر بارش برسا اور ہمیں مایوس نہ کرنا۔ یا اللہ! ہم پر بارش برسا اور ہمیں مایوس نہ کرنا۔

یا اللہ!    اے عزت و جلال والے! ہماری برائیوں کی وجہ سے اپنی بھلائی سے ہمیں نہ کرنا۔

یا اللہ!    اے ہمیشہ زندہ  رہنے والے!   !   اے تمام جہانوں کے رب! ہمارے گناہوں کی وجہ سے اپنا فضل ہم سے نہ روک دینا۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

البقرة – 201

اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے  اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے۔

ہمارا رب ان لوگوں کی ذکر کی ہوئی  برائیوں سے  نہایت پاکیزہ ہے وہ  عزت کا رب ہے، اور رسولوں پر سلامتی ہو، اور ہماری آخری بات یہ ہے کہ ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے۔

***

ترجمہ: شعیب مدنی

مراجعہ: حافظ حماد چاؤلہ

مصنف/ مقرر کے بارے میں

  فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم حفظہ اللہ

کعبہ کے ائمہ میں سے ایک نام ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم حفظہ اللہ کا ہے ، جن کی آواز کی گونج دنیا کے ہر کونے میں سنائی دیتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے بڑی صلاحیتوں سے نوازا ، جن میں سر فہرست خوبصورت آواز ہے۔ آپ 19 جنوری 1964 ء کو پیدا ہوئے ، ام القریٰ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اور اب وہیں شریعہ فیکلٹی کے ڈین اور استاد کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔